• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیوی کی ذمے داریاں۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تکلیف یا مصیبت کے علاوہ کسی حال میں شوہر سے طلاق نہ مانگے۔
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت بغیر کسی وجہ سے اپنے شوہر سے طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ابوداؤد)

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ عورتوں کو ڈرا رہے ہیں کہ جس عورت نے بغیر کسی شرعی سبب کے مرد سے طلاق مانگی وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گی۔ شرعی سبب سے مراد یہ ہے کہ نماز نہ پڑھتا ہو یا اباحی افکار و خیالات کا حامل ہو وغیرہ۔ اس بناء پر طلاق مانگنے کا فیصلہ علماء سے رجوع کرنے اور اس حالت کا حکم معلوم کرنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔

رہی بات ان بیویوں کی جو چھوٹی چھوٹی بات پر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر بیٹھتی ہیں۔ مثلاً شوہر غریب آدمی ہے یا وہ انہیں باہر گھمانے نہیں لے جاتا وغیرہ وغیرہ دنیوی اسباب تو یہی وہ طلاق ہے جس پر حدیثِ مذکور کی وعید منطبق ہوتی ہے۔ اس لئے عورت کو اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہئے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بیوی زیادہ شکوے شکایتیں نہ کرے اور نہ شور مچائے
جب ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے تو اس وقت وہ آپ کو نہ ملے لیکن انکی بیوی مل گئیں۔ آپ نے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔ بیوی بولیں: وہ ہمارے لئے رزق ڈھونڈنے نکلا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے گھر کے حالات اور زندگی کے بارے میں پوچھا۔ وہ بولی: ہم تنگی اور سخت مشکل میں ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:جب تمہارا شوہر آئے تو اُسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دے۔

جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو انہیں کچھ مانوسیت سی محسوس ہوئی۔ انہوں نے پوچھا: کیا کوئی آیا تھا؟ وہ بولیں:ہاںایک بوڑھا آدمی آیا تھا اور آپ کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ انہوں نے کہا: کیا اس نے تمہیں کوئی نصیحت کی؟ وہ بولیں: ہاں مجھے آپ کو کہنے کو کہا اور آپ کو کہا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل لو۔ انہوں نے فرمایا: یہ میرا باپ تھا اور اس نے مجھے تمہیں چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ تم اپنے گھر جاؤ۔ اس کے بعد آپ نے انہیں طلاق دے دی اور اسی قبیلے میں سے دوسری عورت سے شادی کر لی۔ (السیرۃ النبویۃ کما جاء ت الاحادیث الصحیحۃ (قراء ۃ جدیدۃ تالیف محمد صویان)۔

اس حدیث میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ بتلایا ہے کہ بکثرت شکوے شکایتیں کرنے والی بیوی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی عورت پریشانی پر ایک اور پریشانی ہوتی ہے نہ وہ کوئی امید دلاتی ہے اور نہ کوئی بھلائی دیتی ہے بلکہ زندگی کو اور زیادہ بیزار کر دیتی ہے۔ اور عزم و ہمت کا گلا گھونٹ کر رکھ دیتی ہے۔

اس لئے ایسی عورت ایسا گھر نہیں بنا سکتی جہاں خوش بختی کا دوردورہ ہو۔ جہاں چپے چپے پر اطمینان اور سکون ہو۔ اس لئے بیوی کو چاہئے کہ اپنے شوہر کی قدر کرے اور اس سے زیادہ شکوے شکایتیں نہ کرے۔

وہ گھر والوں سے یا اُن کی اجتماعی حالات نے نیز گھر کے کسی چھوٹے موٹے کام میں تھک جانے پر بھی شکایت نہ کرے بلکہ شوہر کے سامنے خوش و خرم رہے اور اس کے ساتھ ہرحال میں اظہارِ محبت کرے تاکہ زندگی خوشگوار محسوس ہو۔ اور دونوںمیاں بیوی کے لئے امن و سکون اور خوشی کا گہوارہ بن جائے اور آنے والی نسل کے لئے ایک بہترین اسلامی تربیت گاہ ثابت ہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شوہر کے ہر کام میں اس کا شکریہ ادا کرے اور اس کی تعریف کرے۔
مناسب ہے کہ پچھلے صفحات پر ذکر کی گئی ابراہیم علیہ السلام کی حدیث میں یہاں مکمل کر دوں۔

اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام چلے گئے۔ پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ آئے اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام اس وقت بھی گھر موجود نہ تھے۔ آپ اندر آئے اور ان کی بیوی سے انکی زندگی اور حالات کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا: ہم خیر و عافیت سے ہیں۔اور پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا: تمہارا کھانا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت اور پانی۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: جب تمہارا شوہر آئے تو اُسے میرا سلام کہنا اور اُسے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ ثابت رکھے یعنی تبدیل نہ کرے۔ (ایضاً)۔

یہ و ہ بیوی ہیں جو نبی کی بیوی ہونے اور کہلائے جانے کی مستحق ہے۔ صابر و شاکر۔کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتی بلکہ اپنے شوہر کی تعریف کرتی ہے۔ اور اپنے طرزِ زندگی پر شاکر ہے۔ اللہ کی تعریف بیان کرتی ہیں۔ کوئی شکایت ہے نہ واویلا اور نہ کچھ بدلنے کی طلبگار ہے بلکہ صبر سے زندگی گذار رہی ہے۔

نیز بیوی کو چاہئے کہ شوہر کے سامنے شوہر کی تعریف کرے اور اس کی خوبیوں کو سراہے۔ ہر شوہر میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی ہوتی ہے جس پر اس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ نیز اگر شوہر کوئی کام اچھی طرح کرتا ہے یا اللہ کے لئے کوئی نیکی کرتا ہے یا کوئی نیا لباس پہنتاہے وغیرہ وغیرہ تو بیوی کوچاہئے کہ شوہر کی تعریف کرے کیونکہ ایسی تعریف سے شوہر خوش ہوتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی قدر کرتی ہے جس سے دونوں میاں بیوی میں محبت اور وفاداری بڑھتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شوہر جھوٹ بولنے سے گریز کرے۔
جھوٹ ہر حال میں کبیرہ گناہ اور قباحت ہے لیکن شوہر کے ساتھ جھوٹ بولنا جو کہ زندگی کا ساتھ ہے اور بھی بڑا گناہ ہے اور جھوٹ کو کتنے ہی دن کیوں نہ گذر جائیں بالآخر شوہر کو پتہ چل جاتا ہے کیونکہ وہ بیوی کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور دن کا اکثر حصہ اس کے ساتھ گذارتا ہے۔

میرے خیال میں مجھے یہاں پر جھوٹ کی مذمت کے دلائل ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پرائمری کلاسوں کے بچوں کو بھی پتہ ہے کہ جھوٹ حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تین صفات جس میں ہیں وہ منافق ہے اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور خود کو مسلمان سمجھے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (بخاری و مسلم)

نیز ایک اور حدیث میں ہے: جو انسان مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے میں اُسے جنت کے وسط میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں۔ (ایضاً)
اور آپ ﷺ فرماتے ہیں: جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اُسے چھوڑ دو اور جو صاف اور واضح ہو اسے پکڑ لو کیونکہ سچائی اطمنان کا نام ہے اور جھوٹ شک کا نام ہے۔(البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن لغیرہ کہا ہے)
ان احادیث میں نبی کریم ﷺ نے صاف صاف یہ بتایا ہے کہ سچائی اطمینان کا نام ہے جس کا نتیجہ ابدی سعادت اور خوش بختی کی صورت میں نکلتا ہے اور جھوٹ شک، الجھن اور دل کی پریشانی کا نام ہے جس سے دل پریشان اور فکرمند رہتا ہے۔ اور جھوٹ کا عرصہ کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو جائے بالآخر اُس کا پول کھل جاتا ہے اور پھر انجام المناک اور ہلاکت آمیز ہوتا ہے۔

کتنی ہی ایسی بیویاں ہیں جنہیں صرف جھوٹ کی وجہ سے طلاق ہوئی۔ ان کے گھر برباد ہوئے۔ ان کے بچے بے گھر ہوئے۔ حالانکہ ان کے خیال میں یہ جھوٹ ہی انہیں مصیبت سے نکالنے کا واحد راستہ تھا۔

وہ بیوی جسے اُس کا شوہر باہر نکلنے سے منع کرچکا ہے پھر وہ نکلتی ہے اور اس سے جھوٹ بولتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ پڑوسن کے یہاں ہے کیونکہ پڑوسن بیمار ہے۔ اور وہ بیوی جسے اس کا شوہر کسی خراب عورت کے ساتھ نکلنے سے منع کرتا ہے۔ پھر وہ بیوی اسکے ساتھ نکلتی ہے اور شوہر سے جھوٹ بولتے ہوئے کہتی ہے کہ میں تو اپنی بہنوں کے ساتھ گئی تھی وغیرہ وغیرہ قسم کے جھوٹ۔ ایک نہ ایک دن جب شوہر کو اس کا پتہ چل جائے گا تو پھر قیامت برپا ہو گی اور طلاق طلاق کی آوازیں سنائی دیں گی۔
 
Top