ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
مستشرقین کا قرآن کی عدم صحت کے بارے میں نقطہ نگاہ اس لئے بھی قابل قبول نہیں ہے کہ ان کے نقطہ نگاہ میں کوئی اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا۔ جس طرح مشرکینِ مکہ میں کوئی تو قرآن کو شاعر کا کلام کہتا تھا کوئی آپﷺ کو ساحر کہتا، کوئی مجنون کہتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ مشرکین کے اعتراضات کے بے بنیاد ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ کسی ایک موقف پر اکٹھے نہیں ہوسکے تھے سب کی زبانیں مختلف تھیں۔مستشرقین کی حالت بھی بالکل ایسی ہی ہے۔ قرآن کی محفوظیت کے حوالے سے یہ لوگ تضادات کا شکار ہیں۔ مستشرقین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ قرآن عہدِ نبوی سے ہی غیر محفوظ ہے اور لکھا نہیں گیا لہٰذا بعد میں اس کے اکٹھا ہونے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ عہدِ نبویﷺ میں تواکٹھا ہو گیا تھا لیکن حضرت ابو بکر صدیق نے اس کے اصل متن کو باقی نہیں رہنے دیا۔ایک تیسرا گروہ کہتا ہے کہ پہلے دونوں ادوار میں تو قرآن مکمل طور پر موجود تھا لیکن حضرت عثمان غنی نے اس کا بہت سا حصہ ضائع کر دیا۔
یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ جن مآخذ کی مدد سے ان لوگوں نے تاریخ تدوینِ قرآن پر تحقیق کی وہ ان سب کے ہاں مشترک ہیں لیکن ان میں سے ایک نے ان مآخذ سے ایک موقف اختیار کیا ہے دوسرے نے اس کے بالکل برعکس نقطہ نگاہ اختیارکر لیا۔ یہ کیا تماشا ہے کہ ان میں سے ہر ایک گروہ کو قرآن عہدنبوی میں محفوظ ہوتا دکھائی دیتا ہے جبکہ انہی مآ خذ سے دوسرا گروہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ قرآن عہد نبوی اور زمانہ مابعد میں مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوسکا ۔ ایک ہی عینک سے ایک گروہ کو ایک تصویر سیدھی نظر آتی ہے اور دوسرے کو ٹیڑھی دکھائی دیتی ہے۔درحقیقت عینک ایک ہی ہے فرق بینائی کا ہے۔ جس کے اندر حقائق کو تسلیم کرنے کی صلاحیت و استعداد موجود ہے ،اس عینک سے ان کی بینائی تیز ہوجاتی ہے اور جس کی آنکھوں میں بصارت کی قوت ہی نہیں ہے ان کے سامنے اندھیرا ہی رہتا ہے عینک کا شیشہ تو محض شیشہ ہے فرق تو دیکھنے والے کی بینائی کا ہے۔
یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ جن مآخذ کی مدد سے ان لوگوں نے تاریخ تدوینِ قرآن پر تحقیق کی وہ ان سب کے ہاں مشترک ہیں لیکن ان میں سے ایک نے ان مآخذ سے ایک موقف اختیار کیا ہے دوسرے نے اس کے بالکل برعکس نقطہ نگاہ اختیارکر لیا۔ یہ کیا تماشا ہے کہ ان میں سے ہر ایک گروہ کو قرآن عہدنبوی میں محفوظ ہوتا دکھائی دیتا ہے جبکہ انہی مآ خذ سے دوسرا گروہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ قرآن عہد نبوی اور زمانہ مابعد میں مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوسکا ۔ ایک ہی عینک سے ایک گروہ کو ایک تصویر سیدھی نظر آتی ہے اور دوسرے کو ٹیڑھی دکھائی دیتی ہے۔درحقیقت عینک ایک ہی ہے فرق بینائی کا ہے۔ جس کے اندر حقائق کو تسلیم کرنے کی صلاحیت و استعداد موجود ہے ،اس عینک سے ان کی بینائی تیز ہوجاتی ہے اور جس کی آنکھوں میں بصارت کی قوت ہی نہیں ہے ان کے سامنے اندھیرا ہی رہتا ہے عینک کا شیشہ تو محض شیشہ ہے فرق تو دیکھنے والے کی بینائی کا ہے۔