• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّ أَرِ‌نِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْ‌بَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ‌ فَصُرْ‌هُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٦٠﴾
اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے پروردگار مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا (١) جناب باری تعالٰی نے فرمایا کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی فرمایا چار پرندوں کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑ پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی غالب ہے حکمتوں والا ہے۔
٢٦٠۔١ یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعین کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے بس یہ چار مختلف پرندے تھے بس ان کو مانوس کر لے اور پہچان لے تاکہ پکارنے پر وہ دوبارہ زندہ ہو کر آپ کے پاس آ جائیں اور پہچان سکے کہ یہ وہی پرندے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے احیائے موتیٰ کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقینا شک کرنے میں ان سے زیادہ حقدار ہوتے (مزید وضاحت کے لئے دیکھئے (فتح القدیر)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١﴾
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالٰی اسے چاہے اور بڑھا دے (١) اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے۔
٢٦١۔١ یہ نفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہو گی اور دیگر نیکیوں کی۔ اور ایک نیکی کا اجر دس گنا کی ذیل میں آئے گا۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر و ثواب دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جا سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٢٦٢﴾
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذاء دیتے ہیں (١) ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے۔
٢٦٢۔١ انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہو گی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالٰی تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان باب غلظ تحریم اسبال الازاروالمن بالعطیۃ)
قَوْلٌ مَّعْرُ‌وفٌ وَمَغْفِرَ‌ةٌ خَيْرٌ‌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّـهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ ﴿٢٦٣﴾
نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو (١) اور اللہ تعالٰی بےنیاز اور بردبار ہے۔
٢٦٣۔١ سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالٰی تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مغَفِرَتْ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو یہ چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے یعنی سائل سے نرم اور شفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل اور رسوا کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اس لئے حدیث میں کہا گیا ہے۔ الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ (پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے) نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔ لا تحقرن من المعروف شیئا ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلق۔(مسلم کتاب البر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِ‌ئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَ‌ابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَ‌كَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُ‌ونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢٦٤﴾
اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے (١) ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔
٢٦٤۔١ اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے صدقہ اور خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوا نہیں بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے ایسے خرچ کی مثال صاف پتھر چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی ہو کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکں بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہو جائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی اس طرح ریا کار کو بھی اس کے صدقے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْ‌ضَاتِ اللَّـهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَ‌بْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٢٦٥﴾
ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنا مال اللہ تعالٰی کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو (١) اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دوگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی پڑے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
٢٦٥۔١ یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دوگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اسکو کافی ہو جاتی ہے اس طرح ان کے نفقات بھی چاہے کم ہو یا زیادہ عند اللہ کئی کئی گنا اجر و ثواب کے باعث ہونگے۔ جَنْۃُ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں طرف باڑ ہو اور باڑ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور جنت کو اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَبْوَۃَ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔وَابِلُ تیز بارش۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَ‌اتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ‌ وَلَهُ ذُرِّ‌يَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ‌ فِيهِ نَارٌ‌ فَاحْتَرَ‌قَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٢٦٦﴾
کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو، جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں، اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو اور اس کے ننھے ننھے سے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولہ لگ جائے جس میں آگ بھی ہو، پس وہ باغ جل جائے (١) اس طرح اللہ تعالٰی تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور فکر کرو۔
٢٦٦۔١ اسی ریاکاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جا رہی ہے جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی بھرپور آمدنی کی امید ہو) وہ شخص بوڑھا ہو جائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ضعیفی کی وجہ سے محنت اور مشقت سے عاجز ہو چکا ہو اور اولاد بھی اسکے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہ ہو اس حالت میں تیز اور تند ہوائیں چلیں اور سارا باغ جل جائے اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا اور نہ اس کی اولاد یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا کہ نفاق و ریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے۔ جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت وفرصت نہیں ہو گی۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہو جاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، فتح القدیر للشوکانی تفسیر ابن جریر طبری)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَ‌جْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْ‌ضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿٢٦٧﴾
اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو (١) ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو (٢) اور جان لو کہ اللہ تعالٰی بےپرواہ اور خوبیوں والا ہے
٢٦٧۔١ صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے اور یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالٰی اسے قبول نہیں فرماتا حدیث میں ہے ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا (اللہ تعالٰی پاک ہے پاک حلال چیز ہی قبول فرماتا ہے) دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں جیسا کہ آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) 3۔ آل عمران:92) کا بھی مفاد ہے۔ اس کے شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ کی خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ)۔
٢٦٧۔٢ یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ‌ وَيَأْمُرُ‌كُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَ‌ةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦٨﴾
شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے (١) اور اللہ تعالٰی تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالٰی وسعت والا اور علم والا ہے۔
٢٦٨۔١ یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہو جاؤ گے لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے جس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بےدھڑک خرچ کر ڈالتا ہے دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے لیکن یہی شخص سینما شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بےتحاشہ خرچ کرتا ہے اور اسے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرً‌ا كَثِيرً‌ا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٢٦٩﴾
وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا (١) اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔
٢٦٩۔١ حکمۃ سے بعض کے نزدیک عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہو سکتے ہیں صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے" (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ۔ مسلم کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔ ۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْ‌تُم مِّن نَّذْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ‌ ﴿٢٧٠﴾
تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو (١) اسے اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
٢٧٠۔١ نَذَرِ کا مطلب ہے میرا فلاں کام ہو گیا یا فلاں مشکل سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کرونگا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں نذر بھی نماز روزہ کی طرح عبادت ہے اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا شرک ہے۔ جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر ونیاز کا یہ سلسلہ عام ہے اللہ تعالٰی اس شرک سے بچائے۔
 
Top