• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس حدیث کی صحت کا سوال نہیں، مسئلہ آپ کی فہم کا ہے!
آپ ذرا شرح فقہ اکبر کی عبارت کا ترجمہ تحریر فرمائیں!
جناب،
یہ میرا اکیلا فہم نہیں ہے میں یہاں پہنچا ہو تو ایسے ہی نہیں 14 سو سال کے اماموں کے میرے پاس دفتر ہیں ان میں سے یہ چند حوالہ پیش کیے ہیں اپ بھ پڑھ لیں۔

وَالْجَوَابُ عَنْ هَذَا أَنَّ الْمُرَادَ فِي حَدِيثِ الخلافة ثلاثون سنة خلافة النبوة وقد جاءمفسرا فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ بَعْدِي ثَلَاثُونَسَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا وَلَمْ يُشْتَرَطْ هَذَا فِي الِاثْنَيْ عَشَرَ السُّؤَالُ الثَّانِي أَنَّهُ قَدْ وَلِيَ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا الْعَدَدِ قَالَ وَهَذَا اعْتِرَاضٌ بَاطِلٌ لِأَنَّهُ صَلَّىاللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم يقل لا يلي إلا اثنى عَشَرَ خَلِيفَةً وَإِنَّمَا قَالَ يَلِي وَقَدْ وَلِيَ هذا العدد ولا يضركونه وُجِدَ بَعْدَهُمْ غَيْرُهُم هَذَا إِنْ جُعِلَالْمُرَادَ بِاللَّفْظِ كُلُّ وَالٍ وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مُسْتَحِقَّ الْخِلَافَةِ الْعَادِلِين(شرح نووی ) اس سے مراد
عادل خلفاء کے بارے میں ہے اور وہ یہ سب ایک ساتھ نہیں ہوں گے جیسا کہ دیگر آئمہ نے نقل کیا ہے ۔
چنانچہ ابن کثیر فرماتے ہیں

وَلَيْسَ الْمُرَادُ مِنْ هَؤُلَاءِ الِاثْنَيْ عَشْرَ الَّذِينَ تَتَابَعَتْ وِلَايَتُهُمْ سَرْدًا إِلَى أَثَنَاءِ دَوْلَةِ بَنِي أُمَيَّةَ لِأَنَّ حَدِيثَ سَفِينَةَ: "الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سنة1"يمنع من هذا الملك، وَإِنْ كَانَ الْبَيْهَقِيُّ قَدْ رَجَّحَهُ وَقَدْ بَحَثَنَا معه في كتاب دلائل النبوة في كِتَابِنَا هَذَا بِمَا أَغْنَى عَنْ إِعَادَتِهِ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ، وَلَكِنَّ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةَ الِاثْنَيْ عَشَرَ وُجِدَ مِنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ عَلِيٌّ وَابْنُهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ أَيْضًا، وَمِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَمَا هُوَ عِنْدَ كَثِيرٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَجُمْهُورِ الأمة(النھایہ فی فتن و الملاحم ابن کثیر جلد 1ص 23)
ابن کثیر نے دونوں احادیث کو سامنے رکھا ہے اور اس میں نہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اورنہ یزید نہ اس کے بعد بنو امیہ کے ملوک بلکہ انہوں نے اس میں عمر بن عبدالعزیز کو رکھا ہے۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ وُجُودِ اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً عَادِلًا وَلَيْسُوا هُمْ بِأَئِمَّةِ الشِّيعَةِ الِاثْنَيْ عَشْرَ، فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ أُولَئِكَ لَمْ يَكُنْ إِلَيْهِمْ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ، فَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَإِنَّهُمْ يَكُونُونَ مِنْ قُرَيْشٍ يَلُونَ فَيَعْدِلُونَ، وَقَدْ وَقَعَتِ الْبِشَارَةُ بِهِمْ فِي الْكُتُبِ الْمُتَقَدِّمَةِ، ثم لا يشترط أن يكونوا مُتَتَابِعِينَ، بَلْ يَكُونُ وُجُودُهُمْ فِي الْأُمَّةِ مُتَتَابِعًا وَمُتَفَرِّقًا، وَقَدْ وُجِدَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ عَلَى الْوَلَاءِ وَهُمْ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثم علي رضي الله عنه، ثُمَّ كَانَتْ بَعْدَهُمْ فَتْرَةٌ، ثُمَّ وُجِدَ مِنْهُمْ من شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَدْ يُوجَدُ مِنْهُمْ مَنْ بقي في الوقت الذي يعلمه الله تعالى.
ومنهم المهدي الذي اسمه يطابق اسْمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْيَتُهُ كُنْيَتَهُ، يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَقِسْطًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا.
تفیسر ابن کثیر تحت سورہ النور آیت 55
امام عینی حنفی عمدہ القاری میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ۔
يزَال هَذَا الدّين قَائِما مَا كَانَ اثْنَي عشرَة خَليفَة، كلهم من قُرَيْش
... الحَدِيث. قلت: قيل: إِن الَّذين لم يزل قَائِما حَتَّى ولَّي اثْنَي عشر خَليفَة كلهم من قُرَيْش، وَأَرَادَ بِهَذَا خلَافَة النُّبُوَّة وَلم يرد أَنه لَا يُوجد غَيرهم، وَقيل: هَذَا الحَدِيث فِيهِ إِشَارَة بِوُجُود إثني عشر خَليفَة عادلين من قُرَيْش، وَإِن لم يوجدوا على الْوَلَاء وَإِنَّمَا اتّفق وُقُوع الْخلَافَة المتتابعة بعد النُّبُوَّة فِي ثَلَاثِينَ سنة، ثمَّ قد كَانَ بعد ذَلِك خلفاء راشدون مِنْهُم: عمر بن عبد الْعَزِيز، وَمِنْهُم الْمُهْتَدي بِأَمْر الله العباسي، وَمِنْهُم الْمهْدي المبشر بِوُجُودِهِ فِي آخر الزَّمَان

باب مناقب القریش جلد 16 ص 74
یہ چند حوالہ جات ہے جو میں نے اس حدیث کےتحت دیئے ہیں کسی نے بھی ان بارہ خلفاء سے مراد سارے امویہ نہیں لیے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں لیا ہے اب جو ان کو بعض جگہ خلیفہ کہا جاتا ہے اس سے مراد کیا ہے یہ بھی معلوم کرلیتے ہیں

الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم
فتح الباری تحت رقم 7005
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ شرح فقہ اکبر کا عبارت کا ترجمہ تو پیش کریں!
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
تیس خلافت والی حدیث کی تخریج پر تو اہل علم بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -

امام احمد اپنی مسند میں بیان کرتے ہیں کہ :

قَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ» ثُمَّ سَكَتَ،

حضرت حذیفه رضی الله عنہ فرماتے ہے کہ رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا۔ پھر خلافت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا اور اس کے بعد (دوبارہ ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے-

مذکورہ بالا حدیث میں ٣٠ سال کی کوئی قید نہیں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد ہے کہ ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا- اور یہ حدیث نبی کریم کس اس صحیح حدیث سے بھی کسی حد تک مطابقت رکھتی ہے جس میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا تھا کہ هذا الامر لاینقضی حتیٰ یمزی فیھم اثنا عشرخلیفه کلھم قریش (صحیح مسلم ١٨٢١) یہ دین ختم نہیں ہو گا جب تک اس میں بارہ خلفاء نہ ہو گزریں- یہ سب کے سب قریش سے ہونگے-

رہا اکابرین اہل سنّت کا اس ٣٠ سال والی روایت سے خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت ) سے استدلال کا معامله -تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کی راے سے متفق ہوا جائے - حافظ زبیر علی زئی اور مولانا عبد الرحمان کیلانی جیسے اکثر علماء نے علامہ البانی ، ابن تیمیہ رحم الله ،ابن حجر رحمہ الله وغیرہ سے کئی ایک مسائل میں اختلاف بھی کیا ہے- اور یہی اہل حدیث کا خاصہ ہے کہ کسی کی اندھی تقلید بہرحال نا جائز ہے-

کیوں کہ اگر ٣٠ سال والی روایت سے اکابرین کے اس رافضی مفہوم کو مان لیا جائے کہ اس کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت) تھی- تو پھر اس سے تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا غاصب اور بدعتی ہونا لازم اتا ہے (نعوز باللہ) - صرف یہی نہیں بلکہ حضرت حسن رضی الله عنہ بھی اس بنا پر گناہ گار تصور کیے جائیں گے کہ انہوں نے ایک بدعتی ( امیر معاویہ رضی الله عنہ) سے مصالحت کی بیعت کی- جب کہ مصالحت کے اس سال کو صحابہ کے درمیان عام الجماعه کے نام سے جانا گیا- ورنہ اس سال کو تو اس ٣٠ سال خلافت والی حدیث کی روشنی میں عام الملوک (بادشاہوں کا سال ) کہا جانا چاہیے تھا- کیا حسن رضی الله تعالی عنہ ایک ایسے بادشاہ کے حق میں دستبردار ہو گئے جو بدعتی خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ پر نہیں تھا -؟؟ اللہ رب العزت کا تو ارشاد ہے کہ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ سوره المائدہ ٢ ترجمہ : اور آپس میں نیکی اور پرہیز گاری پر تعاون کرو اورگناہ اور ظلم پر ہرگز آپس میں تعاون نہ کرو- اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے-

کیا حضرت حسن رضی الله عنہ اس آیت سے بے خبر تھے کہ انہوں نے ملوکیت کی بدعت کو ایجاد کرنے والے امیر معاویہ رضی الله عنہ سے تعاون کیا ؟؟ جب کہ انہیں معلوم تھا کہ ملوکیت ایک بدعت ہے جو نبی کریم اور آپ کے اصحاب کی سنّت نہیں - معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں جو جہاد ہوئے ان میں حسین رضی الله تعالی عنہ بھی شریک تھے کیا وہ ایسے نظام کو مظبوط کر رہے تھے جو تھا ہی غلط . کیا اس جہاد کے نتیجے میں جو علاقے فتح ہوئے ان پر غیر اسلامی نظام مسلط کرنے کے لئے انہوں نے غلط کام نہیں کیا ؟؟ اور یہ بار گناہ انہی پر صرف نہیں- تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر آتا ہے جنہوں نے جنہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کی حکمرانی کو قبول کیا-؟؟

مزید یہ کہ معاویہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا إن ھذا الأمر فی قریش لا یعادیھم أحد إلا کبہ اللہ علی وجھہ ما أقامو ا الدین : (یہ امر خلافت قریش میں رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھا کر دے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے)۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش ،کتاب الاحکام) جب کہ اپنے اس قول کے باوجود وہ خود ملوکیت کی راہ چنتے ہیں- کیا یہ ممکن ہے؟؟ (فلعنت الله علی الکاذبین)-

مزید یہ کہ آپ کے مراسلے سے کہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ یزید بن معاویہ ظالم و فاسق و فاجر حکمران تھے - زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کوفہ کے گورنر ابن زیاد میں فسق و فجور تھا- کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک حکمران خود صالح ہوتا ہے لیکن اس کے حکومتی کارندے فاسق ہوتے ہیں خود حضرت علی رضی الله عنہ جب خلیفہ وقت تھے تو ان کے نیچے کام کرنے والے فاسق و فاجر تھے یہی لوگ تھے جو بعد میں خارجی بن کر ابھرے تو خود حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت کردی-

علامہ ابن جریر طبری (تاریخ طبری جلد ٥) میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت حسین رضی الله عنہ کا سر مبارک امیر یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تو یزید بن معاویہ رحم الله بے اختیار رو پڑے اور پھر کہا "الله کی لعنت ہو ابن مرجانہ (عبید الله بن زیاد ) پر کہ اس نے نبی کے نواسے کی عزت و عظمت کا پاس نہیں کیا - اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی حسین رضی الله عنہ کے ساتھ ایسا نہ کرتا-
جناب ،
آپ کی تیسری بات تھی "
کیوں کہ اگر ٣٠ سال والی روایت سے اکابرین کے اس رافضی مفہوم کو مان لیا جائے"
کہ اکابرین اہل سنت رافضیوں کی باتوں میں آکر رافضی کے بعض عقائد میں ان کی تائید کرنے لگے یا ان اکابرین میں رافضیت کے جراثیم منتقل ہو گئے تھے ان میں سے کون سے بات ہوئی تھی یہ اپ بتائیں گے اور میں اپ کی بتاتا ہوں کہ اب اہل سنت کے پاس شاید چند ہی اکابرین یا آئمہ سلف رہ جائیں گے جن میں بقول اپ کے راضعیت سے متاثر نہ ہوں گے میں نام لیتا ہوں اپ پڑھتے جائیں۔
(1)ابن حزم(2) ابن عبدالبر(3) امام الابی مالکی(4) امام احمد بن حنبل(5) امام ابن تیمیہ (6) امام ابن قیم(7) امام ابن جوزی(8)امام ذہبی (9) حافظ ابن حجر(10) امام ابن کثیر (11) امام شوکانی(12)امام العینی حنفی(13) امام ابن العز حنفی(14) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(15)شیخ البانی(16) امام زین الدین العراقی(17) قاضی عیاض(18) ملا علی قاری حنفی(19)صفی الرحمان مبارک پوری(20) شمس الدین مراد آبادی(21) انور شاہ کاشمیری دیوبندی(22) امام جلال الدین سیوطی (23) امام آلوسی(24) محمد رشید رضا التفسیر المنار(25) امام ابو بکر قاضی تفسیر احکام القرآن(26) قاضی ابو بکر جصاص حنفی
یہ سب آئمہ اہل سنت ہے جن میں رافضیت کے جراثیم ہے اب آپ اہل سنت کے کچھ اکابرین کے نام بتائیں اور یہ بھی کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی ملوکیت کو خلافت کہا ہو۔
اب اپ کی آخری بات حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کیوں کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ کافر بھی جنگ کے دوران صلح کی پیشکش کریں تو صلح کر لو اس لیے انہوں نےصلح کی تھی جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اوریہ مسلمانوں کے بڑے گروہ میں صلح کرواے گا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی پوری ہوئی جو نبوت علامات میں سے ایک ہے اوریہ میں اپنی طرف سے نہین کہہ رہا آئمہ اہل سنت جراثیم رافضیا نے کہا ہے۔ اس کے بھی حوالے مانگے تو پیش کر دوں گا اب یہ کہنا کہ ان سے وظیفہ لیتے نماز ان کے پیچھے پڑھتے تھے ان کے ساتھ جہاد کرتے ان کی معایت میں حج کرتے تو یہ سب مجبوری کا تھا محدثین نے احادیث کے تحت باب آئمہ الجور کے ابواب قائم کیے ہیں چنانچہ امام ابن تیمیہ جراثیم رافضیت لکھتے ہین کہ " مسلمان ان آئمہ جور کے پیچھے نماز بھی پڑھے گے اور جہاد بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ نیک کام ہیں مگر ان کی منکر میں تائید نہیں کریں گے اور یہ آئمہ جور میں کسی کی مثال دی ہے آپ کے چہیتے یزید کی( منھاج السنہ)
اب آخری بات آپ کا یہ کہنا کہ میرے مراسلہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ یزید کا گورنر ابن زیاد برا تھا جناب میں اپ کو یاد دلا دوں پہلے میں نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھا تھا کہ ملک عضوض ہے یعنی ظالم بادشاہت ہے اس یہ پوری حکومت ہی ظالم کی ہے تو پھر آپ کیسے نیک فرما رہے ہیں اس ظالم حکومت میں جو ظلم ہوتے تھے وہ میں نے بتائیں ہیں اگر اس میں کوئی ظلم نہ بھی ہوتا ہو مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم ہے تو ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی ہے۔

جناب کی تسلی کے لیے یہ بتا دوں کہ نماز وقت پر پڑھانا خلیفہ کا کام ہوتا ہے سمجھ یہ قرآن سے ثابت ہے کہ جن کے ہاتھ میں الامر ہوتا ہے نماز قائم کروانا ان کی ذمہ داری ہے جبکی حدیث میں ہے کہ 60 سال کے بعد نماز ضائع ہوں گی تو یہ کیسا خلیفہ تھا (بقول اپ کے ہم تو حدیث کی رو سے ظالم بادشاہ مانتے ہیں ) جو نماز نہیں پڑھاتا تھا جاؤ میں چیلنج کرتا ہو سارے جمع ہو جاؤ اور ذخیرہ احادیث سے کوئی ایک صحیح روایت لے آؤ جس میں موجود ہو کہ یزید نے باجماعت نماز پڑھائی ہے تاریخ سے نہیں کتب احادیث سے پیش کرنا ایک بھی نہیں ملے گی جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ظالم حکمران ہے تو ہے نمازیں ضائع کرنے والے ہیں تو ہیں فرمان رسول کو نہ جھٹلاؤ۔ اللہ ہدایت دے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب اب آپ کی دوسری بات کی جانب چلتے ہیں اپ نے مسند احمد سے حدیث نقل کی ہے اور کہا کہ اس میں 30 سال کی کوئی قید نہیں ہے تو جناب سے گزارش ہے کہ مسند احمد میں خلافت کہ بعد ملک عضوض بتائی گئی ہے اور وہ ملک عضوض کب ہوگی اس کی مدت اس حدیث میں موجود ہے اس لئے آئمہ میں سے بعض نے اس 30 سال والی حدیث میں ملک عضوض کا اضافہ کیا جو اس پر دل ہے کہ یہ دونوں حدیث ایک دوسرے کی شارح ہیں۔
یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلہ سے متعلق اس کی تمام روایات کو جمع کر کے اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے صرف ایک روایت کو سامنے رکھ کر نتیجہ نہیں نکالا جاتا ہے اور ایسا ہو تو پھر ابلیس صرف سورہ البقرہ کے مطابق فرشتہ ثابت ہو گا جبکہ سورہ الکھف میں اللہ نے اس کے بارے میں فرمادیا "و کان من الجن" تو صواب یہی ہے کہ مسئلہ کو یا کسی بھی حدیث سے حکم سمجھنے کے لئے اس کے تمام طرق کو سامنے رکھنا چاہے ورنہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا اور آدمی کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے جیسا اپ نے کیا ہے اور اس طرح سمجھنے کی وجہ سے اپ سلف و اکابرین کے فہم سے دور ہو گئے ہیں۔
مسند احمد کی حدیث کی تائید میں اپ نے مسلم سے حدیث پیش کی ہے کے خلفاء قریش میں سے ہوں گے اس بارے میں اپ نے حدیث تو پیش کر دی مگر اسی حدیث پر شارح مسلم امام نووی اور اکابرین کا تبصرہ پڑھ لیتے تو یہ بات شاید اپ نہ کرتے چنانچہ امام نووی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں۔
وَالْجَوَابُ عَنْ هَذَا أَنَّ الْمُرَادَ فِي حَدِيثِ الخلافة ثلاثون سنة خلافة النبوة وقد جاءمفسرا فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا وَلَمْ يُشْتَرَطْ هَذَا فِي الِاثْنَيْ عَشَرَ السُّؤَالُ الثَّانِي أَنَّهُ قَدْ وَلِيَ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا الْعَدَدِ قَالَ وَهَذَا اعْتِرَاضٌ بَاطِلٌ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم يقل لا يلي إلا اثنى عَشَرَ خَلِيفَةً وَإِنَّمَا قَالَ يَلِي وَقَدْ وَلِيَ هذا العدد ولا يضركونه وُجِدَ بَعْدَهُمْ غَيْرُهُم هَذَا إِنْ جُعِلَ الْمُرَادَ بِاللَّفْظِ كُلُّ وَالٍ وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مُسْتَحِقَّ الْخِلَافَةِ الْعَادِلِين(شرح نووی ) اس سے مراد
عادل خلفاء کے بارے میں ہے اور وہ یہ سب ایک ساتھ نہیں ہوں گے جیسا کہ دیگر آئمہ نے نقل کیا ہے ۔
چنانچہ ابن کثیر فرماتے ہیں

وَلَيْسَ الْمُرَادُ مِنْ هَؤُلَاءِ الِاثْنَيْ عَشْرَ الَّذِينَ تَتَابَعَتْ وِلَايَتُهُمْ سَرْدًا إِلَى أَثَنَاءِ دَوْلَةِ بَنِي أُمَيَّةَ لِأَنَّ حَدِيثَ سَفِينَةَ: "الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سنة1" يمنع من هذا الملك، وَإِنْ كَانَ الْبَيْهَقِيُّ قَدْ رَجَّحَهُ وَقَدْ بَحَثَنَا معه في كتاب دلائل النبوة في كِتَابِنَا هَذَا بِمَا أَغْنَى عَنْ إِعَادَتِهِ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ، وَلَكِنَّ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةَ الِاثْنَيْ عَشَرَ وُجِدَ مِنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ عَلِيٌّ وَابْنُهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ أَيْضًا، وَمِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَمَا هُوَ عِنْدَ كَثِيرٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَجُمْهُورِ الأمة(النھایہ فی فتن و الملاحم ابن کثیر جلد 1ص 23)
ابن کثیر نے دونوں احادیث کو سامنے رکھا ہے اور اس میں نہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اورنہ یزید نہ اس کے بعد بنو امیہ کے ملوک بلکہ انہوں نے اس میں عمر بن عبدالعزیز کو رکھا ہے۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ وُجُودِ اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً عَادِلًا وَلَيْسُوا هُمْ بِأَئِمَّةِ الشِّيعَةِ الِاثْنَيْ عَشْرَ، فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ أُولَئِكَ لَمْ يَكُنْ إِلَيْهِمْ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ، فَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَإِنَّهُمْ يَكُونُونَ مِنْ قُرَيْشٍ يَلُونَ فَيَعْدِلُونَ، وَقَدْ وَقَعَتِ الْبِشَارَةُ بِهِمْ فِي الْكُتُبِ الْمُتَقَدِّمَةِ، ثم لا يشترط أن يكونوا مُتَتَابِعِينَ، بَلْ يَكُونُ وُجُودُهُمْ فِي الْأُمَّةِ مُتَتَابِعًا وَمُتَفَرِّقًا، وَقَدْ وُجِدَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ عَلَى الْوَلَاءِ وَهُمْ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثم علي رضي الله عنه، ثُمَّ كَانَتْ بَعْدَهُمْ فَتْرَةٌ، ثُمَّ وُجِدَ مِنْهُمْ من شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَدْ يُوجَدُ مِنْهُمْ مَنْ بقي في الوقت الذي يعلمه الله تعالى.
ومنهم المهدي الذي اسمه يطابق اسْمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْيَتُهُ كُنْيَتَهُ، يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَقِسْطًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا.
تفیسر ابن کثیر تحت سورہ النور آیت 55
امام عینی حنفی عمدہ القاری میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ۔
يزَال هَذَا الدّين قَائِما مَا كَانَ اثْنَي عشرَة خَليفَة، كلهم من قُرَيْش
... الحَدِيث. قلت: قيل: إِن الَّذين لم يزل قَائِما حَتَّى ولَّي اثْنَي عشر خَليفَة كلهم من قُرَيْش، وَأَرَادَ بِهَذَا خلَافَة النُّبُوَّة وَلم يرد أَنه لَا يُوجد غَيرهم، وَقيل: هَذَا الحَدِيث فِيهِ إِشَارَة بِوُجُود إثني عشر خَليفَة عادلين من قُرَيْش، وَإِن لم يوجدوا على الْوَلَاء وَإِنَّمَا اتّفق وُقُوع الْخلَافَة المتتابعة بعد النُّبُوَّة فِي ثَلَاثِينَ سنة، ثمَّ قد كَانَ بعد ذَلِك خلفاء راشدون مِنْهُم: عمر بن عبد الْعَزِيز، وَمِنْهُم الْمُهْتَدي بِأَمْر الله العباسي، وَمِنْهُم الْمهْدي المبشر بِوُجُودِهِ فِي آخر الزَّمَان

باب مناقب القریش جلد 16 ص 74
یہ چند حوالہ جات ہے جو میں نے اس حدیث کےتحت دیئے ہیں کسی نے بھی ان بارہ خلفاء سے مراد سارے امویہ نہیں لیے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں لیا ہے اب جو ان کو بعض جگہ خلیفہ کہا جاتا ہے اس سے مراد کیا ہے یہ بھی معلوم کرلیتے ہیں

الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم
فتح الباری تحت رقم 7005
تو آئمہ سلف سے لے کر اب تک کسی آئمہ نے اس کا مطلب وہ نہیں لیا جو اپ مجھے سمجانا چاہ رہے ہو ۔

پہلی بات :

مسند احمد کی حدیث میں کہیں بھی ٣٠ سال کی قید نہیں - یہ صحابہ کرام خوصوصاً بنو امیّہ خاندان پر تبرّا ہے - مودودی جیسے علماء نے "اپنی خلافت و ملوکیت" میں حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کو نہیں چھوڑا اور ان کو اموی خلیفہ ہونے کی بنا پر اپنی تنقید و تنقیص کا ایسا نشانہ بنایا ہے کہ الله کی پناہ -

دوسری بات کہ آئمہ و محدثین کے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ خلیفہ بلفصل تھے اس میں کوئی شک والی بات نہیں - یہ ایک گمراہ کن عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین معاویہ و یزید رضی الله عنہ کی خلافت میں ان سے ڈر کر یا صبر کر کے بیٹھ گئے تھے- وہ صحابہ کرام جنہوں نے فارس و اہل روم کی بنیادیں ہلا ڈالیں وہ کیا اپنے ان قبائلی اصحاب کے ظلم و ستم سے خوف کھا بیٹھے؟؟ -یہ تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم پر مخفی تبرّا ہے کہ انہوں نے اپنے اصحاب کی صحیح طور پر تعلیم و تربیت نہیں کی کہ آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی وفات کے بعد وہ ظالم و فاسق بن بیٹھے- ویسے بھی محدثین و محقیقین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جس روایت سے کسی بھی صحابی رسول کی تنقیص کا واضح پہلو نکلتا ہو وہ روایت قابل قبول نہیں ہو گی یا پھر اس کی ایسی توجیہ کی جائے کہ جس سے ان کی تنقیص کا پہلو نہ نکلے -

آپ نے علامہ ابن کثیر رحم الله کے حوالے پیش کیے تو یہ حوالہ بھی ملاحظه کرلیں - جو یزید بن معاویہ رحمہ الله سے متعلق ہے-

یزید رحمہ اللہ کے فسق و فجور کے افسانوں کی تردید میں خود حضرت حسین کے برادرِ اکبر محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کا یہ بیان کافی ہے :

'' تم یزید کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ، میں نے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نے انھیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی ، مسائی شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے ۔ '' ( البدایۃ و النہایۃ ، جلد : ٨ ص : ٢٣٣ )-

الله ہمیں تمام صحابہ کرام رضوان الله آجمعین اور مومنین کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا بنا (آمین) -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب،

یہ چند حوالہ جات ہے جو میں نے اس حدیث کےتحت دیئے ہیں کسی نے بھی ان بارہ خلفاء سے مراد سارے امویہ نہیں لیے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں لیا ہے اب جو ان کو بعض جگہ خلیفہ کہا جاتا ہے اس سے مراد کیا ہے یہ بھی معلوم کرلیتے ہیں
الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم
فتح الباری تحت رقم 7005

الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم
فتح الباری تحت رقم 7005

اس میں ابن حجر کا قول ہے کہ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ کہ اکثریت کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ کی حکومت طریقہ ملوک پر ہے لیکن وہ یہ واضح نہیں کررہے کہ اکثریت کون لوگ ہیں - وَالله أعلم

حافظ زبیر علی زئی "تحقیق اصلاحی" میں حدیث الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سے مراد خلافت راشدہ لیتے ہیں - مطعلقاً خلافت کا انکار نہیں کرتے- یعنی تین سال بعد عام خلافت ہو گی - (اس سے مراد ملوکیت ہرگز نہیں ہے)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اب آخری بات آپ کا یہ کہنا کہ میرے مراسلہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ یزید کا گورنر ابن زیاد برا تھا جناب میں اپ کو یاد دلا دوں پہلے میں نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھا تھا کہ ملک عضوض ہے یعنی ظالم بادشاہت ہے اس یہ پوری حکومت ہی ظالم کی ہے تو پھر آپ کیسے نیک فرما رہے ہیں اس ظالم حکومت میں جو ظلم ہوتے تھے وہ میں نے بتائیں ہیں اگر اس میں کوئی ظلم نہ بھی ہوتا ہو مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم ہے تو ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی ہے۔

جناب کی تسلی کے لیے یہ بتا دوں کہ نماز وقت پر پڑھانا خلیفہ کا کام ہوتا ہے سمجھ یہ قرآن سے ثابت ہے کہ جن کے ہاتھ میں الامر ہوتا ہے نماز قائم کروانا ان کی ذمہ داری ہے جبکی حدیث میں ہے کہ 60 سال کے بعد نماز ضائع ہوں گی تو یہ کیسا خلیفہ تھا (بقول اپ کے ہم تو حدیث کی رو سے ظالم بادشاہ مانتے ہیں ) جو نماز نہیں پڑھاتا تھا جاؤ میں چیلنج کرتا ہو سارے جمع ہو جاؤ اور ذخیرہ احادیث سے کوئی ایک صحیح روایت لے آؤ جس میں موجود ہو کہ یزید نے باجماعت نماز پڑھائی ہے تاریخ سے نہیں کتب احادیث سے پیش کرنا ایک بھی نہیں ملے گی جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ظالم حکمران ہے تو ہے نمازیں ضائع کرنے والے ہیں تو ہیں فرمان رسول کو نہ جھٹلاؤ۔ اللہ ہدایت دے۔
یزید رحمہ اللہ کے فسق و فجور کے افسانوں کی تردید میں خود حضرت حسین کے برادرِ اکبر محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کا یہ بیان کافی ہے :

'' تم یزید کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ، میں نے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نے انھیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی ، مسائی شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے ۔ '' ( البدایۃ و النہایۃ ، جلد : ٨ ص : ٢٣٣ )-
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
پہلی بات :

مسند احمد کی حدیث میں کہیں بھی ٣٠ سال کی قید نہیں - یہ صحابہ کرام خوصوصاً بنو امیّہ خاندان پر تبرّا ہے - مودودی جیسے علماء نے "اپنی خلافت و ملوکیت" میں حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کو نہیں چھوڑا اور ان کو اموی خلیفہ ہونے کی بنا پر اپنی تنقید و تنقیص کا ایسا نشانہ بنایا ہے کہ الله کی پناہ -

دوسری بات کہ آئمہ و محدثین کے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ خلیفہ بلفصل تھے اس میں کوئی شک والی بات نہیں - یہ ایک گمراہ کن عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین معاویہ و یزید رضی الله عنہ کی خلافت میں ان سے ڈر کر یا صبر کر کے بیٹھ گئے تھے- وہ صحابہ کرام جنہوں نے فارس و اہل روم کی بنیادیں ہلا ڈالیں وہ کیا اپنے ان قبائلی اصحاب کے ظلم و ستم سے خوف کھا بیٹھے؟؟ -یہ تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم پر مخفی تبرّا ہے کہ انہوں نے اپنے اصحاب کی صحیح طور پر تعلیم و تربیت نہیں کی کہ آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی وفات کے بعد وہ ظالم و فاسق بن بیٹھے- ویسے بھی محدثین و محقیقین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جس روایت سے کسی بھی صحابی رسول کی تنقیص کا واضح پہلو نکلتا ہو وہ روایت قابل قبول نہیں ہو گی یا پھر اس کی ایسی توجیہ کی جائے کہ جس سے ان کی تنقیص کا پہلو نہ نکلے -

آپ نے علامہ ابن کثیر رحم الله کے حوالے پیش کیے تو یہ حوالہ بھی ملاحظه کرلیں - جو یزید بن معاویہ رحمہ الله سے متعلق ہے-

یزید رحمہ اللہ کے فسق و فجور کے افسانوں کی تردید میں خود حضرت حسین کے برادرِ اکبر محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کا یہ بیان کافی ہے :

'' تم یزید کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ، میں نے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نے انھیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی ، مسائی شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے ۔ '' ( البدایۃ و النہایۃ ، جلد : ٨ ص : ٢٣٣ )-

الله ہمیں تمام صحابہ کرام رضوان الله آجمعین اور مومنین کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا بنا (آمین) -
جناب،
بڑے افسوس کی بات ہے میں نے 10 آئمہ اہلسنت کے حوالے پیش کیے ہیں کیا سب رافضی ذہن رکھتے تھے نعوذباللہ اور 25 سے ذیادہ کے نام لکھ چکا ان کے حوالے چاہیں تو وہ بھی مل جائیں گے کہ ان سب نے اس حدیث کے تحت یہی لکھا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت ملوکیت تھی اور جہاں تک آپ یہ رٹ لگا کر بیٹھے ہیں کہ مسند احمد کی روایت میں کوئی قید نہیں تو اس کے حوالے سے میں بتا چکا ہوں کہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اس سے متعلق تمام روایات سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے اس لیے مسند احمد کی روایت میں ملک عضوض بتایا گیا اور وہ ملک کب سے شروع ہوگا یہ ابوداود کی حدیث میں موجود ہے اور اس کے لیے میں نے قرآن سے مثال بھی پیش کی تھی
(1) سورہ البقرۃ میں موجود ہے" تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے"
اس آیت سے یہ سمجھ آتا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا مگر
(2) سورۃ الکھف میں موجود ہے کہ "ما کان من الجن" وہ جنوں میں سےتھا۔
میرے خیال اب اس پر دوسری مثال کی ضرورت نہیں ہے۔
جناب اپ کو بخاری سے بتا دیتا ہوں ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ وسلم کی احادیث سنانے سے ڈرتے تھے کیوں معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور تو بقول اپ کے سنہرا دور تھا اس میں حدیث رسول سنانے پر خوف کیوں ابن حجر نے فرمایا کہ یہ حکمرانوں کے بارے میں تھی اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کا خوف تھا
عمران بن حصین مرتے وقت حدیث بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر میں زندہ رہ گیا تو کسی کو یہ حدیث نہ بتانا کس کا خوف تھا حدیث نہ بتانے سے یہ بھی بخاری میں کتاب المناسک میں موجود ہے اور سنن نسائی میں صحیح حدیث موجود ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا حج کے موقع پر کہ لوگ تلبیہ کیوں نہیں پڑھ رہے کہا گیا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خوف سے نہیں پڑھ رہے، خلیفہ کے خوف سے سنت چھوڑ رہے ہیں۔ یہ سنہرا دور ہے مروان منبر پر عید کا خطبہ نماز سے پہلے دیتا ہے تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس کو روکتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سنت نہیں ہے تو کہتا ہے کہ سنت کے زمانے ترک ہوئے(نعوذ باللہ) یہ صحیح مسلم اور بخاری دونوں میں ہےموجود "اصح بعد کتاب اللہ" یہ بخاری کے بارے میں کہا ہے یہ کوئی رافضی کتابیں نہیں نہ تاریخ کی قصے کہانیاں ہیں
اس سنہرے دور میں مروان منبروں پر علی رضی اللہ عنہ کو لعنت دیتا تھا(نعوذ باللہ) یہ تاریخ کی رافضی روایت نہیں ہیں بلکہ امام المحدثین امام بخاری کی کتب بخاری میں ہے اس سنہرے دور میں عید کے خطبہ پہلے ہوتے تھے اور نماز بعد میں ہوتی تھی اس سنہرے دور میں بدعات ہو رہی ہیں یہ بھی بخاری میں ہے رافضی روایت میں نہیں ہے نماز لیٹ ہوتی تھی پڑھو صحیح مسلم کتاب تاخیر الصلاۃ کے باب اس میں ابن زیاد نماز لیٹ کرتا تھا اور یہ کس کا دور تھا اپ کا نام نہاد نیک یزید کادور تھا، پڑھو صحیح بخاری میں جس میں موجود ہے کہ لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے آکر پوچھتے تھے کہ ہم جب امیر(حکمرانوں) کے پاس جاتے ہیں تو ان کی تعریف کرتے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں وہ غلط کہہ رہا ہے مگر پھر بھی ہم ان کے فیصلوں کو صحیح کہتے ہیں اور وہاں سے باہر نکل کر ان کو برا بھلا کہتےہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اس کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نفاق سے تعبیر کرتے تھے امت کی حق گوئی ختم ہو گئی جو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوک دیتے تھے وہ امت ان امیر کے سامنے حق کہنے سے بعض آ گئے تھی اس کی شرح میں حافظ ابن حجر نے مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح سند سے موجود ہے کہ وہ امیر مروان، اور آپ کا لاڈلا یذید تھا اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ انہی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اگر تم ان کی مخالفت کرو گے تو قتل کر دیں گے اور ان کی بات مانو گے تو ہلاک ہو جاؤ گے یہ احادیث کی کتب سے روایات ہیں ان سب کے حوالے آپ چاہو تو میں ایک ایک کر کے پیش کر سکتا مگر مجھے پوسٹ بنانا نہیں آتا ہے وہاں میں یہ سب روایات بمہ حوالہ پیش کردوں گا اور یہ مت سمجھنا یہ اختتام ہے ابھی ایسی باتیں ہےکہ اپ کے حوش اڑ جائیں گے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا امیر کو زکوۃ دیں جبکہ آپ دیکھ رھے ہیں وہ اپنے لباس اور خشبوں پر لٹا رہے ہیں انہوں نے فرمایا یہ اپنے دستر خوان پر کتے نوچ کر بھی کھائیں ان کو دے دو یہ تاریخ کی نہیں اور نہ رافضی کی کتاب میں ہیں مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہی اور البانی نے ارواء الغلیل میں اس کو صحیح کہا ہے کرپشن ہو رہی تھی اپ کے نام نہاد خلیفہ کے دور میں اور خود کر رہا تھا یہ ہے اپ کا خلیفہ اللہ کی قسم یہ پڑھ کر میرا ایمان اور بڑھ گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ 30 سال بعد بادشاہت ہو گی وہ اظہر المنشمس ہے۔ یہ ہے اپ کے بارہ خلیفہ کا سنہری دور۔اللہ سب کو ہدایت دے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اور اپ نے جو تاریخ سے یہ روایات پیش کی ہے یہ ویسے ہی متازع ہے ابن المدینی نے جن سے روایات کی ہے اس میں صخر بن جویریہ موجود نہیں ہے۔اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کے 60 سال بعد نمازیں ضائع ہو گی تو تو اس قسم کی کمزور تاریخی روایت کی کیا حیثیت ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب،
بڑے افسوس کی بات ہے میں نے 10 آئمہ اہلسنت کے حوالے پیش کیے ہیں کیا سب رافضی ذہن رکھتے تھے نعوذباللہ اور 25 سے ذیادہ کے نام لکھ چکا ان کے حوالے چاہیں تو وہ بھی مل جائیں گے کہ ان سب نے اس حدیث کے تحت یہی لکھا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت ملوکیت تھی اور جہاں تک آپ یہ رٹ لگا کر بیٹھے ہیں کہ مسند احمد کی روایت میں کوئی قید نہیں تو اس کے حوالے سے میں بتا چکا ہوں کہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اس سے متعلق تمام روایات سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے اس لیے مسند احمد کی روایت میں ملک عضوض بتایا گیا اور وہ ملک کب سے شروع ہوگا یہ ابوداود کی حدیث میں موجود ہے اور اس کے لیے میں نے قرآن سے مثال بھی پیش کی تھی
(1) سورہ البقرۃ میں موجود ہے" تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے"
اس آیت سے یہ سمجھ آتا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا مگر
(2) سورۃ الکھف میں موجود ہے کہ "ما کان من الجن" وہ جنوں میں سےتھا۔
میرے خیال اب اس پر دوسری مثال کی ضرورت نہیں ہے۔
جناب اپ کو بخاری سے بتا دیتا ہوں ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ وسلم کی احادیث سنانے سے ڈرتے تھے کیوں معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور تو بقول اپ کے سنہرا دور تھا اس میں حدیث رسول سنانے پر خوف کیوں ابن حجر نے فرمایا کہ یہ حکمرانوں کے بارے میں تھی اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کا خوف تھا
عمران بن حصین مرتے وقت حدیث بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر میں زندہ رہ گیا تو کسی کو یہ حدیث نہ بتانا کس کا خوف تھا حدیث نہ بتانے سے یہ بھی بخاری میں کتاب المناسک میں موجود ہے اور سنن نسائی میں صحیح حدیث موجود ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا حج کے موقع پر کہ لوگ تلبیہ کیوں نہیں پڑھ رہے کہا گیا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خوف سے نہیں پڑھ رہے، خلیفہ کے خوف سے سنت چھوڑ رہے ہیں۔ یہ سنہرا دور ہے مروان منبر پر عید کا خطبہ نماز سے پہلے دیتا ہے تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس کو روکتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سنت نہیں ہے تو کہتا ہے کہ سنت کے زمانے ترک ہوئے(نعوذ باللہ) یہ صحیح مسلم اور بخاری دونوں میں ہےموجود "اصح بعد کتاب اللہ" یہ بخاری کے بارے میں کہا ہے یہ کوئی رافضی کتابیں نہیں نہ تاریخ کی قصے کہانیاں ہیں
اس سنہرے دور میں مروان منبروں پر علی رضی اللہ عنہ کو لعنت دیتا تھا(نعوذ باللہ) یہ تاریخ کی رافضی روایت نہیں ہیں بلکہ امام المحدثین امام بخاری کی کتب بخاری میں ہے اس سنہرے دور میں عید کے خطبہ پہلے ہوتے تھے اور نماز بعد میں ہوتی تھی اس سنہرے دور میں بدعات ہو رہی ہیں یہ بھی بخاری میں ہے رافضی روایت میں نہیں ہے نماز لیٹ ہوتی تھی پڑھو صحیح مسلم کتاب تاخیر الصلاۃ کے باب اس میں ابن زیاد نماز لیٹ کرتا تھا اور یہ کس کا دور تھا اپ کا نام نہاد نیک یزید کادور تھا، پڑھو صحیح بخاری میں جس میں موجود ہے کہ لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے آکر پوچھتے تھے کہ ہم جب امیر(حکمرانوں) کے پاس جاتے ہیں تو ان کی تعریف کرتے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں وہ غلط کہہ رہا ہے مگر پھر بھی ہم ان کے فیصلوں کو صحیح کہتے ہیں اور وہاں سے باہر نکل کر ان کو برا بھلا کہتےہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اس کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نفاق سے تعبیر کرتے تھے امت کی حق گوئی ختم ہو گئی جو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوک دیتے تھے وہ امت ان امیر کے سامنے حق کہنے سے بعض آ گئے تھی اس کی شرح میں حافظ ابن حجر نے مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح سند سے موجود ہے کہ وہ امیر مروان، اور آپ کا لاڈلا یذید تھا اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ انہی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اگر تم ان کی مخالفت کرو گے تو قتل کر دیں گے اور ان کی بات مانو گے تو ہلاک ہو جاؤ گے یہ احادیث کی کتب سے روایات ہیں ان سب کے حوالے آپ چاہو تو میں ایک ایک کر کے پیش کر سکتا مگر مجھے پوسٹ بنانا نہیں آتا ہے وہاں میں یہ سب روایات بمہ حوالہ پیش کردوں گا اور یہ مت سمجھنا یہ اختتام ہے ابھی ایسی باتیں ہےکہ اپ کے حوش اڑ جائیں گے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا امیر کو زکوۃ دیں جبکہ آپ دیکھ رھے ہیں وہ اپنے لباس اور خشبوں پر لٹا رہے ہیں انہوں نے فرمایا یہ اپنے دستر خوان پر کتے نوچ کر بھی کھائیں ان کو دے دو یہ تاریخ کی نہیں اور نہ رافضی کی کتاب میں ہیں مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہی اور البانی نے ارواء الغلیل میں اس کو صحیح کہا ہے کرپشن ہو رہی تھی اپ کے نام نہاد خلیفہ کے دور میں اور خود کر رہا تھا یہ ہے اپ کا خلیفہ اللہ کی قسم یہ پڑھ کر میرا ایمان اور بڑھ گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ 30 سال بعد بادشاہت ہو گی وہ اظہر المنشمس ہے۔ یہ ہے اپ کے بارہ خلیفہ کا سنہری دور۔اللہ سب کو ہدایت دے
محترم -

افسوس تو آپ پر ہے کہ آپ 10 آئمہ اہلسنت کے حوالوں کو دل میں بسائے بیٹھے لیکن صحابہ کرام کی عظمت و قدر و منزلت آپ کے دل میں کہیں نظر نہیں آتی- اہل سنّت کی نظریات سے صرف ان کی راے ظاہر ہوتی ہے نہ کہ عقیدہ- اگر اپ کی اس تیس سالہ خلافت والی روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو حضرت حسن رضی الله عنہ بھی خلیفہ نہیں رہتے بلکہ ان کا شمار بھی "ملک" میں ہو گا کیوں کہ خلافت کے تیس سال حضرت علی رضی الله عنہ کی خلافت پر ختم ہو جاتے ہیں- نیز آپ کا کہنا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اس سے متعلق تمام روایات سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے- تو آ ہے ایک روایت کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتی ہے ؟؟-

سنن ابوداؤد کی ایک روایت اس تیس سالہ حدیث کے مخالف ھے، جس کے راوی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ھیں،صدیقؓ فرماتے ھیں کہ ایک روز نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے سے کسی نے اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ھو تو بیان کرے ! ایک شخص نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو آئی ھے،،اس مین آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کو اور ابوبکرؓ کو تولا گیا تو آپ بھاری رھے،، پھر ابوبکرؓ اور عمرؓ کو تولا گیا تو ابوبکرؓ بھاری رھے،، پھر عمرؓ اور عثمانؓ کو تولا گیا تو عمرؓ بھاری رھے اس کے بعد ترازو اٹھا لیا گیا ! ابوبکرؓ فرماتے ھیں کہ ھم نے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے اثرات دیکھے لیکن آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا کہ ھٰذا خلافۃ النبوہ، ثمہ یؤتی اللہ الملک من یشاء،، یہ خلافتِ نبوت ھے، پھر اللہ ملک جس کو چاھے گا عطا کر دے گا ،،

امام ابن تیمیہ رحم اللہ اس حدیث پر بحث کرتے ھوئے رقمطراز ھیں کہ:

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس حدیث میں واضح فرما دیا ھے کہ ان تینوں یعنی ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کی خلافت ،خلافتِ نبوت ھے، پھر ملک اس کے بعد ھو گا،یعنی حکومت یا بادشاھت اور اس خلافت نبوت میں علیؓ کا ذکر نہیں ،کیونکہ ان کے زمانے مین لوگ ان پر جمع نہیں ھو سکے تھے بلکہ ان میں آپس میں اختلاف رھا، اس طرح حضرت علیؓ نہ خلافتِ نبوت کے منتظم اور نہ ھی ملک کے ( منہاج السنہ ج 1 ص 357 )-

(یہ بات ذہن میں رہے کہ امام ابن تیمیہ رحم اللہ نے منہاج السنہ میں ہی "من کنت مولا فعلی مولا" والی روایت کا انکار کیا ہے کہ یہ صحیح نہیں)-

اب اس بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ اس روایت کے مطابق تو حضرت علی رضی الله کی حکومت بھی خلافت راشدہ میں شمار نہیں ہوتی ؟؟ -مزید یہ کہ حافظ ابن حجر تقریب التہذیب، میں لکھتے ھیں یہ تیس سالہ خلافت والی حدیث ضعیف ھے، اور یہ روایت اس صحیح حدیث کے خلاف ھے جو صحیح مسلم کی کتاب الامارات میں حضرت سمرہ بن جندبؓ سے مروی ھے جس میں بارہ خلفاء کا ذکر کیا گیا ہے؟؟-

مزید یہ کہ آپ فرما رہے ہیں کہ معاویہ رضی الله کے دور حکومت میں بدعات عام ہوئیں اور انہوں نے ہی حضرت علی رضی الله عنہ پر سب و شتم کی روایت کا آغاز کیا اور اپنے گورنر مروان بن حکم وغیرہ کو حکم دیا کہ جمعہ کے خطبہ کے دوران حضرت علی رضی الله عنہ اور اہل بیعت وغیرہ پر لعنت و ملامت کریں- تو اگر بخاری وغیرہ کی دوسری روایات کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو یہ آپ کہ فتنہ پرور سوچ کے برخلاف نظر آئیں گی -مثال کے طور پر

صحیح بخاری میں باب مناقب علی رضی الله عنہ میں ہے کہ:
ان رجل جاء الی سھل بن سعد فقال ھذا فلان لامیر المدینہ یدعو علیا عندالمنبر قال فیقول ماذا قال یقول لہ ابا تراب فضحک وقال واللہ مااسماء الانبی صلی اللہ علیہ وسلم وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔
ایک شخص حضرت سہل بن سعد کے پاس آیا اور کہا کہ امیر مدینہ (مروان بی حکم) حضرت علی رضی الله عنہ کی منبر پر برائی کرتا ہے- حضرت سہل رضی الله عنہ نے پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟؟ اس نے کہا کہ انہیں "ابو تراب" کہتا ہے سہل رضی الله عنہ ہنس پڑے کہا اور کہا کہ یہ نام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا تھا ان کے لئے انہیں (علی رضی الله عنہ) کو یہ سب سے پیارا تھا۔”

اب آپ بتائیں کہ کیا اس کو علی رضی الله عنہ پر لعنت و ملامت سمجھا جائے گا ؟؟-جب کہ حضرت سہل بن سعد رضی الله عنہ بخاری کی روایت کے مطابق اس کی تردید کررہے ہیں کہ یہ الفاظ سب و شتم نہیں ہے-

باقی وہ روایات جن می کسی صحابی رسول کی واضح تنقیص و تنقید ہو گی وہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ محدثین کے مسلمہ اصولوں کے تحت یا تو رد کی جائے گی یا اس کی تاویل کی جائے گی - ورنہ "صحابہ کلھم عدول" والا نظریہ غلط ہو جاتا ہے اور یہ نبی کریم صل الله علیہ پر بھی بہتان عظیم ہے کہ انہوں نے اپنے اصحاب کی صحیح تعلیم و تربیت نہیں کی اور وہ نعوز باللہ نیک صالح اخلاق و کردار سے عاری لوگ تھے اور ایک دوسرے کو گالیاں دیتے پھرتے تھے-

صحیح مسلم میں حضرت مالک بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک جھگڑے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کہا:

اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)
’’ میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، بد عہد اور خائن کے درمیان فیصلہ کیجیے-

ظاہر ہے اب اگر آپ کے اصولوں کے تحت چلا جائے تو پھراکیلے امیر معاویہ رضی الله عنہ ہی نہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم ثابت ہوتا ہے- لیکن اکثر محدثین نے ان الفاظ کو اس روایت کا حصّہ قرار دینے سے انکار کیا ہے ہے اور اس کو رد کیا ہے - کیوں کہ اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس رضی الله عنہ سے صادر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ سیدنا علی رضی الله عنہ کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی پایا جائے -

مزید یہ کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت حسین ، اپنے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت معاویہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے۔( ابن عساکر۔ 59/193)۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ کو منبر سے گالیاں دینے والا ان کے بیٹوں کی اس طرح تکریم کرتا ہے کہ ان کو تحفہ میں درہم دیتا ہے-

آپ کی یہ بات کہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں کہ صحابہ کرام رضوان الله آجمعین بنوی امیہ کے حکمرانوں کے ظلم و اور ستم اور بدعات پر اپنے ڈر اور خوف کی وجہ سے چپ بیٹھے رہے - قرآن تو ان صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے بارے میں واضح فرما رہا ہے کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ المائدہ ٥٤

ترجمہ: اے ایمان والو جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب الله ایسی قوم کو لائے گا کہ الله ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست الله کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ الله کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے-

الله ہمیں تمام صحابہ کرام رضوان الله آجمعین اور مومنین کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا بنا (آمین) -
 
Last edited:

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم -

افسوس تو آپ پر ہے کہ آپ 10 آئمہ اہلسنت کے حوالوں کو دل میں بسائے بیٹھے لیکن صحابہ کرام کی عظمت و قدر و منزلت آپ کے دل میں کہیں نظر نہیں آتی- اہل سنّت کی نظریات سے صرف ان کی راے ظاہر ہوتی ہے نہ کہ عقیدہ- اگر اپ کی اس تیس سالہ خلافت والی روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو حضرت حسن رضی الله عنہ بھی خلیفہ نہیں رہتے بلکہ ان کا شمار بھی "ملک" میں ہو گا کیوں کہ خلافت کے تیس سال حضرت علی رضی الله عنہ کی خلافت پر ختم ہو جاتے ہیں- نیز آپ کا کہنا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اس سے متعلق تمام روایات سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے- تو آ ہے ایک روایت کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتی ہے ؟؟-

سنن ابوداؤد کی ایک روایت اس تیس سالہ حدیث کے مخالف ھے، جس کے راوی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ھیں،صدیقؓ فرماتے ھیں کہ ایک روز نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے سے کسی نے اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ھو تو بیان کرے ! ایک شخص نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو آئی ھے،،اس مین آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کو اور ابوبکرؓ کو تولا گیا تو آپ بھاری رھے،، پھر ابوبکرؓ اور عمرؓ کو تولا گیا تو ابوبکرؓ بھاری رھے،، پھر عمرؓ اور عثمانؓ کو تولا گیا تو عمرؓ بھاری رھے اس کے بعد ترازو اٹھا لیا گیا ! ابوبکرؓ فرماتے ھیں کہ ھم نے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے اثرات دیکھے لیکن آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا کہ ھٰذا خلافۃ النبوہ، ثمہ یؤتی اللہ الملک من یشاء،، یہ خلافتِ نبوت ھے، پھر اللہ ملک جس کو چاھے گا عطا کر دے گا ،،

امام ابن تیمیہ رحم اللہ اس حدیث پر بحث کرتے ھوئے رقمطراز ھیں کہ:

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس حدیث میں واضح فرما دیا ھے کہ ان تینوں یعنی ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کی خلافت ،خلافتِ نبوت ھے، پھر ملک اس کے بعد ھو گا،یعنی حکومت یا بادشاھت اور اس خلافت نبوت میں علیؓ کا ذکر نہیں ،کیونکہ ان کے زمانے مین لوگ ان پر جمع نہیں ھو سکے تھے بلکہ ان میں آپس میں اختلاف رھا، اس طرح حضرت علیؓ نہ خلافتِ نبوت کے منتظم اور نہ ھی ملک کے ( منہاج السنہ ج 1 ص 357 )-

(یہ بات ذہن میں رہے کہ امام ابن تیمیہ رحم اللہ نے منہاج السنہ میں ہی "من کنت مولا فعلی مولا" والی روایت کا انکار کیا ہے کہ یہ صحیح نہیں)-

اب اس بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ اس روایت کے مطابق تو حضرت علی رضی الله کی حکومت بھی خلافت راشدہ میں شمار نہیں ہوتی ؟؟ -مزید یہ کہ حافظ ابن حجر تقریب التہذیب، میں لکھتے ھیں یہ تیس سالہ خلافت والی حدیث ضعیف ھے، اور یہ روایت اس صحیح حدیث کے خلاف ھے جو صحیح مسلم کی کتاب الامارات میں حضرت سمرہ بن جندبؓ سے مروی ھے جس میں بارہ خلفاء کا ذکر کیا گیا ہے؟؟-

مزید یہ کہ آپ فرما رہے ہیں کہ معاویہ رضی الله کے دور حکومت میں بدعات عام ہوئیں اور انہوں نے ہی حضرت علی رضی الله عنہ پر سب و شتم کی روایت کا آغاز کیا اور اپنے گورنر مروان بن حکم وغیرہ کو حکم دیا کہ جمعہ کے خطبہ کے دوران حضرت علی رضی الله عنہ اور اہل بیعت وغیرہ پر لعنت و ملامت کریں- تو اگر بخاری وغیرہ کی دوسری روایات کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو یہ آپ کہ فتنہ پرور سوچ کے برخلاف نظر آئیں گی -مثال کے طور پر

صحیح بخاری میں باب مناقب علی رضی الله عنہ میں ہے کہ:
ان رجل جاء الی سھل بن سعد فقال ھذا فلان لامیر المدینہ یدعو علیا عندالمنبر قال فیقول ماذا قال یقول لہ ابا تراب فضحک وقال واللہ مااسماء الانبی صلی اللہ علیہ وسلم وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔
ایک شخص حضرت سہل بن سعد کے پاس آیا اور کہا کہ امیر مدینہ (مروان بی حکم) حضرت علی رضی الله عنہ کی منبر پر برائی کرتا ہے- حضرت سہل رضی الله عنہ نے پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟؟ اس نے کہا کہ انہیں "ابو تراب" کہتا ہے سہل رضی الله عنہ ہنس پڑے کہا اور کہا کہ یہ نام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا تھا ان کے لئے انہیں (علی رضی الله عنہ) کو یہ سب سے پیارا تھا۔”

اب آپ بتائیں کہ کیا اس کو علی رضی الله عنہ پر لعنت و ملامت سمجھا جائے گا ؟؟-جب کہ حضرت سہل بن سعد رضی الله عنہ بخاری کی روایت کے مطابق اس کی تردید کررہے ہیں کہ یہ الفاظ سب و شتم نہیں ہے-

باقی وہ روایات جن می کسی صحابی رسول کی واضح تنقیص و تنقید ہو گی وہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ محدثین کے مسلمہ اصولوں کے تحت یا تو رد کی جائے گی یا اس کی تاویل کی جائے گی - ورنہ "صحابہ کلھم عدول" والا نظریہ غلط ہو جاتا ہے اور یہ نبی کریم صل الله علیہ پر بھی بہتان عظیم ہے کہ انہوں نے اپنے اصحاب کی صحیح تعلیم و تربیت نہیں کی اور وہ نعوز باللہ نیک صالح اخلاق و کردار سے عاری لوگ تھے اور ایک دوسرے کو گالیاں دیتے پھرتے تھے-

صحیح مسلم میں حضرت مالک بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک جھگڑے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کہا:

اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)
’’ میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، بد عہد اور خائن کے درمیان فیصلہ کیجیے-

ظاہر ہے اب اگر آپ کے اصولوں کے تحت چلا جائے تو پھراکیلے امیر معاویہ رضی الله عنہ ہی نہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم ثابت ہوتا ہے- لیکن اکثر محدثین نے ان الفاظ کو اس روایت کا حصّہ قرار دینے سے انکار کیا ہے ہے اور اس کو رد کیا ہے - کیوں کہ اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس رضی الله عنہ سے صادر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ سیدنا علی رضی الله عنہ کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی پایا جائے -

مزید یہ کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت حسین ، اپنے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت معاویہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے۔( ابن عساکر۔ 59/193)۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ کو منبر سے گالیاں دینے والا ان کے بیٹوں کی اس طرح تکریم کرتا ہے کہ ان کو تحفہ میں درہم دیتا ہے-

آپ کی یہ بات کہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں کہ صحابہ کرام رضوان الله آجمعین بنوی امیہ کے حکمرانوں کے ظلم و اور ستم اور بدعات پر اپنے ڈر اور خوف کی وجہ سے چپ بیٹھے رہے - قرآن تو ان صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے بارے میں واضح فرما رہا ہے کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ المائدہ ٥٤

ترجمہ: اے ایمان والو جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب الله ایسی قوم کو لائے گا کہ الله ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست الله کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ الله کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے-

الله ہمیں تمام صحابہ کرام رضوان الله آجمعین اور مومنین کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا بنا (آمین) -
جناب،
میرے دل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی قدر منزلت نہیں اس کا اندازہ آپ نے اس بات سے لگایاکہ میں نے 10 آئمہ سے یہ قول نقل کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے بعد ان کا بیٹا یزید کی خلافت نہیں ہے ۔ مجھ نا چیز ناقل پر آپ کے فتوی لگا رئے ہیں مگر جن آئمہ اہل سنت نے اس کو نقل کیا ہے ان کے بارے میں آپ نےیہ فرما کر جان بخشی کر لی کہ یہ ان کی رائے ہے عقیدہ نہی ہیں تو رائے کے طور پر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملوک کہا جا سکتا ہے اور جو ان کی رائے کو نقل کرے اس کے دل میں صحابہ کرام کی قدر منزلت نہیں ہے وللعجب۔ آپ نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا حوالہ پیش کیا ہے اس سے کم از کم آپ ان کی بات جو قرآن اور حدیث یا اجماع امت کے تحت بیان کرے اس کو آپ مانیں گے میں اپ کو ان کے حوالے سے ثابت کروں گا کہ یہ آئمہ نے عقیدہ کے طور پر بیان کیا ہے۔
اپ کی یہ رٹ کہ اس کو صحیح مان لیا جائے جبکہ میں محدثین سلف سے معاصرین کے اقوال نقل کر چکا ہو ان کے مطابق یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس لئے اپ کا یہ قول بیکار ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے مجھے یہ خوف ہوتا ہے کہ آپ پر ایک صحیح حدیث کو نہ ماننے کا گناہ نہ شمار ہو جائے
آپ نے کہا کہ "
اگر اپ کی اس تیس سالہ خلافت والی روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو حضرت حسن رضی الله عنہ بھی خلیفہ نہیں رہتے"
یہ اپ کی خام خیالی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد سے 30 سال جب پورے ہوتے ہیں جب حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان معاہدہ ہوا تھا چنانچہ ابن تیمیہ رقمطراز ہیں "
وَوَفَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ إحْدَى عَشْرَةَ مِنْ هِجْرَتِهِ وَإِلَى عَامِ ثَلَاثِينَ سَنَةَ كَانَ إصْلَاحُ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السَّيِّدِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ بِنُزُولِهِ عَنْ الْأَمْرِ عَامَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ فِي شَهْرِ جُمَادَى الْأُولَى وَسُمِّيَ " عَامَ الْجَمَاعَةِ " لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى " مُعَاوِيَةَ " وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ.(فتاوی ابن تمیہ جلد 35 ص 18)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول کے 11 ھجری کو ہوا اور 30 سال جب ہوتے ہیں جب ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو جماعتوں کے درمیان صلاح ہوئی ہے یہ 41 ہجری جمادی الاول میں ہوا جس کو عام الجماعۃ کہا جاتا ہے جس میں معاویہ رضی اللہ عنہ پر لوگ جمع ہوئے تھے اور وہ سب سے پہلے ملوک ہیں۔
تو 30 سال حسن رضی اللہ عنہ کی صلاح پر پورے ہوئے ہیں اور اس میں بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو اول ملوک یعنی سب سے پہلا بادشاہ کہا ہے بھائی یہ میں نقل کر رہا اس کو میرے ذاتی رائے مت سمجھنا۔
باقی آگے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top