- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
(۴)لڑائی اور جہاد میں احسان کرنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٦٩﴾ العنكبوت
ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے ہمارے راستے میں جہاد کیا ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی راہنمائی کریں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کےساتھ ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایاوَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾البقرة
ترجمہ: اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کرو یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
شیخ غزالی کہتےہیں:اس آیت میں احسان ایک اور معنی میں ذکر ہے وہ یہ ہے کہ بخل کرنے سے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو ناپسندکرنے سے قومیں اپنا اصل پیغام الٰہی نہیں بچا سکتی۔ اس کے لئے جنگوں اور لڑائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور لڑائیوں اور جنگوں کےلئے پہلے بھی اور جدید دور میں بھی زیادہ مال کی ضرورت پڑتی ہے۔ مسلمان کےلئے اس حقیقت سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ نہ ان کا دین بچ سکتا ہے اور نہ ان کے ممالک اور ان کے علاقے آزاد اور محفوظ رہ سکتے ہیں جب تک یہ لڑائی اور جنگ کے لئے وسیع پیمانے پر اپنا مال خرچ نہ کریں او جب تک لڑائی میں مہارت حاصل کرنے کےلئے بھر پور تیاری نہ کریں۔احسان کی حقیقت اور اس کے دائرے کی وسعت کے بارے میں دیگر آیات بھی شاہد ہیں، جن میں یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ انسان پوری پامردی اور آخری سانس تک اللہ کی رضا کے لئے لڑتا رہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿١٤٧﴾آل عمران
ترجمہ: ان کی بات یہی ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملات میں ہماری زیادتیوں کو بخش دے اور ہمارے قدم جمادے اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما، ان لوگوں کو اللہ نے دنیا کا بدلہ بھی دیا اور آخرت کا بہترین بدلہ بھی ۔ اللہ تعالیٰ (ایسے) احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔([1])
(۵)احسان کا پانچواں مقام اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کر کے اپنے غصے کو پی لینابخل اور حرص کو چھوڑ دینا اور اپنی ذات کے لئے بدلہ لینے کا جذبہ دل سے نکال دینا ہے۔
اس کی طرف قرآن کریم ان الفاظ سے اشارہ کرتا ہے الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾آل عمران
ترجمہ: وہ لوگ جو راحت اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے غصے کو پینے والے او ر لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اللہ( ایسے) احسان کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔
اس آیت میں برائی کرنے والے سے درگزر کرنے کو بھی احسان میں شامل کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٦٩﴾ العنكبوت
ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے ہمارے راستے میں جہاد کیا ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی راہنمائی کریں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کےساتھ ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایاوَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾البقرة
ترجمہ: اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کرو یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
شیخ غزالی کہتےہیں:اس آیت میں احسان ایک اور معنی میں ذکر ہے وہ یہ ہے کہ بخل کرنے سے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو ناپسندکرنے سے قومیں اپنا اصل پیغام الٰہی نہیں بچا سکتی۔ اس کے لئے جنگوں اور لڑائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور لڑائیوں اور جنگوں کےلئے پہلے بھی اور جدید دور میں بھی زیادہ مال کی ضرورت پڑتی ہے۔ مسلمان کےلئے اس حقیقت سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ نہ ان کا دین بچ سکتا ہے اور نہ ان کے ممالک اور ان کے علاقے آزاد اور محفوظ رہ سکتے ہیں جب تک یہ لڑائی اور جنگ کے لئے وسیع پیمانے پر اپنا مال خرچ نہ کریں او جب تک لڑائی میں مہارت حاصل کرنے کےلئے بھر پور تیاری نہ کریں۔احسان کی حقیقت اور اس کے دائرے کی وسعت کے بارے میں دیگر آیات بھی شاہد ہیں، جن میں یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ انسان پوری پامردی اور آخری سانس تک اللہ کی رضا کے لئے لڑتا رہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿١٤٧﴾آل عمران
ترجمہ: ان کی بات یہی ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملات میں ہماری زیادتیوں کو بخش دے اور ہمارے قدم جمادے اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما، ان لوگوں کو اللہ نے دنیا کا بدلہ بھی دیا اور آخرت کا بہترین بدلہ بھی ۔ اللہ تعالیٰ (ایسے) احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔([1])
(۵)احسان کا پانچواں مقام اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کر کے اپنے غصے کو پی لینابخل اور حرص کو چھوڑ دینا اور اپنی ذات کے لئے بدلہ لینے کا جذبہ دل سے نکال دینا ہے۔
اس کی طرف قرآن کریم ان الفاظ سے اشارہ کرتا ہے الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾آل عمران
ترجمہ: وہ لوگ جو راحت اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے غصے کو پینے والے او ر لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اللہ( ایسے) احسان کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔
اس آیت میں برائی کرنے والے سے درگزر کرنے کو بھی احسان میں شامل کیا گیا ہے۔
[1]- المحاور الخمسة (ص: ۱۹۳)