• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک تجدد اور متجددین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
افکار وآراء
غلام احمد پرویز صاحب نے کتاب اللہ کی تفہیم میں سنت ِنبویۖ کی ضرورت واہمیت کا انکار کیا اور وہ محض عربی زبان کی مدد سے قرآن مجید کو براہ راست سمجھنے کے مدعی تھے۔ عربی زبان کی مدد سے قرآن کریم کے براہِ راست مطالعہ کے نتیجہ میں پرویز صاحب نے اپنے کئی ایک نئے فلسفے یا نظریات و اَفکار متعارف کروائے۔ برصغیر پاک وہند میں جس شخص نے سب سے پہلے حدیث وسنت کا انکار کیا وہ عبد اللہ چکڑالوی تھے۔ ان کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے اس فکر کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد حافظ اسلم جیراج پوری نے اس فکر کو مزید مزین کیا اور آخر میں غلا م احمد پرویز صاحب نے انکارِ حدیث وسنت کے اس فکر کو باقاعدہ ایک مکتب فکر یا مسلک کی صورت میں مدوّن کر دیا۔ علاوہ ازیں مولوی محب الحق عظیم آبادی' تمنا عمادی' نیاز فتح پوری اورعلامہ مشرقی وغیرہم نے بھی انکارِ حدیث کی تحریک میں اہم کردار اد اکیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ایمان باللہ کا تصور
پرویز صاحب کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں لفظ 'اللہ' آیا ہے تو اس سے مراد اللہ کی ذات نہیں بلکہ 'اللہ کا قانون' یا 'نظامِ ربوبیت' ہے اور قرآن مجید میں اللہ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ درحقیقت اللہ کے دیے ہوئے قانون کی صفات ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''سلیم اگر تم ایک اہم نکتہ سمجھ لو تو قرآن فہمی میں تمہاری بہت سی مشکلات کا حل خود بخود نکل آئے گا 'یعنی ان مقامات میں جہاں قرآن کریم میں لفظ اللہ' استعمال ہوا ہے' اللہ کی جگہ اگر تم 'اللہ کا قانون' کہہ لیا کرو تو بات بالکل واضح ہو جائے گی۔'' (سلیم کے نام : جلد ۱، ص ۱۷۳)
ایک اور مقام پر پرویز صاحب اپنے فلسفہ ٔنظامِ ربوبیت یا مارکسزم کی شرح میں لکھتے ہیں:
''ہم اس مقام پر ایک اہم نکتہ کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں' جسے آگے بڑھنے سے پہلے سمجھ لینا ضروری ہے۔ ہم نے 'اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ…' کی آیت میں بھی اور مذکورہ صدر آیت میں 'اللہ' سے مراد لیا ہے: ''وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندی کو نافذ کرنے کے لیے متشکل ہو۔'' (نظام ربوبیت : ص١٥٨)
اسی طرح آیت مبارکہ (وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا)(ھود:٦) کی تفسیر میں پرویز صاحب لکھتے ہیں:
''ہم نے (اس آیت میں) اللہ سے مراد لیا وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندی کو نافذ کرنے کے لیے متشکل ہو۔''(نظام ربوبیت : ص١٥٨)
اور اس قانونِ خداوندی سے پرویز صاحب کی مراد مارکس کا دیا ہوا فلسفہ ہوتا ہے جس سے وہ حد درجہ متاثر نظر آتے ہیں۔ آسان الفاظ میں پرویز کے نزدیک قرآن مجید میں لفظ رب یا اللہ سے مراد وہ معاشرہ ہے جو ''قانون الٰہی'' یعنی مارکسزم کے فلسفہ پر قائم ہو' اور اس رب یا اللہ کی صفات سے مراد ''قانونِ الٰہی'' یا مارکسزم کی بنیاد پر قائم معاشرے کی صفات ہیں۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
''انسانوں کے خود ساختہ مذہب کے پیدا کردہ خدا پر ایمان لانے اور اس کے دعاوی پر توکل رکھنے سے وہ یقین کسی طرح پیدا نہیں ہو سکتا جو انسان کو احتیاج کی فکر سے بے خوف کر دے۔یہی وہ خدا تھا جس کے متعلق مارکس نے کہہ دیا تھا کہ اس کا تصور سرمایہ داروں کی مصلحت کوشیوں کا پیدا کردہ ہے' لیکن 'خدا' کے تصور کا ایک مفہوم وہ ہے جسے خود خدا نے متعین کیا ہے اور جو قرآن کے حروف ونقوش میں جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس تصور کی رو سے ان مقامات پرخدا سے عملاً مفہوم وہ نظام ہے جو اس کے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے متشکل ہوتا ہے اور اس طرح وہ تمام ذمہ داریاں اپنے سر لے لیتا ہے جنہیں خدا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔''
اسی طرح پرویز صاحب کے نزدیک جہاں اللہ اور اس کے رسول ۖ کے الفاظ ایک ساتھ آئے ہیں تو اس سے مراد 'اسلامی نظام حکومت' ہے۔ پرویز صاحب نے اس بنیاد پر 'مرکز ملت' کے نام سے اپنا نیا فلسفہ متعارف کروایا۔ اس فلسفہ کے مطابق قرآن مجید میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے مراد نظام ربوبیت یعنی مارکسزم کی بنیاد پر قائم حکومت کی اطاعت ہے۔ ایک جگہ پرویز صاحب لکھتے ہیں:
''حکومت کے انتظامی امور کے لیے ایک مرکز ہوگا اور اس مرکز کے ماتحت افسرانِ مجاز' قرآن کریم میں اس کے لیے 'خدا اور رسول' کی اصطلاح آئی ہے یعنی وہ نظام خداوندی جسے رسول اللہ نے متشکل فرمایا۔ خدا اور رسول کی اطاعت سے مقصود اسی مرکزی حکومت خداوندی کی اطاعت ہے۔'' (قرآنی فیصلے : ص ٦)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
'' رسول اللہ کے بعد خلیفة الرسول' رسول اللہ کی جگہ لے لیتا ہے' اب خدا اوررسول کی اطاعت سے مراد جدید مرکز حکومت کی اطاعت ہوتی ہے۔''(معراج انسانیت:٣٥٧)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ایمان بالرسالت
یہ تو پرویز صاحب کا ایمان باللہ کے بارے عقیدہ تھاکہ کبھی تو ان کی اللہ یا رب سے مراد ''نظامِ ربوبیت'' یا مارکسزم پر قائم معاشرہ ہوتا ہے جبکہ وہ لفظ قرآن مجید میں اکیلا مستعمل ہوا ہو اور کبھی ان کی اس سے مراد اس معاشرے کو قائم کرنے والی مرکزی حکومت یا سنٹرل اتھارٹی اور ان کے ماتحت افسران ہوتے ہے جبکہ وہ لفظ قرآن مجید میں رسول کے ساتھ استعمال ہوا ہو۔ اب ایمان بالرسالت کے بارے میں اگر پرویز صاحب کے عقیدہ کا جائزہ لیا جائے تو اس بارے میں پرویز صاحب کا خیال ہم اوپر نقل کر چکے ہیں کہ اس سے ان کی مراد وہی مرکز ملت یا سنٹرل اتھارٹی ہے' یعنی خدا اور رسول مل کر ایک اصطلاح بنی ہے اور اس سے مراد مرکز ملت یا سنٹرل اتھارٹی ہے اور رسول کی اطاعت سے مراد اس مرکز ملت کی اطاعت ہے ۔ایک جگہ آیت مبارکہ (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ) (النساء:٥٩) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
''اس آیت مقدسہ کا مفہوم بالکل واضح ہے' اس میں 'اللہ ورسول' سے مراد مرکز ملت یعنی نظامِ خداوندی (central authority) اور اولو الامر سے مفہوم افسرانِ ماتحت ہیں۔'' (معراج انسانیت : ص٣٢٢)
پس پرویز صاحب کے نزدیک قرآن مجید میں لفظ رب یا اللہ سے مراد تو وہ معاشرہ ہے جو نظامِ ربوبیت یعنی مارکسزم کی بنیاد پر قائم ہو اور اللہ اور اس کے رسول ۖکی اطاعت سے مراد ایسے معاشرے کو چلانے والی مرکزی حکومت کی اطاعت اور اولوالامر کی اطاعت سے مراد اس مرکزی حکومت کے ماتحت افسران کی اطاعت ہے۔

پرویز صاحب نے ''قصہ ٔآدم '' کو انسان کا قصہ قرار دیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کی شخصیت کا انکا ر کیا ہے۔ یعنی ان کے بقول قرآن میں جہاں جہاں لفظ آدم آتا ہے تو اس سے مراد کوئی شخص واحد نہیں تھا بلکہ یہ ایک نوع تھی جس نوع کا اللہ تعالیٰ نے بندروں میں سے انتخاب کیا تھا تا کہ اسے انسان بنائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت کا بھی انکار کیا ہے' کیونکہ ان کے نزدیک آدم کسی شخص کا نام ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک نوع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ارتقا کے مراحل میں انسان بنانے کے لیے بندروں میں سے چن لیا تھا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ایمان بالآخرت
جہاں تک ایمان بالآخرت کا معاملہ ہے تو اس بارے میں پرویز صاحب کا عقیدہ ہے کہ جنت اور جہنم کسی اُخروی زندگی یا حیات میں کسی اچھی بری جگہ یا مکان کا نام نہیں ہے بلکہ یہ بندہ مؤمن پر اس دنیا میں طاری ہونے والی کچھ کیفیات کا نام ہے۔ ایک جگہ جہنم کے بارے میں لکھتے ہیں:
''جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے' لیکن قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ غیر محسوس' مجرد حقائق کو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے۔''(جہان فردا : ص٢٣٥)
جنت کے بارے اپنے نظریات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''جہنم کی طرح اُخروی جنت بھی کسی مقام کا نام نہیں' کیفیت کا نام ہے۔'' (جہان فردا : ص٢٧٠)
ایک اور جگہ جنت کی نعمتوں کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''جنت کی آسائشیں اور زیبائشیں' وہاں کی فراوانیاں اور خوشحالیاں اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہو جاتی ہیں' مرنے کے بعد کی جنت کے سلسلہ میں ان کا بیان تمثیلی ہے۔'' (نظامِ ربوبیت : ص٨٢)
پرویز صاحب نے روزِ حشر اور قیامت کا بھی انکار کیا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''یہ تصور صحیح نہیں کہ جتنے لوگ مرتے ہیں وہ مرنے کے بعد قبروں میں روک لیے جاتے ہیں' اور پھر ان سب کو ایک دن اکٹھا اٹھایا جائے گا اسے حشر یا قیامت کا دن کہا جاتا ہے۔'' (جہانِ فردا : ص١٨٠)
ایک جگہ قرآنی الفاظ 'یوم القیامة' کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''یوم القیامة سے مراد ہو گا وہ انقلابی دور جو قرآن کی رو سے سامنے آیا تھا۔'' (جہانِ فردا : ص١٣٣)
ایک اور جگہ قرآنی لفظ 'الساعة' کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''الساعة سے مراد حق وباطل کی وہ آخری جنگ ہوتی ہے جس سے باطل کی قوتیں شکست کھا کر برباد ہو جاتی ہیں۔''(لغات القرآن :جلد۲ ، ص ۹۱۸ )
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
فرشتوں پر ایمان
فرشتوں کے بارے میں پرویز صاحب کا خیال ہے کہ یہ کوئی علیحدہ سے خدائی مخلوق نہیں ہیں بلکہ بعض انسانی داخلی قوتوں کو ملائکہ کا نام دیا گیا ہے۔ ایک جگہ پرویز صاحب لکھتے ہیں:
''ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں' یعنی ہمارے اعمال کے وہ اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔'' (ابلیس وآدم : ص١٦٢)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
''ملائکہ یعنی کائنات کی قوتیں جن سے رزق پیدا ہوتا ہے' انسان کے تابع فرمان ہیں۔'' (ابلیس وآدم:ص ٥٢)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
'' فرشتے' ملائکہ' وہ کائناتی قوتیں ہیں جو مشیت خداوندی کے پروگرام کو بروئے کار لانے کے لیے زمانے کے تقاضوں کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔'' (اقبال اور قرآن :ص ١٦٥)
پرویز صاحب نے قرآن مجید میں جنات سے مراد بدوی اور وحشی قبائل لیے ہیں۔ فرشتوں اور جنات کے بارے میں یہ تقریباً وہی نقطہ نظر ہے جو سرسید مرحوم کا تھا۔تقدیر کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ مجوسیوں نے یہ عقیدہ اسلام میں داخل کیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ایمان بالقرآن
پرویز صاحب قرآن مجید کو ابدی وحی مانتے ہیں' لیکن حدیث وسنت کے ذریعے قرآن کی تفسیر کے قائل نہیں ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ قرآن نے اصول دے دیے ہیں اور ان اصولوں کی تشریح اور توضیح کے مطابق ایک اسلامی نظامِ حیات یا قانون کی تفصیلات ہم خود طے کریں گے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
''قرآن کریم نے صرف اصولی احکام دیے ہیں اور یہ چیز انسانوں پر چھوڑ دی ہے کہ وہ اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ان اصولوں کی روشنی میں جزئی قوانین ایک نظام کے تابع خود مرتب کریں۔'' (لغات القرآن : جلد۲، ص ۴۷۹)
پرویز صاحب قرآن مجید کی تفسیر خود کرنے کے قائل ہیں اور اللہ کے رسول ۖ کی طرف سے کی گئی قرآنی تفسیر کی ضرورت اور اہمیت کے منکر ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''قرآن کے اصول مکمل غیر متبدل اور ابدی ہیں' اس لیے اب کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ باقی رہا یہ تصور کہ ان اصولوں کو سمجھانے کے لیے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو خدا کی طرف سے ان اصولوں کو سمجھنے کا علم حاصل کرے اور انہیں پھر دوسرے انسانوں کو سمجھائے تو یہ تصور یکسر غیر قرآنی ہے۔ قرآن کریم نے کہیں نہیں کہا کہ میری تعلیم سمجھانے کے لیے بھی کسی مامور من اللہ یا ملہم ربانی کی ضرورت ہے۔'' (قرآنی فیصلے : جلد۳، ص ۲۶۰)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
قرآنی آیات کی پرویزی تفسیر کے چند نمونے
پرویز صاحب نے قرآن کے دیگر مقامات کو بھی اپنی تاویلات کا تختہ مشق بنایا ہے' مثلاً قرآنی آیت (فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلاَّ خَمْسِیْنَ عَامًا) (العنکبوت : ١٤) یعنی ''حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ٩٥٠ سال رہے'' کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں 'سَنَة' کے لفظ سے مراد 'فصل' ہوتی ہے اور ایک سال میں چار فصلیں ہوتی ہیں' لہٰذا ہزار فصلوں کا معنی ٢٥٠ سال ہوئے اور اس میں سے ٥٠ سال نکال لیں تو ٢٠٠ سال باقی رہ گئے' لہٰذا حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ٢٠٠ برس ہوئی جو معقول بات ہے۔

اسی طرح قرآنی آیت (وَقَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ)(النمل : ١٦) یعنی ''حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے'' کی تاویل میں فرماتے ہیں کہ 'منطق' سے مراد قواعد وضوابط ہیں اور 'طیر' سے مراد گھوڑے ہیں اور 'منطق الطیر'سے مراد گھوڑوں کے رسالہ سے متعلق علم ہے۔

(اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِفَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِ اللّٰہِ ) (آل عمران:٤٩)
یعنی ''بلاشبہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی ایک صورت بناتا ہوں پس میں اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے'' کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ میں وحی کے ذریعے انسانوں کو حیات نو عطا کروں گا اور وہ خاک سے فضا میں اڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔

(وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْمًا) (البقرة : ٢٥٩)
یعنی ''تم گدھے کی ہڈیوں پر غور کرو کہ کیسے ہم انہیں اٹھاتے ہیں اور انہیں گوشت کا لباس پہناتے ہیں'' کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد رحم مادر میں انسان کا جنین ہے۔

(اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء)(النساء :٣٤) یعنی ''مرد عورتوں پر نگران ہیں'' کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ آیت مبارکہ میں 'قوام' کا معنی روزی مہیا کرنے کا کیا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں پھینکے جانے والے واقعہ کی تاویل یہ کی کہ مشرکین نے انہیں اپنی دشمی اور عداوت کی آگ میں پھینکا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حضرت اسمٰعیلd کو ذبح کرنے کے بارے میں یہ تاویل کی کہ یہ غلط فہمی تھی جو خواب کی غلط تعبیر کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لاحق ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس غلط فہمی پر عمل سے اس طرح بچا لیا کہ ان کی جگہ کچھ اور ذبح ہو گیا۔

عصائے موسیٰ علیہ السلام سے پانی کے پھٹ کر دو دیواروں کی شکل میں کھڑے ہونے کی تاویل یہ کی کہ 'کُلُّ فِرْقٍ' سے مراد دونوں جماعتیں یعنی آلِ فرعون اور بنی اسرائیل کی جماعتیں تھیں جو تودوں کی مانند آمنے سامنے کھڑی ہوئیں۔

(فَاَلْقٰٹھَا فَاِذَا ھِیَ حَیَّة تَسْعٰی)(طٰہٰ ) یعنی ''حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گیا'' میں عصائے موسیٰ علیہ السلام سے مراد احکام لیے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیش کیے تھے۔

(وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ) (آل عمران : ٤٦) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ماں کی گود میں کلام کریں گے'' کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں خوب باتیں کرنے والا ہو گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دیگر افکار وآراء
نماز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ ایک بے روح رسم اور پرستش ہے لیکن پھر بھی میں جمہور مسلمانوں کے طریقہ پر نماز تو پڑھ لیتا ہوں۔
پرویز صاحب کے نزدیک 'اقامت صلوٰة'سے مراد وہ موقت اجتماعات ہیں جو نظام ربوبیت کی یاد تازہ کرنے کے لیے منعقد کیے جائیں۔
زکوٰة کے بارے میں فرماتے ہیں کہ زکوٰة کی کوئی شرح اسلام میں مقرر نہیں ہے' ایک اسلامی حکومت سارا مال بھی لے سکتی ہے۔ زکوٰة اور ٹیکس ایک ہی شے ہے' ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
قربانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حج کے علاوہ قربانی ایک رسم اور قرآن پر جھوٹ ہے۔
حرم کعبہ سے مراد مکہ مکرمہ نہیں ہے بلکہ وہ جگہ ہے جہاں سے دینی احکام کا نفاذ ہو۔
بغیر سمجھے تلاوتِ قرآن پر اجر وثواب کے قائل نہیں ہیں اور اسے ایک عجمی سازش قرار دیتے ہیں۔
تعددِ ازواج کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی آ سکتی ہے لیکن اس کی موجودگی میں نہیں۔
قرآنی حدود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قرآن نے جو سزائیں بتلائی ہیں وہ انتہائی سزائیں ہیں اور حدود شرعی نافذ کرنے والے ان سے کم سزائیں بھی جاری کر سکتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پرویز پر کفر کا فتویٰ
امام حرم شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل نے غلام احمد پرویز اور اس کے متبعین کو کافر قرار دیا ہے۔حکومت کویت کی طرف سے وزارتِ اوقاف کی فتویٰ کمیٹی کے چیئرمین شیخ مشعل مبارک عبد اللہ احمد الصباح نے بھی پرویزی عقائد رکھنے والوں کو کافر قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کے سابقہ مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ اور ان کے بعد شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ نے بھی غلام احمد پر ویز پر منکر حدیث ہونے کی وجہ سے کفر کا فتویٰ عائد کیا ہے۔

غلام احمد پرویز کے کفرکے بارے میں سعودی عرب کے ان علماء کے فتاوٰی کی تائید کرنے والوں میں مولانا محمد ادریس سلفی' مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی' مولانا محمد تقی عثمانی'مفتی عبد القیوم ہزاروی' مولانا ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری' ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر' مولانا سراج الدین' مولانا محمد یوسف لدھیانوی' مولانا حافظ عبد القادر روپڑی' مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی' مولانا عبد الحفیظ مکی' مولانا منظور احمد چنیوٹی' مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ مدنی' مولانا مفتی عاشق الٰہی البرنی' مفتی ڈاکٹر عبد الواحد' مولانا عبد الستار خان نیازی' مولانا صفی الرحمن مبارکپوری' مولانا مجاہد الاسلام قاسمی' مولانا محمد اجمل قادری' مولانا ریاض الحسن نوری' مولانا عبد الرحمن مدنی' مولانا ابو عمار زاہد الراشدی' مولانا عبد المالک' مولانا مفتی الیاس کشمیری' ڈاکٹر اسرار احمدوغیرہ شامل ہیں۔

١٩٦٢ء میں غلام احمد پرویز کے بارے میں تکفیر کی ایک مہم چلائی گئی اور اس بارے میںایک مفصل فتویٰ مرتب ہوا۔ ٢٥٦ صفحات پر مشتمل یہ فتویٰ 'پرویز کے بارے علماء کا متفقہ فتویٰ' کے نام سے جامعہ عربیہ اسلامیہ' کراچی سے شائع ہوا ۔اس فتویٰ پر ١٠٢٨ کے قریب علماء کے دستخط شامل ہیں' جن میں مولانا داؤد غزنوی' حافظ عبد اللہ محدث روپڑی' حافظ عبد القادر' مولانا مفتی محمود' مولانا مفتی محمد شفیع' مولانا احمد علی لاہوری' مولانا احتشام الحق تھانوی' مولانا ظفر احمد عثمانی' مولانا محمد ادریس کاندھلوی' مولانا غلام غوث ہزاروی' مولانا محمد یوسف بنوری' مفتی ولی حسن ٹونکی' محمد عبد الحامد قادری' محمد عبد السلام قادری' محمد عبد الحلیم چشتی' محمد سلیم الدین چشتی' عبد الکریم قاسمی' محمد بہاء الحق قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کتاب کے آخر میں عالم عرب یعنی مکہ ومدینہ اور مصر وشام کے کبار علماء کے فتاویٰ بھی شامل کیے گئے ہیں۔

غلام احمد قادیانی کے بعد برصغیر پاک وہند میں غلام احمد پرویز دوسرا شخص ہے کہ جس کی جمیع مکاتب فکر کے نمائندہ علماء نے تکفیر کی ہے اور اسے اور اس کے متبعین کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مصادر ومراجع
١۔ ماہنامہ محدث' فتنہ انکار حدیث نمبر' ستمبر ٢٠٠٢ء' لاہور
٢۔ آئینہ پرویزیت' مولانا عبد الرحمن کیلانی' مکتبہ السلام' لاہور'٢٠٠٤ء
٣۔ تفسیر مطالب الفرقان کا علمی وتحقیقی جائزہ' پروفیسر ڈاکٹر محمد دین قاسمی' ادارہ معارف اسلامی' لاہور
٤۔ جناب غلام احمد پرویز کے نظامِ ربوبیت پر ایک نظر' پروفیسر ڈاکٹر محمد دین قاسمی' بیت الحکمہ' لاہور' ٢٠٠٧ء
٥۔ جناب غلام احمد پرویز اپنے الفاظ کے آئینے میں' پروفیسر ڈاکٹر محمد دین قاسمی' بیت الحکمہ' لاہور' ٢٠٠٦ء
٦۔ ہفت روزہ الاعتصام' حجیت حدیث نمبر' دار الدعوة السلفیہ ' لاہور' ١٩٥٦ء
7-http://en.wikipedia.org
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top