• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث مولوی یا کوئی شیعہ ذاکر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
میاں ! میں نے کب کہا کہ میں امام غزالی کی ساری باتیں مانتا ہوں، یا ماننا ضروری ہیں!
مسئلہ تو یہ ہے کہ یزید رحمہ اللہ کو رحمہ کہنے سے نہ کوئی ناصبی قرار پاتا ہے اور نہ اہل سنت سے خارج قرار پاتا ہے!
بھائی
اس لئے تو میں نے لکھا تھا میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
اہل سنت میں کوئی یزید کو نیک نہیں کہتا یہ صرف ناصبی کا ‎شاخسانہ ہے اہل سنت یزید کو برا ہی سمجھتی ہے اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بولائی مغل سے صاف کہا آپ بھی پڑھ لیں

مغل بادشاہ بولائی خان کے سپہ سالار کے روبرو دیا، جب مغل لشکر بغداد پر چڑھائی کیلئے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق آگئے تھے، تب میرے اور اس کے مابین گفتگو کے کچھ دور چلے تھے۔ اس نے مجھ سے جو سوالات پوچھے ان میں یہ بھی تھا کہ: تم لوگ یزید کی بابت کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: نہ ہم اس کو دشنام دینے والے ہیں اور نہ اس سے محبت کرنے والے۔ کیونکہ وہ کوئی صالح انسان نہیں تھا جس سے ہم محبت کریں

http://forum.mohaddis.com/threads/نہ-یزید-پر-لعنت-اور-نہ-یزید-سے-محبت.4046/

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اہل سنت کی ترجمانی کرتے ہوئے بتا دیا کہ یزید کو اہل سنت نیک نہیں مانتے تھے اور نہ اس سے محبت کرتے تھے تو آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ اہل سنت کا یہ منھج نہیں رہی بات امام غزالی کی تو طریقت کے انداز شریعت سے ہٹ کر ہیں اس لئے طریقیت میں سے نہیں آئمہ ،فقہاء، محدثین میں سے کوئی ایک مثال پیش کریں ميں جانتا ہوں امام غزالی کے سواء کوئی نہیں اس وجہ سے امام غزالی کو پیش کر دیتے ہیں اس لئے امام غزالی کے کنواں سے باہر نکلیں اور میں نے جو نام ديئے ہیں ان میں سے کسی کو پیش کریں
آخری بات چورن کی مثال بالکل صحیح ہے ناصبیت آپ کی پسندیدہ ہی ہے
اللہ اہل سنت کا صحیح منھج عطا کرے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ادھر ادھر کی تو نہ بات کر
جو پوچھا ہے ہمیں وہ بتا

میاں جی! امام غزالی کو یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے پر اہل سنت سے خارج اور ناصبی قرار دیں! اگر آپ کی دلیل و اصول میں دم ہے تو!
اگر امام غزالی یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے پر نہ ناصبی قرار پاتے ہیں، اور نہ اہل سنت سے خارج قرار پاتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ آپ کی دلیل و اصول باطل ہے!
یعنی یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے سے کوئی بھی نہ ناصبی قرار پاتا ہے، اور نہ اہل سنت سے خارج ہوتا ہے!
کیونکہ محض یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے کا ناصبیت سے کوئی تعلق نہیں!
دوم کہ دوسرا مسئلہ جو آپ نے بیان کیا ہے! وہ بھی آپ کا باطل استدلال ہے !
اس بحث کو اگر چاہو تو بعد میں کریں گے!
سوم کہ آپ کو یہ تسلیم ہے کہ اہل سنت یزید رحمہ اللہ پر دشمنام طرازی نہیں کرتے!
اس پر عمل پیرا بھی ہو جائیں!
 
Last edited:

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
السلام علیکم وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ادھر ادھر کی تو نہ بات کر
جو پوچھا ہے ہمیں وہ بتا

میاں جی! امام غزالی کو یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے پر اہل سنت سے خارج اور ناصبی قرار دیں! اگر آپ کی دلیل و اصول میں دم ہے تو!
اگر امام غزالی یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے پر نہ ناصبی قرار پاتے ہیں، اور نہ اہل سنت سے خارج قرار پاتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ آپ کی دلیل و اصول باطل ہے!
یعنی یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے سے کوئی بھی نہ ناصبی قرار پاتا ہے، اور نہ اہل سنت سے خارج ہوتا ہے!
کیونکہ محض یزید رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ کہنے کا ناصبیت سے کوئی تعلق نہیں!
دوم کہ دوسرا مسئلہ جو آپ نے بیان کیا ہے! وہ بھی آپ کا باطل استدلال ہے !
اس بحث کو اگر چاہو تو بعد میں کریں گے!
سوم کہ آپ کو یہ تسلیم ہے کہ اہل سنت یزید رحمہ اللہ پر دشمنام طرازی نہیں کرتے!
اس پر عمل پیرا بھی ہو جائیں!

بھائی
میں ںے عرض کر دیا کہ امام غزالی صوفی تھے اور تصوف شریعت کے متضاد ہے اس لئے ان کے قول کو گنا جاتا ہےمگر اس کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی جس کے لئے میں نے امام ابن تیمیہ کا قول نقل کیا تھا کہ انہوں نے اہل سنت کے حوالے سے بتا دیا ہے کہ یزید کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ کیا ہے اور اہل سنت کے یہاں یزید بلاتفاق فاسق و فاجر ہے اور امام ابن تیمیہ نے بھی اسکو فاسق ہی کہا ہے ۔

yazeed fasiq.png


دوئم مغل سے جو ان کی گفتگو ہوئی اور اس کے امام ابن تیمیہ سے سوال کرنے کی وجہ یہی تھی کہ وہ اہل دمشق کو نواصب سمجھ رہا تھا اور ناصبی ہی یزید کو نیک سمجھتے ہیں جس کو امام ابن تیمیہ متشدد گروہ سے تعبیر کیا ہے
دوسری انتہا پر چلے جانے والوں کا گمان ہے کہ یزید ایک صالح شخص تھا۔ امامِ عادل تھا


اہل سنت میں سے اس کے نام کے ساتھ پلید تو لکھتے ہیں رحمہ اللہ کوئی نہیں لکھتا



اس لئے ناصبیت کے افکار کی ترجمانی نہ کریں اور صوفیت کے کنواں باہر نکل کر نام بتائیں

دوسرے مسئلہ پر بھی جب آپ کہو بات کر لیں گے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اہل سنت میں سے اس کے نام کے ساتھ پلید تو لکھتے ہیں رحمہ اللہ کوئی نہیں لکھتا
تو پھر امام غزالی کو اہل سنت سے خارج اور ناصبی قرار دیں نا!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

تو پھر امام غزالی کو اہل سنت سے خارج اور ناصبی قرار دیں نا!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ابن داؤد بھائی! امام غزالیؒ سے قطع نظر کریں تو کیا واقعی اور کوئی نہیں ہے جو یزید بن معاویہ کو رحمہ اللہ لکھتا ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس معاملے میں امام غزالیؒ کا قول کم از کم تفرد تو کہلائے گا ہی اگر انہیں ناصبی نہ بھی کہا جائے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی ! امام غزالی کا یزید کو رحمہ اللہ کہنا اس وقت امام غزالی کا تفرد کہلاتا جب اہل سنت میں یزید کو رحمہ اللہ کہنے کا جواز نہ ہوتا!
اہل سنت کا اس معاملہ میں تو اختلاف نہیں کہ یزید رحمہ اللہ مسلمان تھے، روافض یزید رحمہ اللہ کی تکفیر کرتے ہیں! بلکہ وہ تو سوائے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر بھی کرتے ہیں!
اہل سنت میں آج اور آج سے قبل چند ہی لوگوں نے یزید رحمہ اللہ کے اسلام پر تشکیک کا اظہار کیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ یزید کے معاملہ میں وہ انہیں نہ مسلمان کہتے ہیں اور نہ کافر، جیسا کہ احمد رضا خان بریلوی نے کہا ہے! یہ مؤقف بھی اہل سنت کے مؤقف سے خروج ہے اور باطل ہے!
اب جب اہل سنت کا مؤقف یہی ہے کہ یزید رحمہ اللہ مسلمان تھے، تو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر مسلمان کی نماز جنازہ شریعت نے فرض قرار دی ہے، گو کہ یہ فرض کفایہ ہے، لیکن ہے فرض ہے!
اور پھر آپ نماز جنازہ کی دعائیں دیکھیں!
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ سَمِعَهُ يَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ قَالَ و حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ هَذَا الْحَدِيثِ أَيْضًا
ابن وہب نے کہا:مجھے معاویہ بن صالح نے حبیب بن عبید سے خبر دی،انھوں نے اس حدیث کو جبیر بن نفیر سے سنا،وہ کہتے تھے:میں نے حضر ت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ کہتے تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں اسے یاد کرلیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:"اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے،اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ(قبر) کو وسیع فرما اور اس(کےگناہوں ) کو پانی،برف اور اولوں سے دھو دے،اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر،اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔"کہا:یہاں تک ہوا کہ میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ یہ میت میں ہوتا! (معاویہ نے) کہا:مجھے عبدالرحمان بن جبیر نے حدیث بیان کی،انھوں نے اپنے والد سے حدیث سنائی،انھوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حبیب بن عبیدکی) اسی حدیث کے مانند روایت کی۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا کرنا)

وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْحِمْصِيِّ ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي الطَّاهِرِ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ قَالَ عَوْفٌ فَتَمَنَّيْتُ أَنْ لَوْ كُنْتُ أَنَا الْمَيِّتَ لِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمَيِّتِ

عبدالرحمان بن جبیر بن نفیر نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:" "اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے،اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ(قبر) کو وسیع فرما اور اس(کےگناہوں ) کو پانی،برف اور اولوں سے دھو دے،اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر،اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔" حضرت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اس میت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی وجہ سے میں نے تمنا کی کہ کاش وہ میت میں ہوتا!
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا کرنا)


لہٰذا یزید رحمہ اللہ کے لئے بھی رحمہ اللہ کی دعا کرنے کا ان کی نماز جنازہ میں بھی ثابت ہوتا ہے، اور نماز جنازہ کے بعد بھی اس کا جواز برقرار رہتا ہے!
یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہو گی کہ نماز جنازہ کی فرضیت ادا کرنے والے یزید کو نماز جنازہ میں رحمہ اللہ کی دعا کرنے پر ناصبی قرار پائیں! یا نماز جنازہ کی فرضیت میں یزید کے لئے رحمہ اللہ کی دعا کرنے والوں کے لئے تو جائز ہو، اور بعد دوسروں کے لئے یہی دعا ناصبیت قرار پائے!

اب دو ہی صورتیں ہیں!
ایک کہ یزید رحمہ اللہ کی تکفیر کرکرے یزید رحمہ اللہ کے لئے نماز جنازہ کی فرضیت کا انکار کردیا جائے!
یا پھر یزید رحمہ اللہ کے لئے نماز جنازہ اور نماز جنازہ کے علاوہ رحمہ اللہ یا کسی اور دعاء کی ممانعت کی تخصیص ثابت کی جائے!
اور وحی میں تخصیص وحی سے ہی ثابت کی جاسکتی ہے!

لہٰذا امام غزالی کا یزید کو رحمہ اللہ کہنا ان کا تفرد نہیں، بلکہ قرآن و حدیث سے مسلمانوں کے لئے احکام سے ثابت ہے!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی ! امام غزالی کا یزید کو رحمہ اللہ کہنا اس وقت امام غزالی کا تفرد کہلاتا جب اہل سنت میں یزید کو رحمہ اللہ کہنے کا جواز نہ ہوتا!
اہل سنت کا اس معاملہ میں تو اختلاف نہیں کہ یزید رحمہ اللہ مسلمان تھے، روافض یزید رحمہ اللہ کی تکفیر کرتے ہیں! بلکہ وہ تو سوائے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر بھی کرتے ہیں!
اہل سنت میں آج اور آج سے قبل چند ہی لوگوں نے یزید رحمہ اللہ کے اسلام پر تشکیک کا اظہار کیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ یزید کے معاملہ میں وہ انہیں نہ مسلمان کہتے ہیں اور نہ کافر، جیسا کہ احمد رضا خان بریلوی نے کہا ہے! یہ مؤقف بھی اہل سنت کے مؤقف سے خروج ہے اور باطل ہے!
اب جب اہل سنت کا مؤقف یہی ہے کہ یزید رحمہ اللہ مسلمان تھے، تو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر مسلمان کی نماز جنازہ شریعت نے فرض قرار دی ہے، گو کہ یہ فرض کفایہ ہے، لیکن ہے فرض ہے!
اور پھر آپ نماز جنازہ کی دعائیں دیکھیں!
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ سَمِعَهُ يَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ قَالَ و حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ هَذَا الْحَدِيثِ أَيْضًا
ابن وہب نے کہا:مجھے معاویہ بن صالح نے حبیب بن عبید سے خبر دی،انھوں نے اس حدیث کو جبیر بن نفیر سے سنا،وہ کہتے تھے:میں نے حضر ت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ کہتے تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں اسے یاد کرلیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:"اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے،اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ(قبر) کو وسیع فرما اور اس(کےگناہوں ) کو پانی،برف اور اولوں سے دھو دے،اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر،اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔"کہا:یہاں تک ہوا کہ میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ یہ میت میں ہوتا! (معاویہ نے) کہا:مجھے عبدالرحمان بن جبیر نے حدیث بیان کی،انھوں نے اپنے والد سے حدیث سنائی،انھوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حبیب بن عبیدکی) اسی حدیث کے مانند روایت کی۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا کرنا)

وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْحِمْصِيِّ ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي الطَّاهِرِ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ قَالَ عَوْفٌ فَتَمَنَّيْتُ أَنْ لَوْ كُنْتُ أَنَا الْمَيِّتَ لِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمَيِّتِ

عبدالرحمان بن جبیر بن نفیر نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:" "اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے،اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ(قبر) کو وسیع فرما اور اس(کےگناہوں ) کو پانی،برف اور اولوں سے دھو دے،اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر،اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔" حضرت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اس میت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی وجہ سے میں نے تمنا کی کہ کاش وہ میت میں ہوتا!
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا کرنا)


لہٰذا یزید رحمہ اللہ کے لئے بھی رحمہ اللہ کی دعا کرنے کا ان کی نماز جنازہ میں بھی ثابت ہوتا ہے، اور نماز جنازہ کے بعد بھی اس کا جواز برقرار رہتا ہے!
یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہو گی کہ نماز جنازہ کی فرضیت ادا کرنے والے یزید کو نماز جنازہ میں رحمہ اللہ کی دعا کرنے پر ناصبی قرار پائیں! یا نماز جنازہ کی فرضیت میں یزید کے لئے رحمہ اللہ کی دعا کرنے والوں کے لئے تو جائز ہو، اور بعد دوسروں کے لئے یہی دعا ناصبیت قرار پائے!

اب دو ہی صورتیں ہیں!
ایک کہ یزید رحمہ اللہ کی تکفیر کرکرے یزید رحمہ اللہ کے لئے نماز جنازہ کی فرضیت کا انکار کردیا جائے!
یا پھر یزید رحمہ اللہ کے لئے نماز جنازہ اور نماز جنازہ کے علاوہ رحمہ اللہ یا کسی اور دعاء کی ممانعت کی تخصیص ثابت کی جائے!
اور وحی میں تخصیص وحی سے ہی ثابت کی جاسکتی ہے!

لہٰذا امام غزالی کا یزید کو رحمہ اللہ کہنا ان کا تفرد نہیں، بلکہ قرآن و حدیث سے مسلمانوں کے لئے احکام سے ثابت ہے!
جزاک اللہ خیرا
جواز تو ٹھیک ہے۔ کسی بھی مسلمان کے لیے رحمت کی دعا کی جا سکتی ہے۔
میں یہ معلوم کرنا چاہ رہا ہوں کہ جس طرح یہ معروف ہے کہ رحمہ اللہ اور قدیم علماء میں رضی اللہ عنہ وغیرہ کے الفاظ کسی نیک اور بزرگ شخصیت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں کیا اس طرح کسی عالم نے استعمال کیے ہیں؟ یا اس معنی میں یہ امام غزالیؒ کا تفرد ہے؟
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

تو پھر امام غزالی کو اہل سنت سے خارج اور ناصبی قرار دیں نا!
امام غزالی کی رٹ چھوڑ دیں صوفیت میں بہت سی باتیں ہیں جن سے اہل سنت صرف نظر کرتے ہیں کیونکہ صوفیت شریعت سے متضاد ہے اور امام غزالی یزید کو رحمہ اللہ لکھنا اس قبیل سے ہی ہے کیونکہ امام غزالی شیطان کو برا کہنے کے قائل نہ تھے اس لئے امام غزالی سے باہر آئیں اور نام دیں
دوئم: آپ نے جو تنصیل لکھ کر یزید کے لئے جواز نکلنے کی کوشش کی ہے یہ سب عام مسلمان کے لئے ہے اور یہ سب امام ابن تیمیہ لکھ چکے مگر انہوں نے ان دلائل سے یزید کے لئے کوئی جواز نہیں نکالا نہ بولائی سے بات چیت میں اس کو ان دلائل کی بنا پر رحمہ اللہ کہا بلکہ کیا کہا میں بتا چکا کیا ان دلائل پراگر کوئی
عبد الله بن أبي بن سلول کو رحمہ اللہ لکھے تو اس کی سختی سے تردید کی جائے گی کیونکہ اس پر خاص دلیل ہے کہ یہ رئیس المنافقین تھا اسی طرح یزید کا معاملہ بھی خاص ہے یہی وجہ ہے کہ اس کو مسلمان سمجھنے کے باوجود بھی اہل سنت میں سے کوئی نہ اس کو نیک کہتا ہے اور نہ رحمہ اللہ لکھتا ہے اور نہ اس کی مغفرت کی دعائیں کرتا ہے اس کی وجوہات درج ذیل ہیں
(1) اس کی حکومت کی خاطر حسین رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔(یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو شہید اس کے حکم سے کیا گیا)
(2) قریش کے چھوکروں میں شامل ہے وغیرہ
تو آپ سے ایک بار پھر گزارش ہے اہل سنت (شریعت) سے نام دیں (طریقت)سے نہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اے کاش !رافضیت و سبائیت کی ہم نوائی کرنے والے کبھی حضرت عثمان ؓ کی شہادت ِ عظمیٰ و کبریٰ کو بھی یاد کر تے جو حقیقی معنی میں ”ظلم عظیم“ ہے۔ امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین یزیدؒ بن معاویہ ؓ کو لعن طعن کرنے کا شیوہ تو ایسے اپنایا گیا ہے کہ گویا قرآن مجید کا کوئی حکم ہو یا رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے کی تلقین کی ہو۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓ کس کے دورِ حکومت میں نا حق طور پر شہید ہوئے تھے اس پر بھی کوئی ایک آنسو نہیں بہاتا۔ سارا زور فقط اسی بات پر ہے حضرت حسینؓ معصوم عن الخطاء تھے اور امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین یزیدؒ بن معاویہ ؓ منبع شر و جفا تھے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓ کس کے دورِ حکومت میں نا حق طور پر شہید ہوئے تھے
طلحہ رضی اللہ عنہ کو مروان نے شہید کیا تھا اس کو تو اس فورم پر رحمہ اللہ لکھا جاتا ہے پھر کس منہ سے ان کی شہادت ذکر کرتے ہیں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top