• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا سیدنا امیر معاویہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا امیر معاویہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا؟

تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری​

نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گوشئہ بتول ، نوجوانان جنت کے سردار اور گلستان ِ رسالت کے پھول ، سیدنا و امامنا و محبوبنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا گیا تھا ، جیسا کہ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں :
«دخلت أنا ورجل على الحسن بن على نعوده ، فجعل يقول لذلك الرجل : سلنى قبل أن لا تسألنى ، قال : ما أريد أن أسألك شيئاً ، يعافيك الله ، قال : فقام فدخل الكنيف ثم خرج إلينا ، ثم قال : ما خرجت إليكم حتى لفظت طائفة من كبدی أقلبها بهذا العود ، ولقد سقيت السم مرارا ، ما شیء أشد من هذه المرة ، قال : فغدونا عليه من الغد ، فإذا هو في السوق ، قال : وجاء الحسين فجلس عند رأسه ، فقال : يا أخي ، من صاحبك ؟ قال : تريد قتله ؟ ، قال : نعم ، قال : لئن كان الذی أظن ، لله أشد نقمة ، وإن كان بريئاً فما أحب أن يقتل بریء»
’’میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پر عیادت کے لیے داخل ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کر سکنے سے پہلے سوال کر لیں۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دے۔ آپ رضی اللہ عنہما کھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، پھر فرمایا: میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ) پھینک دیا ہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کر رہا تھا۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہما حالت ِ نزع میں تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اور کہا : اے بھائی! آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے۔ اور اگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ : ۹۴،۹۳/۱۵، کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا : ۱۳۲، المستدرک للحاکم : ۱۷۶/۳، الاستیعاب لابن عبد البر : ۱۱۵/۳، تاریخ ابن عساکر : ۲۸۲/۱۳، وسندہ حسن)
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا قاتل کون؟ روایات کا جائزہ
شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہمانے زہر دیا۔ یہ بے حقیقت اوربے ثبوت بات ہے ۔ شیعہ کے دلائل کا علمی وتحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے:
دلیل نمبر ۱
«قال ابن عبد البرّ : ذکر أبو زید عمر بن شبہ وأبو بکر بن أبی خیثمة قالا : حدّثنا موسی بن إسماعیل قال : حدّثنا أبو بلال عن قتادة قال : دخل الحسین علی الحسن ، فقال : یا أخی ! إنّی سقیت السمّ ثلاث مرّات ، لم أسق مثل ھذہ المرّة ، إنّی لأضع کبدی ، فقال الحسین : من سقاک یا أخی ؟ قال : ما سؤالک عن ھذا ، أترید أن تقاتلہم ؟ أکلھم إلی الله، فلمّا مات ورد البرید بموتہ علی معاویة ، فقال : یا عجبا من الحسن شرب شربۃ من عسل بماء رومة فقضی نحبہ.»
’’سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : اے بھائی ! میں نے کئی بار تین بار زہر پیا ہے، لیکن اس مرتبہ کی طرح کبھی نہیں پلایا گیا۔ میرا جگر نکلتا جا رہا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : بھائی ! آپ کو کس نے زہر پلایا ہے؟ فرمایا : اس بارے میں آپ کے سوال کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ ان سے لڑائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ میں ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آپ کی موت کا پیغام پہنچا تو آپ کہنے لگے : افسوس ہے کہ حسن نے رومہ کے پانی کے ساتھ شہد کا ایک جام پیا اور فوت ہو گئے۔‘‘ (الاستیعاب لابن عبد البر : ۱۱۵/۱)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اس کا راوی محمد بن سلیم ابوہلال الراسبی (م۱۶۷ھ) جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔
جارحین
(1) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قد احتمل حديثه إلّا أنّه يخالف في حديثه قتادة، وهو مضطرب الحديث عن قتادة.
’’اس کی حدیث بیان کی گئی ہے، لیکن یہ قتادہ سے بیان کرنے میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔ قتادہ سے اس کی حدیثیں مضطرب ہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۳/۷)
(2) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ابوہلال راسبی کی قتادہ سے روایات کیسی ہیں؟ فرمایا : اس میں ضعف ہے، یہ راوی کچھ اچھا ہے۔‘‘ (الجرح والتعدیل : ۲۷۴/۷، وسندہٗ صحیحٌ)
(3) امام ابنِ عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذه الأحاديث لأبی هلال عن قتادة عن أنس كلّ ذلك، أو عامّتها غير محفوظة.
’’یہ ابوہلال کی قتادہ عن انس احادیث ہیں۔ یہ سب کی سب یا اکثر غیر محفوظ ہیں۔‘‘ (الکامل لابن عدی : ۲۱۴/۶، وفی نسخۃ : ۲۲۲۰/۶)
ان تینوں ائمہ کرام کی جرح مفسر ہے۔ یہ روایت بھی ابوہلال کی قتادہ سے ہے، لہٰذا ’’ضعیف‘‘ ہے۔
(4) امام ابنِ سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه ضعف.
’’اس میں کمزوری ہے۔‘‘ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ۲۷۵/۷)
(5) امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بقوی. :
’’یہ قوی راوی نہیں ہے۔‘‘ (الضعفاء للنسائی : ۲۰۲)
(6) امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیّن.
’’کمزور راوی ہے۔‘‘ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۴/۷)
(7) امام یزید بن زریع کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں۔ (الجرح والتعدیل : ۷/۲۷۳، وسندہٗ صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں :
عدلت عن أبی هلال عمدا.
’’میں جان بوجھ کر ابوہلال سے دور ہٹا ہوں۔‘‘ (الجرح والتعدیل : ۲۷۳/۷، وسندہٗ صحیحٌ)
(8) امام یحییٰ بن سعید القطان اس سے روایت نہیں لیتے تھے۔ (الجرح والتعدیل : ۲۷۳/۷، وسندہٗ صحیحٌ)
(9) امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان أبو هلال شيخا صدوقا، إلّا أنّه كان يخطیء كثيرا من غير تعمّد، حتّی صار يرفع المراسيل، ولا يعلم، وأكثر ما كان يحدّث من حفظه، فوقع المناكير في حديثه من سوء حفظه.
’’ابوہلال سچا شیخ تھا، لیکن بغیر قصد کے بہت زیادہ غلطیاں اس سے سرزد ہوتی تھیں، یہاں تک کہ وہ انجانے میں مرسل روایات کو مرفوع بیان کرنے لگا۔ وہ اکثر اپنے حافظے سے بیان کرتا تھا، لہٰذا اس کے حافظے کی خرابی کی وجہ سے منکر روایات اس کی حدیث میں داخل ہو گئیں۔‘‘ (المجروحین لابن حبان : ۲۹۵/۲۔۲۹۶)
(10) امام البزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واحتملوا حديثه، وإن كان غير حافظ.
’’محدثین نے اس کی حدیثیں لی ہیں، اگرچہ یہ حافظے والا نہیں تھا۔‘‘ (مسند البزار : ۱۷۹۶)
(11) امام ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
محلّه الصدق، لم يكن بذاك المتين.
’’اس کا مقام سچ والا ہے۔ زیادہ مضبوط راوی نہ تھا۔‘‘ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۴/۷)
(12) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب الضعفاء (۴۸۲۔۴۸۳، ۳۲۴ ) میں ذکر کیا ہے۔
(13) امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب الضعفاء الکبیر (۷۴/۴) میں ذکر کیا ہے۔
معدلین
(1) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے۔ (سوالات الحاکم : ۴۶۸)
یہ قول امام دارقطنی کے اپنے ہی قول کے معارض ہے، لہٰذا ساقط ہے۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ’’ ضعیف ‘‘راوی ہے۔ (العلل : ۴۰/۴ بحوالۃ موسوعۃ اقوال الدارقطنی)
(2) امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
سلام بن مسكين أحبّ إليك أم أبو هلال ؟ قال : أبو هلال أشبه بالمحدثين.
’’سلام بن مسکین آپ کو زیادہ اچھے لگتے ہیں یا ابوہلال ؟ فرمایا : ابوہلال محدثین کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۴/۷)
یہ جمہور کی جرح کے معارض ومخالف قول ناقابل قبول ہے۔
(3) امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان سليمان بن حرب جيّد الرأی فی أبی هلال الراسبيّ
’’سلیمان بن حرب، ابوہلال الراسبی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔‘‘ (الجرح والتعدیل : ۲۷۴/۷، وسندہٗ صحیحٌ)
(4) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بصاحب كتاب، ليس به بأس.
’’یہ صاحب کتاب نہ تھا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل : ۲۷۴/۷، وسندہٗ صحیحٌ)
یہ قول خود امام صاحب کے اپنے قول کے معارض ومخالف ہے، لہٰذا یہ ناقابل التفات ہے۔
امام صاحب خود فرماتے ہیں :
لم يكن له كتاب، وهو ضعيف الحديث.
’’اس کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔ اس کی حدیث ضعیف ہے۔‘‘ (تاریخ ابن ابی خیثمۃ : ۲۲۰۵)
(5) امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے۔ (تہذیب الکمال : ۱۶/۳۱۹)
یہ قول مردود ہے، کیونکہ اس کے راوی ابوعبید الآجری کے حالات نہیں مل سکے۔
(6) امام عبدالرحمن بن مہدی اس سے روایت لیتے تھے اور وہ غالبا ثقہ سے روایات بیان کرتے تھے۔
(7،8،9) امام ابن خزیمہ (۲۰۴۴) ، امام ابوعوانہ (۴۰۱۳) ، امام حاکم (۳۳۳/۴) نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔
ثابت ہوا کہ ابوہلال الراسبی البصری جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔
خصوصاً جب یہ قتادہ سے بیان کرے تو ’’ضعیف‘‘ ہوتا ہے، لہٰذا حافظ علائی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ جمہور نے اس کی توثیق کی ہے (فیض القدیر للمناوی: ۳۸۱/۶) صحیح نہیں۔
باقی متاخرین، مثلاً حافظ ذہبی رحمہ اللہ (العبر : ۷۷/۱)، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التلخیص : ۸۵/۳) ، حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد : ۱۹۷/۵)، بوصیری (مصباح الزجاجہ : ۱۵۱۸) ، علامہ قرطبی(التذکرۃ : ۳۸۳) وغیرہ کا اسے ثقہ قرار دینا متقدمین کے مقابلے میں قابل قبول نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کی سند میں قتادہ بن دعامہ مدلس ہیں، لہٰذا روایت ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب ثقہ مدلس بخاری ومسلم کے علاوہ بصیغۂ عن یا قال روایت بیان کرے تو وہ ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قتادة إذا لم يقل : سمعت وخولف في نقله، ولا تقوم به حجّة.
’’قتادہ جب سماع کی تصریح نہ کریں اور اپنی روایت میں ثقہ راویوں کی طرف سے مخالف کیے جائیں تو ان سے حجت نہیں لی جا سکتی۔‘‘ (التمہید لابن عبد البر : ۳۰۷/۳)
تیسری بات یہ ہے کہ قتادہ بن دعامہ کا حسنین کریمین سے سماع ثابت نہیں، لہٰذا یہ قول منقطع ہے اور منقطع روایت حجت نہیں ہوتی۔
دلیل نمبر ۲
«وقال الهيثم بن عدی : دسّ معاوية إلی ابنة سهيل بن عمرة امرأة الحسن مأة ألف دينار علی أن تسقيه شربة بعث بها إليها ففعلت.»
’’ہیثم بن عدی نے کہا ہے کہ معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی سہیل بنت عمرہ کو ایک ہزار دینا کے عوض سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلانے پر اکسایا۔ اس نے زہر اس کے پاس بھیجی تو اس نے ایسا کر دیا۔‘‘ (انساب الاشراف لاحمد بن یحیی البلاذری : ۵۹/۳)
تبصرہ :
یہ روایت ’’موضوع‘‘ (جھوٹ کا پلندا) ہے۔
اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک الحدیث‘‘ ہے۔ اس لیے شیعہ شنیعہ اس کی روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
دلیل نمبر ۳
« قال الإمام ابن سعد : أنا محمّد بن عمر : نا عبدالله بن جعفر عن عبد الله بن حسن قال : كان الحسن بن علی رجلا كثير نكاح النساء ، وكنّ أقلّ ما يحظين عنده ، وكان قلّ امرأة يتزوّجها إلّا أحبّته وضنت به ، فيقال : إنّه كان سقی ، ثم أفلت ، ثم سقی فافلت ، ثمّ كانت الآخرة توفّی فيها ، فلمّا حضرته الوفاة ، قال الطبيب ، وهو يختلف إليه : هذا رجل قد قطع السم أمعاءه ، فقال الحسين : يا أبا محمّد ! خبّرنی من سقاك السمّ ، قال : ولم يا أخی ؟ قال : أقتله ، واللہ قبل أن أدفنك ، أو لا أقدر عليه ، أو يكون بأرض أتكلّف الشخوص إليه ، فقال : يا أخی ! إنّما هذه الدنيا ليال فانية دعه ، حتّی ألتقی أنا وهو عند اللہ ، فأبی أن يسمّيه ، وقد سمعت بعض من يقول : كان معاوية قد تلطّف لبعض خدمه أن يسقيه سمّا.»
’’عبداللہ بن حسن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ عورتوں سے بہت زیادہ نکاح کرتے تھے۔ عورتیں ان کے پاس بہت کم عرصہ گزار پاتیں۔ تقریباً سب عورتیں، جن سے آپ شادی کرتے، وہ آپ سے محبت کرتیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو زہر پلایا گیا، لیکن وہ جانبر ہو گئے۔ پھر زہر پلایا گیا، لیکن وہ پھر جانبر ہو گئے۔ جب آخری دفعہ تھی تو وہ اس میں فوت ہو گئے۔ جب ان کی وفات کا وقت حاضر ہوا تو طبیب نے ان کی طرف آتے ہوئے کہا: یہ ایسا آدمی ہے، جس کی انتڑیاں زہر نے کاٹ دی ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ابومحمد ! مجھے بتائیے کہ آپ کو زہر کس نے پلائی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیوں اے بھائی؟ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم میں اسے آپ کو دفن کرنے سے پہلے قتل کر دوں گا یا اس پر قادر نہ ہو سکوں گا یا وہ ایسی زمین میں ہو گا، جہاں میرا داخل ہونا مشکل ہو گا۔ اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میرے بھائی ! یہ دنیا چند فانی راتوں پر مبنی ہے۔ اس شخص کو چھوڑ، میں اسے اللہ کے ہاں مل لوں گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کے کسی خادم کو زہر پلانے پر ورغلایا تھا۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۲/۱۳،۲۸۳)
تبصرہ : یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے۔
اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی ’’کذاب‘‘ ہے۔
اس میں ایک اور علت بھی ہے۔
دلیل نمبر ۴
ابوبکر بن حفص بیان کرتے ہیں :
«توفّی الحسن بن علی وسعد بن أبی وقّاص فی أيّام بعد ما مضی من إمارة معاوية عشر سنين ، وكانو يرون أنّه سقاهما سمّا.»
’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کے دس سال گزرنے کے بعد فوت ہوئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو زہر پلایا تھا۔‘‘ (مقال الطالبین لابی الفرج علی بن الحسین الاصبہانی : ص ۲۰)
تبصرہ : یہ روایت شیطان لعین نے گھڑی ہے، جو رافضیوں کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ انہوں نے اس کو اپنے مذہب وعقیدہ پر دلیل بنا لیا ہے۔
(1) صاحب ِ کتاب اموی شیعہ ہے۔ اس کے بارے میں توثیق ثابت نہیں۔
اس کے شاگرد محمد بن ابی الفوارس کہتے ہیں :
وكان قبل أن يموت اختلط.
’’یہ اپنی موت سے پہلے بدحواس ہو گیا تھا۔‘‘ (تاریخ بغداد للخطیب : ۳۹۸/۱۱)
(2) اس کے راوی احمد بن عبیداللہ بن عمار کے بارے میں امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
وكان يتشيّع.
’’یہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔‘‘ (تاریخ بغداد : ۲۵۲/۴)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من رؤوس الشيعة.
’’یہ شیعہ کے سرداروں میں سے تھا۔‘‘ (میزان الاعتدال للذہبی : ۱۱۸/۱)
اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں۔
(3) اس کا مرکزی راوی عیسیٰ بن مہران ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رافضيّ، كذّاب.
’’یہ رافضی اور بہت بڑا جھوٹا تھا۔‘‘ (میزان الاعتدال للذہبی : ۳۲۴/۳)
امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں کہ یہ کذاب آدمی تھا۔ (الجرح والتعدیل : ۲۹۰/۶)
امام ابنِ عدی فرماتے ہیں :
حدّث بأحاديث موضوعة مناكير، محترق في الرفض.
’’اس نے بہت سی من گھڑت اور منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ کٹر قسم کا رافضی تھا۔‘‘ (الکامل لابن عدی : ۲۶۰/۵)
نیز فرماتے ہیں :
والضعف بيّن علی حديثه
’’اس کی حدیث پر ضعف واضح ہے۔‘‘ (الکامل لابن عدی : ۲۶۱/۵)
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رجل سوء، ومذهب سوء.
’’آدمی بھی بُرا تھا اور اس کا مذہب بھی بُراتھا۔‘‘ (الضعفاء والمتروکون للدارقطنی : ۴۱۸)
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان عيسیٰ بن مهران من شياطين الرافضة ومردتهم، ووقع إليّ كتاب من تصنيفه في الطعن علی الصحابة وتضليلهم وإكفارهم وتفسيقهم، فوالله لقد قف شعري عند نظري فيه، وعظم تعجّبي ممّا أودع ذلك الكتاب من الأحاديث الموضوعة…
’’عیسیٰ بن مہران شیاطین اور لعین قسم کے رافضیوں میں سے تھا۔ مجھے اس کی تصنیفات میں سے ایک کتاب ملی، جو کہ صحابہ کرام پر طعن، ان کو گمراہ قرار دینے، ان کو فاسق کہنے اور ان کی تکفیر پر مبنی تھی۔ اللہ کی قسم ! اس کتاب کو دیکھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس کتاب میں اس نے جو من گھڑت احادیث ذکر کی تھیں، ان سے میں بڑا متعجب ہوا۔۔۔‘‘ (تاریخ بغداد للخطیب : ۱۶۷/۱۱)
تنبیہ :
لسان المیزان ( ۴۰۷/۴) میں اس کے حالات لکھتے ہوئے کسی ناسخ نے غلطی سے ”ولحقه ابن جرير“ (ابنِ جریر اس کو ملے تھے) کی بجائے ”وثّقہ ابن جریر“ (ابنِ جریر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے) لکھ دیا ہے۔
اس کذاب کی روایت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پیش کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ لوگ یوم ِ حساب سے غافل ہیں۔ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کے خلاف ان کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تحریروں اور زبان سے نکلی ہوئی باتوں کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہو گی؟
دلیل نمبر ۵
عمیر بن اسحاق بیان کرتے ہیں :
«كنت مع الحسن والحسين في الدار ، فدخل الحسن المخرج ، ثمّ خرج ، فقال : لقد سقيت السمّ…»
’’میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تھا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ دروازے میں داخل ہوئے، پھر باہر آئے اور فرمایا : میں نے زہر پیا ہے۔۔۔‘‘ (مقال الطالبین لابی الفرج الاصبہانی الشیعی الاموی : ص ۲۰)
تبصرہ :
اس من گھڑت روایت کا معنیٰ ومفہوم وہی ہے اور اس میں علتیں بھی بعینہٖ وہی ہیں، جو اس سے پہلے والی روایت میں ہیں۔
دلیل نمبر ۶
ابنِ جعدۃ کہتے ہیں :
«كانت جعدة بنت الأشعب بن قيس تحت الحسن بن علی ، فدسّ إليها يزيد أن سمي حسنا ، إنّی مزوّجك ، ففعلت ، فلمّا مات الحسن بعثت إليه الجعدة ، تسأل يزيد الوفاء بما وعدها ، فقال : إنّا والله لم نرضك للحسن ، فنرضاك لأنفسنا.»
’’جعدہ بنت الاشعت بن قیس سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی۔ یزید نے اسے بہلایا کہ تُو حسن کو زہر دے دے تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔ اس نے ایسا کر دیا۔ جب حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو جعدہ نے یزید سے اپنے وعدے کو وفا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم نے تجھے حسن کے لیے پسند نہیں کیا تھا، اپنے لیے کیسے کریں۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳، المنتظم لابن الجوزی : ۲۲۶/۵)
تبصرہ :
یہ جھوٹا قصہ ہے۔
(1) اس کا گھڑنے والا یزید بن عیاض بن جعدۃ اللیثی ہے۔ امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، امام ابنِ عدی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابوحاتم الرازی، امام ساجی، امام جوزجانی، امام عمرو بن علی الفلاس وغیرہم نے اسے ’’ضعیف، منکرالحدیث ‘‘ اور ’’متروک الحدیث‘‘ کے الفاظ کے ساتھ مجروح کیا ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں ہے۔
(2) اس کے دوسرا راوی محمد بن خلف بن المرزبان الآجری کے بارے میں متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے توثیق کا کوئی کلمہ استعمال نہیں کیا، بلکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو أخباری، ليّن.
’’یہ تاریخ دان تھا اور کمزور راوی تھا۔‘‘ (سوالات السہمی : ۱۰۴)
لہٰذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ (سیر اعلام النبلاء : ۲۶۴/۱۴) کا اسے صدوق قرار دینا صحیح نہیں۔
دلیل نمبر ۷
«عن أمّ موسی أنّ جعدة بنت الأشعث ابن قيس سقت الحسن السمّ ، فاشتكی منه شكاة ، قال : فكان يوضع تحته طست وترفع أخری نحوا من أربعين يوما.»
’’ام موسیٰ بیان کرتی ہیں کہ جعدۃ بنت الاشعث بن قیس نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلایا۔ اس سے آپ بیمار ہو گئے۔ آپ کے نیچے ایک برتن رکھا جاتا اور دوسرا اُٹھایا جاتا۔ تقریباً چالیس دن تک یہ معاملہ رہا۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔
یعقوب نامی راوی کا تعین درکار ہے، نیز ام ِ موسیٰ سے اس کا سماع مطلوب ہے۔
الحاصل :
وہ روایات جن میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یا یزید کے بارے میں ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا تھا، ان کا جھوٹا ہونا واضح ہو گیا ہے۔ ان سندوں کے علاوہ اگر کسی کے پاس کوئی سند ہے تو وہ ہمیں پیش کرے۔ ہم اس کا تجزیہ کریں گے۔
سند دین ہے۔ بے سند اور ’’ضعیف‘‘ روایات پیش کرنا اور ان پر اپنے عقیدہ وعمل کی بنیاد ڈالنا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔ نیز ’’ضعیف‘‘ اور بے سروپا روایات صحابہ کرام کے خلاف پیش کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ بدگمانی کے زمرہ میں آئے گا۔ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ جھوٹی روایات رافضی شیعوں کے عقیدہ کے منافی بھی ہیں، کیونکہ شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے:
إنّ الأئمّة يعلمون متي يموتون، وإنّهم لا يموتون إلّا باختيارهم.
’’ائمہ جانتے ہوتے ہیں کہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار ہی سے مرتے ہیں۔‘‘ (اصول الکافی الکلینی : ۲۵۸/۱، الفصول المہمۃ للجرالعاملی : ص ۱۵۵)
ملا باقر مجلسی صاحب لکھتے ہیں :
لم يكن إمام إلّا مات مقتولا أو مسموما
’’کوئی امام نہیں، مگر وہ قتل یا زہر کے ذریعے مرا ہے۔‘‘ (بحار الانوار للمجلسی : ۳۶۴/۴۳)
جب ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ عالم الغیب ہوتے ہیں تو سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو علم کیوں نہ ہو سکا کہ اس کھانے میں زہر ہے؟
یہ کہنا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا ہے، بہت بڑا جھوٹ اور اتہام ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں جمیع روایات من گھڑت اور خود ساختہ ہیں۔
وااللہ أعلم، وعلمہ أحکم
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینا یزید کے کہنے پر تھا اور اس کا اعتراف اہل حدیث بھی کرتے ہیں چنانچہ عون المعبود میں رقم ۴۱۳۱ کے تحت درج ہے

yazeed ka zhar dena.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
@difa-e-hadis (دفاع حدیث ) کا مطلب ہے کہ ہر بات مسند و موصول ہونی چاہیئے ،
اگر ثابت کرنا ہو کہ :
یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے کہنے پر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا تھا ، تو مختصر اور آسان صورت یہ ہے کہ:
اس بات کو صحیح سند اور اصل مصدر سے نقل کریں ،
ورنہ یہ خالص بہتان ہوگا ۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ
محترم،
میں نے اپنی بات تو کی نہیں فقط اہل حدیث کے عالم کا قول نقل کیا ہے
دوئم میری آئی ڈی پر آپ اعتراض فرما رہے ہیں جس کے مطابق میں اپنی بات کو مسند اور موصول بیان کروں وگرنہ نہیں تو موصوف آپ کا اپنی آئی ڈی کے بابت کیا خیال ہے "سلفی"
تو آں جناب سلف سے یہ ثابت کریں گے کہ وہ یزید کو "رضی اللہ عنہ" کہتے یا لکھتے تھے اگر ایسا ہے تو اپ کا مجھ پر اعتراض بجا ہے وگرنہ
" اے ایمان والوں تم وہ خود کیوں نہیں کرتے جو تم کہتے ہو"
تو میں نے فقط ایک اہل حدیث اہل علم کا قول اس حوالے سے نقل کیا کہ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کی نسبت یزید کی جانب کرتے ہیں اس میں سیخ پا ہونے کی تو ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اس معاملے کو سچا فقط اس لیے ثابت کیا جا تا ہے کیونکہ حضرت حسن ؓ کے سُسر جناب اشعث بن قیس نے جنگِ صفین ختم کرانے میں اہم کردیار ادا کیا تھا اس لیے جن لوگوں نے بنو اُمیہ خصوصاً امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین حضرات معاویہ ؓ و یزید ؓ کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی وہ بھلا اشعث بن قیس کو کیونکر بخشتے ؟ اور یہی سنت سیٔہ انہوں نے انکی بیٹی جعدہ یعنی حضرت حسن ؓ کی بیوی میں بھی جاری و ساری رکھی ۔ حادثۂ کربلا کے موقع پر بھی حضرت حسین ؓ کو یہ بات معلوم نہ ہوسکی کہ زہر دلوانے والا کوئی اور نہیں بلکہ وہی شخص( امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین یزید ؒ بن معاویہ ؓ ) ہے جس کے ہاتھ پر حضرت حسینؓ بیعت کے لیےاب دل و جان سے راضی ہیں۔ ایک اور دردناک حقیقت کہ اس زہر خورانی کے واقعے کے بعد بھی حضرت حسینؓ امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین معاویہ ؓ کے بارگاہ ِ عالیہ میں باقاعدگی سے عطیات کے لیے حاضر ہوتے رہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم،
میں نے اپنی بات تو کی نہیں فقط اہل حدیث کے عالم کا قول نقل کیا ہے
دوئم میری آئی ڈی پر آپ اعتراض فرما رہے ہیں جس کے مطابق میں اپنی بات کو مسند اور موصول بیان کروں وگرنہ نہیں تو موصوف آپ کا اپنی آئی ڈی کے بابت کیا خیال ہے "سلفی"
تو آں جناب سلف سے یہ ثابت کریں گے کہ وہ یزید کو "رضی اللہ عنہ" کہتے یا لکھتے تھے اگر ایسا ہے تو اپ کا مجھ پر اعتراض بجا ہے وگرنہ
" اے ایمان والوں تم وہ خود کیوں نہیں کرتے جو تم کہتے ہو"
تو میں نے فقط ایک اہل حدیث اہل علم کا قول اس حوالے سے نقل کیا کہ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کی نسبت یزید کی جانب کرتے ہیں اس میں سیخ پا ہونے کی تو ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
میں نے اس موضوع سے متعلق آپ کی بعض پوسٹس کو صرف اس لیے ’ منظور ‘ کیا ہے ، کہ شاید کوئی علمی بات ہوگی !
حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینا یزید کے کہنے پر تھا اور اس کا اعتراف اہل حدیث بھی کرتے ہیں چنانچہ عون المعبود میں رقم ۴۱۳۱ کے تحت درج ہے
20056 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
علمی بحث کے جواب میں کٹ حجتی کی کوئی گنجائش نہیں ۔
اگر آپ نے اپنی تحقیق کی بنا پر زہر والا واقعہ صحیح قرار دیا ہے ، تو اس کی تفصیل یہاں پیش کریں ۔
اور اگر صاحب عون المعبود پر اعتماد کیا ہے ، تو اس طرح کے معاملات میں کسی عالم دین کی بے سند بات کی حیثیت نہیں ، اور اس پر آپ کے اعتماد کی بھی کوئی وقعت نہیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
آں جناب سلف سے یہ ثابت کریں گے کہ وہ یزید کو "رضی اللہ عنہ" کہتے یا لکھتے تھے
میرے سلفی ہونے پر بہت سارے لوگوں کو اعتراض ہے ، آپ کو بھی ہوگیا تو اچھنبے کی بات نہیں ،
رہی بات "رضی اللہ عنہ " کہنے ،لکھنے کی ۔۔۔ تو ۔۔ یزید اور ان مکرم و محترم والد کی محبت میں آپ دیکھ ہی نہ سکے کہ میں نے " یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ " لکھا ہے ، رضی اللہ عنہما نہیں لکھا ، اپنے قریب کسی بھی عربی جاننے والے سے اس کا مطلب پوچھ لیں ، اور کچھ روز بادی، اور گرم اثر اشیاء سے پرہیز کریں ،ان شاء اللہ طبیعت میں اعتدال محسوس ہوگا ۔
یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے کہنے پر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا تھا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینا یزید کے کہنے پر تھا اور اس کا اعتراف اہل حدیث بھی کرتے ہیں چنانچہ عون المعبود میں رقم ۴۱۳۱ کے تحت درج ہے

20056 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اول تو یہ کہ سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینے سے متعلق تمام روایات انتہائی موضوع و مردود ہیں اور ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے کے قابل ہیں- (کیوںکہ سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے تو خود خلافت کے معاملے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے صلح کی بیعت کی تھی اور جس کی پیشنگوئی تو خود زبان رسالت سے ثابت ہے) تو آخر سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کو کیا پڑی تھی کہ وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دے کر شہید کردیں ؟؟ اور پھر یہ کہ اگر صحابہ کرام کو یہ بات پتا تھی کہ امیر معاویہ رضی الله عنہ نے ہی حسن رضی الله عنہ کو شہید کیا ہے تو انہوں نے بشمول حضرت حسین رضی الله عنہ کے معاویہ رضی الله عنہ سے قصاص کیوں نہ لیا ؟؟-کیا وہ سب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینے پر راضی تھے؟؟

لیکن آپ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینا یزید کے کہنے پر تھا اور اس کا اعتراف اہل حدیث بھی کرتے ہیں- یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے-

قطع نظر ان روایات کے کہ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہردلوا کر شہید کروا دیا تھا - خود اہل تشیع بھی یہ بات نہیں مانتے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت میں ان کے بیٹے یزید بن معاویہ رحم الله کا ہاتھ تھا -

مشھور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی (بہارالانوار) میں فرماتے ہیں کہ ابو الفداء نے اپنی تاریخ میں کوشش کی ہے کہ معاویہ کا گناہ یزید کی گردن پر ڈال دے:

و توفي الحسن من سم سقته زوجته جعدة بنت الأشعث، قيل فعلت ذلك بأمر معاوية، و قيل بأمر يزيد بن معاوية، و وعدها أنه يتزوجها إِن فعلت ذلك، فسقته السم و طالبت يزيد أن يتزوجها فأبی.

حسن معصوم دنیا سے گئے اور کہا گیا ہے کہ امام کی بیوی نے جعدہ بنت اشعث بن قیس نے امام کو زہر دیا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ جعدہ نے یہ کام معاویہ کے کہنے پر کیا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ اس نے یہ کام یزید کے حکم پر کیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ اگر تم یہ کام کرو گی تو میں تم سے شادی کروں گا۔ جب جعدہ نے امام کو قتل کر دیا تو اس نے یزید سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا لیکن یزید نے اسکی بات نہ مانی اور اس سے شادی نہیں کی -

اب آپ کے بارے میں کیا کہیں کہ آپ تو "شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار " ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اپنے مراسلوں میں -
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
و توفي الحسن من سم سقته زوجته جعدة بنت الأشعث، قيل فعلت ذلك بأمر معاوية، و قيل بأمر يزيد بن معاوية، و وعدها أنه يتزوجها إِن فعلت ذلك، فسقته السم و طالبت يزيد أن يتزوجها فأبی.
محترم،
اس کا مکمل حوالہ نقل کریں گے اور ہوسکے تو اسکین پیج بھی لگا دیں
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
مرزا جہلمی کا سپوت صحیح البخاری سے امیر معاویہؓ پر الزام لگانے کی ناکام کوشش کرتا ہے کہ امیر معاویہؓ نے عمر ابن الخطاب کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ (یقیناً ہم اس معاملہ میں اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ حقدار ہیں) حالانکہ حافظ ابن حجرؒ نے اسکا زبردت رد کیا کہ امیر معاویہؓ نے ہرگز ایسا انکو نہیں بلکہ یہ جو کہا گیا حضرت عثمان بن عفانؓ کے خون کے قصاص کیلئے کہا کیونکہ امیر معاویہؓ حضرت عثمان بن عفانؓ کے چچا زاد بھائی ہیں اور قصاص کے حقدار سب سے زیادہ حضرت امیر معاویہؓ ہی تھے اور
امیر معاویہؓ اپنے جملہ میں عام شخص کی بات کرتے ہوئے اس کے باپ کا بھی ذکر کیا ہے اسے عام طور سے حقیقت پر محمول کیا گیا ہے لیکن یہاں سیاق سے یہی ظاہر ہے کہ امیر معاویہؓ نے باپ کے حوالہ میں حقیقت مراد نہیں لی ہے بلکہ بطور مبالغہ یہ بات کہی ہے ۔چناں چہ اہل عرب کبھی کبھی بات میں تاکید پیدا کرنے کے لئے بطور مبالغہ کسی شخص کا تذکرہ اس کے باپ کے ساتھ بھی کردیتے تھے مثلا کہتے : فلاں افضل منک ومن ابیک۔یعنی فلاں تم سے اور تمہارے باپ سے بھی افضل ہے۔اوریہاں باپ سے موازنہ مقصود نہیں ہوتا تھا
يحيى بن سليمان الجعفىؒ (المتوفی238) نے کہا
حدثنا يعلى بن عبيد، عن أبيه، قال: جاء أبو مسلم الخولاني وأناس إلى معاوية، وقالوا: أنت تنازع عليا، أم أنت مثله؟ فقال: لا والله، إني لأعلم أنه أفضل مني، وأحق بالأمر مني، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، والطالب بدمه، فائتوه، فقولوا له، فليدفع إلي قتلة عثمان، وأسلم له. فأتوا عليا، فكلموه، فلم يدفعهم إليه .
ترجمہ:
ابومسلم الخولانی اور کئی حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: آپ علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں یا خود کو ان کی طرح سمجھتے ہیں ؟ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ! اللہ کی قسم ! مجھے پتہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے افضل ہیں ، اور خلافت کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں ، لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ عثمان رضی اللہ عنہ مظلومانہ قتل کئے گئے ، اور میں ان کا چچازاد بھائی ہوں اور ان کے خون کا طالب ہوں ، لہٰذا تم لوگ علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ قاتلین عثمان کو میرے حوالے کردیں میں ان کی خلافت تسلیم کرلیتاہوں ۔ پھر یہ حضرات علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سے بات کی لیکن علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان کو امیر معاویہ کے حوالے نہیں کیا۔[ كتاب صفين للجعفی بحوالہ سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 140 واسنادہ صحیح]
 
Top