• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف علم القراء ات… اَہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی اصل زبان لغت قریش تھی، جس میں بعد ازاں مشقت کے خاتمے کے لیے دیگر لغات میں پڑھنے کی اجازت اگرچہ دیدی گئی تھی، لیکن جب وہ مشقت ختم ہوگئی تو لغات کے اس اختلاف ختم فرما کر اصل لغت قریش کو باقی رکھا گیا، جس میں اب ذیلی طور پر لہجات (اصول) اور اسالیب بلاغت(فروش) کا موجودہ اختلاف شامل ہے۔
عصر حاضر میں عام طور پر ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین امام طبری رحمہ اللہ کے موقف پر ایک بنیادی اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کے بعد جہاں چھ لغات کا نسخ ماننا پڑتا ہے،پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ یہ لوگ جب کہتے ہیں کہ حضرت عثمان﷜نے فتنہ وفساد کے خاتمہ کے لیے چھ حروف کو موقوف کردیا تھا، تو اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ حروف کو موقوف کرنے کے باوجود انہوں نے موجودہ قراء توں کے اختلاف کو باقی کیوں رکھا؟ اس کے جواب میں ہم واضح کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘کے ضمن میں امام طبری رحمہ اللہ کے ساتھ تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ابتداء اً ’سبعۃ أحرف‘ میں مترادفات کا ایک وسیع اختلاف موجود تھا جسے عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیا گیا، لیکن لہجوں اور اسالیب ِبلاغت کا اختلاف باقی رکھا گیا، چنانچہ اس بات کا تو جواب واضح ہے کہ حضرت عثمانt نے اول تو اپنی طرف سے کوئی کام کیا ہی نہیں تھا، بلکہ عرضہ اخیرہ میں منسُوخ التِّلاوۃ اختلاف کوختم فرما یا تھا جوکہ دور عثمانی میں خصوصافتنہ کی بنیاد بنا ہوا تھا، لیکن جو اختلاف منسوخ نہیں ہوا تھا اسے حضرت عثمان﷜ نے بھی باقی رکھا تھا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کو صحیح ماننے کی صورت میں لازم آتا ہے کہ حروف اور قراء ات دو الگ الگ چیزیں ہیں، جن میں سے حروف تو منسوخ ہوگئے، البتہ قراء ات کا اختلاف باقی ہے، تو اس کے جواب میں حافظ ابن جریررحمہ اللہ کی طرف سے ہم کہنا چاہیں گے کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لینے کی صورت میں بھی حروف اور قراء ات کو الگ الگ ماننا پڑتا ہے، کیونکہ موجودہ قراء ات سبعہ یا عشرہ سے بھی ’سبعۃ أحرف‘کی نسبت توافق کی نہیں۔ جمیع علمائے قراء ات کے ہاں بھی ’سبعۃ أحرف‘ اورموجودہ سبعہ قراء ات ایک چیز نہیں، بلکہ ’سبعۃ أحرف‘اساس ہیں اور موجودہ قراء ات سبعہ یا قراء ات عشرہ انہی سے ماخوذ ہیں۔ مزید برآں جمیع اہل علم کا اتفاق ہے کہ آج ’سبعۃ أحرف‘ کا مصداق دنیا میں موجودہ قراء ات عشرہ ہی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باقی رہا یہ معاملہ کہ بعض لوگوں کے خیال میں امام ابن جریررحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ حضرت عثمان﷜نے منزل من اللہ سات حروف کو بارہ ہزار صحابہ کے اتفاق رائے سے منسوخ کردیا تھا، تو اس بارے میں پچھلے سوال کے جواب میں ہم نے وضاحت کردی ہے کہ یہ بات حافظ ابن جریررحمہ اللہ پر الزام ہے، وہ تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت کے خلیفہ کو سیاسی وتدبیری طور پر جو بعض اختیارات شریعت کی طرف سے دئیے گئے ہیں، حضرت عثمان﷜ نے اسی ضمن میں ’حروف سبعہ‘ کو موقوف کردیا تھا، جیسا کہ حضرت عمر﷜نے اپنے دور حکومت کے آخر میں شرعی صراحت کے باوجود ایک مجلس کی تین طلاقوں کو وقتی مصلحت کے تحت تین شمارکرناشروع کردیا تھا۔ اب خلیفہ راشد کو اس قسم کا اختیار حاصل ہونے کے بارے میں توتمام جلیل القدر آئمہ کے ہاں کو ئی اختلاف نہیں، بلکہ اس معاملے میں حدیث ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین‘‘ (ابن ماجہ:۴۳) کی روشنی میں تو اب یہی رائے معروف ہوگئی ہے کہ خلفائے راشدین کا جاری کردی سیاسی وتدبیری حکم بھی مثل شریعت کے دائمی وابدی طور پر بطور قانون نافذ کیا جائے گا۔ اسی بنا پر ہی تو حضرت عمر﷜ کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کافیصلہ ہو یا خلفائے راشدین کے بعض دیگر اس قسم کے فیصلے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقتی ضروریات ومصالح ختم ہوجانے کے باوجود ان امور کے عین اسی طرح جاری کرنے پر ہمارے روایتی دینی فکر میں کس طرح اصرار کیا جاتا ہے، مثلا اس سلسلہ میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین شمار کیے جانے کے بارے میں مذاہب اربعہ کی رائے معروف ہے، حالانکہ ہماری رائے ان تمام امور میں مذہب اہل الحدیث کے مطابق یہی ہے کہ جن ضروریات ومصالح کا شریعت نے خود لحاظ کرلیا ہے، دائمی وابدی حیثیت تو صرف انہی کو حاصل ہے، البتہ تمدن کے تحت پیدا ہوجانے والی دیگر وقتی ضروریات ومصالح کے ضمن میں خلفائے راشدین کا اجتہاد ہو یا صحابہ﷢ وآئمہ مجتہدین کی فقہی رائے، بہرحال وقتی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد اس کا ازخود خاتمہ ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کی کتب میں بہت مفید بحثیں ملتی ہیں، جن پر ٹھنڈے دل سے ضرور غور ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں ہم پیچھے سوال نمبر۲۳ کے ذیل میں کافی تفصیلی بحث کرچکے ہیں، مزید بحث کے بجائے اُسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜ کے’سبعۃ أحرف‘ میں سے چھ حروف کے ’موقوف‘ کرنے کے بارے میں حافظ ابن جریررحمہ اللہ کے موقف پر سردست ہم اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ ہماری تحقیق کے مطابق ان کے بارے میں دیگر علماء کا یہ اعتراض تو بالکل بجاہے کہ ان کا یہ کہنا کہ چھ حروف کو حضرت عثمان﷜ نے ’موقوف‘ کر دیا تھا اور ’موقوف‘ کردینے کی نوعیت یہ تھی کہ بعد میں اسے’ منسوخ‘ کی مثل دائمی طور پر ختم کردیا تھا، بہرحال صحیح نہیں۔ امام ابن جریررحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں چھ حروف کے خاتمہ کے بارے میں حضرت عثمان﷜ کے کام کی توجیہ منسوخ کے بجائے’موقوف‘ ہی سے کی ہے، لیکن چونکہ وہ عملاً اسے کالمنسوخ ہی شمار کرتے ہیں ، چنانچہ ان کی رائے میں اس پہلوسے موجود سقم کے ضمن میں بعد ازاں ان کی طرف سے یہ رائے پیش کی جانے لگی کہ وہ حضرت عثمان﷜ کی نسبت سے چھ حروف کو منسوخ کہنے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں ان کے موقف کے بعض قائلین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ چھ حروف حضرت عثمان﷜نے منسوخ یا موقوف نہیں کیے تھے، بلکہ عرضہ اخیرہ ہی میں منسوخ ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان﷜ نے اپنی طرف سے کوئی شے بطور امر سیاسی وتدبیری ’موقوف‘ نہیں کی تھی۔ یہ توجیہ بہرحال پہلی توجیہ سے صحیح ہے۔
مزید برآں یہاں اس امر کی طرف اشارہ کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا کہ حافظ ابن جریررحمہ اللہ چونکہ صراحتاً چھ حروف کے نسخ کے بجائے عملاً انہیں ’موقوف‘ کردینا مانتے ہیں، اسی لیے حافظ ابن عبد البررحمہ اللہ وغیرہ نے یہ رائے بھی پیش کی ہے کہ چونکہ حضرت عثمان﷜نے وقتی طور پر چھ حروف کو ’موقوف‘ کیا تھا، چنانچہ وقتی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد اب خلفائے راشدین کے دیگر سیاسی وتدبیری فیصلوں کی مثل اِن موقوف شدہ حروف کے مطابق تلاوت کی جاسکتی ہے۔البتہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی رائے کو اس حد تک انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ نمازوں میں بہرحال اُن موقوف شدہ حروف کو نہ پڑھا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ساری غلط فہمی معاملہ کی غلط توجیہ سے پیدا ہوئی ہے، اگر معاملہ کی توجیہ ہی صحیح کی جاتی تو نہ حافظ ابن جریررحمہ اللہ کے موقف سے مستشرقین کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملتا، نہ امام ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ ان کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے اور نہ ہی بعد ازاں حافظ ابن عبد البررحمہ اللہ وغیرہ اس قسم کی غیر متوازن رائے پیش فرماتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے دلائل میں کتنا وزن ہے؟ اس کا فیصلہ ہم اہل علم پر چھوڑتے ہیں، لیکن یہاں یہ ضرور ذکر کر دینا چاہتے ہیں کہ جو لوگ اس موقف کو سمجھنے کے بجائے اُس پرسطحی اعتراضات کرتے ہیں، انہیں اس بات پر لازما غور کرنا چاہیے کہ امام موصوف کا جہاں علم ِتفسیر وغیرہ میں مقام مسلمہ ہے، وہیں علم القراء ات کے باب میں بھی وہ علمائے قراء ات کے ہاں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی جلالت ِعلمی اور باریک نظری کے پیش نظر مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد صورتحال بالکل دوسری سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت میں عام اصحاب علم ان کی رائے سے متاثر بھی ہیں اور ان کی طرف میلان بھی رکھتے ہیں، حتی کہ بعض محقق ماہرین فن جیسے پاکستان میں پانی پتی سلسلہ کے تمام اساتذہ قراء نے بھی کھل کر یہی رائے اپنائی ہے۔ اس سلسلہ میں شیخ القراء قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کی کتاب کشف النظر اردو ترجمہ النشر الکبیرکے تفصیلی مقدمہ کے صفحہ ۸۸ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ معاملہ ایسے نہیں کہ ان کی رائے ان کی اونچے قد وقامت کی وجہ سے معروف ہوگئی ہو، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اساطین ِعلم جیسے امام طحاوی رحمہ اللہ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام قرطبی رحمہ اللہ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ اورکئی دیگر محققین اہل علم، جو کہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہوئے محض دلائل وتحقیق ہی کی روشنی میں آزادانہ فیصلہ صادر کرتے ہیں، انکی رائے کی تائید فرماتے ہیں۔ خود حافظ ابن جزری رحمہ اللہ، جوکہ فن قراء ت کی نمائندہ شخصیت ہیں، نے بھی النشر الکبیر میں ’سبعۃ أحرف‘ کی بحث کے ضمن میں واضح اعتراف کیا ہے کہ اکثر اہل علم ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے پر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں سبعۃ أحرف پر تفصیلی بحث فرمائی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے سبعۃ أحرف کی مراد کے تعین میں پانچ زیادہ معروف اقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے قول کو یوں ذکر کیا ہے:
فالأول:وہو قول أکثر أہل العلم، منہم سفیان بن عیینہ، وعبد اﷲ بن وہب،وأبو جعفر ابن جریر،والطحاوی: أن المراد سبعۃ أوجہ من المعانی المتقاربۃ بألفاظ مختلفۃ نحو أقبل وتعال وہلم۔(تفسیر ابن کثیر: ۱؍۶۱)
امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے امام ابن کثیررحمہ اللہ کے ذکر کردہ قول سے واضح ہوگیاکہ امام ابن جریررحمہ اللہ بنیادی طور پر ’سبعۃ أحرف‘ سے جب ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں تو ان کے ہاں اس سے مراد ملتے جلتے معانی سے متعلقہ الفاظ مختلفہ مراد ہوتے ہیں، جنہیں عام استعمالات میں ’مترادفات‘ کہا گیا ہے اور ’مترادفات‘ کے بارے میں جمیع اہل علم متفق ہیں کہ یہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ کر دئیے گئے تھے، چنانچہ حافظ ابن جریررحمہ اللہ سمیت جمہور اہل علم کی اس رائے کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ جب وہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں تو سبعہ لغات سے ان کی مراد ’’المعانی المتقاربۃ بألفاظ مختلفۃ‘‘، جیسے أقبل وتعال وہلم وغیرہ ہو تے ہیں، چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ’سبعہ لغات‘ میں سے اختلافات ِمترادفات منسوخ ہوچکے، البتہ ذیلی اختلافات یعنی لہجوں اور اسالیب بلاغت کا اختلاف منسوخ نہیں ہوا، تو سمجھ آتا ہے کہ وہ کیوں کہتے ہیں کہ موجودہ قراء ات عشرہ ( اصول وفروش) کا جمیع اختلاف ایک حرف قریش میں باقی ہے اور مترادفات کے منسوخ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ چھ حروف منسوخ ہوگئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن جریررحمہ اللہ کے بالمقابل وہ حضرات جو ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لیتے ہیں، ان کے موقف کی نمائندگی تو رشد ’قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں سوال نمبر ۱۴، ۱۵ میں تفصیلا پیش کردی گئی تھی، البتہ ’سبعۃ أحرف‘ بمراد سبعہ لغات کے قائلین میں سے ان لوگوں کی رائے جوکہ موجودہ قراء ات عشرہ کو جمیع ’سبعۃ أحرف‘ کا حاصل مانتے ہیں، کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے سات حروف میں سے چھ حروف کے نسخ کی کوئی حتمی دلیل نہیں، حالانکہ یہ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ جس کے لیے روایات میں کہیں نہ کہیں صراحت ضرور ہونی چاہیے تھی، نیز مترادفات کے ضمن میں چھ لغات کی تنسیخ کے قول کی دلیل میں محض تخمینی اندازے پیش کرنا، اہل علم کے معروف طریقوں وضابطوں کے مطابق دعوائے نسخ کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔ مزید برآں جب یہ بات پیچھے ذکر کی گئی ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد سات معروف قبائل عرب کی لغات ہیں اور تسلیم کیا گیا ہے کہ ان لغات کے ذیل میں لہجوں اور اسلوب کلام کے اختلافات بھی شامل تھے تو بعد ازاں محض مترادفات کے منسوخ ہونے سے یقینی طور پر یہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ لہجوں کا اختلاف صرف ایک لغت قریش سے ماخوذ ہے؟ جبکہ عملی استقراء بھی اس بات کا مؤید ہے کہ موجودہ قراء ات میں لہجات کا اختلاف صرف ایک لغت قریش سے متعلق نہیں۔ اس ضمن میں جہاں اہل علم نے تفصیلا بحث کی ہے، وہیں بعض اہل علم نے مستقل تالیفی کاوشیں بھی فرمائی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عام طور پر مستشرقین نے قرآن کریم کی قراء ات کو بنیاد بنا کر قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے موقف کو مضبوطی دینے کے لیے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو توڑ مروڑ کے پیش کیا ہے۔ جو لوگ انکار قراء ات کی ضمن میں مستشرقین کے غلط نظریات کے زیر اثر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو بطور حوالہ پیش کرکے سمجھتے ہیں کہ امام ابن جریررحمہ اللہ چھ حروف کے نسخ کے نام پر موجودہ قراء ات عشرہ کے انکاری ہیں، انہیں سوچنا چاہئے کہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو غلط معنوں میں پیش کرکے وہ قرآن کریم کی خدمت کے بجائے اس میں تحریف وتبدیلی کے دعوائے مستشرقین کے مؤید بن رہے ہیں۔ مستشرقین نے تو اپنے تئیں امام ابن جریررحمہ اللہ کو اپنا ہم نوا بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس ضمن میں یہ بالکل بھول گئے ہیں کہ وہ تنوع قراء ات کے بہت بڑے حامی ہیں اور انہوں نے اپنی تفسیر میں قراء ات سبعہ وعشرہ کی باقاعدہ حجیت کو تسلیم کیا ہے، بلکہ علم القراء ات پر وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں، جن کی تفصیل شائقین زیر نظر شمارے میں قاری محمد حسین کے قلم سے شائع شدہ تحریر ’’مختلف ازمنہ میں علم القراء ات پر لکھی گئی کتب‘‘ کے ضمن میں دیکھ سکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مستشرقین کا حربہ یہ ہے کہ پہلے تو اس بات کو امام ابن جریررحمہ اللہ کے موقف کے حوالے سے غلط منوالیتے ہیں کہ چھ حروف حضرت عثمان رحمہ اللہ نے ختم کردئیے تھے، پھراپنی طرف سے یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ اب جو حرف حضرت عثمان رحمہ اللہ نے باقی چھوڑا تھا وہ کونسا تھا؟ اگر جواب دیا جائے کہ لغت قریش! توکہتے ہیں کہ قرآن کے نام پر رائج مطبوعہ مصاحف میں قریشی لغت کے علاوہ کئی دیگر لغات بھی شامل ہیں، اس لیے کچھ معلوم نہیں کہ حضرت عثمان﷜ نے کیا باقی چھوڑا تھا؟ واضح ہوگیا کہ آج امت کے پاس قرآن کریم کی محقق قراء ت موجود نہیں۔اسی طرح جب یہ مان لیا جاتا ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے قراء توں کو ختم کردیا تھا تو یہ بات مستشرقین کے حق میں یوں جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ باقی رہ جانے والی قراء ت کونسی تھی؟ہم جواب میں کہتے ہیں کہ روایت حفص! تو وہ کہتے ہیں کہ روایت حفص تو عالم اسلام کے صرف مشرقی علاقوں میں رائج ہیں، عالم اسلام کے پورے مغربی بلاک کی قراء ت، روایت حفص سے مختلف ہے اور وہاں تو تین مزید روایات وقراء ات کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس طرح سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ آج امت میں یہ امر طے نہیں کہ کونسی قراء ت قرآن اور کونسی قراء ت قرآن نہیں ہے۔ مشرقی ممالک کے جہلاء مغربی ممالک میں رائج قراء توں کا انکار کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے عوام الناس مشرقی ممالک میں رائج قراء ت کا انکار کرتے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے خلاصۃً یہ ثابت ہوتاہے کہ قرآن مجید دیگر کتابوں کی طرح محرف ہے۔ اس لیے جو لوگ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کا موقف غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں ،ان کو کوئی بات بھی جرأت سے کرنے سے قبل پہلے سوچ لینا چاہئے کہ انکار قراء ات کے موقف کو اپنا کر کس کے ہاتھ میں دلیل پکڑا رہے ہیں۔ اسی طرح جہاں عالم اسلام میں مروجہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری کا انکار لازم آئے گا، وہیں ہماری ’روایت حفص‘ بھی ثابت نہیں ہوپائے گی، کیونکہ جس سند سے روایت حفص ثابت ہے، عین اسی سند سے دیگر قراء ات ثابت ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مستشرقین نے قرآن مجید کے بارے میں اس دعوی کے ثبوت کے لیے کہ اس میں حضرت عثمان﷜ نے صرف لغت قریش کو باقی رکھا تھا، دلیل یہ پیش کی ہے کہ انہوں نے حضرت زید﷜ اور ان کی کمیٹی کو کہا تھا کہ اختلافات قراء ات میں سے صرف لغت قریش کو باقی رکھ کر قرآن لکھنا،حالانکہ یہ بات کہیں موجود نہیں۔جو بات صحیح روایات میں ہے وہ صرف اتنی ہے کہ انہوں نے طریق کتابت کے سلسلہ میں اختلاف کی صورت میں یہ راہنما اصول اِرشاد فرمایا تھا:
’’إذا اختلفتم أنتم وزید فی شیٔ فاکتبوہ بلغۃ قریش،فإنما نزَلَ بلسانہم‘‘ (بخاری:۳۵۰۶)
ان الفاظ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے رسم الخط اور کتابت کے ضمن میں یہ ارشاد فرمایا تھا، تلاوت وقراء ت کے ضمن میں نہیں، ورنہ الفاظ فاقروا بلغۃ قریش کے ہوتے۔ اسی لیے انہوں نے بعد میں اس کی وجہ بھی ذکر کی تھی کہ یہ اس لیے ہے کہ قرآن مجید اَصلا انہی کی زبان میں اترا ہے۔
ماہنامہ رشد ’قراء ات نمبر‘ حصہ سوم میں اِن شاء اللہ ایک مستقل مضمون اس ضمن میں شامل اشاعت ہوگا، جس میں دلائل کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا جائے گا کہ روایت حفص اور عالم اسلام میں رائج دیگرمتداول روایات میں لغت قریش کے علاوہ دیگر لغات بھی بھر پور طور پر شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زیر نظر مضمون کے سوال نمبر۵ تا ۱۰ پریہ تفصیلی بحث موجودہے کہ موجودہ قراء ات میں ’سبعۃ أحرف‘ خلط ملط ہوکر شامل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٢٩: ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں آئمہ کے مابین پائے جانے والے شدید اختلاف کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا اس کے ذریعے متنوع قراء ات کا مسئلہ ’متشابہات‘ میں سے معلوم نہیں ہوتا؟
موجودہ قراء ات عشرہ (عشرہ صغری وکبری)کی حجیت کے حوالے سے ہم نے اپنے جوابات میں بارہا دعوی کیا ہے کہ ان کے قرآن ہونے میں چودہ صدیوں سے کسی جلیل القدر عالم کو اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ اس غرض سے آئندہ رشد کا ’قراء ات نمبر‘ حصہ سوم میں ہم ایک مضمون شائع کریں گے، جس میں تفسیر، حدیث ،فقہ وغیرہ میدانوں سے تعلق رکھنے والے معروف سو اہل علم کی قراء ات کے بارے میں آراء کا خلاصہ پیش کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ مسئلہ امت کے ہاں’ مسلمات‘ میں سے ہے۔ بنیادی مغالطہ کا باعث یہ چیز ہے کہ متنوع قراء ات کا ثبوت حدیث ’سبعۃ أحرف‘پر موقوف ہے، حالانکہ یہ سراسر غیر صحیح بات ہے۔ قراء ات کے ثبوت کی بنیاد اصلا ان اسانید کی صحت وقطعیت پر موقوف ہے، جو کہ متنوع قراء ات کے ضمن میں تواتر سے رسول اللہﷺسے ثابت ہیں۔ مزید برآں حدیث ’سبعۃ أحرف‘سے قطع نظر لا تعداد ایسی روایات بھی ہیں جن میں باقاعدہ اَحادیث میں متعدد قراء ات کاذکر موجود ہوا ہے۔
رہی حدیث ’سبعۃ أحرف‘، تو کیا متشابہات میں سے ہے یا نہیں؟ اس کی بنیاد صرف اس بات کو بنایا جارہا ہے کہ علماء کے مابین اس مسئلہ کی تشریح کے ضمن میں اختلاف ہے، لیکن اہل علم کے ہاں محض اختلاف کا ہونا کسی شے کے متشابہات میں سے ہونے کی بنیاد نہیں بنتا، البتہ اگر کسی عالم کو کسی حدیث یا قرآن کی آیت کا مفہوم شدید الجھ جائے تو اسے وہ متشابہ کہے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۶ میں فرماتے ہیں کہ
’’وَمَایَعْلَمُ تَأوِیْلَہٗ إلَّا اﷲ وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ‘‘(آل عمران:۶)
’متشابہات‘ کا معنی اللہ تعالیٰ اور راسخین فی العلم کو معلوم ہوتا ہے۔‘‘
 
Top