متجددانہ افکار وآراء
ذیل میں ہم پروفیسر صاحب کے بعض متجددانہ افکار و نظریات بیان کر رہے ہیں:
خواتین کے بارے لبرل خیالات کا اظہار
پروفیسر طاہر القادری صاحب خواتین کے حقوق کے بارے کافی لبرل سوچ کے حامل ہیں مثلاً انہوں نے اپنی کتاب 'اسلام میں خواتین کے حقوق' میں کہا ہے کہ عورت پارلیمنٹ کی ممبر بن سکتی ہے اور دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی خواتین مجلس شوری کی ممبر تھی یہی وجہ ہے کہ حق مہر کے متعین کرنے کے مسئلہ میں ایک خاتون نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا تھا اور اس اعتراض پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں:
'' اس واقعہ کی رو سے یہ بات ملحوظ رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کسی عوامی جگہ یعنی مارکیٹ ، بازار وغیرہ میں ریاستی معاملہ discussنہیں کر رہے تھے بلکہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر غور تھا جس کا مطلب ہے کہ عامة الناس کی بجائے منتخب افراد ہی اس عمل مشاورت میں شریک تھے۔ لہذا ایک خاتون کا کھڑے ہو کر بل پر اعتراض کرنے سے یہ مفہوم نمایاں طور اخذ ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو ریاستی معاملات میں شرکت کرنے، حکومت میں شامل ہونے اور اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ مزید برآں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بل واپس لے لینا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام میں جنسی امتیاز کے لئے کوئی جگہ نہیں اور مردو زن کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔''
پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے بقول عورت ایک سیاسی مشیر کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے اور اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی مشیر تھیں۔ان کے بقول عورت کو انتظامی عہدوں پر بھی فائز کیا جا سکتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا۔
ان کے بقول عورت کو سفیرمقرر کیا جا سکتا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کو ملکہ روم کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
ان کے بقول وراثت میں حصوں کی تعین کی بنیاد جنس نہیں ہے یعنی عورت کو عورت ہونے کی وجہ سے آدھا حصہ نہیں دیا گیا بلکہ مرد کو معاشی ذمہ داریوں کے سبب سے زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت کسی گھر میں اپنی ملازمت کے ذریعے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو تو کیا اس صورت میں اسے خاوند کے برابر حصہ ملے گا؟ اگر نہیں تو پھر عورت کے وراثت میں نصف حصہ ہونے کی یہ علت نکالنا بھی درست نہیں ہے۔
١٩٨٧ء تک وہ عورت کی حکمرانی کے قائل نہ تھے لیکن ١٩٨٩ء میں ان کا یہ موقف تبدیل ہو گیا اور انہوں نے علماء سے بے نظیر کی حکمرانی قبول کرنے کی اپیل کی۔ اور ٢٣نومبر ١٩٩٣ء کے روزنامہ جنگ کے مطابق طاہر القادری صاحب نے کہا کہ عورت کسی بھی اسلامی ملک کی سربراہ ہو سکتی ہے اور نام نہاد علماء اپنی دوکان چمکانے کے لیے عورت کی حکمرانی کے بارے فتوی جاری کرتے ہیں۔
اسلامی اقتصادیات میں سوشلزم کا تاثر
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب 'اقتصادیات اسلام' میں ایک مکمل باب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی ریاست یا مملکت کی طرف سے عام شہریوں پر 'تحدید ملکیت' جائز امر ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی ثابت ہے کہ معاشی بحالی کی جدوجہد 'روح نماز' ہے۔بعض اہل علم نے ان کے ان نظریات کو اشتراکیت کی طرف رجحان قرار دیا ہے۔
اسلامی معاشرت میں مغرب کا تاثر
ننگے سر اور کھلے گریبان والی مغرب زدہ خواتین کے جھرمٹ میں تصاویر کھچوانا یا ان کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو کرنے پروفیسر صاحب کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں اور اس بارے ان کی تصاویر اور ویڈیوز عام ہیں۔
اسی طرح پروفیسر صاحب ٤ ،٥ دسمبر ١٩٩٩ کے اخبارات میں رومانیہ کی فرسٹ سیکرٹری سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنے لیے مولانا کے لقب کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے فلم، سٹیج اور ڈرامہ کے اداکاروں پر مشتمل 'کلچرل ونگ' تشکیل دیا ہے جس کے سیکرٹری جنرل معروف اداکار فردوس جمال، صدر فلمی اداکار ندیم، نائب صدر افضال احمد اور چیف آرگنائزر سید نور کو بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کی ویب سائیٹ پر 'مشاہیر کے تبصرے' کے عنوان کے تحت فلم وڈرامہ کے اداکاروں ندیم، محمد علی، محمدافضل ریمبو، فردوس جمال،عثمان پیرزادہ،مسرت شاہین،شجاعت ہاشمی، افتخار ٹھاکر اور نسیم وکی وغیرہ کے بھی تبصرہ جات فخریہ انداز میں بیان کیے ہیں
مثلاً اداکارہ مسرت شاہین کا یہ تبصرہ نقل کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاف وشفاف کردار کے مالک، امن کے سفیر، علمی کی روشنی، تنگ نظر نہیں اور ماڈریٹ ہیں۔
عورتوں کے چہرے کے پردے یا نقاب کے بارے ان کا موقف یہ ہے کہ ماحول، عورت کی ضرورت، اس کی عمر اور اس کے ایمان کی مضبوطی کے مطابق عورت کے لیے چہرے کا پردہ کیس ٹو کیس مختلف ہے لہذا کسی خاتون کے لیے یہ واجب، کسی کے لیے مستحب اور کسی کے لیے مباح ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
NIQAB on Woman's Face!!What is Islamic point of View ?( حکم اور حکمت ) By Shaykh-ul-Islam‏ - YouTube
عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں محرم کی پابندی اس کیے لگائی گئی تھی کہ سیکورٹی کے مسائل بہت زیادہ تھے
جبکہ آج سٹیٹ، پولیس، سسٹم اور سوسائٹی کی طرف سے جو سیکورٹی حاصل ہے وہ محرم کے حکم میں ہے لہذا آج عورت کے سفر کے لیے محرم کی ضرورت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
Can Women Travel without Mahram ? What about Hijab & Niqab ? 4/4‏ - YouTube
مسلمانوں کے لباس کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں کا لباس باحیا ہونا چاہیے ۔ باقی اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر مسلمان انگریزی ہیٹ پہن لیں یا ٹائی باندھ لیں یا دھوتی پہن لیں یاشلوار قمیص پہن لیں یا افریقین یا انڈین یا یورپین لباس پہن لیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
The permissibility of western clothing. Prof. Tahir ul
qadri shaykh ul islam‏ - YouTube
پروفیسر صاحب اور فنون لطیفہ
پروفیسر طاہر القادری صاحب فنون لطیفہ کے بارے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے مداحین نے ان کی ایسی تصاویر بھی بنا کر شائع کی ہیں جو ہاتھ سے بنائی گئی ہیں جیسا کہ
'ڈاکٹر محمد طاہر القادری ؛ میدان کارزار میں' نامی کتاب میں سرورق کی تصویر ہے۔
پروفیسر طاہر القادری صاحب میوزک کے ساتھ قوالی اور صوفیانہ کلام سننے کے قائل اور عادی ہیں اور اسی طرح صوفیانہ رقص وسرود کو بھی جائز اور روحانی ترفع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کی کئی ایک ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ قوالی اور صوفیانہ کلام کو فل میوزک اور آلات موسیقی کے ساتھ محظوظ ہو رہے ہیں اور ان کے سامنے رقص وسرود پیش کیا جا رہا ہے۔ بعض ویڈیوز میں قوالی کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ انہیں سجدہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں جس کی تاویل ان کے معتقدین یہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ پروفیسر صاحب کو سجدہ نہیں بلکہ ان کی قدم بوسی تھی۔
میوزک کے بارے اپنے ایک فتوی میں پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اسے صحیح بخاری کی ایک روایت سے ثابت کیا ہے کہ عید و خوشی کے موقع پر میوزک اور رقص جائز ہے اور سلسلہ چشتیہ کا طریق ہے۔ تفصیل اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں:
Music in Islam Fatwa (urdu)- Dr. Tahir ul Qadri - BUKHARI SHARIF HADITH.‏ - YouTube
اسی طرح اپنے ایک اور فتوی میں انہوں نے کہا ہے کہ عشق نبی میں رقص ووجد جائز ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
Raqs in Islam‏ - YouTube
اسی طرح ایک اور ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب کے سامنے قوالی' پکارو شاہ جیلانی' فل میوزک اور آلات موسیقی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے اور پروفیسر صاحب اسے سنتے ہوئے تشریف لاتے ہیں
اور بھانڈ میراثیوں کے لیے روپوں کی ویلیں لیتے اور دیتے ہیں اور شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہیں۔
Barelvi Tahir ul Qadri RELIGION EXPOSED reply-Pukaro Shah e Jelaan Ko Pukaro Qawwali‏ - YouTube
سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ محبت والفت کسے تھی؟ لیکن خلفائے راشدین نے کبھی وجد میں آ کر آپ کے سامنے دھمال ڈالی ہو یا عشرہ مبشرہ نے آپ کے سامنے قوالیاں گائی گئی ہوں یا بدری صحابہ رضی اللہ عنہ نے میوزک کی سروں پر آپ کے سامنے رقص کیا ہو یا مہاجرین وانصار نے آپ کی محبت میں وجد میں آ کر آپ کو سجدے کرنا شروع کر دیا ہو یا سابقون الاولون نے عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آلات موسیقی کے ساتھ قوالیاں سنتے ہوئے گویوں کے لیے درہم ودینار کی ویلیں چڑھائی ہوں وغیرہ ذلک۔ یہ عشق نبی کے کیسے مظاہر ہیں جو حقیقی عشاق سے تو ثابت نہیں ہیں لیکن پروفیسر صاحب انہیں عشق حقیقی کے مظاہر قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نظر آتے ہیں۔
وحدت ادیان اور اتحاد بین المذاہب کا نقطہ نظر
پروفیسر طاہر القادری صاحب غیر مسلموں اور ان سے اتحاد کے بارے بھی بہت نرم جذبات رکھتے ہیں ۔ غیر مسلموں کے حقوق پران کی ایک کتاب بھی ہے۔ انہوں نے مسلم اسی طرح انہوں نے
'مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم' بھی بنایا ہوا ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں۔
اس فورم کے تحت کرسمس تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں قرآن کے ساتھ بائبل کی بھی تلاوت ہوئی۔ عیسائی پادری اور پروفیسر طاہر القادری صاحب نے کرسمس کا کیک کاٹا۔ دونوں کی طرف سے امن کی شمع روشن کی گئی۔
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے عیسائیوں کو یہ دعوت دی کہ ان کے ادارہ منہاج القرآن کی مسجد عیسائیوں کی عبادت کے لیے کھلی رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنے والوں کو ماننے والوں میں(Believers) شمار کیا جاتا ہے اور بقیہ کو نہ ماننے والوں(Non Believers) میں، اور مسیحی بھائی ماننے والوں میں شامل ہیں۔یہ خبر ٣ جنوری ٢٠٠٦ء کے روزنامہ اخبارات ایکسپریس، نوائے وقت، دن،انصاف، پاکستان اورجناح وغیرہ میں شائع ہوئی ہے۔
پروفیسر صاحب کی بین المذاہب رواداری اور یگانگت کی اس تحریک کے نتائج پاکستان عوامی تحریک کی ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جس کے مطابق
'منہاج القرآن انٹرفیتھ ریلیشنز' کے تحت چرچ میں عید میلاد النبی کی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں اور ہندوؤں کے مقدس تہوار 'ہولی' میں شرکت کی جا رہی ہے۔ صلیب کے سائے میں عیسائیوں کے مقدس شہر 'ویٹی کن سٹی' میں پروفیسر صاحب کی ٦٠ ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ وغیرہ ذلک۔
ڈاڑھی کے بارے موقف
ڈاڑھی کے بارے بھی پروفیسر صاحب کا موقف انتہائی گنجلک ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ڈاڑھی چھوڑنا سنت مؤکدہ ہے لیکن کتنی چھوڑنی چاہیے، ایک مشت یا اس سے کم یا اس سے زیادہ، اس کی شریعت میں کوئی تعیین نہیں ہے لہذا اگر ایک مشت سے کم ڈاڑھی بھی ہو تو بھی جائزہے اور یہ شرعی حکم کی تعمیل میں داخل ہے۔ ایک مشت یا اس سے زائد ڈاڑھی رکھنا سنت غیر موکدہ یا سنن عادیہ میں سے ہے۔
پس جس کی ڈاڑھی ایک مشت سے کم ہو یا ایک مشت ہو یا ایک مشت سے زائد ہو ، سب اجر وثواب میں برابر ہیں۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
Fatwa on Darhi (Beard) Part 02.mp4‏ - YouTube
بدعت کے بارے نیا تصور
بدعت کے بارے پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'کتاب البدعة' میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ
دین اسلام میں کسی بھی فعل وعمل کا اضافہ اس وقت تک بدعت نہیں کہلائے گا جب تک کہ اس فعل وعمل کی حرمت کتاب وسنت یا آثار صحابہ سے ثابت نہ ہو جائے۔ پس پروفیسر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق دین میں کسی اضافہ شدہ فعل و عمل کی حرمت کے بارے اگر کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی نص یا اقوال صحابہ میں کوئی اثر موجود نہ ہو تو وہ فعل وعمل جائز اور مباح یا بدعت حسنہ کہلائے گا۔