حرب بن شداد بھائی جان:
تعویذ کے متعلق۔۔کچھ معلومات۔۔۔
((قرآنی اور مسنون اذکار و ادعیہ پر مشتمل تعویذات کے بارے میں اہل علم کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں،ایک جواز،دوسرا ممانعت،تیسرا توقف۔1:قائلین جواز میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص،ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا،سیدنا سعید بن المسیب،سیدنا عطا،سیدنا ابو جعفر الباقر اور سیدنا امام مالک رحمہا اللہ شامل ہیں۔اسی طرح علامہ ابن عبدالبر،امام بیہقی اور امام قرطبی رحمہا اللہ اسی مسلک کے قائل ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ،علامہ ابن القیم اور علامہ ابن حجر رحمہا اللہ کا ظاہر قول بھی یہی ہے۔2:مانعین میں سیدنا عبداللہ بن مسعود،ابن عباس،سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہم اور سیدنا ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔سعودی عرب کے اکثر علماءمثلاً:سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب،علامہ عبدالرحمن بن سعدی،شیخ ابن باز اور علامہ البانی رحمہا اللہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔3:تعویذ کے بارے میں توقف کا موقف ماضی کے قریب جلیل القدر عالم دین الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہےان کے بقول قرآنی تعویذ کا ترک اولیٰ ہے،لیکن اسے مطلقاً حرام کہنے میں انھیں تامل ہے۔بنظر غائر دیکھا جائےتو قائلین جواز کا قول ہی راجح معلوم ہوتا ہےکیونکہ مانعین نےجن تین وجوہ کی بنا پر ممانعت کا موقف اپنایا ہے،ان میں سے آخری دو وجہیں(شرکیہ تعویذات کی راہ کھلنے کا خطرہ اور اہانت قرآن کا اندیشہ)اضافی نوعیت کی ہے۔گویا اگر قرآنی تعویذات شرکیہ تعویذوں یا قرآن کی بے آدبی کا ذریعہ نہ بنیں تو اصلاً یہ جائز ہیں۔رہی یہ بات کہ حدیث شریف میں تعویذات کی عمومی ممانعت آئی ہےاور قرآنی تعویذ بھی اس عموم میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہیں تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہےکہ ام المومنین حضرت عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے طرز عمل سے ان کی تخصیص ہوجاتی ہے۔نیز مسئلہ کی نوعیت سے معلوم ہوتا ہےکہ اسمیں اجتہاد کو دخل نہیں،فلہذا ان صحابہ کے آثار حکما مرفوع شمار ہوں گے۔مسئلہ زیر بحث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو:مغنی المرید الجامع لشروح کتاب التوحید،تالیف عبدالمنعم ابراہیم،ج۲/ص۹۱۵تا۹۲۴فاضل مؤلف نے اس مسئلہ پر مفصل کلام کیا ہےاور تمام گروہوں کے دلائل پیش کرکے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآنی اور مسنون دعاؤں پر مشتمل تعویذوں کے جواز ہی کو راجح قرار دیا ہے۔بحث انتہائی مفید اور قابل مطالعہ ہے۔یہ تو تھا مسئلہ کی توجیہہ وتاویل کا ایک علمی رخ،تاہم مفسرقرآن شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس قضیے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ان کی رائے میں قرآنی یا مسنون دعاؤں پر مشتمل تعویذوں کے جواز یا عدم جواز کی بحث تو اس صورت میں ہوسکتی ہے،جبکہ اس کے سنت ہونےکا اعتقاد رکھا جائےلیکن اگر ان کو بذریعہ علاج کے طور پر دیکھا جائےتو یہ بحث سرے سے ختم ہوجاتی ہے،کیونکہ علاج معالجہ کے دیگر طریقوں کی طرح یہ تعویذ بھی علاج کے زمرے میں آتے ہیں،جنہیں کسی طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا،کیونکہ تجربات سے ان کی افادیت ثابت ہو چکی ہے۔واللہ علم
یہ اقتباس’’فہم توحید‘‘سے لیا گیا ہے۔