• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تين طلاق كي حقيقت

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
اس موضوع پر ایک حنفی بھائی نے یہ سوال کے ہیں

مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے تین طلاق کے ایک طلاق کے جواز پر اپنا موقف پیش کیا۔
میں نے آپ کی پوسٹ کا مطالعہ کرلیا ہے اور انشا اللہ بہت جلد آپ کی اپنے موقف میں پیش کردہ دلیل کے ضمن میں جمہور کی طرف سے دئے گئے دلائل کو بڑی ذمہ داری سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔
اس کے بعد ہی قارئین کرام خود دوطرفہ دلائل کی روشنی میں اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکیں گے ۔ انشا اللہ
فی الوقت مین سفر پر ہوں جیسے ہی اپنے مقام پر واپسی ہوگی میں جواب ترتیب دوں گا۔ فی الحال آپ کے موقف کو سمجھنے کے لئے مجھے آپ سے چند سوالوں کا جواب چاہئے۔
۱ آپ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقین الگ الگ مجلسوں میں دی یعنی ایک صبح دوسری دوپہر تیسری رات کو آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۲ ایک شخص اپنی بیوی کو بروز منگل ایک طلاق دیتا ہے دوسری بروز بدھ اور تیسری بروز جمعرات آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۳ ایک شخص آج ایک طلاق دیتا ہے دوسری طلاق ایک ہفتہ بعد اور تیسری پھر ایک ہفتہ بعد آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۴ایک شخص اپنی بیوی کو ہر الگ الگ مجلس میں تین تین طلاق دیتا ہے یعنی نو طلاق تین مجلسوں میں دیتا ہے آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
میرے بھائی ان سوالوں کا جواب مختصا عنایت فرمادیں اگر سب کا جواب ایک ہے تو ایک ہی جواب دے دیں۔ تاکہ اسی کی روشنی میں میں آپ کی پوسٹ پر دلائل پیش کرسکوں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
اس طرح کے سوالوں کا کیا جواب ہے؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اس موضوع پر ایک حنفی بھائی نے یہ سوال کے ہیں
مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے تین طلاق کے ایک طلاق کے جواز پر اپنا موقف پیش کیا۔
میں نے آپ کی پوسٹ کا مطالعہ کرلیا ہے اور انشا اللہ بہت جلد آپ کی اپنے موقف میں پیش کردہ دلیل کے ضمن میں جمہور کی طرف سے دئے گئے دلائل کو بڑی ذمہ داری سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔
اس کے بعد ہی قارئین کرام خود دوطرفہ دلائل کی روشنی میں اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکیں گے ۔ انشا اللہ
فی الوقت مین سفر پر ہوں جیسے ہی اپنے مقام پر واپسی ہوگی میں جواب ترتیب دوں گا۔ فی الحال آپ کے موقف کو سمجھنے کے لئے مجھے آپ سے چند سوالوں کا جواب چاہئے۔
۱ آپ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقین الگ الگ مجلسوں میں دی یعنی ایک صبح دوسری دوپہر تیسری رات کو آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۲ ایک شخص اپنی بیوی کو بروز منگل ایک طلاق دیتا ہے دوسری بروز بدھ اور تیسری بروز جمعرات آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۳ ایک شخص آج ایک طلاق دیتا ہے دوسری طلاق ایک ہفتہ بعد اور تیسری پھر ایک ہفتہ بعد آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۴ایک شخص اپنی بیوی کو ہر الگ الگ مجلس میں تین تین طلاق دیتا ہے یعنی نو طلاق تین مجلسوں میں دیتا ہے آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
میرے بھائی ان سوالوں کا جواب مختصا عنایت فرمادیں اگر سب کا جواب ایک ہے تو ایک ہی جواب دے دیں۔ تاکہ اسی کی روشنی میں میں آپ کی پوسٹ پر دلائل پیش کرسکوں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
اس طرح کے سوالوں کا کیا جواب ہے؟
یہ ایک ہی سوال ہے جو کئی طرح سے کیا گیا ہے۔
اس بھائی جان کو بولو کہ اللہ تیرا بھلا کرے دوبارہ پوسٹ تحریر کا بنظر غور مطالعہ فرماؤ آپ کے سوال کاجواب تحریر میں ہی موجود ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
مجھے بھی اس سوال کا جواب جاننے کی خواہش ہے ۔ علمائے کرام ہی بہتر بتائیں گے۔ میں تو اب تک یہ سمجھتا ہوں کہ ایک طہر میں دی گئی تمام طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ دوسری طلاق کے شمار کے لئے ضروری ہے کہ حیض کے بعد دوسرے ماہ میں دی جائے۔ اس شرعی طریقہ طلاق پر احناف سمیت تمام مسلم گروہ متفق ہیں کہ ایک طلاق ایک طہر میں، دوسری دوسرے طہر میں اور تیسری طلاق تیسرے طہر میں دی جائے۔
فرق بس یہ ہے کہ احناف کہتے ہیں اگر ایک سے زائد طلاق ایک ہی طہر میں دے دی جائیں (اب چاہے وہ ایک ہی مجلس ہو، ایک دن ہو، ایک ہفتہ ہو وغیرہ) تو اگرچہ اس طرح طلاق دینا بدعت ہے، لیکن یہ دوسری طلاق بھی لاگو ہو جائے گی۔
اور اہلحدیث کہتے ہیں کہ جب ایک ہی طہر میں ایک سے زائد طلاق دینا ہی بدعت ہے تو لاگو کیسے ہوگی؟
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
یہ ایک ہی سوال ہے جو کئی طرح سے کیا گیا ہے۔
اس بھائی جان کو بولو کہ اللہ تیرا بھلا کرے دوبارہ پوسٹ تحریر کا بنظر غور مطالعہ فرماؤ آپ کے سوال کاجواب تحریر میں ہی موجود ہے۔
جی بلکل اسی طرح کا جواب دیا گیا ہے انہی
اب وہ جناب اپنے دلائل جمع کرنے میں لگے ہیں
انکے جواب کا انتظار ہے، آپ تمام اہل علم سے گزارش ہے کے اس بحث میں رہنمائی کریں
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
مجھے بھی اس سوال کا جواب جاننے کی خواہش ہے ۔ علمائے کرام ہی بہتر بتائیں گے۔ میں تو اب تک یہ سمجھتا ہوں کہ ایک طہر میں دی گئی تمام طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ دوسری طلاق کے شمار کے لئے ضروری ہے کہ حیض کے بعد دوسرے ماہ میں دی جائے۔ اس شرعی طریقہ طلاق پر احناف سمیت تمام مسلم گروہ متفق ہیں کہ ایک طلاق ایک طہر میں، دوسری دوسرے طہر میں اور تیسری طلاق تیسرے طہر میں دی جائے۔
فرق بس یہ ہے کہ احناف کہتے ہیں اگر ایک سے زائد طلاق ایک ہی طہر میں دے دی جائیں (اب چاہے وہ ایک ہی مجلس ہو، ایک دن ہو، ایک ہفتہ ہو وغیرہ) تو اگرچہ اس طرح طلاق دینا بدعت ہے، لیکن یہ دوسری طلاق بھی لاگو ہو جائے گی۔
اور اہلحدیث کہتے ہیں کہ جب ایک ہی طہر میں ایک سے زائد طلاق دینا ہی بدعت ہے تو لاگو کیسے ہوگی؟
جی بلکل علمائے کرام کے جواب کا ہی انتظار ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور اہل الحدیث اہل علم کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ طلاق بدعی واقع ہی نہیں ہوتی ہے۔ راقم کا ذاتی میلان اور رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔ اس قول کے مطابق:

حالت حیض اور نفاس میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

ایک مجلس میں اگر تین طلاقیں دی ہیں تو پہلی سنت ہے لہذا واقع ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری بدعت ہے لہذا واقع نہیں ہو گی۔

اسی طرح اگر ایک طہر میں تین طلاقیں دی ہیں تو پہلی واقع ہو جائے گی کیونکہ ایک طہر میں ایک طلاق دینا طلاق سنی ہے جبکہ دوسری اور تیسری بدعت ہیں لہذا واقع نہیں ہوں گی۔

اگر ایسے طہر میں طلاق دی ہے کہ جس میں بیوی سے مباشرت کر چکا ہو تو ایسی طلاق بھی بدعت ہے لہذا واقع نہیں ہو گی یعنی صرف اسی طہر میں ایک طلاق واقع ہو گی کہ جس طہر میں مباشرت نہ کی ہو۔ اورجس میں مباشرت کی ہو تو اس میں ایک بھی واقع نہ ہو گی۔

اسی طرح اگر ایک طہر میں مباشرت نہیں کی اور طلاق دی تو یہ طلاق سنی ہے اور ایک طلاق ہے۔ اب اگلے طہر میں دوبارہ طلاق دے دی لیکن درمیان میں رجوع نہیں کیا تو یہ دوسری طلاق، طلاق بدعی ہے کیونکہ دوسری طلاق کے سنت ہونے کے لیے پہلی سے رجوع لازم ہے لہذا دوسری واقع نہیں ہو گی۔

ان تمام فتاوی کی اصل یہ ہے کہ طلاق سنت واقع ہوتی ہے اور طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ہے۔ یعنی اصول یہ ہے کہ طلاق کا جو طریقہ مشروع ہے، اس کے مطابق طلاق دی ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر اس کے علاوہ کسی طریقہ سے طلاق دی ہے تو طلاق واقع نہ ہو گی۔

جزاکم اللہ خیرا
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ان تمام فتاوی کی اصل یہ ہے کہ طلاق سنت واقع ہوتی ہے اور طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ہے۔
جزاک اللہ خیرا شیخ اگر ایک منٹ کےلیے ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق دینا ازروئے شریعت ہے تو ناجائر یعنی بدعت لیکن اس بدعت کا وقوع ہوجائے گا۔تو پھر اہل بدعت کےلیے کیا راستہ نکلے گا۔؟ اور کہاں جاکر اہل بدعت دم توڑیں گے۔؟ اس کی کوئی حد ہی نہ ہوگی۔کیونکہ ہربدعت میں وہ اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنے کے حق بجانب ہونگے کہ جس طرح تین طلاق ایک مجلس میں دینا بدعت ہے لیکن تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح ہر بدعت بدعت تو ہے لیکن اس بدعت کو جس مقصد کےلیے کیا جاتا ہے وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں اس فرمان کا کیا ہوگا ؟
کل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار
’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے کا ذریعہ، سبب،راستہ ہے‘‘
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جزاک اللہ خیرا شیخ اگر ایک منٹ کےلیے ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق دینا ازروئے شریعت ہے تو ناجائر یعنی بدعت لیکن اس بدعت کا وقوع ہوجائے گا۔تو پھر اہل بدعت کےلیے کیا راستہ نکلے گا۔؟ اور کہاں جاکر اہل بدعت دم توڑیں گے۔؟ اس کی کوئی حد ہی نہ ہوگی۔کیونکہ ہربدعت میں وہ اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنے کے حق بجانب ہونگے کہ جس طرح تین طلاق ایک مجلس میں دینا بدعت ہے لیکن تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح ہر بدعت بدعت تو ہے لیکن اس بدعت کو جس مقصد کےلیے کیا جاتا ہے وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں اس فرمان کا کیا ہوگا ؟
فی الحال کچھ مصروفیات کی بنا پر اس مسئلہ کے تمام پہلوں پر لکھ نہیں سکتا لیکن گڈمسلم صاحب نے جو نقطہ اٹھایا میرے نذدیک وہ باطل ہے ۔ صرف اس نقطہ کے حوالہ سے کچھ مختصر سا لکھنا چاہتا ہوں ۔
قراں و حدیث میں میاں بیوی میں علیحدگي کے لئیے جو لفظ آیا ہے وہ ہے "طلاق " ۔ اگر کوئی اپنی بیوی کو "طلاق" دیتے ہوئے "تلاک" کہے تو کیا طلاق ہوجائے گي ؟
اگر اس کا فتوی یہ دیا جائے کہ طلاق ہو جائے گي تو ہر شخص بغیر تجوید کے نماز پڑہے گا اور الحمد کی الہمد پڑہے گا ، صراط الذین کی جگہ صرات الذین پڑہے گا اور گڈمسلم صاحب کی طرح قیاس کرتے ہوئے کہے گا جب طلاق کو تلاک کہنے سے علیحدگي ہوجاتی ہے تو میری نماز بھی ہوجاتی ہے ۔
اس طرح کے فتنے کو روکنے کے لئیے آپ تلاک کہنے پر طلاق کا فتوی نہیں دیتے تو ان پاکستانیوں کا کیا ہوگا جو تجوید نہیں جانتے اور تلاک ہی کہتے ہیں ۔ اور ان خواتیں کے نکاح ثانی کا کیا ہوگا جو تلاک لینے کے بعد کرچکی ہیں
جو عرب ممالک ہیں وہاں کتب ، اخبارات میں تو اسٹینڈرڈ عربی (اللغہ الفصحی ) ہوتی ہے لیکن عام زندگي میں جو عربی بولی جاتی ہے وہ اللغہ العامیہ کہلاتی ہے اور اللغہ الفصحی سے کچھ مختلف ہوتی ہے ۔ اور ہر خطہ کی اللغہ العامیہ مختلف ہے ۔ مصر میں جو اللغہ العامیہ بولی جاتی ہے اس میں "ق" کی جگہ "ہمزہ" کی مانند آواز نکالی جاتی ہے ۔ وہ طلاق کو طلاء بولتے ہیں تو کیا کسی مصری کی طلاق واقع نہیں ہوگي ۔
گڈمسلم صاحب طلاق معاشرتی مسائل میں سے ہے اس کو عبادات پر قیاس نہ کریں
عبادات خلاف سنت ادا نہیں ہوتی لیکن طلاق اگر خلاف سنت دی جائے تو اس خلاف سنت طلاق دینے کا گناہ طلاق دینے والے کو ہوگا لیکن واقع ہوجائے گي ۔
اگر صرف اس کو موثر نہ ماننے کی وجہ خلاف سنت طریقہ سے طلاق دینا ہے تو تلاک بھی خلاف قران و حدیث لفظ ہے اس حوالہ سے ضرور بتائیے گا کہ تلاک کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے یہ نہیں ۔ ہونے اور نہ ہونے دونوں صورتوں میں میں نے نتائج سے آگاہ کردیا ہے ۔
اب آپ کو بتانا ہے کہ آپ تلاک کہنے سے طلاق واقع ہونا سمجھتے ہیں یا خلاف قران و حدیث کے ہونے کی وجہ سے طلاق کو موثر نہیں سمجھتے ۔ جواب کا انتظار رہے گا
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
فی الحال کچھ مصروفیات کی بنا پر اس مسئلہ کے تمام پہلوں پر لکھ نہیں سکتا لیکن گڈمسلم صاحب نے جو نقطہ اٹھایا میرے نذدیک وہ باطل ہے ۔ صرف اس نقطہ کے حوالہ سے کچھ مختصر سا لکھنا چاہتا ہوں ۔
قراں و حدیث میں میاں بیوی میں علیحدگي کے لئیے جو لفظ آیا ہے وہ ہے "طلاق " ۔ اگر کوئی اپنی بیوی کو "طلاق" دیتے ہوئے "تلاک" کہے تو کیا طلاق ہوجائے گي ؟
اگر اس کا فتوی یہ دیا جائے کہ طلاق ہو جائے گي تو ہر شخص بغیر تجوید کے نماز پڑہے گا اور الحمد کی الہمد پڑہے گا ، صراط الذین کی جگہ صرات الذین پڑہے گا اور گڈمسلم صاحب کی طرح قیاس کرتے ہوئے کہے گا جب طلاق کو تلاک کہنے سے علیحدگي ہوجاتی ہے تو میری نماز بھی ہوجاتی ہے ۔
اس طرح کے فتنے کو روکنے کے لئیے آپ تلاک کہنے پر طلاق کا فتوی نہیں دیتے تو ان پاکستانیوں کا کیا ہوگا جو تجوید نہیں جانتے اور تلاک ہی کہتے ہیں ۔ اور ان خواتیں کے نکاح ثانی کا کیا ہوگا جو تلاک لینے کے بعد کرچکی ہیں
جو عرب ممالک ہیں وہاں کتب ، اخبارات میں تو اسٹینڈرڈ عربی (اللغہ الفصحی ) ہوتی ہے لیکن عام زندگي میں جو عربی بولی جاتی ہے وہ اللغہ العامیہ کہلاتی ہے اور اللغہ الفصحی سے کچھ مختلف ہوتی ہے ۔ اور ہر خطہ کی اللغہ العامیہ مختلف ہے ۔ مصر میں جو اللغہ العامیہ بولی جاتی ہے اس میں "ق" کی جگہ "ہمزہ" کی مانند آواز نکالی جاتی ہے ۔ وہ طلاق کو طلاء بولتے ہیں تو کیا کسی مصری کی طلاق واقع نہیں ہوگي ۔
گڈمسلم صاحب طلاق معاشرتی مسائل میں سے ہے اس کو عبادات پر قیاس نہ کریں
عبادات خلاف سنت ادا نہیں ہوتی لیکن طلاق اگر خلاف سنت دی جائے تو اس خلاف سنت طلاق دینے کا گناہ طلاق دینے والے کو ہوگا لیکن واقع ہوجائے گي ۔
اگر صرف اس کو موثر نہ ماننے کی وجہ خلاف سنت طریقہ سے طلاق دینا ہے تو تلاک بھی خلاف قران و حدیث لفظ ہے اس حوالہ سے ضرور بتائیے گا کہ تلاک کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے یہ نہیں ۔ ہونے اور نہ ہونے دونوں صورتوں میں میں نے نتائج سے آگاہ کردیا ہے ۔
اب آپ کو بتانا ہے کہ آپ تلاک کہنے سے طلاق واقع ہونا سمجھتے ہیں یا خلاف قران و حدیث کے ہونے کی وجہ سے طلاق کو موثر نہیں سمجھتے ۔ جواب کا انتظار رہے گا
یہاں شاید ایک مجلس کی تین طلاق تین واقع ہوگی یا ایک اس پر بات ہو رہی ہے
 
Top