ایک اور شبہ اور اس کا ازالہ
ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر جہاد کے لیے بھیجا،وہاں فتح یابی کے بعد ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ شکست خوردہ کافر قبیلے کا ایک شخص ان کو ملا،اس نے "
لا الہ الا اللہ" پڑھا ،لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ شخص جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہےچنانچہ انہوں نے اس کا اعتبار نہیں کیا اور اسے قتل کر دیا۔جب یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اسامہ سے فرمایا:"(
اقتلتہ بعد ما قال لا الہ الا اللہ)"تو نے اسے "
لا الہ الا اللہ" پڑھنے کے بعد قتل کر دیا؟حضرت اسامہ نے کہا:اللہ کے رسول !اس نے جان بچانے کے لیے ہی کلمہ پڑھا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم قالھا ام لا)"تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تجھے معلوم ہو جاتا کہ اس نے (دلی یقین کے ساتھ)کلمہ پڑھا ہے یا نہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے۔(
صحیح مسلم)
اس کے پیش کرنے سے ان کا مقصد یہ کہنا ہوتا ہے کہ زبانی اقرارا کی بھی بڑی اہمیت ہے اور جو شخص زبان سے "
لا الہ الا اللہ"پڑھتا ہو ،چاہے وہ اس کے مقتضیات پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو،اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکتی،نہ اس کی تکفیر ہی کی جا سکتی ہے۔لیکن اس واقعے اور حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص اسلام کا اظہار کرتا ہے اور کلمہ پڑھتا ہے تواس کے خلاف فوری کاروائی نہ کی جائے۔اس کلمے کے پڑھنے سے اس کی جان اور مال محفوظ ہو گیا ہے۔اس اکا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اس طرح کا اظہار کرنے والے اپنے عمل سے مسلسل اس کے خلاف ثبوت پیش کر رہے ہیں تب بھی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔یا ان کا عقیدہ و عمل "
لا الہ الا اللہ" کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کے خلاف ہو ،تب بھی ان کی تکفیر جائز نہ ہو۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےایک طرف یہ فرمایا کہ:کیا تو نے اسے "
لا الہ الا اللہ"کہنے کے بعد قتل کر دیا؟اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
"مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگ جب تک "
لا الہ الا اللہ"کا اقرار نہ کریں،میں ان سے قتال کروں۔"(
صحیح بخاری)
اس کا مطلب یہ ہے کہ "
لا الہ الا اللہ" کا اقرار کر لینے کے بعد کوئی کاروائی کرنی جائز نہیں۔لیکن دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کی بابت فرمایا کہ یہ ایک گروہ پیدا ہو گا،جو قرآن اور نماز پڑھے گا،ایمان کا اظہار کر گا،لیکن یہ تینوں چیزیں ان کے گلوں سے نہیں اتریں گی،وہ بڑے عبادت گزار ہوں گے،ان کی نمازوں روزوں اور قرأت کے مقابلے میں تمہیں اپنی نمازیں ،تلاو ت وغیرہ حقیر معلوم ہوں گے۔لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بابت فرمایا :
"جہاں بھی تم انہیں ملو،انہیں قتل کر دو۔(
سنن ابی داؤد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
"اللہ کی قسم!اگر میں نے انہیں پا لیا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا۔"
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بعد میں اس پر عمل کیا اور ان سے قتال کیا۔
یہاں دیکھ لیجئے !خوارج کو "
لا الہ الا اللہ"کہنے کا کوئی فائدہ حاصل ہوا نہ کثرت عبادت کا۔کیوں؟اس لئے کہ انہوں نے زبان سے تو "
لا الہ الا اللہ"کہہ دیا،لیکن ان کا عمل اس کے خلاف تھا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے بھی اس نکتے کی وضاحت ہوتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا،باقی اسلام پر وہ عمل کر رہے تھے۔لیکن اس کے باوجود خیلفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کرنے کے عزم کا اظہار فرمایا،اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیااور کہا آپ ان سے قتال کریں گے جو "
لا الہ الا اللہ" کا اقرار کرتے ہیں؟جبکہ ایسے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم میں ان سے قتال ضرور کروں گاجو نماز زاور زکوۃ کے درمیان فرق کر رہے ہیں۔اس لیے کہ (جیسے نماز اللہ کا حق ہے اسی طرح)زکوۃ مال کا حق ہے(جو اللہ نے بندوں کے مال میں رکھا ہے)اللہ کی قسم!اگر وہ ایک بکری کا بچہ بھی مجھے دینے سے انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (زکوۃ میں)ادا کرتے تھے تو میں اس کے بھی روک لینے پران سے لڑوں گا۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ کی قسم!(جب میں نے ابوبکر کے موقف پر غور کیا تو)میں نے یہی دیکھا کہ اللہ نے ان لوگوں سے قتال کے لیے ابوبکرکا سینہ کھول دیا ہےاور میں نے بھی جان لیا کہ یہی بات حق ہے۔(
صحیح بخاری)
اس سے معلوم ہوا کہ پہلے صحابہ کرام نے یہی سمجھا کہ جو زبان سے "
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا اقرار کرتا ہے ،تو مجرد اقررا ہی اس کے لیے کافی ہے کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے،اس لیے انہوں نے مانعین زکوۃ سے قتال میں توقف کیا۔لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں۔محض زبان سے اقرارا کر لینا کافی نہیں،بلکہ اس کلمے کے حقوق اور اس کے مقتضیات کی ادائیگی بھی ضروری ہے،جب تک ایسا نہیں ہو گا مجرد اقرار سے کچھ نہیں ہو گا اور وہ قتال میں مانع نہیں۔ہمارے دور میں اس کی مثال مرزائی حضرات ہیں ۔یہ لوگ بھی "
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا اقرار کرتے ہیں۔لیکن چونکہ ان کا عقیدہ و عمل اس کلمے کے مقتضیات کے خلاف ہے۔اس لیے علمائے امت نے ان کے اس اقرار کو کوئی اہمیت نہیں دی اور انہیں بالاتفاق کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
بالکل اسی طرح جو شخص "
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا اقرار تو کرتا ہے لیکن اس کا عقیدہ و عمل اس کے مقتضیات کے خلاف ہے یعنی مشرکانہ ہے یا اس کی عقیدت و محبت اور اطاعت کا محور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ مسلمان کس طرح رہ سکتا ہے۔حضرت حسن بصری سے کہا گیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں ،جس نے "
لا الہ الا للہ" پڑھ لیا وہ جنتی ہے۔حضرت حسن بصری نے فرمایا:
"جس نے "
لا الہ الا للہ" کہا پھر اس نے اس کا حق اور فرض بھی ادا کیا،تو وہ جنتی ہے ۔"
حضرت وہب بن منبہ(تلمیذ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ)سے بھی کسی نے سوال کیا:
کیا "
لا الہ الا اللہ" جنت کی چابی نہیں ہے؟
تو انہوں نے فرمایا:
"کیوں نہیں۔(یقینا یہ جنت کی چابی ہے)لیکن کوئی چابی دندانوں کے بغیر نہیں ہوتی ،اگر تو دندانوں والی چابی لے کر آئے گا ،تو تیرے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا ،بصور ت دیگر یہ دروازہ تیرے لیے نہیں کھولا جائے گا۔(
محاضرات فی العقیدۃوالدعوۃ للشیخ صالح بن فوزان)
یہ دندانے کیا ہیں؟"
لا الہ الا اللہ" کے تقاضوں پر پورا عمل۔اور اگر عمل اس کے تقاضوں کے خلاف ہوا تو اس کی مثال بغیر دندانوں والی چابی کی سی ہےجس سے تالا نہیں کھلتا۔جنت کا تالا بھی محض زبانی کلمہ کی چابی سے نہیں کھلے گا ۔جب تک اس کے تقاضوں کے مطابق عمل بھی نہیں ہو گا۔