- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,473
- پوائنٹ
- 964
(حيات و خدمات مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ ص 54، 55از شیخ الحدیث رفیق أثری حفظہ اللہ میں یہ واقعہ انہوں نے محدث جلالپوری کے اساتذہ کے ضمن میں ان کے شیخ بلکہ شیخ عرب وعجم محدث عبد الحق ہاشمی رحمہ اللہ کے زمانہ طالب علمی کے حوالے سےبیان کیا ہے ۔ )
رفیق اثری صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ایک شخص جہاز جیونڑاں تھے انہوں نے ایک مجلس میں یہ آیت پڑھی :
إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا
اور شیخ محترم رحمہ اللہ سے کہا ( جبکہ وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے ) اس کے مصداق وہ ہوسکتے ہیں جن میں مرد شامل ہوں اور وہ ہیں علی ، فاطمہ ، حسن ،حسین رضی اللہ عنہم ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ نے فرمایا دیکھیے جناب ان آیات مبارکہ میں بائیس ضمیریں ہیں جو جمع مؤنث مخاطبات کی ہیں اور ان آیات میں تین '' نداء '' ہیں ۔ جن میں دو '' نداء '' ازواج مطہرات سے متعلق ہیں ۔
اس سیاق و سباق سے واضح ہوتاہے کہ روئے سخن ازواج مطہرات کی طرف ہے اور ان سب آیات میں ایسے احکام دیے گئے ہیں جو حصول تطہیر کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہےکہ اس اعزاز کی اصل حقدار ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ البتہ اس جملہ میں ضمیر مذکر مخاطبین وارد ہے تو عرض ہے کہ یہ انداز تخاطب قرآن پاک میں دیگر مواقع پر بھی بیوی کے لئے آیا ہے سورہ ہود میں ہے :
أتعجبين من أمرالله رحمة الله وبركاته عليكم أهل البيت إنه حميد مجيد
'' کیا آپ اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہیں اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکات ہیں وہ یقینا تعریف والا اور بزرگی والا ہے ''
اس خطاب میں حضرت إبراہیم کی زوجہ محترمہ مراد ہیں اس میں '' علیکم '' ضمیر مذکر ہے اس کی دو وجوہ ہیں :
1۔ پہلے خطاب کا تعلق زوجہ سے ہے اس لئے ضمیر مؤنث ہے اور دوسرے میں ابراہیم علیہ السلام بھی شریک ہیں ، تغلیب مذکر کی وجہ سے ضمیر مذکر ہے ۔
2۔ جب کسی عورت سےخطاب ہو اور اس خطاب میں احترام مقصود ہو تو واحد مؤنث کے لئے بھی جمع مذکر کی ضمیر سے خطاب کیا جاتا ہے ، عرب شعراء کے کلام میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ایک حماسی شاعر جعفر الحارثی کہتا ہے :
عجبت لمسراها وأنى تخلصت إلي وباب السجن دوني مغلق
ألمّت فحيّت ثم قامت فودعت فلما تولت كادت النفس تزهق
فلا تحسبي أني تخشعت بعدكم لشيئ ولا أني من الموت أفرق
الخ .....
رفیق اثری صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ایک شخص جہاز جیونڑاں تھے انہوں نے ایک مجلس میں یہ آیت پڑھی :
إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا
اور شیخ محترم رحمہ اللہ سے کہا ( جبکہ وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے ) اس کے مصداق وہ ہوسکتے ہیں جن میں مرد شامل ہوں اور وہ ہیں علی ، فاطمہ ، حسن ،حسین رضی اللہ عنہم ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ نے فرمایا دیکھیے جناب ان آیات مبارکہ میں بائیس ضمیریں ہیں جو جمع مؤنث مخاطبات کی ہیں اور ان آیات میں تین '' نداء '' ہیں ۔ جن میں دو '' نداء '' ازواج مطہرات سے متعلق ہیں ۔
اس سیاق و سباق سے واضح ہوتاہے کہ روئے سخن ازواج مطہرات کی طرف ہے اور ان سب آیات میں ایسے احکام دیے گئے ہیں جو حصول تطہیر کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہےکہ اس اعزاز کی اصل حقدار ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ البتہ اس جملہ میں ضمیر مذکر مخاطبین وارد ہے تو عرض ہے کہ یہ انداز تخاطب قرآن پاک میں دیگر مواقع پر بھی بیوی کے لئے آیا ہے سورہ ہود میں ہے :
أتعجبين من أمرالله رحمة الله وبركاته عليكم أهل البيت إنه حميد مجيد
'' کیا آپ اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہیں اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکات ہیں وہ یقینا تعریف والا اور بزرگی والا ہے ''
اس خطاب میں حضرت إبراہیم کی زوجہ محترمہ مراد ہیں اس میں '' علیکم '' ضمیر مذکر ہے اس کی دو وجوہ ہیں :
1۔ پہلے خطاب کا تعلق زوجہ سے ہے اس لئے ضمیر مؤنث ہے اور دوسرے میں ابراہیم علیہ السلام بھی شریک ہیں ، تغلیب مذکر کی وجہ سے ضمیر مذکر ہے ۔
2۔ جب کسی عورت سےخطاب ہو اور اس خطاب میں احترام مقصود ہو تو واحد مؤنث کے لئے بھی جمع مذکر کی ضمیر سے خطاب کیا جاتا ہے ، عرب شعراء کے کلام میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ایک حماسی شاعر جعفر الحارثی کہتا ہے :
عجبت لمسراها وأنى تخلصت إلي وباب السجن دوني مغلق
ألمّت فحيّت ثم قامت فودعت فلما تولت كادت النفس تزهق
فلا تحسبي أني تخشعت بعدكم لشيئ ولا أني من الموت أفرق
الخ .....