• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب
اپ جو کہا کہ جہاد، کیا نمازین پڑھتے تھے وغیرہ تو اس حوالے سے امام ابن تیمیہ منھاج السنہ میں یزید کی کو کس طرح غصبانہ طریقے پر حکومت ملی اور اس کی بعد ان کے ساتھ جہاد اور نماز پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں،
وَأَمَّا كَوْنُ الْوَاحِدِ مِنْ هَؤُلَاءِ مَعْصُومًا، فَلَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ (1) ، وَكَذَلِكَ كَوْنُهُ عَادِلًا فِي كُلِّ أُمُورِهِ، مُطِيعًا لِلَّهِ فِي جَمِيعِ أَفْعَالِهِ، لَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ (2) مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ. وَكَذَلِكَ وُجُوبُ طَاعَتِهِ فِي كُلِّ مَا يَأْمُرُ بِهِ، وَإِنْ كَانَ مَعْصِيَةً لِلَّهِ، لَيْسَ هُوَ اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ.
وَلَكِنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ هَؤُلَاءِ يُشَارِكُونَ فِيمَا يُحْتَاجُ إِلَيْهِمْ فِيهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ، فَتُصَلَّى خَلْفَهُمُ الْجُمُعَةُ وَالْعِيدَانِ (3) وَغَيْرُهُمَا مِنَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُقِيمُونَهَا هُمْ، لِأَنَّهَا لَوْ لَمْ تُصَلَّ خَلْفَهُمْ أَفْضَى إِلَى تَعْطِيلِهَا، وَنُجَاهِدُ مَعَهُمُ الْكُفَّارَ، وَنَحُجُّ مَعَهُمُ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ، وَيُسْتَعَانُ بِهِمْ فِي الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَإِقَامَةِ الْحُدُودِ، فَإِنَّ الْإِنْسَانَ لَوْ قُدِّرَ أَنَّهُ حَجَّ (4) فِي رُفْقَةٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ وَقَدْ جَاءُوا يَحُجُّونَ، لَمْ يَضُرَّهُ هَذَا شَيْئًا، وَكَذَلِكَ الْغَزْوُ وَغَيْرُهُ مِنَ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ، إِذَا فَعَلَهَا الْبَرُّ وَشَارَكَهُ فِي ذَلِكَ الْفَاجِرُ لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ شَيْئًا، فَكَيْفَ إِذَا لَمْ يُمْكِنْ فِعْلُهَا۔(منھاج السنہ جلد 4 ص 527)
ترجمہ:اہل سنت کا یہ مذہب ہے ان کے ان کاموں میں ان کے ساتھ شریک ہوا جاے گا جس میں اللہ کی اطاعت ہو جیس کہ کے پیچھے عید اور جمعہ کی نمازیں پڑہیں جائیں گی کفار کے خلاف جہاد ان کےساتھ مل کر کیا جائے گا الامر بالمعروف و النھی عن المنکر اور حددود کا قائم کرنا ان کے معایت میں حج کرنا اور اگر کوئی انسان حج کرتا ہے یا غزوہ میں جاتا ہے یا کوئی اور نیک کام کرتا ہے اگر اس مین فاجر بھی شریک ہو جائے تو یہ بات اس کو ضرر نہین دے گی۔
اسی طرح بہت لمبی بحث ہے اور اس میں یہی ثابت کیا ہے کہ فاسق اور فاجر کے پیچھے نماز وغیرہ سب ہو جاتی ہے تفصیل کے لیے حوالہ کی جانب رجوع کریں۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب

محدثین کا جو اصول اپ نے بیان کیا ہے کہ "صحابہ کلھم عدول" یہ محدثین کا قاعدہ ہے اس سے مراد یہی ہے کہ حدیث کے بیان کرنے میں صحابہ کرام نے کوئی معمولی سے بھی خیانت نہیں کی ہے اس کے دلائل آئندہ دوں گا
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
پہلے ان کو سب کہنے دو ۔ اس وقت تک جب تک وہ خود نا کہیں کہ جو کہنا تها مکمل ہو گیا ۔ اس کے بعد ہی ہمارا دور شروع ہو اور متخصصین ہی جوابات پیش کریں ۔ نا تو یہ نئے ہیں نا ہی اس طرح کے الزامات نئے ہیں ۔
یہ فورم آزاد فورم ہے ۔ اس آزادی کا مکمل فائدہ مخالفین کو کیوں نا پہونچے !
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب،
اب میں آپ کو اور روایات پیش کرتا ہوں جس میں علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کرنے کو کہا گیا ہے اور بعض روایات میں تو معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے منبروں پر لعن طعن کی گئی ہے اور جہوں نے کی ہے آپ ان(مروان، ابن زیاد، حجاج) کا دفاع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عظمت صحابہ برباد کی ہے اپ کو پیش کرتا ہوں اگر منصف ہو اور واقعی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والے ہو تو آج کے بعد ان کا دفاع نہیں کرو گے۔
(1)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ حَصِينٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ فَقُلْتُ: «أَلَا تَعْجَبُ مِنْ هَذَا الظَّالِمِ أَقَامَ خُطَبَاءَ يَشْتِمُونَ عَلِيًّا(سنن الکبرٰی النسائی)
ترجمہ: سعید بن زید فرماتے ہیں" کیا اس ظالم شخص پر حیرت ہے کہ جو خطبا دینے کھڑا ہواہے اور علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں نکال رہا ہے۔
یہ کوئی رافضی کتاب نہیں صح ستہ کے امام نسائی ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کو مسجد کے اندر منبر پر گالیا نکالی جا رہی ہیں۔ اور پڑہو۔
(2) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أَخْبَرَنَا عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الْكُوفَةِ، اسْتَعْمَلَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَتَبِعْتُهُ فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة (مسند احمد رقم 1644 سنن ابوداؤد رقم 4650)
ترجمہ: جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو مغیرہ بن شعبۃ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا اس پر سعید بن زید رضی اللہ عنہ غصہ میں اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور کہا کیا اس ظالم شخص کو نہیں دیکھا جو کسی کے لیے ایک جنتی شخص کو لعنت دے رہا ہے۔
یہ دونوں روایت غور سے پڑہو سابقون الالون میں سب سے پہلے اسلام لانے والی عظیم صحابی کو منبروں پر لعنت دی جا رہے ہے یہ رافضی کتاب نہیں ہے فقہ کے بڑے امام احمد بن حنبل کی کتاب ہے یہ حدیث ابو داؤد میں بھی ہے اور ابوداؤد میں اس حدیث کے تحت ان دونوں اصحاب کے نام سے کنایہ کیا گیا ہے
كنت قاعدا عند فلان في مسجد الكوفة وعنده أهل الكوفة فجاء سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل فرحب به وحياه وأقعده عند رجله على السرير فجاء رجل من أهل الكوفة يقال له قيس بن علقمة فاستقبله فسب وسب فقال سعيد من يسب هذا الرجل ؟ فقال يسب عليا قال ألا أرى أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم يسبون عندك ثم لا تنكر ولا تغير۔
یہ صحیح مسلم، ابو داؤد، سنن نسائی الکبری، مسند احمد سے چند روایات پیش کی ہیں یہ کوئی رافضی عالم نہیں ہے اگر میں اس پر آئمہ کے اقوال پیش کروں تو اپ کو پتا چلے گا جمعہ کے خطبوں میں یہ بات سنت قرار دے دی گئی تھی کہ علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کیا جائےنعوذ باللہ) کیا علی رضی اللہ عنہ صحابی بھی نہیں ہیں کہ جن کی عظمت پامال ہو اور اپ ان(مروان زیاد حجاج) کو رحمہ لکھو اور اس حکومت کو خلافت کہوں کچھ اللہ سے ڈرو
اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا تھا پڑھ لو۔
عاد عبيدالله بن زياد معقل بن يسار المزني في مرضه الذي مات فيه فقال معقل إني محدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه و سلم لو علمت أن لي حياة ما حدثتك إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ( ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ) (صحیح مسلم کتاب الامارۃ فضيلة الإمام العادل وعقوبة الجائر )
ترجمہ: معقل بن یسار کی عیادت کے لیے جب عبیداللہ بن زیاد آیا جس میں ان کا انتقال ہوا تھا تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں اور اگر مجھے علم ہو کے اس مرض میں میں بچ جاؤں گا تو میں تجھے یہ حدیث کبھی نہ بتاتا پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس کو اللہ رعایا دیتا ہے اور وہ وہ اپنے رعایا کے حقوق میں خیانت کرتا ہو تو تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔ اس کی شرح میں موجود ہے وہ بھی پڑھ لو کہ کیوں نہیں بتا رہے تھے۔

[ ( لو علمت أن لي حياة ما حدثتك ) وفي الرواية الأخرى لولا أني في الموت لم أحدثك به يحتمل أنه كان يخافه على نفسه
ترجمہ ( اگر میں زندہ رہ جاتا تو حدیث نہ بتاتا) دوسری روایت میں ہے کہ اگر میں مرنے کے قریب نہ ہوتا تو حدیث نہ بتاتااس میں یہ احتمال ہے کہ ان کو اپنی جان کا خوف تھا۔
اب اپ کچھ اللہ کا خوف کرو صحابی حدیث نہیں بتا پا رہے ہیں۔ اور اپ کہتے ہیں یزید سے صرف دو لوگوں کا اختلاف تھا حدیث بتانا جرم ہو گیا تھا وہ جیسا ابن حجر نے لکھا ہے کہ حکمرانوں کے خلاف حدیث تھی اس لیے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ جیسا صحابی بھی نہیں بتاتے تھے اور پڑہو کیا عزت کرتے تھے یہ یزید کے گورنر
Y أن عائذ بن عمرو وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم دخل على عبيدالله بن زياد فقال أي بني إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ( إن شر الرعاء الحطمة فإياك أن تكون منهم ) فقال له اجلس فإنما أنت من نخالة أصحاب محمد صلى الله عليه و سلم (حوالہ ایضا)
ترجمہ: عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ عنہ وسلم سے سنا کہ: کہ سب سے برا چرواہا ظالم بادشاہ ہے تو ایسا نہ ہونا اس نے کہا (آرام سے)بیٹھ تو اصحاب محمد کی بھوسی ہے۔
یہ حدیث رسول کی عزت ہے اوریہ اس حدیث کو سنانے والے صحابی کی عزت ہے حدیث کو ماننے کے بجائے صحابی کی ہی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی نہیں کہا ہے کہ "اول نبوۃ رحمہ، ثم خلافہ رحمہ" کے میرے بعد خلافت تمہارے لئے رحمت ہو گی جس میں خلیفہ کو ٹوک دیا جائے گا ثم "ملک عضوض" پھر ظالم حکومت ہو گی یہ ظالم حکومت تھی کہ اب ٹوکنا بند حق گوئی کوئی نہ کہے اور کوئی نہیں بولے گا جو بولے گا یا تو مرتے وقت اور اگر پہلے بھی بولا تو اس کو ذلیل کردیا جائے گا اس تبدلی کو سمجھو اسلام پر کیا قیامت گزری ہے اور اس خلافت میں تھوڑی بہت اونچ نیچ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک عضوض کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ وقت کے ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں مگر یہ کیا تبدیلی تھی اس کہ سمجھنے کے لئے میں نےدو حوالے دیئے ہیں جو کافی ہوں گے اگر تسلی نہ ہو تو مروان سے بھی ایک واقع پیش کر دوں گا جس نے صحابہ کو خپتی بڈھا اور ٹھنگا بھی کہا ہےنعوذ باللہ اور اپ کے چہتے یزید سے بھی کہ کیسےلوگ اس کے سامنے واہ واہ کرتے تھے اور پیچھے اور کو برا کہتے تھے اور یہ خلیفہ ہوتا تو ایسا ہوتا یہ ظالم حکومت تھی تم چاہے کتنا بھی کہوں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
اپ نے جو یہ لکھا ہے کہ نماز اور جہاد کرنا بھائی دین کے کام چھوڑ دیں صحیح مسلم میں آئمہ جور(ظالم حکمران کے تحت نماز پڑھنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے تاخیر الصلاۃ مسلم میں پڑہو۔
أخر ابن زياد الصلاة فجاءني عبدالله بن الصامت فألقيت له كرسيا فجلس عليه فذكرت له صنيع ابن زياد فعض على شفته وضرب فخذي وقال إني سألت أبا ذر كما سألتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك وقال إني سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم كما سألتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك وقال صل الصلاة لوقتها فإن أدركتك الصلاة معهم فصل ولا تقل إني قد صليت فلا أصلي(صحیح مسلم کتاب المساجد باب تاخیر الصلاۃ)
ترجمہ: ابو العالیہ کہتے ہیں زیاد نے نماز لیٹ پڑھائی تو عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ آئے میں نے ان کو زیاد کے اس کام کے بارے میں بتایا تو انہوں نے ہونٹ چبائے(غصہ کا اظہار سے)اور میری ران پر ہاتھ مارامیں نے ابو زر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کیا تھا اور کہا اگر حکمران لیٹ نماز پڑھیں تو تم وقت پر پڑھ لینا اور بعد میں ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا وہ نفل ہو جائی گے۔
تو یہ نمازیں پڑھانا اور جہاد کرنا مجبوری کا تھا کہ دین کے کام ٹھپ نہیں ہونے چاہیے کیا نمازیں چھوڑ کا گھر بیٹھ جائیں گے اس پر امام ابن تیمیہ کے حوالے سے دلائل آئندہ کی پوسٹ میں دوں گا۔
آپ کی یہ تمام احادیث جو صحابہ کرام کے شان کے منافی ہیں ضعیف نا قابل اعتبار ہیں- اس کی تخریج پر ایک تھریڈ جو عنقریب یہاں پوسٹ کروں گا - فلحال آپ کی پیش کردہ ایک روایت پر تخریج پیش کرہا ہوں -یہ روایت ابن ماجہ میں اسطرح ہے -

حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسولهARB]

حضرت معاویہ رضی الله عنہ سعد رضہ کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی رضی الله عنہ کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہاروں کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے۔

اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین رضہ کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا) اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضہ ، حضرت ابی بکر و عمر کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماء اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ رضی الله عنہ موازنہ کریں اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد رضی الله عنہ کا غصہ میں آنا فطری بات ہے ۔

اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے

ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے عبدالرحمن بن سابط تہذیب الکمال میں المزی لکہتے ہیں

عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي. تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(جلد ۱۷ فحہ127)

ینعی انہوں نے سعد رضہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا تاریخ کبیر میں امام بخاری نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294 دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی

مزید یہ کہ :
صحیح مسلم میں حضرت مالک بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک جھگڑے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کہا:

اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)
’’ میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، بد عہد اور خائن کے درمیان فیصلہ کیجیے-

ظاہر ہے اب اگر آپ کے اصولوں کے تحت چلا جائے تو پھر اکیلے امیر معاویہ رضی الله عنہ ہی نہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم ثابت ہوتا ہے- اب اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے ؟؟ کہ یہاں تو خود بنو ہاشم کے چشم و چراغ حضرت عباس رضی الله عنہ حضرت علی رضی الله عنہ پر لعن تعن کررہے ہیں :اس میں تو بنو امیہ خاندان کا کوئی شخص نہیں ہے (جن کے آپ دشمن ہیں) - یاد رہے کہ محدثین نے ان الفاظ کو ضعیف قرار دیا ہے

بخاری کی صحیح حدیث ہے کہ :
جب نبی کریم صل الہ علیہ و آ له وسلم کی وفات کا وقت نزدیک تھا تو حضرت عباس رضی الہ عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ سے کہا لگتا ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اب مزید ہمارے درمیان زندہ نہیں رہیں گے کیوں کہ بنی عبد المطلب کے بزرگوں کی وفات کے وقت ان کے چہرے پر یہی کیفیت ہوتی ہے جو اس وقت نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے چہرے پر نظر آ رہی ہے - تو آؤ کیوں نہ ان سے خلافت کے بارے میں حکم لے لیں (کہ خلافت کس کو ملتی ہے) ؟؟ اس پر حضرت علی رضی الله عنہ کہنے لگے کہ میں نہیں جاؤں گا کہ اگر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے انکار کردیا تو ساری عمر ہمیں خلافت نہیں ملے گی- (صحیح بخاری )-

اب اگر آپ کے اصولوں پر چلا جائے (جو صحابہ کرام رضوان الله آجمعین کی ہر بات میں کیڑے نکلتے ہیں) تو اس سے تو بظاھر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو خلافت کا لالچ تھا ؟؟ لیکن ہم اس کو حضرت علی رضی الله عنہ کی عزت و منزلت کے خلاف سمجھتے ہیں کہ انھیں خلافت کے بارے میں کسی قسم کا لالچ تھا- اور ہمارا باقی تمام صحابہ کرام رضوان الله بشمول حضرت امیر معاویہ راضی الله عنہ اوران کی آل اولاد کے بارے میں بھی یہی نظریہ ہے کہ وہ تمام لوگ لالچ سے پاک تھے -

مقصد یہ ہے کہ بغض صحابہ میں اندھا دھند روایات پر یقین کرلینا کوئی دانشممندی نہیں - کم از کم روایات کے الفاظ پر غور کرکے ان کی حقانیت کو جاننا ہی اصل چیز ہے - صحابہ کلھم عدول ہیں ان پر تبرّا کرنا ہمیں ہمارے ایمان سے خارج کرسکتا ہے -

تیس سال خلافت والی حدیث پر تحقیق بعد میں پیش کروں گا -

والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب
اپ جو کہا کہ جہاد، کیا نمازین پڑھتے تھے وغیرہ تو اس حوالے سے امام ابن تیمیہ منھاج السنہ میں یزید کی کو کس طرح غصبانہ طریقے پر حکومت ملی اور اس کی بعد ان کے ساتھ جہاد اور نماز پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں،
وَأَمَّا كَوْنُ الْوَاحِدِ مِنْ هَؤُلَاءِ مَعْصُومًا، فَلَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ (1) ، وَكَذَلِكَ كَوْنُهُ عَادِلًا فِي كُلِّ أُمُورِهِ، مُطِيعًا لِلَّهِ فِي جَمِيعِ أَفْعَالِهِ، لَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ (2) مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ. وَكَذَلِكَ وُجُوبُ طَاعَتِهِ فِي كُلِّ مَا يَأْمُرُ بِهِ، وَإِنْ كَانَ مَعْصِيَةً لِلَّهِ، لَيْسَ هُوَ اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ.
وَلَكِنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ هَؤُلَاءِ يُشَارِكُونَ فِيمَا يُحْتَاجُ إِلَيْهِمْ فِيهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ، فَتُصَلَّى خَلْفَهُمُ الْجُمُعَةُ وَالْعِيدَانِ (3) وَغَيْرُهُمَا مِنَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُقِيمُونَهَا هُمْ، لِأَنَّهَا لَوْ لَمْ تُصَلَّ خَلْفَهُمْ أَفْضَى إِلَى تَعْطِيلِهَا، وَنُجَاهِدُ مَعَهُمُ الْكُفَّارَ، وَنَحُجُّ مَعَهُمُ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ، وَيُسْتَعَانُ بِهِمْ فِي الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَإِقَامَةِ الْحُدُودِ، فَإِنَّ الْإِنْسَانَ لَوْ قُدِّرَ أَنَّهُ حَجَّ (4) فِي رُفْقَةٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ وَقَدْ جَاءُوا يَحُجُّونَ، لَمْ يَضُرَّهُ هَذَا شَيْئًا، وَكَذَلِكَ الْغَزْوُ وَغَيْرُهُ مِنَ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ، إِذَا فَعَلَهَا الْبَرُّ وَشَارَكَهُ فِي ذَلِكَ الْفَاجِرُ لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ شَيْئًا، فَكَيْفَ إِذَا لَمْ يُمْكِنْ فِعْلُهَا۔(منھاج السنہ جلد 4 ص 527)
ترجمہ:اہل سنت کا یہ مذہب ہے ان کے ان کاموں میں ان کے ساتھ شریک ہوا جاے گا جس میں اللہ کی اطاعت ہو جیس کہ کے پیچھے عید اور جمعہ کی نمازیں پڑہیں جائیں گی کفار کے خلاف جہاد ان کےساتھ مل کر کیا جائے گا الامر بالمعروف و النھی عن المنکر اور حددود کا قائم کرنا ان کے معایت میں حج کرنا اور اگر کوئی انسان حج کرتا ہے یا غزوہ میں جاتا ہے یا کوئی اور نیک کام کرتا ہے اگر اس مین فاجر بھی شریک ہو جائے تو یہ بات اس کو ضرر نہین دے گی۔
اسی طرح بہت لمبی بحث ہے اور اس میں یہی ثابت کیا ہے کہ فاسق اور فاجر کے پیچھے نماز وغیرہ سب ہو جاتی ہے تفصیل کے لیے حوالہ کی جانب رجوع کریں۔
اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟؟- یہ عبارت بھی ابن تیمیہ کی منہاج السنہ سے لی گئی ہے -

صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
[qh]((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ))[/qh] (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
"جو فوج سب سے پہلے قسطنطنیہ کا غزوہ کرے گی وہ مغفور یعنی بخشی بخشائی ہے۔"
یزید کے بارے میں افراط وتفریط: اس تفصیل کے بعد اب ہم کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے ایک گروہ تو اسے خلفائے راشدین اور انبیائے مقربین میں سے سمجھتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے دوسرا گروہ اسے باطن میں کافر و منافق بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے قصداً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور مدینہ میں قتل عام کرایا تاکہ ااپنے ان رشتہ داروں کے خون کا انتقام لے جو بدرو خندق وغیرہ کی جنگوں میں بنی ہاشم اور انصار ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور یہ کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے تھے۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لما بدت تلک الحمول وأشرفت
تلک الرؤوس علی أبی جیرون[/font]
"جب وہ سواریاں اور سرابوجیرون کی بلندیوں پر نمودار ہوئے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]نعق الغراب فقلت نح أو لا تنح
فلقد قضیت من النبی دیونی[/font]
"تو کوا چلایا ۔ اس پر میں نے کہا تو نوحہ کر یا نہ کر میں نے تو نبی سے اپنا قرض پورا پورا وصول کرلیا!"
یا یہ کہ اس نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لیت أشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الأسل[/font]
"کاش میرے بدر والے بزرگ ، نیزوں کی مار سے خزرج وانصار کی دہشت دیکھتے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]قد قتلنا القرون من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل[/font]
"ہم نے ان کے سرداروں میں چوٹی کے سردار قتل کرڈالے اور اس طرح بدر کا بدلہ اتار دیا۔"
یہ تمام اقوال سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]حقیقت حال:[/font] حقیقت یہ ہےکہ یزید مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اور دنیادار خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھا۔ رہے حسین رضی اللہ عنہ تو بلاشبہ وہ اسی طرح مظلوم شہید ہوئے جس طرح اور بہت سے صالحین ظلم وقہر کے ہاتھوں جام شہادت پی چکے تھے۔ لاریب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اللہ اور اس کے رسول کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا۔

(منہاج السنہ از شیخ الاسلام ابن تیمیہ)-
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب،
معذرت میں نے آپ کو سنن ابن ماجہ سے کوئی روایت پیش نہیں کی ہے میں نے اپ کو بخاری ،مسلم ،ابو داؤد ،مسند احمد، سنن نسائی الکبری سے احادیث پیش کی ہے جس میں منبروں پر سے شتم و لعن کے الفاظ پیش کیے ہیں یہ آپسی لڑائی جھگڑے کے موقع پر پیش کئے الفاظ نہیں ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی انسان ہی تھے ان میں تمام بشری تقاضے موجود تھے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہنا اسی غصہ کی قبیل سے ہے مگر میں نے جو روایات پیش کی ہیں اس میں مسجد کے اندر منبروں پر جمعہ کے اور عید کے خطبوں میں اس کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ آئمہ نے اس حوالے سے نقل کیا ہےکہ یہ سنت(طریقہ رائج) ہو چکا تھا اور یہ کوئی ایک آدھا بار نہیں ہے امام ابن تیمیہ نے اپنے فتاوٰی میں لکھا ہے کہ سالہ سال تک یہ ہوتا تھا جب تک بنو امیہ منبروں پر قابض رہے ہیں اور آئمہ نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ عباس رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ پر سب شتم کرتے تھے کیونکہ وہ جاہل نہیں تھے وہ جانتے تھے کہ بشری تقاضہ کے تحت یہ باتیں ہو جاتی ہیں مگر بنو امیہ کے دور کے حوالے سے یہی بیان کیا ہے کہ سنت تھی کہ منبروں پر خطیب خطبہ میں گالیاں اور لعن کرے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اس حوالے سے صرف ابن حزم سے ایک مختصر الفاظ پیش کر دیتا ہوں۔

عید کے نماز کے حوالے سے لکھتے ہیں
بان الناس کانوا اذا صلوا ترکوھم ولم یشھدوا الخطبہ وذلک انھمکانو یلعنوں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فکان المسلموں یفرون و حق لھم فکیف ولیس الجلوس للخطبہ واجبا؟
اور لوگ (عید کی نماز) کے بعد ان(خبطبوں) کو چھوڑ جاتے تھےاور خطبہ میں حاضر نہیں رہتے تھے کیونکہ ان میں علی رضی اللہ عنہ پر لعنت(نعوذ باللہ) کی جاتی تھی اور مسلمان وہاں نہیں روکتے تھے اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا یہ کوئی وہ خطبے ہوتے تھی جن کا سنا واجب قرار دیا ہے؟

یہ صرف ایک عبارت ہے اسی بہت سے آئمہ نے بیان کیا ہے جس نے اس بارے میں لکھا ہے یہ کہا ہے کہ منبروں پر یہی قببح فعل ہوتا تھا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرے اس ہی کو اس رسول کے منبروں پر لعنت اور آج کے مسلمان ان (مروان ابن زیاد ، اور حجاج) کو رحمہ اللہ لکھتے ہیں اب اپ کو ایک اور روایت پیش کر دوں اپ نے لکھا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کا بہت احترام کرتے تھے لو پڑھ لو۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ،
سنن ابو داؤدرقم 4131
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپ کو پتا چلا کہ حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو مقدام رضی اللہ عنہ نے انا للہ و انا الیہ رجعوں پڑھا اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا حسن کا مرنا بھی کہی مصیبت ہے اس پر ایک الاسدی بولا حسن رضی اللہ عنہ تو ایک آگ کا انگارہ تھا جیسے اللہ نے بجھا دیا نعوذ باللہ) اس پر مقدام نے فرمایا کہ یہ کیا مصیبت نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب،
معذرت میں نے آپ کو سنن ابن ماجہ سے کوئی روایت پیش نہیں کی ہے میں نے اپ کو بخاری ،مسلم ،ابو داؤد ،مسند احمد، سنن نسائی الکبری سے احادیث پیش کی ہے جس میں منبروں پر سے شتم و لعن کے الفاظ پیش کیے ہیں یہ آپسی لڑائی جھگڑے کے موقع پر پیش کئے الفاظ نہیں ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی انسان ہی تھے ان میں تمام بشری تقاضے موجود تھے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہنا اسی غصہ کی قبیل سے ہے مگر میں نے جو روایات پیش کی ہیں اس میں مسجد کے اندر منبروں پر جمعہ کے اور عید کے خطبوں میں اس کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ آئمہ نے اس حوالے سے نقل کیا ہےکہ یہ سنت(طریقہ رائج) ہو چکا تھا اور یہ کوئی ایک آدھا بار نہیں ہے امام ابن تیمیہ نے اپنے فتاوٰی میں لکھا ہے کہ سالہ سال تک یہ ہوتا تھا جب تک بنو امیہ منبروں پر قابض رہے ہیں اور آئمہ نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ عباس رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ پر سب شتم کرتے تھے کیونکہ وہ جاہل نہیں تھے وہ جانتے تھے کہ بشری تقاضہ کے تحت یہ باتیں ہو جاتی ہیں مگر بنو امیہ کے دور کے حوالے سے یہی بیان کیا ہے کہ سنت تھی کہ منبروں پر خطیب خطبہ میں گالیاں اور لعن کرے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اس حوالے سے صرف ابن حزم سے ایک مختصر الفاظ پیش کر دیتا ہوں۔

عید کے نماز کے حوالے سے لکھتے ہیں
بان الناس کانوا اذا صلوا ترکوھم ولم یشھدوا الخطبہ وذلک انھمکانو یلعنوں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فکان المسلموں یفرون و حق لھم فکیف ولیس الجلوس للخطبہ واجبا؟
اور لوگ (عید کی نماز) کے بعد ان(خبطبوں) کو چھوڑ جاتے تھےاور خطبہ میں حاضر نہیں رہتے تھے کیونکہ ان میں علی رضی اللہ عنہ پر لعنت(نعوذ باللہ) کی جاتی تھی اور مسلمان وہاں نہیں روکتے تھے اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا یہ کوئی وہ خطبے ہوتے تھی جن کا سنا واجب قرار دیا ہے؟

یہ صرف ایک عبارت ہے اسی بہت سے آئمہ نے بیان کیا ہے جس نے اس بارے میں لکھا ہے یہ کہا ہے کہ منبروں پر یہی قببح فعل ہوتا تھا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرے اس ہی کو اس رسول کے منبروں پر لعنت اور آج کے مسلمان ان (مروان ابن زیاد ، اور حجاج) کو رحمہ اللہ لکھتے ہیں اب اپ کو ایک اور روایت پیش کر دوں اپ نے لکھا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کا بہت احترام کرتے تھے لو پڑھ لو۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ،
سنن ابو داؤدرقم 4131
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپ کو پتا چلا کہ حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو مقدام رضی اللہ عنہ نے انا للہ و انا الیہ رجعوں پڑھا اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا حسن کا مرنا بھی کہی مصیبت ہے اس پر ایک الاسدی بولا حسن رضی اللہ عنہ تو ایک آگ کا انگارہ تھا جیسے اللہ نے بجھا دیا نعوذ باللہ) اس پر مقدام نے فرمایا کہ یہ کیا مصیبت نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب،
معذرت میں نے آپ کو سنن ابن ماجہ سے کوئی روایت پیش نہیں کی ہے میں نے اپ کو بخاری ،مسلم ،ابو داؤد ،مسند احمد، سنن نسائی الکبری سے احادیث پیش کی ہے جس میں منبروں پر سے شتم و لعن کے الفاظ پیش کیے ہیں یہ آپسی لڑائی جھگڑے کے موقع پر پیش کئے الفاظ نہیں ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی انسان ہی تھے ان میں تمام بشری تقاضے موجود تھے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہنا اسی غصہ کی قبیل سے ہے مگر میں نے جو روایات پیش کی ہیں اس میں مسجد کے اندر منبروں پر جمعہ کے اور عید کے خطبوں میں اس کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ آئمہ نے اس حوالے سے نقل کیا ہےکہ یہ سنت(طریقہ رائج) ہو چکا تھا اور یہ کوئی ایک آدھا بار نہیں ہے امام ابن تیمیہ نے اپنے فتاوٰی میں لکھا ہے کہ سالہ سال تک یہ ہوتا تھا جب تک بنو امیہ منبروں پر قابض رہے ہیں اور آئمہ نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ عباس رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ پر سب شتم کرتے تھے کیونکہ وہ جاہل نہیں تھے وہ جانتے تھے کہ بشری تقاضہ کے تحت یہ باتیں ہو جاتی ہیں مگر بنو امیہ کے دور کے حوالے سے یہی بیان کیا ہے کہ سنت تھی کہ منبروں پر خطیب خطبہ میں گالیاں اور لعن کرے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اس حوالے سے صرف ابن حزم سے ایک مختصر الفاظ پیش کر دیتا ہوں۔

عید کے نماز کے حوالے سے لکھتے ہیں
بان الناس کانوا اذا صلوا ترکوھم ولم یشھدوا الخطبہ وذلک انھمکانو یلعنوں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فکان المسلموں یفرون و حق لھم فکیف ولیس الجلوس للخطبہ واجبا؟
اور لوگ (عید کی نماز) کے بعد ان(خبطبوں) کو چھوڑ جاتے تھےاور خطبہ میں حاضر نہیں رہتے تھے کیونکہ ان میں علی رضی اللہ عنہ پر لعنت(نعوذ باللہ) کی جاتی تھی اور مسلمان وہاں نہیں روکتے تھے اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا یہ کوئی وہ خطبے ہوتے تھی جن کا سنا واجب قرار دیا ہے؟

یہ صرف ایک عبارت ہے اسی بہت سے آئمہ نے بیان کیا ہے جس نے اس بارے میں لکھا ہے یہ کہا ہے کہ منبروں پر یہی قببح فعل ہوتا تھا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرے اس ہی کو اس رسول کے منبروں پر لعنت اور آج کے مسلمان ان (مروان ابن زیاد ، اور حجاج) کو رحمہ اللہ لکھتے ہیں اب اپ کو ایک اور روایت پیش کر دوں اپ نے لکھا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کا بہت احترام کرتے تھے لو پڑھ لو۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ،
سنن ابو داؤدرقم 4131
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپ کو پتا چلا کہ حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو مقدام رضی اللہ عنہ نے انا للہ و انا الیہ رجعوں پڑھا اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا حسن کا مرنا بھی کہی مصیبت ہے اس پر ایک الاسدی بولا حسن رضی اللہ عنہ تو ایک آگ کا انگارہ تھا جیسے اللہ نے بجھا دیا نعوذ باللہ) اس پر مقدام نے فرمایا کہ یہ کیا مصیبت نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب ،
آپ نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالےسےنقل کیا کہ انہوں نے یزید کی حکومت کے لیے صرف ملک یعنی حکومت کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ ظلم و جبر کی حکومت کہا ہے شکر ہے کہی تو کمند ٹوٹی ہے اپ نے مانا تو صحیح کہ یزید کی حکومت خلافت نہیں تھی تو جناب جب خلافت نہیں تھی بلکہ حکومت تھی اب خلافت کے بعد کی حکومت کس قسم کی ہوگی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جھٹلا دیں لیں خودپڑھ لیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَعْيَنَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، ثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ الْغَنَوِيُّ، حَدَّثَنِي مُهَنَّدُ الْقَيْسِيُّ، وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ فِي نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، وَسَتَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا
(الطبرانی الاوسط رقم 6581)
اور مسند احمدسے روایت اپ نے خود پیش کی تھی اس لیے میں نے دوسری سند سے یہ روایت نقل کی ہےاس میں صاف موجود ہے کہ خلافت کے بعد جو حکومت ہو گی وہ
مُلْكًا عَضُوضًا ہو گی اور یہ اپ خود مان چکے ہو کہ امام ابن تیمیہ نے یزید کی خکومت کہا ہے تو خلافت نہیں تو خلافت کے بعد ملک عضوض ہے اور یہ میں نہیں کہہ رہا آئمہ اہل سنت کے اقوال نقل کر رہا ہوں
(1) امام الرازی فرماتے ہین
قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم (الْخلَافَة بعدِي ثَلَاثُونَ سنة ثمَّ تصير ملكا عَضُوضًا(معالم اصول دین المسالۃ السادسۃ الامام الحق جلد 1 ص148)
اس میں امام رازی نے خلافت تیس سال اس کے بعد ملک ہے اس میں عضوض کا لفظ بھی لکھا ہے حالانکہ ابوداؤد کی روایت میں عضوض کا لفظ نہیں ہے مگر انہوں نے تصریح کی ہے کہ یہ دونوں روایات ایک دوسرے کا مفہوم بتاتی ہے
کہ وہ ملک جو بتایا گیا ہے ہو کونسا ہو گا وہ ملک عضوض ہو گا۔
(2) مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازانی نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ
لقَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْخلَافَة بعدِي ثَلَاثُونَ سنة ثمَّ تصير ملكا عَضُوضًا وَقد تمّ ذَلِك بخلافة عَليّ رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ فمعاوية وَمن بعده مُلُوك وأمراء لَا أَئِمَّة وَلَا خلفاء
(شرح المقاصدفی علم الکلام(جلد 3 ص375)
اس میں بھی اسی حدیث میں ملک عضوضا کا لفظ جمع کیا ہے کہ دونوں احادیث سے ایک دوسرے کی تشریح ہوتی ہے اور اس کے بعد انہوں نے لکھا ہے کہ
اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اس پر ختم ہوتی ہےاور معاویۃ رضی اللہ عنہ اور ان کےبعد بادشاہ اور امراء تھے کوئی بھی نہ آئمہ تھا اور نہ خلیفہ۔
دیکھ لیں اور غور سے پڑھ لیں ملک عضوض کے بعد معاوٰیہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا کہ وہ ملوک تھے۔
(3) ابن کثیر نے بھی اسی طرح دونوں احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیا کہ اس سے ملک کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔
قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .
ترجمہ : میں کہتا ہے سنت یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملک کہا جاے اور خلیفہ نہ کہا جائے کیونکہ حدیث سفینۃ ہے کہ خلافت تیس سال ہےاس کے بع ملک عضوض ہے۔
ابن کثیرنے تو واضح کہہ دیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہ کہا جائے اور خدیث میں ملک عضوض لکھ دیا ظالم بادشاہت۔
یہ چند حوالے تھے جن میں اشارہ کیا گیا ہے امام ابن تیمیہ کا حوالہ آخر مین دوں گا اب صراحت کے ساتھ چند آئمہ کے اقوال پیش کرتا ہوں۔
(1)ملا علی قاری شرح شفا میں رقمطراز ہیں
أي الحقيقة الحقية (بعده ثلاثون سنة ثمّ تكون) أي تصير الخلافة (ملكا) أي سلطنة بالغلبة فقد روى أحمد والترمذي وأبو يعلى وابن حبان عن سفينة بلفظ الخلافة بعدي في أمتي ثلاثون سنة ثم ملك بعد ذلك (فكانت) أي الخلافة (كذلك) أي ثلاثين سنة (بمدّة الحسن بن عليّ) أي بمضي مدة خلافته وهي ستة أشهر تقريبا وفيه دلالة على أن معاوية لم يحصل له ولاية الخلافة ولو بعد فراغ الحسن له بالإمارة ويشير إليه ما رواه البخاري في تاريخه والحاكم في مستدركه عن أبي هريرة بلفظ الخلافة بالمدينة والملك بالشام ثم اعلم أن خلافة أبي بكر كانت سنتين وثلاثة أشهر وعشرين يوما وخلافة عمر عشر سنين وستة أشهر وأربعة أيام وخلافة عثمان إحدى عشرة سنة وإحدى عشر شهرا وثمانية عشر يوما وخلافة علي أربع سنين وعشرة أشهر أو تسعة وتمامها بخلافة الحسن (وقال) أي النبي عليه الصلاة والسلام (إنّ هذا الأمر) أي أمر ملة هذه الأمة (بدأ) بهمزة أي ابتدأ أو بألف أي ظهر (نبوّة ورحمة) أي نبوة مقرونة بالرحمة العامة. (ثمّ يكون) أي الأمر (رحمة وخلافة) أي رحمة في ضمن الخلافة (ثمّ يكون) أي الأمر (ملكا) قال التلمساني وفي أصل المؤلف ثم ملكا (عضوضا) بفتح العين أي سلطنة خالية عن الرحمة والشفقة على الرعية فكأنهم يعضون بالنواجذ فيه عضا حرصا على الملك ويعض بعضهم بعضا
ترجمہ: حقیقت اس حدیث تیس سال کے بعد جو خلافت ہوگی وہ خکومت ہوگی یہ سلطنت غلبہ سے قائم ہو گی جیسا حدیث سفینہ ہے کہ تیس سال خلافت پھر اس کے بعد ملک ہو گا اور یہ خلافت حسن بن علی رضی اللہ کے مدت خلافت میں پوری ہوئی جو تقریبا چھ ماہ بنتے ہے اور یہ دلیل ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت میں شامل نہیں ہے اور ان کے امارہ حسن رضی اللہ عنہ کے بعد ہوئی اور روایت مشہور ہے کہ خلافت مدینہ میں اور اور ملوکیت شام میں ہے(اس کے بعد تیس سال ابو بکر عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے گنے ہیں پھر فرمایا کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای کہ یہ الامر جو نبو ہ الرحمہ سے ظاہر ہوا جو ساری امت کے لیے ہے اس کے بعد (رحمہ خلافت ہوئی) یعنی یہ رحمہ خلافت کے ضمن میں ہے اسکے بعد ملک ہو گا اور اصل مصنف(یعنی قاضی عیاض)کے مطابق عضوض ہے اور یہ حکومت عوام پر رحمت اور شفقت سے خالی ہے اسے میں عضوض کے معنی ہے کہ آپس میں ایک دوسرےکو حکومت(حاصل کرنے کے لیے) ہلاک کریں گے۔
کیا خیال ہے ملا علی قاری پر فتوی لگانا ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ظالم حکومت فرما رہے ہیں یا ملا علی قاری کو اہل سنت سے خارج کرو گے۔
(2) تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 ہجری خلفاء راشدین کے تیس سال گنے کے بعد لکھتے ہیں
تمت أَيَّام الْخُلَفَاء الرَّاشِدين رَضِي الله عَنْهُم. وَصَارَت الْخلَافَة ملكا عَضُوضًا، أَي فِيهِ عسف وعنف، وانتقل الْأَمر إِلَى بني أُميَّة. وَأول من ولي مِنْهُم مُعَاوِيَة بن أبي سُفْيَان(السلوک لمعرفۃ دول الملوک جلد 1 ص 109)
ترجمہ: اور یہ خلفاء راشدین کے ایام پورے ہوئے اور خلافت ملک عضوض بن گئی اور اس میں تشدد تھا اور یہ الامر بنو امیہ کو منتقل ہے گیا اور اس کے سب سے پہلے ولی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما تھے۔

(3) اب حافظ ابن حجر کو بھی پڑھ لیں

أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔(الاصحابہ فی التمیز الصحابہ جلد 1 ص 64 جھود الخلفائ راشدین نشر)
ترجمہ: حسن رضی اللہ عنہ کی جو خبر دی کہ یہ میرا پیٹا سید ہے اور مسلمانوں کے دو بڑے گروہ میں صلاح کروائے گا
اور (صلاح) خلافت پوری ہوئی اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ظالم بادشاہت ہو گئی اور انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا وارث مقرر کیا اور اس کے لیے اپنی زندگی میں ہی لوگوں سے جبری طور پر بعیت لینا شروع کی یہاں تک کہ اس میں کوئی تنازعہ نہیں رہا مگر ان کے بعد تنازع کھڑا ہو گیا۔
اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ملک عضوض ہو گا اور یہ تقاضہ کرتا ہے کہ یہ بادشاہت جو غلبے سے ہوئی ہے اس میں شدت کے ساتھ تشدد ہو گا۔
(4)امام ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث میں ملک عضوض شامل کیا ہے
خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ يَصِيرُ مُلْكًا عَضُوضًا

ان سب آئمہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کے تحت یہ لکھا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ملک تھے جس کے حوالے میں نے اس سے قبل پوسٹ میں پیش کیے تھے جس پر اپ نے کہا تھا کہ یزید کو حکمران کہا ہے ظالم حکمران نہیں اور میں بار بار عرض کر رہا تھا کہ ملک عضوض کہا ہے جس پر اپ نے فرمایا کہ یہ کہنے کی وجہ سے میرے دل میں صحابہ کرام کی عظمت نہیں ہے اب ان تمام آئمہ پر فتوی لگائیں کیونکہ انہون نے بھی یزید کی نہی معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض کہا ہے اور ابن حجر نے تو یہ تک لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بعیت بھی جبر سے لی ہے۔
بھائی اپ نے جو اپنے خود ساختہ پیمانے بنا لئے ہیں جن کے مطابق اپ ہر کسی کو تول کر گستاخ صحابہ بنا دیتے ہو آئمہ نے وہ پیمانے نہیں بنائے ہیں صحابہ کرام کی شان میں برائی کرنا ان سب شتم کرنے والی پر میں بھی لعنت بھیجتا ہوئی اور آئم نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ طعن سب و شتم کرنے والا ملعون ہے مگر یہ احادیث کی شرح ہیں اور نبی کے فرمان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے اس لئے حقیقت نہین بدل سکتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت نہیں تھی اس کو ماننے سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی فرق نہین آئے گا کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور ان کا فرمان حق ہے اس لئے آئمہ نے بھی یہی بات بیان کی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی ایک حدیث کا انکار ایمان ختم کر دے گا کیونکہ حدیث وحی خفی ہے اور وحی کا انکار ایمان کے لیے خطرہ ہے ۔ اللہ سب کو ہدایت دے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
میں اس تھریڈ کی تمام مراسلے تو نہ پڑھ سکا ،
لیکن یہ آخری پوسٹ پڑھ کر عبد اللہ صاحب کے دیئے گئے حوالہ جات کی حقیقت سامنے آگئی ،
اس پوسٹ میں ایک عبارت حافظ ابن حجر ؒ کے نام سے بیان کی گئی ،جو قطعا حافظ صاحب کی عبارت نہیں ، بلکہ ان پر جھوٹ گھڑا گیا ہے


(3) اب حافظ ابن حجر کو بھی پڑھ لیں

أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔(الاصحابہ فی التمیز الصحابہ جلد 1 ص 64 جھود الخلفائ راشدین نشر)
یہ عبارت پہلی جلد کےصفحہ (64 ) سے لی گئی ہے ، اور کتاب کا اصل متن پہلی جلد کے صفحہ (153 ) سے شروع ہو رہا ہے ،
پہلی جلد کے صفحہ (153 ) تک اس کتاب الاصابہ پر تعلیق لکھنے والوں کے تقدمہ اور مقدمات ہیں ،یعنی یہ عبارت کتاب شائع کرنے والوں کی ہے ،
اس کتاب پر تعلیق و تحقیق کا کام کرنے والے درج ذیل ہیں :
تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود۔۔ و۔۔على محمد معوض

اور تعلیق لکھنے والوں کی اس عربی عبارت کا ترجمہ بھی بالکل غلط کیا گیا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top