- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
شق صدر اور اہل الحاد و استشراق
(1) اہل الحاد و استشراق کا مقصد حیات ہی نوع انسانی کو ان کے حقیقی مقصد حیات سے دور کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر ہر حربہ اختیار کرتے ہیں۔ مذموم عزائم کی تکمیل و پذیرائی کے لیے ان کے ہاں کسی طرح کی قانونی و اخلاقی پابندی ضروری نہیں ۔
(2) ملحدین اور مستشرقین اپنے بھیانک منصوبوں کو کامیاب کرنے کے لیے اقتصادی، سیاسی، قانونی اور تعلیمی و نظریاتی تمام حربے بروے کار لاتے ہیں۔ مخالفین پر الزام تراشی، شکوک و شبہات اور پروپیگنڈہ ان کے ماثر ترین ہتھیار ہیں۔
(3) یہ تمام حربے جاہلیت قدیم کے حاملین مشرکین مکہ نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ اور اہل اسلام کے خلاف اپنائے، لیکن وہ اخلاق باختہ اپنی تمام چالوں میں ناکام رہے۔
(4) جاہلیت جدید کے حاملین ملحدین اور مستشرقین بھی اپنے نظریاتی آباء و اجداد کی روش پر گامزن ہیں۔ انھوں نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت و تعلیمات اور آپ کی ذات گرامی کو ہدف تنقید و تنقیص بنایا۔
(5) سیرت طیبہ، اسلامی تعلیمات اور نبوی خصائص و معجزات کا کوئی گوشہ اور پہلو ایسا نہیں جو مذہب بیزار جدید سائنس و فلسفہ کی نشتر زنی سے محفوظ ہو۔
(6) اہل استشراق و الحاد نے واقعہ شق صدر کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔ برمنگھم اور نکلسن نامی مستشرق واقعہ شق صدر کو افسانہ اور آیت انشراح سے کشید کردہ قرار دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ نکلسن اس واقعہ کو مرگی ہی کی ایک قسم ہونے کا الزام لگاتا ہے۔
(7) بعض ملحدین اسے من گھڑت کہانی قرار دیتے ہیں۔ مستشرق ولیم میور بھی مرگی کی الزام تراشی کرنے والوں میں شامل ہے۔ ولیم اسلام کے خلاف زہر افشانی میں معروف ہے ،
(8) مرگی کے بے بنیاد دعوے کے لیے انھوں نے واقعہ میں موجود لفظ 'أُصِیبَ' کا سہارا لیا ہے، لیکن اس لفظ کا معنی مرگی کشید کرنا میزان تحقیق و لغت کے اعتبار سے کسی طرح بھی درست نہیں۔ 'أُصِیبَ' کا مطلب تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہونا ہے، ناکہ مرض مرگی لاحق ہونا۔
(9) جنون و دیوانگی کی بے بنیاد الزام تراشی مشرکین بھی کیا کرتے تھے، جس کی تردید پروردگار نے خود قرآن کریم میں فرمائی ہے۔کفار مکہ کی طرح عصر حاضر کے اعدائے دین اور منکرین حق کے اعتراضات بھی بے بنیاد اور لایعنی ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
(10) دشمنان دین اور اعدائے رسول کریم ﷺ کی عداوت و دشمنی کی اصل وجہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ سے بغض و حسد ہے ، ان کے اکثر حقیقت و صداقت کو جاننے کے باوجود کذب بیانی اور الزام تراشی کی روش اختیار کرتے ہیں: (کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا) ''بڑی (ہی خطرناک) بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ تو سراسر جھوٹ ہی بکتے ہیں۔'' (الکہف 5:18)
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
احباب گرامی ! رسول مقبول کی سیرت طیبہ سے عصر حاضر کی ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے ، اسی حوالے سے سیرت النبی ﷺ کا یہ مقدس سلسلہ شروع کیا گیا ہے،اسے خود بھی پڑھیں، اہل خانہ اور طلبہ کو بھی سنائیں اور ثواب کی نیت سے آگے بھی شیئر کریں
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
شق صدر اور اہل الحاد و استشراق
(1) اہل الحاد و استشراق کا مقصد حیات ہی نوع انسانی کو ان کے حقیقی مقصد حیات سے دور کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر ہر حربہ اختیار کرتے ہیں۔ مذموم عزائم کی تکمیل و پذیرائی کے لیے ان کے ہاں کسی طرح کی قانونی و اخلاقی پابندی ضروری نہیں ۔
(2) ملحدین اور مستشرقین اپنے بھیانک منصوبوں کو کامیاب کرنے کے لیے اقتصادی، سیاسی، قانونی اور تعلیمی و نظریاتی تمام حربے بروے کار لاتے ہیں۔ مخالفین پر الزام تراشی، شکوک و شبہات اور پروپیگنڈہ ان کے ماثر ترین ہتھیار ہیں۔
(3) یہ تمام حربے جاہلیت قدیم کے حاملین مشرکین مکہ نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ اور اہل اسلام کے خلاف اپنائے، لیکن وہ اخلاق باختہ اپنی تمام چالوں میں ناکام رہے۔
(4) جاہلیت جدید کے حاملین ملحدین اور مستشرقین بھی اپنے نظریاتی آباء و اجداد کی روش پر گامزن ہیں۔ انھوں نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت و تعلیمات اور آپ کی ذات گرامی کو ہدف تنقید و تنقیص بنایا۔
(5) سیرت طیبہ، اسلامی تعلیمات اور نبوی خصائص و معجزات کا کوئی گوشہ اور پہلو ایسا نہیں جو مذہب بیزار جدید سائنس و فلسفہ کی نشتر زنی سے محفوظ ہو۔
(6) اہل استشراق و الحاد نے واقعہ شق صدر کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔ برمنگھم اور نکلسن نامی مستشرق واقعہ شق صدر کو افسانہ اور آیت انشراح سے کشید کردہ قرار دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ نکلسن اس واقعہ کو مرگی ہی کی ایک قسم ہونے کا الزام لگاتا ہے۔
(7) بعض ملحدین اسے من گھڑت کہانی قرار دیتے ہیں۔ مستشرق ولیم میور بھی مرگی کی الزام تراشی کرنے والوں میں شامل ہے۔ ولیم اسلام کے خلاف زہر افشانی میں معروف ہے ،
(8) مرگی کے بے بنیاد دعوے کے لیے انھوں نے واقعہ میں موجود لفظ 'أُصِیبَ' کا سہارا لیا ہے، لیکن اس لفظ کا معنی مرگی کشید کرنا میزان تحقیق و لغت کے اعتبار سے کسی طرح بھی درست نہیں۔ 'أُصِیبَ' کا مطلب تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہونا ہے، ناکہ مرض مرگی لاحق ہونا۔
(9) جنون و دیوانگی کی بے بنیاد الزام تراشی مشرکین بھی کیا کرتے تھے، جس کی تردید پروردگار نے خود قرآن کریم میں فرمائی ہے۔کفار مکہ کی طرح عصر حاضر کے اعدائے دین اور منکرین حق کے اعتراضات بھی بے بنیاد اور لایعنی ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
(10) دشمنان دین اور اعدائے رسول کریم ﷺ کی عداوت و دشمنی کی اصل وجہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ سے بغض و حسد ہے ، ان کے اکثر حقیقت و صداقت کو جاننے کے باوجود کذب بیانی اور الزام تراشی کی روش اختیار کرتے ہیں: (کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا) ''بڑی (ہی خطرناک) بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ تو سراسر جھوٹ ہی بکتے ہیں۔'' (الکہف 5:18)
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
احباب گرامی ! رسول مقبول کی سیرت طیبہ سے عصر حاضر کی ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے ، اسی حوالے سے سیرت النبی ﷺ کا یہ مقدس سلسلہ شروع کیا گیا ہے،اسے خود بھی پڑھیں، اہل خانہ اور طلبہ کو بھی سنائیں اور ثواب کی نیت سے آگے بھی شیئر کریں