• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی﷜ اور مستشرقین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مستشرقین کا قرآن کی عدم صحت کے بارے میں نقطہ نگاہ اس لئے بھی قابل قبول نہیں ہے کہ ان کے نقطہ نگاہ میں کوئی اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا۔ جس طرح مشرکینِ مکہ میں کوئی تو قرآن کو شاعر کا کلام کہتا تھا کوئی آپﷺ کو ساحر کہتا، کوئی مجنون کہتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ مشرکین کے اعتراضات کے بے بنیاد ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ کسی ایک موقف پر اکٹھے نہیں ہوسکے تھے سب کی زبانیں مختلف تھیں۔مستشرقین کی حالت بھی بالکل ایسی ہی ہے۔ قرآن کی محفوظیت کے حوالے سے یہ لوگ تضادات کا شکار ہیں۔ مستشرقین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ قرآن عہدِ نبوی سے ہی غیر محفوظ ہے اور لکھا نہیں گیا لہٰذا بعد میں اس کے اکٹھا ہونے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ عہدِ نبویﷺ میں تواکٹھا ہو گیا تھا لیکن حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے اس کے اصل متن کو باقی نہیں رہنے دیا۔ایک تیسرا گروہ کہتا ہے کہ پہلے دونوں ادوار میں تو قرآن مکمل طور پر موجود تھا لیکن حضرت عثمان غنی﷜ نے اس کا بہت سا حصہ ضائع کر دیا۔
یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ جن مآخذ کی مدد سے ان لوگوں نے تاریخ تدوینِ قرآن پر تحقیق کی وہ ان سب کے ہاں مشترک ہیں لیکن ان میں سے ایک نے ان مآخذ سے ایک موقف اختیار کیا ہے دوسرے نے اس کے بالکل برعکس نقطہ نگاہ اختیارکر لیا۔ یہ کیا تماشا ہے کہ ان میں سے ہر ایک گروہ کو قرآن عہدنبوی میں محفوظ ہوتا دکھائی دیتا ہے جبکہ انہی مآ خذ سے دوسرا گروہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ قرآن عہد نبوی اور زمانہ مابعد میں مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوسکا ۔ ایک ہی عینک سے ایک گروہ کو ایک تصویر سیدھی نظر آتی ہے اور دوسرے کو ٹیڑھی دکھائی دیتی ہے۔درحقیقت عینک ایک ہی ہے فرق بینائی کا ہے۔ جس کے اندر حقائق کو تسلیم کرنے کی صلاحیت و استعداد موجود ہے ،اس عینک سے ان کی بینائی تیز ہوجاتی ہے اور جس کی آنکھوں میں بصارت کی قوت ہی نہیں ہے ان کے سامنے اندھیرا ہی رہتا ہے عینک کا شیشہ تو محض شیشہ ہے فرق تو دیکھنے والے کی بینائی کا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ تاریخ تدوینِ قرآن کے بارے میں مستشرقین کے نقطہ نگاہ کے ردّ کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ وہ خود تضادات کاشکار ہیں۔ قرآن کی صحت کے حق میں یہ بہت بڑی دلیل دی جاسکتی ہے کہ اس کے مخالفین اس کے بارے میں باہم متصادم و متضاد ہیں۔ اگر وہ سچے ہوتے تو وہ متفق الخیال ہوتے۔باہم متصادم اعتراضات کر کے وہ محض دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔
٭ یہ لوگ ایک طرف کہتے ہیں کہ ماقبل عہدِعثمان غنی﷜ میں جو قراء ات مروج تھیں، حضرت عثمان غنی﷜ نے وہ نکال دیں ۔ اسی طرح قرآن کے بہت سے حصے جن میں اہلِ بیت کے مناقب تھے وہ حضرت عثمان غنی﷜ نے نکال دیئے۔ اس کے علاوہ بھی کئی حصے نکال دیئے گئے۔ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی ﷜ کا نسخہ وہی تھا جو حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے تیار کروایا تھا۔
٭ ایک طرف کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی﷜ نے اپنے تیار کردہ مصحف کے علاوہ باقی مصاحف جلوا دیئے دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس مصحف کے بعد بھی دیگر مصاحف مروّج رہے۔ پھر تو یہ کہا جا سکتا ہے اگر بالفرض حضرت عثمان غنی﷜ نے قرآن میں سے کچھ حصے نکال بھی دیئے تھے تو اس کے باوجود قرآن تو محفوظ ہی رہا کیونکہ ان حصوں کو نکالنے کے باوجود لوگ باقی بچ جانے والے مصاحف سے ان حصوں کو دوبارہ حاصل کرسکتے تھے۔
مستشرقین، اسلام کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے تشکیک کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اپنی کتابوں میں اسلامی تاریخ سے ثابت شدہ مسلمات کے بارے میں محض اپنے ظن و گمان کی بنیاد پر شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں مسلّمہ حقائق کے مقابلے میں ان کی کتابوں میں(Might be, Perhaps, may be, It may have so, It is assumed) کے الفاظ استعما ل کئے جاتے ہیں۔ گویا ظن و تخمین اور قیاس آرائیوں سے کام لیتے ہیں۔ اگر ہم خالص عقل اور انصاف کی بنیاد پر ہی فیصلہ کریں تو عقل و انصاف یہی کہتا ہے کہ ایک طرف مسلمہ حقائق اور نصوص ہوں دوسری جانب اس طرح کا ظن و گمان ہوتو یقینی بات کو تسلیم کرنا چاہئے یا ظنی اور تصوراتی بات کو؟
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مستشرقین کے بارے میں اگرچہ یہ چرچاہے کہ وہ معروضی اور غیر جانبدرانہ تحقیق کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ لوگ تقلید کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک شخص ایک مخصوص مقصد کے تحت ایک نظریہ پیش کرتا ہے تو ان کی بہت بڑی تعداد اس کی تقلید میں وہی نظریہ اختیار کر لیتی ہے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ مستشرقین کی اتنی بڑی تعداد نے یہ نقطہ نگاہ پیش کیا ہے حالانکہ یہ نقطہ نگاہ ایک فرد کا ہوتا ہے ایک جماعت کا نہیں ہوتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اکثر مستشرقین اسلامیات کے بنیادی مأخذ سے واقف نہیں ہیں۔ وہ عربی زبان جانے بغیر اسلام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ تحقیق کا مسلمہ اصول ہے کہ کوئی بھی نقطہ نگاہ بنیادی مآخذ پر مبنی ہوناچاہئے۔ خصوصاً قرآن کی صحت جیسے اہم ترین موضوع پر اظہارِخیال کرتے ہوئے وہی بات کرنی چاہئے جو واضح، قطعی اور ناقابلِ تردید ہو۔
٭ کسی مسئلہ پر مستشرقین کے نقطہ نگاہ کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت ہمیں اس اصولی بات کوبھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وہ کس معیار کے مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی نقطہ نگاہ اختیار کرتے ہیں۔ مستشرقین کے ہاں مآخذ کی تقسیم اوردرجہ بندی کا کوئی اصول موجود نہیں ہے۔ مسلمانوں نے قرآن ، حدیث ، سیرت اور تاریخ میں باضابطہ طور پر مآخذ کی درجہ بندی کی ہے۔ شیخ عبدالحق اور دیگر لوگوں نے طبقاتِ کتب حدیث کا تعین کیا ہے۔ جو مقام پہلے اور دوسرے درجہ کی کتبِ حدیث کو حاصل ہے تیسرے اور چوتھے درجہ کی کتب کو حاصل نہیں ہے۔ احادیث و روایات کی قبولیت کے لئے معیار مقرر کیا ہے۔ محدثین نے قبول حدیث کے لیے کڑی شرائط رکھی ہیں ۔ جرح و تعدیل کے واضح اصول موجود ہیں ۔اسماء الرجال کا علم محض اس لئے منظم و مرتب ہوا کہ جن لوگوں کے ذریعہ سے احادیث نقل ہوئی ہیں ان کے احوال کو جانا جاسکے ۔ مستشرقین اس قسم کی کسی درجہ بندی سے نہ توواقف ہیں نہ وہ تحقیق کے دوران اس طرح کی کوئی تمیز ملحوظ رکھتے ہیں۔ان کے ہاں بخاری شریف اور الجاحظ اور الاغانی میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان کے مطلب کی بات الاغانی جیسی غیر معتبر کتاب سے ملتی ہے اور بخاری شریف میں اس سے مختلف بات موجود ہے تو وہ الاغانی سے استفادہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مستشرقین ایک طرف کہتے ہیں کہ قرآن کا متن ایک طویل عرصے تک محفوظ نہیں کیا گیا دوسری طرف ولیم میور (Willium Muir) جیسا شخص پورے شد و مدّ سے ثابت کرتا ہے کہ قرآن عہدِ نبویﷺمیں مکمل طور پر محفوظ کر لیا گیا تھا۔ مستشرقین کے بارے میں ان بنیادی حقائق کے ذکر کے بعد اب ان کے نقطہ نگاہ کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا۔ سب سے پہلے اس پہلو پر روشنی ڈالی جائے گی کہ جمع عثمانیؓ کی بنیاد بننے والا ’ مصحفِ صدیقِ اکبر﷜ ‘ ناقص تھا یا ایک کامل نسخہ تھا۔
جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ مستشرقین نے عہدِعثمان﷜ میں تیار ہونے والے نسخے کو مشکوک بناتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ نسخہ حضرت ابوبکرصدیق﷜ کے نسخہ کی نقل تھا دوسری طرف مصحف صدیق کے بارے میں بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ بھی ناقص تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا نقطہ نگاہ یہ بھی ہے کہ عہدِ نبویﷺ میں قرآن مجید کو محفوظ کرنے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں تھااور اس دور میں قرآن مجید کا کوئی مکمل نسخہ تیار نہیں ہوسکا تھا ۔آئندہ سطورمیں اس پہلو پرحقائق پیش کئے جائیں گے کہ قرآن عہدِ نبویﷺمیں بھی ہر اعتبار سے مکمل اور محفوظ تھا اس سلسلے میں چند حقائق ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔
زبدۃ البیان فی رسوم مصاحفِ عثمان﷜ میں روایت ہے:
’’کان دأبُ الصحابۃ من أوّل نزول الوحي إلٰی اٰخرہ المسارعۃ إلٰی حفظہ۔‘‘
یعنی نزولِ قرآن کے آغاز ہی سے صحابہ﷢ کا یہ معمول تھا کہ جو حصہ نازل ہوتا اسے حفظ کرلیا جاتا۔ اگر ہم صحابہ کرام﷢ کے معاشرے کے ذہنی رجحانات کا جائزہ لیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس دور میں قرآن اور صحابہ﷢ لازم وملزوم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے حالاتِ زندگی بیان کرتے وقت الگ سے ان کے حافظ قرآن ہونے کی صفت کو بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جاتی تھی۔ کیونکہ اکثر لوگ کسی نہ کسی طرح حافظ قرآن تھے۔ حفاظ صحابہ﷢ کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب اُحد کی لڑائی کے بعد شہدائے اُحد کو دفن کرنے کا مرحلہ آیا تو کپڑے کی قلت کی وجہ سے ایک ہی کپڑے میں کئی کئی صحابہ﷢ کو اکٹھے لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ ایک کپڑے میں ایک سے زیادہ صحابہ کرام﷢ کو لپیٹتے وقت آپ دریافت فرماتے کہ ان میں سب زیادہ قرآن کس کو آتا تھا۔ ترمذی شریف میں اس کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے:
فکثر القتلی وقلّت الثّیاب قال: فکفن الرجل والرجلان والثلٰٰثۃ في الثوب الواحد ثم یُدفنون في قبر واحد۔ قال فجعل رسول اﷲ ﷺ یسأل عنھم ’’أَیُّھُمْ أَکْثَرُ قُرْآنًا‘‘۔ فیقدمہ إلی القبلۃ۔
’’صحابہ کرام﷢ میں سے بہت سے شہید ہوئے اور کفن کے لیے کپڑوں کی قلّت ہوگئی تو ایک دو یا تین صحابہ کرام﷜ کو ایک ہی کپڑے میں لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ اس وقت حضورﷺ دریافت فرماتے کہ’’ ان میں سے سب سے زیادہ قرآن کس کو یاد تھا؟‘‘ پس جس شخص کو قرآن سب سے زیادہ یاد ہوتا اسے قبلہ کی طرف رکھتے‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضورﷺ کا اس انداز سے سوال فرمانا ’أیھم اکثر قراٰنا‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شہدائے اُحدمیں قرآن سب کو یا اکثر کو یاد تھا۔ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ یاد تھا۔ ورنہ آپؐ محض کمی زیادتی ہی کے دریافت فرمانے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ یہ بھی دریافت فرماتے کہ ’’ان میں سے کس کو قرآن یاد ہے اور کس کو یاد نہیں‘‘
٭ اس استفسارِ نبویﷺ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ حفظِ قرآن اور تعلیم کتاب اس طرح صحابہ﷢ میں عام تھی کہ وہ ہر ایک کی حالت سے بخوبی آگاہ تھے کہ کس کو کتنا قرآن آتا ہے۔
٭ بیئر معونہ کا واقعہ ایک معمولی سا واقعہ ہے۔کچھ صحابہ کرام﷢ قرآن کی تعلیم کے لیے جارہے تھے کہ ان کو شہید کر دیا گیا۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت کے لیے مسلمانوں میں سے ستر حفاظ کو بھیجا گیا کہ وہ انہیں قرآن کی تعلیم دیں۔ کیا یہ بات اس کی دلیل نہیں کہ اس وقت اس سوسائٹی میں ُحفّاظ کی تعداد کس قدرزیادہ تھی۔ ایک مقام پر لوگوں کی تعلیم کے لیے بھیجے جانے والوں کی تعداد ستر تھی تو روزانہ جو جماعتیں اور وفود تعلیم قرآن کے لیے مختلف قبائل کو جاتے تھے انہیں نگاہ میں رکھیں تواندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سوسائٹی میں ُحفّاظ کی تعداد کس قدر زیادہ تھی۔ مدینہ طیبہ کے اندر بھی تو مقامی ضرورت کے لیے حفاظ موجود ہوتے ہوں گے۔
٭ ۱۱ہجری میں مسیلمہ کے مقابلے میں مہاجرین و انصار کے کل ۳۰۰ ۔افراد شہید ہوئے جن میں سے ستر صحابہ﷢ حافظ قرآن تھے۔
٭ ابن الندیم نے ایک طویل فہرست پیش کی ہے جن میں حفاظ صحابہ کرام﷢ کے اسمائے گرامی کا ذکر ہے۔ ان صحابہ کرام﷢ میں یہ حضراتِ گرامی شامل ہیں:
عبداﷲبن عمرو بن العاص، قیس بن صعصعہ، سعد بن منذر بن اوس، عبداﷲبن عمر، عقبہ بن عامر الجہنی، ابوالدّرداء، تمیم داری، معاذ بن الحارث الانصاری، عبداﷲ بن سائب، سلیمان بن ابی حشمہ، ابی بن کعب، زید بن ثابت،معاذ بن جبل،سعد بن عبید بن نعمان انصاری، مسلمہ بن مخلد بن الصامت، عثمان بن عقان، عبداﷲ بن طلحہ، ابوموسٰی الاشعری، عمرو بن العاص، ابوہریرہ، سعد بن ابی وقاص، حذیفہ بن الیمان، عبادہ بن صامت، ابو حلیمہ، مجمع بن حارثہ، فضالہ بن عبید، سعد بن عبادۃ،ابن عباس،ابوایوب انصاری، عبداﷲ بن ذوالجناوین، عبید بن معاویہ، ابوزید﷢۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عبداﷲ ابن عمرو بن العاص﷜ ( م65ھ) جن کے بارے میں روایات بیان کی گئی ہیں کہ انہوں نے قرآن لکھا بھی تھا اور وہ حافظِ قرآن بھی تھے۔ انہوں نے حضورﷺسے شکایت کی تھی کہ میرا حافظہ کمزور ہے اور انہوں نے حضورﷺسے اجازت مانگی تھی کہ انہیں احادیث لکھنے کی اجازت دیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک ضعیف الحافظہ شخص قرآن کا حافظ تھا تو تیز حافظے والوں کا کیا عالم ہوگا۔ ابنِ سعدنے طبقات میں بھی ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ رات کو پڑھا جانے والا قرآن دن کو دوسروں کو سناتے تھے۔ سعدبن منذر﷜ کے بارے میں فتح الباری میں روایت ہے کہ انہوں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ انہیں تین روز میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دی جائے۔ عبداﷲ بن عمر﷜کے بارے میں نسائی شریف میں روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے قرآن یاد تھا اور ایک رات میں اسے ختم کیا کرتا تھا۔ حضورﷺنے انہیں منع فرما دیا اور ایک ماہ میں ختم کرنے کی اجازت دی۔
عبداﷲ بن عمر﷜ کے بارے میں نسائی شریف میں روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے قرآن یاد تھا اور ایک رات میں اسے ختم کیا کرتا تھا۔ حضورﷺنے انہیں منع فرما دیا اور ایک ماہ میں ختم کرنے کا حکم فرمایا۔ مشہور صحابی تمیم داری﷜ بھی حافظِ قرآن تھے۔ آپ﷜ رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن پڑھاتے تھے۔ طبقات میں روایت ہے کہ آپ﷜ کا معمول تھا کہ نمازِ تہجد میں سات راتوں میں قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔ علامہ ذہبی﷫ نے، جو فن رجال و تاریخ کے بہت ماہر تھے اور صحابہ کرام﷢ کے احوال سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے۔ طبقات القراء میں لکھتے ہیں:
’’فأما من حفظہ کلہ منھم وعرض علی النبي ﷺ فجماعۃ من نجباء أصحاب محمد ﷺ انتدبوہ قرائۃ وانتصبوا لأدائہ فکان من حملتھم سبعۃ أئمۃ أعلام قرأت علیھم أسانید القراٰن۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان کے اس کلام سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام﷢ میں بہت سے لوگ حافظِ قرآن تھے۔ گذشتہ سطور میں ابن الندیم کے حوالے سے حفاظ صحابہ کرام﷢ کے اسمائے گرامی بیان کئے گئے ہیں اس کے علاوہ حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ نے فتح الباری میں علامہ بدرالدین عینی﷫ نے شرح بخاری میں اور علامہ جلال الدین سیوطی﷫ نے الاتقان میں دیگر بہت سے حفاظ صحابہ کرام﷢ کا ذکر کیا ہے۔
کنزالعمال میں حضرت عمر﷜ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ﷜ نے اپنے لشکر کے سرداروں کو لکھا تھا کہ وہ اپنے اپنے علاقے سے حفاظِ قرآن کے ناموں پر مبنی فہرستیں مرکز کو روانہ کریں تاکہ بیت المال سے ان کے وظائف مقرر کئے جائیں ۔ ابو موسٰی اشعری﷜ نے تنہا اپنے علاقے سے تین سو سے کچھ اوپر صحابہ کرام﷢ کے اسمائے گرامی پر مشتمل فہرست ارسال کی۔
مفتاح السعادۃ میں حضرت علی﷜ کے بارے میں روایت ہے۔
’’علي ابن أبي طالب رضی اﷲ عنہ عرض القراٰن علی النبي ﷺ وھو من الذین حفظوا القرآن أجمع بلا شک عندنا۔ وقد أبعد الشعبي في قولہ إنہ لم یحفظہ۔ قال یحیٰی ابن آدم: قلت لأ بي بکر بن عیاش: یقولون إن علیًّا لم یقرأ القرآن۔ فقال: أبطل من قال ھذا۔‘‘
’’حضرت علی﷜ نے حضورﷺ سے تمام قرآن پڑھا تھا اورآپ﷜ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں قرآن مکمل طور پر یاد تھا۔ امام شعبی﷫ کو اس شخص پر بہت حیرت ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ حضرت علی﷜ کو قرآن پورا یاد نہ تھا یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر بن عیاش﷫ سے دریافت کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت علی﷜ کو پورا قرآن یاد نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قول باطل ہے‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ بدرالدین عینی﷫ لکھتے ہیں:
’’إن الذین جمعوا القرآن علٰی عہد النبي ﷺ لا یحصیھم عدد ولا یضبطھم أحد۔‘‘
’’بیشک جن لوگوں نے عہدِ نبویﷺ میں قرآن جمع کیا تھا ان کی تعداد شمار کرنا مشکل ہے‘‘
گذشتہ سطور میں جن اصحاب﷢ کے نام ذکر کئے گئے ہیں علامہ بدرالدین عینی﷫ نے ان میں ابو موسٰی اشعری، مجمع بن جاریہ، قیس بن ابی صعصعہ، قیس بن سکن، ام ورقہ بن نوفل، اور ابنتہ عبداﷲ بن حارث ﷢ کے ناموں کا اضافہ کیا ہے۔
مذکورہ بالا جن اصحاب﷢ کے اسمائے گرامی پیش کئے گئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم لکھ کر محفوظ کیا تھا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے جمع قرآن پر جمع فی الصّدر کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس شبہ کا ازالہ اس طرح ہو جاتا ہے کہ حفاظِ صحابہ﷢ کی تعداد تو شمار میں لانا مشکل ہے۔ جنگ یمامہ میں ستر حفاظ شہید ہوئے۔ بئیر معونہ کے موقع پر ستر حفاظ شہید ہوئے۔ عہدِ نبویﷺکے حفاظ کی تعداد تیس تک تو فتح الباری اور عمدۃ القاری میں موجود ہیں۔
لہٰذا یہاں جمع کتابی مراد ہے۔ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ کا بیان قابل ذکر ہے ۔
المراد بالجمع الکتابۃ فلا ینفي أن یکون غیرھم جمعہ حفظا عن ظھر قلب وأما ھٰؤلاء فجمعوہ کتابۃ وحفظوہ عن ظھر قلب۔
کتابتِ وحی کے سلسلے میں تفصیلی روایات ملتی ہیں کہ نزول وحی کے فوراً بعد اس کولکھ لیا جاتا تھا۔ اس کی وضاحت حضرت زیدبن ثابت﷜ سے مروی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت زیدبن ثابت﷜ فرماتے ہیں:
کنت أکتب الوحي لرسول اﷲ ﷺ وکان إذا نزل علیہ الوحي أخذتہ برَحَائٌ شدیدۃ وعرقا مثل الجمان، ثم سرّي عنہ، فکنت أدخل علیہ بقطعۃ الکتف أو کسوۃ، فأکتب وھو یملي عليّ، فما أفرغ حتّٰی تکاد رجلي تنکسر من ثقل القرآن حتّٰی أقول لا أمشي علیٰ رِجلَيّ أبداً، فإذا فرغت، قال: اقرأہ فإن کان فیہ سقط أقامہ ثم أخرج بہ إلی الناس۔
’’میں رسول اﷲﷺکے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا۔ جب آپﷺپر وحی نازل ہوتی تو آپﷺ کو سخت گرمی لگتی تھی۔ اور آپﷺکے جسم اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے پھر آپﷺسے یہ کیفیت ختم ہو جاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ہڈی یا کسی اور چیز کا ٹکڑا لے کر خدمت میں حاضر ہوتا ۔ آپﷺ لکھواتے رہتے اور میں لکھتا رہتا۔ یہاں تک کہ جب میں لکھ کر فارغ ہوجاتا تو قرآن کو نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے اور میں کبھی نہیں چل سکوں گا۔ جب میں فارغ ہو جاتا تو آپﷺفرماتے: پڑھو! میں پڑھ کر سناتا۔ اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپؐ اس کی اصلاح فرما دیتے پھر اسے لوگوں کے لئے لے آیا جاتا‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عہدِنبویﷺ میں قرآن کے مکمل شکل میں موجود ہونے پر مزید دلائل دیئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً نبی کریمﷺکے بارے میں لاتعداد روایات موجود ہیں کہ آپ ؐ مختلف نمازوں میں کون کون سی سورتیں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺنے متعدد سورتوں کے فضائل بیان فرمائے۔ مختلف مواقع پر مختلف مقاصد کے لیے قرآن کی مخصوص سورتیں تلاوت کرنے کی ترغیب دی۔ فضائلِ سور ت پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ سب باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ قرآن کا متن عہدنبویﷺمیں مرتب شکل میں مکمل طور پر موجود تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سورتوں میں آیات کی تعداد ، ان کی طوالت اور ان کے نام عہدِ نبویﷺ میں معروف تھے۔ اسی طرح نبی کریمﷺ،جبریل﷤ کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ اور آخری سال آپﷺنے دو مرتبہ دور فرمایا جسے عرضئہ اخیرہ کہا جاتا ہے۔ اگر مفروضے کے طور پر مستشرقین کی بات ایک لمحہ کے لیے مان لی جائے کہ قرآن مکمل حالت میں عہدِ نبویﷺ میں ہی موجود نہیں رہا تھا، تو اس صورت میں جبریل﷤، حضورﷺ کو یا د دلادیتے کہ قرآن کے فلاں فلاں حصے غائب ہوگئے ہیں۔اس حوالے سے Rodwell نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ نبی کریمﷺجو کچھ لکھواتے تھے وہ ایک صندوق کے اندر جمع کرتے جاتے تھے اور آپﷺ کی وفات کے وقت وہ سارا کچھ ایک جگہ اکٹھا موجود تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع القرآن فی عہد النبیﷺکے لئے مزید تفصیلات کے لئے بخاری، کتاب فضائل القرآن ، باب جمع القرآن، باب کاتب النبي ﷺ، باب أنزل القران علیٰ سبعۃ أحرف، باب تألیف القران، باب کان جبریل یعرض القران علی النبي ﷺ، باب القراء من أصحاب رسول اﷲ ﷺ احادیث نمبر 4978تا 5005 کامطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ نزول وحی کے فوراً بعد کتابت قرآن کے بارے میں مزید تفصیلات مسند احمد، ترمذی ، نسائی، ابوداؤد، ابن حبّان، حاکم کی مستدرک کے علاوہ فتح الباری میں موجود ہیں۔ علامہ بدرالدین عینی﷫ نے بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری میں بھی تفصیلات بیان کی ہیں۔طبرانی نے بھی عہدِ نبویﷺ میں قرآن مجید کے مکمل طور پر لکھے جانے اور حافظوں میں محفوظ ہونے پر اپنی اوسط میں ثقہ رجال سے روایت بیان کی ہے۔
اس سلسلے میں حضرت عثمان غنیt سے ایک روایت مروی ہے:
قال عثمان رضی اﷲ عنہ کان رسول اﷲ ﷺ مما یأتي علیہ الزّمان وھو ینزل علیہ السور ذوات العدد فکان إذا نزل علیہ الشيء دعا بعض من کان یکتب فیقول: ’’ضَعُوْا ھٰؤلَائِ الْاٰیَاتِ فِيْ السُّوْرَۃِ الّتِيْ یُذْکَرُ فِیْھَا کَذَا وَکَذَا‘‘۔ فَإِذَا أُنْزِلَتْ عَلَیْہِ الْاٰیَۃُ فَیَقُوْلُ: ’’ضَعُوْا ھٰذِہٖ الْاٰیَۃَ فِيْ سُوْرَۃٍ یُّذْکَرُ فِیْھَا کَذَا وَکَذَا‘‘۔
’’حضرت عثمان﷜ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب بھی ایک یا ایک سے زائد سورتیں نازل ہوتیں تو آپﷺ کسی کاتب کو بلاتے اور فرماتے کہ یہ آیات فلاں سورت میں شامل کر دیں۔ اسی طرح جب کوئی آیت نازل ہوتی تو اس کے بارے میں بھی فرماتے کہ اسے فلاں سورت میں شامل کر دیں۔‘‘
مسند احمد حنبل میں عثمان بن ابی العاص﷜ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔
’’أَتَانِيْ جِبْرِیْلُ فَأَمَرَنِيْ أَنْ أَصْنَعَ ھٰذِہٖ الْآیَۃَ ھٰذَا لِمَوْضِعٍ مِنْ ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ ’’ اِنَّ اﷲَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسٰنِ ۔۔۔‘‘ ‘‘۔
’’میرے پاس جبرایل﷤ آئے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آیت کو جو فلاں سورت کی ہے ۔ فلاں مقام پر درج کردوں۔ اور وہ آیت یہ تھی۔ ’’اِنَّ اﷲَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسٰن…‘‘ (النحل: ۹۰)
 
Top