• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن اور اس کی تدوین

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسرا دور:

دوسرا دور: خلافت صدیقی میں : سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے دور میں جمع قرآن کی تفصیلات سیدنا زیدؓ بن ثابت نے دی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:’’جنگ یمامہ کے فوراً بعد ۱۲ھ؁ کو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے ایک روز پیغام بھیج کر مجھے بلوا بھیجا۔ میں ان کے پاس پہنچا تو وہاںسیدنا عمر ؓ بھی موجود تھے۔ ابو بکر صدیق ؓ نے مجھے فرمایا:عمر ؓ نے آ کر مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے ستر حفاظ شہید ہو گئے ہیں او راگر مختلف مقامات پر اسی طرح حفاظ قرآن شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہو جائے۔لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ قرآن کو یک جا کر دینا چاہئے۔ میں نے عمرؓ سے کہا:جو کام نبیﷺ نے نہیں کیا ہم وہ کیسے کریں؟ عمرؓنے جواب دیا: خدا کی قسم!یہ کام کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔اس کے بعد عمرؓ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ میرا بھی شرح صدر ہو گیا اور اب میری بھی رائے وہی ہے جو عمرؓ کی ہے۔ اس کے بعدخلیفہ رسول حضرت ابوبکرؓ نے مجھ سے فرمایا:زید! تم نوجوان ہو اورسمجھ دار بھی۔ ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے۔ تم نے رسول اللہﷺ پر اترنے والی وحی کو لکھا ہے۔ فتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَأَجْمِعْہُتو تم قرآن کو تلاش کر کے اسے جمع کرو۔
کاتب وحی سیدنازیدؓ فرماتے ہیں:خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو ایسا کرنا میرے لئے آسان ہوتا۔ میں نے عرض کی:آپ وہ کام کیسے کرسکتے ہیںجو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا:خدا کی قسم! ایسا کرنا ہی بہتر ہے۔اس کے بعد خلیفہ محترم بار بار مجھے یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس رائے پر کھول دیا جو حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کی تھی۔ چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا او رکھجور کی شاخوں، پتھر کی تختیوں اورلوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کر ڈالا۔جس کے صحیفے سیدنا ابوبکر ؓکے پاس ان کی وفات تک رہے ۔ بعد میں یہی صحیفے ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر ؓکے پاس آگئے۔(صحیح بخاری ،کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ)
خلیفہ رسول ابوبکر ؓکے اس عمل کو صحابہ رسول نے اور تمام امت نے سراہا اور امت پر ایک بڑا احسان سمجھا۔ سیدناعلیؓ بن ابی طالب نے فرمایا:
أَعْظَمُ النَّاسِ فِی الْمَصَاحِفِ أَجْرَأُ أَبِی بَکْرٍ، رَحْمَۃُ اللہِ عَلَی أَبِی بَکْرٍ ہُوَ أَوَّلُ مَنْ جَمَعَ کِتَابَ اللہِ۔ ’’مصاحف کو جمع کرنے میں سب سے زیادہ جری سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ثابت ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو وہ اُمت کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے کتاب اللہ کو جمع کر ڈالا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سیدنا زید کا انتخاب کیوں؟

سیدنا زید کا انتخاب کیوں؟سیدنازید ؓ کو دو خلفاء نے کتابت قرآن او راس کے جمع کرنے کی زحمت کیوں دی؟اس پر ان کی نظر کیوں پڑی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بعض مخصوص خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ غالباً ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ ﷺ سیدنازید ؓ کو ہمسایہ ہونے کی وجہ سے دوسروں پر ترجیح دیتے۔ اس لئے وحی کے بعد آپﷺ انہیں بلوابھیجتے اور زید ؓ وحی لکھ لیا کرتے تھے۔(کتاب المصاحف: ۳)۔نیز مدینہ تشریف آوری کے ساتھ ہی بنونجار کے اس بچے کی تعریف جب اہل محلہ نے آپ ﷺ کے سامنے کی کہ دس سے زیادہ سورتیں یہ بچہ یاد کرچکا ہے تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: زیدـؓ: تم یہود کی تحریر کو میرے لئے سیکھ لو۔ مراد یہ کہ ان کی زبان کو ایسا سیکھو کہ تم خود بولنا، لکھنا اورپڑھنا جان سکو۔ زیدؓ کا اپنا بیان ہے کہ : مَا مَرَّتْ بِیْ خَمْسَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً حَتّٰی حَذَقْتُہُ پندرہ دن نہیں گذرے تھے کہ میں نے اس میں مہارت حاصل کرلی۔ بعد میں عبرانی زبان کے ترجمان بھی یہی تھے اور انہیں جواب لکھنے والے بھی۔ (مسند احمد: ۲۱۱۰۸؛ سنن ابی داؤد: ۳۶۴؛ سنن ترمذی: ۲۸۵۸) ایک اور وجہ علماء نے یہ بیان کی ہے کہ سیدنا زیدؓ بن ثابت کو خود نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم حفظ کرایا تھا۔ اس کے علاوہ نبی اکرم ﷺ نے آخری رمضان میں دو مرتبہ قرآن کی دہرائی کی توسیدنا زیدؓ بھی موجود تھے۔(الفتاوی الکبری ۷؍۲۱۳، ۸؍ ۱۴۷) سیدنا ابوبکر صدیق ؓاور زید ؓبن ثابت کا قرآن مجید کو جمع کرنے پر تأمل بھی قابل غور ہے کہ وہ کسی کام کو شرعی حیثیت دینے میں اور اسے قبول کرنے میں کتنے محتاط تھے۔نیز اللہ تعالیٰ نے ان مبارک ہستیوں کو جمع قرآن کا الہام کرکے حفاظت قرآن کا ذمہ دار بنادیا جس کی ابتداء مشورہ فاروقی سے ہوئی اورتکمیل سیدنا ابوبکر ؓکے ہاتھوں یہ کہہ کرکراڈالی: إِنَّکَ رَجُلٌ شَابٌ، عَاقِلٌ، لَا نَتَّہِمُکَ، وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ اور پھر حضرت زید ؓ کا یہ کہنا: فَوَاللہِ لَوْ کَلَّفُوْنِیْ نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا کَانَ أَثْقَلَ عَلَیَّ مِمَّا أَمَرَنِی بِہِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآن۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جمع قرآن کا طریقہ:

جمع قرآن کا طریقہ: قرآن کو جمع کرنے کے لئے سیدنا زید ؓبن ثابت کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں جلیل القدر صحابہؓ شامل تھے۔ ابتداءً سیدنا ابوبکر ؓنے جمع قرآن کے سلسلے میں ایک اہم ہدایت دی جس پر عمل کے لئے سیدنا عمر فاروق کو سیدناز ید ؓ کے ساتھ بھی لگادیا۔ خلیفہ رسول ابوبکر ؓ نے سیدنا عمرؓ اور زید ؓسے فرمایا:
اُقعُدَا عَلَی بَابِ الْمَسجِدِ، فَمَن جَائَ کُمَا بِشَاہِدَینِ عَلی شَیْءٍ مِنْ کتابِ اللہِ فَاکْتُبَاہُ۔ دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ تو جو تمہارے پاس قرآن کی کسی آیت پر دو گواہ لائے تو اسے لکھ لو۔
(المصاحف از ابن ابی داؤد: ۱۲، فتح الباری ۹؍۱۴)
عبد الرحمنؒ بن حاطب کہتے ہیں:
قَدِمَ عُمَرُ فَقَالَ: مَنْ تَلَقَّی مِن رَّسُولِ اللہِ ﷺ شَیئًا مِنَ القُرآنِ فَلْیَأتِ بِہٖ، وَکَانُوا یَکْتُبُونَ ذَلِکَ فِی المُصْحَفِ وَاَلألوَاحِ وَالعُسُبِ، وَکاَنَ لَا یَقبَلُ مِن أحدٍ شَیئًا حَتّٰی یَشْہَدَ شَاہِدَانِ۔ سیدنا عمر تشریف لائے اور فرمایا: جس نے رسول اللہ ﷺ سے قرآن کا کوئی حصہ حاصل کیا ہو تو وہ اسے لے آئے۔ صحابہ قرآن مجید کو صحیفوں، تختیوں اور کھجور کی چھالوں پر لکھا کرتے تھے۔ آپ یہ تحریر دو گواہوں کے پیش کردینے کے بعدقبول کرتے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جمع قرآن کے لئے سب سے پہلے تو یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی لکھی ہوئی کوئی آیت بھی ہو وہ سیدنا زیدؓ کے پاس لے آئے۔ جب کوئی لکھی ہوئی آیت لے آتا تو وہ چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے۔
۱۔ اپنی یادداشت سے اس کی توثیق کرتے۔
۲۔کمیٹی کے ممبر سیدنا عمر ؓفاروق بھی حافظ قرآن تھے جو اپنے حافظہ سے اس کی توثیق کرتے تھے۔
۳۔ کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی جب تک دو قابل اعتماد گواہ یہ گواہی نہ دے دیں کہ وہ نبی اکرمﷺ کے سامنے لکھی گئی تھی۔
۴۔ بعد میں ان کی لکھی ہوئی آیات کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا جو مختلف صحابہؓ نے تیار کر رکھے تھے۔
۵۔اتفاق سے ایک آیت ایسی تھی جو صرف سیدنا ابو خزیمہ انصاری ؓ کے پاس لکھی ہوئی تھی۔ یہ سورۃ توبہ کی آخری آیت {لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ ۔۔۔تا وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم} (التوبۃ:۱۲۸،۱۲۹) تھی۔دو گواہیاں نہ ہونے کے باوجود اس آیت کو لے لیا گیا۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ یہ آیت لکھی ہوئی نہ ہونے کے باوجود بھی سینکڑوں حفاظ کو یاد تھی اور دوسری یہ کہ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا ابو خزیمہؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا : ان کی گواہی دو کے برابر ہے جس کی ایک خاص وجہ تھی۔
صحیح حدیث میںہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ نے کسی سے اونٹوں کالین دین یعنی سودا کیا۔ آپ ﷺنے یہ سودا تنہا کیا تھا۔ جس شخص سے سودا کیا وہ بعد میں اونٹوں کی طے شدہ قیمت دینے سے مکر گیا۔ پھرآپ ﷺسے پوچھتا ہے کہ آپﷺ کے پاس کیا کوئی گواہ ہیں جو یہ گواہی دے سکیں کہ میں نے اونٹوں کی یہ قیمت کہی تھی۔ ابو خزیمہ ؓ اس وقت موجود تھے انہوں نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ حالانکہ سودا کرتے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ آپﷺ نے انہیں فرمایا: ابو خزیمہ! تم کیسے گواہی دیتے ہو جب کہ تم اس موقع پر تھے ہی نہیں؟ انہوں نے جواب میں عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ عرش کی باتیں ہمیں سچ سچ بتا دیتے ہیں تو اس کے سچا ہونے میں کیا شک؟انہوں نے صرف اس وجہ سے گواہی دے دی کہ اگر نبیﷺ یہ کہہ رہے ہیں تو یقیناً سچ ہے۔ اس وقت آپ ﷺنے ان کی گواہی دو گواہوں کے برابر قرار دی۔
اس کے برعکس بعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابن عباس ؓ آیت {۔۔۔فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ۔۔۔} (النساء:۲۴) کے آگے {۔۔۔إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی۔۔۔} (البقرۃ:۲۸۲) کے الفاظ ہونے کے قسمیہ قائل تھے اور جمع وتدوین قرآن کے وقت شدت سے یہ کہتے رہے کہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ ممکن ہے جن ایام میں متعہ کا جواز تھا یہ قراءت بھی پڑھی گئی ہو۔ لیکن ایسی قراءت بھی رخصت اور نسخ کے ضمن میں آتی ہے مگر کمیٹی نے دو وجوہ کی بناء پر ان کا موقف قبول نہیں کیا۔ ایک یہ کہ جمع وتدوین میں خبر متواتر کو مشروط قرار دیا گیا تھا۔ اس لئے اس کے راوی صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے کوئی دوسرا نہیں تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلے سے دومکی سورتوں مومنون اور معارج میں یہ محکم آیات موجود تھیں:{وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۝۵ۙ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۝۶ۚ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۝۷ۚ}
یعنی حفاظت فروج کے دو ہی ذریعے ہیںپہلا ذریعہ بیوی کا اور دوسرا لونڈی کا، ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حد سے تجاوز کرنا ہے اور متعہ والی عورت نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جمع کردہ نسخہ کا نام اور خصوصیات:

جمع کردہ نسخہ کا نام اور خصوصیات: اس کمیٹی نے انتہائی احتیاط اورسخت محنت کے بعد قرآن کو ایک سال کی مدت میں جمع کردیا،جسے تمام صحابہ کرام نے اتفاقاً قبول کیا اور یوں امت بھی اس پرجمع ہوگئی ۔ اس نسخہ کی خصوصیات حسب ذیل تھیں:
۱۔ نسخہ میں قرآنی آیات کی ترتیب آپ ﷺکی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق تھی لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں بلکہ ہر سورت الگ اور علیحدہ صحیفہ میں تھی جن کی ترتیب عہد عثمان ؓ میں ہوئی۔ اس نسخہ کا نام مصحف اُم رکھا گیا۔
۲۔ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے۔
۳۔ یہ نسخہ خط حیری میں لکھا گیا تھا۔
۴۔ اس میں صرف وہ آیات لکھی گئیں جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس میں آیۃ الرجم نہیں لکھی گئی کیونکہ اس کی تلاوت منسوخ تھی مگر حکم باقی تھا۔
۵۔ یہ امت کے لئے ایک ایسا متفقہ مرتب نسخہ تھا جواسے انتشار سے بچا گیا۔اسی لئے سیدنا ز یدؓ نے تمام گواہوں کی موجودگی میں اس کا اعلان کیا۔ جس کے صحیح ہونے کی سب نے بلا اعتراض گواہی دی۔
سیدنا زیدرضی اللہ عنہ نے تکمیل مصحف کے بعد اسے خلیفہ رسول ابو بکر صدیق ؓکے سپرد کردیا جو ان کے پاس وفات تک رہا۔پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آگیا ان کی وفات کے بعد یہ مصحف ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ کے پاس اس وقت تک رہا جب عثمان ؓ نے ان سے طلب کر کے منتخب کمیٹی کے ذریعے نئے نسخے تیار کروا ئے اور اسے واپس لوٹا دیا جو ان کی وفات کے بعد سیدناابن عمرؓ کے ذریعے مروان بن الحکم کے پاس آیا تو مروان نے یہ سوچ کر کہ مبادا اس میں کوئی ایسی بات ہوجونسخہ عثمان ؓسے مختلف ہو اسے ضائع کر دیا۔
٭… سیدنا عمرؓ کے دور میں تدوین قرآن کی بجائے اشاعت قرآن پرزیادہ کام ہوا۔ آپؓ نے ہر جگہ تعلیم قرآن کو لازمی قراردے دیا یہاں تک کہ فوجیوں او ردیہاتیوں کو بھی نہ چھوڑا ۔ قرآن کی ترویج کے لئے آپؓ نے باجماعت تراویح کا اہتمام کیا اور ابی بن کعب وتمیم الداری ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو باجماعت گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔(موطا امام مالک : صحیح)۔ آپؓ نے ہر جگہ یہ احکام بھیجے کہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ صحت الفاظ اوراعراب کی تعلیم پر بھی توجہ دی جائے۔سیدنا عمر فاروق ؓ کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کریم ہر طرف پھیل گیا اور حفاظ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف سعد بن ابی وقاصؓ کے لشکر میں ۳۰۰ حفاظ موجود تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:آج مسلمانوں میں جو بھی قرآن پڑھتا ہے فاروق اعظم ؓ کا احسان اس کی گردن پر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تیسرا دور: خلافت عثمانی میں جمع قرآن : سیدنا عثمان ؓ کے دور خلافت میں اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا۔ نئے مسلمان جو عجمی تھے مجاہدین اسلام یا مسلمان تاجروں سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوتی۔ قرآن سبعہ حروف میں نازل ہوا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے نبی اکرمﷺ سے مختلف قراء توں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگرد کو اسی طرح پڑھایا جس طرح اس نے خود نبی اکرمﷺ سے سیکھا تھا۔ یوں قرائتوں کا اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا او رلوگوں میں جھگڑے پیدا ہونے لگے۔زیادہ خرابی اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ سوائے ’’مصحف ام‘‘کے پورے عالم اسلام میں کوئی ایسا معیاری نسخہ نہ تھا جو امت کے لئے نمونہ و حجت ہو۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ ذوالنورَین خود بھی اس خطرے کا احساس کر چکے تھے۔کیونکہ انہوں نے مدنی بچوں میں ان کے اساتذہ کی اختلاف قراءت کے اثرات کو بھانپ لیا تھا۔سیدنا عثمان ؓ اپنی تقاریر میں ان سے فرما بھی چکے تھے:
أَنْتُمْ عِنْدِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَتَلْحَنُونَ، فَمَنْ نَّأٰی عَنِّیْ مِنَ الأَمْصَارِ أَشَدُّ اخْتِلاَفاً، وَأَشَدُّ لَحْناً، اجْتَمِعُوْا یا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، وَاکْتُبُوْا لِلنَّاسِ إِمَامًا(المصاحف: ۲۹) تم میرے پاس ہوتے ہوئے بھی اختلاف کرتے ہو اور لحن بھی، تو جو مجھ سے دور علاقوں میں آباد ہیں ان کا اختلاف اور لحن تو اور زیادہ ہوگا۔اے اصحاب محمد ! اتفاق کرلو اور لوگوں کے لئے ایک امام لکھ ڈالو۔
لہٰذا آپؓ نے صحابہؓ کے سامنے یہ رائے رکھی کہ مصحف اُم کو سامنے رکھ کر ایک ایسا مصحف تیار کیا جائے جو صرف قریش کی لغت پر ہو۔پھر اس کی نقول بنوا کر تمام عالم اسلام میں پھیلا دی جائیں۔تمام صحابہؓ نے خلیفہ راشد سیدناعثمانؓ کی اس اجتہادی رائے کی بھر پور تائید کی کہ قرآن صرف قریش کے لہجے میں یا قریش جس طریقے سے پڑھتے ہیں اس میں لکھا اور جمع کیا جائے کیونکہ آپﷺ قریشی تھے ، آپ ﷺ افصح العرب تھے، اور قریش ہی کی زبان و لہجے میں قرآن اترا تھا۔
(کتاب المصاحف: لابن ابی داؤد: ۲۲)
اس صورتحال میں سیدنا عثمان ؓ نے سن پچیس ہجری میںوہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس کی تفصیل سیدنا انس ؓکی روایت سے صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے :
سیدنا حذیفہؓسیدنا عثمان ؓکے پاس تشریف لائے۔ وہ اہل شام وعراق کے ساتھ آرمینیہ اور آذربیجان کو فتح کرنے کے لئے جہاد کر رہے تھے۔یہاں عراقیوں کے قراءت قرآن میںاختلاف کو دیکھ کر سیدنا حذیفہ سہم سے گئے۔ انہوں نے سیدنا عثمان ؓسے عرض کی: اس امت کا علاج کیجئے اس سے پہلے کہ ان کا اپنی مقدس کتاب میں ویسا ہی اختلاف ہو جیسا یہود ونصاری کے یہاں ہوچکا ہے۔ سیدناعثمان ؓنے سیدہ حفصہؓ ام المؤمنین سے مصحف منگوایا تاکہ اس کی نقول تیار کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے اسے سیدنا عثمانؓ کے پاس بھیج دیا۔پھر امیر المؤمنین نے زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، سعید بن ابی العاصؓ اور عبد الرحمن بن حارث ؓبن ہشام کو قرآن لکھنے کا حکم دیا۔جو انہوں نے اسے مختلف صحیفوں میں لکھ ڈالا۔ اس موقع پرسیدنا عثمان ؓنے تینوں قریشیوں سے فرمایا : جب تم اور زید کتابت کے دوران کسی بھی شے میں اختلاف کرو تو پھر قرآن کو قریشی زبان میں لکھنا اس لئے کہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ سو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حتی کہ جب چند مصاحف لکھ لئے گئے تو سیدنا عثمانؓ نے اصل نسخہ ام المؤمنین کو واپس لوٹا دیا اور ہرصوبہ میں ان لکھے ہوئے مصاحف کی ایک ایک نقل بھجوا دی۔ ساتھ ہی یہ حکم جاری کیاکہ اس قرآن کے سوا اب ہر صحیفہ یا مصحف جلا دیا جائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چار رکنی کمیٹی کا قیام :

چار رکنی کمیٹی کا قیام : خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ذو النورینؓ نے ام المؤمنین سیدہ حفصہؓ سے مصحف اُم منگوایا اورصحابہ رسول سے ہی پوچھا: مَنْ أَکْتَبُ النَّاسِ؟ کون سب سے بہتر کاتب ہے۔ انہوں نے کہا: کاتب رسول اللہ ﷺ زیدؓ بن ثابت۔ انہوں نے فرمایا: فَأَیُّ النَّاسِ أَعْرَبُ؟ وَفِی رِوَایَۃٍ : أَفْصَحُ؟ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح عرب کون ہے؟ انہوں نے کہا: سعید ؓبن العاص۔ سیدنا عثمان ؓنے فرمایا: فَلْیُمْلِلْ سَعِیْدٌ وَلْیَکْتُبْ زَیْدٌ۔ تو سعید املاء کرائیں اور زید لکھیں۔ سیدنا زید بن ثابتؓ کی سرکردگی میںایک چاررکنی کمیٹی بنائی جس میںسیدنا زیدؓ کے علاوہ سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ، سعید بن العاصؓ اور عبد الرحمن بن حارثؓ شامل تھے۔یہ حضرات صحیح قریشی لہجہ میں قراءت کے انتہائی راسخ حافظ و ضابط تھے۔ تینوں قریشی صحابہ کو کتابت قرآن کی ذمہ داری سپرد کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا اخْتَلَفْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِی شَیْءٍ مِنَ الْقُرآنِ فَاکْتُبُوْہُ بِلِسِانِ قُریْشٍ فَإنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِہِمْ فَفَعَلُوا (صحیح بخاری:۴۹۸۷، سنن الترمذی: ۳۱۰۴) ’’ جب تمہارے اورزید کے مابین کچھ اختلاف ہو تو پھر اس قرآن کو قریش کی زبان میں لکھو اس لئے قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘
انہیں یہ بھی بتایا کہ جب کسی آیت میں ایک سے زائد قراء ت تواتر سے ثابت ہوتی ہوں تو اس آیت کو کسی علامت کے بغیر لکھا جائے تاکہ اس سے ایک قراء ت نہ ہوسکے بلکہ اسے ایک ایسے رسم میں لکھا جائے جس سے ایک سے زائد قراء ت ممکن ہو سکیں۔ جیسے: {فتبینوا} کو { فتثبتوا} بھی پڑھا گیااور{ننشزہا} کو {ننشرہا} بھی پڑھا گیا۔
اسی طرح اگر کوئی لفظ مختلف قراء ت میں نہ پڑھا جاسکے تو اسے بعض مصاحف میں ایسے رسم الخط سے لکھ دیا جائے جس سے صرف ایک ہی قراءت ہوسکے اور کچھ مصاحف میں ایسے رسم سے کہ اس سے ایک اور قراء ت بھی معلوم ہوتی ہو۔ جیسے:{وَوَصّٰی بِہَآ إِبْرَاہِیْمُ۔۔۔} (البقرۃ:۱۳۲) کو بعض مصاحف میں{أوصی} لکھا گیا۔ {وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۔۔۔} (آل عمران:۱۳۳) کو کچھ مصاحف میں سین سے قبل واؤ کے ساتھ لکھا گیا اور بعض میں بغیر واؤ کے۔
اس جماعت کے ذمے یہ کام بھی لگایا گیا کہ وہمصحف ام سے نقل کر کے کئی ایسے صحیفے تیار کرے جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ ابتداء میں یہ کام انہی لوگوں کے سپرد تھا لیکن بعد میں یہ تعدادبڑھا کر بارہ کر دی گئی۔ ان حضرات نے کتابت قرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل کام سر انجام دئیے:
٭… انہوں نے تمام سورتوں کو ترتیب وار ایک ہی مصحف میں لکھا ۔(مستدرک ، از امام الحاکم )
٭… ان حضرات نے نہ صرف مصحف ام کو سامنے رکھا بلکہ نقول تیار کرتے وقت اس کی کتابت وخط کا خصوصی خیال کیا۔ جہاں پر بھی تھوڑا سا اختلاف سیدنازید اور کمیٹی کے مابین ہوا وہیں پر قریشی لہجہ اور قریشی لغت کو بنیاد بنا کر اس کی تصحیح کردی گئی۔ کیوںکہ اس مصحف کو لکھوانے کی اصل غرض ہی یہ تھی کہ مسلمانوں کو ایک ہی لہجہ اور لغت پر اکٹھا کردیا جائے۔چنانچہ اس لکھے ہوئے قرآن کو کسی صحابی نے بھی پڑھا تو اس نے اس کے رسم ولغت سے اختلاف نہیں کیابلکہ اسے ہی صحیح اور محقق قرآن قرار دیا۔
٭… اس کے خط میں اس بات کی رعایت رکھی گئی کہ وہ ساتوں حروف اس میں سما جائیں جو عرضہ اخیرہ میں موجود تھیں۔ اور قراء ت کی مختلف صورتیں بھی جائز قرار دی جاسکیں۔
٭… اختلاف قراء ت میں صرف اس صورت پر اکتفاء کیا گیا جو متواتر تھی۔ باقی منفرد قراءت کو اہمیت نہیں دی گئی اس لئے کہ وہ متواتر نہیں تھیں۔ مثلاً: {۔۔۔ وَكَانَ وَرَاۗءَہُمْ مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَۃٍ غَصْبًا۝۷۹} (الکہف:۷۹) میں لفظ صالحۃ متواتر نہیں ہے بلکہ منفرد تھی اس لئے انہوں نے اسے اہمیت نہ دی۔
٭… ذاتی مصاحف میں صحابہ رسول کے اپنے وضاحتی بیانات یا الفاظ کی تشریح کوبھی غیر اہم قرار دیا گیا۔
٭… وہ الفاظ وآیات جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی کمیٹی نے اسے بھی نظرانداز کیا اس لئے کہ عرضہ اخیرہ میں یہ شامل نہیں تھیں ۔یہ وہی کچھ تھا جو سیدنازید ؓنے دور صدیقی میں لکھا تھا۔
٭…انہوں نے مصحف امّ کی ایک سے زائد نقول تیار کیں جن کی تعداد ، روایات میںپانچ بھی ملتی ہے اور سات بھی۔ (فتح الباری:۹؍۱۷)
٭… یہ معیاری نسخے تیار کروانے کے بعدسیدنا عثمان ؓ نے وہ تمام انفرادی نسخے نذر آتش کر دیے جو مختلف صحابہ مثلًا : ابی بن کعبؓ، علیؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓوغیرہ کے پاس تھے تا کہ تمام مسلمان ایک ہی نسخے پر جمع ہوںاور اختلاف کی گنجائش نہ رہے پھر ان نسخوں کو مدینہ کے علاوہ مکہ، شام، یمن، کوفہ و بصرہ، بحرین وغیرہ بھجوا دیاگیا۔
٭…کمیٹی نے قرآنی نسخوں کو مرتب کرتے وقت کلمات و حروف کے لکھنے کا جو خا ص طرز وانداز اختیار کیاعلماء نے اس کا نام رسم مصحف لکھا۔ اوراس پسندیدہ رسم الخط کو حضرت عثمانؓ کی جانب منسوب کرکے رسم عثمانی یا خط عثمانی نام دے دیا۔
سیدنا علی ؓ اس مشورہ کے بارے میں فرمایا کرتے:
لوگو! عثمان کے بارے میں غلوسے کام نہ لو۔ بلکہ ان کے حق میں خیر کہو۔ بخدا انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ کیا ہم صحابہ سے مشورے سے ہی کیا۔انہوں نے ہمیں کہا: تم اس قراء ت کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ کیوںکہ کچھ مسلمان ایک دوسرے سے یوں کہنے لگے ہیں: میری قراء ت تمہاری قراء ت سے زیادہ بہتر ہے۔یہ کہیں کفر نہ ہو۔ ہم نے عرض کی: امیر المؤمنین! آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک ہی مصحف پر جمع کردیں۔ جس سے تفریق ہو نہ اختلاف۔ ہم سب نے کہا: بہت ہی بہترین رائے ہے آپ کی سیدنا علی ؓفرماتے: بخدا اگر میں مسلمانوں کا والی بنتا تو میں بھی وہی کرتا جو عثمان ؓنے کیا۔‘‘
سیدنامصعب بن سعد ؓ فرماتے ہیں:
أَدْرَکْتُ النَّاسَ مُتَوَافِرِیْنَ حِیْنَ حَرَقَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ فَأَعْجَبَہُمْ ذَلِکَ ، أو قَالَ: لَمْ یُنْکِرْ ذَلِکَ مِنْہُمْ أَحَدٌ، وَہُوَ مِنْ حَسَنَاتٍ أَمِیرِ الْمُؤمِنینَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ الَّتِیْ وَافَقَہُ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَیْہَا، وَکَانَتْ مُکَمِّلَۃً ِلجَمْعِ خَلِیْفَۃِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللہ عنہ۔ (کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ۱۲)’’ میں نے بکثرت لوگوں کو پایا کہ امیر المؤمنینحضرت عثمان ؓنے جب قرآنی نسخوں کو جلایا تو انہیں یہ کام بڑا اچھا لگا یا انہوں نے فرمایا: کسی نے اس کام کو ناپسند نہیں کیا،یہ عمل حضرتعثمان ؓکی حسنات یعنی نیکیوں میں سے ہے جس کے تمام مسلمان موافق تھے اور خلیفہ رسول حضرت ابوبکرؓکے جمع قرآن کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا یہ عمل تھا۔
سیدنا عثمان ؓکا یہ کام جمع ثانی کہلاتاہے۔ جمع اول کا کام توعہد نبوی ﷺ و صدیقی ؓمیں ہو چکا تھا۔ عہد عثمانی میں بس اتنا کام ہوا کہ قراء ت میں جو اختلاف پیدا ہواتھااسے ایک مخصوص انداز تحریر سے ختم کردیا گیا اور ایک ہی لغت پر قرآن کو لکھ کر امت کو اس پر جمع کر دیا گیا۔ اس بناء پر سیدنا عثمان ؓکو جامع القرآن کہتے ہیں۔ آج بھی تاشقند اور استنبول میں رکھے مصحف عثمانی کے نسخوں اور ان کے رسم الخط کو دیکھا جا سکتا ہے جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔سیدنا عثمانؓ کی اس مخلصانہ کوشش کے یہ عظیم الشان نتائج ہیں کہ امت آج بھی قرآن مجید پرمتفق ہے اور مجتمع بھی۔اسی باہمی الفت ومحبت نے امت کو بڑے اختلاف سے بچالیا ہے ۔
تابعین کرام اور ان کے بعد لوگوں نے قرآن کریم کو حفظ کیا۔صحابہ رسول نے دنیا بھر میں پھیل کر جہاں لوگوں کو امور دین سے آگاہ کیا وہاں قرآنی تعلیم کے حلقے بھی قائم کئے ان علاقوں کی مساجد میں باقاعدہ تدریس شروع کردی۔بہت سے لوگ ان کے پاس محض اسے سیکھنے آئے۔بعض مدارس کو بہت شہرت بھی ملی۔جن میں بہت سے تابعین دور دراز کے علاقوں سے محض سیکھنے آئے۔جیسے کوفہ میں مدرسہ ابن مسعود، مدینہ منورہ میں مدرسہ ابی بن کعب، اور مکہ مکرمہ میں مدرسہ ابن عباس رضی اللہ عنہم۔
ان مدارس کے علاوہ دیگر علاقوں میں صحابہ کی کوششیں جاری رہیں وہ قرآن کریم کی قراء ت، اس کی تحفیظ، تفسیر اور احکام کی تفاصیل بیان کرتے اور سکھاتے ۔قراء ت کی مختلف وجوہ سیکھنے کے سبب بہت سے حفاظ ایسے بھی تیار ہوگئے جنہیں قراء ت اور روایت میں شہرت نصیب ہوئی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چوتھا دور:

چوتھا دور: صوتی وطباعتی جمع : تحریری جمع کے ساتھ قرآن کریم کوتجوید وقرا ئت میں بھی جمع کیا گیا۔ تلاوت کے بعض احکام جن میں قلقلہ، رَوم، إشمام، إخفاء، إدغام، إقلاب اور إظہار وغیرہ کی پابندی تلاوت کرنے والے کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے قرآن پاک کی تحریر میں ان احکام کا لکھنا تو ممکن تھا مگر اس کی صحیح ادائیگی کیا ممکن تھی؟ علماء نے اسے ناممکن قرار دیتے ہوئے اسے متقن حفاظ مشایخ سے براہ راست سیکھنے اورحاصل کرنے کا کہا ہے اور لکھا ہے۔
مشہور ائمہ حفاظ قرآن اپنے حفظ کی تلقی (to aquire knowledge from scholar)کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ مثلاً: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: واللہ! میں نے رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے ستر سے اوپر سورتیں حاصل کی ہیں۔اور یہ بھی بیان کرتے ہیں : میں باقی سورتیں کس سے حاصل کیں۔ أَخَذْتُ بَقِیَّۃَ الْقُرْآنِ عَنْ أَصْحَابِہٖ۔ باقی قرآن پاک میں نے آپ ﷺ کے اصحاب سے لیا۔اس تلقی کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟ اس کا ادراک انہیں اس حد تک تھا کہ جب انہیں کسی سورت کے بارے میں پوچھا جاتاتو صاف فرمادیتے میں نے یہ سورت نبی کریم ﷺ سے نہیں سنی۔ اور اس صحابی کا بتادیتے جنہوں نے آپ ﷺ سے وہ سورت سنی ہوتی۔ معدیکرب کہتے ہیں:ہم عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عر ض کی کہ ہمیں طسم دوسو آیتوں والی(یعنی الشعراء، آیات ۲۲۷) پڑھ کر سنائیں۔ تو فرمانے لگے: یہ سورۃ میرے پاس نہیں ہے یعنی رسول اللہ ﷺسے سنی ہوئی نہیں۔ مگر تم اسی شخص کے پاس جاؤ جس نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اور وہ خباب ابن الارت رضی اللہ عنہ ہیں۔تو ہم ان کے پاس آئے انہوں نے ہمیں یہ سورت پڑھ کر سنائی۔(مسند امام احمد: ۳۹۸۰)
بالمشافہہ استاذ سے قرآن کا سننا کوئی بدعت نہیں بلکہ یہ سنت رسول ہے آپ ﷺ نے براہ راست جبریل امین سے سنابلکہ ہر سال ان سے سنا بھی اور سنایا بھی۔ آخری سال دو مرتبہ سناسنایا۔روزانہ کی تین جہری نمازوں میں بھی آپ اسے اونچی آواز سے پڑھتے،اسی طرح نماز جمعہ، نماز استسقاء، نماز خسوف وکسوف، نماز تراویح، نماز عیدین، وغیرہ میں بھی آپ جہراً پڑھ کر سناتے جس میں یہ سبق بھی ہوتا کہ صحیح تلاوت کیا ہوتی ہے اور پھر جب خود اکیلی یا سری نماز پڑھنی پڑے تو اس تلاوت کو کیسے کرنا ہے؟
فارغ التحصیل قراء طلبہ کوآپ ﷺ نومسلم کی تعلیم کے لئے مقرر فرماتے، انہیں ایسا کرنے کے لئے لکھتے بھی۔خلفاء راشدین نے مفتوحہ علاقوں میںبھی یہی سنت جاری رکھی۔سیدنا عثمانؓ نے مکتوب مصاحف کو جن سات علاقوں میں بھیجا ان کے ساتھ ایک مقرئ بھی روانہ فرمایا۔یہ سب قراء ت قرآن کی تلقی کا اہتمام تھا جو بالمشافہہ سیکھنے سکھانے کا تھا۔
الحمد للہ آج بھی حفظ قرآن اور اس کی قراء ات کی مختلف وجوہ سیکھنے کا سلسلہ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مدارس خواہ عمارات میں ہوں یا گھروں ودکانوں میں مسلمانوں کے شوق کو کم نہیں کیا جاسکا۔باوجود مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کے اور معیشت ومعاش کی تنگی کے ، نیز تہذیبی ، تمدنی، حکومتی، نشریاتی دباؤ کے پھر بھی لاکھوں مسلمان نوجوان بچے بچیاں حفظ قرآن سے سرفراز ہوتے ہیں۔انٹر نیٹ میں موجود مختلف ویب سائٹس نے قراء ات کی مختلف خوب صورت آوازوں کو محفوظ کرلیا ہے۔ اس طرح دنیا کے تقریباً ہر کونے میں حفاظ ومجود حضرات کی تراویح کی براہ راست ریکارڈنگ نے تنوع کی مثالیں قائم کردی ہیں۔ اب جہاں مقری نہیں وہاں اس کی آواز وانداز دونوں اپنا کام دکھا رہے ہیں۔مگر کیا اسے از خود سیکھنا ممکن ہے؟ اس بارے علماء نے یہ لکھا ہے۔: مِنْ أَعْظَمِ البَلِیَّۃِ تَشْیِیْخُ الصَّحیِفَۃِ۔ بڑی مصیبت صحیفہ کو اپنا شیخ بنانا ہے۔ امام شافعی فرمایا کرتے: مَنْ تَفَقَّہَ مِنْ بُطُونِ الْکُتُبٍ ضَیَّعَ الْأَحْکَامَ۔ جو کتابوں سے فقیہ بنتا ہے وہ بہت سے احکام کھو بیٹھتا ہے۔(الفقیہ والمتفقہ: ۲؍۹۷)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآنی رسم کی تحسین کے مراحل :

قرآنی رسم کی تحسین کے مراحل : اس جدید رسم خط کو رسم عثمانی اوررسم مصحف بھی نام دیا گیا۔جس میں دو خاص باتیں تھیں:
۱۔ اس کی املائی تحریر ایسی تھی کہ جس میںکچھ حروف اور کلمات کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے جیسے: مائۃ میں ہمزہ کا استعمال۔ اور الزکوۃ، الصلوۃ، الحیوۃ میں واؤ اور یاء کا استعمال۔ اسی طرح بعض الفاظ میں حروف کا حذف جیسے: قال کو قٰل لکھنا یا کتابت میں بعض حروف کا اضافہ جیسے: والسماء بنینہا بأیید میں مکرر یاء۔ وغیرہ۔یہی وہ املائی صورت تھی جسے سیدناعثمانؓ نے کمیٹی کے تین قریشی ارکان کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی تھی۔اس کا اثر کمیٹی کے ارکان پر ہوا جب انہوں نے التابوت لفظ کو لکھنا چاہا تو ان میں اختلاف ہوا کہ اسے التابوۃ لکھیں یا التابوت؟ سیدنا زیدؓ نے فرمایا: اسے التابوۃ تاء مربوطہ کے ساتھ لکھنا چاہئے مگر دوسروں نے کہا نہیں اسے التابوت تاء مبسوطہ کے ساتھ لکھنا چاہئے۔ چنانچہ وہ سیدنا عثمانؓ کے پاس گئے انہوں نے فرمایا اسے التابوت۔۔ تاء مبسوطہ کے ساتھ لکھو اس لئے کہ قرآن قریش کی زبان میں اترا ہے۔
۲۔ دوسری اہم بات ان مصاحف کے بارے میں یہ تھی کہ ان کی شکل یعنی اعرابی کیفیت واضح نہیں تھی اور نہ ہی نقطے تھے جو حروف معجمہ یعنی(زاء، ذال، غین، جیم یا خاء وغیرہ )کو مہملہ یعنی( راء، دال، اور حاء وغیرہ) سے ممتاز کرسکیں۔ اس لئے کہ صحیح نطق میں اس وقت قرآن پاک کو پڑھنا تھا۔اب اس کی دو صورتیں تھیں:
أ۔ اصل عربی لہجے میں حروف کی ادائیگی کی جائے تاکہ زبان اپنی اصل حالت (Original Method)پرقائم رہے۔
ب۔ بالمشافہہ(Orally) اسے سن کر اور سمجھ کر اپنا یا جائے۔ جس سے کتابت مزید واضح ہوجائے اور لبس (Obscurity) سے محفوظ رہے۔ یوں قراء ت کا اختلاف ازخود ختم ہوگیا۔ اور صحیح وسلیم(sound) قراء ت مسلمانوں میں رائج ہوگئی جس نے ان پندرہ سوسالوں میں کتابت اور قراء ت کے اختلاف کی کسی صورت کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔
قرآن مجید کے جمع ہونے کے بعد بتدریج اس کے رسم الخط میں حسن و نظافت بھی آتی گئی۔ اسی طرح قرآن مجید کے الفاظ کی تشکیل(Vocalization) یعنی نقطے و اعراب غیر عربوں کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوئے۔چنانچہ ان کوششوں میں یقیناً فضیلت ان حضرات کو حاصل ہے جو اس کام میں شامل ہوئے مگر پہل کس نے کی؟ یہ طے کرنا مشکل نظر آتا ہے۔نقطے اور اعراب کے علاوہ، قرآن کے اجزاء بھی مقرر ہوئے اور بعد میں منازل، اخماس واعشار اور رکوع وغیرہ کے سلسلے میں بھی کام ہوا جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چوتھا دور:

چوتھا دور: صوتی وطباعتی جمع : تحریری جمع کے ساتھ قرآن کریم کوتجوید وقرا ئت میں بھی جمع کیا گیا۔ تلاوت کے بعض احکام جن میں قلقلہ، رَوم، إشمام، إخفاء، إدغام، إقلاب اور إظہار وغیرہ کی پابندی تلاوت کرنے والے کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے قرآن پاک کی تحریر میں ان احکام کا لکھنا تو ممکن تھا مگر اس کی صحیح ادائیگی کیا ممکن تھی؟ علماء نے اسے ناممکن قرار دیتے ہوئے اسے متقن حفاظ مشایخ سے براہ راست سیکھنے اورحاصل کرنے کا کہا ہے اور لکھا ہے۔
مشہور ائمہ حفاظ قرآن اپنے حفظ کی تلقی (to aquire knowledge from scholar)کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ مثلاً: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: واللہ! میں نے رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے ستر سے اوپر سورتیں حاصل کی ہیں۔اور یہ بھی بیان کرتے ہیں : میں باقی سورتیں کس سے حاصل کیں۔ أَخَذْتُ بَقِیَّۃَ الْقُرْآنِ عَنْ أَصْحَابِہٖ۔ باقی قرآن پاک میں نے آپ ﷺ کے اصحاب سے لیا۔اس تلقی کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟ اس کا ادراک انہیں اس حد تک تھا کہ جب انہیں کسی سورت کے بارے میں پوچھا جاتاتو صاف فرمادیتے میں نے یہ سورت نبی کریم ﷺ سے نہیں سنی۔ اور اس صحابی کا بتادیتے جنہوں نے آپ ﷺ سے وہ سورت سنی ہوتی۔ معدیکرب کہتے ہیں:ہم عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عر ض کی کہ ہمیں طسم دوسو آیتوں والی(یعنی الشعراء، آیات ۲۲۷) پڑھ کر سنائیں۔ تو فرمانے لگے: یہ سورۃ میرے پاس نہیں ہے یعنی رسول اللہ ﷺسے سنی ہوئی نہیں۔ مگر تم اسی شخص کے پاس جاؤ جس نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اور وہ خباب ابن الارت رضی اللہ عنہ ہیں۔تو ہم ان کے پاس آئے انہوں نے ہمیں یہ سورت پڑھ کر سنائی۔(مسند امام احمد: ۳۹۸۰)
بالمشافہہ استاذ سے قرآن کا سننا کوئی بدعت نہیں بلکہ یہ سنت رسول ہے آپ ﷺ نے براہ راست جبریل امین سے سنابلکہ ہر سال ان سے سنا بھی اور سنایا بھی۔ آخری سال دو مرتبہ سناسنایا۔روزانہ کی تین جہری نمازوں میں بھی آپ اسے اونچی آواز سے پڑھتے،اسی طرح نماز جمعہ، نماز استسقاء، نماز خسوف وکسوف، نماز تراویح، نماز عیدین، وغیرہ میں بھی آپ جہراً پڑھ کر سناتے جس میں یہ سبق بھی ہوتا کہ صحیح تلاوت کیا ہوتی ہے اور پھر جب خود اکیلی یا سری نماز پڑھنی پڑے تو اس تلاوت کو کیسے کرنا ہے؟
فارغ التحصیل قراء طلبہ کوآپ ﷺ نومسلم کی تعلیم کے لئے مقرر فرماتے، انہیں ایسا کرنے کے لئے لکھتے بھی۔خلفاء راشدین نے مفتوحہ علاقوں میںبھی یہی سنت جاری رکھی۔سیدنا عثمانؓ نے مکتوب مصاحف کو جن سات علاقوں میں بھیجا ان کے ساتھ ایک مقرئ بھی روانہ فرمایا۔یہ سب قراء ت قرآن کی تلقی کا اہتمام تھا جو بالمشافہہ سیکھنے سکھانے کا تھا۔
الحمد للہ آج بھی حفظ قرآن اور اس کی قراء ات کی مختلف وجوہ سیکھنے کا سلسلہ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مدارس خواہ عمارات میں ہوں یا گھروں ودکانوں میں مسلمانوں کے شوق کو کم نہیں کیا جاسکا۔باوجود مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کے اور معیشت ومعاش کی تنگی کے ، نیز تہذیبی ، تمدنی، حکومتی، نشریاتی دباؤ کے پھر بھی لاکھوں مسلمان نوجوان بچے بچیاں حفظ قرآن سے سرفراز ہوتے ہیں۔انٹر نیٹ میں موجود مختلف ویب سائٹس نے قراء ات کی مختلف خوب صورت آوازوں کو محفوظ کرلیا ہے۔ اس طرح دنیا کے تقریباً ہر کونے میں حفاظ ومجود حضرات کی تراویح کی براہ راست ریکارڈنگ نے تنوع کی مثالیں قائم کردی ہیں۔ اب جہاں مقری نہیں وہاں اس کی آواز وانداز دونوں اپنا کام دکھا رہے ہیں۔مگر کیا اسے از خود سیکھنا ممکن ہے؟ اس بارے علماء نے یہ لکھا ہے۔: مِنْ أَعْظَمِ البَلِیَّۃِ تَشْیِیْخُ الصَّحیِفَۃِ۔ بڑی مصیبت صحیفہ کو اپنا شیخ بنانا ہے۔ امام شافعی فرمایا کرتے: مَنْ تَفَقَّہَ مِنْ بُطُونِ الْکُتُبٍ ضَیَّعَ الْأَحْکَامَ۔ جو کتابوں سے فقیہ بنتا ہے وہ بہت سے احکام کھو بیٹھتا ہے۔(الفقیہ والمتفقہ: ۲؍۹۷)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآنی رسم کی تحسین کے مراحل :

قرآنی رسم کی تحسین کے مراحل : اس جدید رسم خط کو رسم عثمانی اوررسم مصحف بھی نام دیا گیا۔جس میں دو خاص باتیں تھیں:
۱۔ اس کی املائی تحریر ایسی تھی کہ جس میںکچھ حروف اور کلمات کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے جیسے: مائۃ میںہمزہ کا استعمال۔ اور الزکوۃ، الصلوۃ، الحیوۃ میں واؤ اور یاء کا استعمال۔ اسی طرح بعض الفاظ میں حروف کا حذف جیسے: قال کو قٰل لکھنا یا کتابت میں بعض حروف کا اضافہ جیسے: والسماء بنینہا بأیید میں مکرر یاء۔ وغیرہ۔یہی وہ املائی صورت تھی جسے سیدناعثمانؓ نے کمیٹی کے تین قریشی ارکان کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی تھی۔اس کا اثر کمیٹی کے ارکان پر ہوا جب انہوں نے التابوت لفظ کو لکھنا چاہا تو ان میں اختلاف ہوا کہ اسے التابوۃ لکھیں یا التابوت؟ سیدنا زیدؓ نے فرمایا: اسے التابوۃ تاء مربوطہ کے ساتھ لکھنا چاہئے مگر دوسروں نے کہا نہیں اسے التابوت تاء مبسوطہ کے ساتھ لکھنا چاہئے۔ چنانچہ وہ سیدنا عثمانؓ کے پاس گئے انہوں نے فرمایا اسے التابوت۔۔ تاء مبسوطہ کے ساتھ لکھو اس لئے کہ قرآن قریش کی زبان میں اترا ہے۔
۲۔ دوسری اہم بات ان مصاحف کے بارے میں یہ تھی کہ ان کی شکل یعنی اعرابی کیفیت واضح نہیں تھی اور نہ ہی نقطے تھے جو حروف معجمہ یعنی(زاء، ذال، غین، جیم یا خاء وغیرہ )کو مہملہ یعنی( راء، دال، اور حاء وغیرہ) سے ممتاز کرسکیں۔ اس لئے کہ صحیح نطق میں اس وقت قرآن پاک کو پڑھنا تھا۔اب اس کی دو صورتیں تھیں:
أ۔ اصل عربی لہجے میں حروف کی ادائیگی کی جائے تاکہ زبان اپنی اصل حالت (Original Method)پرقائم رہے۔
ب۔ بالمشافہہ(Orally) اسے سن کر اور سمجھ کر اپنا یا جائے۔ جس سے کتابت مزید واضح ہوجائے اور لبس (Obscurity) سے محفوظ رہے۔ یوں قراء ت کا اختلاف ازخود ختم ہوگیا۔ اور صحیح وسلیم(sound) قراء ت مسلمانوں میں رائج ہوگئی جس نے ان پندرہ سوسالوں میں کتابت اور قراء ت کے اختلاف کی کسی صورت کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔
قرآن مجید کے جمع ہونے کے بعد بتدریج اس کے رسم الخط میں حسن و نظافت بھی آتی گئی۔ اسی طرح قرآن مجید کے الفاظ کی تشکیل(Vocalization) یعنی نقطے و اعراب غیر عربوں کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوئے۔چنانچہ ان کوششوں میں یقیناً فضیلت ان حضرات کو حاصل ہے جو اس کام میں شامل ہوئے مگر پہل کس نے کی؟ یہ طے کرنا مشکل نظر آتا ہے۔نقطے اور اعراب کے علاوہ، قرآن کے اجزاء بھی مقرر ہوئے اور بعد میں منازل، اخماس واعشار اور رکوع وغیرہ کے سلسلے میں بھی کام ہوا جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
 
Top