• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحادیث مبارکہ میں وارد شدہ قراء ات… ایک جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
یہ متواتر قراء ت ہے۔یعقوب نے رویس کی روایت سے اس طرح پڑھا ہے۔اس قراء ت کے لیے ان کی دلیل یہی حدیث ہے۔ غائب اور حاضر کے صیغوں سے امر بناتے وقت یہ قاعدہ ہے کہ اس پر لام داخل کیا جائے جو فعل کو جزم دیتا ہے۔ جیساکہ’’لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ‘‘ (الطلاق:۷) اسی طرح جب ہم کہتے ہیں : قم واذھب تو یہ اصل میں لتقم اور لتذھب ہے۔ اس پر علمائے نحو کااجماع ہے۔کثرت استعمال کی وجہ سے لام کو حذف کردیا گیا۔اسی طرح افرحوا ہے جو اصل میں لتفرحوا تھا توجس نے تاء کے ساتھ پڑھا۔ اس نے اس کی اصل کے مطابق پڑھا ہے۔
ابن عامر، ابوجعفر اور رویس عن یعقوب نے تا کے ساتھ ’’ فَلْتَفْرَحُوْا‘‘ اور ’’تَجْمَعُوْنَ‘‘ پڑھا ہے، یعنی ’’جو تم دنیاوی سازوسامان اکٹھا کرتے ہو۔‘‘باقی قراء نے یا کے ساتھ ’’فَلْیَفْرَحُوْا‘‘ اور ’’یَجْمَعُوْنَ‘‘ پڑھا ہے۔ یعنی مومنوں کو اللہ کے فضل (اسلام) اور اس کی رحمت (قرآن) کے ساتھ خوش ہونا چاہئے۔یہ کافروں کے سازوسامان جمع کرنے سے بہتر ہے۔
دیکھیے:إتحاف فضلاء البشر (۲۵۲) النشرلابن الجزری (۲؍۲۸۵)، الاملاء للعکبری (۲؍۱۶)، الحجۃ لأبی زرعہ(۳۳۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ ھود


١٢ عن أم سلمۃ أَنَّ النَّبِیَّ! کَانَ یَقْرَؤُھَا:’’إنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صٰلحٍ‘‘(ہود:۴۶)
تخریج الحدیث: ترمذی (۲۹۳۱)، ابوداؤد (۳۹۸۳)، ابویعلی (۷۰۲۰)، ابونعیم فی الحلیہ (۸؍۳۰۱)، الطیالسی (۱۰۳۱)، مسنداحمد (۶؍۴۵۴، ۴۵۹،۴۶۰ھ، ابوداؤد (۳۹۸۲)
’’ اُم سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ1 پڑھا کرتے تھے۔’’إنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صٰلحٍ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
علماء قراء ات نے اُم سلمہ کی حدیث میں بیان کردہ قراء ت کی کیفیت لام اور را کے نصب کے ساتھ بیان کی ہے۔ یہ متواتر قراء ت کسائی اور یعقوب کی ہے۔ مسند احمد کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:قالت،قلت یا رسول اﷲ کیف اقرأ: ’’عَمَلٌ غیرُ صالحٍ‘‘ أو ’’عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ‘‘؟ فقال: ’’عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ‘‘ بالنصب
اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا :یارسول اللہﷺ میں کیسے پڑھوں:’’عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ‘‘ یا’’ عَمِلَ غَیْرَ صٰلح ‘‘آپ نے فرمایا: نصب کے ساتھ: ’’عَمِلَ غیرَ صالحٍ‘‘
اس قراء ت میں إنہ کی ضمیر نوح کے بیٹے کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ اس سے پہلے اس کاذکر ہورہا ہے۔ بعض اہل بصرہ اس قراء ت کا انکار کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عرب (عَمَلٌ غیرُحسنٍ) نہیں کہتے بلکہ عَمِلَ عَمَلا ًغَیْرَ حسن کہتے ہیں۔
ڈاکٹر المعصراوی کہتے ہیں کہ اہل بصرہ کی یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ ان کے موقف کے برعکس مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ’’وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صٰلِحًا‘‘(الفرقان:۷۱) معنی یہ ہے۔ ومن تاب و عمل عملا صالحا،اس طرح فرمایا: ’’وَاعْمَلُوْا صٰلِحًا‘‘ (المومنون:۵۱) یہاں پر (واعملوا عملا صالحا) نہیں کہا۔ ’’إِلَّا مَنْ تَابَ وء امَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا‘‘ (مریم:۶۰) ’’وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُوْمِنِیْنَ‘‘بھی اسی کی مثالیں ہیں۔ لہٰذا اسی طرح ’’إِنَّہُ عَمِلَ غیر صٰلِحٍ‘‘ ہے۔باقی قراء نے میم کے فتحہ اور لام و را کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
دیکھیے: إتحاف فضلاء البشر (۲۵۶)، السبعۃ لابن مجاہد(۳۳۴)، النشر لابن الجزری(۲؍۲۹۲)
اسی آیت کے سلسلہ میں حضرت عائشہ یوں روایت کرتی ہیں:
عن عائشۃ قالت: قرأھا رسول اﷲ!: ’’إنہ عَمَلٌ غَیْرُ صٰلِحٍ‘‘ (ہود:۴۶)
تخریج الحدیث: طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد(۷؍۱۵۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الرعد


١٣ عن جابر بن عبد اﷲ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ! یَقُوْلُ لِعَلِیٍّ: یَاعَلِیُّ،النَّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتّٰی،وَأَنَا وَأَنْتَ مِنْ شَجَرَۃٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ قَرَأَ رَسُوْلُ اﷲِ! ’’وَجَنّٰتٌ مِنْ أعْنٰبٍ وَّزَرْعٍ وَّنَخِیْلٍ صِنْوَانٍ وَغَیْرِ صِنْوَانٍ یُسْقیٰ بِمَآئٍ وَّاحِدٍ‘‘ (الرعد: ۴)
تخریج الحدیث: مستدرک حاکم (۲؍۲۴۱)امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے اس کا تعاقب کیا ہے۔سیوطی فی الدر المنثور(۴؍۸۵)
’’جابر بن عبداللہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو حضرت علیؓ سے فرماتے ہوئے سنا: اے علیؓ لوگ مختلف درختوں سے ہیں میں اور تم ایک درخت سے ہیں پھر آپؐ نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔ ’’وَجَنّٰتٌ مِنْ أعْنٰبٍ وَّزَرْعٍ وَّنَخِیْلٍ صِنْوَانٍ وَغَیْرِ صِنْوَانٍ یُسْقیٰ بِمَآئٍ وَّاحِدٍ‘‘ اور انگور کے باغ اور کھیت ہیں اور کھجور کے دو شاخ (ایک جڑ) اور الگ الگ جڑ والے سب کو ایک ہی پانی دیا جاتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
نافع، ابن عامر، شعبہ، حمزہ، کسائی، ابوجعفر اور خلف نے چاروں کلمات (وزرعٍ و نخیلٍ صِنْوانٍ وغیرِ) کو جنٰتٍپر عطف ڈالتے ہوئے مجرور پڑھا ہے، جبکہ ابن کثیر، ابوعمرو، یعقوب اور حفص نے ان چاروں کلمات کو قِطَعٌ پر عطف ڈالتے ہوئے مرفوع پڑھاہے اور یہ دونوں متواتر قراء ات ہیں۔
دیکھیے:إتحاف الفضلاء (۲۶۹)، النشر لابن الجزری(۲؍۲۹۷)، الحجۃ لابن خالویہ (۱۹۹،۲۰۰)،السبعہ لابن مجاہد (۳۵۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الحجر


١٤ عن أبی موسیٰ عن النبی قال إذا اجتمع أہل النار فی النار ومعھم من أھل القبلہ ما شاء اﷲ قالوا:ما أغنی عنکم إسلامکم،وقد صرتم معنا فی النار، قالوا: کانت لنا ذنوب فأخذنا بھا فسمع اﷲ ما قالوا،قال۔فأمر لمن کان فی النار من أھل القبلۃ، فأخرجوا، فیقول الکفار،یا لیتنا کنا مسلمین،فخرج کما أخرجوا،قال: وقرأ رسول اﷲ!:’’اَلر تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ، رُبَّمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ (الحجر:۱،۲) مثقلہ
تخریج الحدیث: حاکم فی المستدرک (۲؍۲۴۲)، تفسیر طبری (۲۱۰۵۵۵) حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ درالمنثور (۴؍۱۷۲)
’’ابوموسیٰ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: جب جہنمی آگ میں جمع ہوجائیں گے اور ان کے ساتھ اہل القبلہ (مسلمانوں) میں سے جسے اللہ چاہے گا، وہ بھی ساتھ ہوں گے۔ تو وہ کافر کہیں گے، تمہیں تمہارے اسلام نے کیا فائدہ دیا تم بھی ہمارے ساتھ آگ میں ہو ، وہ کہیں گے ہم اپنے گناہوں کی وجہ سے یہاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سن لیں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پھر تمام مسلمانوں کو آگ سے نکالنے کا حکم دیا جائے گاتو کافر پکار اٹھیں گے! کاش ہم بھی مسلمان ہوتے اور ان کی طرح ہمیں بھی آگ میں سے نکال لیا جاتا۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: ’’اَلر تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ، رُبَّمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ اور ربَّما کو مثقل پڑھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
یہ متواتر قراء ت ابن کثیر، ابوعمرو بن العلاء، ابن عامر، حمزہ، کسائی، یعقوب اور خلف العاشر نے اختیار کی ہے۔ نافع ، ابوجعفر مدنی اور عاصم نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔
امام کسائی نے فرمایا: یہ دونوں لغات ہیں اور اصل تشدید ہے، کیونکہ اگر آپ اس کی تصغیر بنائیں گے تو کہیں گے (ربیب) اس طرح آپ اس کی اصل کی طرف آجائیں گے۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ (ربما) میں ما کی کیا حیثیت ہے؟ تو اس کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ اسم نکرہ کا نائب ہے جو محل جر میں ہے۔ بمعنی شئ۔ مصیر ی نے کہا: تقدیر عبارت یوں ہوگی۔ (رب ودّ یود الذین کفروا) دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ کافہ ہے، کیونکہ (إن) اور (رب) اسماء کے ساتھ آتے ہیں۔ اگر آپ انہیں فعل کے ساتھ ملائیں تو پھر انہیں (ما) کے ساتھ ملایاجائے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’إِنَّمَا یَخْشَی اﷲَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰوُا‘‘ (فاطر:۲۸)
دیکھیے:إتحاف الفضلاء(۲۷۴)، السبعۃ لابن مجاہد(۳۶۶)،النشر لابن الجزری(۲؍۳۰۱)،الغیث للصفاقسی(۲۶۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الکہف


١٥ عن أبیٍّ بن کعب أن النبی! قرأ: ’’ لِیَغْرَقَ اَھْلُھَا‘‘ (الکہف:۷۱) بالیاء۔
تخریج الحدیث: ابن مردویہ بحوالہ کنزالعمال (۴۸۷۲)، الدر المنثور للسیوطی (۴؍۴۲۸)
’’ابی ابن کعب سے مروی ہے، نبی کریمﷺ نے یوں پڑھا: ’’لِیَغْرَقَ اھلُھا‘‘ یاء کے ساتھ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
یہ متواتر قراء ت حمزہ، کسائی اور خلف العاشر کی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ یاء اور را فتحہ کے ساتھ اور اَھْلُھَا کو مرفوع پڑھا جائے گا۔ معنی ہوگا کہ کیا تم نے کشتی کو عیب دار کیا تاکہ اس کے مسافر ڈوب جائیں۔
باقی قراء نے تاء کے ساتھ’’لِتَغْرَقَ اَھْلَھا‘‘ پڑھا ہے۔ ان کی دلیل قول باری تعالیٰ ہے: ’’أخَرَقْتَھَا‘‘ انہوں نے دوسرے فعل کوبھی پہلے فعل کی مانند بنایا ہے۔ یہ قول بھی ان کے موقف کو مضبوط کرتاہے : ’’لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا إِمْرًا‘‘
دیکھیے: السبعۃ لابن مجاھد (۳۹۵)، الغیث للصفاقسی (۲۸۱)، النشرلابن الجزری (۲؍۳۱۳) الحجۃ لابن خالویہ (۲۷۷)
١٦ عن أبی بن کعب أن النبی قرأ: ’’لَتَخِتَّ علیہ أجْرًا‘‘ (الکہف:۷۷) مدغمہ باسقاط الذال
تخریج الحدیث: ابن حبان، حاکم، الماوردی نے اسے بیان کیاہے۔ بحوالہ کنزالعمال (۴۸۶۶)
ڈاکٹر المعصراوی کہتے ہیں: ’’یہ حدیث مجھے مطبوع کتابوں میں نہیں ملی۔‘‘
’’ابی بن کعب سے مروی ہے کہ نبی کریم نے تلاوت کرتے ہوئے ’’لتَخِتَّ علیہ اجرا‘‘ یعنی ذال کو گرا کر ادغام کے ساتھ پڑھا۔‘‘
اسی بارے میں ایک دوسری روایت یوں ہے:
عن أبی بن کعب أن النبیﷺ قرأ: ’’لو شئت لَتَخِذْتَ علیہ اجرا‘‘ (الکہف:۷۷) مخففّۃ
تخریج الحدیث:صحیح مسلم (۴؍۱۸۵۲)، کتاب الفضائل باب فضائل الخضر(۱۷۳؍۲۳۸۰)، ابن حبان (۶۳۲۵)، حاکم نے اس حدیث کو بخاری، مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔
’’ ابی بن کعب سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے (تخفیف کے ساتھ) ’’لو شئت لتخذت علیہ اجرا‘‘ پڑھا۔‘‘
اس بارے میں ایک تیسری حدیث یوں مروی ہے:
عن أبی بن کعب أن النبی قرأ:’’لَتَّخَذْتَ علیہ اجرا‘‘ (الکہف :۷۷)
تخریج الحدیث:صحیح مسلم (۴؍۱۸۵۲) کتاب الفضائل باب من فضائل الخضر(۱۷۳؍۲۳۸۰)، مسنداحمد(۷؍۱۰۷)، مستدرک حاکم (۲؍۲۴۳) حاکم نے اسے بخاری ، مسلم کی شرط پر صحیح کہا اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔
’’ابی بن کعب سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ’’ لَتَّخَذْتَ علیہ اجرا ‘‘ پڑھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت

پہلی روایت میں وارد شدہ قراء ت ابوعمرو بصری اور یعقوب کی ہے، جبکہ دوسری روایت میں مذکور قراء ت امام ابن کثیر سے متواترۃ ثابت ہے۔ باقی قراء تیسری روایت میں مذکورہ انداز کے موافق پڑھتے ہیں۔
امام ابن کثیر کی قرا ء ت کی دلیل یہ ہے کہ یہ (تخذ یتخذ تخذا) سے ہے۔ اس میں تا اصل مادے کی ہے۔جیساکہ (تبع یتبع) میں ہے۔ تو ابن کثیر نے اس فعل کو کسی اضافے کے بغیراس کی اصل کے مطابق پڑھاہے۔باقی قراء نے تا کے فتحہ کے ساتھ (افتعلت) کے وزن پر ’’لاتخذت‘‘ پڑھا ہے۔ اس صورت کی دو وجوہات ہیں۔
١ یہ (تخذ ۔ یتخذ) سے ہے اور اس میں پہلی تا اصلی جبکہ دوسری زائدہ ہے۔
٢ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ فعل (أخذ)سے ماخوذ ہے۔اس سے باب افتعال بناتے ہوئے یہ (اتخذ یتخذ) سے ہے۔
دیکھیے: السبعۃ لابن مجاہد (۳۹۶)، الغیث للصفاقسی (۲۸۱) إتحاف الفضلاء (۲۹۴) الاملاء للعکبری (۹۵۱۲)
 
Top