• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیوی کی ذمے داریاں۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بیوی کی ذمے داریاں
۱۔ شوہر کے گھر والے (قریبی سسرال) کا حترام کرنا: شو ہر کے نزدیک اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ اس لئے جب اس کے گھر والے اس کی بیوی کو پسند کرتے ہیں۔ تو اس کے لئے شوہر کی محبت میں زیادتی و اضافے کا باعث بنتا ہے۔ پھر جب وہ بھی ان کا احترام کرتی ہے اور ان سے پیار محبت سے پیش آتی ہے تو شوہر کی محبت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر بیوی کے لے شوہر کے گھر والوں کی محبت میں کمی آجائے ۔

یا خود بیوی کے دل میں شوہر کے گھروالوں کا احترام کم ہوجائے تو شوہر کی محبت بھی بیوی کے لئے کم ہوجائے گی۔ اس لیے ایک اچھی سگھڑ، اور سلیقہ شعار بیوی وہ ہوتی ہے جو ان کی خدمت کرے ان کا دل جیت لیتی ہے ان کے عیوب پر پردہ ڈالتی ہے اور ان کی خوبیوں کی تعریف کرتی ہے اور شوہر کے سامنے ان میں کوئی عیب نہیں نکالتی۔ اگر گھر والوں سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو ایسی بیوی کو چاہیے ان کی برائی نہ کرے اور نہ گالیاں دے اور نہ شوہر کے آتے ہی اسے خبر کرے کیونکہ یہ چیز شوہر کو ناراض کر دے گی۔ ایسی صورت اسے چاہیے کہ تحمل سے کام لے اور اگر ظلم کرنا ان کی عادت نہیں ہے تو ان کی غلطی پر صبر کرے۔ ایسا کرکے یقینا وہ شوہر کے دل میں بھی گھر کر لے گی، اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرے گی۔ اور شوہر کے گھروالے بھی اس سے خوش رہیں گے۔ ذیل میں ہم چند ایسے اسباب ذکر کر رہے ہیں جن پر عمل کرکے بیوی شوہر کے گھر والوں کا دل جیت سکتی ہے۔

۱۔ تھوڑے عرصے کے بعد انھیں کوئی نہ کوئی تحفہ دینا۔
۲۔ ان کے دکھ سکھ میں ان کا شریک بننا۔
۳۔ ان سے ملنے جانا اور ساتھ میں کوئی کھانے پینے کی چیز لیتے جانا جو بیوی نے خود تیار کی ہو۔
۴۔ اپنے گھر بلا کر خوب خاطر مدارت کرنا۔
۵۔ ان کے راز کو چھپانا اور افشاں کرنے سے گریز کرنا۔
۶۔ اگر وہ کسی غیر مناسب وقت پر اس سے ملنے آجائیں یا بغیر بتائے آجائیں تو غصے یا ناگواری کا اظہار نہ کرنا۔
۷۔ ان کے ذاتی معاملات میں داخل اندازی گریز کرنا۔
۸۔ ان کے سامنے اپنے شوہر کی زیادہ سے زیادہ تعریف کرنا اس کی برائی نہ کرنا۔
۹۔ ان کے کسی خاص اجتماعی اسلوب یا عادت پر نکتہ چینی نہ کرنا سوائے اس کے کہ وہ دینِ حنیف کی تعلیمات سے متصادم ہو۔ اور ایسی صورت میں بھی انھیں نرمی و حکمت سے سمجھائے۔
۱۰۔ اگر وہ سکی اور شہر میں رہتے ہوں تو ہر تھوڑے عرصے میں ان کی خیریت معلوم کرتے رہنا۔
۱۱۔ لوگوں کے سامنے ان کی تعریف کرنا۔

ایک سگھڑ، سلیقہ شعار اور عقل مند بیوی اپنے شوہر کے گھر والوں کے دل جیتنے کے لئے نت نئے طریقے و وسائل استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتی۔
شوہر کے جذبات و احساسات میں اس کے ساتھ شریک ہونا اور اس کا ساتھ دینا:
بعض اوقات شوہر زندگی میںمختلف مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے مثال کے طور پر مالی حالات کا خراب ہونا۔ کسی رشتے دار یا جن کے ساتھ کام کرتا ہے اس سے ان بن ہوجانا۔ کسی قریبی رشتے دار کا انتقال ہوجانا وغیرہ۔ ایسے حالات میں شوہر ذہنی طور پر پریشان رہتا ہے۔ ایسی صورتحل میں میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کا ساتھ دے اس کی غم گساری کرے اور جتنا ہوسکے اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرے اور اسے صبر کی تلقین کرے۔ خدیجہؓ کی حدیث میں ایک مثالی بیوی کے لئے بہترین نمونہ موجود ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانپتے ہوئے خون کی حالت میں گھر آئے تو خدیجہؓ نے ان تسلی اور صبر دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں غریب و نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور حق بات پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (۱) (بخاری)۔

ذرا خدیجہؓ کو دیکھتے کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف کو کم کر رہی ہیں اور ان کے دل کو تسلی دے رہی ہیں اور اس پریشانی میں ان کے ساتھ ہیں۔ پھر خدیجہؓ آپ کو ورقۃ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو اس زمانے کے عالم تھے اور توحید پر ثابت قدم تھے۔ آپؓ نبی کریم کو کسی نجومی یا جادوگر کے پاس نہیں لے گئیں بلکہ عالم کے پاس لے گئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مکمل طور پر مطمئن ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ نے نہ صرف یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان و تسلی دی بلکہ آپ کے مسئلے کا حل بھی نکالا۔ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابیوں کی حدیث جسے عبد اللہ بن کعب بن مالک نے روایت کیا ہے۔ کعب فرماتے ہیں۔ اھلال بن امیہ کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بولی اے اللہ کے رسول ھلال بن امیہ بوڑھا شخص ہے اور اس کو کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے۔ کیا میں اگر ان کی خدمت کرنا چاہوں تو آپ اسے ناپسند کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن وہ تمہارے قریب نہ جائے۔ عورت بولی: اللہ کی قسم اس میں تو کسی قسم کی حرکت باقی نہیں رہی۔ جب سے یہ معاملہ ہوا ہے وہ مسلسل روئے جارہا ہے۔ (۱) (بخاری)

ذرا ھلال بن امیہ کی بیوی کو دیکھے کیسے بے چینی طبیعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتی ہیں اور ان سے اپنے شوہر کی خدمت کی اجازت مانگتی ہیں اور پھر سے نہیں بلکہ ان کی طرف سے ان کا دفاع کرتی ہیں کہ وہ مسلسل گریہ و زاری کر رہے ہیں اور اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہیں۔ یہ ہیں ایک سلیقہ شعار نیک بیوی جو اپنی ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔

اسی طرح بیوی شوہر کی خوشی میں بھی شوہر کا ساتھ دے۔ اگر شوہر کو کسی قسم کی کوئی خوشی نصیب ہو یا اس کے گھر والوں کے حوالے سے کوئی خوشی نصیب ہو تو بیوی کو چاہیے کہ وہ خوش ہو اور پسپائے چہرے کے ساتھ شوہر کا استقبال نہ کرے اگرچہ اس کا کوئی پریشانی لاحق ہو تا کہ وہ شوہر کا دل جیت سکے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۔ اپنے شوہر سے راضی اور خوشی رہنا:
شادی کے بعد اور نئے گھر میں قدم رکھنے کے بعد ممکن ہے کہ بیوی کو شوہر کی کچھ ایسی منفی عادات کا علم ہو جو اسے قبل از نکاح معلوم نہیں تھیں۔ ایسی صورت میں بیوی کو شوہر کی مجموعی اخلاقی حالت کو دیکھنا چاہیے اور چند ایک غلط عادتوں پر نظرنہیں ڈالنی چاہیے۔ بیوی شوہر سے راضی و خوش رہے اور اس کی مثبت عادتوں اور خوبیوں کو دیکھے اور کوشش کرے کہ ان میں اور نکھار پیدا کرسکے۔ رہ گئی منفی عادات تو بیوی کو چاہیے کہ انہیں نظر انداز کرے اور ان کی اصلاح کرنے کوشش کرے۔ مثال کے طور پر کنجوسی یا رات گئے تک جاگنا وغیرہ ایسے منفی اخلاق ہیں جن کی اصلاح ممکن ہے۔ (۱) (اسی طرح سے اگر شوہر امید تھا پھر فقیر ہوگیا یا صحت مند تھا پھر کسی مہلک بیماری کا شکار بن گیا تو بیوی کو چاہیے کہ ایسے میں صبر کرے اور اللہ کی رضا ہی میں راضی رہے۔) لیکن جہاں تک بڑے گناہوں کا تعلق ہے جیسے سرے سے ہی نماز نہ پڑھنا یا اباحت کے افکار و نظریات کا حامل ہونا تو یہ وہ چیزیں جو دین سے واضح طور پر متصادم ہیں۔مثال کے طور پر اسے پردہ نہ کرنے پر مجبور کے یا ترکِ نماز کا کہے وغیرہ تو یہ سب شرتعی احکام ہیں اور کسی انسان کا اس میں عمل دخل نہیں ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۔ بیوی امور خانہ داری کی ماہر ہو۔
مرد عموماً ایسی بیویاں پسند کرتی ہیں جو گھریلو کام کاج کی ماہر ہوں جیسے کھانا پکانا، گھر کی صفائی ستھرائی اور ترتی وغیرہ اور مذکورہ امور میں کسی قسم کی جدت پیدا کرنا یا ان کو بہت سلیقے سے کرنا سسرا ل کے ددل میں بیوی کی قدرو قیمت بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے ایک نیک اور سگھڑ بیوی کو چاہیے کہ وہ تمام گھریلو کام سیکھے اور امورِ خانہ داری میں مہارت حاصل کرے۔

اور پھر آج کل تو کسی عورت کے لئے یہ فنون نہ سیکھنے کا کوئی بہانہ نہیں رہ جانا کیونکہ ہر جگہ کتابیں دستیاب ہیں۔ اور ٹی وی پر پروگرام بھی پیش کئے جاتے ہیں اور سیکھنے کے طریقے بہت آسان اور سہل ہوگئے ہیں۔

اس ضمن میں بیوی اپنے گھر میں ایک کاپی بنا سکتی ہے جس میں اخبارات رسالے وغیرہ میں آنے والی امورِ خانہ داری کی ترکیب لکھ سکتی ہے اس طرح سے ایک کاپی اور بنائے جس میں رشتے دار عورتوں یا سہیلیوں سے ملنے والی ترکیبیں اور معلومات لکھی جاسکتی ہیں اور اس طرح سے وہ امورِ خانہ داری میں مہارت حاصل کرسکتی ہے اور اس میں جدت پیدا کر سکتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۵۔ بیوی مختلف انواع و اقسام کے کھانے بنائے:
کہتے ہیں کہ مرد کے دل تک پہنچنے کا سبب سے قریبی راستہ اس کے معدے سے نکلتا ہے اگرچہ یہ عبارت مکمل طور پر حقیقت پر مبنی نہیں لیکن ھر بھی اس میں تھوڑا سا سچ ہے۔ ایک سلیقہ شعار، سگھڑ کھانے پکانے میں ماہر بیوی مرد کے دل کے زیادہ قریب ہوتی ہے کیونکہ ایسی بیوی ہر بار اپنے شوہر کو نت نئے کھانے پکا کر دیتی ہے نیز اگر شوہر کے کوئی مہمان گھر پر آتے ہیں تو ان کو بھی وہ نت نئے لذیذ قسم کے کھانے پیش کرتی ہے۔ اس لئے اگر آپ کسی شوہر کو اپنی بیوی سے یہ شکایت کرتا دیکھیں تو تم ایک دو کھانوں کے سوائے کچھ پکانا ہی نہیں جانتی تو تعجب نہ کریں۔ جیسا کہ پہلے گذرا کہ آج کے زمانے میں بیوی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا کیونکہ کھانے پکانے کی ترکیبوں کے پروگرام ٹی وی پر، کتابوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ اس لئے بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے صلاحیتوں کو نکھارے اور کھانے پکانے کے فن میں جدت پیدا کرے تاکہ شوہر کے دل میں اس کی محبت اور گہری ہو اور وہ اس کے دل میں گھر سکے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۶۔ گھر کی ظاہری حالت میں ردو بدل کرتے رہنا۔
جدت ہمیشہ دل میں ایک نئی امنگ پیدا کرتی ہے اور زندگی میں نئے رنگ پھیر دیتی ہے اور اس میں آئی ہوئی اکتاہٹ اور بوریت تو ختم کر دیتی ہے ہر تھوڑے عرصے بعد جب شوہر دیکھتا ہے کہ اس کے گھر کا حلیہ بدل چکا ہے اور اس کی ترتیب ایک نیا ہی منظر پیش کر رہی ہے تو اس کے اندر کی روح خوشی سے جھوم اٹھتی ہے اور اسے اپنا گھر بالکل نیا لگنے لگتا ہے۔

میاں میں جس جدت تغیر اور تبدیلی کی بات کر رہا ہوں وہ تبدیلی ہے جو بیوی شوہر کو ایک سرپرائز کے طور پر دیتی ہے جس پر وہ شوہر سے کوئی خرچہ نہیں مانگتی لیکن جو کچھ اس کے پاس موجود ہے، اسی کو استعمال کرتے ہوئے گھر میں ایک نئی جدت پیدا کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر بیڈ روم کی ترتیب ایک معنی طریقے سے ہے لیکن تھوڑے عرصے کے بعد بیوی بستر کو دوسری جگہ پر رکھ دیتی ہے اور اس ایک نئی چادر بچھا دیتی ہے جو پہلے استعمال نہیں ہوئی ہوتی اور اس کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اس طرح سے کھانے کے کمرے میں کھانے کی میز کو دوسری جگہ رکھ دیتی ہے اور اس پر رکھے گئے کھانے کے برتنون کی ترتیب بدل کردوسری طرح سے رکھتی ہے۔ اسی طرح گھر میں موجود باقی چیزوں کی مثال لے لیں۔ ایک سگھڑ بیوی کا سگھڑ پن آپ کو گھر کی ہر چیز بولنا نظر آئے گا۔

لیکن بعض بیویوں کا یہ عالم ہے اللہ انھیں ہدایت دے کہ ان کی شادی کو سال دو سال یا اس سے بھی زیادہ گذر چکے ہوتے ہیں لیکن ان کا گھر ویسے کا ویسے ہی پڑا رہتا ہے اور جب جدت یا ترتیب کی تبدیلی کا خیال آتا بھی ہے تو وہ نئے نت یا بیڈ وغیرہ کی خریداری کے لیے شوہر سے پیسوں کا مطالبہ کر دیتی ہے جیسے کہ گھر میں ترتیب کی تبدیلی بازار سے خرید کر ہی ہوسکتی ہے اس کے علاوہ ممکن ہی نہیں ہے ایسی عورت کو گھر میں موجودہ ترتیب کو سلیقے سے بدلنے کا فن نہیں آتا اور کبھی کبھی شوہر کو خوش کرنے سے زیادہ ناراض کر دیتی ہے اس لئے ایسی عورت کو اسے اپنے انداز اور سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اپنی روش کو بدلنا چاہیے تاکہ وہ خود بھی خوش رہے اور اس کا شوہر بھی خوش و خرم ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۷۔ اچھی طرح سے استقبال کرنااور اچھی طرح سے رخصت کرنا
بعض بیویوں کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ شادی کے ابتدائی ایام میں وہ اپنے شوہر کے استقبال کو اور جاتے وقت اسے رخصت کرنے کا یاد رکھتی ہیں اور بعض یہ بھی کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتیں چنانچہ جب شوہر گھر پر آتا ہے تو بیوی سور رہی ہوتی ہے یا باورچی میں کھانے پکانے میں محو ہوتی ہے۔ جب شوہر اسے ملام کرتا ہے تو باورچی خانے سے ہی چینج کر ملاام کا جواب دیتی ہے یا پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھی نظر آتی ہے جس پر عموماً وہ کئی ڈرامہ یا فلم دیکھ رہی ہوتی ہے ایسی حالت میں اگر شوہر سلام کرتا بھی ہے تو ٹی وی پر نظریں جماعت ہوئے بغیر شوہر کی طرف دیکھے اسے بے مروتی سے سلام کا جواب دے دیتی ہے لیکن اسے شوہر کی پرواہ نہیں ہوتی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ بیوی گھر پر ہی نہیں ملتی بلکہ کسی دوست سے ملنے یا بازار میں خریداری کرنے گئی ہوئی ہوتی ہے۔ کبھی اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ خاص طور پر اگر اس کا گھر شوہر کے گھر سے نزدیک ہو۔ اور یہ تمام امور وہ اسباب ہیں جو شوہر کا دل اس کو عورت کی طرف سے اچاٹ کر دیتے ہیں کیونکہ یہ تمام مشاہدات اس بات کی دلیل ہیں کہ بیوی کے دل میں شوہر کے لئے نہ تو کوئی محبت اور نہ احترام۔ مثال کے طور پر اگر نکلے گی تو گھر کا کوئی کام کرتے کرتے ایسے ہی دھن میں مگن نکل جائے گی یا ٹی وی کے سامنے جب ٹی وی دیکھ رہی ہوگی اور شوہر بیٹھا ہے تو اسے شوہر کی رتی بھر پرواہ بھی نہیں ہوگی بلکہ وہ اس کی طرف نظر بھی اس کی طرف ملتفت ہوئے اسے سرد لہجے میں شکریہ کہہ دے گی۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شوہر نکلتا ہے اور وہ کتاب یا اخبار پڑھ رہی ہوتی ہے اور شوہر سمجھتا ہے کہ وہ کوئی اہم کام کر رہی ہے اور اسے شوہر کے نکلنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

عقلمند عورت وہ ہوتی ہے جو اپنے میاں کا دل جیتنے کی فکر کرتی ہے اور شوہر کے آتے جاتے وقت اس کا اچھی طرح استقبال بھی کرتی ہے اور اچھی طرح سے رخصت بھی کرتی ہے۔ جب شوہر گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ ہر کام چھوڑ دیتی ہے اور چہرے پر مسکراہٹ کی کلیاں بکھیرے ہوئے اس کے لئے دعا کرتے ہوئے اس کے استقبال کو کھڑی ہو جاتی ہے۔ شوہر کے آنے سے پہلے ہی وہ کھانا تیار کر چکی ہوتی ہے۔ گھر میں کھانے کی بھینی بھینی خوشبو مہک رہی ہوتی ہے۔ اگر کھانا پکانے کے دوران میں اس کے کپڑے پر کوئی دھبے وغیرہ لگے ہوتے ہیں یا ان سے بو آرہی ہوتی ہے تو وہ فوراً کپڑے تبدیل کرتی ہے یہی نہیں بلکہ وہ اپنے بچوں کو بھی شوہر کے استقبال کے لئے تیار کرتی ہے اور اس کے آنے پر ان کو اس کاہاتھ اور چومنے دعا کرنے اور یہ بتانے کی تاکید کرتی ہے کہ وہ اپنے باپ سے پیار کرتے ہیں۔

اسی طرح سے جب شوہر نکل رہا ہوتا ہے وفا شعار بیوی اس کے لئے تمام ضروری چیزیں تیار کرتی ہیں تاکہ وہ باوقار، صاف ستھرا نظر آئے پھر اس کے بعد اسے دروازے تک چھوڑنے جاتی ہے اور پھر بہترین جملوں اور سلامتی و حفاظت کی دعائوں کے جھرمٹ میں اسے رخصت کرتی ہے اگر وہ کسی بزنس و ینچیر وغیرہ(Business Venture)(تجارت کے لیے سفر یا خرچ) پر نکلتا ہے تو اس کے لئے کامیابی کی دعا کرتی ہے۔ اگر سفر پر جارہا ہوتا ہے تو اس کا کہیں اور دیگر ضروری اشیاء اس کے لئے تیار کرتی ہے اور پھر اسے کامیابی وکامرانی اور سلامتی سے واپس آنے کی دعائوں کے ساتھ رخصت کرتی ہے۔

یہ وہ اعمال یا اسالیب یا طریقے ہیں جن سے میاںاور بیوی دونوں خوش ہوتے ہیں اور دونوں کے درمیان قائم پیار اور محبت کا رشتہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۸۔ شوہر کی ہر بات کو توجہ اور غور کے ساتھ سننا:
کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور گذرے ہوئے دن کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں یا گھر کے کسی معاملے پر بات چیت میں مصروف ہوتے ہیں یا اور کوئی موضوع گفتگو کا تختۂ مشق بنا ہوا ہوتا ہے (!!) یہ ایک اچھا طرز عمل ہے جس سے دونوں کی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن یہاں پر ایک بری حرکت جو بعض بیویوں سے سرزد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ شوہر کے بولتے وقت کسی اور کام میں مصروف ہوجاتی ہے جس سے شوہر یہی سمجھتا ہے کہ بیوی کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہے اور وہ یک دم غصے میں آجاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شوہر اس سے کوئی بات کر رہا ہوتا ہے اور وہ ایک دم اٹھ کر کوئی چیز لینے چلی جاتی ہے یا فون پر بات کرنے لگتی ہے یا رسالہ، اخبار وغیرہ پڑھنا شروع کر دیتی ہے یا بچوں کے ساتھ کھیلنے چلی جاتی ہے یا اگر چہ بولنا شروع کردے تو اسے سننے میں لگ جاتی ہے وغیرہ یہ ساری حرکتیں شوہر کو ناراض کرنے والی اور غصہ دلانے والی ہیں۔ اس کانتیجہ یہی نکلتا ہے کہ شوہر بیوی سے بات کرنا ہی کم کر دیتا ہے یا سے سرے ہی ترک کر دیتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور شخص ڈھونڈ لیتا ہے جو توجہ سے اس کی بات سنتا ہے۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ شوہر گھر سے باہر رہنے لگتا ہے اور میاں بیوی کے تعلقات کے درمیان واقع ہونے والی دراڑ وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے اور ان کی زندگی میں پائے جانی والے مسائل و مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۹۔ پہلے بچے سے ہوشیار رہیں،
ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ عبارت تھوڑی سی عجیب لگے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کی بدولت بہت سے شوہر غصے سے آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔ اکثر عورتیں پہلے بچے کو بہت اہمیت دیتی ہیں کیونکہ اس کی زندگی میں آنے والا یہ پہلا بچہ ہوتا ہے جس نے ماں کو ماں ہونے کا احساس دلایا ہوتا ہے اور اس سے اسی کی کنیت قائم ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔ اس میں کوئی قابلِ اعتراض یا حرج کی بات نہیں، یہ ایک قدرتی بات ہے۔ لیکن قابلِ اعتراض بات وہاں پر آتی ہے جب ماں کی ساری کی ساری توجہ نئے آنے والے مہمان مولود کی طرف ہوتی ہے اور شوہر سے یکسر توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اب نہ وہ اس کے لئے تیار ہوتی ہے نہ بنتی سنورتی ہے نہ اس کا خیال رکھتی ہے نہ اس کے ساتھ بیٹھتی ہے اور اگر بیٹھ بھی جاتی ہے تو بھچے کو اپنے ساتھ لے لیتی ہے اور اسے لوری دینے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ہنستی کھیلتی ہے اور شوہر کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔ اس کی خدمت کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ان سب باتوں میں اس کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ بچے کے ساتھ مصروف ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر اس سے کسی موضوع پر بات کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ سنتے سنتے ایک دم بچے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور اس سے کھیلنے لگتی ہے۔ اس قسم کی حرکتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے شوہر کی بالکل بھی پرواہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے اسے غصہ آتا ہے اور پھر یہ غصہ اس کے کاموں میں بھی نظر آتا ہے چنانچہ وہ بات بات پر جھنجھلانے لگتا ہے گھر سے باہر رہنے لگتا ہے اور کسی بہتر ماحول کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں عقلمند اوروفا شعار بیوی طریقے کے ساتھ شوہر اور بچے کے درمیان اپنے اوقات بانٹتی ہے مثال کے طور پر جب شوہر گھر میں نہیں ہوتا تو وہ زیادہ سے زیادہ بچے کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتی ہے اور جب وہ آنے والا ہوتاہے تو اس سے پہلے ہی بچے کو سلا دیتی ہے ایسی عورت کی پوری کوشش ہوتی ے کہ بچے میرے بھی توجہ سے نہ ہٹے اور اسے شوہر کی خدمت سے بھی محروم نہ ہونا پڑے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۰۔ بناو سنگار:
کوئی عورت بھی خوبصورتی سے خالی نہیں ہوتی لیکن اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کے سامنے کسی طرح سے اسے خوبصورتی کا اظہار کرتی ہے اور اس پر مختلف رنگ چڑھاتی ہے۔ کتنی ہی خوبصورت عورتیں ایسی ہیں جو اپنی خوبصورتی کو صحیح طریقے سے اپنے شوہر کے سامنے لانے سے قاصر ہیں بلکہ وہ سرے سے اسے ظاہر ہی نہیں کرتیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا پھوڑپن ان کی خوبصورتی کو دفن کر دیتا ہے اور ان کے پرکشش نقوش کو چھپا دیتا ہے۔

ہر بیوی کو یہ علم ہوتا ہے کہ کونسے رنگ اور موڈیلز اس کے لیے مناسب ہیں جو اس کی خوبصورتی سے مطابقت رکھتے ہیں اور اس کے نازک حصوں کو ابھارتے ہیں اس لئے بیوی کو چاہیے کہ وہ ان امور پر خصوصی توجہ دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج فساد ہر جگہ پھیل چکا ہے اور عورتیں بہترین سے بہترین میک اپ کرکے پوری آب و تاب کے ساتھ باہر نکلتی ہیں اور ٹی وی پر بھی نظر آتی ہے۔

مثال کے طور پر جب شوہر کا استقبال کرے تو وہی لباس زیب تن کرے جو شوہر کو پسند ہو اور جسے پہلے پہننے پر شوہر نے اس کی خوبصورتی اور حسن کی تعریف کی ہو اور پھر اسے بھی مختلف انداز یا رنگوں میں پہنے، اور سوتے وقت وہ لباس پہنے جس سے اس کے خاص حصے ظاہر ہوتے ہوں اور اس کے شوہر کے اندر جنسی عمل کی خواہش کو بیدار کرتے ہوں۔ اس کے درمیان میاں بیوی میں وہ کوئی بھی مناسب لباس زیب تن کر سکتی ہے تاکہ وہ اپنے شوہر کی نگاہ اور اس کے دل کی حفاظت کرسکے اور تاکہ بیوی کو یہ بھی علم ہوسکے کہ خوبصورتی کا تعلق لباس کی قیمت سے نہیں ہوتا چنانچہ ہر مہنگی قیمت والا لباس عورت کی خوبصورتی کو نہیں بڑھاتا اور نہ اسے ظاہر کرتا ہے۔ بلکہ خوبصورتی کا دارومدار بہت حد تک بیوی کے حسنِ انتخاب اور اپنے لحاظ سے لباس کے انتخاب پر ہوتا ہے۔ نیز خوبصورتی بھنویں اتروانے یا چٹیا یا وگ لگانے یا دانتوں کے درمیان جگہ کرانے سے بھی نہیں آتی۔ یہ سب حرام اور ناجائز طریقے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۱۔ صفائی ستھرائی:
خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لئے جو چیز سب سے زیادہ مدد دیتی ہے وہ ہے صفائی بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ صفائی آدھی خوبصورتی ہے اس لئے ہر ماں اپنی بیٹی کو صاف ستھرا رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

ایک ماں نے اپنی بیٹی کو یہ نصیحت کی: اے میری بیٹی! اپنے جسم کی صفائی سے کبھی غافل مت ہونا کیونکہ چہرے کو چمکا دیتی ہے۔ شوہر کے دل میں بیوی کی محبت پیدا کرتی ہے۔ بیماریوں سے دور رکھتی ہے اور کام کرنے کے لئے تمہارے بدن میںطاقت و خون پیدا کرتی ہے۔ گندی عورت سے سب لوگ دور بھاگتے ہیں۔ نگاہیں اسیر پڑنے سے پہلے ہی کترا کر نکل جاتی ہیں اور کان اس کا ذکر سننا پسند نہیں کرتے۔ اگر تم اپنے شوہر سے ملو تو خوش و خرم ، مسکراتے ہوئے ملو۔ کیونکہ محبت ایک جسم ہے جس کی روح چہرے پر چھائی خوشی اور ہشاش بشاش طبیعت ہے۔

صفائی خوبصورتی، ذوق اور حسنِ تربیت کی دلیل ہے اس لئے بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو، اپنے گھر کو، اپنے بچوں کو، اور اپنے شوہر کو صاف ستھرا رکھے۔ یہ ایک بہت ہی غیر مناسب بات ہے کہ جب بھی شوہر گھر میں داخل ہو تو اسے اپنے بچوں میں سے غسل نہ کرنے کی وجہ سے بو آتی محسوس ہو گھر گردوغبار اور میل کچیل سے اٹا ہوا ہو، اے سی پر دھول مٹی جمی ہے اور چھت کے کونے پر مکڑیوں نے اپنے جالے بنائے ہوئے ہیں۔ میز پر جوس گرا ہوا ہے جسے صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ باتھ روم میں سے سٹرانڈ پھوٹ رہی ہے باورچی خانے میں سٹی ہوئی پلیٹیں اور دنیا جہاں کا گند جمع ہے۔

ڈسٹ بن کوڑے سے بھرا ہوا ہے اور اس کے آس پاس بھی کوڑا پڑا ہے ڈرائنگ روم کی کوئی دنوں سے صفائی نہیں ہوئی۔ بچے کے پیچس کئی دنوں سے سڑ رہے ہیں تبدیل نہیں کیا گیا۔ دوسرا بچہ کل سے اپنے میلے کپڑے پہنے گھوم رہا ہے۔ میاں بیوی کے بیڈ روم کا حشر نشر ہوا ہوا ہے نہ اس کی صفائی کی گئی ہے اور نہ ترتیب۔ اس طرح کی حالت اور بیوی کا یہ طرز عمل شوہر کا دل گھر سے اچاٹ کر سکتا ہے اور آج کل کے زمانے میں عورت کے لئے کوئی عذر بچا ہی نہیں کیونکہ صفائی کے وسائل اور مشینیں بکثرت موجود ہیں اور خوشبودار اسپرے بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔

امام ابن الجوزی (کتاب النساء) میں صفائی کے متعلق فرماتے ہیں: (بہترین خلقت اور کمالِ حسن کے بعد جو چیز بیوی کی شوہر کی نظروں میں قدرو منزلت بڑھاتی ہے وہ یہ ہے کہ بیوی اپنے آپ کو صاف ستھرا بنائو سنگھار کے ساتھ رکھے اور زیور مختلف قسم کے لباس اور ایسی تمام چیزیں استعمال کرے جس سے اس کا حسن دوبالا ہوتا ہو اور شوہر اسے پسند کرتا ہو نیز عورت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مرد کی نگاہ کسی گند یا بو یا کسی خراب چیز پر نہ پڑے۔

ایسے امور میں کوتاہی کرنا عورت کے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے شوہر یہ تاثر لے گا کہ بیوی کو اس کا کوئی خیال نہیں ہے پھر وہ کسی اور عورت کو تلاش کرے گا نیز وہ اوقات جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں اور جن میں عزیز و اقارب اور بچوں کو میاں بیوی کی بغیر اجازت ے ان کے پاس جانے سے منع کیا ہے ان اوقات میں خوب اچھی طرح سج دھج اور بنائو سنگار کرے) وہ اوقات یہ ہیں۔ ترجمہ: اے ایمان والو تمہارے ناکام اور تمہارے لونڈوں کو تین مرتبہ تم سے اجازت لے کر تمہارے پاس آنا چاہیے۔ فجر کی نماز سے پہلے اور ظہر میں جب تم آرام کرتے ہو اور عشاء کے بعد یہ اوقات تمہارا ستر ہیں۔ (۱) (سورہ نور (آیت ۵۸)

نیز بیوی کو یہ جاننا چاہیے کہ کتنے ہی شوہر ایسے ہیں جو گھر آتے ہیں اور ان کے دل میں بیوی کے پاس جانے کی خواہش ہوتی ہے لیکن پہلا بوسہ دیتے ہیں ان کی ناک سے جو بدبو ٹکراتی ہے وہ ان کے سارے شوق، کرور اور مستی کو کافور کر دیتی ہے نیز ی بھی دیہان رہے کہ بیوی کو جو سج دھج بنائو سنگار کا حکم ہے وہ صرف اپنے شوہر کے لئے ہے نیز اس بنائو سنگار اور زیب زینت میں حد سے زیادہ مبالغہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ اس کی ساری فکریں پریشانیاں اسی بنائو سنگار سے جڑی ہوں اور اسی پر آکر ختم ہوتی ہوں ایسی صورت میں یہ اسی عورت کی کم عقلی اور جہالت کی دلیل ہے۔
 
Top