• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن اور اس کی تدوین

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیدنا زید کا انتخاب کیوں؟سیدنازید ؓ کو دو خلفاء نے کتابت قرآن او راس کے جمع کرنے کی زحمت کیوں دی؟اس پر ان کی نظر کیوں پڑی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بعض مخصوص خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ غالباً ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ ﷺ سیدنازید ؓ کو ہمسایہ ہونے کی وجہ سے دوسروں پر ترجیح دیتے۔ اس لئے وحی کے بعد آپﷺ انہیں بلوا بھیجتے اور زید ؓ وحی لکھ لیا کرتے تھے۔(کتاب المصاحف: ۳)۔نیز مدینہ تشریف آوری کے ساتھ ہی بنونجار کے اس بچے کی تعریف جب اہل محلہ نے آپ ﷺ کے سامنے کی کہ دس سے زیادہ سورتیں یہ بچہ یاد کرچکا ہے تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: زیدـؓ: تم یہود کی تحریر کو میرے لئے سیکھ لو۔مراد یہ کہ ان کی زبان کو ایسا سیکھو کہ تم خود بولنا، لکھنا اورپڑھنا جان سکو۔ زیدؓ کا اپنا بیان ہے کہ :
مَا مَرَّتْ بِیْ خَمْسَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً حَتّٰی حَذَقْتُہُ
پندرہ دن نہیں گذرے تھے کہ میں نے اس میں مہارت حاصل کرلی۔
بعد میں عبرانی زبان کے ترجمان بھی یہی تھے اور انہیں جواب لکھنے والے بھی ۔(مسند احمد: ۲۱۱۰۸؛ سنن ابی داؤد: ۳۶۴؛ سنن ترمذی: ۲۸۵۸)ایک اور وجہ علماء نے یہ بیان کی ہے کہ سیدنا زیدؓ بن ثابت کو خود نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم حفظ کرایا تھا۔اس کے علاوہ نبی اکرم ﷺ نے آخری رمضان میں دو مرتبہ قرآن کی دہرائی کی توسیدنا زیدؓ بھی موجود تھے۔(الفتاوی الکبری ۷؍۲۱۳، ۸؍ ۱۴۷) سیدنا ابوبکر صدیق ؓاور زید ؓبن ثابت کا قرآن مجید کو جمع کرنے پر تأمل بھی قابل غور ہے کہ وہ کسی کام کو شرعی حیثیت دینے میں اور اسے قبول کرنے میں کتنے محتاط تھے۔نیز اللہ تعالی نے ان مبارک ہستیوں کو جمع قرآن کا الہام کرکے حفاظت قرآن کا ذمہ دار بنادیا جس کی ابتداء مشورہ فاروقی سے ہوئی اورتکمیل سیدنا ابوبکر ؓکے ہاتھوں یہ کہہ کرکراڈالی:
إِنَّکَ رَجُلٌ شَابٌ، عَاقِلٌ، لاَ نَتَّہِمُکَ، وَقَدْ کُنْتُ تَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ﷺ اور پھر حضرت زید ؓ کا یہ کہنا: فَوَاللّٰہِ لَوْ کَلَّفُوْنِیْ نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا کَانَ أَثْقَلَ عَلَیَّ مِمَّا أَمَرَنِی بِہِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جمع قرآن کا طریقہ:
قرآن کو جمع کرنے کے لئے سیدنا زید ؓبن ثابت کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں جلیل القدر صحابہؓ شامل تھے۔ ابتداءََ سیدنا ابوبکر ؓنے جمع قرآن کے سلسلے میں ایک اہم ہدایت دی جس پر عمل کے لئے سیدنا عمر فاروق کو سیدناز ید ؓ کے ساتھ بھی لگادیا۔ خلیفہ رسول ابوبکر ؓ نے سیدنا عمرؓ اور زید ؓسے فرمایا:
اُقعُدَا عَلَی بَابِ الْمَسجِدِ، فَمَن جَائَ کُمَا بِشَاہِدَینِ عَلی شَئٍ مِنْ کتابِ اللہِ فَاکْتُبَاہُ۔
دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ تو جو تمہارے پاس قرآن کی کسی آیت پر دو گواہ لائے تو اسے لکھ لو۔(المصاحف از ابن ابی داؤد: ۱۲، فتح الباری ۹؍۱۴)

عبد الرحمنؒ بن حاطب کہتے ہیں:
قَدِمَ عُمَرُ فقال: مَنْ تَلَقَّی مِن رسولِ اللہِ ﷺ شیئًا مِنَ القرآنِ فَلْیَأتِ بِہٖ، وَکَانوا یَکْتُبُون ذَلکَ فِی المُصْحَفِ وَالألواحِ وَالعُسُبِ، وکاَن لا یَقبَلُ مِن أحدٍ شیئا حَتی یَشْہََدَ شَاہِدَانِ۔
سیدنا عمر تشریف لائے اور فرمایا: جس نے رسول اللہ ﷺ سے قرآن کا کوئی حصہ حاصل کیا ہو تو وہ اسے لے آئے۔ صحابہ قرآن مجید کو صحیفوں، تختیوں اور کھجور کی چھالوں پر لکھا کرتے تھے۔ آپ یہ تحریر دو گواہوں کے پیش کردینے کے بعدقبول کرتے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جمع قرآن کے لئے سب سے پہلے تو یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی لکھی ہوئی کوئی آیت بھی ہو وہ سیدنا زیدؓ کے پاس لے آئے۔ جب کوئی لکھی ہوئی آیت لے آتا تو وہ چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے۔

۱۔ اپنی یادداشت سے اس کی توثیق کرتے۔
۲۔کمیٹی کے ممبر سیدنا عمر ؓفاروق بھی حافظ قرآن تھے جو اپنے حافظہ سے اس کی توثیق کرتے تھے۔
۳۔ کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی جب تک دو قابل اعتماد گواہ یہ گواہی نہ دے دیں کہ وہ نبی اکرمﷺ کے سامنے لکھی گئی تھی۔
۴۔ بعد میں ان کی لکھی ہوئی آیات کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا جو مختلف صحابہؓ نے تیار کر رکھے تھے۔

اتفاق سے ایک آیت ایسی تھی جو صرف سیدنا ابو خزیمہ انصاری ؓ کے پاس لکھی ہوئی تھی۔ یہ سورۃ توبہ کی آخری آیت
{ لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ ۔۔۔تا وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم} (التوبۃ:۱۲۸،۱۲۹)
تھی۔دو گواہیاں نہ ہونے کے باوجود اس آیت کو لے لیا گیا۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ یہ آیت لکھی ہوئی نہ ہونے کے باوجود بھی سینکڑوں حفاظ کو یاد تھی اور دوسری یہ کہ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا ابو خزیمہؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا : ان کی گواہی دو کے برابر ہے جس کی ایک خاص وجہ تھی۔
صحیح حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ نے کسی سے اونٹوں کالین دین یعنی سودا کیا۔ آپ ﷺنے یہ سودا تنہا کیا تھا۔ جس شخص سے سودا کیا وہ بعد میں اونٹوں کی طے شدہ قیمت دینے سے مکر گیا۔ پھرآپ ﷺسے پوچھتا ہے کہ آپﷺ کے پاس کیا کوئی گواہ ہیں جو یہ گواہی دے سکیں کہ میں نے اونٹوں کی یہ قیمت کہی تھی۔ ابو خزیمہ ؓ اس وقت موجود تھے انہوں نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ حالانکہ سودا کرتے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ آپﷺ نے انہیں فرمایا: ابو خزیمہ! تم کیسے گواہی دیتے ہو جب کہ تم اس موقع پر تھے ہی نہیں؟ انہوں نے جواب میں عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ عرش کی باتیں ہمیں سچ سچ بتا دیتے ہیں تو اس کے سچا ہونے میں کیا شک؟انہوں نے صرف اس وجہ سے گواہی دے دی کہ اگر نبیﷺ یہ کہہ رہے ہیں تو یقیناً سچ ہو گا۔ اس وقت آپ ﷺنے ان کی گواہی دو گواہوں کے برابر قرار دی۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس کے برعکس بعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابن عباس ؓ آیت
{۔۔۔فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ۔۔۔} (النساء:۲۴)
کے آگے
{۔۔۔إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی۔۔۔} (البقرۃ:۲۸۲)
کے الفاظ ہونے کے قسمیہ قائل تھے اور جمع وتدوین قرآن کے وقت شدت سے یہ کہتے رہے کہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ ممکن ہے جن ایام میں متعہ کا جواز تھا یہ قراءت بھی پڑھی گئی ہو۔ لیکن ایسی قراءت بھی رخصت اور نسخ کے ضمن میں آتی ہے مگر کمیٹی نے دو وجوہ کی بناء پر ان کا موقف قبول نہیں کیا۔ ایک یہ کہ جمع وتدوین میں خبر متواتر کو مشروط قرار دیا گیا تھا۔ اس لئے اس کے راوی صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے کوئی دوسرا نہیں تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلے سے دومکی سورتوں مومنون اور معارج میں یہ محکم آیات موجود تھیں:
{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ¢إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَ¢ فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاء ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ ¢}
یعنی حفاظت فروج کے دو ہی ذریعے ہیں پہلا ذریعہ بیوی کا اور دوسرا لونڈی کا، ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حد سے تجاوز کرنا ہے اور متعہ والی عورت نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جمع کردہ نسخہ کا نام اور خصوصیات:
اس کمیٹی نے انتہائی احتیاط اورسخت محنت کے بعد قرآن کو ایک سال کی مدت میں جمع کردیا،جسے تمام صحابہ کرام نے اتفاقاً قبول کیا اور یوں امت بھی اس پرجمع ہوگئی ۔ اس نسخہ کی خصوصیات حسب ذیل تھیں:

۱۔ نسخہ میں قرآنی آیات کی ترتیب آپ ﷺکی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق تھی لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں بلکہ ہر سورت الگ اور علیحدہ صحیفہ میں تھی جن کی ترتیب عہد عثمان ؓ میں ہوئی۔ اس نسخہ کا نام مصحف اُم رکھا گیا۔
۲۔ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے۔
۳۔ یہ نسخہ خط حیری میں لکھا گیا تھا۔
۴۔ اس میں صرف وہ آیات لکھی گئیں جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس میں آیۃ الرجم نہیں لکھی گئی کیونکہ اس کی تلاوت منسوخ تھی مگر حکم باقی تھا۔
۵۔ یہ امت کے لئے ایک ایسا متفقہ مرتب نسخہ تھا جواسے انتشار سے بچا گیا۔اسی لئے سیدنا ز یدؓ نے تمام گواہوں کی موجودگی میں اس کا اعلان کیا۔ جس کے صحیح ہونے کی سب نے بلا اعتراض گواہی دی۔

سیدنا زید ؓ نے تکمیل مصحف کے بعد اسے خلیفہ رسول ابو بکر صدیق ؓکے سپرد کردیا جو ان کے پاس وفات تک رہا۔پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آگیا ان کی وفات کے بعد یہ مصحف ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ کے پاس اس وقت تک رہا جب عثمان ؓ نے ان سے طلب کر کے منتخب کمیٹی کے ذریعے نئے نسخے تیار کروا ئے اور اسے واپس لوٹا دیا جو ان کی وفات کے بعد سیدناابن عمر ؓکے ذریعے مروان بن الحکم کے پاس آیا تو مروان نے یہ سوچ کر کہ مبادا اس میں کوئی ایسی بات ہوجونسخہ عثمان ؓسے مختلف ہو اسے ضائع کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… سیدنا عمرؓ کے دور میں تدوین قرآن کی بجائے اشاعت قرآن پرزیادہ کام ہوا۔ آپؓ نے ہر جگہ تعلیم قرآن کو لازمی قراردے دیا یہاں تک کہ فوجیوں او ردیہاتیوں کو بھی نہ چھوڑا ۔ قرآن کی ترویج کے لئے آپؓ نے باجماعت تراویح کا اہتمام کیا اور ابی بن کعب وتمیم الداری ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو باجماعت گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔(موطأ امام مالک : صحیح)۔ آپؓ نے ہر جگہ یہ احکام بھیجے کہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ صحت الفاظ اوراعراب کی تعلیم پر بھی توجہ دی جائے۔سیدنا عمر فاروق ؓ کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کریم ہر طرف پھیل گیا اور حفاظ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف سعد بن ابی وقاصؓ کے لشکر میں ۳۰۰حفاظ موجود تھے۔ شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی فرماتے ہیں:آج مسلمانوں میں جو بھی قرآن پڑھتا ہے فاروق اعظم ؓ کا احسان اس کی گردن پر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا دور:
خلافت عثمانی میں جمع قرآن : سیدنا عثمان ؓ کے دور خلافت میں اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا۔ نئے مسلمان جو عجمی تھے مجاہدین اسلام یا مسلمان تاجروں سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوتی۔ قرآن سبعہ حروف میں نازل ہوا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے نبی اکرمﷺ سے مختلف قراء توں کے مطابق سیکھا تھا۔اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگرد کو اسی طرح پڑھایا جس طرح اس نے خود نبی اکرمﷺ سے سیکھا تھا۔ یوں قراءتوں کا اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا او رلوگوں میں جھگڑے پیدا ہونے لگے۔زیادہ خرابی اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ سوائے’’مصحف ام‘‘کے پورے عالم اسلام میں کوئی ایسا معیاری نسخہ نہ تھا جو امت کے لئے نمونہ و حجت ہو۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ ذوالنورَین خود بھی اس خطرے کا احساس کر چکے تھے۔کیونکہ انہوں نے مدنی بچوں میں ان کے اساتذہ کی اختلاف قراءت کے اثرات کو بھانپ لیا تھا۔سیدنا عثمان ؓ اپنی تقاریر میں ان سے فرما بھی چکے تھے:
أَنْتُمْ عِنْدِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَتَلْحَنُونَ، فَمَنْ نَأَی عَنِّیْ مِنَ الأَمْصَارِ أَشَدُّ اخْتِلاَفاً، وَأَشَدُّ لَحْناً، اِجْتَمِعُوْا یا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، وَاکْتُبُوْا لِلنَّاسِ إِمَاماً(المصاحف: ۲۹)
تم میرے پاس ہوتے ہوئے بھی اختلاف کرتے ہو اور لحن بھی، تو جو مجھ سے دور علاقوں میں آباد ہیں ان کا اختلاف اور لحن تو اور زیادہ ہوگا۔اے اصحاب محمد ! اتفاق کرلو اور لوگوں کے لئے ایک امام لکھ ڈالو۔

لہٰذا آپؓ نے صحابہؓ کے سامنے یہ رائے رکھی کہ مصحف اُم کو سامنے رکھ کر ایک ایسا مصحف تیار کیا جائے جو صرف قریش کی لغت پر ہو۔پھر اس کی نقول بنوا کر تمام عالم اسلام میں پھیلا دی جائیں۔تمام صحابہؓ نے خلیفہ راشد سیدناعثمانؓ کی اس اجتہادی رائے کی بھر پور تائید کی کہ قرآن صرف قریش کے لہجے میں یا قریش جس طریقے سے پڑھتے ہیں اس میں لکھا اور جمع کیا جائے کیونکہ آپ ﷺ قریشی تھے ، آپ ﷺ افصح العرب تھے، اور قریش ہی کی زبان و لہجے میں قرآن اترا تھا۔(کتاب المصاحف: لابن ابی داؤد: ۲۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس صورتحال میں سیدنا عثمان ؓ نے سن پچیس ہجری میں وہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس کی تفصیل سیدنا انس ؓکی روایت سے صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے :
سیدنا حذیفہؓسیدنا عثمان ؓکے پاس تشریف لائے۔ وہ اہل شام وعراق کے ساتھ آرمینیہ اور آذربیجان کو فتح کرنے کے لئے جہاد کر رہے تھے۔یہاں عراقیوں کے قراءت قرآن میں اختلاف کو دیکھ کر سیدنا حذیفہ سہم سے گئے۔ انہوں نے سیدنا عثمان ؓسے عرض کی: اس امت کا علاج کیجئے اس سے پہلے کہ ان کا اپنی مقدس کتاب میں ویسا ہی اختلاف ہو جیسا یہود ونصاری کے یہاں ہوچکا ہے۔ سیدناعثمان ؓنے سیدہ حفصہؓ ام المؤمنین سے مصحف منگوایا تاکہ اس کی نقول تیار کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے اسے سیدنا عثمانؓ کے پاس بھیج دیا۔پھر امیر المؤمنین نے زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، سعید بن ابی العاصؓ اور عبد الرحمن بن حارث ؓبن ہشام کو قرآن لکھنے کا حکم دیا۔جو انہوں نے اسے مختلف صحیفوں میں لکھ ڈالا۔ اس موقع پرسیدنا عثمان ؓنے تینوں قریشیوں سے فرمایا : جب تم اور زید کتابت کے دوران کسی بھی شے میں اختلاف کرو تو پھر قرآن کو قریشی زبان میں لکھنا اس لئے کہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ سو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حتی کہ جب چند مصاحف لکھ لئے گئے تو سیدنا عثمانؓ نے اصل نسخہ ام المؤمنین کو واپس لوٹا دیا اور ہرصوبہ میں ان لکھے ہوئے مصاحف کی ایک ایک نقل بھجوا دی۔ ساتھ ہی یہ حکم جاری کیاکہ اس قرآن کے سوا اب ہر صحیفہ یا مصحف جلا دیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چار رکنی کمیٹی کا قیام :
خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ذو النورینؓ نے ام المؤمنین سیدہ حفصہؓ سے مصحف ام منگوایا اورصحابہ رسول سے ہی پوچھا:
مَنْ أَکْتَبُ النَّاسِ؟
کون سب سے بہتر کاتب ہے۔
انہوں نے کہا: کاتب رسول اللہ ﷺ زیدؓ بن ثابت۔انہوں نے فرمایا:
فَأَیُّ النَّاسِ أَعْرَبُ؟ وَفِی رِوَایَۃٍ : أَفْصَحُ؟
لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح عرب کون ہے؟ انہوں نے کہا: سعید ؓبن العاص۔
سیدنا عثمان ؓنے فرمایا:
فَلْیُمْلِلْ سَعِیْدٌ وَلْیَکْتُبْ زَیْدٌ۔
تو سعید املاء کرائیں اور زید لکھیں۔
سیدنا زید بن ثابتؓ کی سرکردگی میں ایک چاررکنی کمیٹی بنائی جس میں سیدنا زیدؓ کے علاوہ سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ، سعید بن العاصؓ اور عبد الرحمن بن حارثؓ شامل تھے۔یہ حضرات صحیح قریشی لہجہ میں قراءت کے انتہائی راسخ حافظ و ضابط تھے۔ تینوں قریشی صحابہ کوکتابت قرآن کی ذمہ داری سپرد کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا اخْتَلَفْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِی شَئٍ مِنَ الْقُرآنِ فَاکْتُبُوْہُ بِلِسِانِ قُریْشٍ فَإنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِہِمْ فَفَعَلُوا( صحیح بخاری:۴۹۸۷، سنن الترمذی: ۳۱۰۴)
’’ جب تمہارے اورزید کے مابین کچھ اختلاف ہو تو پھر اس قرآن کو قریش کی زبان میں لکھو اس لئے قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘
انہیں یہ بھی بتایا کہ جب کسی آیت میں ایک سے زائد قراء ت تواتر سے ثابت ہوتی ہوں تو اس آیت کو کسی علامت کے بغیر لکھا جائے تاکہ اس سے ایک قراء ت نہ ہوسکے بلکہ اسے ایک ایسے رسم میں لکھا جائے جس سے ایک سے زائد قراء ت ممکن ہو سکیں۔ جیسے: {فتبینوا }کو{ فتثبتوا} بھی پڑھا گیااور{ ننشزہا}کو {ننشرہا} بھی پڑھا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح اگر کوئی لفظ مختلف قراء ت میں نہ پڑھا جاسکے تو اسے بعض مصاحف میں ایسے رسم الخط سے لکھ دیا جائے جس سے صرف ایک ہی قراءت ہوسکے اور کچھ مصاحف میں ایسے رسم سے کہ اس سے ایک اور قراء ت بھی معلوم ہوتی ہو۔ جیسے:
{ وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ۔۔۔} (البقرۃ:۱۳۲) کو بعض مصاحف میں {أوصی} لکھا گیا۔ {وَسَارِعُواْ إِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ۔۔۔}(آل عمران:۱۳۳) کو کچھ مصاحف میں سین سے قبل واؤ کے ساتھ لکھا گیا اور بعض میں بغیر واؤ کے۔

اس جماعت کے ذمے یہ کام بھی لگایا گیا کہ وہ مصحف ام سے نقل کر کے کئی ایسے صحیفے تیار کرے جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ ابتداء میں یہ کام انہی لوگوں کے سپرد تھا لیکن بعد میں یہ تعدادبڑھا کر بارہ کر دی گئی۔ ان حضرات نے کتابت قرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل کام سر انجام دئیے:

٭… انہوں نے تمام سورتوں کو ترتیب وار ایک ہی مصحف میں لکھا ۔(مستدرک ، از امام الحاکم )
٭… ان حضرات نے نہ صرف مصحف ام کو سامنے رکھا بلکہ نقول تیار کرتے وقت اس کی کتابت وخط کا خصوصی خیال کیا۔ جہاں پر بھی تھوڑا سا اختلاف سیدنازید اور کمیٹی کے مابین ہوا وہیں پر قریشی لہجہ اور قریشی لغت کو بنیاد بنا کر اس کی تصحیح کردی گئی۔ کیوں کہ اس مصحف کو لکھوانے کی اصل غرض ہی یہ تھی کہ مسلمانوں کو ایک ہی لہجہ اور لغت پر اکٹھا کردیا جائے۔چنانچہ اس لکھے ہوئے قرآن کو کسی صحابی نے بھی پڑھا تو اس نے اس کے رسم ولغت سے اختلاف نہیں کیابلکہ اسے ہی صحیح اور محقق قرآن قرار دیا۔
٭… اس کے خط میں اس بات کی رعایت رکھی گئی کہ وہ ساتوں حروف اس میں سما جائیں جو عرضہ اخیرہ میں موجود تھیں۔ اور قراء ت کی مختلف صورتیں بھی جائز قرار دی جاسکیں۔
٭… اختلاف قراء ت میں صرف اس صورت پر اکتفاء کیا گیا جو متواتر تھی۔ باقی منفرد قراءت کو اہمیت نہیں دی گئی اس لئے کہ وہ متواتر نہیں تھیں۔ مثلاً: {۔۔۔ وَکَانَ وَرَاء ہُم مَّلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبا¢} (الکہف:۷۹) میں لفظ صالحۃ متواتر نہیں ہے بلکہ منفرد تھی اس لئے انہوں نے اسے اہمیت نہ دی۔
٭… ذاتی مصاحف میں صحابہ رسول کے اپنے وضاحتی بیانات یا الفاظ کی تشریح کوبھی غیر اہم قرار دیا گیا۔
٭… وہ الفاظ وآیات جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی کمیٹی نے اسے بھی نظرانداز کیا اس لئے کہ عرضہ اخیرہ میں یہ شامل نہیں تھیں ۔یہ وہی کچھ تھا جو سیدنازید ؓنے دور صدیقی میں لکھا تھا۔
٭…انہوں نے مصحف امّ کی ایک سے زائد نقول تیار کیں جن کی تعداد ، روایات میں پانچ بھی ملتی ہے اور سات بھی ۔(فتح الباری:۹؍۱۷)
٭… یہ معیاری نسخے تیار کروانے کے بعدسیدنا عثمان ؓ نے وہ تمام انفرادی نسخے نذر آتش کر دیے جو مختلف صحابہ مثلاً : ابی بن کعبؓ، علیؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓوغیرہ کے پاس تھے تا کہ تمام مسلمان ایک ہی نسخے پر جمع ہوںاور اختلاف کی گنجائش نہ رہے پھر ان نسخوں کو مدینہ کے علاوہ مکہ، شام، یمن، کوفہ و بصرہ، بحرین وغیرہ بھجوا دیاگیا۔
٭…کمیٹی نے قرآنی نسخوں کو مرتب کرتے وقت کلمات و حروف کے لکھنے کا جو خا ص طرز وانداز اختیار کیاعلماء نے اس کا نام رسم مصحف لکھا۔ اوراس پسندیدہ رسم الخط کو حضرت عثمانؓ کی جانب منسوب کرکے رسم عثمانی یا خط عثمانی نام دے دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیدنا علی ؓ اس مشورہ کے بارے میں فرمایا کرتے:
لوگو! عثمان کے بارے میں غلوسے کام نہ لو۔ بلکہ ان کے حق میں خیر کہو۔ بخدا انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ کیا ہم صحابہ سے مشورے سے ہی کیا۔انہوں نے ہمیں کہا: تم اس قراء ت کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ کیوں کہ کچھ مسلمان ایک دوسرے سے یوں کہنے لگے ہیں: میری قراء ت تمہاری قراء ت سے زیادہ بہتر ہے۔یہ کہیں کفر نہ ہو۔ ہم نے عرض کی: امیر المؤمنین! آپ کی کیا رائے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک ہی مصحف پر جمع کردیں۔ جس سے تفریق ہو نہ اختلاف۔ ہم سب نے کہا: بہت ہی بہترین رائے ہے آپ کی سیدنا علی ؓفرماتے: بخدا اگر میں مسلمانوں کا والی بنتا تو میں بھی وہی کرتا جو عثمان ؓبنے کیا۔‘‘

سیدنامصعب بن سعد ؓ فرماتے ہیں:
أَدْرَکْتُ النَّاسَ مُتَوَافِرِیْنَ حِیْنَ حَرَقَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ فَأَعْجَبَہُمْ ذَلِکَ ، أو قَالَ: لَمْ یُنْکِرْ ذَلِکَ مِنْہُمْ أَحَدٌ، وَہُوَ مِنْ حَسَنَاتٍ أَمِیرِ الْمُؤمِنینَ عًُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّتِیْ وَافَقَہُ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَیْہَا، وَکَانَتْ مُکَمِّلَۃً ِلجَمْعِ خَلِیْفَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہ عنہ۔(کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: ۱۲)’’
میں نے بکثرت لوگوں کو پایا کہ امیر المؤمنین حضرت عثمان ؓنے جب قرآنی نسخوں کو جلایا تو انہیں یہ کام بڑا عجیب لگا یا انہوں نے فرمایا: کسی نے اس کام کو ناپسند نہیں کیا،یہ عمل حضرت عثمان ؓکی حسنات یعنی نیکیوں میں سے ہے جس کے تمام مسلمان موافق تھے اور خلیفہ رسول حضرت ابوبکرؓکے جمع قرآن کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا یہ عمل تھا۔

سیدنا عثمان ؓکا یہ کام جمع ثانی کہلاتاہے۔ جمع اول کا کام توعہد نبوی ﷺ و صدیقی ؓمیں ہو چکا تھا۔ عہد عثمانی میں بس اتنا کام ہوا کہ قراء ت میں جو اختلاف پیدا ہواتھااسے ایک مخصوص انداز تحریر سے ختم کردیا گیا اور ایک ہی لغت پر قرآن کو لکھ کر امت کو اس پر جمع کر دیا گیا۔ اس بناء پر سیدنا عثمان ؓکو جامع القرآن کہتے ہیں۔ آج بھی تاشقند اور استنبول میں رکھے مصحف عثمانی کے نسخوں اور ان کے رسم الخط کو دیکھا جا سکتا ہے جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔سیدنا عثمانؓ کی اس مخلصانہ کوشش کے یہ عظیم الشان نتائج ہیں کہ امت آج بھی قرآن مجید پرمتفق ہے اور مجتمع بھی۔اسی باہمی الفت ومحبت نے امت کو بڑے اختلاف سے بچالیا ہے ۔
 
Top