- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
قرآن پاک کی اکائی آیت ہے۔ جس کا مطلب ہے نشانی۔ آیتوں سے مل کر سورتیں بنتی ہیں۔ سورت کے معنی فصیل (Boundry Wall) کے ہیں۔ آیتوں اور سورتوں کی ترتیب اورتقسیم کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ ترتیب و تقسیم توقیفی ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ترتیب اجتہادی ہے۔ ان میں سے پہلی رائے زیادہ درست اور قابل اعتماد ہے اور اس کے دلائل بھی زیادہ قوی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
1-وہ احادیث جو سورتوں کے فضائل سے متعلق ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سورتیں عہد نبوی ﷺ میں مرتب ہو چکی تھیں۔ مثلاً ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’جو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات کو پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی: ۲۸۸۱، حسن، صحیح)
2-وہ احادیث جو کتابت قرآن سے متعلق ہیں وہ بھی آیات و سورتوں کی ترتیب توقیفی کی دلیل ہیں۔ مثلاً سیدنا عثمان ؓ فرماتے ہیں: آپﷺ وحی نازل ہونے کے بعد کاتبین وحی کو بلواتے اور فرماتے کہ ان آیتوں کو اس سورت میں اس جگہ پر رکھو جہاں اِن باتوں کا ذکر ہے۔(سنن ترمذی)
3- احادیث میں اگر کہیں سورتوں کی تلاوت کا غیر مرتب ذکر ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ سورتوں کی تلاوت میں ترتیب واجب نہیں بلکہ آگے پیچھے کی جا سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے۔ ان دلائل کے علاوہ ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ موجودہ ترتیب میں لفظ حم ایسی سورتوں کے شروع میں ہے جو یکے بعد دیگرے آتی ہیں۔لیکن ’’مسبحات‘‘(سبح سے شروع ہونے والی سورتیں)میں ایسی ترتیب نہیں ہے بلکہ یہ سورتیں الگ الگ مقامات پر آتی ہیں۔ اگر ترتیب آیات و سور اجتہادی ہوتیں تو حم کی طرح ’’مسبحات‘‘کو بھی ایک دوسرے کے بعدجمع کر دیا جاتا۔
4- علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کو بین دفتین ( دو گتوں کے درمیان) عہد صدیقی میں جمع کیا ۔ اس میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی نہیں کی ۔ اس کو بالکل ویسا ہی لکھا جیسا انہوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا یعنی ترتیب میں بھی کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں کی۔ ان کے بعد تابعین نے بھی اس ترتیب کو یاد کیا، لکھا اورنسلاً بعد نسل آج بھی اسی طرح ہمارے پاس محفوظ ہے۔(الاتقان:۷۱)
5- یہ ترتیب حفظ قرآن کے لئے آسان اور شوق دلانے والی ہے۔ ہر سورت کا ایک موضوع ہے اور مقاصد ہیں۔ لمبی سورت ہونا اس کے معجزانہ ہونے کی شرط نہیں۔ سورۃ الکوثر بھی تو معجز ہے۔
1-وہ احادیث جو سورتوں کے فضائل سے متعلق ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سورتیں عہد نبوی ﷺ میں مرتب ہو چکی تھیں۔ مثلاً ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’جو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات کو پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی: ۲۸۸۱، حسن، صحیح)
2-وہ احادیث جو کتابت قرآن سے متعلق ہیں وہ بھی آیات و سورتوں کی ترتیب توقیفی کی دلیل ہیں۔ مثلاً سیدنا عثمان ؓ فرماتے ہیں: آپﷺ وحی نازل ہونے کے بعد کاتبین وحی کو بلواتے اور فرماتے کہ ان آیتوں کو اس سورت میں اس جگہ پر رکھو جہاں اِن باتوں کا ذکر ہے۔(سنن ترمذی)
3- احادیث میں اگر کہیں سورتوں کی تلاوت کا غیر مرتب ذکر ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ سورتوں کی تلاوت میں ترتیب واجب نہیں بلکہ آگے پیچھے کی جا سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے۔ ان دلائل کے علاوہ ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ موجودہ ترتیب میں لفظ حم ایسی سورتوں کے شروع میں ہے جو یکے بعد دیگرے آتی ہیں۔لیکن ’’مسبحات‘‘(سبح سے شروع ہونے والی سورتیں)میں ایسی ترتیب نہیں ہے بلکہ یہ سورتیں الگ الگ مقامات پر آتی ہیں۔ اگر ترتیب آیات و سور اجتہادی ہوتیں تو حم کی طرح ’’مسبحات‘‘کو بھی ایک دوسرے کے بعدجمع کر دیا جاتا۔
4- علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کو بین دفتین ( دو گتوں کے درمیان) عہد صدیقی میں جمع کیا ۔ اس میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی نہیں کی ۔ اس کو بالکل ویسا ہی لکھا جیسا انہوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا یعنی ترتیب میں بھی کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں کی۔ ان کے بعد تابعین نے بھی اس ترتیب کو یاد کیا، لکھا اورنسلاً بعد نسل آج بھی اسی طرح ہمارے پاس محفوظ ہے۔(الاتقان:۷۱)
5- یہ ترتیب حفظ قرآن کے لئے آسان اور شوق دلانے والی ہے۔ ہر سورت کا ایک موضوع ہے اور مقاصد ہیں۔ لمبی سورت ہونا اس کے معجزانہ ہونے کی شرط نہیں۔ سورۃ الکوثر بھی تو معجز ہے۔