• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ايک اور امريکی منصوبہ

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
بالفرض ہم مان لیتے ہیں کہ اس میں القاعدہ شامل تھی اور اس نے یہ ہولناک اور افسوسناک واقعہ کے وقوع پذیر ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ ذرا یہ تو بتائیے! اس مذکورہ حملے میں 2996 افراد ہلاک اور 6000 زخمی ہوئے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Casualties_of_the_September_11_attacks
لیکن آپ نے جو افغانستان پر حملہ کیا اس کی وجہ سے 91000 افغان ہلاک ہوئے اور اگر بالواسطہ ہلاکتوں کو بھی شامل کیا جائے تو 360000 کا اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Civilian_casualties_in_the_war_in_Afghanistan_(2001–present)
فواد صاحب! اپنے آقاؤں سے پوچھیے! یہ کون سا انصاف ہے کہ اگر مجرموں کا ایک ٹولہ تین ہزار افراد کو ہلاک کرے تو اس کے بدلے ان کے ملک کے چار لاکھ پچاس ہزار افراد کو جنگ کی بھٹی میں ہلاک کر دیا جائے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی سرزمين پر نو گيارہ کے ہولناک حملے افغانستان ميں فوجی کاروائ کے ضمن ميں محرک اور فيصلہ سازی کے عمل ميں اہم ترين عنصر ثابت ہوۓ تھے۔ تاہم يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ يہ کسی فرد کی جانب سے دہشت گردی کا کوئ اکلوتا واقعہ نہيں تھا۔

نو گيارہ کے واقعات سے پہلے بھی القائدہ دہشت گردی کے بہت سے واقعات کے ليے ذمہ دار تھی اور کئ واقعات کے ليے اس کی قيادت کی جانب سے جرم تسليم بھی کر ليا گيا تھا۔ اس تنظيم کی کاروائيوں پر ايک نظر ڈالنے سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ گروہ کی دہشت گردانہ کاروائيوں ميں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا جو آخر کار نو گيارہ کے واقعات کی صورت ميں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئيں۔ ان جرائم کی کچھ تفصيل



ان واقعات کے علاوہ، اسامہ بن لادن اور القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف اعلان جنگ، دنيا بھر ميں دہشت گردی کی مزيد کاروائيوں کا وعدہ اور عالمی سطح پر کئ ممالک ميں دہشت گردی کے خفيہ فعال گروہوں کی موجودگی کے حوالے سے حقيقی خدشات ايسے عناصر تھے جن سے سب پر يہ واضح ہو گيا کہ القائدہ کے عفريت سے نبرد آزما ہونے کے ليے عسکری کاروائ ہی واحد آپشن رہ گيا تھا۔

جب آپ افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں سوال اٹھاتے ہيں تو اس حوالے سے اس حقيقت کو بھی مدنظر رکھيں کہ يہ امريکی اور نيٹو افواج نہيں ہيں جنھيں ان تمام اموات کے ليے ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے۔ اگر اس الزام ميں حقيقت ہوتی تو پھر يقينی طور پر ہميں پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب کی حکومتوں سميت خطے میں اپنے تمام شراکت داروں اور اتحاديوں کی حمايت حاصل نا ہوتی۔

آپ جن بے گناہ شہريوں کی ہلاکت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہيں، اس کے اصل ذمہ دار وہ دہشت گرد گروہ ہيں جنھوں نے دہشت اور بربريت پر مبنی ايک ايسی مہم کا آغاز کر رکھا ہے جس ميں کم سن بچوں کو خود کش حملہ آور بنا کر انھيں بطور ہتھيار استعمال کيا جاتا ہے اور بازاروں، سکولوں اور ہسپتالوں جيسے گنجان عوامی مقامات پر دانستہ حملے کيے جاتے ہيں۔

افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں ميرا بھی آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ بے گناہ شہريوں پر دانستہ حملے سے امريکہ کو کوئ فائدہ جاصل ہوتا ہے؟ کيا ان ہلاکتوں سے امريکہ کو فوجی، سياسی يا انتظامی معاملات ميں اپنے مقاصد کی تکميل ميں کوئ کاميابی حاصل ہوتی ہے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ يہ اور ايسی ديگر وجوہات کی بنا پر امريکہ کی يہ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات رونما نہ ہوں۔ يہ حکمت عملی بہرحال ان ہتھکنڈوں سے متضاد ہے جو اپنے سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دہشت گرد استعمال کرتے ہيں جس کا محور دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کی ہلاکت ہے۔

کسی بھی تناظے، جنگ يا فوجی کاروائ کے دوران عام شہريوں کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اور تاريخ کی کسی بھی جنگ کی طرح افغانستان ميں بھی ايسی فوجی کاروائياں يقينی طور پر ہوئ ہيں جن ميں بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ ہيں۔ ليکن ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جب آپ ایسے کسی واقعے کا ذکر کرتے ہيں اور اس ضمن ميں خبر کا حوالہ ديتے ہيں تو اس وقت يہ بات بھی ياد رکھنی چاہيے کہ ايسے واقعات بھی رونما ہوۓ ہيں جس کے نتيجے ميں نيٹو افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں خود امريکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوۓ ہيں۔ ان تمام واقعات کی باقاعدہ فوجی تفتيش ہوتی ہے اور اس کے نتيجے ميں حاصل شدہ معلومات کی روشنی ميں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ مستقبل ميں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔ ليکن کيا آپ دہشت گردوں سے اس رويے اور حکمت عملی کی توقع کر سکتے ہيں جن کی اکثر "فوجی کاروائياں" دانستہ بےگناہ افراد کے قتل پر مرکوز ہوتی ہيں؟

افغانستان ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔

اقوام متحدہ کے ادارے يو-اين-اے-ايم-اے کے مطابق افغانستان ميں 62 فيصد بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے ذمہ دہشت گرد عناصر ہيں۔ اس کے علاوہ سترہ فيصد ہلاکتيں حکومت سے منسلک مختلف اداروں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں جن ميں چودہ فيصد افغان نيشنل سيکورٹی فورسز، دو فيصد انٹرنيشنل ملٹری فورسز اور ايک فيصد حکومت کے ايماء پر کام کرنے والے مختلف اسلحہ بردار گروہوں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں۔ سترہ فيصد اموات حکومت مخالف گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابين جھڑپوں کا نتيجہ ہيں۔ اس کے علاوہ چھ فيصد اموات جنگ کے دوران غير استعمال شدہ تباہ کن مواد کے پھٹنے کے نتيجے ميں ہوئيں۔

اس ضمن ميں تفصيلی معلومات آپ اس رپورٹ ميں پڑھ سکتے ہيں۔

http://unama.unmissions.org/sites/default/files/poc_annual_report_2015_final_14_feb_2016.pdf

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​
ميں چاہوں گا کہ آپ امريکی وزارت خارجہ کی اس سرکاری لسٹ پر ايک نظر ڈالیں جس ميں دہشت گردی سے متعلق مختلف تنظيموں کے نام اجاگر کيے گۓ ہيں۔

http://www.state.gov/j/ct/rls/other/des/123085.htm

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس تاثر ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ امريکی حکومت صرف "اسلامی دہشت گرد گروہوں" کے خلاف کاروائ پر توجہ مرکوز کيے ہوۓ ہے۔

آپ کی راۓ سے يہ تاثر ابھرتا ہے کہ جيسے امريکہ دہشت گردی کے خلاف منتخب کاروائ کرتا ہے۔ يہ بات يقينی طور پر درست نہيں ہے۔ ہم نے دنيا بھر میں دہشت گردی کے سيلز کو توڑنے کے لیے کئ ممالک کی اينٹيلی جينس اداروں کے ساتھ تعاون بھی کيا ہے اور مجرمانہ تحقيقات کا آغاز بھی کيا ہے – اس بات سے قطع نظر کہ ان افراد کی شہريت، مذہبی اور سياسی وابستگياں کيا ہیں۔ ہم نے مختلف مذاہب سے وابستہ تنظيموں کو دہشت گرد بھی قرار ديا ہے۔

امريکی حکومت اور اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کسی بھی تنظيم کو دہشت گردی کی لسٹ ميں شامل کرنے کے لیے جن بنيادی اصول و ضوابط اور قانونی فريم
ورک کو بنياد بناتی ہے وہ بالکل واضح، شفاف اور بغير کسی امتياز کے ہیں۔

اس تنظیم کا غيرملکی ہونا لازمی ہے۔

سال 1988 اور سال 1989 ميں فارن ريليشنز آتھرائيزيشن ايکٹ کی شق 140 (ڈی) (2) کے تحت واضح کردہ تشريح کے مطابق دہشت گرد کی تعريف پر پوری اترتی ہو يا آئ –اين – اے کی شق 212 (اے)(3)(بی) کے تحت دہشت گردی کی کاروائ ميں ملوث پائ جاۓ يا پھر دہشت گردی اور دہشت گرد کاروائ کی صلاحيت اور ارادہ رکھتی ہو۔

تنظيم کی دہشت گرد کاروائ يا دہشت گردی سے امريکی شہريوں کی حفاظت يا امريکہ کی قومی سلامتی بشمول قومی دفاع، عالمی روابط يا معاشی مفادات کو خطرات لاحق ہوں۔

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ کسی بھی گروہ يا تنظيم کی مذہبی وابستگی يا سياسی اہداف اور مقاصد کا اس پيمانے کے تناظر ميں کوئ تعلق نہيں ہے۔

دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوۓ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنا اور پرتشدد کاروائياں کرنا وہ اعمال ہيں جو اس پيمانے کو پورا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
مجھے یہ بتا دیا جایے کہ آخر امریکہ کا عالمی ٹھیکیداری کی ذمہ داری کس نے دی کہ جس ملک میں وہ چاہے اور جیسا وہ چاہے جس پر چاہے دہشت گردی کا الزام لگا دے ۔ دنیا میں مختلف ملکوں میں یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیا واقعی دہشت گردی کے خلاف ہی ہے یا اس کے پس منظر میں دی گریٹر اسرائیل کا ھدف حاصل کرنے کے لیے جنگ کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے اور سب سے اہم بات جہاں بھی امریکہ نے دہشت گردی کی آڑ میں حملہ کیا وہاں عملی طور پر کچھ ثابت نہیں کیا جا سکا سوائے آپ جیسے لوگ جو خود ساختہ اعداد وشمار سے دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کرتے پھر رہے ہیں
اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب امریکہ کا وہی حشر ہو گا جو برطانیہ اور روس کا افغانستان میں ہوا کہ داخل اپنی مرضی سے ہوا تھا لیکن نکلنا اپنی مرضی سے ممکن نہیں ہو گا اور جس طرح سوویت یونین روس بن گیا ہے اسی طرح امریکہ کی 52 ریاستوں کا حشر ہو گا
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اللہ سبحانہ و تعالی مظلوموں کی آہوں کا حساب ضرور لیگا ۔ اب اس کی جو بهی صورت ہوگی ۔ لیکن عذاب الہی آئیگا ۔ هم بهی دیکہیں گے اور آپ بهی کہ اللہ مظلوموں کا حساب ظالموں سے کس طرح لیتا هے ان شاء اللہ تعالی
مظلوموں میں سب ہی آگئے صرف مسلمان نہیں ۔ کافی لمبی لسٹ ہے۔ گاہے بگاہے اعترافات بهی کئیے گئے ہیں بے شرمی سے ۔ ہم سے زیادہ آپ واقف ہونگے ۔
زمین کی ہلکی سی کروٹ ہی کافی ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جب آپ افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں سوال اٹھاتے ہيں تو اس حوالے سے اس حقيقت کو بھی مدنظر رکھيں کہ يہ امريکی اور نيٹو افواج نہيں ہيں جنھيں ان تمام اموات کے ليے ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے۔
افغانستان پر بی 52 طیاروں سے بمباری کرنے والے کون تھے؟ کیا یہ وہی "دہشت گرد" تھے جن کے ملک پر آپ حملہ آور ہوئے تھے؟
معذرت کے ساتھ فواد صاحب آپ نے میرا دیا ہوا لنک دیکھا ہی نہیں
ذرا سا اس پر نیچے جائیے تو ایک ٹیبل دیا ہوا ہے جس میں واضح طور پر اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان شہریوں کے جو یو ایس اور نیٹو کی فوجوں کے حملوں سے ہلاک ہوئے۔ مجھے ٹیبل کاپی کرنا نہیں آتا ورنہ ضرور یہاں کاپی کرتا۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Civilian_casualties_in_the_war_in_Afghanistan_(2001–present)
اگر آپ لوگ افغانستان پر یہ جارحانہ حملہ نہ کرتے تو کیا یہ سب اموات ہوتیں؟

اگر اس الزام ميں حقيقت ہوتی تو پھر يقينی طور پر ہميں پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب کی حکومتوں سميت خطے میں اپنے تمام شراکت داروں اور اتحاديوں کی حمايت حاصل نا ہوتی۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
@فواد صاحب۔ افغانستان کی موجودہ حکومت تو آپ کی کٹھ پتلی ہے۔ اس کی ایک مثال تو وہ چیف ایگزیکٹو کا مضحکہ خیز عہدہ ہے جو آپ لوگوں نے ابھی وہاں تخلیق کیا ہے۔ امریکہ میں بھی کوئی ایسا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے جو اوباما کے برابر ہو؟
اور پاکستان تو پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف واضح کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ یہ حال ہے آپ کے شراکت داروں اور اتحادیوں کی حمایت کا۔ فواد صاحب میں دعوی کرتا ہوں کہ اگر آج ایک آزاد ریفرینڈم کرا دیا جائے کہ آپ لوگ افغانستان میں رہیں یا نہیں تو پاکستان کے کم از کم پچانوے فیصد عوام آپ کے نکلنے کا ووٹ دیں گے۔ ہماری حکومت مجبور ہے جو آپ کی اتحادی ہے ورنہ معصوم شہریوں کے قاتلوں کا بھلا کون اتحادی ہوتا ہے؟


آپ جن بے گناہ شہريوں کی ہلاکت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہيں، اس کے اصل ذمہ دار وہ دہشت گرد گروہ ہيں جنھوں نے دہشت اور بربريت پر مبنی ايک ايسی مہم کا آغاز کر رکھا ہے جس ميں کم سن بچوں کو خود کش حملہ آور بنا کر انھيں بطور ہتھيار استعمال کيا جاتا ہے اور بازاروں، سکولوں اور ہسپتالوں جيسے گنجان عوامی مقامات پر دانستہ حملے کيے جاتے ہيں۔
اچھا جی اصل ذمہ دار وہ گروہ ہیں۔ ایک بات تو بتائیے! اگر اپ لوگ اپنی فوجیں افغانستان میں نہ اتارتے تو کیا وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہوتے؟ کیا آپ کی فوجیں اترنے سے پہلے بھی وہ "کم سن بچوں" کو خود کش حملہ آور بنا کر امریکہ بھیج رہے تھے؟
اور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس پردے میں اپنی فوج کی "عمدہ کار کردگیوں" کو جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر طالبان نے عوامی مقامات پر بم دھماکے کیے ہیں تو کیا آپ لوگوں کے لیے بھی شہریوں کو مارنا درست ہو گیا ہے؟
فواد صاحب! کیا معصوم افغان شہریوں کا خون اتنا ہی سستا ہے کہ آپ دونوں انہیں ماریں؟

افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں ميرا بھی آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ بے گناہ شہريوں پر دانستہ حملے سے امريکہ کو کوئ فائدہ جاصل ہوتا ہے؟ کيا ان ہلاکتوں سے امريکہ کو فوجی، سياسی يا انتظامی معاملات ميں اپنے مقاصد کی تکميل ميں کوئ کاميابی حاصل ہوتی ہے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ يہ اور ايسی ديگر وجوہات کی بنا پر امريکہ کی يہ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات رونما نہ ہوں۔ يہ حکمت عملی بہرحال ان ہتھکنڈوں سے متضاد ہے جو اپنے سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دہشت گرد استعمال کرتے ہيں جس کا محور دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کی ہلاکت ہے۔
مسٹر فواد جب آپ لوگوں نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اس وقت ہم افغانستان کے برابر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ طالبان کو شاید آپ کبھی شکست نہ دے سکتے اگر آپ شہروں پر بمباری نہ کرتے۔ وکی پیڈیا مزار شریف کی جنگ کو نقل کرتے ہوئے کہتا ہے:
After the fall of outlying villages, and an intensive bombardment, the Taliban and al-Qaeda forces withdrew from the city.
یہ فائدہ ہے آپ لوگوں کو شہریوں کو ہلاک کر کے۔ اسی سے آپ کے مقاصد کی تکمیل ہوئی ہے جناب۔ اور آج بھی ایک خوف و دہشت اس کے ذریعے آپ پھیلاتے ہیں تا کہ عوام میں سے کوئی آپ کے خلاف سر نہ اٹھائے۔ ورنہ آپ لوگوں کا اپنا حال تو یہ تھا کہ طالبان سے ہونے والی ساری جنگ میں آپ کے افغان اتحادی مرتے رہے۔ اور آپ کا پہلا فوجی 4 جنوری 2002 کو جنگ شروع ہونے کے تین مہینے بعد مرا۔ اگر امریکہ واقعی مخلص ہو کر فرنٹ لائن پر ہوتا تو افغانوں کے بجائے امریکیوں کی لاشوں کی لائن لگتی۔

یہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ:
حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ واقعی حقیقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم آپ کی پالیسیوں پر جرح کرنے کے بجائے یہاں آپ کے شکر گزار ہو رہے ہوتے۔ لیکن امریکہ نے بھلا کب پروا کی ہے؟ کتنا آسان حل تھا کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کر کے چلا جاتا اور وہاں امن ہو جاتا۔
لیکن آپ نے ملا منصور کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا۔ نتیجہ میں ملا ہیبت اللہ نے مذاکرات سے انکار کر دیا۔ اب افغان ماریں گے اور افغان مریں گے۔ اور آپ لوگ بیٹھ کر تماشہ دیکھیں گے۔ جناب عالی! یہ سب گند آپ لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے۔


اقوام متحدہ کے ادارے يو-اين-اے-ايم-اے کے مطابق افغانستان ميں 62 فيصد بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے ذمہ دہشت گرد عناصر ہيں۔ اس کے علاوہ سترہ فيصد ہلاکتيں حکومت سے منسلک مختلف اداروں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں جن ميں چودہ فيصد افغان نيشنل سيکورٹی فورسز، دو فيصد انٹرنيشنل ملٹری فورسز اور ايک فيصد حکومت کے ايماء پر کام کرنے والے مختلف اسلحہ بردار گروہوں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہيں۔ سترہ فيصد اموات حکومت مخالف گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابين جھڑپوں کا نتيجہ ہيں۔ اس کے علاوہ چھ فيصد اموات جنگ کے دوران غير استعمال شدہ تباہ کن مواد کے پھٹنے کے نتيجے ميں ہوئيں۔
کتنے عمدہ اعداد و شمار دکھا رہے ہیں نا آپ لوگ؟ وہ جو ہلاکت خیز ڈیزی کٹر بم بی باون سے آپ لوگ برساتے تھے وہ تو لوگوں کو "ائ تا" کہہ کر بھاگ جاتے تھے نا؟
ایک بار پھر یہ لنک لگا رہا ہوں جس میں وہ اعداد و شمار ہیں جو آپ لوگوں نے ہلاک کیے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Civilian_casualties_in_the_war_in_Afghanistan_(2001–present)
اور یہ تو آپ کے اپنے اداروں کے آفیشل ریزلٹس ہیں۔ جو کچھ پردہ کے پیچھے ہے نہ جانے کتنا بھیانک ہوگا۔

آخر میں ایک سوال آپ کے لیے اور رکھتا جاؤں فواد صاحب۔ شاید آپ کی آنکھیں کھول دے۔
سن 2001 میں دشت لیلی کا ہولناک اور خوفناک واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں کئی ہزار طالبان قیدیوں کو بغیر کسی مقدمہ کے لوہے کے کنٹینروں میں بند کر کے بھوکا پیاسا ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے رہے۔ اور بچنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے پسینہ پی کر جان بچائی۔ یہ دنیا کے ہر جنگی قانون کے خلاف ہے اور انتہائی افسوسناک ہے۔
آج 2016 ہے۔ پندرہ سال گزر گئے مسٹر @فواد ! اگر امریکہ کا مقصد واقعی دہشت گردوں سے نمٹنا تھا تو اس دہشت گردی پر امریکہ نے کیا ایکشن لیا؟ کتنوں کو سزا دی؟ عبد الرشید دوستم کو کہاں قتل کیا؟ لیکن امریکہ کا مقصد تو صرف طالبان کی اسلامی حکومت ختم کرنا تھا، دہشت گردی نہیں۔
مسٹر فواد یہ سوال امریکہ کی "شفاف" دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماتھے پر پندرہ سال سے بد نما داغ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ذرا کوشش کریں۔ شاید آپ اس سوال کا جواب دے کر اپنے آقاؤں کا بوجھ ہلکا کر سکیں۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
افغانستان پر بی 52 طیاروں سے بمباری کرنے والے کون تھے؟ کیا یہ وہی "دہشت گرد" تھے جن کے ملک پر آپ حملہ آور ہوئے تھے؟
۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں "ہزاروں پاؤنڈ وزنی" بموں کی کہانی نئ نہيں ہے۔ يہ الزام آج سے کچھ سال پہلے منظر عام پر آيا تھا اور تحقيق کے بعد غلط ثابت ہوا تھا۔

يہ الزام پہلی مرتبہ سال 2001 ميں اس وقت سامنے آيا تھا جب برطانيہ کے ايک نجی ڈی – يو ماہر ڈاۓ وليمز نے يہ دعوی کيا تھا کہ امريکہ افغانستان ميں پہاڑی غاروں تک رسائ کے ليے جو بم استعمال کر رہا ہے اس ميں يورينيم کی آميزش شامل ہے۔ چونکہ اس طرح کے ہتھياروں کا وزن 1000 سے 20000 پاؤنڈ تک ہوتا ہے لہذا ميڈيا کے کچھ عناصر نے يہ خبر نشر کر دی جس کی ديکھا ديکھی کچھ پاکستانی اخبارات نے بھی بغير تحقيق کيے يہ خبر شہ سرخيوں کے ساتھ شائع کی کہ امريکہ افغانستان ميں ہزاروں پاؤنڈ وزنی بم استعمال کر رہا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ ان بموں ميں زمين کی سطح کو چيرنے کے ليے مواد يقينی طور پر استعمال ہوا تھا ليکن تحقيق سے يہ بات ثابت ہو گئ تھی کہ اس ميں يورينيم کا استعمال شامل نہيں تھا لہذا حقائق کی روشنی ميں يہ دعوی کرنا کہ افغانستان ميں "ہزاروں پاؤنڈ" وزنی بم استعمال کيے گۓ، قطعی بے بنياد ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
امریکہ کا مقصد تو صرف طالبان کی اسلامی حکومت ختم کرنا تھا، دہشت گردی نہیں۔
۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جس کسی کو بھی امريکی معاشرے ميں رہنے اور يہاں کے طرز زندگی کو سمجھنے کا تجربہ ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ امريکی معاشرہ کسی مخصوص مذہب، کميونٹی يا نسل سے محبت يا نفرت کی ترغيب کی بنياد پر قائم نہيں کيا گيا۔ امريکی آئين کی بنيادی اساس اور اصول يہ غير متزلزل يقين ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کے ليے برداشت کے جذبے کو فروغ ديا جانا چاہيے اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر ہر شخص کو مساوی حقوق حاصل ہيں۔

يہ تاثر کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ اسلام کی بڑھتی ہوئ مقبوليت اور امريکہ کی اسلام کے حوالے سے مبينہ تشويش کا نتيجہ تھی اس لحاظ سے بھی غير منطقی ہے کہ اس واقعے سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی امريکی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر کسی بھی قسم کی کوئ پابندياں نہيں عائد کی گئ ہيں۔ اس واقعے کے بعد بھی امريکہ ميں سينکڑوں کی تعداد ميں مساجد کی تعمير بھی کی گئ ہے اور دنيا بھر سے ہزاروں کی تعداد ميں مسلمان طالب علموں نے امريکی تعليمی اداروں ميں داخلے بھی ليے ہيں۔

اس واقعے کے بعد بھی امريکی معاشرہ اور حکومت مسلمان کميونٹی کو وہ تمام حقوق اور تحفظات فراہم کر رہی ہے جو اس واقعے سے پہلے مسلمانوں کو حاصل تھے اور يہ تمام حقوق وہی ہيں جو امريکی ميں ديگر مذاہب کے افراد کو حاصل ہیں۔

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔ ميں آپ کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ پوری دنيا ميں صرف تين ممالک نے کابل ميں افغانستان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اگر يہ درست ہوتا تو سعودی عرب اور پاکستان سميت دنيا کے اہم ترين مسلم ممالک افغانستان ميں ہماری کاوشوں کی حمايت نہيں کر رہے ہوتے۔

ستمبر 11 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجاۓ اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات پر آمادہ کيا جاۓ کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ افغانستان ميں ہونے والی ناگزير فوجی کاروائ کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عوامی سطح پر عالمی براداری کے ساتھ ان دہشت گردوں کی بيخ کنی کرنے کے ليے تعاون سے انکار کر ديا تھا جو صرف امريکہ کے خلاف ہی نہيں بلکہ ہر اس فريق کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے جو ان کے غير انسانی طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
افغانستان ميں "ہزاروں پاؤنڈ وزنی" بموں کی کہانی نئ نہيں ہے۔ يہ الزام آج سے کچھ سال پہلے منظر عام پر آيا تھا اور تحقيق کے بعد غلط ثابت ہوا تھا۔

يہ الزام پہلی مرتبہ سال 2001 ميں اس وقت سامنے آيا تھا جب برطانيہ کے ايک نجی ڈی – يو ماہر ڈاۓ وليمز نے يہ دعوی کيا تھا کہ امريکہ افغانستان ميں پہاڑی غاروں تک رسائ کے ليے جو بم استعمال کر رہا ہے اس ميں يورينيم کی آميزش شامل ہے۔ چونکہ اس طرح کے ہتھياروں کا وزن 1000 سے 20000 پاؤنڈ تک ہوتا ہے لہذا ميڈيا کے کچھ عناصر نے يہ خبر نشر کر دی جس کی ديکھا ديکھی کچھ پاکستانی اخبارات نے بھی بغير تحقيق کيے يہ خبر شہ سرخيوں کے ساتھ شائع کی کہ امريکہ افغانستان ميں ہزاروں پاؤنڈ وزنی بم استعمال کر رہا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ ان بموں ميں زمين کی سطح کو چيرنے کے ليے مواد يقينی طور پر استعمال ہوا تھا ليکن تحقيق سے يہ بات ثابت ہو گئ تھی کہ اس ميں يورينيم کا استعمال شامل نہيں تھا لہذا حقائق کی روشنی ميں يہ دعوی کرنا کہ افغانستان ميں "ہزاروں پاؤنڈ" وزنی بم استعمال کيے گۓ، قطعی بے بنياد ہے۔
فواد صاحب یہ بموں کا وزن یورینیم سے کب سے ماپا جانے لگا ہے؟
کیا آپ اس بات کا انکار کر سکتے ہیں کہ آپ نے افغانستان میں پندرہ ہزار پونڈ وزنی ڈیزی کٹر بم استعمال کیے تھے جن میں سے ہر بم ایک گھنے جنگل کو ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ کے قابل جگہ بنا دیتا ہے؟ یہ بم آپ نے پہلے ویت نام میں اور پھر افغانستان میں برسائے۔ یہ وہ بم ہیں جنہیں برسانے کے بعد برسانے والے طیارے کو بھی ان کی رینج سے نکلنا پڑتا ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/BLU-82

تورا بورا کے ایک غار پر اسامہ بن لادن کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد آپ نے یہ بم برسا ڈالا بغیر نیچے اترے اور بغیر یہ دیکھے کہ نیچے کوئی بے گناہ تو موجود نہیں۔ کیا آپ کی فوجوں نے یہ دیکھا تھا؟

جس کسی کو بھی امريکی معاشرے ميں رہنے اور يہاں کے طرز زندگی کو سمجھنے کا تجربہ ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ امريکی معاشرہ کسی مخصوص مذہب، کميونٹی يا نسل سے محبت يا نفرت کی ترغيب کی بنياد پر قائم نہيں کيا گيا۔ امريکی آئين کی بنيادی اساس اور اصول يہ غير متزلزل يقين ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کے ليے برداشت کے جذبے کو فروغ ديا جانا چاہيے اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر ہر شخص کو مساوی حقوق حاصل ہيں۔
معذرت چاہتا ہوں یہ وہ دعوے ہیں جن کی بنیاد ہی کھوکھلی ہے۔ ابھی کل محمد علی کلے کا جنازہ ہوا ہے۔ اس کی زندگی پر انگریزی کتاب آ چکی ہے۔ پڑھ کر خود دیکھ لیجیے گا کہ وہ نسلی تعصب سے کتنا پریشان تھا۔ جناب فواد صاحب! محمد علی کلے امریکی تھا۔
صرف نسلی تعصب نہیں ہر قسم کا تعصب آپ کے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جس ملک کی بنیاد ریڈ انڈینز کی لاشوں پر برطانیہ کے مجرموں نے رکھی ہو اس ملک کے باسیوں سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

يہ تاثر کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ اسلام کی بڑھتی ہوئ مقبوليت اور امريکہ کی اسلام کے حوالے سے مبينہ تشويش کا نتيجہ تھی اس لحاظ سے بھی غير منطقی ہے کہ اس واقعے سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی امريکی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر کسی بھی قسم کی کوئ پابندياں نہيں عائد کی گئ ہيں۔ اس واقعے کے بعد بھی امريکہ ميں سينکڑوں کی تعداد ميں مساجد کی تعمير بھی کی گئ ہے اور دنيا بھر سے ہزاروں کی تعداد ميں مسلمان طالب علموں نے امريکی تعليمی اداروں ميں داخلے بھی ليے ہيں۔

اس واقعے کے بعد بھی امريکی معاشرہ اور حکومت مسلمان کميونٹی کو وہ تمام حقوق اور تحفظات فراہم کر رہی ہے جو اس واقعے سے پہلے مسلمانوں کو حاصل تھے اور يہ تمام حقوق وہی ہيں جو امريکی ميں ديگر مذاہب کے افراد کو حاصل ہیں۔

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔ ميں آپ کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ پوری دنيا ميں صرف تين ممالک نے کابل ميں افغانستان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اگر يہ درست ہوتا تو سعودی عرب اور پاکستان سميت دنيا کے اہم ترين مسلم ممالک افغانستان ميں ہماری کاوشوں کی حمايت نہيں کر رہے ہوتے۔

ستمبر 11 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجاۓ اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات پر آمادہ کيا جاۓ کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ افغانستان ميں ہونے والی ناگزير فوجی کاروائ کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عوامی سطح پر عالمی براداری کے ساتھ ان دہشت گردوں کی بيخ کنی کرنے کے ليے تعاون سے انکار کر ديا تھا جو صرف امريکہ کے خلاف ہی نہيں بلکہ ہر اس فريق کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے جو ان کے غير انسانی طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔
میرے سوال کو آپ نے اپنی تقریر کے پردے میں چھپانے کی خوب سعی کی ہے۔ لیکن میں مکرر عرض کرتا ہوں:

"آخر میں ایک سوال آپ کے لیے اور رکھتا جاؤں فواد صاحب۔ شاید آپ کی آنکھیں کھول دے۔
سن 2001 میں دشت لیلی کا ہولناک اور خوفناک واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں کئی ہزار طالبان قیدیوں کو بغیر کسی مقدمہ کے لوہے کے کنٹینروں میں بند کر کے بھوکا پیاسا ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے رہے۔ اور بچنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے پسینہ پی کر جان بچائی۔ یہ دنیا کے ہر جنگی قانون کے خلاف ہے اور انتہائی افسوسناک ہے۔
آج 2016 ہے۔ پندرہ سال گزر گئے مسٹر [SIZE=6]@فواد[/SIZE] ! اگر امریکہ کا مقصد واقعی دہشت گردوں سے نمٹنا تھا تو اس دہشت گردی پر امریکہ نے کیا ایکشن لیا؟ کتنوں کو سزا دی؟ عبد الرشید دوستم کو کہاں قتل کیا؟ لیکن امریکہ کا مقصد تو صرف طالبان کی اسلامی حکومت ختم کرنا تھا، دہشت گردی نہیں۔
مسٹر فواد یہ سوال امریکہ کی "شفاف" دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماتھے پر پندرہ سال سے بد نما داغ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ذرا کوشش کریں۔ شاید آپ اس سوال کا جواب دے کر اپنے آقاؤں کا بوجھ ہلکا کر سکیں۔"


اگر واقعی آپ لوگ صرف "دہشت گردی" کے پیچھے تھے تو اس دہشت گردی کا آپ نے کیا کیا؟
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب امریکہ کا وہی حشر ہو گا جو برطانیہ اور روس کا افغانستان میں ہوا کہ داخل اپنی مرضی سے ہوا تھا لیکن نکلنا اپنی مرضی سے ممکن نہیں ہو گا اور جس طرح سوویت یونین روس بن گیا ہے اسی طرح امریکہ کی 52 ریاستوں کا حشر ہو گا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں 80 کی دہائ ميں روسی جارحيت کا امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی سے تقابل کرنا زمينی حقائق کی دانستہ نفی، پرلے درجے کی لاعلمی اور تاريخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ روسی افواج کے برعکس ہم افغانستان ميں علاقوں پر قبضہ کرنے يا مقامی آباديوں پر حکومت کرنے کی غرض سے نہيں آۓ ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ہم اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ترقياتی منصوبوں کی مد میں عام افغان لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کر رہے ہيں تا کہ صحت، تعليم اور بنيادی ڈھانچے کی بحالی جيسے اہم شعبوں ميں مثبت تبديلی لائ جا سکے۔

افغانستان ميں جاری ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے يو ايس ايڈ کے اعداد وشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی افغانستان کے عوام کے ساتھ ہماری طويل المدت وابستگی اور اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں پر قبضے جمانے کی کوشش ہے۔

http://afghanistan.usaid.gov/en/home

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان کی صورت حال کے برعکس، ہماری فوجی کاروائ ان واقعات کے تسلسل کا ناگزير ردعمل ہے جن ميں ہماری سرزمين پر براہراست حملہ بھی شامل ہے۔ يہی وجہ ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کی مکمل حمايت اقوام متحدہ سميت تمام عالمی برداری نے کی ہے اور اسی بدولت کئ درجن قومیں ہمارے ساتھ شامل ہيں۔ يقینی طور پر روس کے ساتھ يہ صورت حال نہيں تھی جن کے اقدام کی ہر عالمی فورم پر مذمت کی گئ۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ روسی جارحيت کے دوران افغانستان ميں روس کی موجودگی پر کڑی نقطہ چينی نے مسلسل روس کو دباؤ ميں رکھا اور يہی امر سفارتی سطح پر انھيں تنہا کرنے کا سبب بھی بنا۔

اب اگر آپ 80 کی دہائ کی صورت حال کا افغانستان کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کريں تو يہ حقیقت توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں ہمارے مقاصد افغانستان کے عوام اور حکومت کے علاوہ پاکستان اور دنيا کے ديگر ممالک جن ميں يورپ سے آسٹريليا، روس، چين، بھارت، مشرق وسطی اور ان تمام اسلامی ممالک سے مطابقت رکھتے ہيں جہاں القائدہ سے متعلق دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔

اس وقت بھی افغانستان ميں آئ – ايس – اے – ايف کے 43 اتحادی شراکت داروں کے علاوہ 84000 امريکی اور عالمی افواج مل کر کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ قريب 60 ممالک سميت بے شمار عالمی تنظيميں افغانستان اور پاکستان کو امداد مہيا کر رہی ہيں۔

افغانستان اور پاکستان سے متعلق قريب 30 خصوصی نمايندے مستقل رابطوں اور ملاقاتوں کے ذريعے پاليسی مرتب کرتے ہیں۔

يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروۓ کار لاتے ہوۓ صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے امريکی منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں 80 کی دہائ ميں روسی جارحيت کا امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی سے تقابل کرنا زمينی حقائق کی دانستہ نفی، پرلے درجے کی لاعلمی اور تاريخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ روسی افواج کے برعکس ہم افغانستان ميں علاقوں پر قبضہ کرنے يا مقامی آباديوں پر حکومت کرنے کی غرض سے نہيں آۓ ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ہم اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ترقياتی منصوبوں کی مد میں عام افغان لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کر رہے ہيں تا کہ صحت، تعليم اور بنيادی ڈھانچے کی بحالی جيسے اہم شعبوں ميں مثبت تبديلی لائ جا سکے۔

افغانستان ميں جاری ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے يو ايس ايڈ کے اعداد وشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی افغانستان کے عوام کے ساتھ ہماری طويل المدت وابستگی اور اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں پر قبضے جمانے کی کوشش ہے۔

http://afghanistan.usaid.gov/en/home

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان کی صورت حال کے برعکس، ہماری فوجی کاروائ ان واقعات کے تسلسل کا ناگزير ردعمل ہے جن ميں ہماری سرزمين پر براہراست حملہ بھی شامل ہے۔ يہی وجہ ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کی مکمل حمايت اقوام متحدہ سميت تمام عالمی برداری نے کی ہے اور اسی بدولت کئ درجن قومیں ہمارے ساتھ شامل ہيں۔ يقینی طور پر روس کے ساتھ يہ صورت حال نہيں تھی جن کے اقدام کی ہر عالمی فورم پر مذمت کی گئ۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ روسی جارحيت کے دوران افغانستان ميں روس کی موجودگی پر کڑی نقطہ چينی نے مسلسل روس کو دباؤ ميں رکھا اور يہی امر سفارتی سطح پر انھيں تنہا کرنے کا سبب بھی بنا۔

اب اگر آپ 80 کی دہائ کی صورت حال کا افغانستان کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کريں تو يہ حقیقت توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں ہمارے مقاصد افغانستان کے عوام اور حکومت کے علاوہ پاکستان اور دنيا کے ديگر ممالک جن ميں يورپ سے آسٹريليا، روس، چين، بھارت، مشرق وسطی اور ان تمام اسلامی ممالک سے مطابقت رکھتے ہيں جہاں القائدہ سے متعلق دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔

اس وقت بھی افغانستان ميں آئ – ايس – اے – ايف کے 43 اتحادی شراکت داروں کے علاوہ 84000 امريکی اور عالمی افواج مل کر کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ قريب 60 ممالک سميت بے شمار عالمی تنظيميں افغانستان اور پاکستان کو امداد مہيا کر رہی ہيں۔

افغانستان اور پاکستان سے متعلق قريب 30 خصوصی نمايندے مستقل رابطوں اور ملاقاتوں کے ذريعے پاليسی مرتب کرتے ہیں۔

يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروۓ کار لاتے ہوۓ صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے امريکی منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
خیر یہ تو آپ دیکھتے جائیں۔ پیش گوئی کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ لیکن کچھ عرصہ صبر کریں، پھر ویت نام کی جنگ کی طرح آپ اس جنگ پر بھی افسوس کر رہے ہوں گے۔
کچھ کچھ نظر ہم بھی رکھتے ہیں عالمی حالات اور جنگوں پر۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
معذرت چاہتا ہوں یہ وہ دعوے ہیں جن کی بنیاد ہی کھوکھلی ہے۔ ابھی کل محمد علی کلے کا جنازہ ہوا ہے۔ اس کی زندگی پر انگریزی کتاب آ چکی ہے۔ پڑھ کر خود دیکھ لیجیے گا کہ وہ نسلی تعصب سے کتنا پریشان تھا۔ جناب فواد صاحب! محمد علی کلے امریکی تھا۔
صرف نسلی تعصب نہیں ہر قسم کا تعصب آپ کے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جس ملک کی بنیاد ریڈ انڈینز کی لاشوں پر برطانیہ کے مجرموں نے رکھی ہو اس ملک کے باسیوں سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے يہ بات بارہا کہی ہے کہ نا تو ہم عقل کل ہيں اور نا ہی ہماری تاريخ غلطيوں سے پاک ہے۔ تاہم ايک تعميری تجزيہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ رپورٹ کی جانے والی خبروں اور تاريخی واقعات کو ان کے درست تناظر ميں پيش کريں۔ مثال کے طور پر اگر کوئ امريکی معاشرے ميں نسل پرستی جيسے معاملے کی نشاندہی کرتا ہے اور اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کلو کليس کلين امريکی تاريخ کا حصہ رہا ہے تو پھر ايک تعميری اور معنی خيز بحث کے ليے اس حقي‍ت کا ادارک کرنا بھی ضروری ہے کہ اسی امريکہ ميں آج باراک اوبامہ صدر ہيں۔

امريکہ ميں لوگوں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کريں اور پرامن طريقے سے اپنا احتجاج ريکارڈ کروائيں۔ ميں کچھ راۓ دہندگان کے اس تجزيے سے متفق نہيں ہوں کہ احتجاج کی يہ لہر ايک ايسے معاشرے کی غمازی کر رہی ہے جو شکست وريخت کا شکار ہے۔ بلکہ يہ عمل تو ايک آزاد جمہوری معاشرے ميں تنوع اور شعور کو اجاگر کرتا ہے جہاں کے باسی جس بات کو اپنے تئيں درست سمجھتے ہيں اس کے ليے کھڑے بھی ہوتے ہيں اور اپنی آواز بھی بلند کرتے ہيں۔ کيا آپ واقعی ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ وہ معاشرے جو رنگ ونسل، مذہب اور سياسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے تمام شہريوں کے ليے يکساں بنيادی حقوق کے حصول کے ليے اپنے نظام انصاف سے بھی احتساب اور شفاف عمل کا تقاضا کرتے ہيں، وہ توڑ پھوڑ اور بحران کی جانب گامزن ہيں؟

يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کے ناقدين جو امريکہ کو زوال پذير معاشرہ ثابت کرنے کے ليے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہيں ديتے اور اپنے دلائل کو تقويت دينے کے ليے کسی بھی ايسی خبر کو اجاگر کرنے سے نہيں چوکتے ، وہ انتہائ سہل طريقے سے امريکہ کے مبينہ معاشی مسائل اور عدم استحکام سے متعلق خبروں کو اس وقت فراموش کر ديتے ہيں جب پوری دنيا پر امريکی اثر و رسوخ اور مبينہ سازشی منصوبوں کی تشہير مقصود ہوتی ہے۔

يقینی طور پر اگر مختلف فورمز پر امريکی ناقدين کے الزامات کے مطابق امريکہ کے پاس کوئ ايسی جادو کی چھڑی ہوتی جس کی بدولت ہم ہزاروں ميل دور ايسے معاشروں ميں مذہبی اور فرقہ وارانہ کشيدگی کو ہوا دينے کی صلاحيت رکھتے جن کی ثقافت اور معاشرت بھی ہم سے ميل نہيں کھاتی، تو پھر ہم اسی صلاحيت اور بے پناہ طاقت کو خود اپنے ہی معاشرے ميں واقعات کے تسلسل اور نظريات پر قدغن اور پھيلاؤ کے ليے بھی استعمال کرتے۔

يہ دعوی انتہائ غير منطقی ہے کہ ايک جانب تو امريکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور زوال پذير ملک کے طور پر پيش کيا جاۓ اور پھر اسی ملک کو "طاقت کے نشے ميں سرشار" ايک ايسی منہ زور عالمی طاقت کا طعنہ ديا جاۓ جو پوری دنيا ميں کسی بھی ملک کے سياسی، معاشرتی اور معاشی نظام ميں ردوبدل کرنے کے علاوہ اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہو۔

يہ دونوں دعوے بيک وقت درست نہيں ہو سکتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
Top