• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
اور تمام بھائی! اسلام سوال جواب کے لنک ضرور ملاحظہ فرمائیں! کافی اشکال رفع ہو جائیں گے ان شاءاللہ!!
شیخ صالح المنجد کی ویب سائٹ اسلام سوال جواب سعودی عرب میں بین ہے۔ کوئی بھائی وہ فتاویٰ یہیں پر کاپی کر دے۔
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
السلام علیکم،

شیخ صالح المنجد کی ویب سائٹ اسلام سوال جواب سعودی عرب میں بین ہے۔ کوئی بھائی وہ فتاویٰ یہیں پر کاپی کر دے۔
كفريہ اور غير كفريہ بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنا
ar - en - zh - ur - es
Share
|

كيا كسى شركيہ افكار كے حامل اور بدعتى امام كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے ؟


الحمد للہ :

بدعت يا تو كفريہ ہوتى ہے جيسا كہ جھميہ اور شيعہ اور رافضيوں، اور حلولى اور وحدۃ الوجوديوں كى بدعت ہے، ان كى اپنى نماز بھى صحيح نہيں، اور ان كے پيچھے نماز ادا كرنا بھى صحيح نہيں، اور كسى كے ليے بھى ان كے پيچھے نماز ادا كرنى حلال نہيں.

يا پھر بدعت غير كفريہ ہوتى ہے، مثلا نيت كے الفاظ كى زبان سے ادائيگى، اور اجتماعى ذكر وغيرہ جو كہ صوفيوں كا طريقہ ہے،ان كى اپنى نماز بھى صحيح ہے، اور ان كے پيچھے نماز ادا كرنا بھى صحيح ہے.

مسلمان پر واجب ہے كہ وہ انہيں يہ بدعات ترك كرنے كى نصيحت كرے، اگر وہ مان جائيں تو يہى مطلوب ہے، وگرنہ اس نے اپنا فرض پورا كر ديا اور اس حالت ميں افضل يہ ہے كہ كوئى ايسا امام تلاش كيا جائے جو سنت نبوى كى پيروى كرنے پر حريص ہو.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

وہ بدعات جن كى بنا پر آدمى اہل اھواء اور خواہشات ميں شامل ہوتا ہے وہ جو اہل علم كے ہاں كتاب و سنت كى مخالفت ميں مشہور ہے، مثلا خوارج، اور رافضيوں شيعوں، اور قدريہ، مرجئہ وغيرہ كى بدعات ہيں.

عبد اللہ بن مبارك، اور يوسف بن اسباط رحمہم اللہ كا كہنا ہے:

تہتر فوقوں كى اصل چار ہے اور وہ يہ ہيں: خارجى، رافضى، قدريہ، اور مرجئۃ.

ابن مبارك رحمہ اللہ تعالى كو كہا گيا: تو پھر جھميۃ ؟

ان كا جواب تھا: جھميۃ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى امت ميں سے نہيں ہيں.

جھميۃ فرقہ صفات كى نفى كرتا ہے، جو يہ كہتے ہيں كہ: قرآن مخلوق ہے اور آخرت ميں اللہ تعالى كو نہيں ديكھا جائيگا، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو معراج نہيں ہوئى، وہ اپنے رب كى طرف اوپر نہيں چڑھے، اور نہ ہى اللہ كو علم ہے نہ قدرت، اور نہ ہى حياۃ يعنى زندگى وغيرہ ذالك,

اسى طرح معتزلہ اور متفلسفۃ اور ان كے متبعين بھى كہتے ہيں، عبد الرحمن بن مھدى كا كہنا ہے: ان دونوں قسموں جھميۃ اور رافضہ سے بچ كر رہو.

يہ دونوں بدعتيوں ميں سب سے برے اور شرير ہيں، اور انہى سے قرامطہ الباطنيۃ داخل ہوئے، جيسا كہ نصيريہ اور اسماعيلى فرقہ ہے، اور ان كے ساتھ اتحاديۃ متصل ہيں، كيونكہ يہ سب فرعونى گروہ سے تعلق ركھتے ہيں.

اور اس دور ميں رافضى رفض كى بنا پر جھمى قدرى ہيں، كيونكہ انہوں نے رفض كے ساتھ معتزلہ كا مذہب بھى ضم كر ليا ہے، پھر وہ اسماعيلى، اور دوسرے زنديقوں اور وحدۃ الوجود وغيرہ كے مذہب كى طرف جا نكلتے ہيں. واللہ و رسول اعلم.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 35 / 414 - 415 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

بدعتيوں كے پيچھے نماز ادا كرنے كے متعلق يہ ہے كہ اگر تو ان كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا، اور لغير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا اور ان كا كمال علم اور غيب يا كائنات ميں اثر انداز ہونے كے متعلق اپنے مشائخ اور بزرگوں كے متعلق وہ اعتقاد ركھنا جو اللہ تعالى كے علاوہ كسى كے بارہ ميں نہيں ركھا جا سكتا، تو ان كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں.

اور اگر ان كى بدعت شركيہ نہيں؛ مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ماثور ذكر كرنا، ليكن يہ ذكر اجتماعى اور جھوم جھوم كر كيا جائے، تو ان كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے، ليكن امام كو كسى غير بدعتى امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے؛ تا كہ يہ اس كے اجروثواب ميں زيادتى اور برائى اور منكر سے دورى كا باعث ہو.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العملميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).

واللہ اعلم .
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

میں کسی قدر مصروف ہوں فرصت پاتے ہی ان شاء اللہ جواب دونگا۔ اس وقت تک برائے مہربانی موضوع کو مقفل نہ کیا جائے۔شکریہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اگر آپ کے پاس کوئی صریح دلیل موجود نہیں، بلکہ یہ کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ (مثلاً بدعتی کے تعظیم وغیرہ) سے آپ کا اخذ کردہ مفہوم ہے تو فہم حدیث کو حدیث کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔
آپ کے پاس کون سی دلیل ہے جس کی رو سے وحدت الوجودی، اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے منکر، قبروں سے فیض حاصل کرنے جیسے کفریہ اور شرکیہ عقیدہ رکھنے والےدیوبندی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔ ابھی تک آپ نے وہ دلیل پیش نہیں کی؟

آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امام بخاری اور حسن بصری رحمہ اللہ کے ذمہ آپ اپنے باطل استدلال کے ذریعے کافر اور مشرک کے پیچھے نماز ہوجانے کا مسئلہ لگارہے ہیں؟

جن احادیث مبارکہ سے آپ نے یہ مفہوم سمجھا کہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، یہ مفہوم سیدنا عثمان﷜، سیدنا حسن بصری﷫ اور امام بخاری﷫ نے نہیں سمجھا، بلکہ وہ دیگر احادیث مبارکہ کے مفہوم سے یہ بات سمجھے ہیں کہ بدعتی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
ہمارا تو نہیں خیال کے اس قدر جلیل القدر ہستیاں دینی غیرت و حمیت سے محروم اور قرآن وحدیث کی تعلیمات سے بے بہرہ تھیں۔(نعوذباللہ من ذالک) کہ دیوبندی جیسے بدعتی جس کی بدعت کفر اور شرک تک پہنچ چکی ہو کے پیچھے نماز ہوجانے کے قائل تھیں اور ان نفوس قدسیہ کی یہ سمجھ بھی احادیث مبارکہ کے مفہوم کی وجہ سے تھیں۔

بہرحال فہم میں اختلاف ہو جاتا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس اختلاف کی بناء پر اتنی شدّت مناسب نہیں۔ جیسے شاہد نذیر بھائی نے کہا کہ یہ انتہائی نامعقول اور بے ہودہ فتویٰ ہے۔

میں نے جواب میں عرض کیا ہے کہ رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے، اور دونوں (مدلل) آراء میں ترجیح کی بات تو کی جا سکتی ہے لیکن کسی ایک رائے کو بے ہودہ اور نا معقول قرار دینا کسی طور صحیح نہیں؟
یہ فہم کا اختلاف نہیں ہے۔ فہم کا اختلاف اسی صورت ممکن ہے کہ جب دونوں طرف دلائل موجود ہوں یا دلائل مبہم اور غیر واضح ہوں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ دلائل واضح اور غیر مبہم ہیں اور دوسری طرف دلائل کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ آپ کی معلومات میں اضافے کے لئے عرض ہے کہ دیوبندی جیسے بدعتیوں کے پیچھے نماز نہ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ سعودی شیخ عبدالعزیر بن عبداللہ الراجحی نے فرمایا: بدعت مکفرہ والے بدعتی کے پیچھے نماز کے صحیح نہ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔(شرح رسالہ کتاب الایمان ١- ٢٥٣شاملہ)
امت مسلمہ کے اس اجماع کے خلاف چند حضرات کے خیالات اور فتوؤں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ان شاء اللہ

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
آمین

اگر درج بالا اقتباس آپ کا ہی ہے تو آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ کسی ایک صحابی کا فتویٰ پیش کیا جائے کہ اہل بدعت کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
جسے میں نے پورا کر دیا (سیدنا عثمان﷜ والی موقوف حدیث رئیس الخوارج کے پیچھے نماز ہوجانے سے متعلّق) تو پھر یہ تھریڈ غیر متعلّق کیوں؟؟؟
بے شک میں نے یہی مطالبہ کیا تھا۔ محترم اختلاف صرف دیوبندی جیسے بدعتی کے پیچھے نماز ہونے یا نہ ہونے پر شروع ہوا ہے۔ لہذا اگر آپ غور فرماتے تو آپ کو ایک ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے جواز پر صحابی کی روایت پیش کرنی تھی جس کی بدعت مکفرہ ہو اور اس کے عقیدے میں بھی کفر اور شرک پایا جاتا ہو۔ اب آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ آپ نے میرا مطالبہ پورا کردیا ہے؟؟؟

آپ نے جو حدیث حدیث پیش کی ہے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اور امام بخاری کا استدلال، اسے اس بدعتی پر محمول کیا جائے گا جس کی بدعت صغرہ ہو کبری نہ ہو۔ یعنی ایک ایسے بدعتی کے پیچھے مجبوری میں نماز جائز ہے جو صحیح العقیدہ ہو اور اس کی بدعت کفر تک نہ پہنچتی ہو۔ اگرچہ بہتر بات یہی ہے کہ مجبوری میں بھی ایسے شخص کےپیچھے نماز ادا نہ کی جائے کیونکہ اگر صحیح العقیدہ لوگ ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھیں گے تو عام لوگ اس شخص کو اور اس کی بدعت کو درست خیال کرنے لگیں گے۔ جس سے لوگوں کی گمراہی کا اندیشہ ہے۔ قوام السنہ اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبہانی رحمہ اللہ نے فرمایا: اور اصحاب الحدیث (یعنی اہل حدیث) کی رائے میں اہل بدعت کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے تاکہ عوام اسے دیکھ کر خراب نہ ہوجائیں۔(الحجہ فی بیان المحجۃ و شرح عقیدہ اہل السنہ، ٢-٥٠٨)

اس بات کا مختصر ذکر میں پچھلی پوسٹ میں بھی کرچکا ہوں لہذا آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا۔ لیکن آپ اپنے استدلال پر بضد ہیں۔

میری اپنے عزیز بھائی سے گزارش ہے کہ میں نے امام بخاری﷫ کی رائے (ترجمہ الباب إمامة المفتون والمبتدع) بمعہ احادیث اور مکمل ترجمہ پیش کر دیا ہے،
اگر میں نے ترجمہ میں کوئی غلطی کی ہے
یا کوئی شے چھپانی کی کوشش کی ہے
یا امام بخاری﷫ کی کوئی اور رائے ہے جو میں سمجھ نہیں سکا
یا سمجھ تو لی لیکن ’کچھ ذاتی اغراض‘ یا تعصّب وغیرہ کی بناء پر دوسروں کو مغالطہ دینا چاہا تو

ازراہِ کرام آپ میری اصلاح فرما دیجئے میں ان شاء اللہ! اپنی غلطی پر اصرار نہیں کروں گا، بلکہ تسلیم کر لوں گا۔
آپ نے نہ ترجمہ غلط کیا ہے اور نہ ہی کچھ چھپانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ آپ نے بدعت صغری کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنے والے دلائل کو بدعت مکفرہ کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ خود ہی بتادیں کہ یہ مغالطہ اور دھوکہ بازی نہیں تو کیا ہے؟؟؟

آپ کا دعویٰ دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے تو دلیل بھی تو دعویٰ کے مطابق ہونی چاہیے۔

کچھ گزارشات دیوبندی کے متعلق بھی کردوں تاکہ ہر شخص کو بحث سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔

دیوبندی اصل میں وہ شخص ہے جو دیوبندیوں کے مسلمہ عقائد و اصول کو مانتا ہو۔ دیوبندیوں کے لسٹ سے وہ شخص خارج ہے جو ان کے مسلمہ عقائد میں سے کسی ایک عقیدہ کا بھی منکر ہو۔ جیسے دیوبندیوں کے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمہ عقیدے سے جب کچھ دیوبندیوں نے انحراف کیا تو دیوبندیوں نے انہیں اپنی جماعت سے خارج کرکے دیوبندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور انہیں مماتی فتنہ قرار دیا۔ حتی کے اپنی اس معاملے کو اہل حدیث کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے مماتیوں کو غیرمقلدین کا ذیلی فرقہ قراردے دیا۔

١۔ مفتی محمد وجیہ دیوبندی رسالہ ’’عقائد علماء دیوبند‘‘ پر بطور تصدیق لکھتے ہیں: حال میں پیدا ہونے والی تلبیس کا ازالہ فرما کر امت پر احسان فرمایا اور واقعی اور غیر واقعی دیوبندی میں امتیاز فرمایا۔ (عقائد علماء دیوبند، صفحہ ١٤٤)
معلوم ہوا جو شخص المہند علی المفند میں درج شدہ عقائد کو نہیں مانتا وہ دیوبندی نہیں ہے۔

٢۔ مولانا سید صادق حسین دیوبندی صاحب فرماتے ہیں: جو واقعی اہل سنت والجماعت کےعقائد ہیں۔ احقر ان تمام عقائد میں اپنے اسلاف کی اتباع کرنا ہی عین نجات سمجھتا ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١٤٥)

٣۔ عبدالکریم دیوبندی رقم طراز ہیں: مولف مدظلہ کو افسوس ہے کہ علماء دیوبند کے ان اجماعی عقائد کی کھلی مخالفت کرنے والے اپنے آپ کو دیوبند ہی کہلانے پر اصرار کرتے ہیں۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١٥٣)

٤۔ عبدالشکور ترمذی نے ایک رسالہ عقائد علماء دیوبند کے نام سے لکھا ہے جو خلیل احمد سہانپوری کی کتاب المہند علی المفند سے ماخوذ اور اسی کے ساتھ مطبوع ہے۔ اس رسالے کے مقدمے میں عبدالشکور دیوبندی لکھتے ہیں: اسی طرح یہ بھی واضح ہوگا کہ اصلی دیوبندیت کیا ہے اور اس زمانہ میں بعض مقررین جن عقائد کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کو اصلی دیوبندیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١١٠)

ان تمام حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو شخص علمائے دیوبند کے مسلمہ اصولوں یا کسی ایک بھی اصول کو نہیں مانتا وہ دیوبندی کہلانے کا حق دار نہیں ہے چاہے وہ لاکھ خود کو دیوبندی کہتا ہو۔ اب دیوبندیوں کے کفریہ اور شرکیہ عقائد پر نظر ڈالتے ہیں۔

١۔ المہند علی المفند کے مطابق دیوبندی اللہ کے لئے جحت اور مکان کی نفی کرتے ہیں جبکہ بخاری کی ایک حدیث سے اللہ کے لئے جحت اور مکان دونوں ثابت ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی کے بارے میں یہ جاننے کے لئے کہ آیا وہ مسلمان ہے یا نہیں دو سوال کئے کہ اللہ کہاں ہےاور میں کون ہوں۔جس میں سے پہلے سوال کے جواب میں لونڈی نے انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا یعنی اللہ آسمانوں میں عرش پر مستوی ہے۔ دیوبندی اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے منکر ہیں اور اللہ ہر جگہ ہے کا عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ اللہ کے ساتھ کھلا کفر ہے۔ الیاس گھمن دیوبندی نے لکھا ہے: ہم نے عقیدہ بیان کیا میں کہتا ہوں اللہ ہر جگہ پر ہے۔(خطبات گھمن،جلد١، صفحہ ٢٠٠)
دیوبندیوں کی مستند کتاب الفقہ الاکبر میں خود ابوحنیفہ بھی اس شخص کو کافر کہتے ہیں جو اللہ کو عرش پر نہیں مانتا۔ یعنی دیوبندی اپنے امام کے نزدیک بھی کافر ہیں۔

٢۔ دیوبندیوں کا ایک مسلمہ عقیدہ قبروں سے فیض حاصل کرنے کا بھی ہے یہ بھی المہند علی المفند میں درج ہے۔ یہ واضح طورپرشرکیہ عقیدہ ہے۔

٣۔ دیوبندی پکے وحدت الوجودی ہیں ان کے تمام اکابرین اس عقیدہ پر متفق تھے۔ عبدالحمید سواتی دیوبندی لکھتے ہیں: علماء دیوبند کے اکابر مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا مدنی اور دیگر اکابر مسئلہ وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔(مقالات سواتی،حصہ اول، ص٣٧٥)
وحدت الوجود کا عقیدہ بدترین شرکیہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔

٤۔ دیوبندیوں نے اپنے مذہب کی بنیاد تقلید کی بدعت پررکھی ہے جسے یہ واجب قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے عملی طور پر اپنے امام کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے۔ یہ اپنے امام کے اقوال کے سامنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو کوئی حیثیت نہیں دیتے اس کے تسلی بخش دلائل موجود ہیں۔ چند دلائل یہاں ملاحظہ کریں: جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں!!! ان لوگوں نے جس بدعت کو جزو مذہب بنا رکھا ہے یعنی تقلید وہ بھی کفر تک پہنچ چکی ہے۔

٥۔ دیوبندی غیر اللہ سے استعانت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔تفصیل کےلئے دیکھئے امداد المشتاق، ارواح ثلاثہ اور کلیات امدادیہ

دیوبندیوں کے ان کفریہ اور شرکیہ عقائد جاننے کے بعد وہ کون بدبخت ہے جو اپنی نمازوں کو ان بدعتیوں کے پیچھے ادا کرکے ضائع کردے؟؟؟

جہاں تک دلائل کی کمزوری کی بات ہے تو یہ امام بخاری﷫ کا فہم ہے جو انہوں نے باب کے تحت دی گئی احادیث مبارکہ سے سمجھا۔

میں بھی ان کے اس استدلال کو صحیح سمجھتا ہوں۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
یہ امام بخاری کا فہم نہیں ہے اور نہ ہی اس باب کے تحت دی گئی حدیث سے ایسا کوئی مطلب نکلتا ہے کہ دیوبندیوں جیسے بدعتی اور کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔ یہ آپکا اپنا غلط استدلال اور نادرست فہم ہے جسے آپ ناحق امام بخاری رحمہ اللہ کے سر ڈالنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔

باقی جوابات جلد ان شاء اللہ
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
محترم بھائ شاہد نذیر صاحب -السلام علیکم ورحمۃ اللہ -مداخلت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن عام دیوبندیوں کا عقیدہ المھند والا نہیں ہوتا ہے-اکثر عام دیوبندی بلکہ دیوبندی مولوی بھی نہ اس عقیدہ کے قائل ہوتے ہیں نہ اس عقیدہ کو جانتے ہیں- جہالت اور تعصب کی بنیاد پر اورغلط حسن ظن کی بنیاد پر اپنے گمراہ اماموں کی اتباع کرتے ہیں -ایسے میں انہیں گمراہ اور بدعتی قرار دینا سمجھ میں آتا ہے لیکن کافر کہنا زیادتی ہے-المھند کے عقیدہ والے ہزار میں ١ بھی نہ ہوگا- یہ بات اتنی بصیرت سے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ میں خود سابق دیوبندی ہوں- اور دیوبندیوں کے علاقہ میں رہتا ہوں- میرے بھائ تکفیر م یں احتیاط کریں- یہ سطورمحض خیر خواہی کے جذبے سے لکھ رہا ہون -واسلام
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
آپ کی معلومات میں اضافے کے لئے عرض ہے کہ دیوبندی جیسے بدعتیوں کے پیچھے نماز نہ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ سعودی شیخ عبدالعزیر بن عبداللہ الراجحی نے فرمایا: بدعت مکفرہ والے بدعتی کے پیچھے نماز کے صحیح نہ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔(شرح رسالہ کتاب الایمان ١- ٢٥٣شاملہ)
امت مسلمہ کے اس اجماع کے خلاف چند حضرات کے خیالات اور فتوؤں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ان شاء اللہ
شاہد نذیر بھائی ! آپ کے متذکرہ بالا دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت نظر نہیں آ رہی ہے!
دلیل میں آپ نے ایک سعودی شیخ کا قول پیش کیا ہے۔ کیا کسی واحد شیخ کا قول "امت مسلمہ کے اجماع" کی تعریف میں آتا ہے؟
علاوہ ازیں ان شیخ صاحب کے قول میں "بدعت مکفرہ والے بدعتی" جیسے الفاظ ہیں ۔۔۔ "دیوبندی" طبقہ یا فرقہ کا نام نہیں ہے!
جب آپ جیسے عامی کو دیوبندیوں کے تمام عقائد اور گمراہیوں کے مکمل علم کا دعویٰ ہے تو ظاہر ہے کہ ان شیخ صاحب کو بھی یقیناً علم ہوگا ۔۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اور دوسرے معتبر سعودی علماء براہ راست کسی مسلمان طبقہ کو یوں مطعون نہیں کرتے جیسا کہ آپ کی مخصوص عادت ہے؟
امید ہے کہ طیش میں آنے کے بجائے ٹھنڈے دل سے (اور مناسب و معقول لب و لہجہ کیساتھ :) ) جواب دیں گے۔ شکریہ۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
محترم بھائ شاہد نذیر صاحب -السلام علیکم ورحمۃ اللہ -مداخلت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن عام دیوبندیوں کا عقیدہ المھند والا نہیں ہوتا ہے-اکثر عام دیوبندی بلکہ دیوبندی مولوی بھی نہ اس عقیدہ کے قائل ہوتے ہیں نہ اس عقیدہ کو جانتے ہیں- جہالت اور تعصب کی بنیاد پر اورغلط حسن ظن کی بنیاد پر اپنے گمراہ اماموں کی اتباع کرتے ہیں -ایسے میں انہیں گمراہ اور بدعتی قرار دینا سمجھ میں آتا ہے لیکن کافر کہنا زیادتی ہے-المھند کے عقیدہ والے ہزار میں ١ بھی نہ ہوگا-
وعلیکم السلام بھائی۔ میں ہی نہیں بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ آپ کی بات سے صد فیصد اتفاق کرتے ہیں۔ ہاں ۔۔۔ ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ کچھ صاحبان کو اس موضوع پر اختلاف ہے۔ اور پھر ہمیں ان کے اختلاف پر کوئی اعتراض بھی نہیں کہ ہم اختلافِ رائے کا احترام کرنے والوں میں سے ہیں۔ لیکن دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ۔۔۔ اختلاف رائے کی آڑ میں کسی گروہ یا جماعت کو ٹارگٹ کر کے نامناسب طعن و تشنیع کا سلسلہ دراز کر دیا جاتا ہے جس کی تعلیم اسوہ حسنہ سے کہیں بھی نہیں ملتی (کم از کم ہمارے مطالعے میں تو نہیں ہے)
اسی ضمن کی ایک گفتگو میں ہمارے ایک عالم و فاضل دوست نے کہا تھا کہ :
در اصل متعین فرد یا گروہ پر حکم لگانا ایک الگ معاملہ ہے اور کسی فعل پر حکم لگانا بالکل الگ بات!
قرآن وحدیث میں جگہ جگہ عمل پر حکم لگایا گیا ہے، اور اِکّا دُکا افراد پر حکم لگایا گیا ہے۔

جب آپ دیکھیں کہ کسی متعین شخص یا جماعت پر کوئی حکم لگایا گیا ہے تو اس کا ردّ کرنا چاہئے خواہ وہ حکم شیعہ حضرات پر ہی کیوں نہ لگا ہو کیونکہ حکم نیت اور دل پر لگتا ہے، اور کسی کے اندر کیا ہے، ہمیں کوئی اطلاع نہیں۔ یہ حکم صرف اور صرف وحی کے ذریعے لگ سکتا ہے۔ الّا یہ کہ معاملہ بہت زیادہ ظاہر وباہر ہو اور ایک دو عالم نہیں، تقریباً تمام علماء اس پر متفق ہوں، جیسے مرزائیوں کا معاملہ ہے۔
جہاں تک کسی عمل پر حکم لگانے کی بات ہے تو یہ بالکل لگ سکتا ہے، جتنا سخت لگا لیا جائے ٹھیک ہے۔ مثلاً جھوٹ ایک ایسا عمل ہے جو لعنت کا باعث ہے۔ ہر جھوٹ پر لعنت کی جا سکتی ہے۔ لیکن عمل پر! نہ کہ عامل پر! کیونکہ ہمیں عامل کے متعلق علم نہیں کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا ہے، ممکن ہے کہ اسے صحیح معاملے کا علم ہی نہ ہو، یہ بھی ممکن ہے، وہ کسی مجبوری سے ایسا کر رہا ہو اور ہمیں پتہ نہ ہو۔ اور بھی کئی احتمالات ہو سکتے ہیں، (مثلاً سیدنا ابراہیم﷤ کے کذباتِ ثلاثہ وغیرہ) لہٰذا حکم عمل پر لگانا چاہئے نہ کہ عامل پر!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
شاہد نذیر بھائی کی پوسٹ کافی تکلیف دہ اور نا مناسب الفاظ سے بھرپور تھی، صبح دیکھ طبیعت بہت مکدّر ہوئی، اب دوبارہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ شائد انہوں نے خود ہی، یا کسی ناظم بھائی نے بعض غلط الفاظ حذف کر دئیے ہیں۔
کچھ نمونے ملاحظہ کیجئے!
دینی غیرت و حمیت سے محروم اور قرآن وحدیث کی تعلیمات سے بے بہرہ
غور فرمائیں انس نضر بھائی کہ آپ کی جراءت کی پرواز کتنی اونچی ہوگئی ہے کہ آپ نے اپنی مطلب برآوری کے لئے ان ہستیوں پر بہتان گھڑ دیا ہے۔
آپ جیسے چند حضرات کے خیالات اور فتوؤں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ان شاء اللہ اور آپ کا یہ ڈیڑھ اینٹ والا مسلک الگ ہی رہے گا۔
میں آپ کو سمجھ دار شخص سمجھ رہا تھا۔
اس بات کا مختصر ذکر میں پچھلی پوسٹ میں بھی کرچکا ہوں لہذا آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا۔ لیکن آپ اپنے استدلال پر بضد ہیں۔ آپ صحیح روایات پیش کرکے اس سے باطل اور مردود استدلال کررہے ہیں۔ آپ نے یہ بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جن ہستیوں کے قول، فتویٰ اور استدلال کو آپ اپنے غلط موقف کے لئے پیش کررہے ہیں اپنے اس عمل کے ذریعے آپ ان کی گستاخی کے مرتکب بھی ہورہے ہیں۔کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مذکورہ ہستیاں بھی عقیدے میں کفر اور شرک رکھنے والے بدعتی کے پیچھے نماز کے جائز ہونے کی قائل تھیں۔
آپ نے نہ ترجمہ غلط کیا ہے اور نہ ہی کچھ چھپانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ آپ نے بدعت صغری کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنے والے دلائل کو بدعت مکفرہ کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ خود ہی بتادیں کہ یہ مغالطہ اور دھوکہ بازی نہیں تو کیا ہے؟؟؟
یہ آپکا اپنا باطل استدلال اور مردود فہم ہے جسے آپ ناحق امام بخاری رحمہ اللہ کے سر تھوپنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔


تھریڈ کا موضوع اور میری ساری بحث بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کے پیچھے نماز ہوجانے کے متعلق تھی۔
بدعت مکفّرہ ومفسّقہ اور دیوبندی اور بریلوی حضرات کے متعلّق میں اپنا موقف پہلے ہی نہایت وضاحت کیلئے بیان کر چکا ہوں، جن پر نجانے میرے عزیز بھائی نے نظر کرم کیوں نہیں کی؟

آپ مجھے حفظہ اللہ نہ لکھا کریں، اگرچہ یہ ایک دُعا ہے اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کیلئے دُعا کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ عرف بھی ہے کہ علمائے کرام کے ساتھ﷾ لکھا جاتا ہے، اور ہر شخص اپنے بارے میں بخوبی جانتا ہے، میرا علم بہت ہی ناقص ہے، میں ایک ادنیٰ طالب علم اور علماء کا خادم ہوں۔ ان شاء اللہ!
علاوہ ازیں ’دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کرنے والا‘ (آپ کے نزدیک) ان الفاظ کا مستحق نہیں!

جہاں تک بدعت مکفّرہ اور غیر مکفّرہ کی بات ہے تو مجھے اس حد تک آپ سے اتفاق ہے کہ جو خود کافر ہے تو چونکہ اس کی اپنی نماز صحیح اور اللہ کے ہاں مقبول نہیں لہٰذا اس کے پیچھے دوسروں کے نماز بھی صحیح نہیں، اور جو خود کافر نہیں، بلکہ فاسق یا مبتدع ہے تو اس کی اپنی نماز بھی صحیح ہے (اگرچہ اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہے) تو اس کے پیچھے نماز بھی جائز ہوگی۔

علاوہ ازیں کسی کو اپنا مستقل امام بنانے اور کسی کے پیچھے نماز ہوجانے میں بہت فرق ہے۔ میرے نزدیک تو کثرت سے صغیرہ گناہوں کے مرتکب کو بھی اپنا مستقل امام نہیں بنانا چاہئے، البتہ کبھی پارک یا ائیر پورٹ وغیرہ پر مجبوراً کسی فاسق یا مبتدع کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
اور یہ فرق محترم حافظ عبد اللہ محدث روپڑی﷫ (جن کا فتویٰ آپ کے نزدیک نا معقول اور بے ہودہ ۔۔۔ وغیرہ ہے) نے بھی کیا ہے، ملاحظہ کیجئے:

البتہ دیوبندی حضرات کی تکفیر سے متعلق آپ کی رائے سے مجھے شدید اختلاف ہے۔

میرے نزدیک ایک جھوٹے یا فاسق شخص (مثلاً داڑھی کٹوانے والا) کو بھی امام نہیں بنانا چاہئے اور نہ ہی اس کے پیچھے مستقل نماز پڑھنی چاہئے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے اگر کبھی نماز پڑھنی پڑے تو ہو جاتی ہے!
میرا آپ سے ایک سادہ سا سوال ہے کہ کیا آپ کے نزدیک جھوٹے یا فاسق شخص کے پیچھے کبھی کبھار نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟

اگر نہیں ہوتی تو پھر آج کس مسجد کا امام معصوم ہے؟؟ ہر ایک سے بشری تقاضوں کے تحت چھوٹی بڑی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں
اس طرح تو شائد شاہد نذیر صاحب کو ہر نماز انفرادی ہی پڑھنے پڑے گی۔ ابتسامہ!!!
موجودہ حنفی حضرات خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی! کو علی الاطلاق کافر سمجھنا صحیح نہیں!

البتہ بدعات مکفرہ کے مرتکب اگر وہ علیٰ وجہ البصیرت اس بدعت پر عمل پیرا ہوں اور اس کے داعی ہوں ان کا معاملہ مختلف ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!


بہرحال میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے پیارے بھائی کو خوش رکھیں۔

اور میری اور سب مسلمانوں کی اصلاح فرمائیں اور دانستہ ونا دانستہ غلطیاں معاف فرمائیں!

آمین!

وما توفیقی الا باللہ!

میں اس موضوع پر شاہد صاحب سے مزيد گفتگو سے معذور ہوں!

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

ابوعیینہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 17، 2012
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
281
پوائنٹ
0
اب معذوری کا کیا فائدہ !
یہ انداز شروع سے ہی ہوتا تو بات بن جاتی !
یہ فورم کی پالیسی عجیب و غریب ہے ۔!
کبھی دیوبندیوں کے خلاف ہوتے ہیں تو کبھی ان کی حمایت میں جنگ شروع کر دیتے ہیں ۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
موقع الاسلام کے دو فتوے ملاحظہ کریں۔
موقع الإسلام سؤال وجواب - حكم الصلاة خلف الديوبندية
موقع الإسلام سؤال وجواب - طائفة الديوبندية
ان فتاویٰ کے یہ جملے غور طلب ہیں:
الديوبندية طائفة من طوائف المسلمين ، تنسب إلى جامعة ديوبند – دار العلوم – في الهند . وهي مدرسة فكرية عميقة الجذور طبعت كل خريج منها بطابعها العلمي الخاص ، حتى أصبح ينسب إليها .
مفتی صاحب ان کے افکار و معتقدات سے بے خبر نہیں ہیں۔
ا
لأفكار والمعتقدات :
- هم في الأصول ( العقيدة ) على مذهب أبي منصور الماتريدي في الاعتقاد .
- وعلى مذهب الإمام أبي حنيفة في الفقه والفروع .
- وسلكوا الطرق الصوفية من النقشبندية والجشتية والقادرية والسهروردية في السلوك والاتباع
سوال کرنے والا پوچھ رہا ہے کہ میں ایسی جگہ پر ہوں جہاں کام کرتے ہوئے عصر کا وقت ہو جاتا ہے، قریب ہی دیوبندیوں کی مسجد ہے جو نماز عصر تاخیر سے ادا کرتے ہیں۔ کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اول وقت میں انفرادی نماز پڑھ لوں؟
الشیخ صالح المنجد اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
والحاصل : أنه لا حرج في تأخير صلاة العصر ، ما لم تصفر الشمس ، والأولى تقديمها ، لكن لا تترك الجماعة لأجل ذلك .
اور یہ بھی:
وسئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : ما حكم الصلاة في مساجد بعض الدول الإسلامية التي يغلب على من يتولى فيها الإمامة من أخذ الاعتقاد على المذهب الأشعري ؟
فأجاب : جائز . ولا يلزم السؤال عن عقيدة الإمام .
فسألته : فإن علم أنه أشعري المعتقد ؟
فأجاب : الصلاة خلفه جائزة .
وقت نکال سکیں تویہ کتاب بھی پڑھیے گا:
موسوعۃ الالبانی فی العقیدہ
والسلام علیکم
 
Top