• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کے متعلق اہل حدیث حضرات سے ایک سوال

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس با ت کا حکم دیا ہے اس کو بغیر سوال وچوں چرا اوربغیر کٹ حجتی اس کو مان لینا اور اللہ کے رسول کی باتوں کے تعلق سے بے جا سوال کر نا جیسا کہ موسیِ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے گا ئے کے ذبح کرنے کے بارے میں کیا تھا اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے فضول سوال کر نے سے منع کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلی امتوں کے ہلاکت کا سبب کثرت سوال بتایا ہے ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ صَخْرٍ رَضِیَ اللہ تَعَالَی عَنْہُ قَالَ:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ، فَاجْتَنِبُوہُ وَمَا أَمَرْتُکُمْ بِہِ فَافْعَلُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَثْرَۃُ مَسَاءِلِہِمْ، وَاخْتِلَافُہُمْ عَلَی أَنْبِیَاءِہِمْ ؛؛
[أخرجہ البخاری - کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب: الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، 6777 ومسلم - کتاب: الفضائل، باب: توقیرہ صلی اللہ علیہ وسلم، 1337] .
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
''میں تمیں جس کام سے منع کر وں اس سے باز رہواور جس کام کا حکم دوں اسے بقد ر استطاعت (طاقت کے مطابق )بجا لاو تم سے پہلے لوگوں کو ان کے کثرت سوالات اور انبیاء علیہم السلام سے اختلاف نے ہلاک کر ڈالا تھا۔
تشریح :
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دو اہم باتوں کی باتوں کی طرف رہنمائی کی ہے ان میں سے:
ایک اطاعت رسول ہے جو دین کے ارکان میں ایک اہم رکن بھی ہے جس کو اللہ تعالی نے قرآ ن کے اکثر مقامات پر اطاعت رسول یا اتباع رسول کا حکم دیا ہے اور اگر ہم قرآن کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آئے گی کہ انبیا ء ورسل علیہم السلام کی تخلیق کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور ان کے حکموں کو اپنی زندگی کا نمونہ بنائیں جیسا کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے :
(وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّہ)
[ 4النساء64 ]۔
ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جا ئے "
قرآن مجید میں اس طرح کی بے شمار آیتیں موجود ہیں جس میں اللہ نے رسول کی اطاعت واتبا ع کا حکم دیا ہے
ایک مقا م پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
(قُلْ أَطِیعُوا اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ )[3آل عمران 32]۔
اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اگر تم نے اعراض کیا تو بیشک اللہ کافروں کو پسند نہیں کر تا ہے ۔
ایک مقام پر اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت کو اپنی و فرمابرداری قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا :
(مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ)[4 /النساء 80]۔
جس کسی نے رسول کی اطاعت کی اس نے گو یا اللہ ہی اطاعت کی ۔
اور اللہ رب العالمین مسلمانوں کے لئے جو اپنے دلوں میں نبی سے محبت رکھتے ہیں ان کے تعلق سے بیا ن فرمایا کہ نبی کی زند گی کواپنی زندگی کو کامیاب بنانے میں اسوہ مان لو ۔
اللہ رب العز ت ارشاد فرمایا کہ:
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) 33/ا لاحزاب 21]۔
یقیناًتمہارے لئے رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقد س میں اسو ہ حسنہ ہے ۔ اسی طرح اللہ رب العالمین نے ارشاد فریا کہ اگرتم نبی کی اطاعت کر وگے تو ہدایت پا جا و گے ۔
مضمون حدیث سے ملتی جلتی ایک آیت اللہ نے قرآن میں ذکر فرمایا :
(وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا) [الحشر:7/59]۔
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس رک جا و ۔
ان تمام آیات کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر اللہ رب العز ت نے مومنین کو ابھارا ہے اور اور رسول کی باتوں پر انکار واعراض اور نافر مانی پر رب العالمین نے کفر کا فتوی صادر فرمایا ہے
اس لئے ایک مسلمان کو ان باتوں کے تحت اطاعت رسول اپنی طاقت کے مطابق لازم پکڑنی چاہئے ورنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ایک شخص کے لئے جہنم میں جانے کا سبب بن سکتی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ:
کُلُّ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الجَنَّۃَ إِلَّا مَنْ أَبَی، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَمَنْ یَأْبَی؟ قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ أَطَاعَنِی دَخَلَ الجَنَّۃَ ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی [بخاری رقم 7280]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا''
صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟
فرمایا کہ:
'' جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا''۔
*وَمَا أَمَرْتُکُمْ بِہِ فَافْعَلُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ
جس کام کا حکم دوں اسے بقد ر استطاعت (طاقت کے مطابق) بجا لاو۔ اسی طرح کی بات اللہ نے قرآن میں بیان کی ہے
(فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)[ التغابن :16/64]۔
کہ تم اللہ سے ڈرو استطاعت کے مطابق ۔ یعنی جس طرح اللہ سے ڈرنے کا حق ہے اس طرح ڈرو ۔
اسلام ایک واحد دین رحمت ہے جو کسی پر زور و زبردستی یا اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر کو ئی عمل کا حکم نہیں دیتا ہے بلکہ اللہ رب العز ت نے ارشاد فرمایا کہ "اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا ہے بلکہ بعض مقام پر تو اسلام نے اتنی آسانی رکھی ہے اگر کو ئی شخص کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو وہ بیٹھ کر پڑھے اور اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتا ہے تو اشارے سے پڑھے اور رمضان کے مہینے میں اگر روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو تو بعد کے مہینے میں اس روزے کی قضا ء کر ے اس طرح کے سینکڑوں مسائل قرآن و حدیث میں ذکر ہیں جو اس با ت پر مبنی ہیں کہ اللہ اور اس کے رسو ل نے اسلام میں لوگوں پر سختی نہیں بلکہ آسانی رکھی ہے اور استطاعت کے مطابق عمل کا حکم دیا ہے جیسا کہ اسی حدیث میں خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور کئی سارے اعمال خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے کہ لو گ جان لیں ۔
دوسری اہم بات جس کی طرف اس حدیث میں رہنمائی کی گئی ہے وہ کثرت سوال سے ممانعت ہے ۔
*فَإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَثْرَۃُ مَسَاءِلِہِمْ، وَاخْتِلَافُہُمْ عَلَی أَنْبِیَاءِہِمْ ۔
تم سے پہلے لوگوں کو ان کے کثرت سوالات اور انبیاء سے اختلاف نے ہلاک کر ڈالا تھا۔
یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس با ت کا حکم دیا ہے اس کو بغیر سوال وچوں چرا اوربغیر کٹ حجتی اس کو مان لینا اور اللہ کے رسول کی باتوں کے تعلق سے بے جا سوال کر نا جیسا کہ موسیِ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے گا ئے کے ذبح کرنے کے بارے میں کیا تھا اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے فضول سوال کر نے سے منع کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلی امتوں کے ہلاکت کا سبب کثرت سوال بتایا ہے ۔
اس لئے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں سے منع کیا ہے اس سے بچا جا ئے اور جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے اس کو استطاعت کے مطابق بغیر قیل و قال اور کثرت سوال سے بچتے ہو ئے ان با تو ں پر عمل کیا جا ئے ۔
اللہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کی توفیق دے اور ہم کو کثرت سوال سے بچائے ۔
امین ۔
اس پوری لایعنی تقریر کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ زیر بحث مسئلہ کاجواب اہل حدیث کے نزدیک کیاہے؟؟؟؟؟؟؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کسی سوال کا جواب علمی تب ہی تصور کیا جاتا ہے جب کہ سوال بھی علم ہو۔ ویسے بحث کو طوالت دینے سے بہتر ہے کہ ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ کبھی آپ نے ایسا واقعہ رونما ہوتے دیکھا ہے جو سوال میں پیش کیا گیا ہے۔ اور اگر نہیں دیکھا تو سوال کی کوئی حیثیت نہیں رہتی کہ اس کے جواب دینے پر ہی کسی کی علمی استعداد کو تسلیم کیا جائے۔

غیر مقلدین کا وطیرہ جو کم از کم اس فورم پر روز روشن کی طرح واضح ہے جب کہیں پھنس جاو تو پہلے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو معاذ اللہ کوسنے لگ جائو ، وہاں سے جان نہ چھٹے تو تقلید کا موضوع چھیڑ دو اور جب ہر محاذ پر ناکام ہوجاو تو سوال کو فرضی سوال کہ دو ۔
بعض حضرات کی علمی استعداد یہیں سے واضح ہے جس کلمہ کو یہ فرضی کہ رہیں ہیں وہ کلمہ خود قرآن میں موجود ہے ۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 163 دیکھ لیں ۔ آپ حضرات کے مراسلات سے سے یہ پتا چلا کہ معاذ اللہ قرآن میں فرضی کلمات بھی ہیں
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کہ قرآنی کلمات کو فرضی کلمات کہ جائيں
موضوع سے متعلق جواب کا انتظار رہے گا ۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
غیر مقلدین کا وطیرہ جو کم از کم اس فورم پر روز روشن کی طرح واضح ہے جب کہیں پھنس جاو تو پہلے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو معاذ اللہ کوسنے لگ جائو ، وہاں سے جان نہ چھٹے تو تقلید کا موضوع چھیڑ دو اور جب ہر محاذ پر ناکام ہوجاو تو سوال کو فرضی سوال کہ دو ۔
بعض حضرات کی علمی استعداد یہیں سے واضح ہے جس کلمہ کو یہ فرضی کہ رہیں ہیں وہ کلمہ خود قرآن میں موجود ہے ۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 163 دیکھ لیں ۔ آپ حضرات کے مراسلات سے سے یہ پتا چلا کہ معاذ اللہ قرآن میں فرضی کلمات بھی ہیں
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کہ قرآنی کلمات کو فرضی کلمات کہ جائيں
موضوع سے متعلق جواب کا انتظار رہے گا ۔
محترم کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔ ان کلمات کو کس نے فرضی قرار دیا ہے۔ ذرا وضاحت کریں۔ ہم نے آپ کے سوال کو فرضی قرار دیا ہے کہ کوئی شخص لا الہ الا اللہ کی بجائے لا الہ الا الرحمن کہنا شروع کر دے۔ لیکن لگتا ہے آپ کے کمپیوٹر کی سکرین میں واضح نظر نہیں آتا۔

ہم نے آپ سے عرض کی تھی کہ آپ نے کبھی ایسا واقعہ ہوتے دیکھا ہے کہ کسی شخص نے کلمہ لا الہ الا اللہ کے علاوہ کچھ کہہ کر اسلام کا اظہار کیا ہو۔ ویسے تو یہ حدیث اس بات سے متعلق ہے بھی نہیں جو سوال آپ اہل حدیث سے کر رہے ہیں لیکن ہم الزامی طور پر آپ سے یہ پوچھ رہے ہیں۔
براہ مہربانی وضاحت کے ساتھ جواب دیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔ ان کلمات کو کس نے فرضی قرار دیا ہے۔ ذرا وضاحت کریں۔ ہم نے آپ کے سوال کو فرضی قرار دیا ہے کہ کوئی شخص لا الہ الا اللہ کی بجائے لا الہ الا الرحمن کہنا شروع کر دے۔ لیکن لگتا ہے آپ کے کمپیوٹر کی سکرین میں واضح نظر نہیں آتا۔

ہم نے آپ سے عرض کی تھی کہ آپ نے کبھی ایسا واقعہ ہوتے دیکھا ہے کہ کسی شخص نے کلمہ لا الہ الا اللہ کے علاوہ کچھ کہہ کر اسلام کا اظہار کیا ہو۔ ویسے تو یہ حدیث اس بات سے متعلق ہے بھی نہیں جو سوال آپ اہل حدیث سے کر رہے ہیں لیکن ہم الزامی طور پر آپ سے یہ پوچھ رہے ہیں۔
براہ مہربانی وضاحت کے ساتھ جواب دیں۔
آپ نے خود کہا تھا کہ
جمشید صاحب۔ ایسا علم آپ کو ہی مبارک ہو جس میں ایسے سوالوں کے جواب دئے جاتے ہوں جن کا وقوع پزیر ہونا ہی بعید از قیاس ہو۔
جب ایک کلمہ خود قرآن میں موجود ہے تو اس کلمہ کی ادائیگی کہاں سے بعید از قیاس ہو گئی ۔ اسی کلمہ کی ادائیگی بعید از قیاس یعنی فرضی ہو گی جو کلمہ خود فرضی ہو ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ریحان صاحب !
ہم منتظر ہیں کچھ مزید تاویلات کے۔
ویسےبھی اب تاویل کرنے کے سوابچاہی کیاہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اور نہ ہی کسی با شعور بندے سے ایسے عمل کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ لا الہ الا اللہ کی بجائے لا الہ الا الرحمن کہنا شروع کر دے۔ اگر کوئی ایسا کرنے والا ہے تو یا تو وہ دماغی طور پر ناکارہ ہے یا پھر شر پسند ہو گا۔ الحمد للہ ایسے عمل کی مثال اہل حدیث میں تو نہیں ملتی البتہ کوئی حنفی ایسا کرتا ہو تو ہمیں علم نہیں۔ (ویسے ہم نے کسی حنفی کو بھی آج تک یہ جملہ ادا کرتے نہیں دیکھا)۔ واللہ اعلم
استغفر اللہ ، یعنی اگر کوئی ایسا کلمہ کہتا ہے جو قرآن میں موجود ہے تو آپ کے نذدیک یا تو وہ دماغی طور پر ناکارہ ہے یا پھر شر پسند ہو گا ۔
احناف کی ضد کیا کیا دکھاتی ہے ۔ اللہ ہر فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تبادلہ خیال اوربحث کے طریقوں کومعلوم کیجئے جاہلوں والاطریقہ کار مت اپنائیے ۔زیر بحث مسئلہ کیاہے اس پر بات کیجئے۔اگرسوال کا جواب معلوم ہوتو بتائیے نہیں معلوم ہے توپھر خاموش رہئے ۔اوراس قسم کے سوالات ماضی میں بہت ہوچکے ہیں تھوڑاوقت نکال پر ماضی کے مراسلات کو پڑھئے ۔مجھے بار بار یہ کہتے ہوئے خود بھی برالگتاہے لیکن ذراخود بھی اپنے طرزعمل پر غورکیجئے ۔

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں فرما دیا: ''میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا میرا طریقہ؛ جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، بھٹگو کے نہیں''۔ وہیں اللہ کریم کا یہ ارشاد نازل ہوا: ''آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین مقرر کیا''۔ یہاں سب کچھ مکمل ہو گیا۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
آپ نے خود کہا تھا کہ

جب ایک کلمہ خود قرآن میں موجود ہے تو اس کلمہ کی ادائیگی کہاں سے بعید از قیاس ہو گئی ۔ اسی کلمہ کی ادائیگی بعید از قیاس یعنی فرضی ہو گی جو کلمہ خود فرضی ہو ۔

ذرا آپ مجھے قرآن کی آیت دکھائیے جس میں یہ کلمہ ہو "لا الہ الا الرحمن"۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے میرے علم میں نہ ہو۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
ریحان صاحب !
ہم منتظر ہیں کچھ مزید تاویلات کے۔
ویسےبھی اب تاویل کرنے کے سوابچاہی کیاہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ذرا وضاحت کیجئے ہم نے کہاں تاویل کی ہے؟؟
 

Urdu

رکن
شمولیت
مئی 14، 2011
پیغامات
199
ری ایکشن اسکور
341
پوائنٹ
76
بھائی ریحان صاحب۔
یہ احناف کی کوئی نئی اختراع نہیں ہے۔
بڑے زعم کے ساتھ دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ مذہباً حنفی تھااور اس زمانے میں ہمارےحنفی مذہب کے علماء و عوام کا ایک بڑا طبقہ موجود تھا۔اہلحدیث یعنی غیر مقلدین تو بعد میں آئے۔تو میرے بھائی آپ (تلمیذ) یہ بتائو کہ جب اس نے سلام کی بجائے آداب اور تسلیمات کہنے کو رائج کیا اور خطبہ میں درود و سلام بند کروایا تو حنفی علماء کو کونسا سانپ سونگھ گیا تھا؟ اور تو اوراس شخص نے ایک نئے مذہب دین الہی کی بنیاد بھی ڈال تھی۔تو کونسی خانقاہ میں بیٹھ کر یہ علمائے احناف سلسلہ جاہلیہ(صوفیت۔قادریت۔چشتیت۔نقشبندیت اور پتہ نہیں کیا کیا) کو فروغ دینے میں مصروف تھے؟
 
Top