• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری نے اپنے مضمون ’سورۃ الفاتحہ کی مختلف نص‘ جو کہ ’دی مسلم ورلڈ‘ کی جلد۷۹ میں ۱۹۳۹ء کو شائع ہوا، میں سورۃ الفاتحہ کی مزید قراء توں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس مضمون میں جیفری سورۃ الفاتحہ کی اس خصوصیت کے پیش نظر کہ وہ قرآنی تعلیمات کی جامع اور اسلام کے نظریہ توحیدکو نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کرتی ہے، اسے خداوند (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کی دعا (Lord's Prayer)کے مماثل قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’جب ہم سورۃ الفاتحہ کے مشتملات کا جائزہ لیتے ہیں تویہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سورۃ الفاتحہ قرآن حکیم کے دیگر حصوں سے لیے گئے مضامین و تعلیمات کی جامعیت کا منظر پیش کرتی ہے یہ عین ممکن ہے کہ اسے دعا کے طور پر نبی اکرمﷺ نے خود بنایا ہو مگر اس کااستعمال اور اس کی موجود قرآن میں حیثیت قرآن کے مدون کرنے والوں کی مرہون منت ہے جنہوں نے تدوین قرآن کے وقت اسے قرآن کے آغاز میں لکھ دیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس مضمون میں جیفری نے سورۃ الفاتحہ کے دوسرے متن کو بعض شیعہ روایات کے حوالے سے بیان کیا ہے جوکہ تذکرۃ الائمہ مؤلفہ باقر مجلس(مطبوعہ تہران ۱۳۳۱ھ ،ص ۱۸) میں موجود ہے۔ واضح رہے کہ علامہ مجلسی کا بیان کردہ سورۃ الفاتحہ کایہ مختلف متن حضرت علی بن ابی طالب5 سے منسوب نہیں کیاگیا ہے۔متن درج ذیل ہے:
’’نحمد اﷲ رب العالمین،الرحمن الرحیم،ملاک یوم الدین،ھیاک نعبد و ویاک نستعین، ترشد سبیل المستقیم، سبیل الذین نعمت علیھم سوی المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘
پھر جیفری سورۃ الفاتحہ کاایک اور غیرمصدقہ متن جوکہ مصحف عثمانی سے مختلف اور متعدد قراء توں پرمشتمل ہے، بڑے ہی عامیانہ اور صحافیانہ رنگ میں متعارف کراتا ہے۔ اس نئے متن کی روایت متصل نہیں ہے۔ مزید برآں مسودہ جس میں سورۃ الفاتحہ کا یہ متن مذکور ہے، کی تاریخ اشاعت اور اس کے ناسخ کا تعین بھی ممکن نہیں ہے۔ جیفری خود لکھتا ہے:
’’پچھلے موسم گرما میں قاہرہ میں مجھے اس طرح کااختلافی متن ملا۔یہ فقہ کے ایک چھوٹے سے رسالے میں درج ہے۔بدقسمتی سے اس رسالہ کے شروع کے صفحات غائب ہیں۔ جس کی بنا پر ہم اس رسالہ کے مصنف کا نام نہیں جان سکتے۔یہ شافعی فقہ کی قطعی غیر اہم تلخیص پر مبنی تحریر ہے۔ تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک سو پچاس سال یا اس سے کچھ قبل کاشکستہ خط میں لکھاہوا مسودہ ہے اور اس میں قراۃ شاذۃ لا لفاتحہ کے زیر عنوان سورۃ الفاتحہ کی دوسری قراء ت اندرونی صفحہ پردرج کی گئی ہے۔ مسودہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت ہے۔ اگرچہ مسودے کا مالک مجھے اس عبارت کی نقل مہیاکرنے پر رضا مند تھا اور اس امر کی اجازت دینے پر بھی معترض نہ تھا کہ اگر یہ میرے کام کے لیے مناسب ہو تو میں اس کو استعمال کرلوں۔ مگر وہ اپنا نام ظاہر کرنے پرتیارنہ تھا کہ مبادا اس کے دقیانوسی ہمسایوں کو اس بات کاعلم ہوجائے کہ اس نے اپنی مقدس کتاب کی قبل از جمع و تدوین نسخے کی ابتدائی سورۃ کی تحریر ایک غیر مسلم کوفراہم کردی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس قراء ت سے شاذہ کامتن اس متن سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے جو کہ پہلے نقل کیاجاچکا ہے، ملاحظہ فرمائیے:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’الحمد ﷲ سید العالمین،الرزاق الرحیم، ملاک یوم الدین، إنا لک نعبد وإنا لک نستعین، أرشدنا سبیل المستقیم،سبیل الذین مننت علیھم سوی المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ متن کے نیچے اس کی اسناد اس طرح درج ہے۔
’’روایۃ أبی الفتح الجبائی عن شیخہ السوسی عن النھروانی عن أبی العاداتی المیدانی عن المرزبانی عن الخلیل بن أحمد‘‘
اس روایت کو بیان کرنے کے بعد آخر میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’اس بات کاقوی امکان ہے کہ دور اوّلین میں تلاوت کی جانے والی سورۃ الفاتحہ کی دیگر پرانی قراء ات کے ساتھ ساتھ خلیل کو اس قراء ت تک بھی رسائی حاصل ہو۔ اس قراء ت کی سند کے بارے میں اتناکہہ سکتا ہوں کہ الخلیل سے لے کر الجبائی تک تو اس کی سند ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی سند کاکچھ پتہ نہیں چلتا البتہ اس بات کاقوی امکان ہے کہ یہ خلیل سے نقل ہونے والے متن سے بہت متاخر ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن حکیم کی ابتدائی سورۃ کی مذکورہ بالا مختلف قراء توں کے تجزیہ سے قبل ضروری ہے کہ اس سوال کاجائزہ لیا جائے کہ قرآن حکیم کی متعدد قراء توں کے وجود میں آنے کے اَسباب کیاتھے؟ یہ وہ موضوع ہے جس کے متعلق ’کتاب المصاحف‘، ’مقدمتان ‘اور ’اختلاف قراء ت قرآنیہ‘ کے موضوع پر دیگر کتب میں سیرحاصل بحث کی گئی ہے یہی کتب موضوع زیر بحث پر جیفری کی معلومات کے لیے بھی بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرت محمدﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ قرآن مجھ پر سات حرفوں میں نازل کیاگیا۔ سات حروف سے مراد سات لہجے یاتلاوت قرآن کے سات مختلف طرق ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے پہلے مجھے قرآن مجید ایک حرف پرپڑھوایا۔ پھر میں نے باربار ان سے اصرار کیا اور یہ مطالبہ کرتا گیا کہ قرآن مجید دوسرے حروف پر بھی پڑھنے کی اجازت دی جائے وہ یہ اجازت دیتے گئے یہاں تک کہ سات حروف تک پہنچ گئے۔ٌ تلاوت قرآن حکیم میں سہولت پیداکرنے کے لیے نبی اکرمﷺ کامختلف بوڑھے، اُمی اور بدوی عرب قبائل کو ان کے اپنے لہجے میں تلاوت کی اجازت دینا ہی دراصل قرآن حکیم کی قراء ت میں گونا گوں اختلاف کا باعث بن گیا۔ اختلاف قراء ات قرآنیہ کے موضوع پر کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کو اپنے اپنے قبیلے کے لہجے میں تلاوت قرآن کی جو اجازت پیغمبر اسلامﷺ نے دی تھی اس سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ صحابہ کرامؓ نے مختلف طرق پرتلاوت قرآن کریم اس وقت تک جاری رکھی جب تک حضرت عثمانؓ نے قرآن حکیم کی ایک قراء ت کو سرکاری طور پرنافذ نہیں کردیا اور دیگر تمام قراء توں اور لہجوں پرپابندی نہیں لگا دی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف وہی قراء ت باقی رکھی جو خود نبی اکرمﷺ کی قراء ت تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روایت کیاگیا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سورۃ ألم نشرح کی آیات۱،۲ کو اس طرح تلاوت کیا کرتے تھے۔ ’’ألم نشرح لک صدرک وحللنا عنک وزرک‘‘جب آپ کے اس طرح پڑھنے پر اعتراض کیاگیا تو آپ نے فرمایا حللنا،حططنا اور وضعنا ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے پڑھنے کے مختلف لہجے ہیں۔ ٍ
ابن سیرین کی سند سے روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے متعدد قراء توں کے متعلق فرمایا کہ ھلم،تعال اور اقبل ایک ہی مفہوم کے حامل الفاظ ہیں۔ َ
روایت ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک فارسی نژاد مسلمان کو سورہ نمبر ۴۴ کی آیت نمبر ۴۴’’إنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ طَعُامُ الاَثِیْمِ‘‘ پڑھارہے تھے مگر وہ شخص بار بار طعام الیتیم پڑھ رہا تھا۔ جب نبی اکرمﷺ کومعلوم ہوا کہ وہ شخص ’طعام الاثیم‘ کی بجائے طعام الیتیم پڑھا رہا ہے تو حضورﷺ نے اسے طعام الاثیم کی بجائے طعام الظالم پڑھنے کو کہا۔ جسے اس نے بڑی آسانی کے ساتھ پڑھ لیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عربی زبان کی تاریخ میں جزیرہ نما عرب کے مختلف قبائل کے متعدد لہجوں کے میل ملاپ اور باہمی اختلاط سے عربی زبان پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ، ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ مسئلہ کی اس پیچیدگی کے باعث، نیز اس لیے کہ جیفری مغرب کا باشندہ تھا اورعربی زبان میں مہارت نہ ہونے کی بنا پر اس کی باریکیوں سے آگاہی کی سہولت سے بہرہ ور نہ تھا وہ مصحف عثمانی کے نفاذ سے قبل مختلف نسخہ جات میں لہجوں کے اختلاف کی وسعت اور ان کے استعمالات کا ادراک نہ کرپایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نے دیکھا کہ قرآن حکیم کی متعدد قراء تیں ہیں اور وہ سب کی سب کسی نہ کسی صحابی رسولﷺ سے منسوب ہیں تو اس نے مصحف عثمانی کے مقابلے میں دیگر مسودات قرآنی کو سامنے رکھنے کافیصلہ کیا۔
اختلا ف قراء ات قرآنیہ میں عربی زبان کے تلفظ اور اس کے مختلف لہجوں کے کردار اور وسعت کو سمجھنے کے لیے ہر لہجے کی تفصیلات میں گئے بغیر صرف اس مسلمہ حقیقت کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم مشترکہ عربی زبان اللغۃ العربیۃ المشترکۃ میں نازل ہوا۔ یہ مشترکہ عربی زبان وہ زبان ہے جو کہ پورے جزیرہ نما عرب میں سمجھی جاتی تھی اور شاعر اور خطیب اس کو مؤثر ذریعہ ابلاغ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ‘ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مشترکہ عربی زبان جو کہ قرآنی تعلیمات کے اظہار کاذریعہ بنی، پر قریشی لہجے کی گہری چھاپ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یہی سمجھ لیاگیا کہ قرآن حکیم قریشی لہجے میں نازل ہوا ہے۔’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (متوفی ۶۸ھ) سے منسوب قرآن حکیم میں وارد مختلف لہجوں پر مشتمل ایک مختصر سی کتاب ابن حنون کی روایت سے ہم تک پہنچی ہے۔“اس کتاب میں عرب قبائل کے مختلف لہجوں پر مشتمل الفاظ کی فہرست دی گئی ہے۔اگرچہ بہت ممکن ہے کہ یہ فہرست بہت جامع نہ ہو مگر پھر بھی اس میں قرآن حکیم میں استعمال ہونے والے کم از کم ۲۶۵الفاظ کے ماخذ کو متعین کیاگیا ہے جس کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان ۲۶۵ الفاظ میں سے ۱۰۴ الفاظ قریش کے لہجے سے اَخذ کئے گئے ہیں۔ ۴۵ الفاظ ہذیل سے، ۳۶ الفاظ کنانہ سے، ۲۳ بنو حمیر سے، ۲۱ جرہم سے، ۱۳ بنوتمیم سے اور قیس سے ۶ امان، ازد شنوہ اور خثعم سے ۵ طے، مذحج، مدین اور غسان سے ۴، بنو حنیفہ، حضرت موت اور اشعر سے ۳ آغاز سے ۰۲ فضاعہ، سبا، یمامہ، مزینہ اور ثقیف سے ۱ ،ازد سے ۱ خزرج سے اور ۰۱ عمالقہ سدوس اور سعد العشیرہ سے۔”
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ جب قرآن حکیم نے عرب کے مختلف لہجوںکا آمیزہ پیش کیا تب وہ ایسی کتاب ہدایت کی صورت میں سامنے آیا جو سب سے زیادہ فصیح، ناقابل تغیر، ایک ضابطہ حیات اور ہر ایک کی کتاب تھی۔ جو بھی اسلام سے وابستہ ہوتاخواہ وہ امی ہوتا یا بدوی یا غیر عرب سب کواس کی تلاوت کا حکم تھا۔ حدیث سبع اَحرف اور دیگر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم دیتے وقت پیغمبرﷺ اس بات کا خاص خیال رکھتے • کہ جن لوگوں کو قرآن حکیم کا پیغام پہنچایا جارہا ہووہ ان کے لیے قابل فہم بھی ہو۔ اس صورت حال میں یہ بات نہایت فطری محسوس ہوتی ہے کہ جن سات حروف(لہجوں) میں قرآن نازل ہوا، مختلف افراد کو ان میں سے ہرایک کے مناسب حال قراء ت کرنے یامترادف الفاظ (جو سبعہ احرف کے ذیل میں آتے ہوں اور جن کی قراء ت کی اجازت دی گئی تھی) استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ بطور خاص اسلامی تاریخ کے ابتدائی سالوں میں اس اجازت کی ضرورت اظہر من الشمس ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جہاں تک قبل از اسلام اور ابتدائی عہد اسلام تک عربی زبان کے مختلف لہجوں کی تفہیم اور اس کی بنا پر فہم زبان میں پیدا ہونے والی الجھنوں کا تعلق ہے تو وہ لغت کی کتابوں میں باربار بیان کی جانے والی بنی کنانہ یا بنی کلاب کے ایک آدمی کی روایت سے اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہیں۔ وہ روایت یہ ہے کہ ایک آدمی یمن کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ ذوجدن کے ہاں گیا۔ بادشاہ اس وقت محل کے بڑھے ہوئے چھجے پربیٹھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے اپنے ملنے والے کو یمنی لہجے میں’ثب‘ یعنی تشریف رکھئے کہا ،ملنے والے نے اس لفظ کواپنے لہجے کے مطابق وثب یثب سے فعل امر ’ثب‘سمجھا جس کا معنی چھلانگ لگا ؤ ہے۔ چنانچہ اپنے فہم کے مطابق بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں اس نے آگے بڑھتے ہوئے بلند چھجے سے چھلانگ لگادی اور اللہ کو پیارا ہوگیا۔–
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں تھے کہ آپ کے دست مبارک سے چھری گر گئی۔ آپؐ نے فرمایا ’ناولنی السکین‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سمجھ نہ سکے۔ حضورﷺ نے اپنی بات دھرائی۔ آخر کار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’آلمدیہ ترید؟‘ کیا آپؐ ’مدیہ‘ طلب فرما رہے ہیں؟یاد رہے کہ’ السکین‘ حجازی لفظ ہے جبکہ مدیہ ازدی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ازدی تھے۔ جو ایک حجازی لفظ کو نہ سمجھ سکے۔ مندرجہ بالا مثالوں سے واضح ہوا کہ مصحف عثمانی کے نفاذ سے قبل ہر عرب قرآن حکیم میں استعمال ہونے والے اپنے لہجے کے علاوہ دیگر الفاظ اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کی پوری استعداد نہیں رکھتا تھا۔ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ ہر ایک کواپنے تلفظ اور لہجے کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت بھی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلافی نسخہ جات میں املاء کے اختلافات سے مصحف عثمانی میں درج نہ کئے جانے، مثلاً سورۃ الفاتحہ میں صراط ’س‘ اور’ ز‘ کی بجائے ’ص‘ کے ساتھ لکھنا یا الفاظ کا اختلاف کہ ایک کی بجائے اس کے قریبی مفہوم رکھنے والا دوسرا لفظ جیسا کہ سورۃ نمبر ۹۴ میں حططنا اور حللنا کی جگہ وضعنا کا استعمال، کے وجوہ و اسباب ابن جنی (متوفی ۳۹۲ھ) کے درج ذیل بیان کی روشنی میں اچھی طرح سمجھے جاسکتے ہیں:
’’وکلما کثرت الالفاظ علی المعنی الواحد کان ذلک أولی بأن تکون لغات لجماعات‘‘
’’جب ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے متعدد الفاظ موجود ہوں تو الفاظ کے تعدد کا اصل سبب یہی ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک لفظ کسی نہ کسی لسانی گروہ یا لسانیاتی ماحول کی نمائندگی کررہاہو۔‘‘
وہ اصمعی کی سند سے لفظ’صقر‘ کو پڑھنے کے بارے میں دو اشخاص کے درمیان اختلاف کی دلچسپ کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان لفظ ’صقر‘کے پڑھنے پر جھگڑا ہوگیا۔ ایک اسے ’ص‘ اور دوسرا ’س‘ سے پڑھنے پر مصر تھا۔ان دونوں نے کسی تیسرے سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔ تیسرے شخص نے ان دونوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسے’ز‘ سے یعنی ’زقر‘ پڑھا۔ دراصل وہ تینوں اپنے اپنے لہجوں کی نمائندگی کررہے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری کا یہ دعویٰ کہ’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ‘ کے مسودہ ہائے قرآنی میں سے مختلف قراء توں کا جو بھاری ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل وہ حقیقی متن کا اختلاف ہے نہ کہ مختلف لہجوں اور تلفظ کا معمولی اختلاف ظاہر کرتاہے کہ اختلافی نسخہ جات میں استعمال ہونے والے الفاظ کی بجائے مصحف عثمانی میں اس مفہوم کے دوسرے مترادف الفاظ کے استعمال کو دیکھ کر وہ اس غلط فہمی میںمبتلا ہوا ہے۔
مزید براں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیغمبرﷺ کی طرف سے دی گئی اس اجازت کی حقیقت کو بھی نہیں جان سکا جو آپ نے اپنے ان پیروکاروں کو دی تھی۔ جن کی بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، بوڑھے اور بدو تھے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام تو قبول کرلیاتھا مگر وہ عربی زبان سے قطعی نابلد تھے۔ اس مضمون میں حضرت ابی بن کعبؓ کے ایک فارسی مسلمان کو قرآن حکیم پڑھانے کاواقعہ گذر چکا ہے جو’طعام الاثیم‘کا تلفظ صحیح طور پر ادا نہ کرسکتا تھا تو پیغمبرﷺ نے اسے اس مفہوم کی سبعہ احرف میں سے دوسرے لفظ کو پڑھنے کی اجازت دے دی جس کو اس نے بخوبی ادا کرلیا۔
 
Top