• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اور مباھلہ ھوگیا

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
الیاسی صاحب!
احادیث پر غور کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح راستے کی ہدایت سے نواز دے۔
حدیث نمبر ایک میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع کے بدلے ایک صاع لے لیا اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود قرار دیا۔
حدیث نمبر دو میں ہے کہ نقد میں سود نہیں ہے۔
اور حدیث نمبر تین میں ہے کہ سود ادھار میں ہے۔
اب اگر کوئی شخص صرف ان تینوں احادیث کو دیکھے تو اس کو پہلی اور تیسری حدیث میں تضاد نظر آئے گا۔ لیکن جب آپ حدیث نمبر چار کا مطالعہ کریں اور غور کریں تو بات واضح ہو جائے گی۔
حدیث نمبر چار میں ہے کہ سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہے اگرچہ نقد ہو یا ادھار۔ حدیث میں حکم عمومی ہے تخصیص نہیں ہے کہ نقد میں یا ادھار میں اس لیے عموم کو دیکھتے ہوئے یہی لیا جائے گا کہ نقد ہو یا ادھار سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہے۔ اور پھر پہلی حدیث کو پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے سیم جنس کے بدلے زیادہ دے کر کم لیا تھا۔ اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سود قرار دیا۔
اگر آپ اللہ سے صدق دل سے مدد طلب کر کے ان احادیث کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی۔
اللہ تعالیٰ الیاس ستار صاحب کو یہ بات سمجھا دے۔ آمین جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
ماشا اللہ ٹائپسٹ صاحب نے بہت اچھے انداز میں اشکال کو ختم کر دیاہے۔ جو لوگ احادیث کے ساتھ زیادہ شغف نہیں رکھتے بلکہ احادیث کے ساتھ عمومی مطالعے کی حد تک تعارف ہوتا ہے ان کو احادیث میں باہمی تعارض نظر آنے لگتا ہے۔ پھر کچھ حضرات تو اشکال علما کے سامنے پیش کرتے ہیں اور مطمئن بھی ہو جاتے ہیں لیکن کچھ حضرات ان اشکالات کو بنیاد بنا کر احادیث پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ اب الیاس ستار صاحب پہلے فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ پھر کہتے ہیں شاید آپﷺ نے ایسا کہا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں ہی باہم متضاد ہیں۔ یا آپ فرمائیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور اس تنسیخ کا فیصلہ آپ بذات خود تو مت فرمائیے اگر آپ منسوخ کہہ رہے ہیں تو نسخ کی کوئی دلیل بھی پیش فرمائیے۔ پھر الیاس صاحب فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے شاید ایسا کہا ہی نہیں۔ تو حضرت اس قدر جلدی اس کو قول رسول ماننے سے انکار مت کیجئے۔ اس سلسلہ میں تمام احادیث کو تو ایک بار دیکھ لیجئے اگر پھر بھی اشکال دور نہ ہوتو شارحین حدیث کی وضاحت پر تو ایک نظر ڈال لیجئے۔ اگر پھر بھی ذہن واضح نہ ہوتو توقف اختیار کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ یہ کہہ دے کہ شاید آپﷺ نے ایسا کہا ہی نہیں۔
دوسری بات یہ ہےکہ اس قدر جلد مباہلے تک نوبت نہیں آنی چاہیے۔ پتانہیں ہمارے اندر اس قدر جذباتیت کہاں سے در آئی ہے۔ ان مسائل کو حکمت اور افہام و تفہیم کے ذریعے بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگرچہ الیاس صاحب کاموقف کمزور ہے لیکن ان کا انداز بظاہر بہت مثبت اور سلجھا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اسی رویہ کو اختیار کرنے اور اپنانے کی ضرورت ہے اس کے مقابلے میں محمد حسین میمن صاحب بڑی مشکل سے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام اور علما کے مابین فاصلہ بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت جلد جذباتی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارے مؤقف میں ایک فیصد بھی غلطی کا امکان نہیں ہے اور دوسرے کے مؤقف میں ایک فیصد بھی درستی کا امکان نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے کرام دوسروں کی آرا کو اطمینان اور غیر جانبداری کے ساتھ سنیں اور اگلے بندے کی ذہنی سطح اور نفسیات کو سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کریں۔ نری جذباتیت دین کے لیے ہرگز ہرگز فائدہ مند نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے:
إِنَّ الرِّفْقَ لاَ يَكُونُ فِى شَىْءٍ إِلاَّ زَانَهُ وَلاَ يُنْزَعُ مِنْ شَىْءٍ إِلاَّ شَانَهُ
’’جس چیز میں نرمی ہوتی ہے اس کو خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز میں نرمی نہیں ہوتی اس کو بدصورت بنا دیتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 2٥٩٤)
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
اللہ آپ کو ہدایت دے، میں نے اس پمفلیٹ کو پڑھ کر جو سمجھا وہ جواب دیا اور آپ نے اس کے جواب میں ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا، تو بھاگنا کی بات کہاں سے آگئی۔ اور ویسے بھی حسین میمن صاحب نے جواب آپ کو دے دیا ہے پہلے آپ اس کا جواب دے دیں ہم بھی پڑھ لیں گے اور جہاں ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس ہوگ ی گی ہم اپنی اصلاح کر لیں گے۔ جزاک اللہ
میمن صاحب کا جواب صرف تضادات کا مجموعہ ہے جواب نہی آپ مجھے اس پیرگراف کا حوالہ دو جس میں جواب نظر آرھاہے
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
الیاسی صاحب!
احادیث پر غور کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح راستے کی ہدایت سے نواز دے۔
حدیث نمبر ایک میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع کے بدلے ایک صاع لے لیا اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود قرار دیا۔


حدیث نمبر دو میں ہے کہ نقد میں سود نہیں ہے۔
اور حدیث نمبر تین میں ہے کہ سود ادھار میں ہے۔
اب اگر کوئی شخص صرف ان تینوں احادیث کو دیکھے تو اس کو پہلی اور تیسری حدیث میں تضاد نظر آئے گا۔ لیکن جب آپ حدیث نمبر چار کا مطالعہ کریں اور غور کریں تو بات واضح ہو جائے گی۔
حدیث نمبر چار میں ہے کہ سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہ
ے اگرچہ نقد ہو یا ادھار۔ حدیث میں حکم عمومی ہے تخصیص نہیں ہے کہ نقد میں یا ادھار میں اس لیے عموم کو دیکھتے ہوئے یہی لیا جائے گا کہ نقد ہو یا ادھار سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہے۔ اور پھر پہلی حدیث کو پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے سیم جنس کے بدلے زیادہ دے کر کم لیا تھا۔ اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سود قرار دیا۔
اگر آپ اللہ سے صدق دل سے مدد طلب کر کے ان احادیث کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی۔
اللہ تعالیٰ الیاس ستار صاحب کو یہ بات سمجھا دے۔ آمین جزاک اللہ خیرا
جناب ٹائیپٹ بھائی، آج کی دنیا میں سات سو کروڑ آبادی ہے۔ اس پوری آبادی میں کوئی ایسا مفتی موجود ہے جو یہ کہہ دے اپنی طرف سے نقد النقد میں سود نہیں ہے۔ جبکہ اس کا ایمان یہ بھی ہو کہ کجھور کے نقد النقد لین دین میں ربا ہو سکتا ہے۔ یقینا ایسا کوئی بھی مفتی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔

اگر کجھور کے نقد النقد لین دین سودے میں سود کا ہونا صحیح حدیث ہے تو رسول اکرم ۖصلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور اس بات کا علم تھا۔
جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ نقد النقد سودے میں بھی سود ہوسکتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر
کیسے کہا کہ نقد النقد میں سود نہیں ہے۔

سود کے بارے میں حدیث ہے کہ لینے والا، دینے والا، گواہ اور تحریر کرنے والا سب جہنمی ہیں۔
نقد النقد سودے میں نہ تحریر کی ضرورت ہے اور نہ گواہ کی۔اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ سود صرف ادھار میں ہوتا ہے نقد میں نہیں۔
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
ماشا اللہ ٹائپسٹ صاحب نے بہت اچھے انداز میں اشکال کو ختم کر دیاہے۔ جو لوگ احادیث کے ساتھ زیادہ شغف نہیں رکھتے بلکہ احادیث کے ساتھ عمومی مطالعے کی حد تک تعارف ہوتا ہے ان کو احادیث میں باہمی تعارض نظر آنے لگتا ہے۔ پھر کچھ حضرات تو اشکال علما کے سامنے پیش کرتے ہیں اور مطمئن بھی ہو جاتے ہیں لیکن کچھ حضرات ان اشکالات کو بنیاد بنا کر احادیث پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ اب الیاس ستار صاحب پہلے فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ پھر کہتے ہیں شاید آپﷺ نے ایسا کہا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں ہی باہم متضاد ہیں۔ یا آپ فرمائیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور اس تنسیخ کا فیصلہ آپ بذات خود تو مت فرمائیے اگر آپ منسوخ کہہ رہے ہیں تو نسخ کی کوئی دلیل بھی پیش فرمائیے۔ پھر الیاس صاحب فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے شاید ایسا کہا ہی نہیں۔ تو حضرت اس قدر جلدی اس کو قول رسول ماننے سے انکار مت کیجئے۔ اس سلسلہ میں تمام احادیث کو تو ایک بار دیکھ لیجئے اگر پھر بھی اشکال دور نہ ہوتو شارحین حدیث کی وضاحت پر تو ایک نظر ڈال لیجئے۔ اگر پھر بھی ذہن واضح نہ ہوتو توقف اختیار کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ یہ کہہ دے کہ شاید آپﷺ نے ایسا کہا ہی نہیں۔
دوسری بات یہ ہےکہ اس قدر جلد مباہلے تک نوبت نہیں آنی چاہیے۔ پتانہیں ہمارے اندر اس قدر جذباتیت کہاں سے در آئی ہے۔ ان مسائل کو حکمت اور افہام و تفہیم کے ذریعے بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگرچہ الیاس صاحب کاموقف کمزور ہے لیکن ان کا انداز بظاہر بہت مثبت اور سلجھا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اسی رویہ کو اختیار کرنے اور اپنانے کی ضرورت ہے اس کے مقابلے میں محمد حسین میمن صاحب بڑی مشکل سے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام اور علما کے مابین فاصلہ بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت جلد جذباتی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارے مؤقف میں ایک فیصد بھی غلطی کا امکان نہیں ہے اور دوسرے کے مؤقف میں ایک فیصد بھی درستی کا امکان نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے کرام دوسروں کی آرا کو اطمینان اور غیر جانبداری کے ساتھ سنیں اور اگلے بندے کی ذہنی سطح اور نفسیات کو سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کریں۔ نری جذباتیت دین کے لیے ہرگز ہرگز فائدہ مند نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے:
إِنَّ الرِّفْقَ لاَ يَكُونُ فِى شَىْءٍ إِلاَّ زَانَهُ وَلاَ يُنْزَعُ مِنْ شَىْءٍ إِلاَّ شَانَهُ
’’جس چیز میں نرمی ہوتی ہے اس کو خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز میں نرمی نہیں ہوتی اس کو بدصورت بنا دیتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 2٥٩٤)
جناب ابو قاسم صاحب، آپ کا جواب میں نے اپنے استاد محترم مجاہد اسلام محافظ حدیث و ختم النبوت و فاتح مباہلہ جناب الیاس ستار صاحب کو سنا دیا تو انہوں نے فرمایا کہ ماشا ء اللہ ابو قاسم صاحب بہت سنجیدہ اور با تہذیب اور بااخلاق آدمی ہے۔ اللہ ایسے با اخلاق لوگوں کو بڑھا دے۔ آپ کے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان احادیث کو میرے استاد محترم نے نہیں بلکہ امام نووی رحمة اللہ نےمنسوخ کہا ہے۔بلکہ امام نووی رحمة اللہ نے اجماع نقل کیا ہےکہ اہل اسلام کے نزدیک یہ حدیث متروک العمل ہے۔

تفصیل کے لیے لنک حاضر ہے۔https://www.facebook.com/photo.php?fbid=354479767938655&set=a.35447960127...
 

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
جناب ٹائیپٹ بھائی، آج کی دنیا میں سات سو کروڑ آبادی ہے۔ اس پوری آبادی میں کوئی ایسا مفتی موجود ہے جو یہ کہہ دے اپنی طرف سے نقد النقد میں سود نہیں ہے۔ جبکہ اس کا ایمان یہ بھی ہو کہ کجھور کے نقد النقد لین دین میں ربا ہو سکتا ہے۔ یقینا ایسا کوئی بھی مفتی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔

اگر کجھور کے نقد النقد لین دین سودے میں سود کا ہونا صحیح حدیث ہے تو رسول اکرم ۖصلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور اس بات کا علم تھا۔
جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ نقد النقد سودے میں بھی سود ہوسکتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر
کیسے کہا کہ نقد النقد میں سود نہیں ہے۔

سود کے بارے میں حدیث ہے کہ لینے والا، دینے والا، گواہ اور تحریر کرنے والا سب جہنمی ہیں۔
نقد النقد سودے میں نہ تحریر کی ضرورت ہے اور نہ گواہ کی۔اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ سود صرف ادھار میں ہوتا ہے نقد میں نہیں۔
الیاسی بھائی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آ گئی تو ہر مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ نقد النقد میں سود نہیں ہے۔ اور میں بھی حدیث کو مانتے ہوئے یہی کہتا ہوں۔
لیکن یہاں بات یہ سمجھنے کی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم جنس کو ہم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود قرار دیا ہے۔
یعنی اگر کوئی شخص ایک کلو آٹا دے کر دو کلو آٹا لیتا ہے تو وہ اضافی آٹا سود کے زمرے میں آجا تا ہے۔ چائے وہ اس ہی ٹائم لے یا کچھ عرصے بعد لے۔
یہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تخصیص فرما رہے ہیں کہ نقد میں سود نہیں ہے لیکن جب ہم جنس کے بدلے ہم جنس کو اضافی لیا جائے گا تو وہ سود ہو جائے گا۔
نبی علیہ السلام اگر کسی چیز کی تخصیص کر دیں تو اس کو ہر مسلمان کو مان لینا چاہیے۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
0
بات سمجھ سے باہر ہے جب الیا سیوں سے کہا جارہا تھا کہ مناظرہ کرلو تو یہ لوگ شور مچا رہے تھے مباہلہ کے لیے اب جب مباہلہ ہوگیا بحمداللہ تعالیٰ تو اب یہ لوگ منا ظرہ کر رہےہیں جب ان سے کہا گیا کہ میمن صاحب کے جواب میں اگر کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تو سامنے لایئے وہ بات تب الیا سیوں نے ان تمام دلائل کا انکار کردیا اور پھر مباہلہ کے لیے شور مچایا ۔مجھے یہ معلومات فیس بک سے ملی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان پر مباہلہ کا اثر ہونے لگا ہو۔ اب کیا فائدہ میمن صاحب کے جواب میں نکتہ چینی کرنے کا میری درخواست ہے اس فورم پر اہلِ حق حضرات سے کہ بس آپ لوگ بھی اللہ کے حکم کا انتظار کریں اللہ حق کا بول بالا کرے گا ان شاء اللہ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بات سمجھ سے باہر ہے جب الیا سیوں سے کہا جارہا تھا کہ مناظرہ کرلو تو یہ لوگ شور مچا رہے تھے مباہلہ کے لیے اب جب مباہلہ ہوگیا بحمداللہ تعالیٰ تو اب یہ لوگ منا ظرہ کر رہےہیں جب ان سے کہا گیا کہ میمن صاحب کے جواب میں اگر کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تو سامنے لایئے وہ بات تب الیا سیوں نے ان تمام دلائل کا انکار کردیا اور پھر مباہلہ کے لیے شور مچایا ۔مجھے یہ معلومات فیس بک سے ملی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان پر مباہلہ کا اثر ہونے لگا ہو۔ اب کیا فائدہ میمن صاحب کے جواب میں نکتہ چینی کرنے کا میری درخواست ہے اس فورم پر اہلِ حق حضرات سے کہ بس آپ لوگ بھی اللہ کے حکم کا انتظار کریں اللہ حق کا بول بالا کرے گا ان شاء اللہ۔
معذرت کے ساتھ بھائی، یہ رویہ بھی درست نہیں ہے۔ ہمیں ہمہ وقت اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کرتے رہنا چاہئے اور علماء کے درمیان اختلاف کو مزید وسعت دینے کے بجائے اسے ختم کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔
معلوم نہیں مباہلہ کے بارے میں علمائے کرام کیا کہتے ہیں۔ لیکن میں تو یہ سوچتا ہوں کہ اگر ایسے ہی حق اور باطل کا فیصلہ ہونا ہوتا تو بہت پہلے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، جماعت المسلمین، توحیدی، شافعی، مالکی، حنبلی، اہل تشیع وغیرہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ختم ہو چکے ہوتے۔ جبکہ ان میں سے بعض کے درمیان تو عقائد کے سنگین اختلافات ہیں۔
مجھے تو نہیں لگتا کہ ایک ماہ کی مدت میں دونوں میں سے کسی کو بھی اللہ زمین میں دھنسائے گا اور وہ سب ان کےساتھ ہوگا جس کے لئے ان دونوں نے اپنے بچوں سمیت دعائیں کی تھیں۔ واللہ اعلم!
بے شک ان میں سے ایک حق پر ہے اور ہمارا غالب گمان ہے کہ دلائل کی بنیاد پر میمن صاحب ہی حق پر ہیں، ان شاء اللہ۔ لیکن کسی ایک حدیث میں فہم کے اختلاف پر ، ایک فریق کو اہل حق میں اور دوسرے کو اہل باطل میں شمار کر دینا بھی کوئی درست طریقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے فتنہ سے اپنی امان میں رکھیں۔ آمین۔
 
Top