- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
الاسلام
”الإِسْلاَمُ ،اَسْلَمَ“(ازباب افتعال) کا مصدر ہے۔ بمعنی فرمانبردار ہونا، خود کو کسی کے سپرد کرنا وغیرہ، اس کا اصل مادہ (س ل م) ہے۔ جو کہ غالب طور پر صحت و عافیت پر دلالت کرتا ہے۔ اور ”سَلاَمَة“کا معنی ہے کہ انسان آفت ، تباہی اور تکلیف سے بچ جائے۔اور اللہ ”السَّلاَمُ“ ہے، کیوں کہ وہ سلامت ہے اس سے جو لاحق ہوتا ہے مخلوق کو عیب، نقص، فساد وغیرہ سے اور اسی باب سے ”الإِسْلاَمُ“ ہے اس کا معنی”الإِنْصَادُ“ مطیع ہونا ہے ۔کیوں کہ وہ انکار سے بچ جاتا ہے۔ اور اس سے ”السِلْمُ“بکسر السین بمعنی صلح کے ہے۔ اور ”الإِسْلاَمُ وَالإِسْتِسْلاَمُ“ جھک جانے فرماں بردار ہونے کو کہتے ہیں۔ اور فلاں مسلم کے بارے میں دو قول ہیں ایک ”هُوَ الْمُسْتَسْلِمُ لِأَمْرِ اللہِ“ یعنی وہ اللہ کے امر کے لئے مطیع ہونے والا۔ جھک جانے والا ہے۔ اور دوسرا”المُخْلِصُ لِلہِ الْعِبَادَة“ وہ اللہ کے لئے عبادت کو خالص کرنے والا ہے۔
کہتے ہیں”سَلَّمَ الشَّيْءَ لِفُلاَنٍ أَيْ خَلَّصَهُ“ اس نے اس چیز کو فلاں کے لئے خالص کر دیا۔اور ”سَلِمَ الشَّيْءُ لَهُ“ یعنی چیز اس کے لئے خالص ہوئی۔راغب نے کہا: ”الإِسْلاَمُ الدُّخُولُ فِي السِّلْمِ“ یعنی اسلام سلامتی میں داخل ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اس کا معنی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے الم و تکلیف سے سلامت رہے۔
اور شرع کے اندر اسلام کی دو قسمیں ہیں:
(۱)فقط زبان سے اعتراف کرنا۔ اور اسی سے جان و مال محفوظ ہوتے ہیں ۔اس کے ساتھ اعتقاد ہو یا نہ ہو۔ اور یہی معنی مراد ہے اس فرمان الٰہی سے : قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا … ﴿١٤﴾الحجرات
یعنی اعراب (دیہاتی بدؤں) نے کہا ہم ایمان لائے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے تم ایمان نہیں لائے لیکن کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں (یعنی فقط زبانی )۔
(۲)جب ایمان سے بھی زیادہ اشیاء مشتمل ہو۔ یعنی اقرار باللسان کے ساتھ ساتھ اعتقاد بالقلب ،عسل اور ہر قضاء و قدر الٰہی میں اس کا مطیع ہونا۔ جیسا کہ ابرہیم علیہ السلامکے بارے میں فرمان الٰہی ہے: إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٣١﴾البقرة
یعنی جب اس کو اس کے رب نے کہا فرمانبردار بن جاؤ، کہا میں رب العالمین (جہانوں کےرب) کا مطیع و فرمانبردار ہو گیا۔
او فرمایا: تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿١٠١﴾ يوسف
یعنی مجھے ان لوگوں سے بنا جو تیری رضا کے لئے جھک جاتےہیں۔ اور یہ بھی معنی ہو سکتا ہے۔ مجھے شیطان کے شر سے سالم رکھ۔
اور فرمان الٰہی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٠٨﴾البقرة
یہاں پر ”السَّلْمُ“ سے مراد اسلام اور اس کے تمام شرائع مراد ہیں۔ ”سِلْم“ اسلام کو کہتے ہیں۔
شاعر امرص نے کہا ہے:
فَذَادُوا عَدُوَّالسِّلْمِ عَنْ عُقْرِ دَارِھِمْ
پس انہوں نے اسلام کے دشمن کو اپنے اصل گھر سے دھکیل دیا
وَأَرْسَوْا عَمُوْدَ الدِّیْنِ بَعْدَ التَّمَایُلِ
اور مضبوط گاڑ دیا دین کےعمو د کو آپس میں جنگ کے بعد
پس انہوں نے اسلام کے دشمن کو اپنے اصل گھر سے دھکیل دیا
وَأَرْسَوْا عَمُوْدَ الدِّیْنِ بَعْدَ التَّمَایُلِ
اور مضبوط گاڑ دیا دین کےعمو د کو آپس میں جنگ کے بعد