• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجماع ! صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

اجماع ! صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے !!!

صحیح بخاری میں شک کرنے والے کارد


میرے ایک شیعۃ دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ :

ہم صحیح بخاری پرکس طرح اعتماد اور اس کے صحیح ہونے کا دعوی کریں حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی چار صدی بعدوجود میں آۓ ؟



الحمد للہ:



امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی وفات ( 256 ھـ ) میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ( 245 ) سال بعد ہوئ ، اورجیسا کہ آپ کے شیعۃ دوست کا گمان ہے اس طرح نہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ جب جھوٹ اپنی اصلی جگہ سے نکلے تواس پرتعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔



اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس سے یہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں قطعی طور پریہ مراد نہیں ہے ہم نے صرف اسے وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے ۔



اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم صحیح بخاری پر اعتماد کس طرح کر سکتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہی نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ :


امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔



اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔


تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :

علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونوں میں صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔

اگرآپ اس شیعی اوریاپھررافضی سے ان اقوال کے بارہ میں سوال کریں جوکہ اس کے بڑے بڑے علماء علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اور باقر اور جعفر صادق رحمہم اللہ اورآل بیت وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ آیا کہ انہوں نے یہ اقوال ان سے بلاواسطہ سنے ہیں یا کہ وہ یہ اقوال سندوں کے ساتھ نقل کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب واضح ہے ۔


اور دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اور ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں بہت بڑافرق پایا جاتا ہے ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں آپ کوئی بھی ایسا راوی نہیں پائيں گے جس کی روایت پراعتماد کیا جاسکے بلکہ ان کے سب کے سب راوی آپ کو ضعفاء اور کذابوں اور جرح کیے گۓ رارویوں کی کتابوں میں ملیں گے ۔

اوریہ رافضی جو دعوی پھیلا رہا ہے سنت نبویہ میں طعن کا پیش خیمہ ہے جو کہ ان کے مذھب کوباطل اور ان کے عقیدے کوفاسد قرار دیتی ہے ، تو اس طرح کی گمراہیوں کے علاوہ ان کے پاس کوئ اورچارہ ہی نہیں ، لیکن یہ بہت دور کی بات ہے کہ اس میں وہ کامیاب ہوجائيں کیونکہ حق توواضح ہے اورباطل مضطرب اورپریشان ہورہا ہے ۔

پھرہم سائل کویہ نصیحت بھی کرتے ہیں _اللہ تعالی آپ کوتوفیق دے - کہ آپ یہ کوشش کریں کہ آپ اس قسم کے لوگوں سے دوستی لگائيں جو اھل سنت و اھل حدیث ہوں اور بدعتیوں سے لگاؤ نہ رکھیں اور نہ ہی ان اپنے حلقہ احباب میں شامل کریں ، ان لوگوں سے دوستیاں لگانے سے علماء کرام نے بچنے کوکہا ہے اس لیے کہ اس وقت کسی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے جب تک کہ مختلف قسم کے حیلوں اورملمع سازی کے ذریعے اسے گمراہ کرکےحق سے دور نہ کردیں۔

ہم اللہ تعالی سے اپنے اورآپ کے لیے سنت پرچلنے اور بدعت اوربدعتیوں سے دوررہنے کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔

امام ابن الصلاح اپنی مشہور تالیف علوم الحدیث میں رقمطراز ہیں کہ


''وکتا بھما أصح الکتب بعد کتاب اللہ العزیز''( مقدمۃ ابن الصلاح ص18)

ترجمہ۔ یعنی بخاری و مسلم صحیح کتا بیں ہیں کتا ب اللہ کے بعد ۔


شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔


صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں تمام محد ثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام احادیث متصل ہیں اور مر فو ع ہیں اور تمام کی تمام یقینا صحیح ہیں یہ دونوں کتا بیں اپنے مصنفین تک متواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کر ے وہ مسلمان کی راہ کے خلاف چلتا ہے

(حجۃ البالغہ صفحہ 241)


نیز علامہ عینی حنفی رقمطراز ہیں کہ :

''وقد اجمع علماء الاسلام منذقرون طویلۃالی ھذا الیوم علی انہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ''

( علامہ عمدۃالقاری صفحہ6)



تر جمہ ۔ صحیح بخاری لکھنے کے بعد جتنے بھی علماء ہیں ان سب کا اجماع ہے کہ بخاری (کا درجہ)کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کے بعد ہے کتاب اللہ کے بعد وہ سب سے صحیح تر ین کتاب ہے



احمد رضا خان بریلوی صاحب نے ردّ کرتے ہوئے لکھا :



اقول اولاً : یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کے رجال سے ہے۔


حوالہ : فتاویٰ رضویہ ، طبع جدید 174/5 ۔

معلوم ہوا کہ احمد رضا خان صاحب کے نزدیک صحیحین کے راویوں پر جرح کرنا بےشرمی کا کام ہے !!


غلام رسول رضوي بريلوي صاحب فرماتے ہیں :

تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصحح کتاب ہے۔

حوالہ : تفہیم البخاری شرح صحیح بخاری 5/1 ،



بعینہ یہی الفاظ آپ سعیدی صاحب کی کتاب "تذکرۃ المحدثین" کے صفحہ نمبر 324 پر دیکھ سکتے ہیں۔


پیر کرم شاہ بھیروی بریلوی فرماتے ہیں :

جمہور علمائے امت نے گہری فکر و نظر اور بےلاگ نقد و تبصرہ کے بعد اس کتاب کو "اصحح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری" کا عظیم الشان لقب عطا فرمایا ہے۔

حوالہ : سنت خیر الانام ، ص:175 ، طبع:2001ء



ملا علی قاری الحنفی کہتے ہیں :

پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔

حوالہ: مرقاۃ المفاتیح ، 58/1 ۔



امام شمس الدين السخاوی کی "فتح المغيث شرح ألفية الحديث" صفحہ نمبر 34 پر لکھا ہے :


ولفظ الأستاذ أبي إسحاق الإِسفرائيني أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها

اردو ترجمہ (ارشاد الحق اثری) :


امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی المتوفی 408ھ ، فرماتے ہیں :

فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔



صحیحین کی صحت ، تلقی بالقبول یا قطعیت پر اجماع کا دعویٰ درج ذیل مستند علماء نے بھی کیا ہے :


ابن کثیر (774ھ)

ابن تیمیہ (728ھ)

ابن الصلاح (643ھ)

ابن القیسرانی (507ھ)

تفصیل کے لیے درج ذیل کتاب دیکھیں :

"احادیث الصحیحین بین الظن والیقین" - حافظ ثناءاللہ زاہدی



علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ :


اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري -

جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے


مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔


مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔۔۔۔ اس ہی بات کی دلیل ہے کہ :



صحیح بخاری میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں !!



قرآن مجید کو دنیا کی صحیح ترین کتاب کیوں کہا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقانیت پر مبنی ہے۔



اگر بخاری میں کوئی ایک مرفوع متصل حدیث ، ضعیف ثابت ہو جاتی تو محدثین کبھی بھی اس کو "اصح الکتاب بعد کتاب اللہ" کا درجہ نہ دیتے !!



امام نسائی فرماتے ہیں :

اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین

بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔



حوالہ : نصرۃ الباری



امام ابوالفلاح فرماتے ہیں :


تمام فقہاء نے صحیح بخاری کی ہر سند حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔



حوالہ : نصرۃ الباری ، باب شذرات الذہب



شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :


صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔

حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134



علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں :

اور حفاظ حدیث کے نزدیک سب سے اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث وہ ہے جس کی روایت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہو۔

حوالہ : نصب الرایۃ ، 421/1 ۔


محدثین کا یہ دعوی ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

جمیع ما حکم مسلم بصحتہ من ھذا الکتاب فھو مقطوع بصحتہ و العلم النظری حاصل بصحتہ فی نفس الأمر و ھکذا ما حکم البخاری بصحتہ فی کتابہ و ذلک لأن الأمة تلقت ذلک بالقبول سوی من لا یعتد بخلافہ و وفاقہ فی الاجماع۔(صیانة صحیح مسلم' امام ابن صلاح' ص٨٥'دار الغرب الاسلامی)

وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔



الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی رحمہ اللہ نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی فانہ قال:أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبارالتی اشتمل علیھاالصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وان حصل الخلاف فی بعضھا فذلک خلاف فی طرقھا و رواتھا۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح' جلد١' ص٣٧٧' المجلس العلمی أحیاء تراث الاسلامی)

استاذ ابو اسحاق اسفرائینی نے کہا:اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔



امام الحرمین 'امام جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔

(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)

اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم میں کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے 'تو ایسی صورت میں اس کی بیوی نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص حانث ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔



امام أبو نصر السجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لو حلف الطلاق أن جمیع ما فی کتاب البخاری مما روی عن النبی قد صح عنہ و رسول اللہ قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأة بحالھا فی حبالتہ۔

(مقدمہ ابن الصلاح'حافظ ابن الصلاح' ص٢٦'دار الحدیث بیروت)


تمام اہل علم فقہاء اور ان کے علاوہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول سے مروی روایات موجود ہے وہ آپ سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ ہی کے فرامین ہیں'تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں باقی رہے گی۔



علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

و جاء محمد بن اسماعیل البخاری امام المحدثین فی عصرہ فخرج احادیث السنة علی أبوابھا فی مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التی للحجازیین و العراقیین و الشامیین و اعتمدوا منھا ما أجمعوا علیہ دون مااختلفوا فیہ... ثم جاء الامام مسلم بن الحجاج القشیری فألف مسندہ الصحیح حذا فی حذو البخاری فی نقل المجمع علیہ

(مقدمہ ابن خلدون'ص٤٩٠'دار الجیل'بیروت)

اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا...پھر امام مسلم بن حجاج القشیری آئے انہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا کہ جن کی صحت پر اجماع تھا۔


امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔

(قطر الولی'ص٢٣٠٭)


اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہوناامت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول ' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔



شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:

أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔

(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)



جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں وجود ہیں وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔


محدث العصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصلالمرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔

(مقدمة تحفة الأحوذی'ص٤٧'دار الکتب العلمیة' بیروت)


جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو بھی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔



معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز صفدر خاں لکھتے ہیں:


بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پرامت کا اجماع و اتفاق ہے۔اگر صحیحین کی 'معنعن'حدیثیں صحیح نہیں تو امت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں۔

(أحسن الکلام'مولانا محمد سرفرازصفدر خان 'جلد١'ص٢٤٩'طبع سوم
اکتوبر ١٩٨٤)


پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر أئمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہاء کا اتفاق ہوتا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعوی متأثر نہ ہوگا جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں أصل اعتبار فقہاء کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بارے مقدمہ اصول تفسیر میں بحث کی ہے۔



امام ابوجعفر عقیلی کا بیان ہے کہ جب امام بخاری نے صحیح بخاری کو مرتب کرلیا

'' عرضه على أَحْمد بن حَنْبَل وَيحيى بن معِين وعَلى بن الْمَدِينِيّ وَغَيرهم فاستحسنوه وشهدوا لَهُ بِالصِّحَّةِ الا فِي أَرْبَعَة أَحَادِيث قَالَ الْعقيلِيّ وَالْقَوْل فِيهَا قَول البُخَارِيّ وَهِي صَحِيحَة ''

تو اس کو احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین ، علی بن مدینی وغیرہ پر پیش کیا، تو سب نے اس کو سراہا ہے اور اس کی صحت کی شہادت دی ہے ، مگر صرف چار حدیثوں میں ۔ اور اس کے متعلق بھی عقیلی فرماتے ہیں کہ امام بخاری کی بات صحیح ہے اور وہ حدیثیں بھی صحیح ہیں۔



قرآن مجید کے علاوہ تمام کتب احادیث پر کتاب بخاری کی اصحیت مسلم ہے۔ مقدمۃ ابن الصلاح، شرح نخبۃ الفکر، عمدۃ القاری کا مقدمہ اور مقدمہ فتح الباری سب اس چیز کی گواہی دیتے ہیں کہ ''اصح الکتب بعد کتاب اللہ کتاب البخاری'' تو ایک قسم کا اجماع ہوگیا۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحیح بخاری و صحیح مسلم کی عظمت نہ کرنے والا بدعتی ہے !!!

ڈیروی نے لکھا ہے:

"ابو النعمان محمد ابن فضل السدوسی کی منکر روایات خود بخاری شریف میں موجود ہیں۔" (نور الصباح حصہ دوم ص 256)

ڈیروی صاحب قیل و قال کے ذریعے سے صحیح بخاری کی صحت کو مشکوک بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن ڈیروی کے اس عمل نے ڈیروی کو ہی مشکوک بنادیا ہے۔

آلِ دیوبند کے تسلیم شدہ بزرگ شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں:


"صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچتی ہیں۔ جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔"

(حجتہ اللہ البالغہ عربی:134/1 ، اردو:242/1 ، ترجمہ: عبد الحق حقانی)


معلوم ہوا کہ ڈیروی شاہ ولی اللہ کے نزدیک بدعتی ہے اور مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔


امام نسائی فرماتے ہیں:

ما في هذه الكتب كلها أجود من كتاب البخاري

کہ صحیح بخاری تمام کتابوں سے عمدہ وبہترین (باعتبار صحت سند) کتاب ہے۔

قال ابن حجر: "والنَّسائي لا يعني بالجَودة إلاَّ جودة الأسانيد كما هو المتبادر إلى الفهْم من اصطلاح أهل الحديث، ومثل هذا من مثل النَّسائي غايةٌ في الوصف مع شدَّة تحرِّيه وتوقِّيه وتثبُّته في نقد الرِّجال وتقدُّمه في ذلك"[38].

رابط الموضوع:

http://www.alukah.net/sharia/0/21351/#ixzz33qAyPTCh


امام بخاری مجتہد تھے ، احناف کی زبانی

ماخوذ از

صحیح بخاری و امام بخاری احناف کی نظر میں ( ص 37 تا 43)

مولف : مولانا ادریس ظفر

1۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ :

علامہ ذہبی جن کے متعلق محمد حسین نیلوی حنفی لکھتے ہیں :

'' جب امام ذہبی اس کی تصحیح کردیں تو قطعی صحیح بن جائے گی جس کا منکر کافر نہیں تو کم از کم فاسق ضرور ہوگا کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول حجت ہے ۔ '' ( نداء حق 285 )

وہ ( علامہ ذہبی رحمہ اللہ ) لکھتے ہیں :

وكان إماما حافظا حجة رأسا في الفقه والحديث مجتهدا من أفراد العالم مع الدين والورع والتأله .

'' آپ امام ، حافظ ، حجت چوٹی کے فقیہ و محدث اور مجتہد تھے ، نیز دین داری تقوی و پرہیز گاری اور عبادت گزاری کے ساتھ ساتھ یگانہ روزگار تھے ۔ ''

( الکاشف للذہبی 3 / 18 )

2۔ رشید احمد گنگوہی حنفی :

رشید احمد گنگوہی جن کے متعلق عاشق الہی میرٹھی حنفی نے واشگاف الفاظ میں لکھا ہے :

" قطب العالم ، قدوة العلماء ، غوث الأعظم ، أسوة الفقهاء ، جامع الفضائل والفواضل العلية ، مستجمع الصفات الخصائل البهية والسنية ، حامي دين مبين مجدد زمان وسيلتنا إلى الله الصمد الذي لم يلد و لم يولد شيخ المشائخ "

( تذكرة الرشيد 2 )

وہ ( رشید احمد گنگوہی ) لکھتے ہیں :

الإمام البخاري عندي مجتهد برأسه و هذا أيضا ظاهر من ملاحظة تراجمه بدقة النظر "

( لامع الداري على جامع البخاري 19 )

'' امام بخاری میرے نزدیک مجتہد مستقل ہیں اور یہ دقیق نظر کے ساتھ ان کے تراجم ابواب کے ملاحظہ سےظاہر ہے ۔ ''

3۔ علامہ عبد الرشید نعمانی حنفی :

محمد عبد الرشید نعمانی حنفی لکھتے ہیں :

" قال سليمان بن إبراهيم العلوي : البخاري إمام مجتهد برأسه كأبي حنيفة والشافعي ومالك و أحمد . "

( ما تمس إليه الحاجة 26 )

'' امام بخاری رحمہ اللہ ائمہ اربعہ ابو حنیفہ امام شافعی امام مالک اور امام احمد کی طرح چوٹی کے مجتہد تھے ۔''

4۔ انور شاہ کشمیری حنفی :

مولانا انور شاہ کشمیری حنفی جن کےمتعلق انظر شاہ حنفی '' نقش دوام حیات کشمیری '' ( ص 290 ) پر شیخ علی کا قول نقل کرتے ہیں :

" لو حلفت أنه أعلم بأبي حنيفة لما حنثت "

وہ ( انور شاہ کشمیری حنفی ) لکھتے ہیں :

" واعلم أن البخاري مجتهد لا ريب فيه "

( مقدمه فيض الباري 1 / 58 )

'' یہ بات جان لینی چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مجتہد ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ ''

ایک اور مقام پر امام بخاری کوشافعی المذہب کہنے والوں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

" لكن الحق أن البخاري مجتهد "

( العرف الشذي 1 /126 )

5۔ محمد زکریا حنفی :

محمد زکریا حنفی لکھتے ہیں :

'' یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اہل حدیث اور ائمہ محدثین مقلد تھے یا غیر مقلد ؟ پھر مقلد ہونے کی صورت میں کس کی تقلید کرتے تھے ؟ اس کے اندر علماء کا اختلاف ہے اور یہ بات ہے کہ جو آدمی بڑا ہوتا ہے اس کو ہر شخص چاہتا ہے کہ ہماری پارٹی میں شامل ہو جائے ، کیونکہ اس میں تجاذب اور کشش بہت ہوتی ہے اور ہر ایک اپنی طرف کھینچتا ہے ، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق غیر مقلدین تو کہتے ہیں کہ وہ غیر مقلد تھے اور مقلدین ان کو مقلد مانتے ہیں ، اسی طرح بہت سے شوافع نے اپنے طبقات میں ان کو شافعی تحریر کیا ہے ، چکی کا پاٹ یہ ہے کہ امام بخاری پختہ طور پر مجتہد تھے ۔ ''

( تقریر بخاری شریف 41 )

6۔ سلیم اللہ خان حنفی :

سلیم اللہ خان حنفی ( مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی ) لکھتے ہیں :

'' بخاری مجتہد مطلق ہیں ۔ ''

( فضل الباری 1 / 36 )

7۔ محمد عاشق الہی حنفی :

محمد عاشق الہی بلندی شہری حنفی ، محمد زکریا حنفی کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں :

'' میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ پختہ طور پر مجتہد تھے ، اگر امام صاحب کو مقلد مان لیا جائے تو یہ ہمارے جیسےمقلد نہیں کہلائیں گے کہ جو امام نے کہہ دیا بس اسی پر عمل کر لیا ۔ ''

( سوانح عمری محمد زکریا صا 334 )

8۔ احمد رضا بجنوری حنفی :

احمد رضا بجنوری حنفی لکھتے ہیں :

'' جامع صحیح بخاری مجموعی حیثیت سے اپنے بعد کی تمام کتابوں پر فوقیت و امتیاز رکھتی ہے ، اسکے تراجم و ابواب کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی ذکاوت و دقت نظر کے باعث خصوصی فضیلت و برتری حاصل ہے ، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ خود درجہ اجتہاد رکھتے تھے ، اس لیے انہوں نے جمع احادیث کا کام اپنے نقطہ نظر سے قائم کئے ہوئے تراجم و ابواب کے مطابق کیا ۔ ''

( أنوار الباری شرح اردو صحیح البخاری 2 / 34 )

9۔ علامہ اسماعیل عجلونی حنفی :

ابن عابدین شامی حنفی کے استاذ علامہ اسماعیل عجلونی حنفی لکھتے ہیں کہ :

" كان مجتهدا مطلقا "

( الفوائد الدارري بحواله الكوثر الجاري 7 )

10 ۔ محمد عبد القوی حنفی :

محمد عبدالقوی حنفی لکھتے ہیں :

'' جمہور علماء کی تحقیق میں امام بخاری مجتہد ہیں ۔ ''

( مفتاح النجاح 28 )

11۔ محمد صدیق حنفی :

محمد صدیق حنفی لکھتے ہیں :

'' امام بخاری مجتہد ہیں ، بعض نے کہا شافعی المسلک ہیں لیکن راجح یہی ہے کہ مجتہد ہیں ۔ ''

( الخبر الساری فی تشریحات البخاری 68 )

12۔ عبد الحی لکھنوی حنفی :

عبد الحی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں :

" فقد وجد بعدهم أيضا أرباب الاجتهاد المستقل كأبي ثور البغدادي و داود الظاهري و محمد بن إسماعيل البخاري وغيرهم على ما (لا) يخفى على من طالع كتب الطبقات . "

( النافع الكبير 16 )

'' ان کے بعد اجتہاد مستقل والے حضرات ہوئے ہیں جس طرح کہ ابوثور بغدادی ، داؤد ظاہری اور محمد بن اسماعیل بخاری وغیرہ ہیں ، جس نے کتب طبقات کامطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے ۔ ''

13۔ ابو الحسن سندھی حنفی :

ابو الحسن سندھی حنفی حاشیہ بخاری ( مصری ) میں قول فیصل لکھتے ہیں :

" والصحيح أنه مجتهد "

( بحواله الكوثر الجاري

لأبي القاسم بنارسي 7 )

'' صحیح بات یہ ہے کہ وہ مجتہد تھے ۔ ''

14 ۔ قاری محمد طیب حنفی :

قاری طیب حنفی لکھتے ہیں :

'' امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ صفت تمام محدثین کرام میں امتیازی طور پر معروف ہے ، نسائی رحمہ اللہ کو کہتے ہیں کہ انہوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کا کچھ نقش قدم اختیار کیا مگر بہر حال اصل اصل ہے ، فرع فرع ہے ، صنع بخاری یہ بہت اونچی چیز ہے اور تراجم بخاری یہ تو فی الحقیقت فقہ کا ایک مستقل باب ہے '' فقه البخاري في تراجمه '' ۔ تو امام بخاری رحمہ اللہ محدث بھی ہیں اور فقیہ بھی ہیں نیز اجتہاد کے رتبے کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ ''

( خطبات حکیم الاسلام 5 / 456 )

15۔ نور الحق حنفی :

نور الحق حنفی لکھتے ہیں :

'' وے درزمان خود در حفظ احادیث و اتقان آن و فہم معانی کتاب وسنت و حدت ذہن و جودت قریحت و وفور فقہ و کمال زہد و غایت ورع و کثرت اطلاع بر طرق حدیث و علل آں ودقت نظر و قوت اجتہاد و استنباط فروع از اصول نظیرے نداشت . ''

'' وہ اپنے زمانہ میں حدیث ے حفظ و اتقان ، معانی کتاب وسنت کے فہم ، ذہن کی تیزی ، حافظہ کی عمدگی ، وفور قہ ، کمال زہد ، غایت ورع ، اسانید وعلل حدیث پر کثرتِ اطلاع ، دقت ، قوت اجتہاد اور اصول سے فروع استنباط کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے ۔ ''



امام بخاری کسی فقہی مذہب کے پابند نہ تھے ، احناف کی زبانی :

1۔ قاضی عبد الرحمن حنفی فاضل دار العلوم دیوبند لکھتے ہیں :

'' بعض فقہی مسائل میں امام شافعی رحمہ اللہ کی موافقت کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کو شافعی کہنے کا جواز نکل سکتا ہے اور اسی طرح بعض قرائن سے انہیں حنبلی کہا جاسکتا ہے تو اسحاق بن راہویہ کا شاگرد ہونے کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کو حنفی المسلک بھی کہا جاسکتا ہے ، پھر بہت سے مسائل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے امام شافعی کی مخالفت اور حنفیہ کی تائید بھی کی ہے ، انہوں نے جس طرح احناف سے اختلاف کیا ہے اسی طرح شوافع سے بھی کیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تراجم ابواب میں جو بالغ نظری پائی جاتی ہے اس کے پیش نظر ان کو کسی مسلک کا پابند نہیں کہا جاسکتا وہ کسی مسلک کے متبع نہ تھے بلکہ خود ایک مجتہد کی شام رکھتے تھے ۔ '' ( فضل الباری 1 / 64 )

2۔ انور شاہ کشمیری حنفی جن کے متعلق مولانا اشرف علی تھانوی حنفی کہتے ہیں :

" إن وجود مثله في الملة الإسلامية آية على أن الإسلام دين حق وصدق . "

( ترجمة صاحب العرف الشذي على جامع الترمذي ، مكتبه رحمانيه لاهور )

وہ ( انور شاہ کشمیری حنفی ) لکھتے ہیں :

" واعلم أن البخاري مجتهد لا ريب فيه وما اشتهر أنه شافعي فلموافقته إياه في السمائل المشهورة و إلا فموافقته للإمام الأعظم ليس بأقل مما وافق فيه الشافعي ، وكونه من تلامذة الحميدي لا ينفع لأنه من تلامذة إسحاق بن راهويه أيضا فهو حنفي ، فعده شافعيا باعتبار الطبقة ليس بأولى من عده حنفيا . " ( فيض الباري 1 / 58 )

عبارت مذکورہ کا خلاصہ یہ ہےکہ امام بخاری رحمہ اللہ مجتہد تھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ، اور یہ جو مشہور ہے کہ آپ شافعی ہیں تو وہ مسائل مشہورہ میں امام شافعی رحمہ اللہ سے موافقت کی وجہ سے ہے ، اگر یہ بات کہی جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں جو کہ شافعی ہیں تویہ بات بھی اس کے لیے دلیل اور فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ آپ اسحاق بن راہویہ ک بھی شاگرد ہیں جو کہ حنفی ہیں رہی بات امام شافعی سے موافقت والی تو آپ نے بہت سے مسائل میں اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے موافقت کی ہے ۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے فرمایا:

صحیح البخاری صحیح احادیث کا وہ مجموعہ ہے جسے امت مسلمہ کے جلیل القدر اماموں نے بلاتفاق تلقی بالقبول کرتے ہوئے ’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ یعنی قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب قرار دیا ہے۔(صحیح بخاری، جلد اول، صفحہ 58)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
@محمد عامر یونس بھائی۔ صرف کاپی پیسٹ نہیں کیا کریں۔ پڑھ بھی لیا کریں اور موضوع سے متعلق پوسٹ کیا کریں۔
شکریہ

نزاع یہ تھا کہ چھ سو صدی سے پہلے کے علماء نے صحیح بخاری کو "اصح الکتب" قرار نہیں دیا۔ یاد رہے صحیح تو کہا ہے لیکن اصح نہیں۔ اصح کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔
اب اپنی کاپی پیسٹ کا حال دیکھیں:۔

اجماع ! صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے !!!

صحیح بخاری میں شک کرنے والے کارد


میرے ایک شیعۃ دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ :

ہم صحیح بخاری پرکس طرح اعتماد اور اس کے صحیح ہونے کا دعوی کریں حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی چار صدی بعدوجود میں آۓ ؟


الحمد للہ:


امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی وفات ( 256 ھـ ) میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ( 245 ) سال بعد ہوئ ، اورجیسا کہ آپ کے شیعۃ دوست کا گمان ہے اس طرح نہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ جب جھوٹ اپنی اصلی جگہ سے نکلے تواس پرتعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔


اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس سے یہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں قطعی طور پریہ مراد نہیں ہے ہم نے صرف اسے وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے ۔


اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم صحیح بخاری پر اعتماد کس طرح کر سکتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہی نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ :


امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔


اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔

تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :

علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونوں میں صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔

نووی رح چھ سو صدی کے بعد کے ہیں۔

امام ابن الصلاح اپنی مشہور تالیف علوم الحدیث میں رقمطراز ہیں کہ

''وکتا بھما أصح الکتب بعد کتاب اللہ العزیز''( مقدمۃ ابن الصلاح ص18)

ترجمہ۔ یعنی بخاری و مسلم صحیح کتا بیں ہیں کتا ب اللہ کے بعد ۔
ابن الصلاح چھٹی صدی کے ہیں۔

شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔

صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں تمام محد ثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام احادیث متصل ہیں اور مر فو ع ہیں اور تمام کی تمام یقینا صحیح ہیں یہ دونوں کتا بیں اپنے مصنفین تک متواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کر ے وہ مسلمان کی راہ کے خلاف چلتا ہے

(حجۃ البالغہ صفحہ 241)
شاہ ولی اللہؒ چھٹی صدی کے بعد کے اور "اصح" کا ذکر موجود نہیں۔

نیز علامہ عینی حنفی رقمطراز ہیں کہ :

''وقد اجمع علماء الاسلام منذقرون طویلۃالی ھذا الیوم علی انہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ''

( علامہ عمدۃالقاری صفحہ6)


تر جمہ ۔ صحیح بخاری لکھنے کے بعد جتنے بھی علماء ہیں ان سب کا اجماع ہے کہ بخاری (کا درجہ)کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کے بعد ہے کتاب اللہ کے بعد وہ سب سے صحیح تر ین کتاب ہے
مترجم جو بھی ہے ہائیلائٹ کیا ہوا کوئی لفظ عربی عبارت میں موجود نہیں ہے۔ اب اسے خیانت سمجھیں یا فاش غلطی۔

غلام رسول رضوي بريلوي صاحب فرماتے ہیں :

تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصحح کتاب ہے۔

حوالہ : تفہیم البخاری شرح صحیح بخاری 5/1 ،
ویسے تو میں ان کی علمیت کی وجہ سے کچھ کہہ ہی نہیں سکتا کیوں کہ میرے نزدیک ان کی بہت سی غلطیاں ہیں۔
لیکن اس عبارت میں "تمام محققین" میں امت کے تمام فقہاء، مجتہدین، محدثین، علماء نہیں آتے جو قرون اولی سے آج تک کے ہوں۔

پیر کرم شاہ بھیروی بریلوی فرماتے ہیں :

جمہور علمائے امت نے گہری فکر و نظر اور بےلاگ نقد و تبصرہ کے بعد اس کتاب کو "اصحح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری" کا عظیم الشان لقب عطا فرمایا ہے۔

حوالہ : سنت خیر الانام ، ص:175 ، طبع:2001ء
جمہور۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی صدی سے پہلے؟؟؟؟

ملا علی قاری الحنفی کہتے ہیں :
پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔

حوالہ: مرقاۃ المفاتیح ، 58/1 ۔
اس "تمام" کو عربی عبارت میں دکھانا پڑے گا۔ اردو میں تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ ویسے جب اجماع کا ذکر ہو تو کسی ایک زمانے کے تمام علماء مراد ہوتے ہیں ہر زمانے کے نہیں۔

امام شمس الدين السخاوی کی "فتح المغيث شرح ألفية الحديث" صفحہ نمبر 34 پر لکھا ہے :


ولفظ الأستاذ أبي إسحاق الإِسفرائيني أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها

اردو ترجمہ (ارشاد الحق اثری) :

امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی المتوفی 408ھ ، فرماتے ہیں :
فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔
"اصح" کہاں ہے؟

علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ :


اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري -

جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے

مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔
ہائیلائٹ شدہ "تمام" عربی عبارت میں موجود نہیں۔ دوسرا کسی ایک زمانے کے تمام مراد ہوتے ہیں نہ کہ ہر زمانے کے۔

امام نسائی فرماتے ہیں :

اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین

بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
"اصح" لکھا ہوا مجھے تو نظر نہیں آیا۔ آپ دکھا دیں۔

امام الحرمین 'امام جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔

(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)

اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم میں کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے 'تو ایسی صورت میں اس کی بیوی نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص حانث ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔


امام أبو نصر السجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لو حلف الطلاق أن جمیع ما فی کتاب البخاری مما روی عن النبی قد صح عنہ و رسول اللہ قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأة بحالھا فی حبالتہ۔

(مقدمہ ابن الصلاح'حافظ ابن الصلاح' ص٢٦'دار الحدیث بیروت)

تمام اہل علم فقہاء اور ان کے علاوہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول سے مروی روایات موجود ہے وہ آپ سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ ہی کے فرامین ہیں'تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں باقی رہے گی۔


علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

و جاء محمد بن اسماعیل البخاری امام المحدثین فی عصرہ فخرج احادیث السنة علی أبوابھا فی مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التی للحجازیین و العراقیین و الشامیین و اعتمدوا منھا ما أجمعوا علیہ دون مااختلفوا فیہ... ثم جاء الامام مسلم بن الحجاج القشیری فألف مسندہ الصحیح حذا فی حذو البخاری فی نقل المجمع علیہ

(مقدمہ ابن خلدون'ص٤٩٠'دار الجیل'بیروت)

اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا...پھر امام مسلم بن حجاج القشیری آئے انہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا کہ جن کی صحت پر اجماع تھا۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔

(قطر الولی'ص٢٣٠٭)


اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہوناامت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول ' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔


شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:

أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔

(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)


جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں وجود ہیں وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔

محدث العصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصلالمرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔

(مقدمة تحفة الأحوذی'ص٤٧'دار الکتب العلمیة' بیروت)


جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو بھی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔


معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز صفدر خاں لکھتے ہیں:

بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پرامت کا اجماع و اتفاق ہے۔اگر صحیحین کی 'معنعن'حدیثیں صحیح نہیں تو امت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں۔

(أحسن الکلام'مولانا محمد سرفرازصفدر خان 'جلد١'ص٢٤٩'طبع سوم اکتوبر ١٩٨٤)
آپ کو "اصح" لکھا ہوا نظر آ رہا ہے؟

محترم بھائی۔ کاپی پیسٹ کر کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش نہ کریں۔
چھٹی صدی کے بعد "اصح الکتب" کے الفاظ ملتے ہیں۔ اس سے پہلے کا اگر دعوی ہے تو کسی ایک عالم کے الفاظ لے آئیے۔ میں اپنے موقف سے دستبردار ہو جاؤں گا۔

@خضر حیات بھائی۔
میں نے شاہد صاحب کے اپنے دعوے یا الزام میں سے ایک جملے کی وضاحت کے لیے دلیل مانگی ہے۔ یہ ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ انہیں دلیل دینے کا پابند کیجیے۔
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
عامر بھائی جناب نے علامہ عینی حنفی کی اس عبارت کا ترجمہ سو فیصد غلط کیا ہے !

نیز علامہ عینی حنفی رقمطراز ہیں کہ :

''وقد اجمع علماء الاسلام منذقرون طویلۃالی ھذا الیوم علی انہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ''

( علامہ عمدۃالقاری صفحہ6)


تر جمہ ۔ صحیح بخاری لکھنے کے بعد جتنے بھی علماء ہیں ان سب کا اجماع ہے کہ بخاری (کا درجہ)کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کے بعد ہے کتاب اللہ کے بعد وہ سب سے صحیح تر ین کتاب ہے
یہ خطِ کشید الفاظ کس عربی عبارت کا ترجمہ ہیں؟

اس عبارت میں "تمام" کس عربی لفظ کا ترجمہ ہے؟
علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ :

اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري -

جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے
مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔

پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ " اسی فورم کی علمی نگران جناب ابوالحسن علوی صاحب نے ایک دھاگہ میں اجماع کی وضاحت کی ہے اسے پڑھیں( اجماع ایک زمانے کے جمیع مجتہدین کے اتفاق کو کہتے ہیں )
ہر زمانے کے اجماع کو نہیں کہتے بقول علمی نگران جناب ابو الحسن علوی صاحب
یہاں بھی علامہ عینی کے زمانہ سن900 ھ کے شرق وغرب کے علماء کا اجماع مراد ہے

ہمارے دعویٰ کے چھٹی ھ سے پہلے کسی عالم کا یہ قول نہیں ملتا کہ "بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ " ہے کا رد ابھی تک کوئی اہل حدیث اس دھاگہ میں نہیں کر سکا اور ان شاء اللہ نہ ہی کر سکے گا۔

امام بخاری کی وفات 256 سے لیکر 556 تک کیا کوئی اہل حدیث صرف چار محدثین کے حوالے پیش کر سکتا ہے کہ انہوں نے کہا ہو کہ "بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ " ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

علماء دیوبند کے اجماع والی بات کا بھی یہی مطلب ہے کہ اُس زمانے کے علماء کا اجماع جس زمانے میں دعوی کیا گیا نہ کے ہر زمانے کا اجماع !


کیا آج احناف اس اجماع کے منکر ہیں -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کیا آج احناف اور اہلحدیث میں سے کوئی ہے جو اس اجماع کے منکر ھو -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا آج احناف اس اجماع کے منکر ہیں -
کیا آج احناف اور اہلحدیث میں سے کوئی ہے جو اس اجماع کے منکر ھو -
لولی بھائی۔
دو الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک اجماع کا انکار اور ایک کسی مسئلہ میں اجماع کے ثابت ہونے کا انکار۔
اجماع کا انکار احناف میں سے کوئی نہیں کرتا۔ البتہ ثابت ہونے کا انکار کرنا ممکن ہے۔ اس صورت میں مدعی اجماع کو اجماع ثابت کرنے کے لیے دلیل دینی پڑے گی۔
فی الحال ہم یا میں تو چھٹی صدی کے بعد کے اجماع کے ثابت ہونے کا انکار نہیں کرتے۔ اور چھٹی صدی سے پہلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ثابت نہیں ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ثابت ہے تو اس ثبوت پر اس کو دلیل لانی ہوگی۔ (دلیل اصحیت پر لانی ہے اور فریق ثانی صحت پر لاتا ہے۔ صحت کے تو ہم بھی قائل ہیں اس لیے یہ دلیل دعوے کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن گھما پھرا کر پھر وہی بات کر دی جاتی ہے۔)

@شاہد نذیر !
آپ بھی اسے ملاحظہ فرما لیں کیوں کہ پیچھے آپ یہ فاش غلطی دو تین بار کر چکے ہیں۔ اگر ہماری بات آگے چلتی ہے تو میں اس معاملے کو لاؤں گا ان شاء اللہ۔
فی الحال تو آپ کے دعوے یا الزام کے ایک جملے پر میں نے آپ سے دلیل مانگی ہے اپنی کسی بات پر نہیں۔ یا اس جملے سے رجوع کر لیں یا دلیل دے دیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
137 پوسٹس ہو چکی ہیں، لا یعنی وبے فائدہ بحث جاری ہے۔

کیا اجماع تب ہی شرعی حجت ہوتا ہے جب وہ شروع سے ہو؟؟! اگر کسی شرعی حکم پر اجماع تیسری صدی ہجری میں ہوا ہو تو کیا وہ بعد والوں کیلئے حجت نہیں ہوگا؟؟!

مثلاً صحیح بخاری کے متعلّق فورم پر موجود حنفی حضرات کے بقول اجماع چھ سو سال کے بعد ہوا! اس سے پہلے نہیں ہوا۔ اور اس سے پہلے اس کے مخالف بھی اقوال موجود نہیں۔

اگر اسے بالفرض مان بھی لیا جائے تو نتیجہ میں کیا فرق پڑا؟؟؟

کیا اس سے صحیح بخاری کی صحت پر کوئی فرق پڑا؟؟ ہرگز نہیں! اور یہ بات حنفی حضرات کو بھی تسلیم ہے۔ تو پھر بحث کیسی؟!!

ہاں! ایک صورت میں فرق پڑ سکتا ہے۔ چھ سو سال سے پہلے علماء سے اس اس کے خلاف اقوال موجود ہوں۔

اگر کوئی ایسے اقوال ہوں تو حنفی حضرات کو وہ اقوال پیش کرنا چاہئیں ورنہ یہ سراسر لفظی بحث اور وقت کا ضیاع ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
137 پوسٹس ہو چکی ہیں، لا یعنی وبے فائدہ بحث جاری ہے۔

کیا اجماع تب ہی شرعی حجت ہوتا ہے جب وہ شروع سے ہو؟؟! اگر کسی شرعی حکم پر اجماع تیسری صدی ہجری میں ہوا ہو تو کیا وہ بعد والوں کیلئے حجت نہیں ہوگا؟؟!

مثلاً صحیح بخاری کے متعلّق فورم پر موجود حنفی حضرات کے بقول اجماع چھ سو سال کے بعد ہوا! اس سے پہلے نہیں ہوا۔ اور اس سے پہلے اس کے مخالف بھی اقوال موجود نہیں۔

اگر اسے بالفرض مان بھی لیا جائے تو نتیجہ میں کیا فرق پڑا؟؟؟

کیا اس سے صحیح بخاری کی صحت پر کوئی فرق پڑا؟؟ ہرگز نہیں! اور یہ بات حنفی حضرات کو بھی تسلیم ہے۔ تو پھر بحث کیسی؟!!

ہاں! ایک صورت میں فرق پڑ سکتا ہے۔ چھ سو سال سے پہلے علماء سے اس اس کے خلاف اقوال موجود ہوں۔

اگر کوئی ایسے اقوال ہوں تو حنفی حضرات کو وہ اقوال پیش کرنا چاہئیں ورنہ یہ سراسر لفظی بحث اور وقت کا ضیاع ہے۔
اجماع بعد والوں پر حجت ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کے حجت ہونے کی بحث نہیں کی اور اسے مان بھی رہے ہیں اعتمادا۔

لیکن آخر اس پر اڑے رہنے کا کیا مطلب ہے کہ جب سے صحیح بخاری لکھی گئی ہے تب سے ہی اس خاص بات یعنی اصحیت بعد کتاب اللہ پر اجماع ہے؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
شاہد صاحب کی بات میں ایک ایک بات کی وضاحت ہو جائے تا کہ الزام قبول یا رد کرنا ممکن ہو سکے۔

سب سے پہلی بات: اس بات پر دلیل کہ اگر بالفرض بالفرض بالفرض دیوبندی اکابرین نے تمام امت مسلمہ بشمول مدت متنازعہ کے علماء کے اجماع کی بات کی ہے اور ہم اسے غلط قرار دیتے ہیں تو "یہ ان کی غلطی نہیں بلکہ کذب سمجھا جائے گا۔"
اس پر دلیل دیجیے تاکہ ہم اگلی بات کریں۔
چلیں آپ اپنی بات کی وضاحت کریں بات آگے بڑھاتے ہیں۔ دیوبندی اکابرین نے امت مسلمہ کے اجماع کی جو بات کی ہے اس کی مدت کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی لفاظی یا تاویلات قابل قبول نہیں ہونگی بلکہ آپ کو اپنے ہی کسی عالم یا اکابر کا قول یا وضاحت پیش کرنی ہوگی۔ جب دعویٰ آپ کے اکابرین کا ہے تو اسکی وضاحت بھی انہیں کی ہوگی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دعویٰ آپ کے اکابرین کریں اور وضاحتیں آپ پیش کریں اور وہ بھی ایسی وضاحتیں جو اصل عبارت کے خلاف ہیں۔

جہاں تک دیوبندی اکابرین کی غلطی یا کذب کی بات ہے تو ہمارے نزدیک دیوبندی اکابرین نے نہ کذب بیانی کی ہے نہ غلطی کی ہے بلکہ ایک حق اور سچ بات کہی ہے جس کی تصدیق اہل حدیث کے موقف سے بھی ہوتی ہے اور واقعتاً بھی یہی بات درست ہے کہ بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ ظاہر ہے یہ جملہ عموم پر دلالت کرتا ہے جس میں بخاری کے وجود میں آنے کے بعد ہر زمانہ مراد ہے نہ کہ کوئی مخصوص زمانہ۔ جب بھی کوئی دیوبندی اس اجماع کو جھوٹا کہے گا تو پہلے اسے اپنے ان اکابرین کو جھوٹا تسلیم کرنا پڑے گا جنھوں نے بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ ظاہر ہے جب اجماع جھوٹا ہے تو اس اجماع کے دعویدار بھی جھوٹے ہیں جن میں دیوبندی اکابرین و علماء بھی شامل ہیں۔
 
Last edited:
Top