۔۔۔۔ ہمارے بعض مخلص احباب اردو زبان و ادب کو نامانوس اصطلاحات کے دائرے میں مقید دیکھنے کے آرزومند ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو زبان اسی طرح اپنی انفرادیت اور اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔
احباب سے ادباً عرض ہے کہ ادبی و دقیق اصطلاحات کی تشکیل و ترویج ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی کوئی زبان اپنی مخصوص اصطلاحات پر منحصر ہوتی ہے کہ اس کی بقا کا دارومدار بس انہی اصطلاحات پر قائم ہو۔
کوئی بھی زبان اسی صورت میں نشو و نما پاتی اور اپنا وجود قائم رکھتی ہے جب اس کے استعمال کندگان اس زبان کو درست طریقہ سے بولنا ، لکھنا اور پڑھنا سیکھیں (اور اپنی زبان کے تئیں احساس کمتری کا شکار بھی نہ ہوں)۔
اور کسی زبان کو صحیح طریقہ سے سیکھنے کے لئے سب سے پہلے اس کے بنیادی قواعد و ضوابط ، گرامر و املا کے اصول وغیرہ سے معقول واقفیت لازمی امر ہے۔
جب تک ہم میں سے ہر کوئی اردو کو درست طریقہ سے لکھنا اور پڑھنا سیکھ نہیں لیتا تب تک کے لئے ادق و نامانوس اصطلاحات کو فروغ دینے کی بات کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجائی جائے !!