دار العلوم دیوبندی کی ویب سائٹ پر بھی اس حوالے سے
ایک تفصیلی مضمون موجود ہے ، جس کا کچھ حصہ ذیل میں نقل کرتا ہوں :
شرعی حیثیت:
اسلام نے ہر اس معاملہ کومسترد کردیا ہے، جس میں دغا فریب اور دھوکہ دھڑی پائی جاتی ہو؛ یا جس میں ملکی بدانتظامی اور لوگوں کی ضرررسانی کا عنصر پایا جائے، یا جس میں مفادِ عامہ کی چیزوں پر چند افراد کے قبضہ کی صورت پائی جائے، یا جس میں خرید وفروخت کے ساتھ کوئی شرط لگادی جائے، یا وہ معاملہ ایسا ہو کہ جس میں بیع کے ساتھ کسی دوسرے معاملہ کا قصد کیا جاتا ہو اور بیع کا صرف بہانہ ہو، اسی طرح وہ معاملہ بھی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں، جس میں نزاع اور لڑائی کا احتمال ہو، جس میں دو معاملہ کو ایک کردیاگیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة الله عليه نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں ایسے ”نو“ وجود بیان فرمائے ہیں، جن کی وجہ سے شریعت نے معاملات کو مکروہ و ناجائز قرار دیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے رحمة اللہ الواسعہ ج:۲/۵۶۲ تا ۵۸۴)
نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لیے مذکورہ بالا اقتباس کو پڑھ کر اگراس طرزِ تجارت پر نگاہ ڈالی جائے تو ادنیٰ تأمل کے بعد ہی اس کا عدمِ جواز کھل کر سامنے آجائے گا؛ اس لیے کہ اس میں عدمِ جواز کی متعدد وجوہ پائی جاتی ہیں۔
ذیل میں مزید تفصیل سے عدم جواز کی وجوہ بیان کی جاتی ہیں:
(۱) نفع حاصل کرنے کے لیے شریعت نے جو اصول بتائے ہیں، ان میں یا تو سرمایہ اور محنت دونوں ہوتی ہیں، جیسے بیع وشرا؛ یا صرف محنت ہوتی ہے اور سرمایہ دوسرے کا ہوتا ہے، جیسے مضاربت وغیرہ، لیکن ایسی کوئی صورت شرعاً جائز نہیں ہے، جس میں نہ تو محنت ہو اور نہ ہی سرمایہ لگے۔
نیٹ ورک مارکیٹنگ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آدمی ممبر بنتا ہے تو کمپنی ممبری فیس لے لیتی ہے،اور اپنی مصنوعات دے کر ان کی قیمت الگ سے لیتی ہے، قانونی لحاظ سے کمپنی کے پاس ممبر کا کوئی رقمی مطالبہ نہیں رہ جاتا، گویا کمپنی میں رقم اور سرمایہ لگاہوا نہیں ہے۔
پھر جب ممبرسازی ہوتی ہے، تو پہلے مرحلہ میں مان لیا جائے کہ اپنے تحت ممبربنانے میں محنت ہوئی، صرف انھیں ممبران کی تشکیل کا معاوضہ اگر ملے تو اسے کسی درجہ میں جائز کہا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ سرمایہ نہیں لیکن محنت تو پائی گئی، لیکن دوسرے تیسرے اور بعد کے مراحل میں ممبرسازی میں اس کی کوئی محنت نہیں ہوئی تو بعد کے ممبران کا تشکیلی معاوضہ کس طرح جائز ہوگا، جب کہ وہاں نہ تو محنت ہے اور نہ ہی سرمایہ!
اس تجارت سے منسلک حضرات یہ کہتے ہیں کہ ”آئندہ مراحل میں بھی کارکنوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے، جیسے لوگوں کو سمجھانا، مال کی اہمیت بتانا، ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنا وغیرہ“ لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پہلا ممبر براہِ راست ممبر بنانے کے بعد اگر آئندہ مرحلوں میں کوئی تعاون نہ کرے تب بھی وہ کمپنی کے اصول کے مطابق کمیشن کا مستحق قرار پاتا ہے، حاصل یہ کہ آئندہ مراحل میں بلا سرمایہ اور بلا محنت کمیشن آنا اس طرزِ تجارت کی سب سے بڑی خرابی ہے۔
پہلے مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ بھی درست نہیں:
اس طرح کی کمپنیوں میں ہر مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ الگ الگ نہیں دیا جاتا؛ بلکہ اپنے تحت چند مراحل میں مخصوص تعداد پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً بعض کمپنیوں میں یہ شرط ہے کہ جب ممبران کی تعداد ”نو“ ہوجائے اور وہ بھی تین مراحل میں ہوں تب ان سب کی خریداری کا متعین کمیشن اوپر کے ممبر کو دی جائے گی، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اپنے ہی نہیں دوسروں کے بنائے ہوئے ممبران کا معاوضہ بھی ساتھ ہوکر ملے گا، اس لیے حلال و حرام میں اجتماع کی وجہ سے یہ معاوضہ لینا بھی حرام ہوگا۔
فقہ کا قاعدہ ہے: اذَا اجْتَمَعَ الْحَلاَلُ وَالْحَرَامُ غُلِّبَ الْحَرَامُ (الاشباہ والنظائر:۱/۳۳۵) ترجمہ: جب حلال وحرام جمع ہوجائیں تو حرام کو غالب مانا جاتا ہے۔
(۲) شریعت میں ”سود“ اس لیے حرام ہے کہ اس میں زر سے زر حاصل کرنے کا ذریعہ اور بہانہ بنایا جاتا ہے، اس میں نہ تو کوئی پیداوار سامنے آتی ہے اور نہ ہی محنت پائی جاتی ہے، اس طرح جب زر سے زر پیدا کرنے کی ریت چل پڑتی ہے، تو لوگ بنیادی ذرائع معاش مثلاً کھیتیاں اور کاریگریاں چھوڑ دیتے ہیں اوریہ مثل زبانِ حال سے دہرائی جانے لگتی ہے، ”جب روٹی ملے یوں، تو کھیتی کرے کیوں؟“ (رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۲)
نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی ممبری فیس کے طور پر تھوڑا سرمایہ لگاکر پیسوں سے پیسے حاصل کرنے کا حیلہ اختیار کیاجاتا ہے، ہر ممبر کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اپنے نیچے زیادہ سے زیادہ ممبران آجائیں تاکہ اچھی خاصی رقم کسی محنت ومشقت کے بغیر کمیشن کے طور پر ان کے پاس جمع ہوجائے؛ حالانکہ زر سے زر کشید کرنا سود ہے، اس طرز کی تجارت کو ربوا سے کافی مشابہت ہے، جسے قرآنِ پاک میں حرام فرمایاگیاہے:
”أَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا“ (بقرہ:۵۷۲)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قراردیا ہے“
(۳) شرعی لحاظ سے ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے، وہ یہ کہ اس کمپنی میں شریک ہونے والوں کا مقصد کمپنی کا سامان خریدنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور نفع کمانا ہی مدِنظر رہتا ہے، گویا مقصود کمیشن ہے سامان نہیں، سامان کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے؛ اس لیے شرعی حکم معلوم کرتے وقت مقصود اور غلبہ کا ہی اعتبار ہوگا، جیسا کہ فقہی قواعد اس کی طرف مشیر ہیں:
(الف) العِبْرَةُ فِیْ الْعُقُوْدِ لِلْمَقَاصِدِ وَالْمَعَانِیْ لاَ لِلْألْفَاظِ وَالْمَبَانِیْ . (قواعد الفقہ ص:۹۱)
ترجمہ: ”معاملات میں مقاصد ومعانی ہی کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ و عبارت کا نہیں“
(ب) اَلْعِبْرَةَ لِلْغَالِبِ الشَّائِعِ لاَ لِلنَّادِرِ. (ایضاً)
ترجمہ: ”رائج وغالب حیثیت کا ہی اعتبار ہوتا ہے، نادر و کم یاب کا نہیں“
(ج) التابِعُ لا یَتَقَدَّمُ عَلَی الْمَتْبُوْعِ . (الاشباہ والنظائرج:۱/۳۶۵)
ترجمہ: تابع کو متبوع پر مقدم نہیں کیا جاسکتا۔
نیٹ ورک سسٹم میں شمولیت کا اصلی مقصد چونکہ کمیشن اور نفع حاصل کرنا ہی ہے، یہی پہلو شریک ہونے والوں کے لیے باعثِ کشش ہے؛ اس لیے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ آدمی ممبر بننے کی فیس دے کر امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے، ہوسکتاہے کہ اس بہانے کافی منافع ہاتھ آجائیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لگایا تھا وہ بھی ڈوب جائے یہی حقیقت ہے جوئے اور قمار کی۔
”ہُوَ کُلُّ لَعِبٍ یُشْتَرَطُ فِیْہِ غَالِبًا أن یَّأخُذَ الْغَالِبُ شَیْئًا مِنَ الْمَغْلُوْبِ وَأصْلُہ أن یَّأخُذَ الْوَاحِدُ مِنْ صَاحِبِہ شَیْئًا فَشَیْئًا فِی اللَّعِبِ“ (ص:۴۳۴)
ترجمہ: قمار (ہار جیت کا) ہر وہ کھیل ہے جس میں اکثر یہ شرط ہوتی ہے کہ جو غالب ہوگا، وہ مغلوب سے کچھ لے گا، اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی سے کھیل میں تھوڑا تھوڑا کچھ لیتا رہتا ہے۔
اور قمار کی تعریف یوں لکھی ہے:
انَّہ تَعْلِیقُ الْمِلْکِ عَلَی الْخَطَرِ وَالْمَالُ فِی الْجَانِبَیْنِ (قواعد الفقہ ص:۴۳۴، فتاوی ابن تیمیہ ۱۹/۲۸۴)
ترجمہ: ملکیت کو جوکھم پر معلق کرنا، جب کہ دونوں جانب مال ہو۔
حاصل یہ کہ قمار (جوا) میں معاملہ نفع وضرر کے درمیان دائر ہوتا ہے؛ احتمال یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سا مال مل جائے گا، اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے،اسی کو ”مخاطرہ“ اور قرآن کی اصطلاح میں ”میسر“ کہتے ہیں۔
جوئے کا مدار لالچ، جھوٹی آرزو اور فریب خوردگی کی پیروی پر ہے،جوا کمزوروں کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لیتا ہے، ہارنے والااگر خاموش رہتاہے تو محرومی اور غصہ میں خون کا گھونٹ پی کر خاموش رہتا ہے،اور اگر دوسرے فریق سے لڑتا ہے، تو اس کی کوئی نہیں سنتا کیوں کہ ”خود کردہ را علاجے نیست“ جوئے کا تمدن اور باہمی تعاون میں کچھ حصہ نہیں۔ (مستفاد از رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۱)
مفتی بغداد، صاحبِ ”روح المعانی“ علامہ محمد آلوسی نے میسر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
المَیْسِرُ... امَّا من الیُسْرِ لأنہ أخذُ المال بِیُسْرٍ وَسُہُوْلَةٍ (روح المعانی: ۲/۱۱۳)
یعنی ”میسر“ یا تو یُسر سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں، کسی کا مال آسانی اور سہولت سے مارلینا، میسر (جوا) کے ذریعہ لوگوں کے اموال آسانی سے جھپٹ لیے جاتے ہیں۔
نیٹ ورک مارکیٹنگ کی موجودہ شکل اگرچہ نئی ہے، لیکن بہرحال اس میں جوئے کی حقیقت پائی جارہی ہے، جیساکہ غور کرنے والوں پر مخفی نہیں، جوئے کی حرمت سود کی طرح نص قطعی سے ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمنُوا انَّمَا الخمرُ وَالمَیْسِرُ والأنصابُ والأزلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . (مائدہ:۹۰)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔ (بیان القرآن)
(۴) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں وہی آدمی کامیاب و بامراد ہوتا ہے، جو تیز طرار، باتونی اور لسّان ہو، سامنے والوں کو متأثر کرکے ممبر بنالیتا ہو، جو لوگ اس طرح کی شاطرانہ چال نہیں چلتے، یا یہ صلاحیت ان میں نہیں ہوتی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں، ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے اور وہ دھوکہ کھاکر مایوس ہوجاتے ہیں۔
ایسے دھوکہ کی بیع و شراء کو سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا ہے: نَہَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ. (سنن ترمذی:۱/۲۳۳)
مبسوط میں علامہ سرخسی رحمة الله عليه نے غرر کی تعریف اس طرح کی ہے۔ الغَرَرُ مَا یَکُوْنُ مَسْتُوْرَ الْعَاقِبَةِ . (المبسوط:۱۲/۱۹۴)
جس کاحاصل یہ ہے کہ غرر میں انجام معلوم نہیں ہوتا، مذکورہ طرزِ تجارت میں نفع ملنے اور نہ ملنے کا پتا نہیں ہوتا، گویا قمار (جوا) ہی کی دوسری تعبیر ”بیع غرر“ ہے۔
بعض لوگوں نے اس طرزِ تجارت کو لاٹری (Lottery) سے بھی بدتر بتایا ہے؛ اس لیے کہ لاٹری میں ٹکٹ خرید کر آدمی سکون سے انتظار کرتا ہے، لیکن اس میں ممبرشپ حاصل کرنے کے بعد ممبرسازی کے لیے خوب دوڑ دھوپ کرتا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے پھر بھی ممبر نہ بنانے کی صورت میں اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھولیتا ہے، اور کمپنی رُک جانے کے وقت نیچے کے تین درجوں کے لوگ یقینا محروم رہ جاتے ہیں، اس لیے اس میں نفع کا چانس لاٹری سے بھی کم ہے، اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہی سلسلہ کا آخری آدمی ہوگا، تو ہرگز سامان خرید کردہ ممبر نہیں بنے گا، حقیقت یہ ہے کہ اس میں ”غرر کثیر“ ہے، جس سے باز رہنے کی تلقین سرکار دوعالم … نے فرمائی ہے۔ (بحث ونظر ص:۱۷۲)
(۵) اسلام نے اپنے تجارتی اصول میں ملکی مصلحت کا خیال رکھا ہے، مصنوعی رکاوٹ ملکی مصلحت کے لیے نہایت ہی مضر ثابت ہوتی ہے، اس سے اشیاء کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے، تجارت کا مال تمام شہریوں تک پہنچنے کے بجائے چند لوگوں کے پاس ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے۔
زمانہٴ جاہلیت میں جب کوئی دیہاتی سوداگر شہر میں اپنا سامانِ تجارت لے کر پہنچتا تھا، تو شہر کے بعض تُجّار اس سے کہتے کہ ابھی تم خود سے سامان نہ بیچو؛ اس لیے کہ ابھی بھاؤ کم ہے، سستا بک جائے گا؛ بلکہ تم ہمارے حوالے کردو! چند دنوں بعد تم کو ہم مہنگا بیچ کر دیں گے، اس میں بائع کا بھی ضرر ہوتاتھا؛ یہ تُجّار جھوٹی قیمت بتادیتے تھے، اور عوام کو بھی اشیاء مہنگی ملتی تھی،اس کو اصطلاح میں ”بیع الحاضر للبادی“ کہتے ہیں۔
سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے اس طرزِ تجارت سے منع فرمادیا تاکہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو، اور ”مصنوعی رکاوٹ“ کا رواج ختم ہوجائے۔ (سنن ترمذی:۱/۲۳۲، ابواب البیوع، رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۷۶، میں تفصیل ملاحظہ کیجیے)
زمانہٴ جاہلیت میں اسی سے ملتی جلتی یہ شکل بھی تھی کہ جب کوئی تاجر دیہات سے شہر میں آتا تھا تو شہر کے بعض تجار شہر سے باہر نکل کر ان سے پہلے ہی ملتے،اور سارا مال خرید لیتے تھے تاکہ یہ مال شہر میں نہ آسکے اور سارے لوگ ان سے خریدنے پر مجبور ہوں، اس کو اصطلاح میں ”تلقیِ جلب“ کہا جاتاہے، سرکارِ دوعالم … نے ان دونوں صورتوں کو اس لیے منع فرمایاہے، (سنن ترمذی: ۱/۲۳۲) اس لیے کہ دونوں میں اشیاء چند آدمیوں کے ہاتھوں میں جاکر عوام کے لیے مہنگی ہوجاتی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: الدرالمختار مع ردالمحتار: ۴/۱۴۸ رشیدیہ پاکستان)
نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی یہ خرابی ہے کہ ہر آدمی ان کمپنیوں کے سامان نہیں خرید سکتا، صرف ممبران ہی خریدسکتے ہیں؛ اس لیے بھی اشیاء نہایت ہی گراں ہوتی ہیں۔
(۶) اس طرح کی کمپنیوں میں اشیاء کی قیمت عام مارکیٹ ریٹ (Market rate) کے مقابلہ میں تین گنا بلکہ چھ گنا زیادہ ہوتی ہے، اشیاء کی جودت و عمدگی کا دعویٰ بھی فضول معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ اگر وہی اشیاء عام مارکیٹ میں رکھی جائیں، تو لوگ ہرگز اتنی قیمت میں نہیں خریدیں گے، دوسری کمپنیوں کی مصنوعات ہی کو ترجیح دیں گے۔
خلاصہ یہ کہ یہ گرانی فقہ کی اصطلاح میں ”غبن فاحش“ کہلاتی ہے، جو مکروہ ہے، حتیٰ کہ شریعت نے مشتری کو غبنِ فاحش کی وجہ سے مبیع (خریدی ہوئی چیز) کے واپس کرنے کا حق دیا ہے۔ (رد المحتار:۴/۱۷۸، رشیدیہ پاکستان)
(۷) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة الله عليه نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں ممنوع معاملات کی جملہ ”نو“ وجوہ میں سے چوتھی وجہ یہ بیان فرمائی ہے:
”وَمِنْہَا أن یُّقْصَدَ بِہٰذَا الْبَیْعِ مُعَامَلَةٌ أُخْریٰ یَتَرَقَّبُہَا فِیْ ضِمْنِہ أوْ مَعَہ “ الخ
ترجمہ: اور ممانعت کی انھیں وجوہ میں سے یہ ہے کہ اس بیع سے کسی ایسے دوسرے معاملے کا قصد ہو، جس کا وہ بیع کے ضمن میں یا بیع کے ساتھ انتظار کرتا ہو۔
خرید و فروخت کو خالص رکھنا ضروری ہے، اگر خرید وفروخت کے ساتھ کسی اور معاملہ کا قصد ہوجائے تو بیع فاسد ہوجاتی ہے۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بظاہر تو آدمی کمپنی کا سامان خریدتاہے؛ لیکن مقصد ممبرسازی کے ذریعہ کمیشن کمانا ہوتا ہے،اس وجہ سے بھی تجارت کی یہ شکل ناجائز معلوم ہوتی ہے۔
(۸) رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ”بیع بالشرط“ کو منع فرمایا ہے: أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَہٰی عَنْ بَیْعٍ وَشَرْطٍ . (مجمع الزوائد:۴/۸۵)
بیع اور شرط ایک ساتھ جمع کرناجائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ شرطوں کی وجہ سے آدمی معاملہ تو ضرورت کی وجہ سے کرتا ہے اور شرط نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیتا ہے، نیٹ ورک مارکیٹنگ میں کمپنی کا مال خریدنے کے ساتھ ہی یہ شرط ہوتی ہے، کہ مثلاً:
(الف) کمپنی کا مال بازار میں رکھ کر بیچ نہیں سکتے۔
(ب) کمپنی کے مال یا اس کے طریقہٴ کار کی خامیاں بیان نہیں کرسکتے۔
(ج) کمپنی کا سامان لینے کیلئے ایجنٹ اور ممبر بننا شرط ہے، ممبری فیس ضرور وصولی جائیگی۔
(د) بعض کمپنیوں میں رعایتی قیمت پر سامان لینے کے لیے ممبر ہونا اور ممبری فیس ادا کرنا ضروری ہے، بغیر ممبر بنے سامان خریدنے پر سامان مہنگا ملے گا۔
گویا اس طرزِ تجارت میں بیع کے ساتھ ایسی شرط؛ بلکہ چند شرطیں موجود ہوتی ہیں، جو مقتضائے عقد کے خلاف ہیں؛ اس لیے یہ معاملہ فاسد ہوگا، ہدایہ میں ہے: کُلُّ شَرْطٍ لاَیَقْتَضِیْہِ الْعَقْدُ وَفِیْہِ مَنْفَعَةٌ لِأَحَدٍ المُتَعَاقِدَیْنِ اَوْ لِلْمَعْقُوْدِ عَلَیْہِ وَہُوَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْتِحْقَاقِ فَیْفْسُدُ. (مع فتح القدیر:۳/۲۶، البحرالرائق: ۵/۱۸۲)
(۹) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں خرید و فروخت کے معاملہ کے ساتھ اجارہ (یعنی ایجنٹ بننے کی ملازمت) مشروط ہے؛ اس لیے ایسے عقدِ بیع اور عقدِ اجارہ کو دومعاملوں کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں، اور یہ حدیث شریف کی رو سے ممنوع ہے، ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه کی ایک روایت ہے:
نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَةٍ . (ترمذی: ۱/۲۳۳، ابواب البیوع)
ترجمہ: ”آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایاہے“۔
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:
نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفَقَةٍ وَاحِدَةٍ . (مسند احمد حدیث نمبر:۳۷۷۴)
ترجمہ: ”آپ نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایا ہے“۔
(نوٹ: نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ناجائز ہونے کی شرعی وجوہات میں سے ساتویں، آٹھویں اور نویں وجوہات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ اشتیاق)
(۱۰) نیٹ ورٹ مارکیٹنگ پر گہری نگاہ ڈالنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں درحقیقت لوگوں کو موہوم کمیشن کا لالچ دلاکر باطل اور ناجائز طریقے سے مال کھانے کا طرز اپنایا گیا ہے، اس طرزِ معاملہ کو ماہرینِ اقتصادیات ”تعاملِ صغری“ (Zero sum game) کہتے ہیں، جس میں بعض افراد نفع پاتے ہیں اور اکثر خسارہ میں رہتے ہیں۔ (بحث ونظر ص:۱۷۰) اللہ تعالیٰ نے باطل طریقہٴ کسب کو سختی سے منع فرمایا ہے:
یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَأکُلُوْا أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ . (نساء:۲۹)
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ، لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے واقع ہو۔
اشکال وجواب:
(۱) بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ممبر بنانے پر کمپنی کا کمیشن دینا انعام ہے، راست ممبر بنانے پر تو دیا ہی جاتا ہے، نیچے کے ممبران کے بنائے ہوئے ممبران؛ چونکہ پہلے ممبر کے واسطے سے ہیں؛ اس لیے کمپنی اگر بعد میں بھی انعام کا سلسلہ جاری رکھتی ہے، تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب: نیچے کے افراد سے لے کر اوپر کے لوگوں کو فی صدی کمیشن (Commission) دیناارتکازِ دولت اور مال ہتھیانے کا حیلہ ہے، یہ میسر کے مشابہ تو ہوسکتا ہے، انعام سے اس کاکوئی واسطہ نہیں؛ اس لیے کہ انعام صلبِ بیع میں کبھی داخل اور مشروط نہیں ہوتا۔
(۲) جس طرح ایک کارِ خیر کے ثواب کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، ایک آدمی نے کسی کو کسی نیک کام کی تلقین کی، دوسرے نے عمل کرنے کے ساتھ تیسرے کو تلقین کی، تو ظاہر ہے کہ بعد والے کا ثواب پہلے والے کو ضرور ملے گا، اسی طرح ”نیٹ ورک مارکیٹنگ“ میں بھی کمپنی کمیشن کا سلسلہ جاری رکھتی ہے، تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب: ثواب دینا اللہ تعالیٰ کا فضل اوراحسان ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، اللہ کا فضل کسی ضابطہ کامحتاج نہیں، مذکورہ کمپنی کو ثوابِ آخرت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے؛ اس لیے کہ یہ دنیا کا معاملہ ہے اور بندوں کے ذریعہ تکمیل کو پہنچتا ہے، بندوں کو اللہ تعالیٰ نے قانون کا پابند بنایا ہے، اسی کے لیے شریعت نازل فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ کسی قانون کے پابند نہیں، وہاں عدل کے ساتھ فضل کا ظہور ہوگا، بندوں کے معاملے اللہ تعالیٰ کے قانون سے سرِمو تجاوز نہیں کرسکتے، ثواب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔
ہمیں ہمارے اساتذہ نے پڑھایا، ہم طلبہ کو پڑھاتے ہیں، وہ طلبہ دوسرے طلبہ کو پڑھاتے ہیں، ثواب تو نیچے والوں کا اوپر والوں کو ضرور ملتا ہے؛ لیکن نیچے والوں کی تنخواہ کا کوئی حصہ اُوپر والوں کو نہیں ملتا؛ آخر کیوں؟
(۳) ممبرسازی کی اُجرت دلالی کی طرح ہے، جس طرح دلال کو سامان خریدوانے اور بیچوانے کی اجرت ملتی ہے، اسی طرح یہاں بھی نئے ممبر بنانے پر اُجرت ملتی ہے، تواس میں کیا خرابی رہ گئی؟
جواب: مذکورہ طرزِ تجارت اور دلالی میں کافی فرق ہے اس لیے کہ:
(الف) دلال کو سامان کی فروختگی پر اُجرت ملتی ہے، یہاں تو ایجنٹ بننے کے لیے خود ایجنٹ ہی اجرت ادا کرتا ہے، معلوم ہوا کہ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے، مذکورہ تجارت میں سامان فروخت کرنا، اصل مقصد نہیں ہوتا؛ بلکہ نئے ایجنٹ تیار کرنا ہی اہمیت رکھتا ہے۔
(ب) دلال کو کوئی گھاٹا نہیں ہوتا، وہ مال فروخت کراتا اور اجرت و کمیشن پاتا رہتا ہے؛ لیکن یہاں ہر آخری مرحلہ کا ایجنٹ یقینی طورپر گھاٹے میں رہتا ہے، ظاہر ہے کہ کمپنی کبھی نہ کبھی رُکے گی، جب بھی رکے گی، آخری مرحلہ کے ایجنٹ کو کچھ نہیں ملے گا، پھر ظلم یہ کہ ممبری فیس بھی سوخت ہوجائے گی، ”یک نہ شد دو شد“؛ اس لیے ان کمپنیوں کی ممبرسازی کی مہم کو دلالی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔
خلاصہٴ بحث:
نیٹ ورٹ مارکیٹنگ دولت اِکٹھا کرنے کی ایک اَہرامی اور مخروطی اسکیم ہے، اس میں مصنوعات بطورِ حیلہ فروخت کی جاتی ہیں، اصل مقصد ممبر سازی کے ذریعہ نفع کمانا ہوتا ہے، اس میں سود سے بھی زیادہ ارتکازِ دولت کی تدبیر موجود ہے، لاٹری (Lottery) اور جوے سے مشابہت ہے، دھوکہ اور غرار اتنا زیادہ ہے کہ دولت مندی کے لالچ میں پوری کی پوری آبادی کو مالی بحران کا شکار بناسکتی ہے، اس میں چند لوگوں کو منافع پہنچانے کے لیے ایک کثیر تعداد زنجیر میں بندھی رہتی ہے، اخیر کے لواحقین وممبران ہمیشہ دھوکے اور گھاٹے میں رہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں نیچے کے کئی مراحل بلاکمیشن منھ تکتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ”سودی نظام“ کے ماہرین نے بھی اس طرزِ تجارت کو مسترد کردیا ہے،متعدد ممالک میں اس پر پابندی عائد کی گئی ہے، ساتھ ہی عوام کو اس میں پھنسنے سے متنبہ بھی کیاگیا ہے، یہ اخلاقی اور اقتصادی لحاظ سے بھی قابلِ قبول نہیں ہے، شرعی اور فقہی نقطئہ نظر سے اس میں سود و قمار سے مشابہت؛ بیع مع شرط کا وجود؛ دو معاملوں کو ایک میں جمع کرنا؛ خرید و فروخت کے بہانے دوسری چیز یعنی کمیشن کا ارادہ؛ باطل طریقے سے مال جمع کرنا؛ ملکی مصلحت کا فقدان اور بعض صورتوں میں ”غبن فاحش“ وغیرہ خرابیاں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے اس میں شرکت جائز نہیں ہے، ہندوعرب کے مشاہیر علماء اور مفتیانِ کرام نے عدمِ جواز کے فتوے صادر فرمائے ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے سولہویں اجلاس میں اہل علم وفقہ کی ایک عظیم جماعت نے اس کی حرمت پر اتفاق کیا ہے۔
جس شخص کو راست ممبربنایا جائے اس کی خریداری پر ملنے والا کمیشن اگرچہ فی نفسہ جائز ہوسکتا ہے، مگر وہ بھی چونکہ الگ کرکے نہیں دیا جاتا؛ بلکہ چند ممبران اور چند مرحلے گذرنے ضروری ہوتے ہیں، اور سب کا کمیشن ملاکر دیا جاتاہے؛ اس لیے حرام وحلال کے ملنے کی وجہ سے پہلے مرحلہ کے ممبران کی وجہ سے آنے والا کمیشن بھی حرام ہوگا، محض مصنوعات خریدنے کے لیے ایسی کمپنیوں کا ممبر بننا بیع مع شرط کی وجہ سے ناجائز ہے، بلا ممبر بنے سامان خریدنا جائز تو ہے، مگر ایسی کمپنیوں کا تعاون ہونے کی وجہ سے کراہت سے خالی نہیں، ایسی کمپنیاں نہ تو معاشی اور اقتصادی لحاظ سے فائدہ مند ہیں؛ نہ ہی اخلاقی اعتبار سے قابل شرکت اور نہ ہی اسلامی اصول کے تحت جائز ہیں، اس لیے ان کا ممبر بننا اور کمیشن حاصل کرنا، ناجائز اورحرام ہے۔