• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن اور اس کی تدوین

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تابعین کرام اور ان کے بعد لوگوں نے قرآن کریم کو حفظ کیا۔صحابہ رسول نے دنیا بھر میں پھیل کر جہاں لوگوں کو امور دین سے آگاہ کیا وہاں قرآنی تعلیم کے حلقے بھی قائم کئے ان علاقوں کی مساجد میں باقاعدہ تدریس شروع کردی۔بہت سے لوگ ان کے پاس محض اسے سیکھنے آئے۔بعض مدارس کو بہت شہرت بھی ملی۔جن میں بہت سے تابعین دور دراز کے علاقوں سے محض سیکھنے آئے۔جیسے کوفہ میں مدرسہ ابن مسعود، مدینہ منورہ میں مدرسہ ابی بن کعب، اور مکہ مکرمہ میں مدرسہ ابن عباس رضی اللہ عنہم۔

ان مدارس کے علاوہ دیگر علاقوں میں صحابہ کی کوششیں جاری رہیں وہ قرآن کریم کی قراء ت، اس کی تحفیظ، تفسیر اور احکام کی تفاصیل بیان کرتے اور سکھاتے ۔قراء ت کی مختلف وجوہ سیکھنے کے سبب بہت سے حفاظ ایسے بھی تیار ہوگئے جنہیں قراء ت اور روایت میں شہرت نصیب ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھا دور:
صوتی وطباعتی جمع :
تلاوت کے بعض احکام جن میں قلقلہ، رَوم، إشمام، إخفاء، إدغام، إقلاب اور إظہار وغیرہ کی پابندی تلاوت کرنے والے کی لئے ضروری ہے۔ اس لئے قرآن پاک کی تحریر میں ان احکام کا لکھنا تو ممکن تھا مگر اس کی صحیح ادائیگی کیا ممکن تھی؟ علماء نے اسے ناممکن قرار دیتے ہوئے اسے متقن حفاظ مشائخ سے براہ راست سیکھنے اورحاصل کرنے کا کہا ہے اور لکھا ہے:
مِنْ أَعْظَمِ البَلِیَّۃِ تَشْیِیْخُ الصَّحیِفَۃِ۔
بڑی مصیبت صحیفہ کو اپنا شیخ بنانا ہے۔
امام شافعی فرمایا کرتے:
مَنْ تَفَقَّہَ مِنْ بُطُونِ الکُُتُبٍ ضَیَّعَ الأَحْکَامَ۔
جو کتابوں سے فقیہ بنتا ہے وہ بہت سے احکام کھو بیٹھتا ہے۔(الفقیہ والمتفقہ: ۲؍۹۷)

مشہور ائمہ حفاظ قرآن اپنے حفظ کی تلقی (to aquire knowledge from scholar)کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ مثلاً: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: واللہ! میں نے رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے ستر سے اوپر سورتیں حاصل کی ہیں۔اور یہ بھی بیان کرتے ہیں : میں باقی سورتیں کس سے حاصل کیں۔أَخَذْتُ بَقِیَّۃَ القرآنِ عن أَصْحَابِہِ۔ باقی قرآن پاک میں نے آپ ﷺ کے اصحاب سے لیا۔اس تلقی کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟ اس کا ادراک انہیں اس حد تک تھا کہ جب انہیں کسی سورت کے بارے میں پوچھا جاتاتو صاف فرمادیتے میں نے یہ سورت نبی کریم ﷺ سے نہیں سنی۔ اور اس صحابی کا بتادیتے جنہوں نے آپ ﷺ سے وہ سورت سنی ہوتی۔ معدیکرب کہتے ہیں:ہم عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عر ض کی کہ ہمیں طسم دوسو آیتوں والی(یعنی الشعراء، آیات ۲۲۷) پڑھ کر سنائیں۔ تو فرمانے لگے: یہ سورۃ میرے پاس نہیں ہے یعنی رسول اللہ ﷺسے سنی ہوئی نہیں۔ مگر تم اسی شخص کے پاس جاؤ جس نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اور وہ خباب بن الأرت رضی اللہ عنہ ہیں۔تو ہم ان کے پاس آئے انہوں نے ہمیں یہ سورت پڑھ کر سنائی۔(مسند امام احمد: ۳۹۸۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بالمشافہہ استاذ سے قرآن کا سننا کوئی بدعت نہیں بلکہ یہ سنت رسول ہے آپ ﷺ نے براہ راست جبریل امین سے سنابلکہ ہر سال ان سے سنا بھی اور سنایا بھی۔ آخری سال دو مرتبہ سناسنایا۔روزانہ کی تین جہری نمازوں میں بھی آپ اسے اونچی آواز سے پڑھتے،اسی طرح نماز جمعہ، نماز استسقاء، نماز خسوف وکسوف، نماز تراویح، نماز عیدین، وغیرہ میں بھی آپ جہراً پڑھ کر سناتے جس میں یہ سبق بھی ہوتا کہ صحیح تلاوت کیا ہوتی ہے اور پھر جب خود اکیلی یا سری نماز پڑھنی پڑے تو اس تلاوت کو کیسے کرنا ہے؟

فارغ التحصیل قراء طلبہ کوآپ ﷺ نومسلم کی تعلیم کے لئے مقرر فرماتے، انہیں ایسا کرنے کے لئے لکھتے بھی۔خلفاء راشدین نے مفتوحہ علاقوں میں بھی یہی سنت جاری رکھی۔سیدنا عثمانؓ نے مکتوب مصاحف کو جن سات علاقوں میں بھیجا ان کے سات ایکم مقرئ بھی روانہ فرمایا۔یہ سب قراء ت قرآن کی تلقی کا اہتمام تھا جو بالمشافہہ سیکھنے سکھانے کا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الحمد للہ آج بھی حفظ قرآن اور اس کی قراء ات کی مختلف وجوہ سیکھنے کا سلسلہ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مدارس خواہ عمارات میں ہوں یا گھروں ودکانوں میں مسلمانوں کے شوق کو کم نہیں کیا جاسکا۔باوجود مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کے اور معیشت ومعاش کی تنگی کے ، نیز تہذیبی ، تمدنی، حکومتی، نشریاتی دباؤ کے پھر بھی لاکھوں مسلمان نوجوان بچے بچیاں حفظ قرآن سے سرفراز ہوتے ہیں۔انٹر نیٹ میں موجود مختلف ویب سائٹس نے قراء ات کی مختلف خوب صورت آوازوں کو محفوظ کرلیا ہے۔ اس طرح دنیا کے تقریباً ہر کونے میں حفاظ ومجود حضرات کی تراویح کی براہ راست ریکارڈنگ نے تنوع کی مثالیں قائم کردی ہیں۔ اب جہاں مقری نہیں وہاں اس کی آواز وانداز دونوں اپنا کام دکھا رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآنی رسم کی تحسین کے مراحل :
اس جدید رسم خط کو رسم عثمانی اوررسم مصحف بھی نام دیا گیا۔جس میں دو خاص باتیں تھیں:

۱۔ اس کی املائی تحریر ایسی تھی کہ جس میں کچھ حروف اور کلمات کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے جیسے: مائۃ میں ہمزہ کا استعمال۔ اور الزکوۃ، الصلوۃ، الحیوۃ میں واؤ اور یاء کا استعمال۔ اسی طرح بعض الفاظ میں حروف کا حذف جیسے: قال کو قٰل لکھنا یا کتابت میں بعض حروف کا اضافہ جیسے: والسماء بنینہا بأیید میں مکرر یاء۔ وغیرہ۔یہی وہ املائی صورت تھی جسے سیدناعثمانؓ نے کمیٹی کے تین قریشی ارکان کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی تھی۔اس کا اثر کمیٹی کے ارکان پر ہوا جب انہوں نے التابوت لفظ کو لکھنا چاہا تو ان میں اختلاف ہوا کہ اسے التابوۃلکھیں یا التابوت؟ سیدنا زیدؓ نے فرمایا: اسے التابوۃ تاء مربوطہ کے ساتھ لکھنا چاہئے مگر دوسروں نے کہا نہیں اسے التابوت تاء مبسوطہ کے ساتھ لکھنا چاہئے۔ چنانچہ وہ سیدنا عثمانؓ کے پاس گئے انہوں نے فرمایا اسے التابوت۔۔ تاء مبسوطہ کے ساتھ لکھو اس لئے کہ قرآن قریش کی زبان میں اترا ہے۔

۲۔ دوسری اہم بات ان مصاحف کے بارے میں یہ تھی کہ ان کی شکل یعنی اعرابی کیفیت واضح نہیں تھی اور نہ ہی نقطے تھے جو حروف معجمہ یعنی(زای، ذال، غین، جیم یا خاء وغیرہ )کو مہملہ یعنی( راء، دال، اور حاء وغیرہ) سے ممتاز کرسکیں۔ اس لئے کہ صحیح نطق میں اس وقت قرآن پاک کو پڑھنا تھا۔اب اس کی دو صورتیں تھیں:

أ۔ اصل عربی لہجے میں حروف کی ادائیگی کی جائے تاکہ زبان اپنی اصل حالت (Original Method)پرقائم رہے۔
ب۔ بالمشافہہ(Orally) اسے سن کر اور سمجھ کر اپنا یا جائے۔ جس سے کتابت مزید واضح ہوجائے اور لبس(Obscurity) سے محفوط رہے۔ یوں قراء ت کا اختلاف ازخود ختم ہوگیا۔ اور صحیح وسلیم(sound) قراء ت مسلمانوں میں رائج ہوگئی جس نے ان پندرہ سوسالوں میں کتابت اور قراء ت کے اختلاف کی کسی صورت کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن مجید کے جمع ہونے کے بعد بتدریج اس کے رسم الخط میں حسن و نظافت بھی آتی گئی۔ اسی طرح قرآن مجید کے الفاظ کی تشکیل(Vocalization) یعنی نقطے و اعراب غیر عربوں کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوئے۔چنانچہ ان کوششوں میں یقیناً فضیلت ان حضرات کو حاصل ہے جو اس کام میں شامل ہوئے مگر پہل کس نے کی؟ یہ طے کرنا مشکل نظر آتا ہے۔نقطے اور اعراب کے علاوہ، قرآن کے اجزاء بھی مقرر ہوئے اور بعد میں منازل، اخماس واعشار اور رکوع وغیرہ کے سلسلے میں بھی کام ہوا جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔

نقطے اور اعراب(Vocalization):
مصاحف عثمانی، نقاط اور اعراب سے خالی تھے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے مدون (Recorded) قرآن میں بھی نقاط تھے نہ اعراب۔شہادت عثمانؓ کے عرصہ بعد تک بھی لوگ ان مصاحف سے صحیح تلاوت لیتے اور سنتے رہے۔ عرب اہل زبان تھے اور ماہر قراء سے تلاوت سیکھتے بھی ، اس لئے انہیں کوئی ایسی مشکل پیش نہ آئی کہ وہ اعرابی غلطیاں کرتے۔ مشکل عجمی مسلمانوں کی تھی جوصحیح عربی الفاظ سے ناآشنا (Unfamiliar)ہونے اور نقطے واعراب کی غیر موجودگی کی وجہ سے بڑی بڑی غلطیاں کرتے۔ان حالات میں یہ ضرورت شدت سے محسوس کی گئی کہ قرآن میں اعراب لگائے جائیں۔ اعراب تو لگ گئے مگر کس نے لگائے؟علماء میں یہ اختلاف ہے کہ یہ کارنامہ کس نے سر انجام دیا۔ علماء تین حضرات کے نام لیتے ہیں جو ابو الاسود دؤلی، یحیی بن یعمر اور نصر بن عاصم اللیثی کے ہیں۔ زیادہ مشہور یہی ہے کہ ابو الاسود الدؤلی نے یہ کار خیر سرانجام دیا۔امام زرکشیؒ لکھتے ہیں:
مصحف پر سب سے پہلے اعراب ابو الاسود الدؤلی نے لگائے۔ بعض علماء کے خیال میں انہوں نے یہ کام عبد الملک بن مروان کے حکم سے کیا۔ جس کا سبب یہ واقعہ بنا کہ ایک بار ابو الاسود الدؤلی نے قاری قرآن سے سنا کہ وہ یہ آیت
{۔۔۔إنَّ اللَّہ بَرِيئٌ مّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ۔۔۔} (ٰالتوبۃ:۳)
میں لفظ رسولُہ کو رسولِہ یعنی لام کو بجائے پیش کے زیر سے پڑھ رہا ہے ۔جس سے معنی ہی بدل گیا۔ابو الاسود کو بہت تکلیف ہوئی اور کہا ’’خدا کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے رسول ﷺ سے بیزار ہو۔‘‘ بصرہ کے والی زیاد بن ابیہ نے انہیں پہلے ہی فرمائش کی ہوئی تھی کہ آپ قرآن مجید کے اعراب لگائیں۔ چنانچہ وہ اس کام میں لگ گئے اور کاتب سے کہا: جب تم مجھے دیکھو کہ میں اپنے ہونٹ کسی حرف کے لئے اوپر کی جانب کھولتا ہوں تو اس حرف کے اوپر ایک نقطہ لگا دو اور اگر میں نے دونوں ہونٹوں کو باہم ملا دیا ہے تو پھر حرف کے آگے نقطہ لگادو۔ اگر میں نے نیچے کی طرف اسے موڑا ہے تو اس کے نیچے نقطہ لگا دو۔ اس طرح وہ اس کام کو مکمل کرنے کے بعد زیاد کے پاس گئے اورکہا کہ’’میں نے حکم کی تعمیل کر دی۔‘‘ (کتاب النقط: ۱۲۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ ابو الاسود نے خلیفہ عبد الملک کے حکم سے قرآن پر حرکات لگائیں۔ ابتداء میں وہ حرکات جو ابولاسود الدؤلی نے وضع کیں وہ اس طرح کی نہ تھیں جیسی آج کل معروف ہیں ۔ بلکہ زبر کے لئے حرف کے اوپر، زیر کے لئے نیچے اورپیش کے لئے حرف کے سامنے ایک نقطہ مقرر کیا گیا۔ جبکہ سکون کی علامت دو نقطے تھی۔(مناہل العرفان از زرقانی ۱؍۴۰۱)

تحسین حروف کی کوشش:
عجمی مسلمانوں کوقرآن سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی قراءت میں جہاں اعرابی غلطیاںہوئیں وہاں حروف کی پہچان میں زبردست غلطیاں ہونے لگیں۔ صاد کو ضاد، اور عین کو غین یا دال کو ذال کی جگہ پڑھا جانے لگا ۔اسی طرح فتحہ، ضمہ اور کسرہ بھی اپنی مقداریکساں نہ رکھ سکا۔ مسلمان علماء نے ان غلطیوں کے ازالے کے لئے یہ قدم اٹھایا کہ اب رسم قرآنی میں حروف کی تحسین کا کام کریں یہ کام اس کام سے مختلف تھا جو ابوالأسود دؤلی نے سرانجام دیا تھا۔ چنانچہ حجاج بن یوسف کے حکم سے ابوالأسود کے شاگرد نصر بن عاصم نے اس کی ابتداء کی۔ انہوں نے کچھ ایسی علامات وضع کیں جن سے مشابہ حروف ایک دوسرے سے ممتاز ہوجائیں۔ چنانچہ جو علامات، حرف پر نقطوں کی تھیں انہیں دوسری علامات کے ذریعے بدل دیا تاکہ ایک ہی لفظ یا حرف پر بہت سے نقطے قراءت کو مشکل نہ بنادیں۔ یعنی اعراب کی علامات کو انہوں نے فتحہ، ضمہ اور کسرہ میں بدل دیا اور حروف کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے نقطوں کا استعمال کرکے انہیں ایک دوسرے سے نکھار دیا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ابو الأسود الدؤلی کے ساتھ ان کے شاگرد یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم اللیثی بھی اس میں شریک تھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ابتداء میں ابوالأسود الدؤلی نے نقطوں سے حرکات وضع کیں۔ بعد میں حجاج بن یوسف نے یحییٰ بن یعمر، نصر بن عاصم اور حسن بصری سے بیک وقت قرآن پر نقاط اور اعراب لگانے کی فرمائش کی۔ چنانچہ ان علماء نے نقطوں سمیت ان حرکات کو متعارف کرایا جو آج ضمہ، فتحہ اور کسرہ کہلاتے ہیں۔(تاریخ افکار وعلوم اسلامی ۱؍۱۱۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کتابت میں آیات کی تقسیم کے لئے صحابہ کرامؓ نے ہر آیت کی علامت مقرر کی جو آیت کے سروں پر لگائی جاتی تھی۔ یہ علامت تین نقطے(.:)کی تھی۔(الاتقان ۱؍۱۱۶)کتابت میں جب نکھارآیا تو ابو الاسود الدؤلی نے آیت کا نشان گول دائرہ (¡)مقرر کردیا۔تھوڑا عرصہ بعد امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی نے ہمزہ، شد، روم اور اشمام کی علامات قرآنی کتابت میں ڈال کر اس میں مزید خوبصورتی اور آسانی پیدا کردی۔رسم قرآنی کے ضبط کو مزید بہتر بنانے کے لئے یہ کوششیں ہمارے زمانے تک ہوئی ہیں جن میں آیات کی تعداد سمیت ہرسورت کا نام کتاب اللہ میں لکھا گیا،آیات میں رموز کا استعمال ،قراءت میں مزید یکسوئی اور بامقصد بنانے کے لئے کیا گیا، معانی کو نکھارنے اور اجاگر کرنے کے لئے علامات وقف بنائی گئیں، مختلف رنگوں والا مجود مصحف وجود میں آیا تاکہ تجوید کوبآسانی سمجھا جاسکے اور الفاظ کی ادائیگی صحیح مخارج کے ساتھ ہوسکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الحمد للہ آپ ﷺ کی وفات کے پندرہ سال بعد یہ قرآن، کتابت واداء کے محاسن کے ساتھ اور دوسری مرتبہ آپ ﷺ کی وفات کے صرف پینتالیس سال بعد یہ اپنے تمام تر محاسن کو لئے امت کے ہاتھ میں تھا۔ جس میں اعرابی اور حرفی وضاحت تھی اور دیگر بے شمار محاسن بھی۔ اس کوشش میں مسلمان حتی الامکان کامیاب ہوئے ۔ نحو وصرف کے تمام تر قواعد بھی قرآن سے سچی لگن اور محبت کے سبب لکھے گئے۔نیز تفاسیر، قرآنی لغات ومترادفات اورمختلف زبانوں میں ا س کے لفظی ترجمے پر مشتمل سینکڑوں کتب اس میں غور وتدبر کا معمولی حق ہیں جو فرض سمجھ کر لکھی گئیں۔ سینکڑوں قراء حضرات کی مسحور کن آوازوں میںC.D's ہینڈی پن مین ، IPOD نیز انٹر نیٹ پر موجود ان کی تجوید واحکام تلاوت (قلقلہ، إشمام، إخفاء، ادغام، إقلاب اور اظہار وغیرہ)کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو مختلف قراءتیں دستیاب ہیں جو بچوں ، بچیوں ، نوجوانوں اور بوڑھوں تک کو قرآن مجید کی اس نغماتی کیفیت کو اپنانے پر ابھارتی ہیں اور حفظ قرآن میں مدد دیتی ہیں۔ یونیورسٹیوں، اداروں اور معاہد میں قرآنی علوم پر ہونے والی ریسرچ اورکتب حدیث و فقہ جیسے اسلامی علوم وغیرہ دیکھ کر اورپڑھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن مجید کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی اور سچی عقیدت کا ثبوت دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معنی اور تلاوت کے اعتبار سے تقسیم:
معنوی اعتبار سے قرآن ،آیات اور سورتوں پر مشتمل ہے۔اور تلاوت کے اعتبار سے اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مثلًااحزاب ،رکوع،سیپارے،اخماس،اعشار وغیرہ۔ یہ تقسیم ایسی خصوصیت ہے جس میں دنیا کی کوئی اور کتاب اس کے ہم پلہ نہیں۔جاحظ کا کہنا ہے: اللہ تعالی نے اپنی کتاب کا ایسا نام رکھا ہے جو عربوں کے کلام سے مختلف ہے۔اپنے سارے کلام کو اس نے قرآن کہا جیسے انہوں نے دیوان کہا۔اس کی سورتیں قصیدہ کی مانند ہیں اور آیت بیت کی طرح اور اس کا آخر قافیہ سے ملتا جلتا ہے۔
 
Top