• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک تجدد اور متجددین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ڈاکٹر یوسف قرضاوی

پیدائش اور ابتدائی واعلیٰ تعلیم
ڈاکٹر یوسف قرضاوی جمہوریہ عربیہ مصر میں ایک گاؤں 'صفت تراب' میں ٩ ستمبر ١٩٢٦ء کو پیدا ہوئے اور تاحال حیات ہیں۔ ان کی عمر اس وقت پچاسی برس کے لگ بھگ ہے۔ دو سال کی عمر میں ہی یتیم ہو گئے تھے اور ان کی پرورش ان کے چچا نے کی۔ انہوں نے دس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی قرآن کریم مکمل طور پر حفظ بھی کر لیا اور اس کی تجوید کا علم بھی حاصل کرلیاتھا۔ اپنی پرائمری' مڈل اور ہائی سکول کی تعلیم انہوں نے جامعہ ازہر سے ملحق 'معہد العلوم الاسلامیة' سے حاصل کی ۔بعد ازاں جامعہ ازہر میں عربی زبان و ادب کے شعبہ سے ١٩٥٤ء میں اپنی گریجویشن مکمل کی۔ ١٩٥٨ء میں انہوں نے 'معہد الدراسات العربیة العالیة فی اللغة والأدب' سے ڈپلومہ مکمل کیا۔ ١٩٦٠ء میں جامعہ ازہر ہی میں کلیہ اصول الدین سے اپنا ایم اے مکمل کیا' جبکہ١٩٧٣ء میں اسی کلیہ سے 'الزکاة وأثرھا فی حل المشاکل الاجتماعیة' کے عنوان سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔

خاندان
١٩٥٨ء میں ایک مصری خاتون'سعاد' سے شادی کی اور اس بیوی سے ان کے چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ دوسری شادی انہوں نے ایک الجزائری خاتون سے اسّی(٨٠) کی دہائی میں کی۔ ان کے تین بچوں نے ڈاکٹریٹ(پی ایچ ڈی) کیا ہوا ہے۔ ان کی ایک بیٹی 'الہام قرضاوی' عالمی شہرت یافتہ نیوکلر سائنسدان ہے اور اس نے فزکس میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ ان کی ایک دوسری بیٹی 'اسہام قرضاوی' نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ان کے ایک بیٹے 'عبد الرحمن یوسف' مصر کے معروف شاعر اور سیاسی طور پر بھی کافی متحرک آدمی ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
عالمی دینی' علمی اور اقتصادی اداروں کی سربراہی
شیخ قرضاوی عالم اسلام کی کئی ایک معروف عالمی فقہ اکیڈمیوں' علمی مجالس اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور رکن رہے ہیں یا تاحال ہیں۔ انہوں نے ١٩٦١ء میں قطر کی طرف ہجرت کی اور انہیں وہاں کی شہریت مل گئی۔١٩٧٧ء میں انہوں نے قطر یونیورسٹی میں علومِ اسلامیہ اور علومِ شرعیہ کی فیکلٹی(faculty) کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے ڈین (dean)مقرر ہوئے اور ١٩٩٠ء تک اس کے ڈین رہے۔ اسی سال انہوں نے قطر میں ہی 'مرکز بحوث السنة والسیرة النبویة' کی بنیاد رکھی اور تاحال اس کے مدیرہیں۔

علاوہ ازیں شیخ قرضاوی یورپین ممالک میں رہائش پذیر مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے آئر لینڈ میں قائم یورپین فقہ اکیڈمی یعنی مجلس الأوروبی للافتاء والبحوث کے صدر ہیں۔ اس مجلس کے اراکین میں
شیخ فیصل مولوی (لبنان)
شیخ حسین محمدحلاوہ (آئر لینڈ)
شیخ ڈاکٹر احمد جاء باللہ (فرانس)
شیخ ڈاکٹر احمد علی الامام (سوڈان)
شیخ مفتی اسمٰعیل کشوفلی (برطانیہ)
استاذاحمد کاظم الراوی (برطانیہ)
شیخ أنیس قرقاح (فرانس)
شیخ راشد الغنوشی (برطانیہ)
شیخ ڈاکٹر عبد اللہ ابن بیہ (سعودی عرب)
شیخ عبد الرحیم ا لطویل (سپین)
شیخ عبد اللہ بن علی سالم (موریطانیہ)
شیخ عبد اللہ بن یوسف الجدیع (برطانیہ)
شیخ عبد المجید النجار (فرانس)
شیخ عبد اللہ بن سلیمان المنیع (سعودی عرب)
شیخ ڈاکٹر عبد الستار ابوغدة (سعودی عرب)
شیخ ڈاکٹر عجیل النشمی (کویت)
شیخ العربی البشری (فرانس)
شیخ ڈاکٹر عصام بشیر (سوڈان)
شیخ علی القرة داغی (قطر)
شیخ ڈاکٹر صہیب حسن احمد (برطانیہ)
شیخ طاہر مہدی (فرانس)
شیخ محبوب الرحمن (ناروے)
شیخ محمد تقی عثمانی (پاکستان)
شیخ محمد صدیق (جرمنی)
شیخ محمد علی صالح منصور (متحدہ عرب امارات)
شیخ ڈاکٹر محمد الہواری (جرمنی)
شیخ محمود مجاہد (بلجیم)
شیخ ڈاکٹر مصطفی سیریتش (بوسنیا)
شیخ نہاد عبدالقدوس سفتسی(جرمنی)
شیخ ڈاکٹر ناصر بن عبد اللہ میمان (سعودی عرب)
شیخ یوسف ابرام (سوئٹزر لینڈ) اور
ڈاکٹر صلاح سلطان (مصر) شامل ہیں۔


اسی طرح شیخ قرضاوی مصر میں قائم عالمی فقہ اکیڈمی 'مجمع البحوث الاسلامیة' کے رکن ہیں۔ کسی دور میں پاکستان سے علامہ یوسف بنوری صاحب بھی اس اکیڈمی کے رکن رہے ہیں۔ اسی طرح شیخ قرضاوی مکہ مکرمہ میں قائم رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت فقہی اکیڈمی 'مجمع الفقہ الاسلامی' کے بھی رکن ہیں۔

علاوہ ازیں قطر اسلامی بینک (قطر)اور فیصل اسلامی بینک( بحرین) کی شریعہ ایڈوائزنگ کمیٹی کے سربراہ ہیں۔شیخ یوسف قرضاوی سوئٹزر لینڈ میں قائم بینک 'التقویٰ' کے اساسی شیئر ہولڈر اور شریعہ ایڈوائز ر رہے ہیں۔امریکہ نے اس بینک کے قیام کو مالیاتی دہشت گردی کا نام دیااور امیریکن سیکورٹی کونسل نے اس پر القاعدہ کے ساتھ مالی تعاون کا الزام بھی عائد کیا۔ ٢ اگست ٢٠١٠ء کو یہ الزام اس بینک سے اٹھا لیا گیاہے۔

شیخ قرضاوی آکسفورڈ یونیورسٹی میں قائم 'سنٹر فار اسلامک سٹڈیز ' کے ٹرسٹیز میں سے ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی بھی کسی زمانہ میں اس سنٹر کے صدر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں افریقہ میں دعوت اسلامی کے فروغ کے لیے قائم منظم ادارے 'منظمة الدعوة الاسلامیة' کے ٹرسٹیز میں سے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ شیخ کویت میں قائم زکوٰة کے عالمی ادارے 'الھیئة الشرعیة العالمیة للزکاة' کے نائب صدر ہیں۔

وہ کئی سال تک پہلے اسلامی بینک یعنی دوبئی اسلامی بینک کے اعزازی شریعہ ایڈوائزر کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ قطر اسلامی بینک' قطر انٹرنیشنل اسلامی بینک' فیصل اسلامی بینک بحرین' تقویٰ بینک سوئٹزرلینڈ کی شریعہ ایڈائزنگ کمیٹی کے صدر بھی ہیں۔ اسی طرح وہ فیصل اسلامی بینک مصر کی مینیجنگ کمیٹی کے رکن اور جمعیت اقتصاد اسلامی مصرکے تاسیسی رکن ہیں۔ شیخ قرضاوی 'The Message' کی طرح ملین ڈالرز کی کھپت سے بننے والے نئی اسلامک مووی 'Muhammad' کے شریعہ ایڈاوائزر بھی ہیں۔

بین الاقوامی اعزازات
شیخ قرضاوی کو ان کی دینی' علمی' ثقافتی اور دعوتی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی ایک عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے' جن میں سے چند ایک کا ذکر ہم ذیل میں کر رہے ہیں:
١) انہیں١٩٩١ء میں اسلامی معاشیات میں خدمات کے بدلے 'اسلامک ڈویلپمنٹ بینک پرائز' دیا گیا۔
٢) ١٩٩٤ء میں علوم اسلامیہ میں خدمات کے عوض'شاہ فیصل انٹرنیشنل پرائز' دیا گیا۔
٣) ١٩٩٧ء میں برونائی کے سلطان نے انہیں 'اسلامک جیورس پروڈنس' میں خدمات کے عوض انعام دیا۔
٤) ١٩٩٩ء میں انہیں ثقافتی اور سائنسی خدما ت کے نتیجے میں 'سلطان العویس' انعام دیا گیا۔
٥) ٢٠٠٠ء میں انہیں'دوبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ' دیا گیا ۔
٦) ٢٠٠٨ء میں علوم اسلامیہ میں خدمات کے عوض حکومت قطر نے ان کے لیے خصوصی انعام جاری کیا۔
٧) ٢٠٠٩ء میں ملائیشیا حکومت نے انہیں 'ہجرت نبویہ' ایوارڈ دیا۔
٨) ٢٩ ستمبر ٢٠١٠ء کو شاہ اردن نے انہیں خصوصی انعام عطا کیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
عالم اسلام میں اثر و نفوذ
شیخ قرضاوی عالم اسلام میں بہت گہرا اور بڑااثر و نفوذ رکھنے والے چند بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا ٹی وی پروگرام 'الشریعة والحیاة' عرب دنیا میں بہت ہی معروف پروگرام شمار ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس پروگرام کو سننے والے افراد کی تعداد تقریباًچار کروڑ ہے۔ اس پروگرام کو 'الجزیرة' ٹیلی ویژن نشر کرتا ہے۔ شیخ قرضاوی اس وقت انگریزی زبان میں فتاوی کی معروف ویب سائیٹ 'اسلام آن لائن' میں صدر مفتی کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ٢٠٠٨ء میں 'فارن پالیسی' میگزین نے ان بیس افراد میں قرضاوی کو تیسرے نمبرپر کھا جو دنیا بھر میں intellectuals کے طبقہ میں گہرا اثر ونفوذ رکھتے ہیں۔

٨ مئی ٢٠٠٩ء کو جب اللہ کے رسول ۖ کی طرف منسوب خاکے شائع کرنے والے ڈنمارک کے اخبار کا ایک نمائندہ' قطر' میں کسی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آیا تو شیخ قرضاوی نے حکومت قطر پرکڑی تنقید کی کہ انہوں نے کیوں اس صحافی کو قطر میں داخلے کی اجازت دی۔ حکومت قطر نے بعد ازاں یہ کہہ کر معذرت پیش کی کہ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اس صحافی کا تعلق اس بدنام زمانہ اخبار سے ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی کتاب 'وسائل الأعلام' میں شیخ قرضاوی کے عالم اسلام میں اثر و نفوذ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی مساعی و جدوجہد کی تحسین فرمائی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
الاخوان المسلمون سے تعلق
ڈریم چینل کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن البناء کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے بعد ازاں 'الاخوان المسلمون' کی قیادت کی بھی پیشکش کی گئی لیکن میں نے ایک جماعت کی نسبت تمام امت کے لیے ایک روحانی پیشوا ہونے کو زیادہ پسند کیا۔ مجھے الاخوان سے محبت ہے اور میں انہیں صراط مستقیم سے نزدیک تر گروہ سمجھتا ہوں۔
شیخ قرضاوی کو دو مرتبہ الاخوان کی طرف ١٩٧٦ء اور ٢٠٠٤ء میں صدارت اور قیادت کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔

١٩٤٩ء میں شاہ فاروق کے زمانے میں ان کو اخوان سے تعلق کی وجہ سے قید کیا گیا۔ اس کے بعد جمال عبد الناصر کے زمانے میں بھی انہوں نے تین دفعہ جیل کاٹی۔ پہلی دفعہ جنوری ١٩٥٤ء میں جیل بھیجے گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد رہا ہوگئے لیکن نومبر ١٩٥٤ء میں پھر تقریباً ٢٠ ماہ کے عرصہ تک جیل میں رہے۔ تیسری مرتبہ ١٩٦٣ء میں جیل بھیجے گئے۔

انہوں نے 'الاخوان المسلمون سبعون عاما فی الدعوة والتربیة والجھاد' نامی کتاب لکھی ہے' جس میں انہوں نے اخوان کی ابتدا سے لے کر بیسویں صدی کے اخیر تک اس کی ستر سالہ کاوشوں کا جائزہ لیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دعوتی اور تحریکی کام
شیخ قرضاوی کا کہنا یہ ہے کہ وہ ١٥ سال کے تھے جب انہوں نے دعوت اور تحریک کا کام شروع کیا 'یعنی ان کے دعوتی اور تحریکی کام کی عمر اس وقت ٧٠ سال ہے۔ شیخ قرضاوی متفرق مواقع پر شعر بھی کہتے رہے ہیں۔ ان کے یہ اشعار 'نفحات ولفحات' کے عنوان سے ایک جگہ جمع کر دیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم نمونے کے طور پر ان کے چند اشعار بیان کر رہے ہیں جو انہوں نے اخوانی بھائیوں کے ساتھ جیل کے دوران کہے تھے ۔ یہ ان کا ایک مکمل قصید ہ ہے جو تقریباً ٣٠٠ اشعار پر مشتمل ہے اور 'ملحمة الابتلاء' کے نام سے معروف ہے۔ اس قصیدہ کے یہ آخری اشعار ہیں جو ان کے جذبہ ایمانی' فکر کی پختگی اور تحریکی مزاج کا اظہار کر رہے ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں:

تا اللّٰہ ما الطغیان یھزم دعوة
ضع فی یدی القید ألھب أضلعی

لن تستطیع حصار فکری ساعة
فالنور فی قلبی وقلبی فی یدی

سأعیش معتصما بحبل عقیدتی
یوما وفی التاریخ بریمینی

بالسوط ضع عنقی علی السکین
أو نزع یمانی ونور یقینی

ربی...وربی ناصری ومعینی
وأموت مبتسما لیحیا دینی


''اللہ کی قسم ! ظلم واستبداد اس دعوت کو ایک دن کے لیے بھی شکست نہیں دے سکتا اورتاریخ میری اس قسم پر گواہ ہے۔اگر تم میرے ہاتھوں میں زنجیریں ڈال دو' میرے سینے کو کوڑوں کی بارش سے آگ لگا دو اور میری گردن چھری پر رکھ دو تب بھی تم ایک لمحے کے لیے بھی میری فکر کو گھیرا نہیں ڈال سکتے اور نہ ہی میرا ایمان اور میرے دل کا یقین ایک گھڑی کے لیے بھی باہر نکال سکتے ہو۔ میرا نور میرے دل میں ہے اور میرا دل میرے رب کے ہاتھ میں ہے...اور میرا رب میرا حامی و مددگار ہے۔اپنے اپنے عقیدے اور فکر کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اپنی زندگی گزاروں گا اور موت کو ہنس کر گلے لگاؤں گا تاکہ میرا دین زندہ رہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اسرائیل اور امریکہ کے بارے شیخ قرضاوی کا موقف
اسرائیل اور اسرائیلی یہودیوں کے بارے میں شیخ قرضاوی کا موقف بہت ہی سخت ہے ۔ شیخ قرضاوی نے 'مجمع الفقہ الاسلامی' کے چودہویں اجلاس منعقدہ قطر مؤرخہ ١١تا ١٦ جولائی ٢٠٠٣ء میں اسرائیلی افواج اور شہریوں دونوں پر خود کش حملوں کو جائز قرار دیا۔ ان کا فتویٰ یہ بھی تھا کہ اسرائیلی خواتین اور بچوں کا بھی خود کش حملوں میں قتل عام جائز ہے کیونکہ ان کے بقول اسرائیل کے شہری civilians بھی حربی کفار میں داخل ہیں اور اسرائیل ایک militarised society ہے۔ اسرائیلی بچوں کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ بچے اسرائیلی ریاست کی تربیت کی وجہ سے بڑے ہو کر لازماًحربی کفار ہی بنیں گے' اس لیے اسرائیل میں کیے گئے خود کش حملوں میں ان یہود ی بچوں کا قتل ہونا بھی جائز ہے۔

واضح رہے کہ قرضاوی صاحب کا خودکش حملوں سے متعلق یہ فتویٰ صرف اسرائیل کے بارے میں ہے اور ایسے حملوں کی اجازت وہ فلسطین اور اسرائیل کے علاقوں میں ہی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس قطر میں ایک بم دھماکے کے بعد انہوں نے ٢٠ مارچ ٢٠٠٥ء کو ایک فتویٰ جاری کیا جس کے مطابق انہوں نے اسلامی ممالک میں غیر مسلم شہریوں پر حملوں کی مذمت کی۔

١٤/ اپریل ٢٠٠٤ء کو 'اسلام آن لائن' پر شیخ قرضاوی کا یہ فتویٰ جاری ہوا کہ امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کی خریداری میں شامل ہمارا ایک ایک درہم اور دینار ہمارے ہی مسلمان بھائیوں کے سینوں میں گولیوں کی صورت میں واپس کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کی ایڈورٹائزنگ بھی مسلمانوں کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس وقت دوسرا اسرائیل ہے اور امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مالی تعاون صیہونیت (Zoinism) کو مالی امداد فراہم کرنا ہے۔شیخ یوسف قرضاوی کا کہنا یہ بھی ہے کہ جب امریکی کار کی موجودگی میں اسی معیار کی جاپانی کار موجود ہے تو پھر امریکی کار کو خریدنا کیسے شرعاًجائز ہو سکتا ہے؟ شیخ قرضاوی امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کی خریداری کو گناہِ کبیرہ قرار دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان صیہونیت کے خلاف ہیں کہ جس کا اسرائیل مدعی ہے' نہ کہ ان یہودیوں کے خلاف جو اصل تورات پرایمان رکھتے ہیں۔

شیخ قرضاوی نے مئی ٢٠٠١ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے قطر میں آمد پر کہا کہ ایریل شیرون کو قطر میں داخل نہیں ہونا چاہیے تھا اور جس شخص نے اس ظالم خونی سے مصافحہ کیا تو میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھ ستر مرتبہ دھوئے۔اسرائیل کے خلاف اس قدر سخت موقف کی بنا پر اسرائیل میں ان کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ اسی طرح ١٩٩٩ء میں ان کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی لگائی گئی اور ٢٠٠٨ء میں ان پر برطانیہ میں داخلے پر بھی پابندی لگادی گئی۔

شیخ قرضاوی اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق کے حامی ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام عیسائیوں یا یہودیوں یا بت پرستوں کے ساتھ حسن سلوک سے منع نہیں کرتا بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے والے نہ ہوں یعنی حربی کافر نہ ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شیخ قرضاوی اور معاصر جہاد
شیخ قرضاوی سے جب عراق میں امریکہ کے خلاف جہاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ جہاد جائز ہے' بلکہ انہوں نے امریکی افواج کے خلاف مزاحمت کو اہل عراق اور پڑوسی مسلمانوں کے لیے فرضِ عین قرار دیا۔ اس کے بعد ان سے سوال ہوا کہ کیا یہ جہاد عراق میں موجود امریکی شہریوں سے بھی ہو گا؟ تو انہوں نے کہاکہ عراق میں کون سے امریکی شہری موجود ہیں؟ یعنی عراق میں تو سارے امریکی حربی کفار ہیں کیونکہ وہ جنگ ہی کے لیے وہاں آئے ہیں۔ اس فتویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے خلیج کے معروف اخبار 'الشرق الأوسط' نے یہ خبر لگائی کہ قرضاوی کے نزدیک امریکی شہریوں کو قتل کرنا جائز ہے اور ان کے نزدیک قتال بھی فرضِ عین ہے۔ شیخ قرضاوی نے اس اخبار کی اس خبر کے بیان کے بعد اپنے موقف کی دوبارہ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ امریکی شہریوں کو قتل کرنا جائز ہے بلکہ انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ عراق میں کون سے امریکی شہری موجود ہیں؟ یعنی ان کا فتویٰ یہی ہے کہ حربی امریکی کو قتل کرنا جائز ہے' البتہ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ کون سا امریکی حربی ہے یا نہیں؟ پس قرضاوی صاحب نے عراق میں موجود تمام امریکیوں کو حربی قرار دیا ہے جیسا کہ وہ اسرائیلیوں کو حربی قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح قتال فرضِ عین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے فتویٰ میں قتال کا لفظ استعمال نہیں تھا بلکہ میں نے مقاومت یعنی امریکی افواج کے خلاف ہر قسم کی مزاحمت کو ہر مسلمان کے لیے فرضِ عین قرار دیا تھا۔

معروف سعودی عالم دین شیخ عبد اللہ بن جبرین کے ایک فتویٰ' کہ مسلمانوں کے لیے ایرانی شیعہ جماعت حزب اللہ کے لیے دعا کرنا یا ا س کی مدد کرنا جائز نہیں ہے' کے جواب میں شیخ قرضاوی نے اسرائیل کے خلاف برسر پیکار شیعہ جماعت حزب اللہ کی حمایت اور امداد کرنے کا فتویٰ جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کافر اور ظالم اسرائیلی یہودیوں کے خلاف برسر پیکار کلمہ گو بدعتی اہل تشیع کے ساتھ تعاون کرنا جائز اور حکمت کا تقاضاہے۔

شروع میں انہوں نے افغانستان میں بدھا کے مجسمے گرانے پر طالبان پر تنقید کی تو انہیں بت پرست ہونے کے طعنے بھی دیے گئے۔ بعد ازاں طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد انہوں نے اپنے اس موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے تبدیل کر لیا۔

شیخ قرضاوی پر معاصر جہاد کے حوالے سے ان کے ایک فتویٰ پر علمائے اسلام کی طرف سے شدید تنقید ہوئی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں شیخ قرضاوی نے کہا تھاکہ امریکی فورسز میں ملازم مسلمان امریکیوں کے لیے امریکی عتاب سے اپنی جان بچانے کی خاطر امریکی فورسز کے ساتھ مل کر افغانستان کے مسلمانوں سے قتال جائز ہے۔ معروف عالم دین اور داعی ٔاسلام صلاح الدین سلطان نے ان کا اس فتویٰ سے رجوع بھی نقل کیا ہے۔

شیخ قرضاوی نے فلسطینی صدر محمود عباس کی غزہ کی جنگ میں شرکت کے ثابت ہونے پر اسے رجم کرنے کا فتویٰ جاری کیا' جس کے جواب میں محمود عباس کی وزارتِ اوقاف کے ائمہ مساجد نے اپنے خطباتِ جمعہ میں شیخ قرضاوی پر خوب چڑھائی کی۔

اکتوبر ٢٠٠٤ء میں دنیا کے تقریباً ٢٥٠٠ کے قریب روشن خیال مسلمان مفکرین نے شیخ قرضاوی کے خلاف ایک قرارداد پاس کرتے ہوئے انہیں 'شیخ الموت' قرار دیا اور ان پر بنیاد پرستی اور عدم برداشت کا الزام عائد کیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شیخ قرضاوی کی کتب
شیخ قرضاوی نے تقریباً ہر شعبہ زندگی' عقائد' نظریات' عبادات' معاملات' معاشیات' سیاسیات اور معاشرتی مسائل سے متعلق کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کئی ایک کتابوں کو قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ انہوں نے شیخ ازہر محمود شلتوت کی خواہش پر 'الحلال والحرام فی الاسلام' نامی کتاب لکھی۔ کہا جاتا ہے کہ عالم اسلام میں اس کے مقابلے میں شائع ہونے والی کوئی اور کتاب نہیں ہے۔ استاذ محمد مبارک نے اسے اپنے موضو ع پر بہترین کتاب قرار دیا۔ شیخ طنطاوی مکہ مکرمہ میں یہ کتاب طلبہ کو سبقا ً سبقا ً پڑھاتے تھے۔ علامہ البانی نے اس کتاب کی احادیث کی تخریج و تحقیق کی ہے۔عربی زبان میں اس کے چالیس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں انگریزی' جرمن' اردو' ترکی' ملائشین' انڈونیشین' چینی' ہسپانوی' سواحلی اور دیگر کئی ایک زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کتاب کی بعض مباحث پر مستند علماء نے نقد بھی کی ہے۔ معروف سعودی عالم دین شیخ صالح الفوزان کی اس کتاب پر آڈیو نقد بعنوان 'الاعلام فی نقد کتاب الحلال والحرام' درج ذیل ایڈریس سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:

شیخ قرضاوی کی کتاب 'فقہ الزکوٰة' بھی زکوٰة کے قدیم اور جدید مسائل پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ مودودی نے اس کتاب کو بیسویں صدی کی بہترین کتاب قرار دیا ہے۔
علامہ قرضاوی کی دیگر معروف کتب میں
الشیخ أبو الحسن الندوی کما عرفتہ
فوائد البنوک ھی الربا الحرام
الفتویٰ بین الانضباط والتسیب
ملامح المجتمع المسلم الذی ننشدہ
الایمان والحیاة
النیة والاخلاص
السلام والعلمانیة وجھا لوجہ
الصحوة السلامیة وھموم الوطن العربی والاسلامی
فی فقہ الأولویات دراسة جدیدة فی ضوء القرآن والسنة
أولویات الحرکة السلامیة فی المرحلة القادمة ' الحیاة الربانیة والعلم
التوکّل
مدخل لمعرفة الاسلام
من أجل صحوة راشدة تجدد الدین وتنھض بالدنیا
فتاویٰ معاصرة
الاجتھاد فی الشریعة الاسلامیة
غیر المسلمین فی المجتمع الاسلامی
فقہ الصیام
الصحوة الاسلامیة بین الجحود والتطرف
تاریخنا المفتری علیہ
الاسلام والفن
الدین والسیاسة
مع أئمہ التجدید ورؤاھم فی الفکر والصلاح
نحن والغرب
فقہ اللھو والترویح
القدس قضیة کل مسلم
بینات الحل السلامی وشبھات العلمانیین والمتغربین
ظاھرة الغلو فی التکفیر
الصحوة الاسلامیة بین الاختلاف المشروع والتفرق المذموم
حقیقة التوحید
الفقة الاسلامی بین الاصالة والتجدی
شریعة الاسلام صالحة لکل زمان ومکان
اور
مدخل لدراسة السنة النبویة وغیرہ ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
آراء اور فتاویٰ
شیخ قرضاوی نے اپریل ٢٠٠٨ء میں قطر میں منعقدہ ایک کانفرنس میں گرین وچ کی بجائے مکہ مکرمہ کے وقت کو ساری دنیا کے وقت کے لیے معیار بنانے کی رائے بیان کی' کیونکہ مکہ مکرمہ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کا اصل مرکز قرار پاتاہے' جبکہ اس وقت ساری دنیا کے ممالک کا معیاری وقت گرین وچ ٹائم ہے۔

شیخ قرضاوی نے سگریٹ اور تمباکو نوشی کو خبائث میں سے قرار دیتے ہوئے اسے حرام کہا ہے۔ انہوں نے اس کی حرمت کی بنیاد مال کو آگ لگانا اور صحت انسانی کو نقصان پہنچانا بنایا ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی کا کہنا یہ ہے کہ یہ کسی فقیہ یا مفتی کا کام نہیں ہے کہ وہ یہ بتلائے کہ تمباکو یا سگریٹ نوشی انسانی صحت کے لیے مفید ہے یا ضرر رساں' بلکہ یہ ڈاکٹرز اور میڈیکل سائنس کے علماء کا منصب ہے اور اطباء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمباکو نوشی انسانی صحت کے لیے مضر ہے اورکئی ایک موذی امراض کا سبب ہے' لہٰذا یہ حرام ہے' کیونکہ شریعت ِاسلامیہ میں ہر ایسی شے حرام ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ہو۔پس ''وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ'' کے حکم قرآنی کے مطابق تمباکو نوشی حرام ہے۔ اسی طرح حکم قرآنی ''وَلَا تُسْرِفُوْا'' کے مطابق بھی تمباکو نوشی حرام قرار پائے گی' کیونکہ قرآن نے اسراف کو حرام قرار دیا ہے اور تمباکو نوشی مال کو آگ لگانے کے مترادف ہے' لہٰذا حرام ہے۔ انہوں نے حدیث مبارکہ ''لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ'' یعنی نہ تو ضرر اٹھاؤ اور نہ ہی کسی کو ضرر پہنچاؤ' سے بھی اس کی حرمت پر استدلال کیا ہے۔

اسلامک بینکنگ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں شیخ قرضاوی نے کہاکہ اسلامک بینکنگ کا تجربہ نظریاتی میدان سے عملی میدان کی طرف ایک اچھی پیش رفت اور وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایک دور تھا جس میں یہ سوچنا یا کہنا بھی ناممکن تھا کہ بینک کا ادارہ سود کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسا دور آیا جس میں بینک کے سود کی حرمت اور شناعت خوب اچھی طرح اجاگر ہوئی اور اسلامک بینکنگ کے بارے میں نظریاتی مباحث سامنے آنے لگے۔ اس کے بعد ایک تیسرا دور آیا جس میں عملاً اسلامی بینکنگ کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہا ابھی ہم تیسرے دور میں ہیں اور نہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں اور نہ ہی اسلامک بینک یہ کہتے ہیں کہ ان کی یہ بینکنگ سوفی صد اسلامی اور شرعی اصولوں کے مطابق ہے۔ شیخ قرضاوی کے مطابق ابھی چوتھا دور باقی ہے جس میں یہی اسلامی بینکنگ ممکن حد تک شرعی اصولوں کے مطابق ہو جائے گی ۔ پس اس اعتبار سے موجودہ اسلامی بینکنگ حقیقی اسلامی بینکنگ کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہے اور اس کی اس اعتبار سے حوصلہ افرائی ہونی چاہیے۔

انشورنس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہور فقہاء تجارتی اور لائف انشورنس کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور میری رائے میں بھی یہ ممنوع اور ناجائز ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مفکرین' علماء اور سیاسی رہنماؤں کے مجسمے سڑکوں' گھروں یا عوامی مقامات پر نصب کرنا حرام ہے اور اگر یہ مجسمہ کسی ایسے شخص کا ہو جس سے کسی قسم کی عقیدت یا تعظیم بھی وابستہ ہو تو اس کی حرمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ صرف بچوں کے کھلونے اس سے مستثنیٰ ہیں۔

غیرمسلم مغربی اور یورپین ممالک میں رہائش پذیر ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ رہائش اختیار کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے اور اگرمسلمانوں کے لیے ان علاقوں میں رہائش پذیر ہونا مطلقاً حرام ہوتا تو وہاں اسلام کیسے پھیلتا؟ یا پھیلے گا؟ شیخ قرضاوی نے کہا کہ جو مسلمان مغربی معاشروں میں اپنے' اپنے بچوں اور اپنے خاندان کے دین کی حفاظت نہیں کر سکتے تو انہیں مسلمان ممالک کی طرف واپس ہجرت کر جانی چاہیے ۔

اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے شادی جائز ہے۔ بعض حنفی علماء نے اس مسئلے میں حربی اور غیر حربی عورتوں کا فر ق بھی کیا ہے۔ شیخ قرضاوی نے اس فرق کی تحسین کرتے ہوئے اس رائے کو اختیار کیا ہے کہ حربی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی جائز نہیں ہے' چاہے وہ پاکدامن ہی کیوں نہ ہو جبکہ غیر حربی پاکدامن عورت سے شادی جائز ہے۔ شیخ قرضاوی نے اسرائیلی یہودی عورت سے شادی مطلقاً ناجائز قرار دی ہے کیونکہ ان کی نظر میں اسرائیل میں سب حربی کفار ہیں۔

امریکہ میں مردوں کی امامت کروانے والی بدنام زمانہ خاتون امینہ ودود کے فتنہ کے پیدا ہونے کے بعد عورتوں کی امامت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ اس خاتون نے یہ کام کیا ہے کہ مردوں کو امامت کروائی ہے اور جمعہ کا خطبہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا فرائض اورجمعہ کی نماز کی امامت صرف مردوں کے لیے ہے ۔ ہاں ! اگر صرف عورتیں ہوں جیسا کہ تروایح وغیرہ کی نماز ہے تو وہاں عورت بھی امامت کروا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آٹھوں مذاہب و مسالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کے لیے فرائض کی امامت جائز نہیں ہے۔

شیخ قرضاوی نے ایک سوال کے جوا ب میں عورت کے لیے ہاتھ' پاؤں اور چہرے کے علاوہ سارے جسم کو ستر قرار دیا ہے اور اس کے ڈھانپنے کو واجب اور اس کے دیکھنے کو حرام کہا ہے' لیکن ان کے بقول عورت کا چہرہ اس کے ستر میں داخل نہیں ہے' لہٰذا عورت کے لیے اپنا چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اتفاقاً یا کبھی کبھار کسی عورت کے ہاتھ' پاؤں یا چہرے پر بغیر شہوت کے نظر ڈال لیتا ہے تو ایسی نگاہ بھی جائز ہے' لیکن اگر اس میں شہوت یا تلذذ شامل ہو جائے تو اس کا دیکھنا بھی جائز نہ ہوگا۔ ان کاکہنا ہے کہ اسلام میں جس نظرسے منع کیا گیا ہے وہ کسی عورت کے ہاتھ' پاؤں یا چہرے پر ایسی نظر ڈالنا ہے جو مسلسل ہو یا بار بار ہو یا دیدے پھاڑ کر دیکھنا ہو یا شہوت کے ساتھ ہو یا فتنہ پیدا کرنے والی ہو۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ عورت کے چہرے پر مسلسل یا تکرار کے ساتھ نظر ڈالنا شہوت او ر فتنے کا سبب ہے لہٰذا ممنوع ہے۔ ایسی نظر کے بارے میں شیخ قرضاوی شاعر کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
نظرة فابتسامة فسلام
فکلام فموعد فلقاء

''پہلے نظر پڑتی ہے 'پھر مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا ہے اور پھر سلام دعا ہوتی ہے۔ پھر گفتگو کا دور چلتا ہے پھرتاریخ(date) طے ہوتی ہے اور پھر ملاقاتیں شروع ہو جاتی ہیں۔''
تنہائی کی ان ملاقاتوں کے بعد کیا ہوتا ہے' اسے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

عورت کا اپنے گھر والوں کی اطلاع اور مرضی کے بغیر اپنے کسی عاشق یا دوست سے نکاح کرلینے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں ایسے نکاح کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے جس میں عورت کی رضامندی بھی حاصل ہو اور اولیاء کی بھی۔ کسی بھی نکاح میں دونوں کی رضامندی شرعاً مطلوب ہے لہٰذا نکاح میں لڑکی اور ولی دونوں کی رضامندی ہونی چاہیے۔انہوں نے ایک ایسی لڑکی کو جو اپنے اولیاء کی مرضی کے بغیر کسی شخص سے نکاح کرنا چاہتی تھی اور اس سے نکاح کرنے کا معاہدہ بھی کر چکی تھی' نکاح سے روک دیا اور اپنے اولیاء کی مرضی کے بغیر لڑکی کے اس تصرف کو باطل قرار دیا۔

جہاد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاد کی سب سے پہلی قسم وہ جہاد ہے جو مسلمان اُمت میں مغربی استعمار کے باقیات اجنبی حکمرانوں سے آزادی کے لیے ہونا چاہیے۔ جہا دکی دوسری قسم انہوں نے کشمیر' عراق اور شیشان وغیرہ جیسے مقبوضہ علاقوں میں جہاد کو قرار دیا جس میں غیر مسلم حکمرانوں سے مسلمان معاشروں کو آزاد کروانے کے لیے جہادکرنا ایک دینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا جہاد کی ایک قسم اقتصادی جہا دبھی ہے اور اس سے مراد امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ حالات میں امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا استعمال حرام اور گناہ کبیرہ ہے
۔
بینکوں کے سود سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بینکوں کا سود حرام ہے اور اس کا اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا بھی حرام ہے' لیکن اس سود کو بینک کے پاس چھوڑنا بھی حرام ہے' کیونکہ یہ برائی میں تعاون اور سودی بینکنگ کو تقویت دینے کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر مسلم ممالک میں سودی بینکوں میں سودچھوڑنے کی حرمت تو کئی گنا بڑھ جاتی ہے' کیونکہ کئی ایک مغربی ممالک کے بینک مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی سودی رقم عیسائی مشنریوں کو دے دیتے ہیں اور مسلمانوں کا چھوڑا ہوا یہی سودمسلمانوں ہی کو عیسائی بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی رقوم پر بینکوں سے سود وصول کرنے کے بعد اسے غرباء' یتیموں' مساکین' اسلامی مراکز کی تعمیر' دعوت اسلامی کے کاموں' اسلامی کتابوں اور لٹریچر کی نشرو اشاعت اور دیگر خیراتی کاموں میں لگا دینا چاہیے۔ انہوں نے اس فتویٰ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ مال کمانے والے کی نسبت سے خبیث اور حرام ہوتا ہے نہ کہ فی نفسہ حرام ہے۔ یعنی بعض اشیاء فی نفسہ یا بذاتہ حرام ہیں' جیسا کہ شراب' سور وغیرہ' جبکہ بعض اشیاء اصلاً تو حلال ہیں لیکن کسی خارجی سبب سے حرام ہوئی ہیں' جیسا کہ سود کی رقم۔ رقم یا مال بذاتہ حلال شے ہے لیکن ایک خارجی سبب سے حرام ہو گیا ہے اور وہ سبب کمانے والا کا حرام فعل ہے۔ پس جب وہ سبب نہ رہے گا تواس کا حکم بھی نہ رہے ۔ لہٰذا سود کا مال اس کے کمانے والے کے لیے تو اس کے فعل حرام کی وجہ سے حرام ہے لیکن کسی دوسرے کے لیے اس کی نسبت تبدیل ہوجانے سے یہ اپنی اصل یعنی حلت کی طرف لوٹ آئے گا۔

ان کے نزدیک سودی بینکوں سے حاصل ہونے والے سود کی چار صورتیں ممکن ہیں : ایک یہ کہ انسان یہ سودی رقم اپنی ذات کے لیے استعمال کر لے اور یہ حرام ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ سودی رقم بینکوں کے پاس رہنے دے اور یہ بھی حرام ہے' کیونکہ یہ برائی میں تعاون اور سودی نظام کو تقویت دینا ہے۔ تیسرا یہ کہ اس مال کو لے کر آگ لگا دے اور یہ بھی جائز نہیں ہے' کیونکہ اتلافِ مال شرعاً جائز نہیں ہے۔ چوتھی صورت اس کی یہ نکلتی ہے کہ اس مال کو خیر کے کاموں میں لگا دے اور اسی کے وہ قائل ہیں ۔

راقم الحروف کے بعض شیوخ کی رائے یہ ہے کہ اس کی ایک پانچویں صورت بھی ہو سکتی ہے کہ بینک سے یہ سودی مال لے لینا چاہیے اور کسی ایسی جگہ لگا دینا چاہیے جہاں پہلے ہی حرام کا مال لگ رہا ہو' مثلاً کسی شخص کا بچہ اغوا ہو گیا ہے اور ڈاکو تاوان میں ٢٠ لاکھ مانگ رہے ہیں۔ اب وہ تو حرام کھانے کو تیار بیٹھے ہیں تو انہیں ایسی سودی رقم بطور تاوان دی جا سکتی ہے۔ شیخ قرضاوی ہی کی رائے میں احتیاط اور جواز کی ایک اور صورت بعض اہل علم نے یوں بھی بیان کی ہے کہ بینکوں سے حاصل کردہ سودی رقم غرباء' مساکین وغیرہ کو تو دی جائے لیکن یہ رقم ان کے کھانے اور لباس میں استعمال نہ ہو بلکہ اس کے علاوہ دیگر اشیاء میں استعمال ہو' مثلاً کسی غریب کوکوئی مکان بنواکر دے دیا جائے یا کسی غریب کو کوئی سائیکل یا ریڑھی وغیرہ لے دی جائے یا گاڑی کے کرایہ وغیرہ میں اس کو ایڈجسٹ کر لیا جائے۔ اسی طرح دعوت و جہاد میں اسی رقم سے اسلحہ وغیرہ خرید کر دشمن کے خلاف استعمال کیا جائے یا کتابیں اور سی ڈیز نشر کر کے اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ کا مقابلہ کیا جائے' وغیرہ ۔

اہل تشیع سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شیخ قرضاوی نے اثنا عشریہ یا امامیہ فرقہ کو ایک بدعتی فرقہ قرار دیاہے اور انہیں فرقہ ناجیہ سے خارج کہا ہے' لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اہل تشیع کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک اہل تشیع کے محققین کتاب اللہ کو مکمل کتاب مانتے ہیں اور کلمہ گو ہیں' لہٰذا اہل تشیع کافر نہیں ہیں۔ شیخ قرضاوی کا کہنا یہ ہے کہ اہل تشیع کے بارے میں یہ اہل سنت کا مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ وہ انہیں بدعتی فرقوں میں تو شمار کرتے ہیں لیکن بطورفرقہ کافرقرار نہیں دیتے ۔ اہل تشیع کو بدعتی قرار دینے پر ایرانی علماء نے ان پر شدید نکتہ چینی کی ہے کیونکہ شیخ عالم اسلامی کے اتحاد کے لیے قائم کی جانے والی عالمی مجلس کے صدر بھی ہیں۔شیخ قرضاوی عقائد میں اشعری مسلک کی طرف میلان رکھتے ہیں اگرچہ بعض مسائل میں اشعریہ پرنقد بھی کرتے ہیں۔

٢٠٠٨ء میں شیخ قرضاوی نے ادویات اور اشیائے خوردونوش میں 0.5 فی صد الکوحل کے استعمال کو جائز قرار دیا کیونکہ ان کے بقول اتنی کم مقدار میں الکوحل کا استعمال بطور اجزاء (ingredients) کے نہیں ہوتا بلکہ تخمیر(fermentation)کے لیے ہوتا ہے۔ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ' معروف سعودی عالم دین شیخ صالح العثیمین اور سعودی عرب میں کبار علماء کی فتویٰ کمیٹی کا بھی یہی موقف ہے۔

شیخ قرضاوی فرشتوں' جنات' عرش ' کرسی' عذابِ قبر' پل صراط' میزان' حوضِ کوثر' نزولِ عیسیٰ' خروجِ دجال' خروجِ مہدی' معجزات' کرامات اور قیامت کی دیگر نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان مسائل میں ان کا وہی عقیدہ ہے جو جمہور اہل سنت کا ہے۔ شیخ قرضاوی کتاب کھول کر یا لائنیں کھینچ کر استخارہ نکالنے کو حرام قرار دیتے ہیں ۔وہ قبر پرستی' تعویذ گنڈا' ارواح کو حاضر کرنے' غیر اللہ کی قسم اٹھانے' غیر اللہ کے لیے نذر ماننے یا ذبح کرنے کی بھی مذمت کرتے ہیں۔

شیخ قرضاوی فلاسفہ' معتزلہ' غالی صوفیاء ' اہل تشیع امامیہ اورخوارج کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حلول' اتحاد' خرافات اور بدعات پر مشتمل تصوف کے حامی نہیں ہیں' لیکن قرآنی اور نبوی منہج کے مطابق سنی تصوف کے وہ قائل ہیں کہ جس کے شیوخ حضرت حسن بصری' فضیل بن عیاض ' ابراہیم بن ادھم اور جنید بغدادی رحمہم اللہ وغیرہ تھے۔ شیخ قرضاوی فضائل اعمال میں ضعیف احادیث سے استفادہ کے قائل ہیں لیکن حلال وحرام میں نہیں۔

شیخ قرضاوی حدیث و سنت کی حجیت کے قائل اور پرزور مدعی ہیں لیکن سنت کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ سنت دو قسم کی ہے' ایک تشریعی یعنی جو ہمارے لیے شریعت ہے اور ایک غیر تشریعی ہے یعنی جوہمارے لیے شریعت نہیں ہے 'جیسا کہ طب سے متعلقہ احادیث ہیں۔ انہوں نے احکام سے متعلقہ بعض احادیث کو بھی اللہ کے رسول ۖ کے دور کے ساتھ خاص قرار دیا ہے' جیسا کہ گھوڑوں میں زکوٰة نہ ہونے کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ۖ کے زمانہ کے لیے تھی اور آج گھوڑوں میں زکوٰة ہو گی۔

شیخ قرضاوی جمہوریت کے قائل ہیں لیکن وہ مغربی جمہوریت کے ناقد ہیں۔ مغربی جمہوریت کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے جو شرائط وہ تجویز کرتے ہیں' اس کے بعد وہ جمہوریت اسلام کا شورائی نظام بن جاتی ہے' اگرچہ قرضاوی اسے پھر بھی جمہوریت ہی کا نام دیتے ہیں۔ بعض اہل علم نے ان پر اس پہلو سے تنقید کی ہے کہ وہ جمہوریت کے قائل ہیں۔ شیخ قرضاوی کے دفاع میں بعض دوسرے اہل علم کا کہنا یہ بھی ہے کہ شیخ نے جمہوریت کو مسلمان بنانے کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں' ان کی روشنی میں اسلام کے شورائی نظام اور شیخ قرضاوی کی پیش کردہ جمہوریت میں سوائے نام کے کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

شیخ قرضاوی اضطراری حالت اور فتنے کے پیدا نہ ہونے کی صورت میں کسی مرد کے عورت کے ساتھ مصافحہ کو جائز سمجھتے ہیں۔

شیخ قرضاوی نے موجودہ زمانے میں ہوائی جہاز کے سفر کے پرامن ہونے کی وجہ سے عورت کے لیے بغیر محرم کے حج اور عمرہ کو جائز قرار دیا ہے اور اس فتوی ٰکی بنیاد اس مشہور روایت کو بنایا ہے جس میں اس چیز کا تذکرہ ہے کہ ایک عورت صنعاء سے مدینے تک اکیلی سفر کرے گی اور اسے کسی چیز کا خوف اور ڈر نہ ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن بغیر محرم کے حج اور عمرہ کر لیتی تھیں اورصحابہ رضی اللہ عنہم ان پر نکیر نہ فرماتے تھے لہٰذا سفر کے پر امن ہونے کی صورت میں عورت کے لیے اکیلے حج اور عمرہ جائز ہے۔اسی سے ملتا جلتا فتویٰ مالکیہ اور شوافع کے ہاں بھی موجود ہے ۔

شیخ قرضاوی نے علم نافع اور عمل صالح کے حصول کی خاطر مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو چھ عدد شرائط کے ساتھ جائز اور شرعی مطلوب قرار دیا ہے۔ اسی طرح شیخ قرضاوی نے موسیقی سننے کو بھی جائز قرار دیا ہے اور اس کے حرام کہنے والوں کے دلائل پر نقد پیش کیا ہے۔

شیخ قرضاوی نشے اور شدید غصے کی حالت میں طلاق کے معاملے میں' کہ جس میں انسان اپنے حواس سے باہر ہوجائے' ان فقہاء کے قول کو اختیار کرتے ہیں جو ان حالات میں طلاق کے قائل نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور طلاق کے اکثر مسائل میں امام ابن تیمیہ کے مسلک کو ترجیح دیتے ہیں ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ناقدین
شیخ قرضاوی پر نقد کرنے والوں میں کئی طرح کے لوگ ہیں۔ پہلے نمبر پر تو سلفی اہل علم ہیں جو شیخ قرضاوی کو اشعریت کی طرف میلان' اہل تشیع کی تکفیر نہ کرنے 'حجاب کے بارے میں نرم موقف اختیار کرنے اور فتویٰ کے اجراء میں تساہل اور سہولت کا منہج اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ شیخ سلیمان بن صالح الخراشی نے 'القرضاوی فی المیزان' کے نام سے ایک کتاب شیخ قرضاوی کی توصیف اور تردید میں لکھی ہے۔ ہم نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ اکثر مقامات پر شیخ قرضاوی پر الزامات لگاتے ہوئے ان کی عبارتوں سے کھینچ تان کر وہ مفہوم برآمد کیا گیا ہے جوشاید شیخ قرضاوی کی مراد نہ ہو۔ بعض مقامات پر شیخ سلیمان کی نقد درست بھی ہے' جیسا کہ انہوں نے کہا ہے کہ شیخ قرضاوی جنات کے وجود کے تو قائل ہیں لیکن انسانوں پر جنات کے وارد ہونے یاانسانوں کی زبانی جنات کے کلام کرنے یا انسانوں پر جنات کے غالب آنے کے انکاری ہیں' حالانکہ یہ بات صحیح روایات اور مشاہدے سے ثابت ہے ۔

جہادی تنظیمیں' امریکی افواج میں شامل مسلمان فوجیوں کے افغانستان میں لڑنے کو جائز قرار دینے کے حوالے سے' شیخ قرضاوی کے فتویٰ پر نقد کرتی ہیں۔ ہم نے شیخ قرضاوی کے اس تفصیلی فتویٰ کا مطالعہ کیا ہے اور ہمارے خیال میں شیخ قرضاوی کا یہ فتویٰ اس قابل نہیں ہے کہ اسے کوئی علمی رائے قرار دیا جا سکے چہ جائیکہ اس کی اتباع کی جائے کیونکہ نہایت ہی سطحی دلائل پر اس فتویٰ کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اگر تو شیخ قرضاوی کا اس فتویٰ سے رجوع ثابت ہے' جیسا کہ بعض اہل علم نے نقل کیا ہے' تو یہ فتویٰ اسی قابل تھا کہ اس سے رجوع کیا جاتا' اور اگر ایسا رجوع ثابت نہیں ہے تو اس فتویٰ پر نقد وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔

غالی صوفیاء' قبر پرستی' غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز' غیر اللہ کے ذبح کرنے وغیرہ کے خلاف فتویٰ دینے کی وجہ سے شیخ قرضاوی کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ہمیں ان مسائل میں تصوف کے نام پر شرک وبدعات اور خرافات کو رواج دینے پر شیخ قرضاوی کی تنقید سے اتفاق ہے۔

ایرانی علمائے اہل تشیع' شیخ قرضاوی کو امامیہ فرقہ کو بدعتی اور فرقہ ناجیہ سے خارج قرار دینے پر تنقید کرتے ہیں۔

مسلمان معاشروں میں رہائش پذیر سیکولر طبقہ شیخ قرضاوی کے جہاد اور تحریک سے متعلقہ فتاویٰ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے انہیں شدت پسند اور بنیاد پرست قرار دیتا ہے۔

مغربی مفکرین' صیہونیت' اسرائیل اور امریکہ کے حوالے سے شیخ قرضاوی کے بیانات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top