• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّ أَرِ‌نِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْ‌بَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ‌ فَصُرْ‌هُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٦٠﴾
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ (١) (جناب باری تعالٰی نے) فرمایا، کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی، فرمایا چار پرند لو، ان کے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی غالب ہے حکمتوں والا ہے۔
٢٦٠۔١ یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم عليه السلام کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لیے دکھایا گیا۔ یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کیے ہیں لیکن ناموں کی تعیین کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے۔ بس یہ چار مختلف پرندے تھے۔ فَصُرْهُنَّ کے ایک معنی أَمِلْهُنَّ کئے گئے ہیں یعنی ان کو ”ہلا لے“ (مانوس کر لے) تاکہ زندہ ہونے کے بعد ان کو آسانی سے پہچان لے کہ یہ وہی پرندے ہیں اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ اس معنی کے اعتبار سے پھر اس کے بعد ثم قَطِّعْهُنَّ (پھر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر لے) محذوف ماننا پڑے گا۔ دوسرے معنی قطعھن (ٹکڑے ٹکڑے کرلے) کیے گئے ہیں۔ اس صورت میں کچھ محذوف مانے بغیر معنی ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف پہاڑوں پر ان کے اجزا باہم ملا کر رکھ دے، پھر تو آواز دے تو وہ زندہ ہو کر تیرے پاس آ جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض جدید و قدیم مفسرین نے (جو صحابہ و تابعین کی تفسیر اور سلف کے منہج و مسلک کو اہمیت نہیں دیتے) فَصُرْهُنَّ کا ترجمہ صرف (ہلا لے) کا کیا ہے۔ اور ان کے ٹکڑے کرنے اور پہاڑوں پر ان کے اجزا بکھیرنے اور پھر اللہ کی قدرت سے ان کے جڑنے کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں، اس سے واقعے کی ساری اعجازی حیثیت ختم ہو جاتی ہے اور مردے کو زندہ کر دکھانے کا سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود اللہ تعالیٰ کی صفت احیائے موتی اور اس کی قدرت کاملہ کا اثبات ہے۔ ایک حدیث میں ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم عليه السلام کے اس واقعے کا تذکرہ کرکے فرمایا: نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ (صحيح بخاري، كتاب التفسير) ”ہم ابراہیم عليه السلام سے زیادہ شک کرنے کے حق دار ہیں“۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابراہیم عليه السلام نے شک کیا، لہذا ہمیں ان سے زیادہ شک کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ بلکہ مطلب حضرت ابراہیم عليه السلام سے شک کی نفی ہے۔ یعنی ابراہیم عليه السلام نے احیائے موتی کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقیناً شک کرنے میں ان سے زیادہ حق دار ہوتے۔ (مزید وضاحت کے لیے دیکھیے فتح القدیر۔ للشوکانی )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١﴾
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالٰی اسے چاہے اور بڑھا چڑھا کر دے (١) اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے۔
٢٦١۔١ یہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہو گا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہو گی اور دیگر نیکیاں (الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا) ”ایک نیکی کا اجر دس گنا“ کی ذیل میں آئیں گی۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر و ثواب، دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت و فضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہو گا، فوج کی کارکردگی بھی صفر ہو گی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جا سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٢٦٢﴾
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذاء دیتے ہیں، (١) ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔
٢٦٢۔١ انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہو گی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے۔ کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں ایک احسان جتلانے والا ہے۔“ (مسلم، كتاب الإيمان، باب غلظ تحريم إسبال الإزار والمنّ بالعطية)

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ ‎﴿٢٦٣﴾
نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو (١) اور اللہ تعالٰی بے نیاز اور بردبار ہے۔
٢٦٣۔١ سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مَغْفِرَةٌ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو اس سے چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے۔ یعنی سائل سے نرمی و شفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل و رسوا کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اسی لیے حدیث میں کہا گیا ہے: الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ (صحيح مسلم كتاب الزكاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على نوع من المعروف) ”پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے“ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔“ (لا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلِقٍ) (مسلم، كتاب البرّ، باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِ‌ئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَ‌ابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَ‌كَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُ‌ونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢٦٤﴾
اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے، (١) ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔
٢٦٤۔١ اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ صدقہ و خیرات کرکے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا، اہل ایمان کا شیوہ نہیں، بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے، ایسے خرچ کی مثال صاف چٹان کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو، کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہو جائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی، اسی طرح ریاکار کو بھی اس کے صدقہ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْ‌ضَاتِ اللَّـهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَ‌بْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٢٦٥﴾
ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنا مال اللہ تعالٰی کی رضا مندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو (١) اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دوگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
٢٦٥۔١ یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پُرفضا اور بلند چوٹی پر ہو، کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اس کو کافی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ان کے نفقات بھی، چاہے کم ہو یا زیادہ، عند اللہ کئی کئی گنا اجر و ثواب کے باعث ہوں گے جَنَّةٌ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ، جس کے چاروں طرف باڑھ ہو اور باڑھ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے، جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی، پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا، دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اور جنت کو بھی اس لیے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَ‌بْوَة اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وَابِلٌ تیز بارش۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَ‌اتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ‌ وَلَهُ ذُرِّ‌يَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ‌ فِيهِ نَارٌ‌ فَاحْتَرَ‌قَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٢٦٦﴾
کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو، جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں، اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو، اس کے ننھے ننھے سے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولہ لگ جائے جس میں آگ بھی ہو، پس وہ باغ جل جائے، (١) اسی طرح اللہ تعالٰی تمہارے لیے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔
٢٦٦۔١ اسی ریا کاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جا رہی ہے کہ جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی اس سے بھرپور آمدنی کی امید ہو) وہ شخص بوڑھا ہو جائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں (یعنی وہ خود بھی ضعف پیری اور کبر سنی کی وجہ سے محنت و مشقت سے عاجز ہو چکا ہو اور اولاد بھی اس کے بڑھاپے کا سہارا تو کیا؟ خود اپنا بوجھ بھی اٹھانے کے قابل نہ ہو) اس حالت میں تیز و تند ہوائیں چلیں اور اس کا سارا باغ جل جائے۔ اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا نہ اس کی اولاد۔ یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہو گا۔ کہ نفاق و ریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہو گی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت و فرصت نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما اور حضرت عمر رضی الله عنه نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہو جاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں (صحيح بخاري، كتاب التفسير، فتح القدير، للشوكاني وتفسير ابن جرير طبري)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَ‌جْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْ‌ضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿٢٦٧﴾
اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، (١) ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو، (٢) اور جان لو کہ اللہ تعالٰی بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے۔
٢٦٧۔١ صدقے کی قبولیت کے لیے جس طرح ضروری ہے کہ من واذی اور ریاکاری سے پاک ہو (جیسا کہ گذشتہ آیات میں بتایا گیا ہے) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو۔ چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے۔ اور یہ جو فرمایا کہ "خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو" تو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔ حدیث میں ہے: إنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبا "اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک (حلال) چیز ہی قبول فرماتا ہے۔" دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں، ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں، جیسا کہ آیت ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ کا بھی مفاد ہے۔ اس کی شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ)۔
٢٦٧۔٢ یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے، اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی اچھی چیز ہی خرچ کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ‌ وَيَأْمُرُ‌كُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَ‌ةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦٨﴾
شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، (١) اور اللہ تعالٰی تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے، اللہ تعالٰی وسعت والا اور علم والا ہے۔
٢٦٨۔١ یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہو جاؤ گے۔ لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا۔ بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے اور ان کے لیے خفتہ آرزوؤں کو اس طرح جگاتا ہے کہ ان پر انسان بڑی سے بڑی رقم بے دھڑک خرچ کر ڈالتا ہے۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لیے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو، دو سو کے لیے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اور مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے۔ لیکن یہی شخص سینما، ٹیلی ویژن، شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بے تحاشا خرچ کرتا ہے۔ اور اس سے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرً‌ا كَثِيرً‌ا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٢٦٩﴾
وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا (١) اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔
٢٦٩۔١ حِكْمَةٌ سے بعض کے نزدیک، عقل و فہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ و منسوخ کا علم و فہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب و سنت کا علم و فہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہو سکتے ہیں۔ صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ "دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔" (صحيح بخارى، كتاب العلم، باب الاغتباط في العلم والحكمة - مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلِّمه)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْ‌تُم مِّن نَّذْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ‌ ﴿٢٧٠﴾
تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو (١) اسے اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
٢٧٠۔١ نَذْرٍ کا مطلب ہے کہ میرا فلاں کام ہو گیا یا فلاں ابتلا سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کروں گا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں۔ نذر بھی، نماز روزہ کی طرح، عبادت ہے۔ اس لیے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا ہے جو شرک ہے، جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر و نیاز کا یہ سلسلہ عام ہے، اللہ تعالیٰ اس شرک سے بچائے۔
 
Top