• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین السورتین تکبیرات … تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سلسلہ میں علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس طرح امام بزی رحمہ اللہ کوحدیث میں ضعیف کہا گیا ہے،اسی طرح امام حفص رحمہ اللہ، امام دوری رحمہ اللہ اور امام حمزہ رحمہ اللہ پربھی ضعف کااطلاق کیاگیاہے۔ ان کا یہ ضعف حفظ وضبط کے قبیل سے تھا،نہ کہ ثقاہت و عدالت کا، لیکن علم ِحدیث میں ان کا ضعیف ہونا علم قراء ات میں قابل طعن نہیں،کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کو قرآن کریم کے ساتھ مشغول کردیاتھااورباقی علوم سے اپنی توجہ کو سمیٹ لیا تھا، جیسا کہ بعض محدثین علم حدیث میں تو ماہرین تھے، جبکہ علم قراء ات کے حوالے سے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔یہی حالت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جواپنے آپ کو کسی ایک فن کے ساتھ وابستہ کرلیتا ہے۔‘‘(الفتح الرحمانی:۲۲۳)
اس سلسلہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول بھی قابل توجہ ہے، فرماتے ہیں:
’’ قراء کرام کی ایک جماعت علم تجوید وقراء ات میں پختہ اور ثقاہت کے معیار پر ہے، لیکن علم حدیث میں وہ ثابت شدہ نہیں، جیساکہ امام نافع رحمہ اللہ، امام کسائی رحمہ اللہ اور امام حفص رحمہ اللہ وغیرہ کا معاملہ ہے۔یہ لوگ علم قراء ات کی تحقیق میں کمال پر فائز رہے، لیکن یہ کمال علم حدیث میں انہیں حاصل نہیں تھا اور عین یہی معاملہ بعض اہل الحدیث کا ہے کہ وہ علم حدیث میں متقن ہیں، لیکن علم تجوید وقراء ات میں ضعیف ہیں اور تمام علوم کے ماہرین میں یہ امر بالکل فطری ہے کہ جو ایک فن میں مضبوط ہو،بسااَوقات دوسرے فن میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۱۱؍۵۴۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مبحث چہارم :تکبیر کس سے منقول ہے؟
یہ جان لیجئے کہ بقول ابن جزری رحمہ اللہ تکبیر مکی قراء و علماء اور ان سے روایت کرنے والوں کے نزدیک صحیح سند سے ثابت ہے اور اپنی شہرت اوراستفاضہ کی بناء پرتواتر کی حد تک پہنچ گئی ہے۔اختتام قرآن کے موقع پر نماز وغیر نماز میں اس کو پڑھنا مسنون ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(رِوَی الْقَلْبِ ذِکْرُ اﷲِ)إلیٰ قولـہٖ(وَفِیْہِ عَنِ الْمَکِّیِّیْنَ تَکْبِیْرُھُمْ مَعَ الْخَوَاتِمِ قُرْبَ الْخَتْمِ یُرْوٰی مُسَلْسَلا) (متن شعر۱۱۲۱تا۱۱۲۶)
مکی قراء کے علاوہ اَئمہ کے نزدیک بھی یہ صحیح سند سے ثابت ہے، مگر ان کے نزدیک اس کی شہرت اس پر عمل کرنے کے اعتبار سے ہے، جیساکہ سید علی الصفاقسی رحمہ اللہ کا فرمانا ہے۔ (غیث النفع:۳۸۹)
امام دانی رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
’’نبی اکرمﷺہجرت ِمدینہ سے پہلے اس پرعمل کیاکرتے تھے، ان کے علاوہ کوئی اس پر عمل نہیں کرتاتھا، اس وجہ سے اس کو مکی قراء و علماء نے نقل کیاہے۔‘‘ (جامع البیان:ص۷۹۷)
اگر کوئی معترض یوں کہے کہ جب نبی اکرمﷺنے ہجرت کی اور آپﷺکے صحابہ پہلے ہی ہجرت کرچکے تھے، تو دارِ کفر مکہ میں کون قرآن کریم کی تلاوت کرتا اور اس پر عمل کرتا تھا؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس بات کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ مکہ میں کمزور مسلمان باقی رہ گئے تھے، جس کی طرف اللہ نے ان آیات میں اشارہ کیا ہے: ’’وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ… الآیۃ‘‘(النساء :۷۵) اور ’’وَلَوْلاَ رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ… الٓایۃ‘‘ (الفتح :۲۵)
ان پیچھے رہ جانے والوں میں ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے، جن سے تکبیر مروی ہے۔ (غیث النفع:۳۸۹)
اہل اَدا کا امام بزی رحمہ اللہ کے لئے صرف تکبیر پڑھنے پر اتفاق ہے، اگرچہ سیدنا قنبل رحمہ اللہ کے لئے تکبیر اور عدم تکبیر دونوں مروی ہیں۔اہل مغرب امام بزی رحمہ اللہ کے لئے بھی عدم تکبیر کے قائل ہیں، جیساکہ التیسیر اور دوسری کتب میں موجود ہے۔بعض اہل مغرب اور اہل عراق سیدنا بزی رحمہ اللہ کے لئے تکبیر کے قائل ہیں، جبکہ بعض تکبیر اور عدم تکبیر دو وجوہ نقل کرتے ہیں اور اسی پرعمل ہے۔ (غیث النفع:۳۸۹ ) امام شاطبی رحمہ اللہ نے بھی دو وجوہ نقل فرمائی ہیں۔ ( الشاطبیۃ: بیت نمبر۱۱۳۳)
امام بزی رحمہ اللہ اور امام قنبل رحمہ اللہ کے علاوہ بعض دیگر قراء سے بھی تکبیر ثابت ہے، لیکن شاطبیہ اور التیسیرکے طریق سے تکبیر صرف امام بزی رحمہ اللہ اور امام قنبل رحمہ اللہ کے لئے ہی خاص ہے، البتہ سیدنا قنبل رحمہ اللہ سے عدم تکبیربھی مروی ہے۔ (البدور الزاھرۃ:۳۵۱،غیث النفع:۳۸۵)
نوٹ: فصل سوم میں بھی اس فصل سے متعلق بہت سی تفصیلات ذکر کی گئی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مبحث پنجم: تکبیرات کے الفاظ اور محل کا بیان
جمہور کے نزدیک تکبیرات کے الفاظ سیدنا بزی رحمہ اللہ کے لئے صرف’اللہ اکبر‘ ہیں اور وہ تکبیر سے ماقبل تہلیل اور مابعد تحمید نقل نہیں کرتے۔ نیز جن کے ہاں سیدنا قنبل رحمہ اللہ کے لئے بھی تکبیر ثابت ہے، وہ امام قنبل رحمہ اللہ کے لئے بھی تکبیر پڑھتے ہیں اور اسی کی طرف امام شاطبی رحمہ اللہ نے (وَقُلْ لَفْظُہٗ اﷲُ أَکْبَرُ)(متن شعر:۱۱۳۲)کہہ کر اِشارہ فرمایا ہے۔
بعض علما نے تکبیر سے پہلے تہلیل کا اِضافہ نقل کیا ہے۔اس صورت میں الفاظ یوں ہوں گے: لآ إِلٰہَ إِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ أَکْبَرُ۔ اس طرف امام شاطبی رحمہ اللہ اِشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَقُلْ لَفْظُہٗ اﷲُ أَکْبَر وَقَبْـــلَہ
لأَحْمَدَ زَادَ ابنُ الْحُبَابِ فَھَلَّـلاَ
وَقِیْلَ بِھٰذَا عَنْ أَبِی الْفَتْحِ فَارِس
وَعَنْ قُنْبُلٍ بَعْضٌ بَتَکْبِیْرِہٖ تَــلا​
(متن شعر:۳۳۔۱۱۳۲)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن الحباب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے سیدنا بزی رحمہ اللہ سے تکبیر کے الفاظ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواًبا فرمایا: لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اﷲ وَاﷲ أَکْبَرُ۔‘‘ (النشر:۲؍۴۳۰)
بعض نے تکبیر کے بعد تحمید کے الفاظ کا بھی اضافہ کیا ہے، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب آپ قرآن مجید کی مفصل سورتوں کی تلاوت کریں تو تکبیر اور تحمید پڑھیں، جس کے الفاظ یوں ہوں گے: لاَ إِلٰہَ إِلَّا اﷲ وَاﷲ أَکْبَرُ وَﷲِ الْحَمْدُ
تکبیر کے بعد تحمید کا اضافہ کرنا علامہ ابو طاہر عبدالواحد بن ابو ہاشم رحمہ اللہ کا طریق ہے، جو ابن الحباب رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں اور ابن صباح رحمہ اللہ امام قنبل رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ سیدنابزی رحمہ اللہ اور سیدنا قنبل رحمہ اللہ کے لئے تکبیر سے پہلے تہلیل اور بعد میں تحمیدطریق ِشاطبیہ و تیسیرسے ثابت نہیں،بلکہ یہ دوسرے طرق سے ثابت ہے، لیکن اہل فن نے ختم قرآن کی مناسبت سے بطورِ برکت اور بطورِ لذت تکبیر کے ساتھ ہرثابت شے کو پڑھنا شروع کردیا۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا قنبل رحمہ اللہ کے لئے تحمید شاطبیہ، تیسیراور نشر کسی طریق سے ثابت نہیں، لہٰذا امام قنبل رحمہ اللہ کے لئے اولیٰ یہی ہے کہ فقط تکبیر پراکتفا کیا جائے یا زیادہ سے زیادہ تہلیل ملالی جائے،لیکن تحمید ملانا منع ہے۔
مزید برآں یہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ بین اللّیل والضحیٰ تحمیدکسی قاری کے لئے بھی ثابت نہیں ہے،کیونکہ جو قراء کرام ان دونوں سورتوں کے علاوہ میں تحمید پڑھتے ہیں، وہ بھی اس جگہ تحمید نہیں پڑھتے، جیسا کہ بعض کا قول ہے:
بدء الضحیٰ یترک وجہ الحمد لہ
لأنَّ صــاحبہ منـہ أھمـــلہ
(البدور الزاھرۃ:۳۵۱، حلّ المشکلات:۱۰۳تا۱۰۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تکبیر کا محل
تکبیر بسم اللہ سے پہلے پڑھی جائے گی،برابر ہے کہ سورہ کے شروع سے ابتداء کی جائے یا ایک سورہ کو دوسری سورہ کے ساتھ ملایا جائے۔اس وجہ سے سورہ توبہ کے شروع میں تکبیر منع ہے، کیونکہ اس کے شروع میں بسم اللہ ہی ثابت نہیں ہے، خواہ سورہ توبہ سے ابتداء کی جائے یا سورہ انفال کو سورہ توبہ سے ملایا جائے۔ (ہدایۃ القاری:۵۹۲)
یاد رہے کہ سورہ توبہ کے شروع میں تکبیر کی ممانعت کا مسئلہ اس مذہب کے مطابق ہے جس میں تکبیر سورہ فاتحہ سے لے کرآخر قرآن تک ثابت ہے۔ اس مذہب کو امام ہذلی رحمہ اللہ نے الکامل میں اور امام ابوالعلاء رحمہ اللہ نے الغایۃ میں نقل کیا ہے۔ سورہ براء ۃ کے شروع میں تکبیر نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تکبیر اور بسم اللہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔یہاں چونکہ بسم اللہ نہیں،لہٰذا تکبیربھی نہیں ہے۔ علامہ علی الضباع رحمہ اللہ اسی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وبعضُہم کبَّرَ فی غیرِ براء ۃٍ
وترکُــہ لجمہــورٍ جــرٰی​
(ہدایۃ القاری بتصرف:ص۵۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اہم فوائد
(١) لا إلہ إلا اﷲ میں مدمنفصل پر امام بزی رحمہ اللہ اور امام قنبل رحمہ اللہ دونوں کے لئے قصر اور توسط دونوں بلا فصل پڑھے جائیں گے۔یہاں توسط مد تعظیمی کے طور پر پڑھا جاتا ہے،اگرچہ تعظیم کے لئے توسط کرنا شاطبیہ و تیسیر کے طرق سے ثابت نہیں اور نشر کے طریق سے ثابت ہے، لیکن چونکہ اختتامِ قرآن کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ تعظیم و تکریم کا تقاضاکرتی ہے، لہٰذا ایک کتاب کے طریق سے دوسری کتاب کے طریق کو اختیار کرناجائز ہے تاکہ اللہ کی عظمت و بڑائی کا کماحقہ اظہارہوسکے۔ (البدور الزاھرۃ: ۳۵۴،حلّ المشکلات: ۱۰۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) تحمید اور تہلیل کوتکبیر کے ساتھ ملا کر پڑھنے کے دو طریقے ہیں:
(١) قاری فقط تہلیل کوتکبیر پرمقدم کرکے پڑھے، جیسے لا إلہ إلا اﷲ واﷲ أکبر
(٢) قاری تہلیل کو تکبیر پرمقدم کرتے ہوئے آخر میں تحمید کوپڑھے، جیسے لا إلہ إلا اﷲ واﷲ أکبر وﷲ الحمد
دونوں صورتوں میں تہلیل اور تحمید کاتکبیر سے فصل اور مذکورہ الفاظ کو مذکورہ ترتیب کے ساتھ ایک ہی سانس کے اندر اندر اداکیا جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب تہلیل کو تکبیر سے پہلے اوربعدمیں تحمید کو پڑھاجائے تو اس کا حکم اکیلی تکبیر کی طرح ہے، یعنی ان کو جدا جدا نہیں کیا جاسکتا بلکہ ملاکر پڑھا جائے گا۔ روایات میں اسی طرح آیا ہے اور اس میں کسی سے کوئی اختلاف مروی نہیں۔ مزید برآں فقط تحمید تکبیر کے ساتھ پڑھنا بھی جائز نہیں،بلکہ اس سے پہلے تہلیل ملانا ضروری ہے۔ روایات میں اسی طرح منقول ہے۔‘‘(النشر: ۲؍۴۳۶،۴۳۷ بالاختصار)
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ منصوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تہلیلا التکبیرُ مع حمدلۃ
رَتِّبْ ولا تفصـلہ للرّوایــۃ
ولایجوز الحمد مع تکبیر
إلا مـع التھلیــل للتقــدیر​
(ھدایۃ القاری: ۶۰۸تا ۶۱۰ بالاختصار)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مبحث ششم: نماز میں تکبیر پڑھنے کا حکم
جان لیں کہ جس طرح تکبیر خارج نماز میں سنت ہے، اسی طرح نماز کے اندر بھی سنت ہے۔(ھدایۃ القاری:۶۱۷) اس سلسلہ میں امام ابوعمرو دانی رحمہ اللہ، امام ابوالعلاء ہمدانی رحمہ اللہ، استاذ ابوالقاسم بن فحام رحمہ اللہ، علامہ ابوالحسن سخاوی رحمہ اللہ، علامہ ابوشامہ دمشقی رحمہ اللہ جیسے ماہرین فن نے سیر حاصل بحث کی ہے اور اسے متقدمین قراء کرام اور فقہائے عظام کے اَقوال سے پیش کیا ہے۔(النشر:۲؍۴۲۴، محقق نے اَسانید کے ساتھ اس کے ثبوت کو پیش فرمایا ہے)
حافظ ابن جزری رحمہ اللہ اپنی مفصل سند کے ساتھ امام عبدالحمید بن جریج رحمہ اللہ سے اور وہ امام مجاہدرحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ سورہ والضحی سے لے کر سورۃ الناس تک تکبیر کہتے تھے۔(سنن القراء:۲۱۹)
امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میرے خیال میں امام یا غیر امام ہر دو تکبیرات کہے۔‘‘ (النشر:۲؍۴۲۵، الاتحاف:۲؍۶۴۷)
 
Top