• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعلیم قرآن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعلیم قرآن کے لئے چند بنیادی علوم

معلم قرآن(مرد یا عورت) کی شخصیت میں ذیلی علمی صلاحیت اور خصوصیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔

۱…قرآن پاک کو بخوبی تلاوت کرنا جانتا ہو نیز اس کے معانی ومفاہیم کو سمجھتا ہو۔ وہ قرآن کے اخلاق سے مزین ہواور سنت پرعمل کا اہتمام کرنے والا ہو۔وہ جسمانی اور عقلی اعتبار سے قوی ہو۔ دانا، پختہ اور صاحب جمال ہو۔ یہ وہ صفات ہیں جو اللہ تعالی نے جبریل امین میں رکھی ہیں۔ جنہوں نے اپنی اصل شخصیت کو رسول اکرم ﷺ کے سامنے ظاہر کیا تھاتاکہ وہ آپ ﷺ کو قرآن مجید وحی کرسکیں اور سکھاسکیں۔حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتا ہو ۔ متعصب غیر مسلم یا ان سے متأثرین کی تحریروں پر اس کی گہری نظر ہو۔ــــمذہبی عصبیت سے پاک اور دینی حمیت والا ہو۔ورنہ وہ اپنے مذہب کی مدد ونصرت کو آیات میں تلاش کرتا پھرتا رہے گا اور حق کو الٹی طرف پھیر دے گا۔ سیرت رسول ﷺ اور سیرت صحابہ کا بھی بخوبی علم رکھتا ہو۔اسے معلوم ہو کہ ان کے دین ودنیا کے بارے میں خیالات ونظریات اور اعمال کیا تھے ؟ اور انہوں نے اپنے دینی ودنیاوی معاملات میں ان کا تصرف کس طرح کیا۔ معلم خود باعمل ، باحوصلہ اور باوقار ہو۔ قرآنی تعلیم میں اس کی شخصیت ایک نمونہ بنے تاکہ طلبہ عملاً استاذ کو بطور نمونہ دیکھ لیں۔ اور اعتماد کے ساتھ قرآنی احکام پر عمل کرسکیں۔ محنتی طلبہ سے ہرگز نہ اکتائے بلکہ ان کی راہنمائی کے لئے ہمہ وقت تیار رہے اور ان پر نظر بھی رکھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ وہ عربی لغت کا ماہر ہو تاکہ قرآنی کلمات کی وضاحت کرسکے کیونکہ قرآن مجید میں غریب، مترادف، اور اضداد بکثرت ہیں۔ان تمام اسالیب محاورہ کا عمیق مطالعہ رکھتا ہو۔اس لئے کہ قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔
امام مجاہدؒ فرمایا کرتے:
لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَبِالْیَومِ الآخِرِ أَنْ یَتَکَلَّم فِی کِتَابِ اللّٰہِ إِذَا لَمْ َیکُنْ عَالِمًا بِلُغَاتِ الْعَرَبِ۔
جو اللہ تعالی اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اللہ تعالی کی کتاب میں گفتگو کرے جب وہ لغات عرب کو نہ جانتا ہو۔
اسی طرح امام مالک ؒفرمایا کرتے:
لَا أُوْتَی بِرَجُلٍ غَیْرَ عَالِمٍ بِلُغَۃِ الْعَرَبِ یُفَسِّرُ کِتَابَ اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلْتُہُ نَکَالاً۔
میرے پاس کوئی ایسا شخص نہ لایا جائے جو لغت عرب سے ناآشناہو اور وہ اللہ کی کتاب کی وضاحت کرتا ہو ورنہ میں اسے عبرت کا نمونہ بنا دوں گا۔
ان الفاظ کی وضاحت میں ان معانی کو پیش نظر رکھے جو زمانہ نزول کے وقت متعین کئے گئے پھر قوانین اعراب و بلاغت سے اس کے ترکیبی معنی پر غور کرے اور سیاق و سباق پر نظر ڈال کر سیاق کلام سے مقصود معنی کو متعین کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اس کوشش کے باوجود بھی یہ معنی اجتہادی ہوگا جس میں اور معنی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ایسی وضاحت طلبہ میں مزید شوق ودل چسپی اور تدبر وتاثیر کا سبب بنے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳… عربی زبان میں اہم علوم علم نحو وعلم صرف ہیں تاکہ اعرابی وصرفی کیفیت کو جان کر صحیح مفہوم اخذ کیا جاسکے۔ ورنہ محض حرکت کی تبدیلی سے معنی ایمان سے کفر اور کفر سے ایمان کی طرف پلٹ سکتا ہے۔قرآن تو عربی قواعد کا بھی نگران ہے اس لئے اس سے اغماض نہیں برتا جاسکتا۔اسی طرح علم صرف میں لفظ کی بناء اور صیغہ کا علم بھی بہت ضروری ہے ورنہ بقول ابن فارس:
مَنْ فَاتَہُ عِلْمُہُ فَاتَہُ الْمُعْظَمُ۔
جس سے یہ علم رہ گیا اس سے بہت کچھ رہ گیا۔
کیونکہ جب ہم وَجَدَ کو ایک مبہم لفظ کہتے ہیں تو اسے ذرا بدلنے سے مزید اس کی وضاحت ہوتی جاتی ہے۔ جیسے: وُجدًا سے مراد مال اور گم شدہ کے لئے : وِجدان اور غضب کے لئے مَوجِدَۃ اور حزن کے لئے وَجْدًا۔ مثلاً:
قرآن مجید میں ہی ایک ہی لفظ کو پھیرنے سے دیکھئے معنی عدل سے ظلم کی طرف چلا گیا ہے۔ جیسے: سورہ الحجرات میں ہے:
{وأقسطوا ، إن اللہ یحب المقسطین}
انصاف کرو اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتاہے۔
اور یہی لفظ سورہ الجن میں ظلم وجور کے معنی میں ہے
{ وأماالقاسطون فکانوا لجہنم حطبا}
رہے ظالم تو وہ جہنم کا ایندھن ہی بنے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴…علم صرف ونحو سے لاعلمی معلم سے بدعت وخطأ کا ارتکاب بھی کرادیتی ہے جیسے: اس آیت {یوم ندعوا کل أناس بإمامہم} میں لفظ امام کا واحد کسی نے أمّ (ماں) لیا ہے کہ لوگ روز قیامت اپنی ماؤں کے ساتھ نہ کہ باپوں کے ساتھ پکارے جائیں گے تاکہ ولد الزنا اس روز رسوا نہ ہو۔ اب اس مفسر کو کون بتائے کہ أمّ کی جمع أمہات ہوا کرتی ہے اور امام کی ائمہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵…علم الاشتقاق کا علم بھی معلم کے لئے انتہائی علم ہے جب کوئی اسم دو مختلف مادوں سے تو ظاہر ہے اس کا معنی بھی مختلف ہوگا ۔ جیسے: لفظ مسیح ہے کیا وہ سیاحۃ سے ہے یا مسح سے۔ نیز دونوں کا مطلب بھی مختلف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۶۔ معلم کو تعلیم قرآن کے لئے اپنے پیش نظر لغات میں ابن دریدکی الجمہرۃ فی اللغۃ، جوہری کی الصحاح، ابومنصور کی تہذیب اللغۃ، ابن قتیبہ کی غریبَیِ القرآن والحدیث، ابن فارس کی معجم مقاییس اللغۃ ، راغب اصفہانی کی مفردات جیسی بنیادی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔لغت ومحاورات عرب سے تو صحابہ رسول بھی مستفید ہوتے رہے۔سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
اَلشِّعْرُ دِیْوَانُ الْعَرَبِ، فَإِذَا تَعَاجَمَ عَلَیْنَا شَئٌ مِنَ اْلُقْرآنِ رَجَعْنَا إِلَیْہِ۔
شاعری تو عربوں کا دیوان ہے جب ہم پر کوئی قرآنی لفظ مشکل ہوجاتا ہے تو ہم اسی شاعری کی طرف ہی حل کے لئے پلٹتے ہیں(مقدمہ اصول التفسیر از امام ابن تیمیہؒ: ۳۰)

بہرحال لغت یا محاورہ عرب سے جو بھی تعلیم دے اس پر بار بار نظر ثانی کرے کہ آیا یہ مفہوم ووضاحت رسول کریم ﷺ کی سیرت اور راہنمائی کے مطابق ہے؟ کیا کہیں آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور تفسیر صحابہ کے منافی تو نہیں؟ نیز اجتماعی قواعد اور تاریخی حقائق سے یہ لغت کس حد تک مناسبت رکھتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷ـ…معلم بطور خاص علوم قرآن سے بھی واقف ہو۔ تاکہ وہ قرآن کریم کا صحیح ادراک کرسکے۔ ان کے بغیر زَلت اور ضلالت ہی اس کا مقدر ہوگی۔ان علوم میں علم القراءت جو کیفیت نطق اور قراءت کی مختلف وجوہ کا علم ہیں کیونکہ تغیر حرکات سے معنی مختلف ہوجاتا ہے۔نیز دیگر علوم قرآن میں اسباب تزول، الناسخ والمنسوخ اور علم القصص بھی اہمیت کے حامل ہیں۔علم القصص بھی اسے ازبر ہو جس سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی واقعہ مختلف مقامات پر بیان شدہ ہے اگر کہیں وہ واقعہ اجمال میں بیان ہوا ہے تو دوسرے مقام پر اسے تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔اس طرح اس کا فہم متعین ہوجاتا ہے۔ علم القراءت پر بہترین کتاب الإِقْناعُ فی القِراء اتِ السَّبْعِ از ابوجعفر ابن الباذش کے ہے اور قرائات عشرہ میں کتاب المِصْباح ہے جو ابو الکرم الشہرزوری کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۸ـ…درج ذیل علمی طریقہ اپنے پیش نظر رکھے :

… بغیر کسی طوالت اور انوکھی باتوں کے قرآن کی تعلیم قرآن سے دے۔
…احادیث صحیحہ سے بھی میں مدد لے اور انہیں ہی حجت بنائے۔
…اگر ضرورت ہو تو اسباب نزول، ناسخ ومنسوخ اور احکام کو بھی بیان کرے۔
… جلیل القدر ائمہ مجتہدین کے بھی استدلال لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۹۔ معلم کبھی کبھی اپنے طلبہ سے عبارات یا الفاظ کے معانی اور مفاہیم کے متعلق سوال بھی کرے۔ انہیں قرآنی عبارت کی روشنی میں کوئی تحقیقی کام دے۔ جو پڑھائے اس پر طلبہ سے کھل کر بحث کرے اور ان کے خیالات وافکار سنے۔ان کا تحریری امتحان لے۔ طلبہ کے پاس جدید معلومات کا جو خزانہ ہے اس سے بھی استفادہ کرے۔ کتب، تحقیقی مقالہ جات ، اخبارات وانٹر نیٹ میں آئے دن عجیب و غریب مصدقہ خبریں ان سب کی معلومات جمع کرکے اپنے علم میں مزید اضافہ کرے۔آیت سے کوئی سنہری اصول نکلتا ہو تو اس سے طلبہ کو آگاہ کرے۔ نئے حوادث وواقعات پر تبصرہ کرتے وقت قرآنی آیات کا خوب استعمال کرے تاکہ طلبہ کے دماغ میں قرآنی مفہوم گڑ جائے اور اسے ایک زندہ وتابندہ کتاب وہ سمجھیں۔۔تجوید وقراءت کو بھی قرآنی تعلیم کا باقاعدہ حصہ بنائے تاکہ طلبہ میں قرآن دانی کے ساتھ حسن قراءت کا ملکہ وذوق بھی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۰… اسی طرح حدیث اور علوم حدیث کا علم تو بنیادی نوعیت کا ہے ۔ معلم کے لئے ان دونوں علوم سے آراستہ ہونا اس لئے بھی بہت ضروری ہے کہ وہ صحیح مطالب کی حدود میں رہتے ہوئے غلط رجحانات یا مخصوص مذہبی وفکری رجحانات کی طرف نہیں بدکتا۔اور صحیح وحسن احادیث سے وہ اپنے تفسیر کو دوآتشہ کرلیتا ہے اور ضعیف وموضوع روایات سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہے۔
 
Top