• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاحسان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نبی ﷺ كی زندگی میں احسان كے عملی نمونے
28- عَنْ الْمِقْدَادِؓ قَالَ أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي وَقَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنْ الْجَهْدِ فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَقْبَلُنَا فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا قَالَ فَكُنَّا نَحْتَلِبُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنَّا نَصِيبَهُ وَنَرْفَعُ لِلنَّبِيِّ ﷺ نَصِيبَهُ قَالَ فَيَجِيءُ مِنْ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ نَائِمًا وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ قَالَ ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُ فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَقَدْ شَرِبْتُ نَصِيبِي فَقَالَ مُحَمَّدٌ يَأْتِي الْأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ وَيُصِيبُ عِنْدَهُمْ مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ فَأَتَيْتُهَا فَشَرِبْتُهَا فَلَمَّا أَنْ وَغَلَتْ فِي بَطْنِي وَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ قَالَ نَدَّمَنِي الشَّيْطَانُ فَقَالَ وَيْحَكَ مَا صَنَعْتَ أَشَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ فَيَجِيءُ فَلَا يَجِدُهُ فَيَدْعُو عَلَيْكَ فَتَهْلِكُ فَتَذْهَبُ دُنْيَاكَ وَآخِرَتُكَ وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ إِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى قَدَمَيَّ خَرَجَ رَأْسِي وَإِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي خَرَجَ قَدَمَايَ وَجَعَلَ لَا يَجِيئُنِي النَّوْمُ وَأَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا وَلَمْ يَصْنَعَا مَا صَنَعْتُ قَالَ فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺ فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يُسَلِّمُ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى ثُمَّ أَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقُلْتُ الْآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِكُ فَقَالَ اللهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِي قَالَ فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ فَشَدَدْتُهَا عَلَيَّ وَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْأَعْنُزِ أَيُّهَا أَسْمَنُ فَأَذْبَحُهَا لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فَإِذَا هِيَ حَافِلَةٌ وَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَاءٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ ﷺ مَا كَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ قَالَ فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّى عَلَتْهُ رَغْوَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ أَشَرِبْتُمْ شَرَابَكُمْ اللَّيْلَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدْ رَوِيَ وَأَصَبْتُ دَعْوَتَهُ ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِيتُ إِلَى الْأَرْضِ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِحْدَى سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ كَانَ مِنْ أَمْرِي كَذَا وَكَذَا وَفَعَلْتُ كَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةٌ مِنْ اللهِ أَفَلَا كُنْتَ آذَنْتَنِي فَنُوقِظَ صَاحِبَيْنَا فَيُصِيبَانِ مِنْهَا قَالَ فَقُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنْ النَّاسِ.([1])
(٢٨)مقداد فرماتےہیں كہ میں اور میرے دو ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ) كی تكلیف سے ہماری آنكھوں اور كانوں كی قوت جاتی رہی، ہم اپنے آپ كو رسول اللہﷺ كے صحابہ سامنے پیش كرتے تھے لیكن ہمیں كوئی قبول نہیں كرتا تھا آخر ہم رسول اللہﷺكے پاس آئے تو آپ ہمیں اپنے گھر لے گئے وہاں تین بكریاں تھیں آپ نے فرمایا: ان كا دودھ دوہو، ہم تم سب پیئں گے، پھر ہم ان كا دودھ دوہا كرتے اورہم سب میں سے ہر ایك اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہﷺ كا حصہ چھوڑ دیتے آپ ﷺ رات كو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام كر تے كہ جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے ۔پھر آپ مسجد میں آتے نماز پڑھتے پھر اپنے دودھ كے پاس آتے اور اس كو پیتے ایك رات جس میں میں اپنا حصہ پی چكا تھا شیطان نے مجھے بھڑكایا شیطان نے كہا كہ رسول اللہﷺ تو انصار كے پاس جاتے ہیں وہ آپ كو تحفہ دیتے ہیں اور جو آپ كو ضرورت ہے مل جاتا ہے ۔آپ كو اس ایك گھونٹ كی كیا ضرورت ہوگی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا كہ اب وہ دودھ نہیں ملنے كا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت دلائی اور كہنے لگا تیری خرابی ہو تو نے كیا كام كیا؟تو نے رسول اللہﷺ كا حصہ پی لیا ۔اب آپ آئیں گے اور دودھ كو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا كریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی، میں نے ایك چادر اوڑھی، جب اس كو پاؤں پر ڈالتا تو سر كھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں كھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آئی اور میرے ساتھی سو گئے اور انہوں نے یہ كام نہیں كیا تھا جو میں نے كیا تھا ۔آخر رسول اللہﷺ آئے اور معمول كے مطابق سلام كیا پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی ۔اس كے بعد دودھ كے پاس آئے برتن كھولا تو اس میں كچھ نہ تھا آپ نے اپنا سر آسمان كی طرف اٹھایا میں نے سمجھا كہ اب آپ بد دعا كررہےہیں اور میں تباہ ہوگیا ۔آپ نے فرمایا اے اللہ كھلا اس كوجو مجھے كھلائے اور پلا اس كو جو مجھے پلائے یہ سن كر میں نے اپنی چادر كو مضبوط باندھا اور چھری لی اور بكریوں كی طرف چلا كے جو ان میں سے موٹی ہو اس كو رسول اللہﷺ كے لئے ذبح كروں،دیكھا تو اس كے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے ۔پھر دیكھا تو اور بكریوں كے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے میں نے آپ كے گھر والوں كا ایك برتن لیا جس میں وہ دودھ نہ دھوتے تھے اس میں میں نے دودھ دوہا یہاں تك كہ اوپر تك جھاگ آگیا (اتنا زیادہ دودھ نكلا)اور میں نے اس كو لے كر آ پ كے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: تم نے اپنے حصے كا دودھ رات كو پیا یا نہیں؟میں نے عرض كی كہ یا رسول اللہﷺ آپ دودھ پیجئے آپ نے پی كر مجھے دیا تو میں نے عرض كی كہ یا رسول اللہﷺ اور پیجئے آپ نے اور پیا پھر مجھے دیا جب مجھے معلوم ہو گیا كہ آپ سیر ہو گئے اور ان كی دعا میں نے لے لی ہے میں ہنسا۔یہاں تك كہ خوشی كے مارے زمین پر گر گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے مقداد تو نے كوئی بری بات كی وہ كیا ہے؟ میں نے عرض كی كہ یا رسول اللہﷺ میرا حال ایسا ہو ااور میں نے ایسا قصور كیا۔ آپ نے فرمایا: اس وقت كا دودھ( جو خلاف معمول اترا) اللہ كی رحمت تھی تو نے مجھے پہلے ہی كیوں نہ بتایا ہم اپنے دونوں ساتھیوں كو بھی جگا دیتے كہ وہ بھی یہ دودھ پیتے؟ میں نے عرض كی كہ قسم اس ذات كی جس نے آپ كو سچا كلام دے كر بھیجا ہے كہ اب مجھے كوئی پرواہ نہیں جب آپ نے اللہ كی رحمت حاصل كر لی اور میں نے آپ كے ساتھ حاصل كی تو كوئی بھی اس كو حاصل كرے۔
29- عُثْمَانَ  يَخْطُبُ فَقَالَ إِنَّا وَاللهِ قَدْ صَحِبْنَا رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ وَكَانَ يَعُودُ مَرْضَانَا وَيَتْبَعُ جَنَائِزَنَا وَيَغْزُو مَعَنَا وَيُوَاسِينَا بِالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ...) ([2])
(٢٩)عثمان بن عفان اپنے ایك خطبہ میں فرماتے ہیں : اللہ كی قسم ہم رسول اللہﷺ كے ساتھ حضر اور سفر میں رہے ہیں وہ ہمارے ساتھ غزوات میں بھی شریك ہوا كرتے تھے۔ اور ہمارے ساتھ كبھی تھوڑے سے اور كبھی زیادہ سے مدد بھی كیا كرتے تھے۔

[1] - صحيح مسلم كِتَاب الْأَشْرِبَةِ بَاب إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ رقم (2055)
[2] - مسند أحمد (1/70). وقال الشيخ أحمد شاكر أسناده صحيح
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احسان سے متعلق آثار اور مفسرین وائمہ کرام کے اقوال


(۱)ابن عباس نے کہا پانچ ایسی چیزیں ہیں جو کہ سورای کے لئے تیار کئے سیاہی مائل گھڑوں سے بہترہیں۔ لا یعنی بات نہ کر کیوں کہ یہ فضول ہے اور اس میں تیرے بارے میں جھوٹ سے بھی میں بے خطر نہیں ہو سکتا اور با مقصد بات بھی وہاں کر جو اس کی جگہ ہے کیوں کہ بعض با مقصد بات کرنے والے غیر مناسب موقع پر بات کرتے ہیں پھر تکلیف میں پڑ جاتے ہیں۔ اور سنجیدہ و بردبار سے جھگڑا نہ کرکہیں تجھ پر غصہ نہ کرے اور نہ جاہل سے کہ وہ تجھےتکلیف دے۔ اور تیرا مسلمان بھائی جب تجھ سے غائب ہو تو اس کو اس طرح یاد کر کہ تو چاہتا ہے کہ تجھے بھی یاد کرے اور اس کی وہ چیز در گذر کر جو تو چاہتا ہے کہ تمہیں در گذر کرے اور اس شخص کی طرح عمل کر جو سمجھتا ہے کہ اسے احسان کا اچھا بدلہ دیا جائے گا اور جرم کی سزا دی جائے گی۔

(۲)امام حسن بصری نے کہا ایمان دعویٰ اور خواہش کا نا م نہیں بلکہ ایمان وہ چیز ہے جو لوگوں کے دلوں اندر داخل ہو جائے اور اعمال اس کی تصدیق کریں۔ جو بات اچھی کرتا ہےاور عمل برا کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کی بات (یعنی زبانی کلمہ اور ایمان کے دعویٰ )کو رد کردےگا۔
(۳)عبیداللہ بن عدی بن خیا رسے روایت ہے کہ وہ عثمان بن عفان کے پاس اس وقت آئے جب وہ (اپنے گھر کے اندر) محصور تھے۔ پھر کہا بے شک تم مسلمانوں کے امیر ہو اور آپ پر جو مصیبت آن پڑی ہے وہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں ۔اور ہمیں باغی امام نماز پڑھاتا ہے۔لیکن ہم اس میں حرج محسوس کرتے ہیں ۔جناب عثمان نے کہا نماز لوگوں کا سب سے احسن عمل ہے لہٰذا جب لوگ اچھا کام کریں تو ان کے ساتھ ملکر اچھا کام کر اور جب برا کام کریں تو برائی میں ان سے الگ رہو۔

(۴)عمروبن میمون نے کہا میں نے جناب عمر بن خطاب کو زخمی ہونے اور شہید ہونے سے کچھ دن پہلے مدینہ منورہ کے اندر دیکھا تھا، آپ جناب حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف کے پاس کھڑے تھے ۔جناب عمر بن خطاب نے کہا تم دونوں نے کیا کیا؟ کیا تم ڈرتے ہو کہ تم زمین پر وہ بوجھ ڈال رہے ہو کہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی ۔ان دونوں نے کہا ہم نے زمین پر وہ بوجھ ڈالا ہے جس کو وہ اٹھا سکتی ہے،اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ عمر نے کہا دیکھنا کہیں تم نے زمین پر وہ بوجھ ڈالا ہو کہ وہ اٹھانہیں سکتی ہو۔ ان دونوں نے کہا نہیں۔ پھر عمر نے کہا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی دی تو میں اہل عراق کی بیواہوں کو اس حال میں چھوڑوں گا کہ وہ میرے بعد کسی شخص کی کبھی محتاج نہیں ہونگی ۔عمرو بن میمون نے کہا پھر عمر پر چار راتیں ہی نہیں گزری تھیں کہ وہ زخمی ہو گئے ۔جب وہ زخمی ہوئے اس صبح کی نماز کے وقت اس کے اور میرے درمیان فقط عبداللہ بن عباس تھے۔ اور عمر جب دو صفوں کے درمیان سے گذرتے تھے تو کہتے برابر ہو جاؤ ۔یہاں تک کہ جب ان کے اندر خلل نہ پاتے تو آگے بڑھتےاور اللہ اکبر کہتے، اور وہ کبھی سورۃ یوسف یا سورۃالنحل پڑھتے اور یہ پہلی رکعت میں ،یہاں تک کہ لوگ جمع ہو جاتے پھر اس دن انہوں نے اللہ اکبر کہا ہی تھا کہ میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا مجھے کتے نے قتل کر دیا۔ کہا کاٹ دیا جب مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ نے انہیں خنجر مارا پھر علج(قوم کے وہ غلام) دو طرفی چھری کو پھیرنے لگا، دائیں بائیں جس شخص سے بھی گذرتا تھا اس کو زخمی کرتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کیا جن میں سے سات لوگ فوت ہو گئے پھر جب اس کو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے دیکھا تو اس پر ٹوپی والا کرتہ پھینک دیا ۔پھر جب اس علج نے سمجھ لیا کہ اب وہ پکڑا جائے گا تو خود کو قتل کر دیا، اور عمر نے عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے کیا (یعنی امامت کے لئے) پس جو عمر کے قریب تھا اس نے یہ سارا کچھ دیکھ لیا جبکہ کونے والوں کو پتہ نہیں تھا بس انہیں جناب عمر کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی لہٰذا وہ سبحا ن اللہ کہہ رہے تھے ۔پھر عبدالرحمن بن عوف نے ہلکی نماز پڑھائی اور سلام پھیرا لوگوں نے تو عمر نے کہا اے ابن عباس دیکھ مجھے کس نے قتل کیا ہے ؟پھر ابن عباس کچھ اِدھراُدھر پھر کر آئے اور کہا مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے قتل کیا ہے کہا،کیا اس دستکار نے ؟ کہا ہاں، عمر نے کہا اللہ اس کو ہلاک کرے میں نے تو اس کے لئے اچھائی کا حکم کیا تھا۔ اللہ کے لئے ہی ساری تعریفیں ہیں کہ جس نے میرا موت کسی ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں کیا جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو ۔اے ابن عباس تو اور تیرے باپ چاہتے تھے کہ مدینہ کے اندر علوج غلام بڑھیں(اور عباس کے پاس سب سے زیادہ علوج غلام ہوتے تھے )ابن عباس نے کہا اگر آپ چاہیں تو ہم انہیں قتل کردیں ۔عمر نے کہا غلط کہہ رہے ہو۔ کیا اس کے بعد تم انہیں قتل کرو گے جب وہ تمہاری زبان بولنے لگے ہیں اور تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھ رہے ہیں اور تمہاری طرح حج کر رہے ہیں ۔پھر انہیں ان کے گھر کی طرف لے جایا گیا اور ہم بھی ان کے ساتھ چلے اور ایسا لگ رہا تھا کہ لوگوں کو اس دن سے پہلے کوئی مصیبت نہیں پہنچی تھی۔ پھر کوئی کہنے لگا کہ وہ خطرہ سے باہر ہیں اور کوئی کہنے لگا کہ ہم ڈر رہے ہیں ان کے بارے میں۔ اور اسی روایت میں ہے کہ جناب عمر نے کہا،میرے بعد کے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے ساتھ اچھائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ ان کا حق پہچانے اور ان کی حرمت کی حفاظت کرے اور اسے میں انصار کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں جو مدینہ منورہ کے پہلے باسی ہیں اور مہاجرین کے آنے سے بھی پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ ان کے اچھے سے اچھی بات کو قبول کیا جائے اور برے سے درگذر کیا جائے اور میں اسے دیگر شہروں کے باسیوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کے معاون اور دفاع کرنے والے ہیں اور مال اور خراج جمع کرنے والے اور دشمن کے لئے قہر ہیں ۔ان سے زکوٰۃ لیتے وقت ان کا فاضل مال بھی ان کی رضامندی کے بغیر نہ لیا جائے۔ اور میں اسے اعراب کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ وہ اصلی عرب اور اسلام کی بنیاد اور قوت ہیں ان سے ان کے اچھے مال میں سے نہیں لیا جائے بلکہ ہلکا مال لیا جائے ،وہ مال ان کے فقراء کے اندر لوٹایا جائے۔ اور میں اسے اللہ تعالیٰ کے ذمہ اور رسول اللہ ﷺکے ذمہ کو پورا کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔اور مسلمانوں کے ساتھ عہد کو پورا کیا جائے اور ان کے پیچھے قتل کیا جائے ۔اور ان کو ان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے۔

(۵)علی بن عمرو نے کہاعبیداللہ بن عباس بن عبدالمطلب نے شام سے حجاز کی طرف لوٹتے وقت ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ پھراپنے غلاموں سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے اس جگہ ان کے لئے اتنا کھانا نہ پایا جو کہ ان کے لئے کافی ہو، کیوں کہ اس جگہ سے زیادہ بن ابی سفیان یا عبیداللہ بن زیادایک بڑی جماعت کے ساتھ گذرا تھا جو کچھ وہاں تھا ختم کر دیا تھا۔پھر عبیداللہ نے اپنے منشی کو کہا کہ اس صحراء میں جاؤ شاید تجھے کوئی چرواہا مل جائے یا کوئی خیمہ ملے جہاں دودھ یا کھانا ہو ، پھر منشی چلا اور اس کے ساتھ غلام بھی تھے یہاں تک وہ ایک خیمہ کے اندر بیٹھی ایک بڑھیا کے پاس آئے ۔ اسے کہا، کیا تیرے پاس کھانا ہے ہم تجھ سے وہ خریدنا چاہتے ہیں ؟ بڑھیا نے کہا بیچنے کے لئے تو میرے پاس کھانا نہیں ہے لیکن میرے پاس جو کھانا ہے وہ میری اور میرے بیٹوں کی ضرورت کے لئے ہے۔انہوں نے کہا تیرے بیٹے کہاں ہیں؟ اس نے کہا وہ اپنے ریوڑ میں ہیں اور یہ ان کے لوٹنے کا وقت ہے ۔انہوں نے پوچھا کہ تو نے ان کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے؟ اس نے کہا روٹی ہے جو کہ چولہے کے گرم کوئلوں کے اندر رکھ کر ان (بیٹوں) کا انتظار کر رہی ہوں۔ انہوں نے پوچھا اس کے علاوہ اورکیا ہے؟ اس نے کہا کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں سخاوت کر کے آدھی روٹی دے دیں۔ اس نے کہا آدھی تو نہیں دوں گی لیکن اگر ساری روٹی لینا چاہو تو لے سکتے ہو۔انہوں نے پوچھا تو آدھی روٹی نہیں دےرہی اور ساری روٹی کیوں سخاوت کر رہی ہے۔ اس نے کہا آدھی چیز دینا عیب ہے اور ساری چیز دینا فضیلت ہے۔ اس لئے میں وہ چیز نہیں دے سکتی جو مجھے ذلیل کرے اور وہ چیز دے رہی ہوں جو مجھے عزت دے۔ ان لوگوں نے وہ گرم روٹی اٹھائی اور اس عورت نے یہ بھی نہیں پوچھا وہ کون ہیں اور وہ کہاں سے آئے ہیں ۔پھر جب وہ روٹی لے کر عبیداللہ کے پاس آئے تو ان کو اس بڑھیا کا قصہ سنایا تو وہ حیران ہوئے اور کہا ابھی ابھی جاؤ اور اس بڑھیا کو میرے پاس لے آؤ ،وہ گئے اور کہا، ہمارے بڑے کے پاس چلو۔اس نے تمہیں بلایا ہے (یعنی احسان کا بدلہ چکانے کے لئے)۔

(۶)کسی شاعر نے کہا:لوگوں پر احسان کر کہ ان کے دلوں کو غلام بنالوکب سے احسان انسان کو غلام بنا رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احسان کے فوائد

(۱)احسان کا عظیم فائدہ ہے جو کہ معاشرہ کی بنیاد کو مضبوط کر نے اور اسے خرابی اور ہلاکت سے بچانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اقتصادی کمزوری کی وجہ سے پیداہونے والی اجتماعی آفات سے بچاؤ کی شکل میں بھی۔ یہ احسان وہ مقیاس ہے جس سے انسان کے زندگی کے ساتھ تعلق میں کامیابی کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور یہ تعلق بڑا آزمائش والا ہے۔

(۳)احسان کرنے والا اللہ کی معیت (یعنی نصرت و امداد) میں ہوتا ہے اور جس شخص کو اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہو اسے نہ تو نقصان ہوگا، اور نہ تکلیف کا خوف ہوگا۔

(۴)احسان کرنے والا اپنے احسان کی وجہ سے اللہ کی محبت حاصل کرتا ہے۔ (الشواھد القرآنیۃ ۳۰،۳۴)

(۵)اور اللہ عزوجل جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کو لوگوں کے ہاں محبوب بنا دیتا ہے اور اس لئے محسنین لوگوں کے محبوب ہوتے ہیں ۔لوگ ان کےگرد جمع رہتے ہیں ان کا دفاع کرتے ہیں جب بھی ان کو کوئی خطرہ ہوتا ہے۔

(۶)احسان کرنے والوں کے لئے آخرت میں اجر عظیم ہے، جہاں وہ خوف و غم سے امن میں ہونگے (حوالہ سابقہ ۳۶،۳۵،۶۳)

(۷)احسان کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے زمین میں کنٹرول و سلطنت حاصل ہوتاہے۔(حوالہ سابقہ ۴۸،۶۰)

(۸)احسان کرنے والے اللہ کی رحمت کے قریب ہوتے ہیں۔(حوالہ سابقہ ۴۱)

(۹)احسان کرنےو الے کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی اور خیر کی خوشخبری سنائی گئی ہے (حوالہ سابقہ ۵۵،۶۳)۔

(۱۰)احسان معاشرتی ترقی کا وسیلہ ہے جس طرح عدل نوع انسانی کی حفاظت کا وسیلہ ہے تو احسان انسانی ترقی و کامیابی کا ذریعہ ہے اس لئے کہ احسان سے ایک دوسرے کے ساتھ روابط بڑھتے ہیں اور تعاون عام ہوتا ہے۔

(۱۱)احسان عمر ،مال،اہل میں برکت کا باعث ہے۔

(۱۲)احسان خشیت الٰہی اور اللہ کے خوف کو بیدار کرتا ہے۔جس طرح یہ رحمت الٰہی میں امید بڑھاتا ہے ۔

(۱۳)احسان دلوں کے اندر کے میل، غلط فہمی اور بدگمانی کو ختم کرتا ہے۔

(۱۴)احسان انسان کے لئے خود پسندی کو ترک کرنے میں مددگار ہوتاہے ۔اس لئے کہ احسان میں نیت خالص ہوتی ہے۔

(۱۵)احسان انسان کے لئے علم کا راستہ آسان کر تا ہے اور اس کے لئے حکمت کے چشمے بہا دیتا ہے۔

(۱۶)برائی کے بدلے میں نیکی کرنا (جو کہ احسان کی صورتوں میں سے ہے) انسان کے درمیان دشمنیوں کو ختم کرتا ہے ۔اور ان کو گہری دوستی اور مہربانی محبت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس سے فتنوں کی آگ بجھ جاتی ہے اور جھگڑوں کے اسباب ختم ہو جاتے ہیں جبکہ برائی کے مقابلے میں برائی کرنے سے تعلقات ختم ہو جاتے ہیں فتنوں کی آگ بھڑک اٹھتی ہے لڑائی جھگڑے کے اسباب بڑھنے لگتےہیں اور انسانیت پستی کی گہرایوں میں گر پڑتی ہے اور اس کی بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔(حوالہ سابقہ ۶۲)

(۱۷)جب احسان کے ساتھ اپنی ذات کو اللہ کے سپرد کیا جائے تو اس سے اس مضبوط کڑے(سہارے) کو پکڑنے کا فائدہ ہوتا ہے کہ جس سے دنیا و آخرت کی بھلائی کی امید ہوتی ہے ۔یعنی احسان کرنے والا اپنے لئے یہی کوشش کرتا ہے کہ وہ اللہ کی مضبوط رسی کے اس کڑے کو پکڑے جو کہ ٹوٹ نہ سکتا ہو ۔(حوالہ سابقہ،۱۵)

(۱۸)احسان کی بعض اقسام کے خاص فوائد ہیں جن سے محسن کو دنیا و آخرت کی عام بھلائی اور خیر نصیب ہوتا ہے۔مثلاً(۱)آدمی اپنے وضوء اور خشوع (نماز میں خوف الٰہی) اور رکوع حسن طریقے سے کرے تو یہ اس کے گزشتہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے اورجب تک یہ اچھائی جاری رہتی ہے گناہ مٹتے رہتے ہیں۔

(۱۹) انسان کا اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان یعنی اچھائی کرنا اس کے حسن اسلام کی سچی نشانی ہے(دیکھیں حدیث ،۱۶،۲)

(۲۰)بندہ اگر اپنی بیٹیوں کی تربیت احسن طریقے سے کرتا ہے اوران کی ضروریات زندگی کو صحیح طورپر ادا کرتا ہے تو یہی بیٹیاں جہنم سے اس کے لئے آڑ بن جائینگی۔

(۲۱)عورتوں کے ساتھ احسان کرنے یعنی ان کی پوشاک و کھانے وغیرہ اور دوسری ضروریات احسن طریقے سے پوری کرنے سے خاندان کے اندر میل جول، ربط اور اندرون خانہ سکون و اطمینان رہتا ہے۔

نضرۃ النعیم
 
Top