• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحکام فقہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحکام فقہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم
مترجم: محمدعمران اسلم​
جس طرح اس میں کسی بھی شخص کی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ قراء اتِ قرآنیہ (متواترہ ہوں یا شاذہ) شرعی اَحکام ومسائل پراَثرات مرتب کرتی ہیں۔بالکل اسی طرح اَحکام فقہ میں بھی قراء ات کی اثر پذیری سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قراء اتِ قرآنیہ کو فقہاء کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کس طرح سے یہ فقہی اَحکام پر اثر انداز ہوتی ہیں اس بحث کو ہم دو عناوین میں پیش کرتے ہیں:
(١) قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں فقہاء کا مؤقف
(٢) اَحکام فقہیہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات کی مثالیں
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں فقہاء کا مؤقف
اَئمہ فقہاء قراء اتِ قرآنیہ کے علماء ہونے کی وجہ سے بھرپور اہتمام کے ساتھ ان کو نقل کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں اَحکام شرعیہ مستنبط فرماتے ہیں۔اب ہم قراء اتِ متواترہ اور شاذہ کے بارے میں فقہاء کا مؤقف پیش کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ متواترہ کے بارے میں فقہاء کی آراء
علم فقہ اور علم قراء ات کی مدد سے احکام شرعیہ کی تبیین ووضاحت کرنے والوں میں سے ایک نام جلیل القدر تابعی امام حسن بصری﷫کا ہے جن کے بارے میں امام شافعی﷫فرماتے ہیں:
’’لوأشاء أن أقول إن القرآن نزل بلغۃ الحسن البصری لقلت لفصاحتہ‘‘ (أحسن الأثر لمحمود الحصری:ص۹۹)
’’حسن بصری﷫کی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے اگر میں یہ بھی کہنا چاہوں کہ قرآن ان کی لغت میں نازل ہوا، تو میں کہہ سکتا ہوں۔ ‘‘
قراء اتِ قرآنیہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آئمہ فقہاء مقام ومرتبے کے اعلیٰ معیار پر ہونے کے باوجود علماء قراء ات کی تعظیم کرتے اور پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے۔ امام ابوحنیفہ﷫، امام حمزہ﷫(جو کہ قراء سبعہ میں سے ہیں) کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’ دوچیزوں کا علم آپ میں بدرجہ اَتم موجود ہے ایک قرآن اوردوسرا علم وراثت۔‘‘(أحسن الأثر للحصری: ص۵۳)
éمالک بن انس﷫امام ابوجعفر﷫کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’کان أبو جعفر رجلا صالحا یقریٔ الناس فی المدینۃ‘‘ (غایۃ النہایۃ لابن جزری: ۲؍۳۴۲)
’’ابوجعفر﷫ صالح آدمی تھے اور مدینہ میں لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭اسی طرح امام نافع﷫کی قراء ت کے بارے میں آپ﷫فرماتے ہیں:
’’قراء ۃ أہل المدینۃ سنۃ‘‘(أحسن الاثر:ص۱۲) ’’اہل مدینہ کی قراء ت سنت ہے۔‘‘
آپ﷫ سے مزید دریافت کیا گیا کہ کیااس سے مراد امام نافع﷫کی قراء ۃ ہے توآپ نے اِثبات میں جواب دیااور جب امام موصوف سے نماز کے شروع میں بسملہ جہر سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ﷫ نے فرمایا:
’’سلو نافعا فکل علم یسأل عنہ أہلہ،ونافع إمام الناس فی القراء ۃ‘‘(لطائف الارشادات: ۱؍۹۴)
’’یہ سوال امام نافع﷫ سے کرو، کیونکہ ہر علم سے متعلق اس کے اہل سے سوال کرنا چاہیے اور نافع قراء ۃ میں لوگوں کے امام ہیں۔‘‘
٭امام شافعی﷫امام نافع کی قراء ت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’قراء ۃ نافع سنۃ‘‘ (لطائف الارشادات: ۱؍۹۴)’’امام نافع کی قراء ت سنت ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ جب امام احمد﷫سے آپ کی پسندیدہ قراء ت کے بارے میں دریافت کیا گیاتوآپ نے اہل مدینہ یعنی امام نافع﷫ کی قراء ت کی طرف اِشارہ فرمایا۔
سابقہ بحث کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ فقہاء کرام متعدد قراء ات کا خصوصی التزام کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ قراء ت متواترہ اور غیرمتواترہ، قراء تِ مقبولہ اور غیر مقبولہ کے مابین خوب تمیز روا رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔فقہاء کرام دو مختلف المعنی متواتر قراء ات پر عمل کو واجب قرار دیتے ہیں اوران کے نزدیک ان دونوں میں سے ایک کو دوسری پر اولویت حاصل نہیں ہے۔ احکام القرآن میں ہے:
’’والقرا ء تان کالآیتین یجب العمل بہما‘‘ (أحکام القرآن لابن العربی: ۱؍۱۴۹)
’’دو قراء ات دو آیات کی طرح ہیں ان دونوں پر عمل کرنا واجب ہے۔‘‘
٭شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫قراء اتِ قرآنیہ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’قراء ات کی معرفت اور ان کو حفظ کرناایسی سنت ہے جس کی اتباع کی گئی ہے اور بعد میں آنے والوں نے اسے پہلوؤں سے اَخذ کیا ہے۔‘‘(مجموع الفتاوی:۱۳؍۴۰۴)
علاوہ ازیں شیخ موصوف﷫قراء عشرہ سے متعلق علماء کرام کا مؤقف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’علماء کرام میں سے کسی ایک نے بھی قراء تِ عشرہ کا انکار نہیں کیا،لیکن سوائے اس کے جو علم قراء ت سے ناواقف ہے یا جس تک قراء اتِ قرآنیہ پہنچ نہیں سکیں۔
اس کے بعد مزید لکھتے ہیں کہ
’’اگر کوئی شخص مغربی بلاد اِسلامیہ میں سکونت پذیر ہے اور اس تک بعض قراء ات نہیں پہنچیں تو وہ ایسی قراء ات پڑھنے سے گریز کرے جن سے وہ نابلد ہے۔‘‘ (مجموع فتاوی: ۱۳؍۳۹۳،۳۹۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ شاذہ سے متعلق فقہاء کی آراء
قراء اتِ شاذہ کو بطورِ دلیل اختیار کرنے میں فقہاء کرام کے دو مذاہب ہیں:
(١) قراء ات ِشاذہ حجت ہیں اور ان پر عمل کرنا جائز ہے۔
(٢) قراء ات ِشاذہحجت نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا بھی جائز نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلے مذہب کے قائلین:
٭ احناف (فواتح الرحموت شرح مسلّم الثبوت للأنصاری: ۲؍۱۶)
٭ حنابلہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ (روضۃ الناظر: ۱؍۸۱)
٭ امام مالک﷫سے بھی یہی مذہب بیان کیا گیا ہے۔(شرح الکوکب المنیر للفتوحی: ۲۰؍۱۴۰)
٭ جمہور شافعیہ جن میں ابوحامد،ماوردی، ابن یونس، رافعی، ابن سبکی اور اسنوی﷭شامل ہیں،اور متاخرین شافعیہ نے بھی یہی مذہب اختیار کیاہے۔
٭ کمال بن ہمام ﷫فرماتے ہیں:
’’ القراء ۃ الشاذۃ حجۃ ظنیۃ خلافا للشافعی‘‘ (کتاب التحریر مع شرحیہ: ۳؍۹)
’’ امام شافعی﷫ کے (مذہب کے ) برخلاف قراء ۃِ شاذۃ ظنی حجت ہیں۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭امام ابن قدامہ﷫ رقمطراز ہیں:
’’والصحیح أنہ حجۃ،لأنہ یخبر۔ أی الصحابی الذی روی القراء ۃ الشاذۃ ۔ أنہ سمع من النبی فإن لم یکن قرآن فہو خبر‘‘ (روضۃ الناظر: ۱؍۱۸۱)
’’صحیح یہ ہے کہ قراء اتِ شاذۃ حجت ہیں،کیونکہ یہ خبرہیں۔ یعنی وہ صحابی جو قراء اتِ شاذۃ بیان کررہا ہے اس نے ضرور وہ رسول اللہﷺسے سنی ہے۔ اگر وہ قرآن نہیں تو کم ازکم خبر تو ضرور ہوگی۔‘‘
٭ابن سبکی﷫فرماتے ہیں:
’’ أما إجراؤہ مجری الأخبار الآحاد فی الاحتجاج فہو صحیح‘‘ (جمع الجوامع: ۲۳۱)
’’قراء تِ شاذہ کو دلیل میں خبر واحد کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘
٭ابن حجر ہیثمی﷫اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’والقراء ۃ الشاذۃ یحتج بھا فی الأحکام کخبر الواحد علی المعتمد‘‘(تحفۃ المحتاج بشرح المنہاج: ۸؍۲۸۹)
’’احکام میں قراء ۃ شاذۃ کو بطورِ دلیل اختیار کیا جائے گاجیسا کہ خبر واحد پر اعتماد کیا جاتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرے مذہب کے قائلین:
٭امام مالک﷫ (مختصر ابن الحاجب مع شرحیۃ العضن: ۲؍۲۱)
٭ایک قول کے مطابق امام شافعی اور آپ کے بعض اصحاب کا یہی مؤقف ہے۔(الأم للشافعی: ۷؍۶۶)
٭امام احمد﷫ سے بھی یہی مؤقف روایت کیا گیاہے۔ (اُصول مذہب امام احمد:ص۱۸۶)
٭امام ابن حزم ﷫کا بھی یہی قول ہے۔(الأحکام فی أصول الاحکام:۴؍۱۷۰،۱۷۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راجح مؤقف
ان دونوں مذاہب کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ
قراء اتِ شاذۃ کو اس وقت بطورِ دلیل اختیار کیا جائے گاجب وہ کسی حکم کی ترجیح کے طورپر استعمال ہو اور اس وقت اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا جب وہ کسی حکم کی ابتدائی دلیل کے طور پروارد ہو۔
 
Top