• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک تجدد اور متجددین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
وفات
جگر اور اعصاب کی تکلیف کی وجہ سے ١٠ نومبر ١٩٣٨ء کو وفات پائی۔ بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق انہیں یہ تکالیف شراب نوشی کی کثرت کی وجہ سے لاحق تھیں۔ ترکی میں ہی 'انقرہ' میں دفن کیا گیا۔فتحی بلعاوی کے بقول مصطفی کمال نے اپنے مرنے سے پہلے یہ وصیت بھی کی تھی کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے۔

خلاصہ کلام
مذکورہ بالا بحث کے نتیجے میں مصطفی کمال پاشا کے ڈکٹیٹر یا دشمن اسلام ہونے یا الحاد میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ تعجب تو اس پاکستانی ڈکٹیٹر پر ہوتا ہے جو مصطفی کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا تھا کہ وہ مصطفی کمال کی طرح پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتا تھا؟ مصطفی کمال پاشا جیسے لوگوں کے بارے میں تبصرہ کے لیے درج ذیل قرآنی آیات کی تلاوت ہی کو ہم کافی سمجھتے ہیں:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ‌ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٨٥﴾ كَيْفَ يَهْدِي اللَّـهُ قَوْمًا كَفَرُ‌وا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّ‌سُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٦﴾ أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿٨٧﴾
'' اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا تو وہ (اللہ کے ہاں ) ہر گز قبول نہ کیا جائے گا' اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کیسے ہدایت دیں جنہوں نے ایمان لانے کے بعد اور یہ گواہی دینے کے بعد کہ رسول ٍٍصلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں' کفر کیا اور ان لوگوں کے پاس واضح نشانیاں بھی آ چکی تھیں۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیں گے۔ ایسے ظالموں کی جزا تو یہ ہے کہ ان پر اللہ کی لعنت ہو اور فرشتوں کی لعنت ہو اور تمام نوع انسانی کی لعنت ہو۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مصادر ومراجع
١۔ الرجل الصنم' فتحی بشیر البلعاوی' الجامعة السسلامیة'فلسطین، ۲۰۰۸ء
٢۔ ذئب الأناضول' مصطفی زین' الطبعة الأولی' برطانیہ'١٩٩١ء
٣۔ اعلام واقزام فی میزان الاسلام' جلد١' ڈاکٹر سید بن حسین العفانی' دار ماجد عسیری' جدہ
٤۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ' جلد١' دانش گاہ پنجاب' لاہور' طبع اول' ١٩٦٤ء
٥۔ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر' مولانا ابو الحسن علی ندوی' مجلس تحقیقات و نشریات اسلام' کراچی۔
6-http://www.saaid.net/arabic/199.htm
7-en.wikipedia.org
8-ar.wikipedia.org
9-http://www.ataturk.com
10-http://www.atajew.com/
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سرسید احمد خان

سید احمد خان کی پیدائش ١٧/ اکتوبر ١٨١٧ء کو دہلی میں ہوئی۔ سید احمد خان کے آباء واَجداد کے بارے میں معروف رائے تو یہ ہے کہ وہ افغانستان کے صوبہ ہرات سے آ کردہلی میں آباد ہوئے تھے' جبکہ ایک دوسری رائے کے مطابق وہ عرب سے یہاں آئے تھے۔ سید احمد خان کے آبا ء واَجدادسلطنت ِمغلیہ کے دربار میں مختلف انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں' جیسا کہ ان کے نانا اکبر شاہ دوم کے وزیر تھے اور کچھ عرصہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر بھی رہے۔ سرسید کے والد محترم میر محمد متقی بھی اکبر شاہ دوم کے مشیر خاص تھے۔سرسید نے اردو' عربی' فارسی اور ابتدائی دینی تعلیم اپنے گھر اور شہر میں ہی حاصل کی۔ سرسید نے اپنے والد کے ساتھ بچپن ہی سے دربار جانا شروع کر دیا تھا۔ ١٨٣٨ء میں ان کے والد کی وفات کے بعد انہیں بہادر شاہ ظفر دوم کی طرف سے 'عارف جنگ' اور بعد ازاں١٩٤٢ء میں 'جواد الدولہ' کا خطاب دیا گیا۔

والد کی وفات کے بعد سرسید نے بہادر شاہ ظفر کے دربار کو ملازمت کے لیے پسند نہ کیا اور سلطنت مغلیہ کے مسلسل زوال اور شکست وریخت کے پیش نظر انہوں نے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کو ترجیح دی۔ انہوں نے آگرہ میں ایک عدالت میں ' سررشتہ دار' یعنی کلرک کے طور پر ملازمت شروع کی اور بعد میں ١٨٤٠ء میں 'منشی' کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ١٨٥٨ء میں انہیں مراد آباد عدالت میں ایک اہم عہدے پر فائز کیا گیا جہاں سے انہوں نے اپنے تعلیمی کام کا آغاز کیا۔ ١٨٦٩ء میں انہوں نے انگلینڈ کا سفر کیا اور ١٨٧٦ء میں ملازمت ترک کر کے علی گڑھ میں مقیم ہو گئے۔

١٨٧٨ء میں امپیریل کونسل کے ممبر مقرر ہوئے۔ ١٨٨٢ء میں ایجوکیشن کمیشن کے رکن بنے اور ١٨٨٧ء میں پبلک سروس کمیشن کے رکن نامزد ہوئے۔ ١٨٨٨ء میں انہیں کے سی ایس آئی کا خطاب ملا اور ١٨٨٩ء میں انہیں ایڈنبرا یونیورسٹی نے 'ایل ایل ڈی' کی ڈگری دی۔ انہوں نے ٢٧ مارچ ١٨٩٨ء کو وفات پائی۔
سیداحمد خان کے تذکرہ نگاروں نے ان کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پہلا دور
سید احمد خان کی زندگی کا پہلا دور پیدائش سے ١٨٥٧ء تک کا ہے۔ اس دور میں ان پر روایت پسندی غالب نظر آتی ہے' اگرچہ جدیدیت کے کچھ رجحانات اور میلانات بھی موجود ہیں۔ اس عرصے میں سید احمد خان نے 'جامِ جم' کے نام سے مغل بادشاہوں کی ایک مختصر تاریخ فارسی میں مرتب کی۔ اسی طرح مذہب' اخلاق اور تصوف پر کچھ رسائل تصنیف کیے۔ 'راہ سنت وبدعت' کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں تقلید کی مخالفت کی۔ اہل تشیع کے رد میں 'تحفہ حسن' نامی کتابچہ مرتب کیا۔ روایتی پیری مریدی کے خلاف 'کلمة الحق' کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب ' کیمیائے سعادت' کے بعض ابواب کا ترجمہ کیا۔ان کتب میں سید احمد خان' امام غزالی' سید احمد بریلوی' شاہ عبد العزیز رحمہم اللہ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس دور میں انہوں نے علم ریاضی میں بھی بعض رسائل لکھے۔

اس دور کے سید احمد خان کے علمی کارناموں میں ' آثار الصنادید' نامی کتاب ہے جس میں انہوں نے دہلی کی قدیم عمارتوں کی تاریخ بیان کی ہے۔ اس کتاب کا بعد میں فرانسیسی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔علاوہ ازیں ابو الفضل کی کتاب ' آئین اکبری' کی تحقیق و اشاعت بھی سید احمد خان کے اسی دور کے اہم کارناموں میں سے ہے۔ سید احمد خان نے اس کتاب کی تقریظ مرزا اسد اللہ غالب سے لکھنے کو کہا جنہوں نے اس کتاب کے لیے ایک فارسی نظم لکھی جس میں سید احمد خان کو اشارتاً ماضی پر اپنا وقت ضائع نہ کرنے کی تلقین کی۔

١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں سرسید برطانوی گورنمنٹ کے وفادار رہے اور انہوں نے کئی ایک انگریزوں کی جانیں بھی بچائیں۔ البتہ جنگ کے خاتمہ کے بعد انہوں نے 'اسبابِ بغاوتِ ہند' کے نام سے کتاب لکھی جس میں انگریز حکومت پر شدید نقد کی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دوسرا دور
سید احمد خان کی زندگی کا دوسرا دور ١٨٥٧ء سے ١٨٦٩ء تک کا ہے۔ اس دور میں سید احمد خان کی زندگی میں مصلحت کی زندگی بسر کرنے اور انگریز حکمرانوں کے ساتھ اتحاد کے جذبات کا غلبہ نظر آتا ہے۔ اس دور کی اہم تصانیف میں 'اسباب بغاوتِ ہند' ہے جس میں انہوں نے برطانوی انگریز حکومت پر شدید تنقید کی جو جنگ آزادی کو مسلمانوں کی طرف سے ایک طے شدہ سازش قرار دے رہے تھے۔ سید احمد خان نے اس کتاب میں یہ ثابت کیا کہ جنگ آزادی کا اصل سبب انگریز حکومت کا مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں عمل دخل تھا نہ کہ دوسری مسلمان حکومتوں کی طرف سے کوئی خارجی سازش۔

مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین تعلقات کو خوشگوار کرنے کے لیے سرسید کی طرف سے 'مذہبی وحدت ' کا اصول متعارف کروایا گیا اور اس کے لیے 'تحقیق لفظ نصاریٰ' اور 'رسالہ احکام طعام اہل کتاب' کے نام سے رسائل لکھے گئے۔ انہوں نے 'تبیین الکلام' کے نام سے بائبل کی ایک تفسیر لکھنے کا بھی آغاز کیا تھا جو بوجوہ مکمل نہ ہو سکی۔ اس دور میں انہوں نے سائنٹیفک سوسائٹی کا اخبار جاری کیا جو بعد ازاں 'علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ' کے نام سے شائع ہوتا رہا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تیسرا دور
سید احمد خان کی زندگی کا تیسرا دور ١٨٦٩ء سے ١٨٩٨ء تک کا ہے۔ اس دور میں سید احمد خان کی ذات پر مغربی فکر وفلسفہ سے مرعوبیت نمایاں طورپر نظر آتی ہے۔ ١٨٦٩ء میں سید احمد خان نے انگریزوں کی تہذیب وتمدن کا مطالعہ کرنے کی غرض سے انگلینڈ کا سفر کیا۔ اس دور کے نمایاں کارناموں میں سے ان کی کتاب' خطباتِ احمدیہ ' ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کا سبب معروف مستشرق سر ولیم میور کی سیرت پر کتاب 'لائف آف محمد' تھی۔ اس مستشرق نے اپنی اس کتاب میں اللہ کے رسول ۖ پر شدید طعن اور نقد کیاتھا۔ اس کا جواب دینے کے لیے سید احمد خان نے 'خطباتِ احمدیہ' تصنیف کی۔ سید احمد خان نے انگلینڈ میں بیٹھ کر یہ کتاب اردو میں مرتب کی اور ایک اردو جاننے والے انگریز سے اس کا انگریزی ترجمہ کروایا۔ تذکرہ نگاروں نے لکھاہے کہ اس کتاب کی تالیف و اشاعت میں سید احمد خان نے اپنا آبائی گھر اور اس کا سب سازوسامان بھی بیچ دیاتھا۔ اس کتاب میں سر سید نے مستشرقین کے اعتراضات کے جواب میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے رسول اللہۖ کی تمام جنگوں کو دفاعی جنگیں ثابت کیا۔

اسی دور میں سید احمد خان نے اپنی مشہورزمانہ تفسیر لکھنا شروع کی جس میں انہوں نے فطرت (Nature)کے بارے میں اپنا معروف فکر وفلسفہ پیش کیا۔ سید احمد خان نصف قرآن سے کچھ زائد یعنی تقریباً سترہ پارے مکمل کر پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ اس تفسیر میں انہوں نے امت مسلمہ کے اجماعی عقائد سے انحراف کرتے ہوئے آیاتِ قرآنیہ کی ایسی تاویلات کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے کتاب اللہ اہل مغرب کی عقل و سائنس کے مطابق قرار پائے۔ پس قرآنی آیات کو سائنسی اصول وضوابط کے مطابق بنانے کے لیے انہوں نے اس قدر تاویلات کیں کہ وہ اپنے مخالفین کے ہاں 'نیچری' کے نام سے معروف ہو گئے اور ان کا فکر وفلسفہ 'نیچریت' کے نام سے معروف ہوا۔ ان پر کفر کے فتوے بھی لگائے گئے۔ اس دور میں انہوں نے 'تہذیب الاخلاق' کے نام سے ایک پرچہ کا اجرابھی کیا اور اس میں شائع شدہ مضامین کو بعد ازاں اسی نام سے ایک کتاب میں مرتب کر کے علیحدہ بھی شائع کیا گیا ہے۔

اس دور میں ان کے مداحین کے ہاں ان کے کارہائے نمایاں میں ان کی علمی تحریک بھی ہے۔ لندن جانے سے سید احمد خان انگریزی طریقہ تعلیم اور طرز معاشرت سے شدید متاثر ہوئے تھے' چنانچہ انہوں نے واپس آ کر 'التماس بخدمت اہل اسلام وحکام ہند در باب ترقی تعلیم مسلمانِ ہند' کے نام سے ایک مضمون لکھ کر شائع کروایا۔ بعد ازاں انہوں نے 'کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم ِمسلمانان' قائم کی اور ایک انگریزی درسگاہ کا نقشہ تیار کیا۔ انہوں اس درسگاہ کے قیام کے لیے ایک دوسری کمیٹی 'خزینة البضاعة' کے نام سے چندہ جمع کرنے کے لیے بنائی۔ بالآخر انہوں نے ١٨٧٥ء میں ایک اسکول کی بنیاد رکھی اور دو سال بعد ١٨٧٧ء میں یہ اسکول 'محمڈن اینگلو اورینٹل کالج' علی گڑھ کی بنیاد بنا۔یہ کالج بعد میں ١٩٢٠ء میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر گیا تھا۔

علی گڑھ کالج مسلمانانِ ہند کے لیے محض انگریزی تعلیم کی درس گاہ ہی نہ تھی بلکہ ایک سیاسی تحریک بھی تھی۔ اکبر الٰہ آبادی اور بعض دوسرے مسلمان رہنماؤں نے سید احمد خان کے اس طرزِ عمل اور انگریزی تہذیب و زبان کی گرویدگی پر شدید نقد کی۔ شروع میں سید احمد خان ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھی لیکن بعد ازاں انہوں نے 'انڈین نیشنل کانگریس' کے بالمقابل 'پیٹریاٹک ایسوسی ایشن' قائم کی۔ انہوں نے ہندی اور اردو زبان کے قضیہ میں اردو کی شدت سے حمایت کی اورہمیشہ مسلمانانِ ہند کے لیے جداگانہ سیاسی حقوق کے داعی رہے۔

سید احمد خان کے رفقائے خاص میں مولانا شبلی' نواب محسن الملک' نواب وقار الملک' الطاف حسین حالی اور مولوی نذیر احمد جیسی نامور شخصیات تھیں۔ سید احمد خان مسلمانوں میں ایک اہم سیاسی رسوخ کی حامل شخصیت تھے۔ سید احمد خان کا خیال تھا کہ ترقی یافتہ انگریز قوم سے غیر ترقی یافتہ مسلمانوں کا آزادی حاصل کرنا ایک ناممکن امر ہے' لہٰذا وہ مسلمانوں کو انگریز کی وفاداری' ان کی زبان و علوم سیکھنے اور ان کی تہذیب اختیار کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مذہبی تصورات
سید احمد خان نے 'تفسیر القرآن وھو الھدی والفرقان' کے نام سے قرآن مجید کے تقریباً سترہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں انہوں نے ٢٠ صفحات میں 'تحریر فی اصول التفسیر' کے نام سے اپنے ١٥ اصولِ تفسیر بھی نقل کیے ہیں جن میں سے بعض درست ہیں جبکہ بعض جہل مرکب کا نتیجہ ہیں۔ ان اصولوں کا خلاصہ ہم انہی کے الفاظ میں ذیل میں نقل کر رہے ہیں:

''١۔یہ بات مسلم ہے کہ ایک خدا خالق کائنات موجود ہے...٢۔یہ بھی مسلم ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء مبعوث کیے ہیں اور محمد ۖ رسول برحق و خاتم المرسلین ہیں۔٣۔ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے...٤۔ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت ۖ کے قلب پر نازل ہوا ہے یا وحی کیا گیا ہے' خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ جبریل فرشتہ نے آنحضرت تک پہنچایا ہے جیسا کہ مذہب عام علمائے اسلام کا ہے یا ملکہ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے آنحضرت کے قلب پر القا کیا ہے جیسا کہ میرا خاص مذہب ہے...مگر میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ صرف مضمون القا کیا گیا تھا اور الفاظِ قرآن آنحضرت ۖکے ہیں...٥۔ قرآن مجید بالکل سچ ہے' کوئی بات اس میں غلط یا خلافِ واقع مندرج نہیںہے...٦۔صفات ثبوتی اور سلبی ذات باری تعالیٰ کے 'جس قدر قرآن مجید میں بیان ہوئے' سب سچ اور درست ہیں'مگر ان صفات کی ماہیت کا من حیث ھی ھی جاننا مافوقِ عقل انسانی ہے... ٧۔صفاتِ باری تعالیٰ عین ذات ہیں اور وہ مثل ذات کے ازلی وابدی ہیں اور مقتضائے ذات' ظہورِ صفات ہے...٨۔ تمام صفات باری تعالیٰ کی' نامحدود اور مطلق عن القیود ہیں...٩۔قرآن مجید میں کوئی امر ایسا نہیں ہے جو قانونِ فطرت (Nature) کے برخلاف ہو...بیشک ہمارے بعض اخوان کو اس پر غصہ آویگا اور قرآن مجید میں بعض امور کو معجزہ قرار دیکر اور ان کو مافوق الفطرت (Super Natural)سمجھ کر پیش کریں گے اور کہیں گے کہ قرآن مجید میں معجزات مافوق الفطرت موجود ہیں۔ ہم ان کے اس قول کو نہایت ٹھنڈے دل سے سنیں گے اور عرض کریں گے کہ جو آیت قرآن مجید کی آپ پیش کرتے ہیں اور اس سے معجزات مافوق الفطرت پر استدلال فرماتے ہیں' آیااس کے کوئی دوسرے معنی بھی ایسے ہیں جو موافق زبان وکلام عرب کے اور موافق محاورات اور استعمالات اور استعارات قرآن مجید کے ہو سکتے ہیں' اگر نہیں ہو سکتے تو ہم قبول کریں گے کہ ہمارا یہ اصول غلط ہے اور اگر ہو سکتے ہیں تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ آپ اس بات کو ثابت نہیں کر سکے کہ قرآن مجید میں معجزات مافوق الفطرت موجود ہیں...١٠۔قرآن مجید جس قدر نازل ہوا ہے' بتمامہ موجود ہے نہ اس میں ایک حرف کم ہوا ہے نہ زیادہ ہوا ہے...١١۔ہر ایک سورہ کی آیات کی ترتیب میرے نزدیک منصوص ہیں...١٢۔ قرآن مجید میں ناسخ ومنسوخ نہیں ہے' یعنی اس کی کوئی آیت کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی...١٣۔قرآن مجید دفعةًواحدةً نازل نہیں ہوا ہے بلکہ نجماً نجماً نازل ہوا ہے... ١٤۔موجوداتِ عالم اور مصنوعات کائنات کی نسبت جو کچھ خدا نے قرآن مجید میں کہا ہے ' وہ سب ھو ھو یا بحیثیة من الحیثیات' مطابق ِواقع ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کا قول اس کی مصنوعات کے مخالف ہو یا مصنوعات اس کے قول کے مخالف ہوں۔ بعض جگہ ہم نے قول کو' ورڈ آف گاڈ' (Word of God)اور اس کی مصنوعات کو 'ورک آف گاڈ' (Work of God)سے تعبیر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ورڈ آف گاڈ اور ورک آف گاڈ دونوں کا متحد ہونا لازم ہے۔ اگر ورڈ' ورک کے کسی حیثیت سے مطابق نہیں ہے تو ایسا ورڈ' ورڈ آف گاڈ نہیں ہو سکتا۔ ١٥۔باوجود اس بات کے تسلیم کرنے کے کہ قرآن مجید بلفظہ کلامِ خدا ہے مگر جب کہ وہ عربی میں اور انسان کی زبان میں نازل ہوا ہے تو اس کے معنی اسی طرح پر لگائے جاوینگے جیسے کہ ایک نہایت فصیح عربی زبان میں کلام کرنے کے معنی لگائے جاتے ہیں اور جس طرح کہ انسان استعارہ ومجاز وکنایہ وتشبیہ تمثیل اور دلائل لمی واقناعی وخطابی و استقرائی والزامی کو کام میں لاتا ہے … الخ'' (تفسیر قرآن : ١١۔١٤)
سرسید احمد خان کے اصول تفسیر میں سے سب سے زیادہ گمراہی کا سبب جو اصول بنا وہ ان کا نواں اصول ہے کہ جس کے مطابق قرآن مجید میں کوئی امر بھی خلافِ فطرت واقع نہیں ہواہے۔ اپنے اس اصولِ فطرت کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اپنے آخری اصول کا سہارا لیا ہے اور اجماعی عقائد اسلامیہ کی تردید میں عربی لغت اور صرف ونحو کے ایسے ایسے نادر استعمالات و استشہادات سامنے لائے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

اپنے اس اصول کے تحت انہوں نے قرآن مجید میں انبیاء ورسل کے معجزات کی عجیب وغریب تاویلات کیں 'مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں عصائے موسیٰ سے سمندر کے پھٹنے اور سمندری پانی کے دیواروں کی مانند دونوں اطراف میں کھڑے ہونے کی تاویل سمندر کے مدو جزر سے کی۔ اسی طرح جب بنی اسرائیل میں ایک شخص کے قتل ہونے پر گائے ذبح کر کے اسے گائے کا ایک ٹکڑا مارنے کا حکم دیا گیاتو اس سے مردہ زندہ ہو گیا' جس کے بیان میں ارشادِ باری تعالی' کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی' کی تاویل سرسید نے یہ کی کہ مردہ کو زندہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ نامعلوم قاتل معلوم ہو گیا۔

بنی اسرائیل کے بطور عذاب بندر بنائے جانے یعنی ' کُوْنُوْا قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ' کی تاویل بنی اسرائیل کے بندروں کی طرح ذلیل ورسوا ہونے سے کی ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے قصہ میں ' فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ...الخ' کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد خواب ہے اور انہوں نے خواب میں اپنے مرے ہوئے گدھے کی ہڈیاں اٹھتے اور ایک گدھے کی صورت اختیار کرتے دیکھی تھیں۔

ارشادِباری تعالیٰ 'اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ' کی تاویل یہ کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں لیکن وہ صلیب پر نہیں مرے تھے بلکہ طبعی موت مرے تھے اور مسلمانوں نے رفع سماوی اور نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ نصاریٰ سے لیا ہے۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پرندوں کی مورتیوں میںپھونک مار کر اڑتا ہوا پرندہ بنانے کے معجزات کابھی انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن مجید میں یہ نہیں آیا کہ پرندے کی مورتی پھونک مارنے سے جاندار پرندہ بن جاتی تھی بلکہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ایک کھیل تھا جیسا کہ بچے مٹی کی مورتیاں بنا کر کھیلتے ہیں اور انہیں ہاتھوں میں اڑاتے پھرتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنے کے معجزہ کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد ان کا کافروں کو اسلام میں داخل کرنا ہے۔عصائے موسیٰ کے اژدہا بن جانے کی تاویل یہ کی کہ وہ دیکھنے والوں کے تخیل میں اژدہا اور سانپ تھا نہ کہ حقیقت میں کوئی سانپ بنا تھا' جیسا کہ جادگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں بھی حقیقت میں سانپ نہیں بنی تھیں۔ پس عصائے موسیٰ اور جادوگروں کی لاٹھیوں اوررسیوں دونوں کا معاملہ ایک ہی تھا۔ میدانِ بدر میں ایک ہزار فرشتوں کے نزول کی تاویل یہ کی کہ اس سے مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دلوں کومیدانِ جنگ میں ایک ہزار گنا تقویت اور ثابت قدمی عطا فرمائیں گے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے کے معجزہ کا انکار کیا ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کو ایک تخیل قرار دیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا انکار کیا ہے اور اس کی تاویل یہ کی ہے کہ درحقیقت مچھلی نے ان کو منہ سے پکڑا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔

قرآن مجید میں 'ملائکہ' سے مراد 'قوائے ملکوتی' لی ہے اور حضرت جبرائیل سے مراد 'قدرة اللہ' یا 'قوةاللہ' لی ہے۔ شیاطین سے مراد 'شیاطین انس' لیے ہیں۔ جنات سے مراد 'قوائے بہیمیہ 'لیے ہیں یا وحشی و اجڈ یا ڈاکو لیے ہیں۔

انسانوں اور حیوانات کی 'روح' کو ایک ہی روح یعنی 'حیوانی روح' قرار دیا ہے۔ 'سحر' سے مراد ایک خاص قسم کی 'مقناطیسی قوت' لی ہے جس سے دوسروں کو ہپناٹا ئز کیا جاتا ہے۔ دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں سرسید احمد خان کا عقیدہ یہ ہے کہ روح جب انسان کے جسم سے نکل جاتی ہے تو اب اس دنیاوی جسم یا کسی نئے جسم کے ساتھ زندہ نہیں ہو گی بلکہ روح بذاتہ ایک جسم کی مالک ہے اور روح اپنے اس جسم کے ساتھ ہی اخروی زندگی گزارے گی۔ آسان الفاظ میں سرسید احمد خان آخرت میں صرف روحانی زندگی کے قائل ہیں نہ کہ جسمانی کے۔

جنت اور جہنم کی نعمتوں اور عذابوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ راحت وتکلیف کو بیان کرنے کے اسالیب ہیں اور جنت سے مراد کوئی مادی جنت نہیں ہے کہ جس میں حور و قصور ہوں بلکہ اس سے مراد روحانی راحت وسہولت ہے اور اسی طرح جہنم سے مراد بھی کوئی مادی جہنم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد بے سکونی اور اضطراب کی کیفیات ہیں۔

واقعہ معراج کی یہ تاویل کی ہے کہ اس سے مراد خواب میں بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کرنا ہے۔ سورة المائدة میں 'المُنخنقة' کی تفسیر میں اہل کتاب کے ان جانوروں کو حلال قرار دیا ہے جنہیں انہوں نے گلا گھونٹ کر مار دیا ہو' وغیر ذلک۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
خلاصہ ٔکلام
اپنے افکار ونظریات کے اعتبار سے سرسید احمد خان برصغیر پاک وہند میں اعتزال جدید کے بانی تھے۔ اعتزالِ قدیم میں اس قدر تاویلات نہیں تھیں' کیونکہ وہاں مقصود یونانی فلسفہ اور دینی عقائد و ایمانیات میں تطبیق تھی' جبکہ یہاں مغربی فکر وفلسفہ کے ساتھ ساتھ سائنس کے ساتھ بھی مذہب اسلام کی موافقت پیدا کرنا' اعتزالِ جدید کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔ پس سرسید احمد خان کی تفسیر تفردات' شذوذات' جہل مرکب اور ضلالت وکفر پر مبنی اقوال سے بھری پڑی ہے' اگر چہ یہ بہرحال ماننا پڑتا ہے کہ انہوں نے اجماعی دینی عقائد' اساسی ایمانیات اور قرآن و احادیث مبارکہ کی تفسیروتشریح کا بیڑاغرق انتہائی خلوص سے ہی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان پر یہ اعتراض ہوا کہ معتزلہ قدیم نے بھی تو یونانی فلسفہ وحکمت اورعلم ہیئت کے مطابق نصوص کی تاویلات کیں اور بعد ازاں اس فلسفہ کی بنیادیں غلط ثابت ہوئیں تو نصوص کی یہ تشریحات بھی غلط قرار پائیں' لہٰذا اس کا غالب امکان موجود ہے کہ آئندہ زمانہ میں سائنسی علوم میں اس قدر ترقی ہو کہ موجودہ سائنسی نظریات ' کہ جن کی نصوصِ قرآن سے مطابقت وموافقت آپ نے اپنی تفسیر میں ثابت کی ہے' غلط ثابت ہوں تو آپ کیاکریں گے؟ سرسید نے ان الفاظ میں اس اعتراض کا جواب دیا ہے:

''پس اگر ہمارے علوم کو آیندہ زمانہ میں ایسی ترقی ہو جاوے کہ اِس وقت ( یعنی سر سید کے وقت ) کے امورِ محققہ کی غلطی ثابت ہوتو ہم پھر قرآن مجید پر رجوع کرینگے اور اس کو ضرور مطابق حقیقت پاوینگے اور ہم کو معلوم ہو گا کہ جو معنی ہم نے پہلے قرار دیے تھے' وہ ہمارے علم کا نقصان ہے۔ قرآن مجید ہر ایک نقصان سے بری تھا۔'' (تفسیر القرآن : ٢٠١)
مصادر ومراجع
1-en.wikipedia.org
٢۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ' دانش گاہ پنجاب' لاہور' طبع اول' ١٩٦٦ء
٣۔انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا' سید قاسم محمود' الفیصل ناشران' لاہور
٤۔تفسیر القرآن' سرسید احمد خان' رفاہ عام سٹیم پریس' لاہور
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
غلام احمد پرویز


غلام احمد پرویز ٩ جولائی ١٩٠٣ء کو بھارتی پنجاب کے ایک شہر'بٹالا' ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا حکیم مولوی رحیم بخش ایک عالم دین اور چشتیہ نظامیہ سلسلہ کے بزرگ تھے۔ پرویز صاحب نے ١٩٢٧ء میں گورنمنٹ آف انڈیا کے سنٹرل سیکرٹیریٹ میں ملازمت اختیار کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی دوران ان کی ملاقات علامہ اقبال مرحوم سے بھی ہوئی۔ انہوں نے ١٩٣٨ء میں ماہنامہ ''طلوع اسلام'' جاری کیا۔ شروع میں مولانا مودودی رحمہ اللہ کے ساتھیوں میں سے تھے اور کہا جاتا ہے کہ یہ غلام احمد پرویز ہی تھے جنہوں نے علامہ اقبال اور چوہدری نیاز علی خان کے سامنے پٹھانکوٹ کے اسلامی تحقیقی ادارے 'دار الاسلام' کے لیے مولانا مودودی رحمہ اللہ کا نام پیش کیا تھا' لیکن بعد میں جب پرویز صاحب نے حدیث کا انکار کیا تو ان کے اور مولانا مودودی رحمہ اللہ کے مابین شدید اختلاف کا ظہور ہوا۔پرویزی فکر کی تردید میں مولانا مودودی رحمہ اللہ نے 'سنت کی آئینی حیثیت' نامی معرکة الآراء کتاب لکھی جس نے عقلی' منطقی اور نقلی دلائل کی روشنی میں پرویزی فکر کی جڑوں پر کلہاڑا رکھ دیا۔

پرویز صاحب نے ۱۹۵۱ء میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے طور پر ریٹائر منٹ لے لی۔کراچی میں درسِ قرآن کا آغاز کیا اور ١٩٥٨ء میں لاہور منتقل ہوئے۔ ٢٤ فروری ١٩٨٥ء کو فوت ہوئے۔ انہوں نے ایک بیوہ کو سوگوار چھوڑا جبکہ ان کی اولاد نہ تھی۔ ان کا کام اب طلوعِ اسلام ٹرسٹ 'قرآنک ریسرچ سنٹر' قرآنک ایجوکیشن سوسائٹی اور پرویز میموریل لائبریری وغیرہ کے ذریعہ عام کیا جا رہاہے۔

پرویز صاحب کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے کارکنان میں سے تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کے مشیر خاص بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس سیاسی اور معاشرتی مقام یا status کی وجہ سے ان کا فکر پاکستان کے مقتدر طبقے میں عام ہوا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کتب اور علمی کام
پرویز صاحب نے متفرق موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں' جن میں انہوں نے اپنے فکر کو کھل کر بیان کیا ہے۔ ان کتابوں کے نام ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں:
١۔معارف القرآن
٢۔مفہوم القرآن
٣۔مطالب القرآن
٤۔لغات القرآن
٥۔تبویب القرآن
٦۔نظامِ ربوبیت
٧۔تصوف کی حقیقت
٨۔سلیم کے نام
٩۔طاہرہ کے نام
١٠۔قرآنی فیصلے
١١۔شاہکارِ رسالت
١٢۔برق طور
١٣۔جوئے نور
١٤۔من ویزداں
١٥۔جہانِ فردا
١٦۔ابلیس وآدم
١٧۔مقامِ حدیث
١٨۔مذاہب ِعالم کی آسمانی کتابیں
١٩۔اسبابِ زوالِ اُمت
٢٠۔معراجِ انسانیت
٢١۔انسان نے کیا سوچا؟
٢٢۔اسلام کیا ہے؟
٢٣۔شعلۂ مستور
٢٤۔کتاب التقدیر
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top