• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک تجدد اور متجددین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
خلاصہ ٔکلام
شیخ قرضاوی کے فتاویٰ' کتب اور دینی خدمات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلاشبہ اپنے علم وفضل کی وجہ سے مجتہد کے درجہ پر فائز ہیں' اگرچہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کسی مسئلے میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا یا وہ تنقید سے بالاتر ہستی ہیں۔ اہل علم نے ان کے بعض فتاویٰ پر نقد کی ہے اور ہمارے خیال میں یہ نقد ایسی ہی ہے جیسا کہ امام شافعی' امام ابوحنیفہ پر اور امام محمد' امام مالک رحمہم اللہ پر کرتے ہیں۔ اسی طرح امام ابن حزم' اہل تقلید اور اہل تقلید ظاہریہ پر یا محدثین' اہل الرائے پر اور اہل الرائے' محدثین پر کرتے ہیں۔ ایسی نقد میں اگر گروہی عصبیت' مذہبی تنافر' شخصی تذلیل نہ ہو اور یہ باہمی افہام وتفہیم کے لیے ہو تو یہ شریعت کا مطلوب و مقصود ہے۔ کسی ایک عالم دین پر دوسرے عالم دین کی نقد کا یہ لازمی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ عالم دین کوئی متنازع شخصیت بن گیا ہے۔ اگر کسی عالم دین پر کسی دوسرے عالم دین کی نقد ہونے کو اس کے متنازع ہونے کی دلیل بنا لیا جائے تو عالم اسلام میں چودہ صدیوں میں کوئی ایک بھی ایسا عالم دین نہ گزرا ہو گا جو متنازع نہ ہو یا جس کی آراء سے دوسرے اہل علم کو اختلاف نہ رہا ہو۔

ہم شیخ قرضاوی کی علمی' فقہی' دعوتی' تحریکی او ر تدریسی خدمات کی قدر اور تحسین کرتے ہیں اور ان کی شاذ آراء میں مثبت علمی مکالمے اور مباحثے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں شیخ قرضاوی کو بعض فتاویٰ کے اجراء میں تساہل یا تشدد کی وجہ سے ان پر متجدد یا بنیاد پرست کا لیبل لگانادرست نہیں ہے' بلکہ وہ ہر مسئلے میں اعتدال کی تلاش کے خواہش مند رہتے ہیں۔ اب یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ کسی مسئلے میں وہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں یا نہیں ۔

فتاویٰ کے اجرا میں قرضاوی آسان رائے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے اس منہج کا دفاع بھی کرتے ہیں ۔ اگر تو یہ منہج نصوص کی حد تک ہو یعنی نصوص سے ثابت شدہ مختلف آراء میں آسان رائے کے مطابق فتویٰ جاری کر دیاجائے تو یہ شرعی مطلوب و مقصود ہے' جیسا کہ اللہ کے رسول ۖ سے صحیح روایت میں یہ بات ثابت ہے کہ جب آپ کو دو چیزو ں میں اختیار دیا جاتا' تو آپ آسان کو اختیار کرتے تھے جبکہ دونوں چیزیں جائز ہوتی تھیں۔ اور اگر یہ آسانی فقہاء کی مختلف آراء میں تلاش کی جائے تو مذموم ہے' یعنی کسی بھی شخص کے لیے یہ درست نہیں کہ فقہاء کی مختلف آراء میں سے آسان رائے کو صرف اس کے آسان ہونے کی وجہ سے اختیار کر لے سوائے اس کے کہ کوئی عالم دین ان مختلف فقہی آراء کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر کسی رائے کو ترجیح دے اور وہ آسان رائے ہو تو یہ عمل جائز ہے۔ اگر یہ عمل کسی ایک ہی فقہ میں مروی مختلف آراء میں ترجیح دینے کی صورت میں ہو تو فقہائے حنفیہ اسے 'اجتہاد فی المذہب' کا نام دیتے ہیں اور اگر ایک سے زائد مذاہب کی آراء میں ہو تو اسے 'اجتہاد فی المذاہب الاسلامیة ' کا نام دیا جا سکتا ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی اسے اجتہاد انتفائی کا نام دیتے ہیں۔ شیخ قرضاوی کے بعض فتاویٰ میں یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ نصوص کے علاوہ بعض اوقات فقہاء کے مختلف اقوال میں بھی سہولت کے پہلو کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں اور اس ترجیح کی بنیاد کسی نص یا شرعی دلیل پر نہیں رکھتے ہیں۔ شیخ قرضاوی کا یہ منہج درست نہیں ہے اگرچہ ایسا انہوں نے چند ایک مقامات پر ہی کیا ہے۔

اجنبی عورت کے ساتھ مصافحہ' موسیقی کا جواز' خواتین کے ستر و حجاب اور مرد وزن کے اختلاط کے بارے میں شیخ قرضاوی کی آراء درست نہیں ہیں' ان میں نکتہ رسی تو ہے لیکن نصوص کا احصاء نہیں ہے۔ شیخ قرضاوی نے بہت سی نصوص کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ فتاوی جاری کیے ہیں۔ فتاویٰ کے اجراء میں شیخ قرضاوی میں یہ بھی ایک کوتاہی ہے کہ ان میں فقہیات اور نکتہ رسی تو خوب ہے لیکن سعودی علماء کی طرح نصوص کا احصاء نہیں کرتے اور بعض اوقات اپنے فتویٰ کی بنیاد بہت سی نصوص کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک نصوص پر رکھتے ہیں۔

مصادر ومراجع
١۔ القرضاوی فی المیزان' سلیمان بن صالح الخراشی' دار الجواب' الریاض
2-www.qaradawi.net/
3-http://en.wikipedia.org
4-http://ar.wikipedia.org
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی

پیدائش اور ابتدائی تعلیم
دمشق کے نواحی علاقہ میں ١٩٣٢ء میں پیدا ہوئے اور ابھی تک حیات ہیں۔ابتدائی تعلیم اپنے شہر ہی سے حاصل کی اور سکینڈری تعلیم دمشق یونیورسٹی کے کلیہ شریعہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں جامعہ ازہر کے کلیہ شریعہ سے١٩٥٦ء میں بی۔اے کیا۔ ١٩٥٩ء میں جامعہ قاہرہ کی فیکلٹی آف لاء سے شریعہ انسٹی ٹیوٹ کے تحت ڈپلومہ( ایم۔اے کے برابر ڈگری) کیا۔ ١٩٦٣ء میں 'آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی : دراسة مقارنة'کے عنوان سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ١٩٦٣ء میں دمشق یونیورسٹی میں تدریس کا آغاز کیااور مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ بن غازی یونیورسٹی' لیبیا اور متحدہ عرب امارات یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لاء میں بھی پڑھاتے رہے۔ علاوہ ازیں خرطوم یونیورسٹی میں بھی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ دمشق یونیورسٹی میں فقہ اسلامی اور اصول فقہ کے شعبہ کے چیئرمین بھی ہیں۔

شیخ نے اپنی کتاب 'الفقہ الاسلامی وأدلتہ'کے آخر میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا میرے بارے گمان یہ ہے کہ میں حنفی المسلک ہوں تو یہ گمان درست نہیں ہے بلکہ میں شافعی المسلک ہوں۔ بہر حال شافعی المسلک ہونے کے باوجود شیخ اپنے مذہب کی حمایت میں متعصب نہیں ہیں۔ اسی طرح عقیدے میں شیخ اشعریت کی طرف مائل ہیں۔شیخ شادی شدہ ہیں اور ان کے پانچ بچے ہیں۔

عالمی اسلامی اداروں کی سربراہی اور رکنیت
اردن میں 'المجع الملکی لبحوث الحضارة الاسلامیة'کے ممبر ہیں۔ اسی طرح اجتہاد کے عالمی فقہی اداروں میں سے 'مجمع الفقہ الاسلامی' جدہ اور 'المجع الفقھی الاسلامی' مکہ مکرمہ کے رکن ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی فقہ اکیڈم' انڈیا کے رکن او ر فقہاء شریعت اسلام اسمبلی' امریکہ کے نائب صدر اور اسلامی فقہ اکیڈمی' سوڈان کے بھی رکن ہیں۔ بحرین میں اسلامی اقتصاد کی کمپنی 'شرکة المضاربة والمقاصة الاسلامیة' کی شریعہ ایڈوائزنگ کمیٹی کے صدر ہیں۔ شام میں فتویٰ کی اعلی کمیٹی 'مجلس الافتاء الأعلی' کے رکن ہیں۔ وزارت اوقاف' شام کے تحت تحقیقی کمیٹی 'لجنة البحوث والشؤون الاسلامیة' کے بھی رکن ہیں۔ اسلامی اقتصاد میں تحقیقی ادارے 'لجنة الدراسات الشرعیة للمؤسسات المالیة والاسلامیة' کے بھی صدر ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تالیفات و تصنیفات
شیخ ٥٠٠ کے قریب مختلف کتب' رسائل اور تحقیقی مقالہ جات کے مصنف ہیں۔جن میں سے ان کی کئی ایک کتب کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ تقابلی فقہ پر ان کی کتاب 'الفقہ السلامی وأدلتہ' کو ایک بنیادی مصدر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور پاکستان اور سوڈان کی کئی ایک یونیورسٹیوں میں اس کتاب کے کچھ حصوں کو بطور نصاب بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک معنی میں فقہی انسائیکلو پیڈیا ہے اور ١١ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب تقریباً ٢٢ مرتبہ شائع ہو چکی ہے جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور کئی ایک زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔کوئی بھی اسلامی لائبریری اس کتاب کے بغیر نامکمل ہے۔

تقابلی فقہ پر ویسے تو اور بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن یہ کتاب اپنے اسلوب بیان' ترتیب' زبان کی آسانی' جدیدمعاصر مسائل کے بیان'اقوال کی ترجیح میں عدم تعصب اور بنیادی مصادر سے رجوع کی وجہ سے کئی ایک منفرد خصوصیات کی حامل ہے۔ اسی طرح شیخ کی معروف کتابوں میں 'التفسیر المنیر' ہے جو ١٦ جلدوں میں ہے اور تقریباً ٧ مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔ ان کی تیسری معروف کتاب 'اصول الفقہ الاسلامی' ہے جو تقابلی اصول فقہ کی کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب ہے۔یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور تقریباً ١٢ مرتبہ شائع ہو چکی ہے ۔ سعودی عرب کی کئی ایک اسلامی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی مقرر ہے۔

شیخ کی دیگر معروف کتب میں الوصایا والوقف فی الفقہ الاسلامی
التمویل وسوق الأوراق المالیة
خطابات الضمان
بیع الأسھم
بیع التقسیط
الأسس والمصادر الاجتھادیة المشترکة بین السنة والشیعة
أسباب اختلاف وجھات النظر
الاجتھاد الفقھی الحدیث منطلقاتہ واتجاھاتہ
أحکام التعامل مع المصارف الاسلامیة
الذرائع فی السیاسة الشرعیة والفقہ الاسلامی
العرف والعادة
المذھب الشافعی ومذھبہ الوسیط بین المذاھب الاسلامیة
مناھج الاجتھاد فی المذاھب المختلفة
تجدید الفقہ الاسلامی
الفقہ المالکی الیسر
تغیر الاجتھاد
تطبیق الشریعة الاسلامیة
العلاقات الدولیة فی الاسلام
الرخص الشرعیة
اصول التقریب بین المذاھب الاسلامیة
اجتھاد التابعین
الباعث علی العقود فی الفقہ الاسلامی وأصولہ
عقد التأمین
التفسیر المنیر فی العقیدة والشریعة والمنھج
القراءات المتواترة وأثرھا فی الرسم القرآنی والأحکام الشرعیة
اصول مقارنة أدیان
البدع المنکرة
الایمان بالقضاء والقدر
السنة النبویة : حقیقتھا ومکانتھا عند المسلمین
فقہ السنة النبویة
الخصائص الکبری لحقوق الانسان فی الاسلام ودعائم الدیمقراطیة الاسلامیة
الدعوة السلامیة وغیر المسلمین
المنھج والوسیلة والھدف
الاسلام وتحدیات العصر
المحرمات وآثارھا السئیة علی المجتمع
الدعوة علی منھاج النبوة
الأسرة المسلمة فی العالم العصر
الثقافة والفکر' القیم الاسلامیة و القیم الاقتصادیة
اور
تعدد الزوجات : المبدأ و النظریة و التطبیق وغیرہ ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
فتاوی وآراء
شیخ سے جب سودی بینکوں میں نوکری کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ عام حالات میں یہ نوکری حرام ہے۔ البتہ! خصوصی حالات میں کہ جن میں کوئی شخص مضطر ہو اور اس کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہو رہی ہوں تو اس صورت میں وہ اس شرط پر نوکری کر سکتا ہے کہ دوسری جاب تلاش کرتا رہے اور ملتے ہی بینک کی جاب چھوڑ دے۔
شیخ سے جب کسی متعین مذہب کی تقلید کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک عامی کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس کے حاضرمفتی کا ہوتا ہے۔ پس عادت اور مصلحت کے پہلو سے تو عوام کے لیے اپنے مفتیان کرام کی تقلید لازم ہے لیکن شرعاً کسی متعین مذہب کی اتباع لازم نہیں ہے۔

اپنی کتاب 'الفقہ الاسلامی وأدلتہ' کے مقدمہ میں تلفیق بین المذاہب یعنی مختلف فقہی مذاہب میں بعض مسائل میں ایک مذہب اور بعض دوسرے مسائل میں دوسرے مذہب کی پیروی کرنے کے بارے انہوں نے کہا کہ اگر تو یہ تلفیق حاجت اور ضرورت کے تحت ہو تو مالکیہ اور بعض حنفیہ کے نزدیک جائز ہے اور شیخ بھی اسے جائز سمجھتے ہیں اور اگر یہ تلفیق رخصتوں کے حصول کے لیے ہوتو شیخ کے نزدیک مذموم ہے۔

اپنی کتاب 'الفقہ الاسلامی وأدلتہ' کے مقدمہ میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت کا اختلاف عقیدے اور فقہ کا اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ حکومت اور سیاست کا اختلاف ہے۔ شیخ کا یہ بھی دعوی ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت میں مشہور مسائل میں صرف ١٧ مقامات میں اختلاف ہے۔
اگر تو شیخ کی اس سے مراد متقدمین اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین فرق ہے تو واقعتاً اُس اختلاف کی نوعیت مذہبی کی نسبت سیاسی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر محدثین نے بھی اپنے دور کے شیعہ راویوں سے روایات لی ہیں۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کے ہاں بلاشبہ سینکڑوں توہمات و خرافات کو عقائداور بدعات ورسومات کو مذہب کے نام پر جاری کیا گیا ہے ۔ اس کے ثبوت کے لیے معروف ایرانی شیعہ عالم اور مجتہد ڈاکٹر موسی الموسوی کی کتاب 'اصلاح شیعہ' کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔لہذا اب جو شیعہ مذہب موجود ہے' اس میں اور اہل سنت والجماعت میں بنیادی عقائد کا بھی اختلاف ہے اور فقہ میں بھی بنیادی سینکڑوں اختلافات موجود ہیں۔

شیخ نے اپنی کتاب 'الفقہ الاسلامی' میں عورت کے تمام بدن یہاں تک کہ اس کے چہرے اور ہاتھوں کو غیر محرم مردوں کے لیے ستر قرار دیا ہے اوران کے نزدیک عورت کے لیے غیر محرم مردوں سے ان اعضاء کا چھپانا لازم ہے۔
شیخ نے اپنی کتاب 'الفقہ الاسلامی' میں سودی بینکوں کے منافع کو سود ہی قرار دیتے ہوئے حرام' حرام اور حرام قرار دیا ہے۔اس کے برعکس انہوں نے غیر سودی یعنی اسلامی بینکوں کے منافع اور ان کے ساتھ تعامل کو جائز قرار دیا ہے۔

شیخ نے اپنے ایک فتوی میں نکاح مسیار کو جائز قرار دیا ہے جبکہ اس میں ایجاب و قبول' ولی' گواہان اور اعلان نکاح موجود ہو۔ نکاح مسیار یہ ہے کہ ایک مرد وعورت باہمی رضامندی سے اس شرط پر نکاح کر لیتے ہیں کہ عورت اپنے نان نفقہ اور مکان کے حق سے دستبردار ہو جاتی ہے یعنی عورت اپنے شوہر سے نان نفقہ یا مکان طلب نہیں کر سکتی اور اس کی ذمہ داری خود اٹھاتی ہے یا عورت کے والدین اٹھاتے ہیں۔ بعض حنبلی اور شافعی علماء اس کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس نکاح میں اگر ولی' گواہان' ایجاب وقبول اور اعلان نکاح موجود ہو تو نکاح کے ارکان اور شرائط پوری ہیں لہٰذا ان کے ہاں یہ نکاح جائز ہے۔ اس کے برعکس علماء کی ایک جماعت نکاح کی اس قسم کو عورت پر ظلم قرار دیتی ہے اور اسے شرعاً ناجائز کہتی ہے۔ علماء کی ایک تیسری جماعت مطلقاً تو اس قسم کے نکاح کی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی اس کو رائج کرنے کے حق میں ہے لیکن یہ علماء ضرورت اور حاجت کے تحت نکاح کی اس قسم کو جائز قرار دیتے ہیں مثلاً کسی عورت کی شادی کی عمر گزر چکی ہے اور شادی کا امکان نہیں ہے یا کوئی خاتون بیوہ ہیں اور انہیں حفاطت کے پہلو سے کسی مرد کے سہارے کی ضرورت ہے یا کسی نوجوان کے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہے لیکن وہ نکاح کی مالی استطاعت بھی نہیں رکھتا ہے وغیرذلک۔ہمارے پاکستانی معاشرے میں نکاح کے موقع پر گھر جوائی بنانے کی شرط لگانانکاح مسیار ہی کی ایک قسم ہے۔

ڈاڑھی کے بارے شیخ کا موقف یہ ہے کہ ڈاڑھی کا منڈوانا حنابلہ' شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک حرا م ہے جبکہ شافعیہ کے مکروہ تنزیہی ہے۔ شافعی ہونے کی وجہ سے ڈاڑھی کے بارے وہ شافعی مسلک ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈاڑھی کتروانے کے بارے ان کا موقف یہ ہے کہ وہ ایک مشت سے بھی کم کروانے کے قائل ہیں اور صرف حلق کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
خلاصہ کلام
شیخ کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ کو علوم اسلامیہ میں بہت رسوخ حاصل ہے۔ شیخ کی بعض آراء یا افکار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ان پر نقد بھی ممکن ہے لیکن ان پر تجدد کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔ بعض فقہی مسائل میں بعض اہل علم کے نزدیک ان کی آراء شاذ ہو سکتی ہیں لیکن ان آراء کے اظہار میں بھی وہ سلف صالحین اور مذاہب اسلامیہ کی فروعات سے کوئی رشتہ جوڑتے ہی نظر آتے ہیں اور متجددین کی طرح فقہ اسلامی کے تاریخی ذخیرے سے صرف نظر کرتے ہوئے اسلام کی تعبیر نو یا تشکیل جدید کرنا ان کا منہج نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل ان کی کتاب 'الفقہ الاسلامی وأدلتہ' ہے۔

مصادر ومراجع
١۔ الفقہ الاسلامی وأدلتہ' دار الفکر' دمشق
2.ويكيبيديا، الموسوعة الحرة
3.http://www.zuhayli.com/
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مصطفی کمال پاشا

پیدائش اور نسب نامہ
مصطفی کمال کا اصلی نام 'مصطفی' تھا اور بعض روایات کے مطابق انہیں نوعمری میں ہی ان کے ریاضی کے استاذ نے ریاضی میں ان کی مہارت کے سبب' کمال' کا لقب عطا کیا تھا' جس سے وہ 'مصطفی' سے 'مصطفی کمال' بن گئے' جبکہ بعض تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مصطفی نے اپنے لیے ' کمال' کا لقب معروف ترکی شاعر 'نامق کمال' سے متاثر ہوکراختیار کیاتھا۔
'پاشا' کا لفظ ترکی زبان میں ملٹری یا سول آفیسر مثلاً جنرل یا گورنر کے عہدے کے لیے بولا جاتا ہے۔مصطفی کمال کو 'پاشا' کا لقب ان کے ملٹری عہدے یا جنرل کے عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے دیا گیا' جیسا کہ پاکستان میں پرویز مشرف کو عموماً جنرل پرویز مشرف کہہ دیا جاتا تھا۔مصطفی کمال پاشا کو ' اتاترک' کا لقب بھی دیا گیا ہے جس کا معنی 'بابائے ترک' ہے۔

مصطفی کمال کی ولادت ١٨٨١ء میں سلطنت عثمانیہ کے ایک علاقہ 'سلونیکا' میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام علی رضا افندی اور والدہ کا نام زبیدہ ہانم تھا۔ شیخ عبد اللہ عزام کے بقول ایک روایت یہ بھی ہے کہ مصطفی کمال کا نسب نامہ محفوظ نہیں ہے' یعنی اس کی ماں کا نام توزبیدہ ہانم ہے لیکن اس کے باپ یا دادا کا علم نہیں ہے کہ وہ کون تھا ؟ مصطفی کمال کے قریبی دوست فالح رفقی نے یہ بات نقل کی ہے کہ میں نے ایک دن مصطفی کمال کو یہ بات کہتے ہوئے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ وہ علی رضا افندی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ یہ میرا باپ نہیں ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق مصطفی کمال اتاترک کا باپ حسین آغا نامی شخص تھا جو اپنی قومیت کے اعتبار سے ترک کی بجائے بلغارین یا سربین یا رومانی تھا۔ فتحی بشیر بلعاوی نے اپنے مقالہ 'الرجل الصنم' میں علم الانسان(Anthropolgy) کی روشنی میں بعض حقائق کو واضح کرتے ہوئے مصطفی کمال کے نسب نامہ کو مشکوک قرار دیا ہے۔

ابتدائی تعلیم اور گریجویشن
مصطفی کمال کو ان کی والدہ نے ابتدائی تعلیم کے لیے محلہ کے ایک مدرسہ میں داخل کروایا لیکن ان کا دل مذہبی تعلیم میں نہ لگ سکا اور اپنے والد کی خواہش پر انہوں نے سلونیکا ہی میں ماڈرن نصاب کے حامل ایک سکول 'شمسی افندی مکتبی' میں داخلہ لیا۔
مصطفی کمال کے والدعلی رضا افندی ایک سرکاری ملازم تھے اور بعد ازاں انہوں نے ملازمت کو خیر آباد کہہ کر کاروبار شروع کیا۔ مصطفی کمال کے والدین اس سے کاروبار کروانا چاہتے تھے لیکن مصطفی کمال نے اپنے والدین کی خواہش کے برعکس انہیں بتائے بغیر١٨٩٣ء میں ایک جونیئر ملٹری ہائی سکول میں داخلے کا امتحان دیا۔ ١٨٩٦ء میں ان کا ملٹری ہائی سکول میں داخلہ ہوا۔ ملٹری ہائی سکول سے فراغت کے بعد انہوں نے ١٨٩٩ء میں 'وار کالج' میں داخلہ لیا اور ١٩٠٢ء میں اپنی گریجویشن مکمل کی۔بعد ازاں مصطفی کمال نے ١٩٠٥ء میں 'ملٹری سٹاف کالج' سے بھی گریجویشن مکمل کی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ملازمت اور کیریئر
گریجویشن کے بعد مصطفی کمال دمشق میں موجود سلطنت عثمانیہ کی فوج میں بطور 'سٹاف کیپٹن' بھرتی ہوئے۔ یہاں انہوں نے ایک انقلابی جماعت 'وطن وحریت' میں بھی شمولیت اختیار کی جو سیاسی اصلاحات کی دعویدار تھی۔ اسی جماعت سے مصطفی کمال نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک عسکری انقلاب لانے کی فکر پھیلانے کی ابتدا کی' باوجودیکہ وہ خود خلافت عثمانیہ کا ایک تنخواہ دار فوجی افسر تھا۔ ١٩٢٠ء میں انہیں 'سینئر کیپٹن' کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اسی دوران مصطفی کمال نے اپنی سینئر لیڈر شپ پر تنقید کرنا شروع کر دی جس کی وجہ سے ١٩٠٨ء میں انہیں ریلوے میں انسپکٹر کی ذمہ داری پر تعینات کر دیا گیا۔

١٩١٠ء میں انہیں دوبارہ البانیا میں بطور لیفٹیننٹ تعینات کیا گیا۔ ١٩١١ء میں وزارت جنگ میں ان کو ایک ذمہ داری سونپی گئی اور ١٩١٢ء میں انہیں لیبیا میں جاری جنگ میں بھیج دیا گیا۔ یہ جنگ اٹلی اور ترکی کے مابین جاری تھی۔ ١٩١٣ء میں ان کا صوفیا میں ملٹری اتاشی کے طور پر تقرر کیا گیا اور ١٩١٤ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ ١٩١٧ء میں انہیں سیکنڈ آرمی کے لیے کور کمانڈر کے طورپر منتخب کیا گیا۔

انہوں نے٨ جولائی ١٩١٩ء کوسلطنت عثمانیہ کی فوج سے استعفا دیا اور سلطنت نے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔٢٣ /اپریل ١٩٢٠ء کو مصطفی کمال نے 'گرینڈ نیشنل اسمبلی' کی بنیاد رکھی۔ ٥ اگست ١٩٢١ء کو گرینڈ نیشنل اسمبلی کی طرف سے مصطفی کمال کو ' کمانڈر ان چیف' کا عہدہ دیا گیا اور اس عہدے کے تحت مصطفی کمال نے یونانیوں سے جنگ کر کے ان سے ترکی کے مقبوضہ علاقے بازیاب کروا لیے۔٣ مارچ ١٩٢٤ء کو 'خلافت' کے ادارے کا خاتمہ کر دیا گیا اور اس کی پاورز 'گرینڈ نیشنل اسمبلی' کو منتقل کر دی گئیں۔مصطفی کمال اتاترک نے اپنے تئیں خلافت عثمانیہ کو 'جمہوریہ ترکیہ' میں تبدیل کر دیا' لیکن یہ جمہوریت ایسی ہی تھی کہ خود مصطفی کمال اتاترک لگاتار چار دفعہ اس جمہوریہ ترکیہ کے صدر منتخب ہوتے رہے اور تادمِ وفات جمہوریہ کے صدر رہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جنگی خدمات
١٩١٣ء میں 'جالیبولی' کی جنگ میں بلغاریہ کو شکست دی۔ ١٩١٥ء میں 'دردنیل' کی جنگ میں کرنل کی حیثیت سے انگلینڈ کو بدترین شکست سے دو چار کیا اور اس کے اعزاز میں انہیں جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ ١٩١٧ء میں 'قفقاس' کی جنگ میں روس سے سلطنت عثمانیہ کے کئی ایک شہر آزاد کروائے۔ ١٩مئی ١٩١٩ء کو بحیرہ اسود کے کنارے 'جنگ آزادی' کے لیے پڑاؤ ڈالا۔ اس جنگ کا مقصد عثمانی خلفاء و سلاطین سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ ١٩٢٠ء میں 'ازمیر' کی جنگ میں یونانیوں کو شکست دی اور سلطنت عثمانیہ کے کئی ایک علاقے واپس لیے۔ اس کے بعد ٢٣ /اپریل ١٩٢٠ء کو 'گرینڈ نیشنل اسمبلی ' کا اجلاس بلوایا اور انہیں اس اسمبلی کا صدر مان لیا گیا اور ' کمانڈر ان چیف' کا عہدہ دے دیا گیا۔

١٩٢٢ء میں مصطفی کمال اتاترک نے برطانوی اور فرانسیسی افواج کو ترکی کی سرزمین سے مار بھگایا جس کی وجہ سے انہیں عوام الناس میں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی' یہاں تک کے مشہور مصری شاعر احمد شوقی نے ان کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا۔ لیکن بعد میں جب مصطفی کمال اتاترک کے ''کمالات '' کا ظہور ہونا شروع ہوا اور انہوں نے خلافت اسلامیہ کے ادارے کو ختم کر دیا تو احمد شوقی نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ان اشعار سے رجوع کر لیا اور یہ اشعار کہے:

الھند والھة' ومصر حزنیة
تبکی علیک بمدمع سحاح


والشام تسأل والعراق وفارس
أمحا من الأرض الخلافة ماح


'' ہندوستان حواس باختہ ہے اور مصر غمگین ہے اور یہ دونوں تجھ پر بہت زیاد ہ آنسو بہانے والی آنکھ سے رو رہے ہیں۔ شام سوال کر رہا ہے اور عراق اور فارس بھی پوچھ رہے ہیں۔ کیا اس زمین سے خلافت کو مٹا دیا ہے ایک مٹانے والے نے؟''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دینی افکار و نظریات
مصطفی کمال اتاترک نے ١٩٢٣ء میں ترکی کی پارلیمنٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم بیسویں صدی میں ہیں اور ہمیں ایسی کتاب کی اتباع کی ضرورت نہیں ہے جس کے موضوعات 'تین و زیتون' ہیں۔

مستشرق آرمسٹرانگ نے لکھا ہے کہ مصطفی کمال نے دوستوں میں کئی دفعہ یہ بات کی کہ وہ ترکی سے دین اسلام کی بنیادیں تک اکھیڑ دینا چاہتا ہے۔


استاذ انور الجندی کے بقول مصطفی کمال نہ تو مجاہد تھا اور نہ ہی مصلح تھا' بلکہ وہ اتحادی افواج کا تتمہ تھا۔ استاذ انور الجندی نے مصطفی کمال اتاترک کو ایک صیہونی یہودی ایجنٹ قرار دیا ہے۔فتحی بشیر البلعاوی نے مصطفی کمال کو' 'یہود الدونمہ' میں سے ایک قرار دیا ہے اور اس کے ثبوت کے لیے کئی ایک حقائق پیش کیے ہیں۔ 'یہود الدونمہ' سے مراد یہود کا وہ گروہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہو لیکن حقیقت میں یہودی ہو اور اپنے اسلام کے اظہار سے اس کا اصل مقصود دین اسلام کو نقصان پہنچانا ہو۔ 'الدونمہ' کا لقب عثمانیوں نے سترہویں صدی میں ان یہود کو دیا تھا جو خلافت عثمانیہ کے علاقے 'سلونیکا' میں تھے اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے۔ مصطفی کمال کی پیدائش بھی اسی علاقے میں ہوئی تھی۔'atajew' نامی ویب سائیٹ میں مصطفی کمال کے یہودی ہونے کے بارے کچھ شواہد پیش کیے گئے ہیں۔

فتحی بشیر بلعاوی نے اپنے مقالہ میں مصطفی کمال پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ اس کی زندگی کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تین چیزوں میں غرق تھا : عورت' شراب اور بڑابننے کا جنون۔ فتحی بشیر بلعاوی نے اس کی شراب نوشی اور عورتوں سے تعلقات پر مفصل گفتگو کی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دشمن دین قوانین کا نفاذ
یکم مارچ ١٩٢٦ء کو ترکی میں 'ترکش پینل کوڈ' کو ضابطہ فوجداری کے طور پر نافذ کیا گیا جو 'اٹالین قانون' سے ماخوذ تھا۔ ٤ اکتوبر ١٩٢٦ء کو اسلامی عدالتیں بند کر دی گئیں۔ اسی تاریخ میں ترکی کا دیوانی قانون بھی نافذ کیا گیا جو سوئٹزر لینڈ کے دیوانی قانون سے ماخوذ تھا۔ اس قانون کے مطابق عورتوں کا وراثت میں مردوں کے برابر حصہ تسلیم کیا گیا اور انہیں اپنے شوہروں کو طلاق دینے کاحق بھی دیا گیا۔ طلاق کے لیے یہ بھی ضابطہ مقرر ہوا کہ وہ عدالت میں ہی دی جائے گی۔

١٩٢٥ء میں ایک قانون کے ذریعے انگریزی ہیٹ کو رواج دیاگیا اور سرکاری ملازمین کے لیے اسے لازم قرار دیا گیا۔ ١٩٢٨ء میں ترکی کے دستور سے یہ بات نکال دی گئی کہ ترکی ایک اسلامی مملکت ہے۔

١٩٢٩ء میں ایک قانون کے ذریعے ترکی زبان میں لکھی گئی کتابوں کی عربی حروفِ ہجاء میں نشر واشاعت ممنوع قرار پائی اور ترکی زبان کی کتابت کے لیے لاطینی حروف کو لازم قرار دیا گیا۔

١٩٣٤ء میں ایک قانون کے ذریعے عورتوں کو مردوں کے برابر سیاسی حقوق عطا کیے گئے اور ١٩٣٥ء کے عمومی انتخابات میں ١٨ خواتین کو پارلیمنٹ ممبر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جرمنی کے قوانین سے ماخوذ 'قانونِ تجارت' کا نفاذ کیا گیا۔

١٩٢٤ء میں وزارتِ اوقاف کو ختم کر دیا گیا۔ ١٩٢٥ء میں وزارت اوقاف کے تحت مساجد کو بند کر دیا گیا۔ ١٩٣١ء اور ٣٢ء میں مساجد کی تعداد کو محدود کر دیا گیا۔ ٣٠٠ کے قریب سرکاری خطیب تیار کیے گئے تا کہ وہ جمعہ کے خطبات میں زراعت' کاریگری اور ریاستی سیاست کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں۔ استنبول شہر کی دو بڑی مساجد اور مدارس میں سے ایک مسجد 'آیا صوفیا' کو میوزم بنا دیا گیا جبکہ دوسری بڑی مسجد 'مسجد الفاتح' کوسرکاری گودام بنا لیاگیا۔

١٩٣٥ء میں جمعہ کی چھٹی کی بجائے اتوار کی چھٹی کا اعلان کیا گیا۔ ١٩٣٣ء میں استنبول یونیورسٹی میں شریعہ کالج کو مستقل طور پر بند کر دیا گیا۔ تمام کالجز سے عربی اور فارسی زبان میں تعلیم ختم کر دی گئی۔ اسلامی عیدوں عید الفطر اور عید الأضحی کو لغو قرار دیا گیا۔

مصطفی کمال کے حکم پر عربی میں اذان پر پابندی عائد کی گئی اور ترکی زبان میں اذان کو رائج کیا گیا۔ پہلی کلاس سے لے کر یونیورسٹی تک مخلوط تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور عوامی مقامات پر عورتوں کے حجاب اور دوپٹے پرقانونی پابندی عائد کر دی گئی۔ امریکہ سے ماہرین تعلیم بلوا کر ایک نصابِ تعلیم مقرر کیا گیا اور اسے تمام قدیم و جدید مدارس اور سکولز کے لیے لازم قرار دیا گیا۔

شکیب ارسلان کا کہنا ہے کہ مصطفی کمال کی حکومت فرانسیسی اور انگلینڈ کی طرز کی سیکولر حکومت نہیں تھی بلکہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھی' کیونکہ فرانس اور انگلینڈ میں مذہب اور ریاست میں جدائی کے باوجود کبھی بھی ریاست کی طرف سے نہ تو انجیل کے رسم الخط میں مداخلت کی گئی اور نہ ہی چرچ کولغو قرار دیا گیا' جبکہ مصطفی کمال کی حکومت مذہب اور دین اسلام کی دشمن حکومت تھی' جیسا کہ روس کی حکومت کا معاملہ ہے جس نے مذہب کو جڑ سے اکھیڑنے کی کوشش کی۔

روایتی صوفی ازم کوختم کیا گیااور صوفیاء کے سلاسل پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بعض خانقاہوں کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا۔ مجسمہ سازی کو رواج دیا گیا اور ١٩٢٧ء میں 'State Art and Sculpture Museum' کی بنیاد رکھی گئی۔ روایتی مغربی میوزک 'اوپرا' اور 'بیلیٹ' کو رواج دیا گیا۔ تھیٹر کو بھی عام کیا گیا اور فلم انڈسٹری پر خصوصی توجہ دی گئی۔

ہجری تقویم کی جگہ مسیحی تقویم جاری کی گئی۔ تعدد ازواج پر پابندی لگائی گئی' وغیر ذالک۔مصطفی کمال کے ان اقدامات کو بعد ازاں ' کمال ازم' اور ' اتاترک ازم' کا نام دیا گیا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top