• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

’’نبی‘‘ ﷲ کی طرف سے قوم کا حکمران مقرر ہوتا تھا خواہ مغلوب ہوتا یا غالب اسی بنا پر وہ قوم کو اپنی اطاعت کا حکم دیتا تھا​
ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ وَجَعَلْنٰھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَا اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰاتِ‘‘۔
’’ اور بنایا ہم نے ان (انبیاء علیہ السلام) کو امام جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے اور ہم نے وحی کی ان کی طرف خیر کے کام کرنے کی‘‘۔
(الانبیاء: 73)

’’ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ‘‘۔
(النساء: 64)
’’ اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لئے کہ ﷲ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاء‘‘۔
’’ تھے بنی اسرائیل‘ ان کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے‘‘۔

آیات وحدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام ﷲ کی طرف سے لوگوں کے امام بنا کر بھیجے جاتے تھے‘ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ ہر نبی کے حوالے سے لوگوں کیلئے ﷲ کی طرف سے ہی حکم رہا ہے کہ ﷲ کے اذن سے اس کی اطاعت کریں۔ یہ چیزیں واضح کرتی ہیں کہ نبی علیہ السلام ﷲ کی طرف سے اصولاً لوگوں کا حکمران بنا کر بھیجا جاتا تھا خواہ وہ مغلوب ہوتا یا غالب۔

انبیاء کی طرف سے اپنی دونوں ’’مغلوبیت یا غلبے کی‘‘ حالتوں میں لوگوں کو اپنی اطاعت کا حکم دینے کے حوالے سے قرآن کی آیات ہیں کہ:۔

’’ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ o فَاتَّقُوْا اللہَ وَاَطِیْعُوْنَ o وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o فَاتَّقُوا للہَ وَاَطِیْعُوْنَo قَالُوْا اَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْارْذَلُوْنَ‘‘۔
(الشعراء:107‘ 111)
’’ کہا (نوح علیہ السلام نے) یقینا میں ہوں تمہارے لئے رسولِ امین پس ﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور نہیں مانگتا ہوں میں تم سے اس کام پر کوئی اجر ۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے سو ﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ وہ کہنے لگے کیا ہم ایمان لے آئیں تم پر جبکہ پیروی کر رہے ہیں تمہاری رذیل ترین لوگ‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
’’ فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنَo وَلَا تُطِیْعُوْا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَo الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَo قَالُوْا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَّ الْمُسَحَّرِیْنَ‘‘۔
’’ کہا (صالح علیہ السلام نے) ڈرو ﷲ سے اور میری اطاعت کرو اور نہ حکم مانو ان حد سے بڑھنے والوں کا جو فساد مچاتے ہیں زمین میں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے وہ کہنے لگے اصل معاملہ یہ ہے کہ تم ایک سحر زدہ شخص ہو‘‘۔
(الشعرا:150‘153)۔

’’ وَجِئْتُکُمْ بِاٰیٰۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ قف فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنَ‘‘۔
(آل عمران: 50)
’’ (عیسیٰ علیہ السلام نے کہا) اور آیا ہوں میں تمہارے پاس نشانی لے کر تمہارے رب کی طرف سے لہٰذا ﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔

’’ قَالَتْ یَآیُّھَا الْمَلَؤُا اِنِّیْ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیْمٌo اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنُ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘۔
’’ ملکہ بولی اے اہل دربار صورتِ حال یہ ہے کہ بھیجا گیا ہے مجھے ایک نہایت اہم خط۔ وہ خط سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہے اور اس طرح سے شروع ہوتا ہے ’’ﷲ کے نام سے جو رحمان ہے اور رحیم ہے‘‘ کہ نہ سرکشی کرو تم میرے مقابلے میں اور حاضر ہو جائو میرے پاس اطاعت گزار بن کر‘‘۔
(النمل:29‘31)

’’قُلْ یَآیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا نِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ‘‘۔
(الاعراف:158)
’’ (اے محمد ﷺ ) کہو کہ اے انسانوں میں تم سب کی طرف اس ﷲ کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے ‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پس ایمان لائو ﷲ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو الہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے اور پیروی اختیار کرو اس کی امید ہے کہ تم راہِ راست پا لو گے‘‘۔

درج بالا آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی حالتِ مغلوبیت میں ہو یا غالب‘ قوم کو ﷲ کے علاوہ اپنی اطاعت کا حکم دیتا تھا اور ایسا صرف وہی کر سکتا تھا جو ﷲ کی طرف سے قوم کا اصولی حکمران بنا کر بھیجا گیا ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیاء کے‘ قوم کے حکمران ہونے کی اصل بناء ان کے پیچھے ﷲ کا حکم اور اس کی مقرر کردہ نشانیاں ہوتی تھیں نہ کہ لوگوں کی طلب کردہ نشانیاں مثلاً کسی فرشتے کا ساتھ‘ مال و دولت‘ باغات‘ غلبہ و سلطنت و اقتدار کا حامل ہونا وغیرہ۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

کسی غیر نبی شخص کے​
’’خلیفہ قرار پانے کی بناء‘‘​
بھی ﷲ کی مقرر کردہ شرائط ہوتی ہیں نہ کہ لوگوں کی پیش کردہ شرائط​
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ مَابَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللہِ مَاکَانَ مِنْ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللہِ فَھُوَ بَاطِلٌ وَاِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ قَضَائُ اللہِ اَحَقُّ وَشَرْطُ اللہِ اَوْثَقُ‘‘۔
(بخاری ‘ کتاب البیوع‘ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا )
’’ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا ﷲ کی کتاب میں پتہ نہیں۔ جو شرط ﷲ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں بھی ہوں۔ ﷲ ہی کا حکم حق ہے اور ﷲ ہی کی شرط پکی ہے‘‘۔

نبی ﷺ کے اس ارشاد کی بناء پر ہر معاملے میں صرف وہی شرط اختیار کی جا سکتی ہے جو ﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے پیش کی گئی ہو‘ اس بنا پر کسی شخص کے خلیفہ قرار پانے کی بنا بھی ﷲ کی مقرر کردہ شرائط ہوں گی نہ کہ انسانوں کی پیش کردہ شرائط جیسا کہ طالوت کے حوالے سے بھی ہوا تھا۔ نبی ﷺ کے بعد کسی شخص کے خلیفہ قرار پانے کیلئے کتاب و سنت سے درج ذیل شرائط سامنے آتی ہیں۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
1۔ ’’اہل ایمان میں سے ہو‘‘۔

جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘‘۔
’’ اے ایمان والو اطاعت کرو ﷲ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبانِ امر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں‘‘۔
(النساء:59)

2۔ ’’مرد ہو‘‘۔

جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً‘‘۔
(بخاری‘ کتاب المغازی‘ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ )

’’ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جو عورت کو اپنا حاکم بنائے‘‘۔

3۔ ’’قریشی ہو‘‘:۔

جیسا کہ نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْشٍ مَا بَقِیَ مِنْھُمُ اثْنَانِ‘‘۔
’’ یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بیشک ان (قریش) میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں‘‘۔
(بخاری‘ کتاب الاحکام‘ عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ )

’’ لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْشٍ مَا بَقِیَ مِنَ النَّاسِ اثْنَانِ‘‘۔
’’ یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بیشک انسانوں میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں‘‘۔
(عبدﷲ‘ مسلم‘ کتاب الامارۃ)۔

’’ اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ لَا یُعَادِیْھِمْ اَحَدَ اِلَّا کَیَّہُ اللہُ عَلَی وَجْھِہٖ مَّا اَقَامُوْا الدِّیْنَ‘‘۔
(امیر معاویہ‘ بخاری‘ کتاب الاحکام)
’’ یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اور جو کوئی ان سے دشمنی کرے گا ﷲ اس کو اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا‘‘۔

حدیثِ بالا سے عام طور پر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھیں گے تو خلافت ان سے چھن کر غیر قریشیوں کے سپرد ہو جائے گی لیکن جب نبی ﷺ کے یہ ارشادات واضح ہیں کہ ’’یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے‘ ‘ کا صاف مطلب یہ سامنے آتا ہے کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو خلافت سرے ہی سے ختم ہو جائے گی نہ کہ غیر قریش کو منتقل ہو جائے گی‘ درج بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیر قریشی کی خلافت غیر شرعی ہو گی۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
حبشی غلام کی خلافت کا مسئلہ:

نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبْشِیٌ کَانَ رَأَسْہٗ زَبِیْبَۃٌ‘‘۔
’’ حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو بیشک تم پر ایک حبشی غلام مقرر کیا جائے جس کا سر منقے کی طرح ہو‘‘۔
(بخاری‘ کتاب الاحکام‘ انس بن مالک رضی اللہ عنہ )

’’ اِنْ اُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌ حَسِبْتُھَا قَالَتْ اَسْوَدُ یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللہِ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْا‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ جدت یحیی بن حصین رضی اللہ عنہ )
’’ اگر تمہارے اوپر ہاتھ پائوں کٹا کالا غلام بھی امیر بنایا جائے اور وہ تمہیں کتاب ﷲ کے مطابق چلائے تو اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو‘‘۔

بعض لوگ نبی ﷺ کے درج بالا ارشادات کی بنا پر غیر قریشی کے علاوہ کسی غلام کو بھی خلیفہ بنانا جائز سمجھتے ہیں۔ جبکہ آپ ﷺ کے ارشادات کو غور سے پڑھنے سے بات بالل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے ’’استعمل‘‘ (استعمال کیا جائے) اور امر (امیر مقرر کئے جانے والے یا مقرر کئے جانے والے امیر کے پس منظر میں اس سے بھی بڑی کوئی ایسی اتھارٹی موجود ہے جو اس کو استعمال کر رہی ہے یا امیر مقرر کر رہی ہے اور یہ بات طے ہے کہ کتاب و سنت میں امت کے اندر ﷲ کے بعد سب سے بڑی اتھارٹی نبی کی ہوتی ہے یا پھر خلیفہ کی جو امیر مقرر کرتی ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے واضح ہوتا ہے۔

’’ بَعَثَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ سَرِیَّۃً وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلاً مِّنَ الْاَنْصَارِ وَاَمَرَھُمْ اَنْ یَّسْمَعُوْا لَہٗ وَیُطِیْعُوْہُ ‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ علی رضی اللہ عنہ )
’’ رسول ﷲ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقرر کیا اور لوگوں کا حکم سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا‘‘۔

درج بالا احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مقرر کی جانے والا امیر خلیفہ نہیں بلکہ خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جانے والا کوئی ذیلی حاکم (سپہ سالار یا کسی صوبے یا محکمے کا امیر) ہے۔ جو غیر قریشی بھی ہو سکتا ہے اور غلام بھی لیکن وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

4۔ عاقل و بالغ ہو:۔​
’’ وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قِیْمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًاo وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوْا النِّکَاحَ فَاِنْ اَنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ ‘‘۔
(النساء:5‘6)
’’ اور نہ دو کم عقلوں کو اپنے مال جس کو بنایا ﷲ نے تمہارے لئے ذریعہ گزران اور کھلائو انہیں اس میں سے اور پہنائو بھی اور سمجھائو انہیں اچھی بات اور جانتے پرکھتے رہو یتیموں کو یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں نکاح کی عمر کو‘ پھر اگر تم پائوں ان میں عقل کی پختگی تو دے دو ان کو مال ان کے‘‘۔

درج بالا آیات میں یتیموں کو ان کے مال صرف اس وقت حوالے کرنے کا حکم نکلتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہو جائیں۔ جب کسی کو اس کا مال اس وقت تک نہیں دیا سکتا جب تک کہ وہ عاقل و بالغ نہ ہو جائے تو مسلمانوں کی سیاست کی ذمہ داری کسی ایسے فرد کو کیونکر دی جا سکتی ہے جو عاقل و بالغ نہ ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خلیفہ صرف اسی کو بنایا جائے گا جو عاقل و بالغ ہو۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

5۔’’خلافت کی خواہش سے بے نیاز ہو‘۔​

جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’تَجِدُوْنَ النَّاسِ مَعَارِنَ فَخِیَارُھُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقُھُوْا وَتَجِدُوْنَ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ فِی ھٰذَا الْاَمْرِ اَکْرَھُھُمْ لَہٗ قَبْلُ اَنْ یَّقَعَ فِیْہِ‘‘۔
’’ تم لوگوں کو معدن (معدنی کان سے نکلی ہوئی چیز) کی مانند پائو گے جو جاہلیت میں اچھا ہوتا ہے وہی اسلام میں بھی اچھا ہوتا ہے جب وہ دین کی سمجھ پیدا کر لے اور تم اس امر (خلافت) کیلئے وہی آدمی زیادہ موزوں پائو گے جو اس کو بہت بری چیز خیال کرے تا آنکہ ایسا شخص خلیفہ بنا دیا جائے‘‘۔
(مسلم‘ کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنہ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)

’’لَا تَسْأَلِ الْاَمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتََھَا عَنْ مَسْئَلَۃٍ وُّکِلْتَ اَلِیْھَا وَاِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْئَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلَیْھَا ‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ)
’’ حکومت مت مانگو کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر ملی تو تم (بے یارومددگار) اسی کے حوالے کر دئیے جائو گے اور اگر بغیر مانگے ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی‘‘۔

’’عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ ﷺ اَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِیْ عَمِّیْ فَقَالَ اَحَدُ الرَّجُلَیْنِ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَمَّرَنَا عَلَی بَعْضِ مَاوَلَّاکَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ وَقَالَ الْاٰخَرُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ اِنَّا وَاللہُ لَانُوَلِّی عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَأَلَہٗ وَلَآ اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ‘‘۔
’’ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا اے ﷲ کے رسول ﷺ ہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو ﷲ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا ﷲ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

6۔ پہلی بیعت کا حامل ہو:​

’’ کَانَتْ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ بَنِیٌّ وَاِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ فَیَکْثُرُوْنَ قَالُوْ فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللہَ سَائِلُھُمْ عَنْ مَّا اسْتَرْعَاھُمْ‘‘۔
(بخاری‘ باب احادیث الانبیاء۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ تھے بنی اسرائیل ان کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نہی فوت ہو جاتا تو اس کے بعد نبی ہی آتا تھا‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے۔ لوگوں نے عرض کیا پھر آپ ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا! وفاداری کرو پہلی بیعت (کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ تم انہیں ان کا حق دو‘ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں ﷲ پوچھے گا‘‘۔

پہلی بیعت: کسی ’’حامل شرائط خلافت‘‘ کے خلیفہ قرار پانے کی بنا:
پہلی بیعت‘ عہدہِ خلافت خالی ہونے پر گواہوں کی موجودگی میں ’’پہلی پانچ شرائط خلافت کے حامل کسی شخص‘‘ کے ہاتھ پر ایک مومن کی طرف سے ہونے والی وہ بیعت ہے جو نیا خلیفہ بنانے کے حوالے سے امت میں سب سے پہلی بیعت ثابت ہو جائے اور اگر اس حوالے سے ایک سے زیادہ حاملینِ شرائط خلافت کے ہاتھ پر بیعت ہو جائے تو جس کے ہاتھ پر سب سے پہلے کسی ایک مومن نے بیعت کی ہو وہ ’’پہلی بیعت ہے‘‘ اور اس پہلی بیعت کا حامل اس بیعت کے منعقد ہونے کے وقت سے خلیفہ قرار پا جاتا ہے جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پہ عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے سے خلیفہ قرار پا گئے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ سقیفہ بنی سعدہ میں داخل ہونے سے پہلے خلیفہ نہ تھے اور آپ کی موجودگی کے باوجود افرادِ امت خلافت کے حوالے سے تین مختلف آراء رکھتے تھے لیکن جونہی آپ کے ہاتھ پر عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت کر لی اس پہلی بیعت کے حامل ہونے کے ساتھ ہی آپ خلیفہ قرار پا گئے اور بقیہ افرادِ اُمت کیلئے لازم ہو گیا کہ پہلی بیعت کے حامل اس شخص کی بیعت کر کے اپنا اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔

حاملِ شرائط خلافت پہلی بیعت کے ساتھ عہدہِ خلیفہ کا حامل ہو کر ’’خلیفہ‘‘ قرار پانے کی بنا پر درج ذیل چیزوں کا حامل ہو جاتا ہے۔

٭ سیاستِ اُمّہ کا ذمہ دار قرار پا جاتا ہے۔

٭ تمام مسلمانوں کا امیر‘ امام اور سلطان قرار پا جاتا ہے۔

٭ تمام مسلمانوں کی امارت‘ امامت و سلطنت کا وارث قرار پا جاتا ہے۔

٭ تمام مسلمانوں کے حقوقِ وفاداری کا حقدار ہوجاتا ہے۔

٭ تمام مسلمانوں پر لازم ہو جائے گا کہ اس کے حقوقِ وفاداری اسے دیتے ہوئے اپنی امارت ‘ امامت اور سلطنت اس کے سپرد کر دیں اور اپنی امارت‘ امامت اور سلطنت کے اصولاً خلیفہ (وارث) قرار پائے گئے شخص کو عملاً خلیفہ بنا دیں۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب ہشتم

شرعی امیر ’’نبی و خلیفہ‘‘ کے بنیادی حقوق

نبی کے بنیادی حقوق:

جب ایک شخص ﷲ کی مقرر کردہ نشانیوں کی بنا پر نبی ثابت ہو جاتا تھا تو لوگوں پر اس کے حقوق دینا لازم ہو جاتا تھا‘ کتاب و سنت سے نبی کے جو حقوق سامنے آتے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:۔

1۔ نبی پر ایمان لانا:

وضاحت گزشتہ ابواب میں ہو چکی ہے۔

2۔ نبی کی اطاعت و اتباع کرنا:

وضاحت گزشتہ ابواب میں ہو چکی ہے۔

3۔ نبی کی نصرت کرنا:

ﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے عہد لیا تھا کہ جب تمہارے پاس ایسا رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لائو گے اور اس کی نصرت کرو گے اور یوں انبیاء پر ایمان لانے والے ہر فرد پر یہ فرض ٹھہرا تھا کہ وہ اگر ایسے رسول کو پائے تو اس کی نصرت کرے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لِتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلْتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشَّھِدِیْنَ‘‘۔
’’ اور جب عہد لیا تھا ﷲ نے نبیوں سے کہ جو عطا کی ہے میںنے تم کو کتاب و حکمت (اس کا تقاضا ہے) کہ جب آئے تمہارے پاس رسول ﷺ تصدیق کرتا ہوا اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور ایمان لائو گے اس پر اور نصرت کرو گے اس کی۔ ارشاد ہوا کیا اقرار کرتے ہو تم اور کرتے ہو ان شرائط پر مجھ سے عہد؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا‘ ارشاد ہوا سو گواہ رہو تم اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں‘‘۔
(آل عمران:81)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
نبی ﷺ کے نصرت کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد ہے کہ:

’’اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَت عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہِ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبِعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔
(الاعراف:157)
’’ (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر امی ﷺ کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے‘ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کیلئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندش کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
۔
 
Top