• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب
پھر اپ نے میری بات تو سنی مگر سمجھی نہیں ہے میں نے کہا کہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے تمام روایات کو دیکھنا ہوتا ہے ان نے یہ سنا مگر پھر وہی دہاک کے تین پات حدیث وہی ایک ہی پیش کر کے اس سے نتیجہ بھی نکال لیا اور ابن تیمیہ کا قول بھی نقل کر دیا مگر پورا نقل نہین کیا میں بتاتا ہوں ابھی اس روایت پر بات کرتے ہیں
آپ نے جو روایت پیش کی ہے اسناد سے نقل ہوئی ہے اور ان مین سے ایک حدیث میں "الْمُلْكَ مَنْ يَشَاء" اور اس روایت میں علی بن زید ابن جدعان ہے"
جو ضعیف راوی ہے
ملاحظہ کیجئے"
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ذَاتَ يَوْمٍ «أَيُّكُمْ رَأَى رُؤْيَا؟» فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْكَرَاهِيَةَ، قَالَ: فَاسْتَاءَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْنِي فَسَاءَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: «خِلَافَةُ نُبُوَّةٍ، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاء
ان دونوں احادیث کو زبیر علی زئی نے ضعیف کہا ہے مگر شیح البانی نے اس کو صحیح کہا ہے مگر کس وجہ سے یہ میں بتاتا ہوں۔
حفظه لكن يشهد له حديث سفينة الذي ذكرته آنفا(ظلال الجنۃ السنہ 1131)
اور مسند احمد کی تخریج میں بھی شیخ شعیب الاروط نےاس حدیث کو حسن کہا ہے مگر اس کے شواہد میں انہوں نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ یہ سفینہ والی روایت اس کی شاہد ہے۔(مسند احمد رقم 20445)
تو یہ حدیث بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جس خلافہ النبوہ کا ذکر ہے وہ 30 سال رہے گی
چنانچہ امام ابن تیمیہ اپ کی پیش کردہ حدیث کے تحت کیا نقل کرتے ہیں
ثُمَّ بَعْدَ ذَلِكَ مُلْكٌ، وَلَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ عَلِيٍّ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَجْتَمِعِ النَّاسُ فِي زَمَانِهِ بَلْ كَانُوا مُخْتَلِفِينَ، لَمْ يَنْتَظِمْ فِيهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَلَا الْمُلْكُ.
وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبَانٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " أُرِيَ (2) اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ نِيطَ بِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَنِيطَ عُمَرُ بِأَبِي بَكْرٍ، وَنِيطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ ". قَالَ جَابِرٌ: فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قُلْنَا: أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَأَمَّا الْمَنُوطُ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ، فَهُمْ وُلَاةُ هَذَا الْأَمْرِ الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ بِهِ نَبِيَّهُ» " (3) .
وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، «أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ كَأَنَّ دَلْوًا أُدْلِيَ مِنَ السَّمَاءِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا (4) فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيفًا، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا (5) فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ،ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا (1) فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا (2) فَانْتُشِطَتْ فَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَيْءٌ» (3) .
وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ جُهْمَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ» ". أَوْ [قَالَ] (4) : " الْمُلْكَ ". قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: [أَمْسِكْ] ، مُدَّةُ (5) أَبِي بَكْرٍ سَنَتَانِ (6) ، وَعُمَرَ عَشْرٌ، وَعُثْمَانَ اثْنَتَا عَشْرَةَ (7) ، وَعَلِيٍّ كَذَا. قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ. قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ، يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ (8) . وَ [أَمْثَالُ]هَذِهِ (1) الْأَحَادِيثِ وَنَحْوُهَا مِمَّا يَسْتَدِلُّ بِهَا مَنْ قَالَ: إِنَّ خِلَافَتَهُ ثَبَتَتْ بِالنَّصِّ. وَالْمَقْصُودُ هُنَا أَنَّ كَثِيرًا مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ يَقُولُونَ (2) : إِنَّ خِلَافَتَهُ ثَبَتَتْ بِالنَّصِّ، وَهُمْ يُسْنِدُونَ ذَلِكَ إِلَى أَحَادِيثَ مَعْرُوفَةٍ صَحِيحَةٍ.

یہ ہے وہ تمام عربی عبارت جس کا صرف کچھ حصہ اپ نے نقل کیا تھا اس میں انہوں نے تمام روایت جمع کی ہیں اور سب سے آخر میں حدیث سفینہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ"ان تمام احادیث اوراس قسم کی احادیث سے استدلال کرتے ہیں کہ (علی رضی عنہ) خلافت پر کہ وہ نصوص سے ثابت ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ کثیر اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ (علی رضی عنہ) کی خلافت نصوص سے ثابت ہے اور اس کی اسناد بھی معروف اور صحیح ہیں۔
اس کے بعد فتح خیبر والی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے الفاظ سے کہی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی خلافت ثابت ہو۔
یہ ہے پوری عبارت جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر امام ابن تیمیہ نے اسی حدیث سفینہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کیا ہے
اور اسی منھاج السنہ کی جلد 4 ص403 پر اسی روایت کے تحت جو اپ نے پیش کی تھی رقمطراز ہیں
۔وَلَكِنَّ هَذَا لَا يَقْدَحُ فِي أَنَّ عَلِيًّا كَانَ خَلِيفَةً رَاشِدًا مَهْدِيًّا، وَلَكِنْ لَمْ يَتَمَكَّنْ كَمَا تَمَكَّنَ غَيْرُهُ، وَلَا أَطَاعَتْهُ الْأُمَّةُ كَمَا أَطَاعَتْ غَيْرَهُ، فَلَمْ يَحْصُلْ فِي زَمَنِهِ مِنَ الْخِلَافَةِ التَّامَّةِ الْعَامَّةِ مَا حَصَلَ فِي زَمَنِ الثَّلَاثَةِ، مَعَ أَنَّهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ.
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد و مھدیا ہیں اور مگر ان کو اس قسم کا تمکن نہیں حاصل ہوا جیسا تین خلفاء کو تھا اور اس قسم کی اطاعت بھی امت نے نہیں کی جیسے پہلوں کی کی گئی اس کا ماحصل یہی ہے کی وہ خلفاء راشدین اور مھدین میں سے تھے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اور اپ کو یہ بھی بتا دوں جو اپ نے لکھا تھا کہ یہ اہل سنت کی صرف رائے ہے جبکہ میں نے کہا تھایہ عقیدہ ہے پڑھ لیں امام ابن تیمیہ کی فرماتے ہیں
أَمَّا عُلَمَاءُ أَهْلِ (1) السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] (2) فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ (3) ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ (4) ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا»
اہل علم اور اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید اور اس کے جیسے خلفاء راشدین کے جیسے نہیں ہے جیسے ابو بکر عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنھم کیونکہ اہل سنت کے پاس حدیث موجود ہے جس کو سنن نے نقل کیا ہے کہ خلافت تیس سال ہے اس کے بعد بادشاہت ہے۔(منھاج السنہ جلد 4 س 522)
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ان تمام دلائل سےثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنی خلیفہ تھے اور ان کے اور معاویہ رضی اللہ عنہ اول ملوک تھے۔
باقی آئندہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اور اپ کو یہ بھی بتا دوں جو اپ نے لکھا تھا کہ یہ اہل سنت کی صرف رائے ہے جبکہ میں نے کہا تھایہ عقیدہ ہے پڑھ لیں امام ابن تیمیہ کی فرماتے ہیں
أَمَّا عُلَمَاءُ أَهْلِ (1) السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] (2) فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ (3) ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ (4) ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا»
اہل علم اور اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید اور اس کے جیسے خلفاء راشدین کے جیسے نہیں ہے جیسے ابو بکر عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنھم کیونکہ اہل سنت کے پاس حدیث موجود ہے جس کو سنن نے نقل کیا ہے کہ خلافت تیس سال ہے اس کے بعد بادشاہت ہے۔(منھاج السنہ جلد 4 س 522)
اس میں امام ابن تیمیہ رحم الله فرماتے کہ اہل سنّت کا یہی عقیدہ بیان ہوا ہے کہ یزید بن معاویہ رحم الله کی حکومت خلافت راشدہ جیسی نہیں -احادیث میں "ملک" کا مطلب حکومت ہے (نہ کہ ظلم و فسق پر مبنی بادشاہت)-

حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی جائے چنانچہ آپ نے ربیع الاول 41 ؁ھ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کر دی اور یہ صلح ڈر کر یا دب کر نہیں کی بلکہ آپ چاہتے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑ سکتے تھے۔ آپ کے پاس چالیس ہزار فوج مرنے کو تیار تھی مگر آپ نے مسلمانوں کو خونریزی سے بچانے کے لیے اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا صحیح اہل سمجھ کر صلح کی تھی۔ (الاستیعاب لابن عبد البر جلد: 3ص: 298)

حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے صلح کرنے سے حضرت رسول اکرم صل الله علیہ و آ له وسلم کی یہ پیشینگوئی پوری ہو گئی جو آپ نے اس وقت فرمائی تھی جب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ میرا یہ بیٹا سردار بیٹا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کروائے گا۔ (بخاری، جلد:1ص: 530)

اب آپ انصاف کیجئے کہ نصف سلطنت خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی اور باقی نصف بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے صلح کرکے سپر د کردی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور خود نبی اکرم صل الله علیہ و آ له وسلم کے نزدیک سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل صحابی رسول صاحبِ سیادت و فراست اور مدبر تھے اور اس وقت ان سے بڑھ کر اور کوئی بھی اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا۔

حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمة الله لکھتے ہیں کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی طرزِ حکومت میں خلافت کے ڈھانچے میں چند ایسی تبدیلیاں کیں جن کی وجہ سے انکی حکومت خلافتِ راشدہ کے نہج سے ہٹ گئی ۔

لیکن اس بات کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ انہوں نے کسی بدعت کا ارتکاب کیا تھا - کیوں کہ صحیح احادیث میں تو بدعتی کی تعظیم و توقیر بھی سخت گناہ ہے تو حضرت علی و حسن و حسین رضی الله عنہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے مصالحت کی بنا پرکیا گناہ گار نہ ہوے ؟؟ -کیا وہ تمام صحابہ کرام رضوان الله اجممعین جنہوں نے امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت (جسے آپ ملوکیت قرار دینے پر تلے ہوے ہیں) کو بخوشی قبول کیا اور ان کی سکردگی میں جہاد کیا- کیا اس بنا پر تمام صحابہ کرام گناہ گار اور فاسق نہ ہوے ؟؟ کہ ایک بدعتی کا ساتھ دیتے رہے (فلعنت الله علی الکاذبین) -

خدارا - ان روایات کا وہ مطلب اخذ نہ کریں جو صحابہ کرام رضوان الله آجمعین کی عزت و ناموس پر حرف لاے-

امام شافعی رحم الله اور دوسرے بہت سے محدثین کے نزدیک ایک صحابی رسول کی عزت و ناموس پر بھی زبان درازی کرنے والا "زندیق " ہے - اور معتزلہ اور جہمیہ سے بھی بدتر ہے -

الله ہمیں تمام صحابہ کرام رضوان الله آجمعین اور مومنین کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا بنا (آمین) -
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب
آپ نے لکھا ہے کہ ابن حجر نے اس کو تھذیب التھذیب میں ضیعف کہا ہے اور 12 خلیفہ والی روایت کو اس کے مقابلے پر صحیح کہا ہے
اپ نے صرف تھذیب کے حوالے سے لکھا ہے تقریب التھذیب میں کس کے ترجمہ کے تحت یا کہاں لکھا ہے یا اس کی کوئی عربی عبارت کچھ نقل نہیں کی ہے جبکہ میں ابھی اپ کی فتح الباری سےبمعہ عربی عبارت یہ پیش کرتا ہوں کہ حافظ ابن حجر نے 12 خلیفہ میں سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے لے کر اکثر کو ملوک کہا ہے غور سے ُپڑہیں


الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم(فتح الباری رقم 7005)
ترجمہ : 30 سال خلافت سے مراد خلافہ نبوۃ کی طرز پر ہو گی اور معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد اکثر انے والے ملوک کے طریق پر تھے جبکہ ان کہ خلیفہ کہا جاتا ہے۔
اب واضح ہو گیا اپ نے جن دو آئمہ کے حوالے دیئے ہیں وہ دونوں ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے انکاری ہیں اور عقیدہ کے حوالے سے میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں تو اب اپ کے حساب سے ابن حجر اور امام ابن تیمیہ کے دل میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہھم کی عظمت نہیں ہے اگر ان کے دل میں ہے تو پھر ان کو اقوال کو نقل کرنے والے یعنی میرے دل میں کیون نہیں ہے یہ آئمہ کا ایمان تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے اور نہ ان کی بات سے بڑھ کر کوئی ہے۔
آپ نے سب شتم کے حوالے سے یہ حدیث پیش کی جس سے آپ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں سب شتم نہیں تھا اپ نے بخاری سے پیش کیا ہے میں بھی شارح بخاری کے اقوال اپ کو دکھاؤ گا اور دیگر کتب حدیث مسلم ابو داود وغیرہ سے بتاؤ گا پڑھ لیں۔
صحیح مسلم میں انہی سہل بن سعد سے حدیث موجود ہے
حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا عبدالعزيز ( يعني ابن أبي حازم ) عن أبي حازم عن سهل بن سعد قال
Y استعمل على المدينة رجل من آل مروان قال فدعا سهل بن سعد فأمره أن يشتم عليا قال فأبى سهل فقال له أما إذا أبيت فقل لعن الله أبا التراب فقال سهل ما كان لعلي اسم أحب إليه من أبي التراب وإن كان ليفرح إذا دعي بها فقال له أخبرنا عن قصته لم سمي أبا التراب ؟ قال جاء رسول الله صلى الله عليه و سلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت فقال أين ابن عمك ؟ فقالت كان بيني وبينه شيء فغاضبني فخرج فلم يقل عندي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لإنسان انظر أين هو ؟ فجاء فقال يا رسول الله هو في المسجد راقد فجاءه رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه فأصابه تراب فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم يمسحه عنه ويقول قم أبا التراب قم أبا التراب
ترجمہ: آل مروان سے ایک آدمی مدینہ پر حاکم تھا اس نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کہا "
أن يشتم عليا" کہ علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دےانہوں نے انکار کیا تو اس نے کہا کہ اچھا پر اتنا کہہ دو(کنایہ کرتے ہوئے) ابو تراب پر لعنت ہو(نعوذباللہ)۔(صحیح مسلم کتاب المناقب علی رضی اللہ عنہ رقم6229)
یہ صرف ایک ہے ابھی ڈھیر لگا دوں گا ابھی فلحال صحیح بخاری میں کتاب العیدین میں باب الخروج الی المصلی بغیر منبر رقم حدیث 956 میں تشریح پڑھو انور کاشمیری دیوبندی کی فیض الباری کی دوسری جلد میں لکھا ہے

ثم ان من السنہ تقدیم الصلاۃ علی الخطبہ و انما دقمھا مروان علی الصلاۃ لانہ کان یسب علیا رضی اللہ عنہ و کان الناس یقومون عنھا فقدمھا علی الصلاۃ لھذا۔
یہ طریقہ رائج ہو گیا کہ نماز سے پہلے خطبہ دیا جاتا تھا اور مروان نماز کے لیے آتا تو علی رضی اللہ عنہ پر گالیاں نکالتا تو لوگ اٹھ کر چلے جاتے اس لیے اس نے نماز سے پہلے خطبہ دینا شروع کیا۔

اور اسی بخاری کی 956 روایت میں موجود ہے کہ جب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اس کو ایسا کرنے سے روکا اور کہا یہ سنت نہیں ہے اس نے جواب دیا کہ وہ زمانے گئے جو تو جانتا تھا۔
یہ ان کی خباثت ہے کھلے عام سنت کو توڑنا اور دھڑلے سے بدعات نکالنا ان کو خلیفہ کہتے ہو اور ان کا دفاع کرتے ہو۔ اللہ سے ڈرو۔
باقی آگے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب،
اب میں آپ کو اور روایات پیش کرتا ہوں جس میں علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کرنے کو کہا گیا ہے اور بعض روایات میں تو معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے منبروں پر لعن طعن کی گئی ہے اور جہوں نے کی ہے آپ ان(مروان، ابن زیاد، حجاج) کا دفاع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عظمت صحابہ برباد کی ہے اپ کو پیش کرتا ہوں اگر منصف ہو اور واقعی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والے ہو تو آج کے بعد ان کا دفاع نہیں کرو گے۔
(1)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ حَصِينٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ فَقُلْتُ: «أَلَا تَعْجَبُ مِنْ هَذَا الظَّالِمِ أَقَامَ خُطَبَاءَ يَشْتِمُونَ عَلِيًّا(سنن الکبرٰی النسائی)
ترجمہ: سعید بن زید فرماتے ہیں" کیا اس ظالم شخص پر حیرت ہے کہ جو خطبا دینے کھڑا ہواہے اور علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں نکال رہا ہے۔
یہ کوئی رافضی کتاب نہیں صح ستہ کے امام نسائی ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کو مسجد کے اندر منبر پر گالیا نکالی جا رہی ہیں۔ اور پڑہو۔
(2) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أَخْبَرَنَا عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الْكُوفَةِ، اسْتَعْمَلَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَتَبِعْتُهُ فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة (مسند احمد رقم 1644 سنن ابوداؤد رقم 4650)
ترجمہ: جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو مغیرہ بن شعبۃ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا اس پر سعید بن زید رضی اللہ عنہ غصہ میں اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور کہا کیا اس ظالم شخص کو نہیں دیکھا جو کسی کے لیے ایک جنتی شخص کو لعنت دے رہا ہے۔
یہ دونوں روایت غور سے پڑہو سابقون الالون میں سب سے پہلے اسلام لانے والی عظیم صحابی کو منبروں پر لعنت دی جا رہے ہے یہ رافضی کتاب نہیں ہے فقہ کے بڑے امام احمد بن حنبل کی کتاب ہے یہ حدیث ابو داؤد میں بھی ہے اور ابوداؤد میں اس حدیث کے تحت ان دونوں اصحاب کے نام سے کنایہ کیا گیا ہے
كنت قاعدا عند فلان في مسجد الكوفة وعنده أهل الكوفة فجاء سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل فرحب به وحياه وأقعده عند رجله على السرير فجاء رجل من أهل الكوفة يقال له قيس بن علقمة فاستقبله فسب وسب فقال سعيد من يسب هذا الرجل ؟ فقال يسب عليا قال ألا أرى أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم يسبون عندك ثم لا تنكر ولا تغير۔
یہ صحیح مسلم، ابو داؤد، سنن نسائی الکبری، مسند احمد سے چند روایات پیش کی ہیں یہ کوئی رافضی عالم نہیں ہے اگر میں اس پر آئمہ کے اقوال پیش کروں تو اپ کو پتا چلے گا جمعہ کے خطبوں میں یہ بات سنت قرار دے دی گئی تھی کہ علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کیا جائےنعوذ باللہ) کیا علی رضی اللہ عنہ صحابی بھی نہیں ہیں کہ جن کی عظمت پامال ہو اور اپ ان(مروان زیاد حجاج) کو رحمہ لکھو اور اس حکومت کو خلافت کہوں کچھ اللہ سے ڈرو
اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا تھا پڑھ لو۔
عاد عبيدالله بن زياد معقل بن يسار المزني في مرضه الذي مات فيه فقال معقل إني محدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه و سلم لو علمت أن لي حياة ما حدثتك إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ( ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ) (صحیح مسلم کتاب الامارۃ فضيلة الإمام العادل وعقوبة الجائر )
ترجمہ: معقل بن یسار کی عیادت کے لیے جب عبیداللہ بن زیاد آیا جس میں ان کا انتقال ہوا تھا تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں اور اگر مجھے علم ہو کے اس مرض میں میں بچ جاؤں گا تو میں تجھے یہ حدیث کبھی نہ بتاتا پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس کو اللہ رعایا دیتا ہے اور وہ وہ اپنے رعایا کے حقوق میں خیانت کرتا ہو تو تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔ اس کی شرح میں موجود ہے وہ بھی پڑھ لو کہ کیوں نہیں بتا رہے تھے۔

[ ( لو علمت أن لي حياة ما حدثتك ) وفي الرواية الأخرى لولا أني في الموت لم أحدثك به يحتمل أنه كان يخافه على نفسه
ترجمہ ( اگر میں زندہ رہ جاتا تو حدیث نہ بتاتا) دوسری روایت میں ہے کہ اگر میں مرنے کے قریب نہ ہوتا تو حدیث نہ بتاتااس میں یہ احتمال ہے کہ ان کو اپنی جان کا خوف تھا۔
اب اپ کچھ اللہ کا خوف کرو صحابی حدیث نہیں بتا پا رہے ہیں۔ اور اپ کہتے ہیں یزید سے صرف دو لوگوں کا اختلاف تھا حدیث بتانا جرم ہو گیا تھا وہ جیسا ابن حجر نے لکھا ہے کہ حکمرانوں کے خلاف حدیث تھی اس لیے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ جیسا صحابی بھی نہیں بتاتے تھے اور پڑہو کیا عزت کرتے تھے یہ یزید کے گورنر
Y أن عائذ بن عمرو وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم دخل على عبيدالله بن زياد فقال أي بني إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ( إن شر الرعاء الحطمة فإياك أن تكون منهم ) فقال له اجلس فإنما أنت من نخالة أصحاب محمد صلى الله عليه و سلم (حوالہ ایضا)
ترجمہ: عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ عنہ وسلم سے سنا کہ: کہ سب سے برا چرواہا ظالم بادشاہ ہے تو ایسا نہ ہونا اس نے کہا (آرام سے)بیٹھ تو اصحاب محمد کی بھوسی ہے۔
یہ حدیث رسول کی عزت ہے اوریہ اس حدیث کو سنانے والے صحابی کی عزت ہے حدیث کو ماننے کے بجائے صحابی کی ہی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی نہیں کہا ہے کہ "اول نبوۃ رحمہ، ثم خلافہ رحمہ" کے میرے بعد خلافت تمہارے لئے رحمت ہو گی جس میں خلیفہ کو ٹوک دیا جائے گا ثم "ملک عضوض" پھر ظالم حکومت ہو گی یہ ظالم حکومت تھی کہ اب ٹوکنا بند حق گوئی کوئی نہ کہے اور کوئی نہیں بولے گا جو بولے گا یا تو مرتے وقت اور اگر پہلے بھی بولا تو اس کو ذلیل کردیا جائے گا اس تبدلی کو سمجھو اسلام پر کیا قیامت گزری ہے اور اس خلافت میں تھوڑی بہت اونچ نیچ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک عضوض کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ وقت کے ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں مگر یہ کیا تبدیلی تھی اس کہ سمجھنے کے لئے میں نےدو حوالے دیئے ہیں جو کافی ہوں گے اگر تسلی نہ ہو تو مروان سے بھی ایک واقع پیش کر دوں گا جس نے صحابہ کو خپتی بڈھا اور ٹھنگا بھی کہا ہےنعوذ باللہ اور اپ کے چہتے یزید سے بھی کہ کیسےلوگ اس کے سامنے واہ واہ کرتے تھے اور پیچھے اور کو برا کہتے تھے اور یہ خلیفہ ہوتا تو ایسا ہوتا یہ ظالم حکومت تھی تم چاہے کتنا بھی کہوں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
اپ نے جو یہ لکھا ہے کہ نماز اور جہاد کرنا بھائی دین کے کام چھوڑ دیں صحیح مسلم میں آئمہ جور(ظالم حکمران کے تحت نماز پڑھنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے تاخیر الصلاۃ مسلم میں پڑہو۔
أخر ابن زياد الصلاة فجاءني عبدالله بن الصامت فألقيت له كرسيا فجلس عليه فذكرت له صنيع ابن زياد فعض على شفته وضرب فخذي وقال إني سألت أبا ذر كما سألتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك وقال إني سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم كما سألتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك وقال صل الصلاة لوقتها فإن أدركتك الصلاة معهم فصل ولا تقل إني قد صليت فلا أصلي(صحیح مسلم کتاب المساجد باب تاخیر الصلاۃ)
ترجمہ: ابو العالیہ کہتے ہیں زیاد نے نماز لیٹ پڑھائی تو عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ آئے میں نے ان کو زیاد کے اس کام کے بارے میں بتایا تو انہوں نے ہونٹ چبائے(غصہ کا اظہار سے)اور میری ران پر ہاتھ مارامیں نے ابو زر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کیا تھا اور کہا اگر حکمران لیٹ نماز پڑھیں تو تم وقت پر پڑھ لینا اور بعد میں ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا وہ نفل ہو جائی گے۔
تو یہ نمازیں پڑھانا اور جہاد کرنا مجبوری کا تھا کہ دین کے کام ٹھپ نہیں ہونے چاہیے کیا نمازیں چھوڑ کا گھر بیٹھ جائیں گے اس پر امام ابن تیمیہ کے حوالے سے دلائل آئندہ کی پوسٹ میں دوں گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
قال فما بال القرون الاولی
قال علمہا عند ربی فی کتاب

اس بحث کا کیا فائدہ ہے؟ سوائے اس کے کہ ہم اپنے سردار معاویہ بن ابی سفیان اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما تک کو برا بھلا کہہ دیں؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب
اپ جو کہا کہ جہاد، کیا نمازین پڑھتے تھے وغیرہ تو اس حوالے سے امام ابن تیمیہ منھاج السنہ میں یزید کی کو کس طرح غصبانہ طریقے پر حکومت ملی اور اس کی بعد ان کے ساتھ جہاد اور نماز پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں،
وَأَمَّا كَوْنُ الْوَاحِدِ مِنْ هَؤُلَاءِ مَعْصُومًا، فَلَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ (1) ، وَكَذَلِكَ كَوْنُهُ عَادِلًا فِي كُلِّ أُمُورِهِ، مُطِيعًا لِلَّهِ فِي جَمِيعِ أَفْعَالِهِ، لَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ (2) مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ. وَكَذَلِكَ وُجُوبُ طَاعَتِهِ فِي كُلِّ مَا يَأْمُرُ بِهِ، وَإِنْ كَانَ مَعْصِيَةً لِلَّهِ، لَيْسَ هُوَ اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ.
وَلَكِنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ هَؤُلَاءِ يُشَارِكُونَ فِيمَا يُحْتَاجُ إِلَيْهِمْ فِيهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ، فَتُصَلَّى خَلْفَهُمُ الْجُمُعَةُ وَالْعِيدَانِ (3) وَغَيْرُهُمَا مِنَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُقِيمُونَهَا هُمْ، لِأَنَّهَا لَوْ لَمْ تُصَلَّ خَلْفَهُمْ أَفْضَى إِلَى تَعْطِيلِهَا، وَنُجَاهِدُ مَعَهُمُ الْكُفَّارَ، وَنَحُجُّ مَعَهُمُ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ، وَيُسْتَعَانُ بِهِمْ فِي الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَإِقَامَةِ الْحُدُودِ، فَإِنَّ الْإِنْسَانَ لَوْ قُدِّرَ أَنَّهُ حَجَّ (4) فِي رُفْقَةٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ وَقَدْ جَاءُوا يَحُجُّونَ، لَمْ يَضُرَّهُ هَذَا شَيْئًا، وَكَذَلِكَ الْغَزْوُ وَغَيْرُهُ مِنَ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ، إِذَا فَعَلَهَا الْبَرُّ وَشَارَكَهُ فِي ذَلِكَ الْفَاجِرُ لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ شَيْئًا، فَكَيْفَ إِذَا لَمْ يُمْكِنْ فِعْلُهَا۔(منھاج السنہ جلد 4 ص 527)
ترجمہ:اہل سنت کا یہ مذہب ہے ان کے ان کاموں میں ان کے ساتھ شریک ہوا جاے گا جس میں اللہ کی اطاعت ہو جیس کہ کے پیچھے عید اور جمعہ کی نمازیں پڑہیں جائیں گی کفار کے خلاف جہاد ان کےساتھ مل کر کیا جائے گا الامر بالمعروف و النھی عن المنکر اور حددود کا قائم کرنا ان کے معایت میں حج کرنا اور اگر کوئی انسان حج کرتا ہے یا غزوہ میں جاتا ہے یا کوئی اور نیک کام کرتا ہے اگر اس مین فاجر بھی شریک ہو جائے تو یہ بات اس کو ضرر نہین دے گی۔
اسی طرح بہت لمبی بحث ہے اور اس میں یہی ثابت کیا ہے کہ فاسق اور فاجر کے پیچھے نماز وغیرہ سب ہو جاتی ہے تفصیل کے لیے حوالہ کی جانب رجوع کریں۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب
اپ جو کہا کہ جہاد، کیا نمازین پڑھتے تھے وغیرہ تو اس حوالے سے امام ابن تیمیہ منھاج السنہ میں یزید کی کو کس طرح غصبانہ طریقے پر حکومت ملی اور اس کی بعد ان کے ساتھ جہاد اور نماز پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں،
وَأَمَّا كَوْنُ الْوَاحِدِ مِنْ هَؤُلَاءِ مَعْصُومًا، فَلَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ (1) ، وَكَذَلِكَ كَوْنُهُ عَادِلًا فِي كُلِّ أُمُورِهِ، مُطِيعًا لِلَّهِ فِي جَمِيعِ أَفْعَالِهِ، لَيْسَ هَذَا اعْتِقَادَ أَحَدٍ (2) مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ. وَكَذَلِكَ وُجُوبُ طَاعَتِهِ فِي كُلِّ مَا يَأْمُرُ بِهِ، وَإِنْ كَانَ مَعْصِيَةً لِلَّهِ، لَيْسَ هُوَ اعْتِقَادَ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ.
وَلَكِنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ هَؤُلَاءِ يُشَارِكُونَ فِيمَا يُحْتَاجُ إِلَيْهِمْ فِيهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ، فَتُصَلَّى خَلْفَهُمُ الْجُمُعَةُ وَالْعِيدَانِ (3) وَغَيْرُهُمَا مِنَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُقِيمُونَهَا هُمْ، لِأَنَّهَا لَوْ لَمْ تُصَلَّ خَلْفَهُمْ أَفْضَى إِلَى تَعْطِيلِهَا، وَنُجَاهِدُ مَعَهُمُ الْكُفَّارَ، وَنَحُجُّ مَعَهُمُ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ، وَيُسْتَعَانُ بِهِمْ فِي الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَإِقَامَةِ الْحُدُودِ، فَإِنَّ الْإِنْسَانَ لَوْ قُدِّرَ أَنَّهُ حَجَّ (4) فِي رُفْقَةٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ وَقَدْ جَاءُوا يَحُجُّونَ، لَمْ يَضُرَّهُ هَذَا شَيْئًا، وَكَذَلِكَ الْغَزْوُ وَغَيْرُهُ مِنَ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ، إِذَا فَعَلَهَا الْبَرُّ وَشَارَكَهُ فِي ذَلِكَ الْفَاجِرُ لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ شَيْئًا، فَكَيْفَ إِذَا لَمْ يُمْكِنْ فِعْلُهَا۔(منھاج السنہ جلد 4 ص 527)
ترجمہ:اہل سنت کا یہ مذہب ہے ان کے ان کاموں میں ان کے ساتھ شریک ہوا جاے گا جس میں اللہ کی اطاعت ہو جیس کہ کے پیچھے عید اور جمعہ کی نمازیں پڑہیں جائیں گی کفار کے خلاف جہاد ان کےساتھ مل کر کیا جائے گا الامر بالمعروف و النھی عن المنکر اور حددود کا قائم کرنا ان کے معایت میں حج کرنا اور اگر کوئی انسان حج کرتا ہے یا غزوہ میں جاتا ہے یا کوئی اور نیک کام کرتا ہے اگر اس مین فاجر بھی شریک ہو جائے تو یہ بات اس کو ضرر نہین دے گی۔
اسی طرح بہت لمبی بحث ہے اور اس میں یہی ثابت کیا ہے کہ فاسق اور فاجر کے پیچھے نماز وغیرہ سب ہو جاتی ہے تفصیل کے لیے حوالہ کی جانب رجوع کریں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top