محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۱۔ شوہر کے گھر والے (قریبی سسرال) کا حترام کرنا: شو ہر کے نزدیک اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ اس لئے جب اس کے گھر والے اس کی بیوی کو پسند کرتے ہیں۔ تو اس کے لئے شوہر کی محبت میں زیادتی و اضافے کا باعث بنتا ہے۔ پھر جب وہ بھی ان کا احترام کرتی ہے اور ان سے پیار محبت سے پیش آتی ہے تو شوہر کی محبت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر بیوی کے لے شوہر کے گھر والوں کی محبت میں کمی آجائے ۔بیوی کی ذمے داریاں
یا خود بیوی کے دل میں شوہر کے گھروالوں کا احترام کم ہوجائے تو شوہر کی محبت بھی بیوی کے لئے کم ہوجائے گی۔ اس لیے ایک اچھی سگھڑ، اور سلیقہ شعار بیوی وہ ہوتی ہے جو ان کی خدمت کرے ان کا دل جیت لیتی ہے ان کے عیوب پر پردہ ڈالتی ہے اور ان کی خوبیوں کی تعریف کرتی ہے اور شوہر کے سامنے ان میں کوئی عیب نہیں نکالتی۔ اگر گھر والوں سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو ایسی بیوی کو چاہیے ان کی برائی نہ کرے اور نہ گالیاں دے اور نہ شوہر کے آتے ہی اسے خبر کرے کیونکہ یہ چیز شوہر کو ناراض کر دے گی۔ ایسی صورت اسے چاہیے کہ تحمل سے کام لے اور اگر ظلم کرنا ان کی عادت نہیں ہے تو ان کی غلطی پر صبر کرے۔ ایسا کرکے یقینا وہ شوہر کے دل میں بھی گھر کر لے گی، اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرے گی۔ اور شوہر کے گھروالے بھی اس سے خوش رہیں گے۔ ذیل میں ہم چند ایسے اسباب ذکر کر رہے ہیں جن پر عمل کرکے بیوی شوہر کے گھر والوں کا دل جیت سکتی ہے۔
۱۔ تھوڑے عرصے کے بعد انھیں کوئی نہ کوئی تحفہ دینا۔
۲۔ ان کے دکھ سکھ میں ان کا شریک بننا۔
۳۔ ان سے ملنے جانا اور ساتھ میں کوئی کھانے پینے کی چیز لیتے جانا جو بیوی نے خود تیار کی ہو۔
۴۔ اپنے گھر بلا کر خوب خاطر مدارت کرنا۔
۵۔ ان کے راز کو چھپانا اور افشاں کرنے سے گریز کرنا۔
۶۔ اگر وہ کسی غیر مناسب وقت پر اس سے ملنے آجائیں یا بغیر بتائے آجائیں تو غصے یا ناگواری کا اظہار نہ کرنا۔
۷۔ ان کے ذاتی معاملات میں داخل اندازی گریز کرنا۔
۸۔ ان کے سامنے اپنے شوہر کی زیادہ سے زیادہ تعریف کرنا اس کی برائی نہ کرنا۔
۹۔ ان کے کسی خاص اجتماعی اسلوب یا عادت پر نکتہ چینی نہ کرنا سوائے اس کے کہ وہ دینِ حنیف کی تعلیمات سے متصادم ہو۔ اور ایسی صورت میں بھی انھیں نرمی و حکمت سے سمجھائے۔
۱۰۔ اگر وہ سکی اور شہر میں رہتے ہوں تو ہر تھوڑے عرصے میں ان کی خیریت معلوم کرتے رہنا۔
۱۱۔ لوگوں کے سامنے ان کی تعریف کرنا۔
ایک سگھڑ، سلیقہ شعار اور عقل مند بیوی اپنے شوہر کے گھر والوں کے دل جیتنے کے لئے نت نئے طریقے و وسائل استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتی۔
بعض اوقات شوہر زندگی میںمختلف مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے مثال کے طور پر مالی حالات کا خراب ہونا۔ کسی رشتے دار یا جن کے ساتھ کام کرتا ہے اس سے ان بن ہوجانا۔ کسی قریبی رشتے دار کا انتقال ہوجانا وغیرہ۔ ایسے حالات میں شوہر ذہنی طور پر پریشان رہتا ہے۔ ایسی صورتحل میں میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کا ساتھ دے اس کی غم گساری کرے اور جتنا ہوسکے اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرے اور اسے صبر کی تلقین کرے۔ خدیجہؓ کی حدیث میں ایک مثالی بیوی کے لئے بہترین نمونہ موجود ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانپتے ہوئے خون کی حالت میں گھر آئے تو خدیجہؓ نے ان تسلی اور صبر دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں غریب و نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور حق بات پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (۱) (بخاری)۔شوہر کے جذبات و احساسات میں اس کے ساتھ شریک ہونا اور اس کا ساتھ دینا:
ذرا خدیجہؓ کو دیکھتے کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف کو کم کر رہی ہیں اور ان کے دل کو تسلی دے رہی ہیں اور اس پریشانی میں ان کے ساتھ ہیں۔ پھر خدیجہؓ آپ کو ورقۃ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو اس زمانے کے عالم تھے اور توحید پر ثابت قدم تھے۔ آپؓ نبی کریم کو کسی نجومی یا جادوگر کے پاس نہیں لے گئیں بلکہ عالم کے پاس لے گئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مکمل طور پر مطمئن ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ نے نہ صرف یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان و تسلی دی بلکہ آپ کے مسئلے کا حل بھی نکالا۔ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابیوں کی حدیث جسے عبد اللہ بن کعب بن مالک نے روایت کیا ہے۔ کعب فرماتے ہیں۔ اھلال بن امیہ کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بولی اے اللہ کے رسول ھلال بن امیہ بوڑھا شخص ہے اور اس کو کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے۔ کیا میں اگر ان کی خدمت کرنا چاہوں تو آپ اسے ناپسند کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن وہ تمہارے قریب نہ جائے۔ عورت بولی: اللہ کی قسم اس میں تو کسی قسم کی حرکت باقی نہیں رہی۔ جب سے یہ معاملہ ہوا ہے وہ مسلسل روئے جارہا ہے۔ (۱) (بخاری)
ذرا ھلال بن امیہ کی بیوی کو دیکھے کیسے بے چینی طبیعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتی ہیں اور ان سے اپنے شوہر کی خدمت کی اجازت مانگتی ہیں اور پھر سے نہیں بلکہ ان کی طرف سے ان کا دفاع کرتی ہیں کہ وہ مسلسل گریہ و زاری کر رہے ہیں اور اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہیں۔ یہ ہیں ایک سلیقہ شعار نیک بیوی جو اپنی ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔
اسی طرح بیوی شوہر کی خوشی میں بھی شوہر کا ساتھ دے۔ اگر شوہر کو کسی قسم کی کوئی خوشی نصیب ہو یا اس کے گھر والوں کے حوالے سے کوئی خوشی نصیب ہو تو بیوی کو چاہیے کہ وہ خوش ہو اور پسپائے چہرے کے ساتھ شوہر کا استقبال نہ کرے اگرچہ اس کا کوئی پریشانی لاحق ہو تا کہ وہ شوہر کا دل جیت سکے۔