• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحکام فقہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحکام فقہیہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے اثرات کی مثالیں
(١) اَحکام فقہیہ میں قراء ات متواترہ کے اثرانداز ہونے کی اَمثلہ
(٢) اَحکام فقہیہ میں قراء ات شاذۃ کے اثر انداز ہونے کی امثلہ
اَحکام فقہیہ میں قراء اتِ متواترہ کے اثرانداز ہونے کی امثلہ
٭فرمانِ الٰہی ہے:
’’۔۔۔وَلَا تَقْرَبُوہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیثُ أَمَرَکُمُ اﷲُ إِنَّ اﷲ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ المُتَطَہِّرِینَ‘‘ (البقرۃ: ۲۲۲)
(١) آیت میں موجود کلمہ ’یطہرن‘کو ’ط ‘ کی تخفیف اور سکون، اور ھاء کے ضمہ کے ساتھ ’یَطْہُرْنَ‘پڑھا گیاہے۔یہ قراء ت جمہور کی ہے۔
(٢) طا اور ھاء کی تشدید اور ان کے فتحہ کے ساتھ ’یَطَّہَّرَن‘۔ یہ قراء ۃ امام حمزہ، کسائی اور خلف البزار کی ہے۔ (النشر فی القراء ات العشر:۲؍۲۲۷)
اس آیت کریمہ میں دو مختلف قراء توں کی بناء پر دو مختلف حکم اَخذ کیے گئے ہیں:
(١) جنہوں نے’طا‘اور’ھا‘کی تشدید اور ان کے فتحہ کے ساتھ ’یَطْہُرْنَ‘پڑھا ہے۔انہوں نے اس کا معنی حیض کے خون کے زائل ہونے کا لیا ہے۔ یعنی انقطاع دم کے ساتھ ہی عورت پاک ہوجائے گی اور غسل سے قبل اس کے ساتھ جماع کرنا جائز ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) جنہوں نے تشدید کے ساتھ’یَطَّہَّرن‘پڑھا ہے ۔ انہوں نے اس قراء ۃ سے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ عورت اس وقت تک پاک نہ ہوگی جب تک کہ غسل نہ کرلے اور غسل سے قبل اس سے جماع درست نہ ہوگا۔(تفسیر الکبیر للرازی: ۶؍۷۲)
قراء کرام کا یہاں تشدید والی قراء ۃ پر اجماع واقع ہوا ہے۔پس آیت معنوی طور پر اس طرح ہوگی:
’’وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ، فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَأتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اﷲُ‘‘(جامع البیان للطبری:۲؍۳۸۷)
امام ابوحنیفہ﷫ پہلے قول کو ترجیح دیتے ہوئے انقطاع دم کے ساتھ ہی عورت کو خاوند کے لیے حلال قرار دیتے ہیں، لیکن امام صاحب﷫ کی اجازت دو چیزوں کے ساتھ مقید ہے:
(١) خون کا انقطاع اس وقت ہو جب مدت حیض گزر چکی ہو(امام موصوف﷫ کے ہاں زیادہ سے زیادہ مدت حیض دس دن ہے)
(٢) خون کا انقطاع دس روز سے قبل ہوتو ایسی صورت میں غسل سے قبل بیوی کے ساتھ مخصوص افعال سر انجام دینا جائز نہ ہوگا۔یاپھر عورت کو حیض کا خون نظر نہ آئے اور ایک نماز کا وقت گزر جائے۔(أحکام القرآن للجصاص: ۱؍۳۳۶)
جبکہ جمہور مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ نے تشدید والی قراء ت سے استدلال کرتے ہوئے انقطاع دم کے بعد غسل سے قبل بیوی کے ساتھ جماع کو ناجائز قرار دیا ہے۔
جمہور کے مؤقف کی دو وجوہ سے تائید ہوتی ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی وجہ: انقطاع دم، یہ ان کی تشدید والی قراء ۃ ’یَطَّہَرنَ‘کی تفسیرہے۔
دوسری وجہ: پانی سے غسل کرنا،انہوں نے یہ تفسیر ’فَإِذا تَطَّہرن‘ سے لی ہے،کیونکہ اس کو دوبارہ اس لیے لائے ہیں تاکہ طہارت کا حقیقی مقصد حاصل ہوجائے اور وہ تب ہی ہوگا جب غسل کر لیا جائے۔
ہم اس ضمن میں ایک مثال پیش کرتے ہیں جس کی مدد سے اس کی مزید وضاحت ہوجائے گی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’وَابْتَلُوْا الْیَتٰمَی حَتّٰی إِذَا بَلَغُوْا النِّکَاحَ فَإِنْ اٰنَسْتُمْ مِنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا إِلَیْہِمْ أمْوَالَہُمْ‘‘(النساء: ۶)
مذکورہ آیت میں یتیموں کو ان کے اَموال لوٹانے کو دوشرطوں کے ساتھ معلق کیا گیا ہے:
(١) بلوغت اور(٢)سن تمیز کو پہنچنا
یعنی جس طرح یتیموں کو ان کے اَموال لوٹانے کے لیے ان دوشرطوں کا پایا جانا ضروری ہے بالکل اسی طرح بیوی کے ساتھ قربت اختیار کرنے کے لیے انقطاع دم کے بعد غسل کر لینا ضروری ہے۔
ذکر کردہ خیالات وآراء کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جمہور کا مؤقف قوی دلائل سے مزین ہونے کی بناء پر راجح ہے۔ آیت’’ إِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ‘‘ (البقرۃ: ۲۲۲) میں ظاہرالفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ طہارت سے مراد طہارت حسی ہے اور طہارت حسی پانی کے ساتھ غسل کے علاوہ حاصل نہیں ہوسکتی۔
٭ حق بات یہی ہے کہ تعارض سے بچتے ہوئے دونوں قراء توں پر عمل کو ترجیح دی جائے۔
٭فرمان الٰہی ہے:
’’وَاتَّخِذُوا مِنْ مُقَامِ اِبْراہِیمَ مُصَلّٰی‘‘(البقرۃ: ۱۲۵)
اس آیت کے لفظ ’واتخذوا‘میں دو متواتر قراء ات بیان کی گئی ہیں۔
(١) خاء کے فتحہ کے ساتھ’واتَّخَذُوا‘۔فعل ماضی بمعنی خبر۔
(٢) خاء کے کسرہ کے ساتھ ’واتَّخِذُوا‘فعل امر بمعنی انشاء۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی قراء ۃ کے قائلین کے دلائل:
اس قراء ت کو پڑھنے والے امام نافع﷫اور ابن عامر﷫ ہیں۔ان کا کہناہے کہ یہ اولاد ابراہیم﷤ کی خبر ہے کہ انہوں نے مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لیا اور ’’وَإِذْ جَعَلْنَا البَیْتَ مَثَابَۃً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا‘‘ کا عطف ’’وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ اِبْراہِیمَ مُصَلّٰی‘‘ پر ہو رہا ہے اور ان آیات میں مذکور’ جعلنا‘ اور ’ واتخذوا‘ فعل ماضی ہیں اور ان دونوں میں فعل ماضی خبر کا معنی دے رہا ہے۔(حجۃ القراء ات لابن زنجلۃ: ص۱۱۳)
یہ قراء ت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ابراہیم﷤ کی اولادنے مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا یا۔
دوسری قراء ت امر کا فائدہ دے رہی ہے اورا مر کسی بھی چیز کے وجوب کا تقاضا کرتاہے۔اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب رسول اللہﷺنے بیت اللہ الحرام کا طواف کیاتو مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعات اَدا فرمائیں۔ مزید فرمایا:
’’لتأخذوا مناسککم‘‘ (صحیح مسلم:۳۱۳۷) ’’مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔‘‘
فقہاء کرام نے اس آیت میں مختلف قراء ات کی بناء پر مختلف استدلالات کیے ہیں جنہوں نے اسے صیغۂ خبر کے طور پر لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس رکعات ادا کرناسنت ہے۔اس کے قائلین امام مالک﷫، امام احمد﷫ اور ایک قول کے مطابق امام شافعی﷫ہیں۔ (المغنی لابن قدامۃ: ۳؍۳۸۴)
ان کا استدلال اعرابی کے اس قصہ سے بھی ہے جس نے رسول اللہﷺسے سوال کیا کہ کیامجھ پر اس کے علاوہ بھی کوئی چیز فرض ہے؟تو آپﷺنے جوابا فرمایا:
’’لا،إلا أن تطوع‘‘ (صحیح البخاري:۴۶)’’نہیں، اس کے سوا نوافل ہیں۔‘‘
٭ علاوہ ازیں ان رکعات کی کوئی جماعت بھی مشروع نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں واجب نہیں بلکہ نفل ہی شمار کیا جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری قراء ۃ کے قائلین کے دلائل:
جنہوں نے اسے’خا‘ کے کسر ہ کے ساتھ ’واتَّخِذُوا‘پڑھا ہے انہوں نے اسے صیغۂ امر کے معنی میں لیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ مقام ابراہیم کے قریب نوافل ادا کرنا واجب ہے، کیونکہ اَمر وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔یہ قول امام ابوحنیفہ﷫اور امام شافعی﷫کا ہے۔(شرح فتح القدیر:۶؍۴۵۶)
فقہاء کرام اس پر تومتفق ہیں کہ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعات اَدا کرنا مشروع ہے۔ محل اختلاف یہ ہے کہ یہاں نماز اَدا کرنا سنت ہے یا واجب؟یہ دونوں قراء تیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانا ابراہیم﷤کے زمانے سے تھا اور وہ پتھر جس پر ابراہیم﷤کھڑے ہوئے تھے وہ نماز کے لیے مخصوص نہ تھا۔
یہ قراء ت اس آیت کو ایک اور معنی دیتی ہے اور وہ یہ کہ یہ خطاب مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لیے ہے۔ پھر ’’وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی‘‘…‘‘وَإِذْ جَعَلْنَا البَیْتَ مَثَابَۃً لِلنَّاسِ وَأَمْنا‘‘اور ’’وَعَہِدْنَا إِلٰی إِبْرَاہِیْمَ‘‘کے مابین جملہ معترضہ ہوگا۔
لہٰذا پھر اس بات کا بھی احتمال ہے کہ نماز بعد میں مشروع ہوئی پہلے مشروع نہیں تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭مالکیہ نے دونوں قراء توں میں ایک سبیل یہ نکالی ہے کہ
’’إن الصلاۃ خلف المقام تکون واجبۃ فی الطواف الواجب،وتکون مندوبۃ فی الطواف المندوب‘‘(شرح مختصر خلیل للزرقانی: ۲؍۳۷۴)
’’مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرنا فرضی طواف میں فرض ہے جبکہ نفلی طواف میں نفل ہوگا۔‘‘
٭احناف کے نزدیک مقام ابراہیم کے پاس دورکعات اَدا کرنا واجب ہے، جو کہ فرض اور واجب کے مابین فرق کرتے ہیں۔ان کاکہنا ہے:
’’الفرض ما ثبت بدلیل قطعی،والواجب ما ثبت بدلیل ظنی‘‘(بدائع الصنائع :۳؍۱۱۴۵)
’’فرض وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو اور واجب وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو۔‘‘
لہٰذا یہ حکم چونکہ دلیل قطعی سے معلوم ہو رہا ہے اس لیے فرض ہے۔اس کی تائید نیل الأوطار کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے :
’’فتحہ والی قراء ت خبر پر دلالت کرتی ہے اور کسرہ والی روایت اَمر پر اور اَمر یہاں وجوب کاتقاضا کررہا ہے۔‘‘
علماء کے مابین اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ مقام اِبراہیم سے مراد کیا ہے۔فتح الباری میں ہے:’’خانہ کعبہ کی تمام جہات میں نماز ادا کرنے پر اجماع ہے۔‘‘ جوکہ عدم تخصیص پر دلالت کرتاہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ابراہیم﷤کے پاؤں کے نشانات ہیں، کیونکہ جمیع جہات تب ہی کہیں گے جب ایک جہت مقام ابراہیم ہوگی۔
٭مجاہد﷫ فرماتے ہیں:
’’المراد بمقام ابراہیم: الحرم کلہ، والأول أصح‘‘(فتح الباري:۳؍۵۵)
’’مقام ابراہیم سے مراد سارے کا سارا حرم ہے اور اول زیادہ صحیح ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راحج مؤقف
درج ذیل وجوہ کی بناء پر ان رکعات کو سنت قرار دینے والوں کے مؤقف کو راجح قرار دیا جائے گا:
٭کسی قرینے کی عدم موجودگی میں اَمر وجوب کا تقاضا کرتا ہے، لیکن یہاں قرینہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ اعرابی کے رسول اللہﷺسے دریافت کرنے پر آپﷺنے فرمایا: ’’اس کے علاوہ باقی نوافل ہیں۔‘‘
٭ اکثر فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ مقام ابراہیم﷤ کے پاس نماز اَدا کرنا سنت ہے۔ انہوں نے دونوں قراء توں کو جمع کر کے دونوں پر عمل کو ترجیح دی ہے۔
٭فرمان الٰہی ہے:
’’…وَلَا تُقٰتِلُوہُمْ عِنْدَ المَسْجِدِ الحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذٰلِکَ جَزَائُ الکَافِرِینَ‘‘ (البقرۃ: ۱۹۱)
اس آیت قرآنیہ میں دو متواتر قراء ات بیان کی گئی ہیں:
(١) ان الفاظ میں ثبوت الف کے ساتھ:’ تقاتلوہم،یقاتلوکم،قاتلوکم‘یہ قراء ت جمہور قراء کی ہے۔
(٢) دوسری قراء ت مذکورہ تینوں افعال میں حذف الف کے ساتھ ہے۔ یہ قراء ۃ امام حمزہ، کسائی اور خلف البزار﷭ کی ہے۔
’قاتل‘ثبوت الف کے ساتھ ’فاعل‘ کے وزن پر باب مفاعلۃ سے ہے، جبکہ’قتل‘ یہ ماضی ’فعل ‘ ’نصر‘ کے وزن پر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی قراء ت لڑائی کا سبب بننے سے روکتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو لڑائی کی ابتداء سے منع فرمایا ہے، لیکن اگردشمن لڑائی اورجنگ وجدل کی ابتداء کرے تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ لڑنا واجب ہوگا اگرچہ مسجد حرام کے قریب ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری قراء ت جو کہ حذف الف کے ساتھ ہے وہ مشرکین کے حرم میں پناہ لینے پر انہیں قتل سے منع کرنے پر دلالت کرتی ہے،الا یہ کہ مشرکین بعض مسلمانوں کو حرم میں قتل کر دیں۔
فقہاء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام میں قتال سے منع فرمایا ہے اور کسی بھی مسلم کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ کسی کافر سے مسجد حرام میں لڑائی کرے إلا یہ کہ کافر لڑائی کی ابتدا کرے ۔ ایسی حالت میں مسلمان اپنا دفاع کرنے والا ہوگا۔
پہلی قراء ت تو بالکل واضح ہے ۔ البتہ جو اختلاف پیدا ہوا ہے وہ بیت اللہ میں حدود وقصاص کو نافذ کرنے کے مسئلہ میں ہے۔ امام مالک﷫وشافعی﷫نے عمومی طورپر ہر زمان ومکان میں حدود وقصاص کو نافذ کرنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔جبکہ امام ابوحنیفہ﷫اور امام احمد﷫کا خیال ہے کہ بیت اللہ میں حدود کو نافذ نہیں کیاجاسکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام مالک﷫ وشافعی﷫کی دلیل :
حضرت انس﷜سے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺمکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پرخود تھا۔ جب آپﷺنے اسے اتارا تو ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا: ابن خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپﷺنے فرمایا : ’’اسے قتل کردو‘‘ (صحیح البخاري:۱۸۴۵)
فقہاء کرام مذکورہ فرمان سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺکا کعبہ کے پردوں سے لپٹے ہوئے شخص کے قتل کا حکم دینا اس پر و اضح دلالت ہے کہ جو بھی مشرک قتل کا مستحق ہوگا اسے قتل کیا جائے گا،چاہے وہ کسی بھی جگہ پر موجود ہو۔علاوہ ازیں حدود حرم اِقامت حدکو نہیں روکتی اور نہ ہی حد کو وقت مقررہ سے مؤخر ہی کیا جاسکتا ہے۔
امام ابو حنیفہ﷫ اور امام احمد﷫نے قرآن وسنت سے مختلف دلائل دیتے ہوئے بیت اللہ الحرام میں قتال اور نفاذ حدود کو ناجائز قرار دیا ہے۔ان کے دلائل ملاحظہ ہوں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن سے دلیل:
’’وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًا‘‘(آل عمران:۹۷)
اس آیت سے استدلال یہ ہے کہ اس میں بیت اللہ الحرام میں داخل ہونے والے کو جان ومال کا تحفظ عطا کیا گیا
ہے لہٰذا بیت اللہ میں کسی پر کسی قسم کی زیادتی جائز نہیں ہے۔
 
Top