• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقیمو االصلوٰۃ و اٰتو االزکوٰۃ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بنی اسرائیل کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا تھا
زید بن سلام سے روایت ہے کہ ان سے ابو سلام نے کہا کہ ان سے حارث اشعری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ نے یحییٰؑ کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا تھا کہ ان پر خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل سے کہیں کہ وہ بھی ان پر عمل کریں یحییٰؑ کو اس میں کچھ تاخیر ہونے لگی تو عیسیٰؑ نے فرمایا:اللہ نے آپ کو پانچ باتوں کے بارے میں حکم دیا تھا کہ آپ خود بھی ان پر عمل پیرا ہوں اور بنی اسرائیل سے بھی ان پر عمل کرنے کو کہہ دیں تو یا تو آپ ان سے کہہ دیجئے یا پھر میں ہی ان سے کہہ دوں یحییٰؑ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ اس سلسلہ میں آپ نے مجھ سے سبقت کی تو کہیں میں زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں یا کسی عذاب میں گرفتار نہ ہو جاؤں اس کے بعد انھوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا جب وہ خوب بھر گیا اور لوگ گیلریوں تک بیٹھ گئے تو فرمایا:اللہ نے مجھے پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا ہے کہ خود بھی ان پر عمل کروں اور تمہیں بھی ان پر عمل کرنے کی تاکید کروں پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو کیونکہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص صرف اپنے سونے چاندی کے مال سے ایک غلام خریدے اور اسے بتا دے کہ دیکھ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے ، تو کام کرنا اور اجرت مجھے دیتے رہنا وہ کام تو کرے مگر اجرت اپنے آقا کے بجائے کسی اور شخص کو دیدے بھلا تم میں یہ کو ن پسند کرے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو اور یہ کہ اللہ نے تمہیں نماز کا حکم دیا ہے لہٰذا جب تک نماز میں رہو ادھر ادھر نہ دیکھو کیونکہ اللہ اپنے بندے کی طرف پوری طرح متوجہ رہتا ہے جب تک وہ ادھر ادھر نہیں دیکھتا اور اس نے تمہیں روزے کا حکم دیا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی جماعت میں ایک شخص ہو جس کے پاس ایک تھیلی ہو جس میں مشک ہو اور ہر شخص کو اس کی خوشبو اچھی معلوم ہوتی ہو اور اللہ کے نزدیک روزہ دار کی بو مشک کی خوشبو سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور اس نے تمہیں صدقے کا حکم دیا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کو دشمن نے قید کر لیا ہو اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سے باندھ دئے ہوں اور اس کی گردن مارنے کے لیے اسے لے جا رہے ہوں وہ کہے کہ میں اپنی جان کے عوض تھوڑا اور بہت سب دیتا ہوں اور اس طرح فدیہ دے کران سے اپنی جان چھڑا لے اور اس نے تمہیں ذکر اللہ کا حکم دیا ہے کیونکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ہو جس کے تعاقب میں دشمن تیزی سے آ رہا ہو، یہاں تک کہ یہ شخص کسی مضبوط قلعے کے اندر آ جائے اور اپنی جان کو دشمن سے بچا لے اسی طرح بندہ اللہ کے ذکر کے سوا کسی طرح بھی اپنے آپ کو شیطان سے نہیں بچا سکتا معلوم ہوا کہ نماز، زکوٰۃ ، صدقات یہ سب شیطان سے بچاؤ کے لئے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتے ہیں (رواہ الترمذی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
زکوٰۃ نہ دینا علامت قیامت میں سے ہے
حضرت ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب مال غنیمت کو ذاتی دولت قرار دے لیا جائے اور امانت کو غنیمت قرار دے لیا جائے اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جائے اور علم کو دین کو دنیاوی غرضوں کے لیے حاصل کیا جائے اور مرد عورت کی اطاعت کرنے لگے اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے اور اسے رنج دے اور اپنے دوست کو ہم نشین بنائے اور اپنے باپ کو دور کر دے اور مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں اور قبیلہ کی سرداری قبیلہ کا ایک فاسق شخص کرے اور قوم کا سربراہ قوم کا نہایت کمینہ شخص ہو اور آدمی کی تعظیم اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے اور گانے والی لونڈیاں اور باجے پھیل جائیں اور شرابیں پی جانے لگیں اور اس امت کے پچھلے لوگ اس کے اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں تواس وقت انتظار کروسرخ آندھی، زلزلہ، زمین کے دھنسنے ، صورتوں کے مسخ ہونے ، پتھروں کے برسنے کا اور ان پے درپے نشانیوں کا گویا وہ موتیوں کی ایک ٹوٹی ہوئی لڑی ہے جس سے موتی پے درپے گر رہے ہوں (رواہ الترمذی)
چونکہ اس پیشن گوئی میں زکوٰۃ کا بھی ذکر ہے اس لئے پوری حدیث لکھنے کی ضرورت پڑی اس کے علاوہ کتب احادیث میں کثرت کے ساتھ مثالیں موجود ہیں .
یہ چند مثالیں ہیں جس سے نماز اور انفاق کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اس کے بعد بالترتیب ابواب میں آیات قرآنی اس طرح ہیں پہلا باب ''وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ'' یعنی وہ آیات جس میں نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ہے دوسرا باب ''اقیمواالصلوٰۃ وممارزقنھم ینفقون'' یعنی جس میں نماز اور خرچ کرنے کا ذکر ہے تیسرا باب ''الصلوٰۃ'' یعنی جس میں صرف نماز کا ذکر ہے چوتھا باب ''الانفاق'' جس میں صرف خرچ کا ذکر ہے پانچواں باب میں بخل کی مذمت کا ذکر ہے چھٹواں باب میں نقشہ آئینہ نماز اور آئینہ زکوٰۃ اور مختصر نماز کا طریقہ ہے ساتواں باب میں سجدۂ تلاوت اور آٹھواں اور آخری باب مسجدوں و دیگر سجدوں کا مختصر بیان ہے ۔

*****​
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پہلا باب

پرہیزگاروں کی صفات
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣البقرہ
ترجمہ :اس کتاب میں کوئی شک نہیں ، پرہیزگاروں کیلئے ہدایت کرنے والی ہے ، جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں خرچ کرتے ہیں ۔
توضیح:الحمدللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے موضوع کتاب کے تحت قرآن کریم کی پہلی آیات کی توضیح کا شرف حاصل کر رہا ہوں ۔
قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اور اس سے صرف ان لوگوں کو ہدایت مل سکتی ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ، مفسر القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یوں تفسیر فرمائی ہے کہ ''متقین وہ لوگ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے جملہ احکامات کو بجا لائیں ''غیب پر ایمان کیا ہے وہی نا جو قرآن میں اور احادیث نبوی ﷺ میں بتایا گیا ہے پھر متقین کی علامتوں سے اہم علامت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ لوگ نماز کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں اور یہ مال جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بطور امانت دے رکھا ہے اس میں سے فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہیں پھر یہ صفات جن میں ہوں گی وہی متقی ہیں اور یہی اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں اس کے بعد کی چوتھی آیت میں مزید تشریح کے ساتھ لوگوں کو اللہ پر اور تمام رسولوں پر اور جو کچھ ان پر نازل ہوا ہے ایمان رکھنے کی تاکید کے ساتھ کامیابی و کامرانی کی سند دی گئی ہے الھم اجعل منھم آمین مسلمانو تم نماز قائم کرنے والے اور ضرورت مندوں و حاجت مندوں پر خرچ کرنے والے بن جاؤ تاکہ ہم سے اللہ تعالیٰ خوش رہے اور ہم اس کی بندگی کا حق ادا کر سکیں ۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ ﴿٤٣البقرہ
ترجمہ :اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔
توضیح:اقامت نماز اور اقامت زکوٰۃ کے بارے میں قرآن کریم کی پہلی آیت ہے اس کے پہلے کی آیات میں یہود و نصاریٰ کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم حق نہ چھپاؤ جب کہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ اللہ کے پیغامبر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سچے رسول ہیں اور آپ پر جو پیغام نازل ہو رہا ہے وہ سچا ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی تم کس ہٹ دھرمی میں ہو اور اب حق کو تسلیم کرتے ہوئے رحمۃ اللعلمین ﷺ کے ساتھ مل کر نمازیں قائم کرو اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کرتے رہو رکوع و سجود میں اصحاب کرام کے ساتھ شامل رہا کرو آیت مذکورہ سے کئی مسائل مستنبط ہوتے ہیں مثلاً:حالت نماز میں امام کی پیروی ، کسی بھی ارکان میں امام سے سبقت نہ ہو اور جس حالت میں امام ہو بعد میں شریک ہونے والے اسی حالت میں شامل ہو جائیں اقامت صلوٰۃ و اقامت زکوٰۃ سے دین محمدی ﷺ میں عمل پیرا ہونے کا حق ادا ہو گا وغیرہم۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٨٣البقرہ
ترجمہ :اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اسی طرح قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا اور نمازیں قائم کرنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا۔
توضیح:اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے جو عہد و پیماں لیا مذکورہ آیت میں واضح ہے جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی مثال دی گئی ہے نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہنا یہ بھی ایک اہم بات ہے جواس شریعت میں بھی بنی اسرائیل کو کرنے کی تاکید کی گئی تھی مگر بہت کم ہی لوگوں نے اس پر عمل کیا ورنہ اکثریت نے کفر کا راستہ اختیار کیا اسی کفر کے سبب قوم عذاب الٰہی کا شکار ہوئی امت محمدیہ ﷺ کو بھی مذکورہ باتیں کا حکم دیا گیا ہے مگر کتنے لوگ ہیں کہ اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ‌ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿١١٠البقرہ
ترجمہ :تم نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے وہ سب کچھ اللہ کے پاس پا لو گے بے شک اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو
توضیح:یہود و نصاریٰ رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺسے اور مومنین سے بہت زیادہ حسد کرتے تھے اسلام کی شان و شوکت کو دیکھ کر جلے مرتے تھے دوسرے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے تھے اور اس کو شش میں تھے کہ مسلمان دین اسلام سے پھر جائیں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ آپ ان لوگوں سے درگزر کا معاملہ کریں گویا صبر و استقلال کی تعلیم دی گئی ہے اور مومنوں کو تاکید کی گئی ہے کہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اس سے دنیا میں تمہیں غلبہ اور رحمت و مدد عطا کرے گا اور آخرت میں جہاں ایک ایک نیکی کے لئے ترسیں گے وہاں اجر و ثواب کا ذخیرہ نصیب کرے گا ان شاء اللہ۔
لَّيْسَ الْبِرَّ‌ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِ‌قِ وَالْمَغْرِ‌بِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّ‌قَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِ‌ينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّ‌اءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿١٧٧البقرہ
ترجمہ :نہیں ہے ساری بھلائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں لیکن بھلائی اس میں ہے کہ جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور اللہ کی کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لے آئے اور جو اللہ کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں پر اور غلاموں کو آزاد کرنے میں اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے اور صبر کرے ، تنگدستی دکھ درد میں اور حالت جنگ میں یہی توسچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار متقین ہیں ۔
توضیح:آیت مذکورہ میں ایمان کا ماحصل بیان کیا گیا ہے پہلے مومنوں کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا بعد میں حکم نازل ہوا کہ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں مومنوں نے حکم الٰہی کی تعمیل فرمائی مگر بعض اہل ایمان کو شاق گزرا تو اللہ رب العلمین نے آیت ہٰذا نازل فرما کر یہ واضح فرما دیا کہ اصل مقصد اطاعت الٰہی ہے اس کا جو حکم ہے اسے تسلیم کر لیا جائے صحابی اجل حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺسے عرض کہ حضور ایمان کیا ہے ؟تو آپ ﷺ نے آیت مذکورہ پڑھ کر سنا دی (ابن ابی حاتم) اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کسی نے ایسا ہی ایمان کے بارے سوال کیا تو آپ نے بھی یہی آیت پڑھ کر سنا دی اور فرمایا کہ میں نے بھی حضورﷺ سے یہی سوال کیا تو آپﷺ نے بھی یہی آیت پڑھ کر سنائی۔
آیت مذکورہ میں دیگر حقوق کے ساتھ اقامت نماز اور اقامت زکوٰۃ کا بھی ذکر خاص ہے ہمیں چاہئے ہم بھی ان باتوں پر عمل کرنے والے بن جائیں تاکہ ہم مومن ہونے کا حق ادا کر سکیں ۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٢٧٧البقرہ
ترجمہ :بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور نمازیں قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے ان کا اجر اللہ رب العلمین کے پاس ہے ان پر نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی رنج و غم۔
توضیح:اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کی آیات میں سود اور بیاج کی حرمت و قباحت و نقصان اور تجارت کی حلت و فوائد بیان فرمائے ہیں جو بھی مومن و مسلمان سود کی مہلک و خطرناک دلدل میں پھنسے گا وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہو گا اور جو شخص صدقہ و خیرات کرتے رہے گا اس کے کاروبار میں برکت و رحمت نازل ہو گی اور اس کے بعد بتایا گیا کہ ایمان لانے کے بعد نام کے مسلمان نہ رہیں بلکہ عمل صالح نیک اعمال کرتے رہیں نیک اعمال کی اہم علامت اقامت نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی ہے جس سے دنیا و آخرت کی سعادتیں نصیب ہوں گی اور اس کے چھوڑنے والے نہایت بدبخت اور شقی ہیں ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِ‌يقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَ‌بَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْ‌تَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِ‌يبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا ﴿٧٧النساء
ترجمہ :کیا اپ نے انہیں نہیں دیکھا جنھیں کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان لوگوں کو جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کا ایک گروہ اس قدر ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈر اور کہنے لگے اے ہمارے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کا فائدہ تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔
توضیح:ابتدا اسلام میں جبکہ مسلمان مکۃ المکرمہ میں کمزور اور کم تھے وہاں مشرکین ہر اعتبار سے فوقیت رکھتے تھے اور مومنین پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہوئے تھے رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺ اپنے جاں نثاروں کو صبر و استقلال کی تعلیم دیتے رہتے تھے ادھر مومنین کے جذبات کفار سے مقابلہ کے لئے بے تاب تھے چونکہ اب تک پرامن دعوت کا کام چل رہا تھا مشرکین کے رد عمل میں کوئی ایسی کاروائی کرنے کی آپﷺ نے اجازت نہیں دی تھی جس سے تنازعے پیدا ہو اور توحید کی دعوت میں کوئی رکاوٹ اکثر مومنین کے زبانوں میں آ جاتا تھا کہ کب جہاد کی آیات نازل ہوں اور ہم کفار کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں پھر طویل عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہجرت کا حکم دیا لوگ مکہ المکرمہ چھوڑ مدینہ المنورہ چلے گئے جہاں مومنین کو ہر اعتبار سے تعاون ملا اور اسلام پھولا پھلا اور مومنین کو راحت نصیب ہوئی اسلام کی اشاعت کے لئے راہیں ہموار ہوئیں ۔
بعد ہجرت اللہ تعالیٰ نے جہاد کے احکامات نازل فرمائے جہاد کا حکم نازل ہوتے ہی کچھ اللہ کے بندے خوف زدہ ہو گئے میدان جنگ کے تصورات سے بشری تقاضے کے تحت گھبراہٹ میں ان کی زبانوں سے یہ الفاظ نکل گئے کہ اے اللہ ابھی جہاد کیوں فرض ہو گیا اسی پس منظر کو مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔
اس سے قبل مومنوں کو حکم دیا گیا کہ نمازیں قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اہل ایمان برابر نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے تھے لیکن تمنا کرتے تھے کہ جہاد بھی فرض ہو جائے احکامات نازل ہوتے ہی مومنوں نے آمنا و صدقنا فرما کر رضی اللہ عنھم و رضو عنہ کے القاب سے ملقب ہوئے البتہ منافقین کا گروہ تا دم آخر حیلے بہانے پر قائم رہے آخر ان کا انجام من الدرک الاسفل من النار ہوا۔
لَّـٰكِنِ الرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ أُولَـٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١٦٢النساء
ترجمہ :لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں اور مومن ہیں ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپﷺ کی طرف اتارا گیا اور اس پربھی جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ نمازوں کو قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں اور اللہ پر روز قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں ، یہی تو ہیں جنھیں ہم بہت بڑے اجر و ثواب سے نوازنے والے ہیں
توضیح:اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی سرکشی و طغیانی ظلم و زیادتی و حد سے تجاوز و حرام خوری کی وجہ سے ان پر حلال اور پاکیزہ چیزیں حرام کر دی گئی تھیں اور انہیں ان کی حرکتوں کی سزا ملی تھی اور عذاب الٰہی ایسے لوگوں کے لئے تیار ہے ۔
مگر کچھ پختہ علم رکھنے والے ان میں بھی تھے جو آپ ﷺ پر ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام و حضرت ثعلبہ بن سعید و حضرت اسید بن عبید اللہ حضرت زید بن ابن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنھم جن کی تعریف آیت مذکورہ میں ہے کہ وہ اللہ پر یوم آخرت اور کتاب ہذا (قرآن) پر اور سابقہ کتب (توریت، زبور، انجیل) پربھی ایمان رکھتے اور ان کی خاص صفات کہ وہ نمازوں کو قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ رب العلمین اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔
وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ‌ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُ‌سُلِي وَعَزَّرْ‌تُمُوهُمْ وَأَقْرَ‌ضْتُمُ اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَ‌نَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ ۚ فَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿١٢المائدہ
ترجمہ :اور تحقیق کہ اللہ نے بنی اسرائیل سے عہدو پیمان لیا، اور انہیں میں سے ہم نے بارہ سرداروں کا انتخاب کیا، اور اللہ نے فرما دیا کہ بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کو قائم رکھو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں پر ایمان رکھو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو گے (فی سبیل اللہ خرچ کرنا)تو ضرور بالضرور میں تمہاری خطاؤں کو درگزر کرونگا اور ضرور تمہیں ان جنتوں میں داخل کرونگا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں اب جوتم میں سے اس عہد و پیمان کے بعد اس عہد کو توڑ دے تو یقیناً وہ گمراہی کے راستے میں چل پڑا۔
توضیح:آیت ہٰذا میں بنی اسرائیل کے ایک عہد و پیماں کا ذکر ہے جو آیت کے ترجمہ میں آ گیا ہے اللہ نے قیامت تک کے آنے والوں کے لئے عہد کی وفا داری کا حکم دیا ہے اسلام کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے اصول بھی بیان کئے گئے ہیں ، اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت و تائید و مدد اس وقت تک رہے گی جب تک کہ اللہ کے بندے مذکورہ اصول کو اپناتے رہیں گے گویا شرط مشروط ہے اگر مسلمان اس شرط سے ہٹے تو ذلت ورسوائی ان کا استقبال کرے گی اذافات الشرط فات المشروط کے تحت ان کا برا حشر ہو گا تعلق باللہ کے لئے ایک خاص وصف نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا ادا کرنا ہے جو قوم اس سے محروم ہو گی اس کا انجام کار؟
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَ‌اكِعُونَ ﴿٥٥المائدہ
ترجمہ :مسلمانو!یقیناً اللہ تمہارادوست ہے اور اس کے رسول (ﷺ)ہیں اور ایمان والے ہیں ، جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں یہی تو ہیں اللہ کے سامنے جھکنے والے اور بھلا جو شخص اللہ سے اور اس کے رسول سے اور مومنوں سے دوستی کرے یقین مانو یہی ہے اللہ کی جماعت جو ہمیشہ غالب رہے گی
توضیح:مومنین کو بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے دوست کفار و مشرکین نہیں ہیں اور نہ یہود و نصاریٰ بلکہ حقیقت تمہارے دوست اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان ہیں کب؟جبکہ تم نمازوں کو قائم کرنے والے اور زکوٰۃ کے ادا کرنے والے بن جاؤ کیونکہ ان اوصاف سے تم اللہ تعالیٰ کے عاجز وانکساربندے کہلاؤ گے پھر جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہو جائیں گے تو کیا انہیں کوئی مغلوب کر سکتا ہے ؟ہرگز نہیں کیونکہ یہ گروہ حزب اللہ اللہ کی جماعت ہو جائے گی اور اللہ کی جماعت کبھی مغلوب نہ ہو گی ان شاء اللہ پھر اس میں مومنوں کو اشارہ دیا گیا ہے کہ دوستی صرف اور صرف اہل ایمان سے کریں جو مذکورہ اوصاف سے متصف ہوں یہاں تک کہ بے نمازی ،بے دین، بے زکاتی سے بھی ہرگز دوستی نہ کی جائے چونکہ وہ شقی القلب ہے اللہ کے سامنے جھکنے سے بیزار ہے۔
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ‌ الْحُرُ‌مُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِ‌كِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُ‌وهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْ‌صَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٥التوبہ
ترجمہ :پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کر ڈالو اور ہر جگہ تاک میں بیٹھ کر ان کا محاصرہ کرو پھر اگر یہ توبہ کریں اور نمازیں قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہیں
توضیح:معاہدہ، عہد و پیماں اور وعدہ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اس کا اندازہ نزول سورۂ توبہ کے سیاق و سباق سے لگایا جا سکتا ہے ۶ھ میں رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺ اور مشرکین کے درمیان دس سال کے لئے ایک اہم معاہدہ ہوا تھا (جس کی تفصیل جاننے کے لئے مکمل تفسیر سورۂ توبہ تفسیر ابن کثیرکا مطالعہ فرمائیں )۔
لیکن مشرکین نے صرف چھ مہینے میں اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر دی اور عہد کو توڑ دیا اللہ رب العلمین کو مشرکین کی دغا بازی اس قدر ناپسندہوئی اللہ تعالیٰ نے غصہ میں سورۃ توبہ نازل فرما دی جس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے بیزاری کا اعلان فرما دیا اور رحمۃ اللعلمین ﷺ کو اجازت دے دی کہ اب آپ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں جو آیات مذکورہ میں بتایا گیا ہے کہ اب انہیں قتل کرو جہاں کہیں پاؤ اور اس وقت تک ان کو کاٹو جب تک کفر سے توبہ نہ کر لیں یہ نہیں کہ ہمارے آپ کے جیسے مسلمان بے نمازی بے زکاتی بن جائیں بلکہ وہ نمازیں قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جان و مال کی حفاظت کا حکم صادر فرمایا کہ اب ان کا راستہ چھوڑ دو کیوں کہ اب وہ رحمت الٰہی میں آ گئے ہیں اقامت نماز اور اقامت زکوٰۃ اس کے بغیر کوئی بھی مسلمان اور مومن نہیں بن سکتے ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿١١التوبہ
ترجمہ :تو پھر اگر یہ لوگ توبہ کر لیں ، اور نمازوں کو قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو پھر یہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم کھول کھول کر آیات بیان کر رہے ہیں علم والوں کے لئے ۔
توضیح:چونکہ آیت ہٰذا بھی سورۃ توبہ کی ہے اور اس سے قبل کی آیات میں اس کی توضیح ہو چکی ہے مطلب یہ ہے کہ اگر مشرکین اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں اور کفر کو خیر باد کہہ دیں نماز و زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں تو مومنوں کو چاہئے کہ ان کے گزشتہ کارناموں کو فراموش کر دیں اور اب انہیں اپنا دینی بھائی سمجھیں کیوں کہ رب کائنات نے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد نمازیں قائم کرنے والوں کو اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو دینی بھائی ہونے کا سرٹیفکٹ عنایت فرمایا ہے۔
مَا كَانَ لِلْمُشْرِ‌كِينَ أَن يَعْمُرُ‌وا مَسَاجِدَ اللَّـهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ‌ ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ‌ هُمْ خَالِدُونَ ﴿١٧﴾ إِنَّمَا يَعْمُرُ‌ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ﴿١٨التوبہ
ترجمہ :مشرکین کے لئے لائق ہی نہیں کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں کیوں کہ وہ خود اپنے کفر کی وجہ سے گواہ ہیں ان کے اعمال اکارت ہو گئے ہیں اور وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے داخل ہونے والے ہیں اللہ کی مسجدیں تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو ایمان لائے ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور نمازوں کو پابندی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہ اللہ کے سواکسی سے ڈرتے بھی نہیں ہیں پس عنقریب یہی لوگ ہیں ہدایت والے ۔
توضیح:آیت ہٰذا کا شان نزول اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ نما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جبکہ غزوہ بدر میں گرفتار کر کے مدینہ لائے گئے تو انہیں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے کفر پر ملامت کئے اور ان کو ان کے شرک پر عار دلائی تو حضرت عباس نے جواب دیا کہ تم لوگ صرف ہماری برائیوں کے گن گار ہے ہو اور ہماری اچھائیوں اور نیکیوں کو نہیں دیکھتے ؟ہم کعبۃ اللہ کے خادم ہیں حجاج کرام کی خدمت کرتے ہیں انہیں پانی پلاتے ہیں اور اسی طرح مشرکین مکہ کو اس پر فخر و ناز تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مشرکانہ عقائد کے جزاء کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے آیات مذکورہ نازل فرما دی کہ اللہ کے اس متبرک گھر کو صرف اور صرف اہل ایمان ہی اس کی آبادکاری کا حق ادا کر سکتے ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے نمازوں کو قائم کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سواکسی سے نہیں ڈرتے معلوم ہوا کہ اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ اہم امور ہیں ۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ سَيَرْ‌حَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِ‌ضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ‌ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٧٢التوبہ
ترجمہ :اور ایمان والے مرد(مومن) اور ایمان والی عورتیں (مومنہ) ایک دوسرے کے یار و مددگار ہیں وہ لوگ نیک باتوں کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نمازیں قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی یہی لوگ ہیں اصل جن پر اللہ رحم و کرم فرماتا ہے ، بے شک اللہ زبردست غالب اور حکمت والا ہے۔
اللہ کا وعدہ ہے مومن مرد اور مومنہ عورتوں کے لئے ایسی جنتوں کا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ہمیشگی کی جنت میں صاف ستھرے محل میں رہنے کا اور اللہ کی رضا و خوشنودی سب سے بڑی ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔
توضیح:یہاں مومنین کی صفات بیان کئے گئے ہیں مومن ومسلمان کا باہم ربط و ضبط کیا ہونا چاہئے اس کا خلاصہ ہے افسوس صدافسوس آج ہم تعلیمات بالاسے کو رے ہیں اس اوصاف کے الٹ ہماری زندگی ہے مومن، مومن دوست و مدد گار نہیں امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے غفلت اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے دور ہیں اللہ اور اس کے رسول کے اتباع کے بجائے ہم کسی اور کی اتباع کر رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ جو اوصاف منافقین کے بتائے گئے ہیں اس پر ہم عامل ہوں آئیے ذرا اس کا بھی جائزہ لیں اللہ نے ارشاد فرمایا:منافق مرد اور منافقہ عورتیں آپس میں سب ایک ہی ہیں جو حکم کرتے ہیں برائی کا اور روکتے ہیں بھلائی سے اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھ(یعنی بخیل ہیں اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے )اور اللہ کو بھول گئے ہیں تو اللہ نے انہیں بھلا دیا یقیناً منافقین نافرمان ہیں ۔ (التوبہ ۹:۶۷۶۸) آج کا مسلمان اپنی شکل قرآنی آئینہ میں دیکھے ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿٣٠﴾ وَجَعَلَنِي مُبَارَ‌كًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴿٣١﴾ وَبَرًّ‌ا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارً‌ا شَقِيًّا ﴿٣٢مریم
ترجمہ :بچہ بول اٹھا کہ یقیناً میں اللہ کا بندہ ہوں ،اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے ، اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے ، جہاں بھی میں رہوں ، اور اس نے مجھے خصوصی وصیت فرمائی کہ میں نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہوں جب تک بھی زندہ رہوں اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا فرمانبردار و خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔
توضیح:اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایابناکسی ماں باپ کے اور حضرت حوا علیھا السلام کو آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کر دیا بنا کسی ماں باپ کے اسی طرح حضرت مریم علیھا السلام کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرما دیا بناکسی باپ کے جب آپ کی پیدائش ہوئی تو حضرت مریم کو قوم کے لوگوں نے طعنے دینا شروع کر دیا اور ایسی پاکدامن جن کی پاکبازی اور پارسائی کی تعریف خود خالق کائنات نے کی ہے ، حضرت مریم علیھا السلام نے فرمایا کہ ابھی تمہاری غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں قدرت الٰہی اپنا جلوہ دکھاتی ہے مریم علیھا السلام کی گود میں روح اللہ نے قوم کے لوگوں کی زبان میں تالے لگا دئیے اور اس ننھے بچے نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جو گفتگو فرمائی آیات بالا میں مذکور ہے۔
ذرا غور فرمائیں کہ اللہ رب العلمین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو تعلیم سکھلائی جو خصوصیت کے ساتھ تا دم آخر نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وصیت فرمائی اور اسی کے ساتھ ماں کی خدمتگاری اور فرمانبرداری کی تعلیم ہے اور جو مذکورہ احکامات پر عمل نہ کرے وہ یقیناً بڑاسرکش اور بڑا بدبخت ہے ۔
وَكَانَ يَأْمُرُ‌ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَ‌بِّهِ مَرْ‌ضِيًّا ﴿٥٥مریم
ترجمہ :اس کتاب میں اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ بھی ذکر کرو وہ بڑا ہی وعدہ کا سچا تھا اور وہ پیغامبر اور نبی تھے ، وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰۃ کا حکم کرتے تھے اور تھے بھی وہ اپنے پروردگار کے پسندیدہ اور مقبول بندے ۔
توضیح:آیت ہٰذا میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی گئی ہے حالانکہ جتنے انبیاء کرام علیھم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ہیں سب ہی اللہ کے برگزیدہ بندے اور معصوم تھے مگر اللہ رب العلمین ہر پیغامبر کی الگ الگ صفات بیان فرمائی ہے کہ آپ علیہ السلام کے ہی نسل سے ساراعرب ہے اور خود شریعت محمدی ﷺ بھی ملت ابراہیمی علیہ السلام ہے اس لئے اس امت مسلمہ کے لئے ایک مثال دی گئی ہے کہ اسماعیل علیہ السلام بڑے وعدہ کے سچے تھے اور نمازوں کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے تھے اور اپنے اہل کو بھی اس کا حکم فرماتے تھے ۔
خود حضور پاک ﷺ ٰ نے حکم دیا کہ آپ بھی اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم کریں اور آپ بھی اس پر پابندی سے قائم رہیں ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ ﴿٧٢﴾ وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِ‌نَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَ‌اتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ ﴿٧٣الانبیاء
ترجمہ :اور ہم نے اسے اسحاق عطا فرمایا اور یعقوب اور زیادہ اور ہر ایک کو ہم نے نیک و کار بنایا اور ہم نے انہیں رہنما بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کریں اور ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ نیک کام کریں اور نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور وہ سب کے سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔
توضیح:آیات بالاسے قبل حضرت خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کا با التفصیل تذکرہ ہے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی نیکو کاری کے تذکرہ کے ساتھ اقامت نماز اور اقامت زکوٰۃ کا بھی خصوصی ذکر فرمایا ہے تاکہ آپ کی پیروی کرنے والے جان لیں کے اللہ کے پیغامبروں کو بھی اس سے مستثناء نہیں رکھا گیا جب رسولوں کو بھی نمازوں اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم ملا تو پھر ہم آخراس اہم فریضہ سے غافل کیوں ہیں یہ بھی یاد رہے کہ جو ان پر عمل کرے گا وہ اصل اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار ہونے کا حق ادا کرے گا۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌ ﴿٤١الحج
ترجمہ :یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں حکمرانی دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں ادا کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں
توضیح:آیات بالا رحمۃ اللعلمین ﷺ کے جاں نثاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کے لئے اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے نکل پڑے اور جب ان کے پاؤں اللہ تعالیٰ نے جما دئیے تو اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی ایسی مثال قائم کئے کہ قیامت تک آیات قرآنی و احادیث نبوی ﷺ ان کے اوصاف جمیلہ کی گواہی دیتے رہیں گے ان شاء اللہ۔
وَجَاهِدُوا فِي اللَّـهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَ‌جٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَ‌اهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّ‌سُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّـهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ‌ ﴿٧٨الحج
ترجمہ :اللہ کے راستہ میں ویساہی جہاد کروجیسے جہاد کا اس کا حق ہے اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی دین اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کا قائم رکھواسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ پس تمہیں چاہئے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو وہی تمہارا ولی اور مالک ہے ، پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے۔
توضیح:اس آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے جہاد کے چند شرائط ہیں ، مثلاً قرآن کریم کی تعلیم میں پابندی لگا دینا، مساجد کی مسماری اذان اور نمازوں پر پابندی اور ناحق اہل اسلام پر ظلم ڈھانا وغیرہم جو بھی ملک اس کا مرتکب ہو گا تو مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ وہ اپنے دین اسلام کے تحفظ اور اسلام کے وقار اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دے کر جہاد کا حق ادا کریں اور اس وقت تک یہ جاری رہے گا جب تک کہ ظالم مذکورہ پابندیوں کو نہ ہٹا لیں ۔
اسی طرح اسلام دین فطرت ہے جوآسان دین ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پرایسے احکامات نازل نہیں فرمائے کہ اسے بجا نہ لایا جائے نماز دین کا ستون ہے اس کے لئے وضو کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ پانی میسرنہ ہو تو تیمم کر لیا جائے یا کوئی بیمار ہے تواس کے لئے تیمم کافی ہے کوئی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور جو بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو وہ لیٹ کر اور اشاروں سے پڑھنے کا حکم دیا ہے حالت خوف میں صلوۃ خوف، حالت سفرمیں قصر و جمع بین صلاتین روزے رمضان میں بھی مریض و مسافر کے لئے رخصت وغیرہ اسی طرح اہل ایمان کے لئے سال میں صرف دوہی تہوار عیدین یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی ہیں مگر آج کے پیٹ بھرو علماء سوء نے امت کو گمراہ کر کے ان پر بے شمار رسم و رواج مسلط کر دئیے ہیں مثلاً مزارات پرستی میں عرس کی ایجاد اور قوالیوں کے تماشے ، پیرپرستی اور صندل نکالنا، تیجہ اور چہلم اور گیارہویں کے پلاؤ، رجب کے کو نڈے اب کیا کیا گنایا جائے جس کا دین اسلام سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ''امت خرافات میں کھو گئی'' اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی پر قائم رہنے کی تاکید فرمائی ہے اور ہمارا نام مسلم رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اعتبار سے اللہ ہی کی عبادت کرنا اس کے فرمانبردار بن کر زندگی گزارنا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کا حکم فرمایا آیت مذکورہ میں ایک نقطہ پر ہم نظر دوڑائیں ''اور اللہ ہی کو مضبوط تھامے رہو'' اگر ہم مذکورہ امور پر عمل کرتے ہیں تو تعلق باللہ قائم ہو گا ورنہ زبانی دعوے تو یہود و نصاریٰ کفار و مشرکین سب ہی کرتے ہیں ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رِ‌جَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَ‌ةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ‌ ﴿٣٧النور
ترجمہ :ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ کے ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی
توضیح:آیت ہٰذا میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو باوجود مصروف تجارت اور مشغول کاروبار ہونے کے کبھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں رہتے ہیں چونکہ انہیں اللہ کا خوف لگا رہتا ہے ، جب بھی اور جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے وہ فوراً ادائیگی کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نمازیں قائم نہیں کرتے اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے ان کے دل بڑے سخت ہوتے ہیں اور وہ لوگ قیامت کے دن کے بھی انکاری ہیں ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی اس سرزمین میں بوجھ ہیں اور قیامت کے دن ان کے لئے رسوائی اور درد ناک عذاب ہے
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥﴾ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٥٦النور
ترجمہ :اللہ وعدہ فرما چکا ہے تم میں سے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے کہ انہیں ضرور زمین کی حکمرانی عطا فرمائے گا اسی طرح جیسے اس سے پہلے کے لوگوں کو عطا فرمایا تھا اور یقیناً ان لوگوں کے لئے ان دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا، جسے ان کے لیے وہ پسند کر چکا اور ان کے خوف و خطرہ کو وہ امن و امان سے بدل دے گا کہ وہ لوگ میری ہی عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں گے یقیناً وہ لوگ فاسق ہی ہیں اور نماز کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے ہو اور اطاعت کرو ہمارے پیغامبر کی تاکہ تم پر رحم و کرم کیا جائے ۔
توضیح:اللہ تعالیٰ نے آیات ہذا میں اہل ایمان سے ایک وعدہ فرمایا ہے اس سرزمین کی حکمرانی وبالادستی جو ایمان اور نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت راشدہ کی شکل میں پورا بھی فرمایا اور اس نے مومنوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا اور اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج بخشا اور مومنوں کے خوف و ڈر کو امن وسکون سے بدل دیا اسلام سے پہلے وہی عرب میں لوٹ مار، چوری ڈکیتی عام تھی ، خواتین کی آبرو محفوظ نہیں تھی جب نبوت کی شعاعیں حجاز میں پڑتی ہیں تو وہ وقت بھی آیا کہ ایک عورت تن تنہا مقام حیرہ سے چل پڑتی ہے اور بیت اللہ کا طواف کرتی ہے اسے سوائے اللہ کے اور خوف نہیں رہتا اور امن وسکون سے واپس چلی جاتی ہے اسی طرح قیصروکسریٰ کے خزانے مومنوں کے قدموں کے نیچے ڈھیر ہو گئے یہ کو ن لوگ تھے ؟یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے توحید باری تعالیٰ کو اپنایا تھا یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے تلواروں کے سائے میں بھی نمازوں کو نہیں چھوڑا اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے جن کو وقت کا شدت سے انتظار رہتا تھا اور اللہ کے رسول کی اطاعت میں ایسے محو تھے کہ رب کائنات نے ان کے ایمان و یقین تعریف فرمائی ہے ۔
سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ‌ السُّجُودِ﴿٢٩الفتح
''ان کی علامت ان کی چہروں پر سجدہ کے نشان سے نمایاں ہے''
اور آج ہم ہیں کہ ہماری شکلوں پر بارہ بج رہے ہیں چوپاؤں کی طرح دن بھر ہوٹلوں اور بازاروں میں بیٹھ کر شیطان کو خوش کرتے ہیں اور گدھوں کی طرح دن چڑھے تک سوئے رہتے ہیں کیا خاک ہمیں سربلندی نصیب ہو گی۔
 
Last edited:
Top