• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جناب من! میں نے آپ کو کہا تھا کہ یہ تو آپ کو چھوٹا سا مطالبہ ہے ، ذرا بڑا مطالبہ کیجئے !!
جناب والا میں نے عرض کیا تھا کہ:
جب ایک قاضی اپنا خط دوسرے قاضی کو بھیجتا ہے تو اصول یہ ہے کہ وہ اس پر مہر لگا کر اسے بند کرتا ہے اور گواہوں کے ساتھ بھیجتا ہے کہ اسی قاضی کا خط ہے۔ اگر البانی کی حیثیت بھی قاضی کی سی ہے اور آپ کی بھی تو پھر البانی کی کتاب پر مہر بھی ہونی چاہیے۔
آپ نے اس پر ایک بار پھر ایک ایسی بات کر دی جس کی تک نہیں ہے؟ جب ایک اصول ہے جو قضاۃ کے درمیان جاری رہا ہے تو اس پر چلیے۔ جب ایک ہیڈماسٹر جو صرف آپ کے کاغذات اٹیسٹ کرتا ہے اس کی تصدیق بھی بغیر مہر کے قبول نہیں ہوتی تو ایک قاضی کی گواہی کیسے قبول ہو جاتی ہے؟ تاریخ میں کتنی کتابیں ہیں جن کی نسبت غلط مصنفین کی طرف کی گئی ہے! حتی کہ امام شافعیؒ کی جانب پورا سفرنامہ کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ کے خیال میں البانی کی کتاب کی حیثیت "قاضی" کی کتاب کی ہے تو اسے اتنی اہمیت تو دیجیے۔

جناب من! اس کی دلیل آپ کو پیش کی ہے وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے، یہ الگ بات ہے کہ آپ اپنی اٹکل کی بناء پر اسے رد کر رہے ہو!!
معذرت چاہتا ہوں! آپ صرف حدیث مبارکہ پیش کرکے بضد ہیں کہ دلیل پیش ہو گئی۔ ایسے نہیں ہوتا۔ میں نے عرض کیا ہے:
آپ نے نہ تو اوپر موجود دونوں سوالوں کے جوابات دیے نہ وضاحت کی۔ اور نہ تیسرا مطالبہ پورا کیا۔
اب اگر آپ یہ کہیں کہ بس میں نے دلیل دے دی تم مان لو تو بھلا ایسے کون ذی عقل مان سکتا ہے؟؟ ثابت کیجیے تو ہم مانیں۔ عموما میں صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کا حوالہ یا استدلال کسی سے دکھائیے لیکن آپ کو اہل علم میں سے جان کر پچھلے دو سوالات کیے ہیں۔ براہ کرم ان کی وضاحت کیجیے۔ صرف عبارت لکھ کر یہ سمجھنا کہ ہمارا مدعی ثابت ہو گیا تو ناکافی ہوتا ہے۔
درحقیقت آپ کی بات میں اور اس حدیث میں بہت فرق ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ کی سنت کے طور پر قاضی کا یہ عمل ثابت ہو رہا ہے تب بھی دعوی یہ ہے کہ "گواہ کی کتاب سے گواہی درست یا قبول ہو جاتی ہے۔" یہ دعوی نہیں کہ "کتاب کی گواہی قبول ہے۔" دوم یہ کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں دعوی یہ تھا کہ "تورات میں رجم کا حکم موجود ہے"۔ یہودی نے انکار کیا اور عبد اللہ بن سلام رض نے اسے جھٹلایا یعنی اس بات کی تصدیق کی کہ موجود ہے۔ تو تورات منگوائی گئی اور حکم دیکھا گیا۔ یہ "حکم تورات میں موجود ہونا" تو عین دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ شہادت دعوی سے خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے خضر حیات بھائی نے اپنی کتاب میں ابجد لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں لکھی۔ اب شہادت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر شاہد نذیر اور محمد ارسلان بھائی کو بلائیں اور وہ یہ کہیں کہ ہاں یہ لکھی ہے۔ اور میں فلاں اور فلاں کو بلاؤں کہ نہیں یہ نہیں لکھی۔
لیکن اگر کتاب موجود ہے اور وہ منگوا کر دیکھی گئی تو یہ تو عین دعوی ہے۔ یہی تو آپ کا دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ اگر یہ شہادت ہے تو پھر دعوی کہاں ہے۔
پھر یہاں بڑے فرق ہیں:
نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
دوم کتاب آسمانی کتاب ہے اگرچہ تحریف شدہ۔ اس میں اور کسی بھی انسان کی کتاب میں واضح فرق ہے۔
سوم جس حکم کی یہاں بات ہوئی وہ بھی منصوص من اللہ ہے قطعی طور پر کیوں کہ نبی ﷺ کی تائید بلکہ اخبار غیبی اسے حاصل ہے کہ یہ حکم تمہاری کتاب میں ہے۔ نیز اس حکم کو قرآن کی تائید بھی حاصل ہے۔

اب بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
  1. دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  2. آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  3. آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  4. کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  5. آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔

ان باتوں کو آپ حل کریں گے تو آپ کا استدلال تام اور قابل قبول ہوگا۔ میرے بھائی مجتہدین کے مسائل میں اور ہمارے مسائل میں یہی فرق ہوتا ہے۔ آپ چاروں فقہ میں سے کسی ایک کے مجتہد کے کسی مسئلہ اور دلیل کو تحریر فرمائیں میں آپ کو یہ چیزیں حل کر کے دکھا دوں گا ان شاء اللہ اور اگر کوئی کمزوری یا خامی معلوم ہوئی تو وہ بھی بتا دوں گا۔


بھائی جان! آپ کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے، وہ کہتے ہیں کہ حکمت چین و حجت بنگال!!
آپ محدث کو حکومتی امور کا قاضی باور کروانا چاہتے ہو، جبکہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا! ویسے بھی جب آپ کو حکومت کے نامزد قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ نہ آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے!!
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔

جی جناب میں اپنی ایک غلطی ضرور تسلیم کرتا ہوں، کہ اردو ترجمہ میں ایک فقرہ کا ترجمہ رہ گیا! یہ غلطی ویسے تو میں نے کئی سال قبل ہی اپنی فائل میں درست کر لی تھی مگر شاید وہ محفوظ نہیں ہوئی! میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ آپ اسے ''ڈنڈی'' کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ ''ڈنڈی'' ماری نہیں تھی لگ گئی تھی!! خیر اس کی نشاندہی پر میں آپ کا شکر گذار ہوں!! میں اس کی تصحیح بھی کر دیتا ہوں! جزاک الله خیراً
سچ بات یہ ہے کہ میرا یہ خیال تھا کہ یہ ترجمہ آپ کا نہیں کسی اور کا کیا ہوا ہے اس لیے اسے ڈنڈی کہا تھا۔ اگر آپ کا سمجھتا تو اسے غلطی کہتا۔

لیکن بھائی جان آپ مدعا پھر بھی غلط ہے اور اور ہمارا مدعا پھر بھی درست ہے!
واقعی کمال ہے!! خیر آگے دیکھتے ہیں:
آپ کو عبارت سمجھاتے ہیں:
فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً(لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) اخذ کریں اس پر عمل تقلید ہے۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔
ان سے اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہو گا تو تقلید ٹھہرے گا کیونکہ آگے صریح الفاظ ہیں کہ فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط۔ اور یہ بات بالکل درست ہے، جیسا کہ شرح التلويح علی التوضيح میں ہے:
وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
ادلہ اربع کا تعلق مجتہد سے ہے نہ کہ مقلد سے، کیونکہ مقلد کے کی دلیل مجتہد کا قول ہے، لہٰذ ا مقلد کہے گا کہ یہ حکم میرے نزدیک اس لئے کیونکہ اس میں ابو حنیفہ کی یہ رائے ہے، اور ہر ایک معاملہ میں ان کی جو رائے ہے، میرے نزدیک بھی وہی ہے۔
محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔

آپ نے جو حوالہ تلویح کا پیش کیا ہے تو وہ تو درست ہے لیکن اس سے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟

پھر وہی بے تکی بات خود کرنی اور بے محل ابتسامہ!!، میاں جی یہ تعریف ہم نے ''دلائل خصم'' کے لحاظ سے پیش کی ہے، اور یہ بات ہم نے آپ کو پہلے بھی بتلائی تھی!! ہم پر تو اس تعریف کا ماننا لازم ہے ہی نہیں!!
میری سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کو میرے ابتسامہ سے چڑ کیا ہے؟ میں تو اسے بر محل جان رہا ہوں نا۔ آپ سے کس نے پوچھا ہے کہ یہ بر محل ہے یا بے محل؟
آپ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ کس کی کی ہوئی تعریف مانتے ہیں؟ وہ تعریف یہاں کر دیجیے۔

بھائی جان! آپ نے درست فرمایا کہ آپ کی عقل عاجز ہے! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی مت تقلید نے مار دی ہے!
ایک بات یہ بتلاو ! امام ابو حنیفہ استاد ہیں یا شاگرد!! وہ کبھی حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد بن جاتے ہیں، کبھی محمد بن حسن الشيبانی کے استاد!!
اشماریہ بھائی ! کیسی باتیں کرتے ہو!! آپ کے اس مسئلہ کا حل ابو زید الدیبوسی الحنفی نے بتلایا ہے، آگے بیان کیا جائے گا!!
آپ کو واضح جواب دینے میں کوئی مسئلہ ہے؟ قارئین بھی دیکھتے ہوں گے کہ یہ بندہ ہر سوال کا جواب گھما کر کیوں دیتا ہے!
اس کا واضح اور سیدھا سا جواب دے دیجیے:
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔

میرے بھائی! میں آپ کو اس کا ثبوت دے دیتا ہوں، جہاں نہ صرف یہ کہ صرف ایک عمل میں بلکہ مقلد کا مستقل اصول بتایا گیا ہے:
التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي
فالحاصل أن مسئلة الخيار من مهمات المسائل، وخالف أبو حنيفة فيه الجمهور، وكثيرا من الناس من المتقدمين، والمتأخرين صنفوا رسائل في ترديد مذهبه في هذه المسئلة، ورجح مولانا الشاه ولي الله المحدث الدهلوي قدس سره في رسائل مذهب الشافعي من جهة الأحاديث والنصوص، وكذلك قال شيخنا مدظله، يترجح مذهبه، وقال: الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسئلة، ونحن مقلدون، يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة، والله أعلم.
پس اس کا حاصل(بحث کا خلاصہ ) یہ ہے کہ مسئلہ خیار مہمات المسائل میں سے ہے، اور امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہور کی مخالفت کی ہے، اور متقدمین و متاخریں میں سے بہت سے لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے مسئلہ کی تردید میں رسائل لکھے ہیں، اور مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے رسائل میں امام شافعی کے مذہب کو احادیث و نصوص کی وجہ سے راجح قرار دیا ہے، اور اسی طرح ہمارے شیخ مد ظلہ(محمود حسن دیوبندی) نے بھی کہا کہ ترجیح امام شافعی کے مذہب کو ہے، اور کہا کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح ہے، اور ہم مقلد ہیں، ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں:
مجلد 01 صفحه 84التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 49التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – مكتبه رحمانيه
مجلد 01 صفحه 35 - 36التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – قديمي كتب خانه

یہ ہے مقلِدین حنفیہ دیوبندیہ کا اصول کہ حق واضح ہو جانے کے باوجود بھی اپنے مقلَد کے قول سے چمٹا رہتا ہے!!
میرے محترم!
جناب محترم @طاہر اسلام بھائی نے اس جملے کی جانب اشارہ فرمایا تھا تو میں نے اس کا جواب عرض کیا تھا:
متفق۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا علم جتنا بڑھتا جاتا ہے وہ تقلید سے اتنا نکلتا جاتا ہے (میری بات کا غلط مطلب نہ لیا جائے)۔ ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات انسان کسی خاص کیفیت کی وجہ سے یا کسی خاص مسئلہ میں اپنے موقف اور دوسرے موقف کے درمیان ابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔ یا بعض اوقات مخاطبین کی فہم کا لحاظ کرنا پڑتا ہے کہ میں تو اپنا موقف اس طرح بیان کر رہا ہوں لیکن سامنے موجود کچے علم والے ہر مسئلے میں بلا علم یہ کام نہ شروع کر دیں۔ ایسی صورتوں میں ایسے الفاظ ادا ہوتے ہیں۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کتنے ایسے مسئلے ہیں جن میں احناف یا متاخرین احناف بلکہ زمانہ قریب کے علماء احناف کا فتوی امام مالک یا شافعی یا احمد یا زفر رحمہم اللہ وغیرہ کے قول پر ہے۔ تو یہ تو تقلید شخصی ظاہر ہے نہیں ہوئی۔ لیکن اگر ہر جاہل و کم علم بھی علماء کے اقوال ایسے لیتا رہے گا تو ظاہر ہے وہ بہت سی جگہ نفس کا شکار ہو جائے گا اس وجہ سے اس کی کھلی اجازت نہیں دی جاتی۔
بہت سے احناف کے مناظرین و علماء نے اس مسئلہ کو بہت گھمبیر بھی کر دیا ہے اور بہت پیچیدہ بھی۔ لیکن حقیقتا یہ اس قدر جامد مسئلہ نہیں ہے۔
ویسے اس مسئلہ پر میں اور بھی بحث کر چکا ہوں۔ دل چاہے تو سرچ کر لیجیے اور وہاں میرا رد بھی فرما دیجیے۔ اس مقام پر میں نے ابن تیمیہؒ کے حوالے سے بھی غالبا کافی کچھ عرض کیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اور اب آپ کو چاہئے کہ تمام مقلدین کو پاگل خانہ داخل کروئیں!! ویسے یہ مشورہ پہلے ہی ایک حنفی ابو زید الدبوسی نے مقلدین کو دیا ہے، اور ماشاء اللہ سے یہ معتزلی فقہ حنفیہ کے اصول مرتب کرنے والوں میں سے ہیں:
فالمقلد في حاصل أمره ملحق نفسه بالبهائم في إتباع الأولاد الأمهات على مناهجها بلا تمييز فإن ألحق نفسه بها لفقده آلة التمييز فمعذور فيداوى ولا يناظر، وإن ألحقه بها ومعه آلة التمييز فالسيف أولى به حتى يقبل على الآلة فيستعملها ويجيب خطاب الله تعالى المفترض طاعته.
تقلید کا ما حاصل یہ ہے کہ مقلد اپنے آپ کو جانوروں کی ساتھ میں شامل کر لیتا ہے کہ جس طرح جانوروں کے بچے اپنی ماؤوں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے بلا تمیز (یعنی بغیر سوچے سمجھے)چلتے ہیں ، اور مقلد نے اپنے آپ کو جانوراس لئے بنا لیا ہے کہ وہ آلہ تمیز (یعنی عقل و شعور) نہیں رکھتا ہے تو اس کا علاج کرایا جائے۔ اور وہ مناظرہ نہ کرے (کیونکہ مقلد تو عقل و شعور نہیں رکھتا)، اور جب اس خود کو جانوروں میں شامل کر لیا ہے ، تو اس کے لئے تلوار (یعنی اسے مجبور کیا جائے) حتی کہ وہ اپنے آلہ تمیز (یعنی عقل و شعور) کو استعمال کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے خطاب (یعنی احکام) کو قبول کرے!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 جلد 01 تقويم الأدلة في أصول الفقه - أبو زيد الدّبوسيّ الحنفي - دار الكتب العلمية
تو جناب اشماریہ! صاحب اب آپ خود سمیت تمام مقلدین کا علاج کروائیں!! گدو بندر کا تومعلوم ہے نا؟ ویسے کراچی نفسیاتی ہسپتال بھی ہے!!

میرے محترم بهائی جان! یہ سیاق و سباق کو دیکھے بغیر اقتباس دینے کی عادت جناب میں کہاں سے آگئی؟؟؟
جناب عالی! دبوسیؒ نے یہاں حجج مضلہ کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ان چیزوں کا جنہیں مناظرہ میں بطور دلیل کے پیش کیا جائے اور وہ گمراہ کریں۔
جیسے میں مناظرہ کے دوران آپ کو کہوں کہ آپ فلاں چیز پر دلیل بیان کریں اور آپ کہیں کہ بس فلاں نے کہا ہے اور فلاں کا کہنا میرے لیے دلیل ہے، تم بھی مانو۔ تو ایسی تقلید اور ایسے الہام کے پیش کرنے کا ذکر دبوسیؒ نے یہاں کیا ہے۔ اور جناب نے یہ تقلید کے کرنے پر لا چسپاں کیا!
دبوسیؒ نے اس سے پہلے یہ عنوان قائم کیا ہے:
القول في أسماء الحجج التي هي مضلة
هذه الأسماء أربعة: التقليد، ثم الإلهام، ثم استصحاب الحال، ثم الطرد.

پھر آگے طویل بحث کی ہے۔ پھر آپ کے ذکر کردہ جملوں سے پہلے قول بالتقلید کرنے والے سے مناظرہ کرنے کا طریقہ سکھایا ہے:
ولأنا نقول للمقلد: إنك مبطل فقلدني لأني عاقل، فإن قلدك فقد رجع عن مذهبه وأقر أنه مبطل، وإن لم يقلدك فقد رجع عن حجته لأنه لما لم يقلدك فقد زعم أن التقليد باطل.
ولأنا نقول له: أتقلد إمامك على أنه محق أم على أنه مبطل، أم على أنك جاهل بحاله؟
فإن قال على أنه مبطل، أو على أني جاهل بحاله لم يناظر لأنه ممن لم يميز الحق من الباطل فيكون مجنونا، أو ممن زعم أن الباطل متبع فيكون سفيها.
فيبقى قوله على أني أتبعه على أنه محق وقط لا يعرف المحق من غيره بنفس الخبر.
فالمقلد في حاصل أمره ملحق نفسه بالبهائم في إتباع الأولاد الأمهات على مناهجها بلا تمييز فإن ألحق نفسه بها لفقده آلة التمييز فمعذور فيداوى ولا يناظر، وإن ألحقه بها ومعه آلة التمييز فالسيف أولى به حتى يقبل على الآلة فيستعملها ويجيب خطاب الله تعالى المفترض طاعته.

اور جسے میں نے ہائیلائٹ کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے "تو وہ معذور ہے سو اس کا علاج کیا جائے گا اور 'اس سے مناظرہ نہیں کیا جائے گا'"۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حشویہ کا مخصوص مذہب ہے جس کا دبوسی نے رد کیا ہے اور رد سے پہلے ان کا مذہب بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمؑ کی تقلید و اتباع واجب تھی اس لیے جو ان کے بعد آتے جائیں گے ان کی تقلید بھی واجب ہے۔ ذرا سا عقل سے کام لیجیے تو اس تقلید کا کون قائل ہے ہم میں سے؟؟ کیا ہم قابیل کی تقلید کرتے ہیں؟
اس ساری بحث کو آپ نے عامی کی تقلید پر منطبق کر دیا اور دبوسیؒ کا حشویہ کے پیروکار کے بارے میں موجود حکم یہاں لا فٹ کیا۔

(ویسے ایک اضافی سوال یہ ہے کہ کراچی نفسیاتی ہسپتال کا مشورہ آپ نے اس لیے تو نہیں دیا کہ وہاں کے (غالبا) ایڈ منسٹریٹر ڈاکٹر مبین اختر استمناء بالید کو جائز اور صحت کے لیے بہتر فرماتے ہیں؟؟)

بھائی جان! ہمارے نزدیک تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سنت ہیں! ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کرنے کا حکم قرآن نے بھی دیا ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی!
قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿سورة الأحزاب ٢١﴾
البتہ تمہارے لیے رسول الله میں اچھا نمونہ ہے جو الله اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا ، فَقَالُوا : وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ : أَمَّا أَنَا ، فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : " أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي " .
صحيح البخاري » كِتَاب النِّكَاحِ » بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ
حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
میرے محترم اتباع سنت کا تو آپ کو ماشاء اللہ بہت شوق ہے۔ لیکن عمل پوری حدیث پر کیجیے نا پھر۔ پہلے کسی یہودی کو بن دیکھیں بتائیں کہ تورات میں فلاں حکم ہے پھر اس کے انکار پر تورات منگوا کر اس سے دیکھیے۔
یہ اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟
باقی استدلال پر بات گزر گئی ہے۔

اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
نہیں۔۔۔۔۔ ٹرک کی بتی کے آگے لگانا چاہتا ہوں۔ پیچھے لگ کر کیا کریں گے!!
استدلال کو ثابت کرنے کا مطالبہ کیا تو ہے۔ اعتراض پیش کیا ہے کہ ثابت نہیں ہو رہا۔ جو ثابت کرنے کا طریقہ ہے اس سے ثابت کریں ورنہ کسی اور سے دکھائیں۔ اور کیا اعتراض پیش کرنے کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟؟

بھائی جان! ہم نے اس آیت سے استدلال پیش نہیں کیا ہے۔ ہمارا استدلال ہم نے آپ کو پچھلی تحریر میں پھر پیان کر دیا تھا:
بھائی جان تو میں نے کب کہا تھا کہ آپ نے آیت سے استدلال پیش کیا ہے؟؟؟

جی بالکل اور اسی سوال کے لئے المرغنیانی کی مثال پیش کر دی تھی!! آپ نے مرغنيانی کو قاضی کی حیثیت والا نہيں کہا تھا، مگر آپ کے جو اعتراضات تھے وہ المرغنیانی پر صادق آتے تھے!!
ہک ہا!!! اسی لیے تو آپ سے عرض کرتا ہوں کہ بجائے مثالیں دینے کے سیدھا سادہ جواب دیا کیجیے۔ مثالیں دے کر گھمایا پھرایا نہ کیجیے۔ بات مبہم ہو جاتی ہے۔ کوئی چار پانچ صفحوں بعد جا کر پتا چلتا ہے کہ مثال کس لیے دی گئی تھی۔ سیدھا جواب دیا کریں تو ہم جیسے کم علموں کے لیے بھی آسانی ہو جائے۔

یہ کس حکیم نے آپ کو کہا ہے کہ تعریف کے بعد نقد نہیں کیا جاسکتا؟ ، بلکہ یہی بات تو ہم آپ کو بتلا رہے ہیں، تعریف کو تعریف کی جگہ رہنے دیں، اس تعریف سے امام محمد پر جرح ختم نہیں ہو جاتی!! فتدبر!! جیسے حافظ ، عالم، فقیہ وغیرہ کے تعریفی کلمات سے جرح رفع نہیں ہوتی!! فتدبر!!
یار یہ کس حکیم نے آپ کو کہا ہے کہ حافظ وغیرہ کے تعریفی الفاظ سے جرح ختم نہیں ہوتی؟؟ آخر پھر اس تعریف کا مقصد کیا ہوتا ہے اگر اس کا معنی ہی مراد نہ لیا جا سکے۔ ایک شخص حافظ بھی ہو یعنی حافظ الحدیث یعنی جسے حدیثیں حفظ ہوں یعنی۔۔۔۔۔۔ صحیح طرح یاد ہوں۔ اور وہی شخص اعلی درجہ کا ضعیف بھی ہو یعنی اسے حدیثیں یاد نہ رہتی ہوں۔۔۔۔ کیا یہ دونوں باتیں ایک وقت میں ایک شخص میں جمع ہو سکتی ہیں؟؟؟
پھر بھی اگر آپ بضد ہیں تو پھر میرے خیال میں حافظ کا مطلب یہی رہ جائے گا کہ وہ شخص ضعیف ہے لیکن اس کا تعلق حافظ سوہن حلوہ والے سے ہے۔ جب معنی ہی مراد نہ لیا جائے تو تعریف کیا اچار ڈالنے کے لیے کی گئی ہے؟

امام شافعی نے امام محمد کے اصول فقہ پر نقد کی ہے، آپ کو یہ بتلایا تھا!!
شکر ہے آپ نے مجھے یہ قیمتی بات بتا دی۔ پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟؟؟

جی بلکل! اور بھی غم ہیں زمانے میں فورم کے سوا!!
یقینا

جواب مکمل۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تو آپ نے امام طحاوی کا تقلید سے متعلق آپ نے یہ موقف بیان کیا ہے۔ اگرچہ اس کا شان ورود کچھ اور تھا لیکن جب قائل یہ کہہ رہا ہو تو ہمیں کیا اعتراض! لہذا آپ امام طحاوی رح کے اس موقف کو ہی دیکھ لیجیے۔
امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
تو میں نے بھی یہی عرض کیا ہے کہ:
میرا خیال ہے کہ یہ ایک عقلی غلطی ہے آپ حضرات کی۔ خود آپ میں سے بہت سے حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایسا جاہل صرف تقلید ہی کر سکتا ہے۔
نہیں میرے بھائی! آپ کی بات اور امام طحاویؒ کی بات میں بہت فرق ہے! امام طحاوی ؒ کے نزدیک تقلید وہی کرتا ہے جو غبی ہو یا عصی ہو، یعنی کہ یا تو جس کے اعصاب یعنی عقل و شعور کام نہ کرتے ہوں، یا جاہل ہو۔ ان کے علاوہ کوئی تقلید نہیں کرتا! کیونکہ'' إلا'' نے یہ تقید پیدا کیا ہے۔
جبکہ آپ کے بیان میں یہ ہے کہ ایسا جاہل صرف تقلید ہی کرسکتا ہے، اور اسے جاہل کے علاوہ بھی تقلید کر سکتے ہیں !! اور یقیناً آپ اسی کے قائل بھی ہو! کیونکہ آپ اپنے علماء کو نہ عقل وشعور سے خالی، اور نہ جاہل قرار دیتے ہو!!
امام طحاوی کے حنفی ہونے پر تمام علماء متفق ہیں اور انہیں پہلے شافعی اور پھر بعد میں حنفی ذکر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی بہت دلچسپ ہے لیکن موقع سے غیر متعلق سمجھ کر ذکر نہیں کرتا۔ امام طحاوی کی شرح معانی الآثار پڑھیے۔ فقہ حنفی کے مطابق دلائل پیش کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں: وجميع ما بينا في هذا الباب هو قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد رحمهم الله تعالى۔ اور یہی ان کا طرز ہے پوری شرح معانی الآثار میں۔ اس کے علاوہ انہوں نے "مناقب ابی حنیفہ" بھی تحریر فرمائی ہے۔
بلکل جناب! ہم امام طحاویؒ کے منہج سے واقف ہیں۔
امام طحاویؒ کے بارے میں یہ تفصیل جاننے کے بعد اس کلام کی جانب آئیے:
میں نے انہیں ایک مسئلہ میں ایک دن جواب دیا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابو حنیفہؒ کا قول نہیں ہے! (ذرا ابو عبید بن جرثومہ کے الفاظ دیکھیے۔ اگر امام طحاوی حنفی مقلد نہ ہوتے تو انہیں یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟۔۔۔ناقل)
کیونکہ ابو عبیدہ جرثومہ بھی امام طحاویؒ کو آپ کی طرح امام ابو حنیفہؒ کا مقلد سمجھ بیٹھے تھے، کیونکہ انہیں بھی شاید آپ کی طرح حنفی ہونے اور امام ابو حنیفہؒ کا مقلد ہونے کا فرق سمجھ نہیں آرہا تھا! اور اسی بات کی امام طحاویؒ نے نفی کی ہے! ویسے آپ بھی کمال کے آدمی ہو!! لعنت کے معنی رحمت اسی طرح اخذ کئے جاتے ہیں!! فتدبر!!
تو میں نے کہا: کیا ہر وہ چیز جو ابوحنیفہ نے کہی ہو میں وہی کہتا ہوں؟ (اب ذرا لفظ "کل" دیکھیے۔ بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتے کہ میں ابو حنیفہ کا مقلد نہیں ہوں یا اور کچھ، یہ کہا کہ کیا "ہر وہ چیز جو ابو حنیفہ کہیں۔۔۔"۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے مسائل میں طحاوی کا مسلک وہی ہے جو ابو حنیفہ کا ہے اور یہ کوئی استدلال ضعیف نہیں ہے بلکہ شرح معانی الآثار اس پر گواہ ہے۔ ویسے بھی امام طحاوی "اعلم الناس بمذہب ابی حنیفہ" کہا جاتا ہے اور یہ الفاظ غالبا ابن حجر عسقلانیؒ کے ہیں۔۔۔۔ ناقل)۔
بلکل جناب! بہت سے مسائل میں امام طحاویؒ کا مؤقف وہی ہے جو امام ابوحنیفہ کا ہے! لیکن اس سے امام طحاویؒ کا مقلد ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ یہاں تو امام طحاویؒ نے اس بات کی صراحت کردی کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کے تمام مؤقف کو قبول نہیں کرتے!! یہ بھی آپ نے عجیب کہی کہ ''بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتے کہ میں ابو حنیفہؒ کا مقلد نہیں ہوں'' بھائی جان، جب امام طحاویؒ نے تقلیدی نظریہ وعمل کی نفی کر دی تو یہ کیونکر لازم آیا کہ وہ لفظ بھی وہی استعمال کریں !! وگرنہ نہیں مانا جائے گا، جبکہ آگے امام طحاویؒ نے لفظ بھی بیان کر دیئے ہیں!!
تو انہوں نے کہا: میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا (الفاظ دیکھیے۔ امام طحاویؒ کا مرتبہ مجتہدین میں مجتہدین فی المسائل کا ہے۔ اور ظاہر ہے وہ نرے مقلد نہیں ہیں۔ جب ابو عبید نے انہیں صرف مقلد محض سمجھا تو انہوں نے اس کا رد فرمایا جسے ذکر کیا گیا ہے۔۔۔۔ ناقل)
جی بلکل ابو عبیدہ جرثومہ امام طحاویؒ کو آپ کی طرح امام ابو حنیفہؒ کا مقلد سمجھتے تھے، اسی لئے انہوں نے کہا کہ ''میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا'' اور آپ بھی ابو عبیدہ جرثومہ کی طرح امام طحاوی کو مقلد شمار کرتے ہو، جس کی امام طحاویؒ نفی کرتے ہیں!!
تو اس سے معلوم ہوا کہ امام طحاوی "غیر مقلد" ہونے کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ وہ تقلید محض اس کے لیے روا جانتے تھے جو یا تو عصی ہو (جب اجتہاد یا استدلال کرنے لگے تو اپنے نفس پر چل کر اپنے خالق کی طاعت سے نکل جائے) اور یا غبی ہو (علم ہی نہ رکھتا ہو کہ استدلال کر سکے)۔ اس کے علاوہ کے لیے وہ تقلید و اجتہاد کے ما بین جو دیگر درجات ہیں ان کے قائل تھے۔
جناب من! امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی، اور یہ بتلا دیا کہ تقلید صرف عصی یعنی عقل وشعور سے خالی یا غبی یعنی جاہل ہی کرتا ہے!!
امام طحاویؒ تو اپنے مقلد ہونے کی نفی کر دیں، لیکن آپ انہیں زبردستی مقلد قرار دینے پر مصر ہیں!! باقی آپ نے جو باتیں کی ہیں، یہ آپ کی یا آپ کے علماء کی تخلیق ہے، امام طحاویؒ نے بہر حال اپنے مقلد ہونے کی نفی بھی کردی اور تقلید کرنے والے کو عصی یعنی عقل وشعور سے خالی اور غبی یعنی جاہل قرار دیا!!
یہاں میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ ہم لوگ بھی ہر عالم و غیر عالم کی ایک ہی طرح کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ تفصیل کے لیے "تقلید کی شرعی حیثیت" مصنفہ مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ پڑھیے۔
تقی عثمانی صاحب کی اس کتاب کا میں مطالعہ کر چکا ہوں، اگر آپ کو اس کتاب سے کوئی دلیل ملے تو آپ یہاں بیان کیجئے، خیر جب ذکر ہوا ہے مولانا تقی عثمانی کی کتاب ''تقلید کی شرعی حیثیت'' کا تو ایک وہاں سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا ایک لطیفہ پیش کر دیتا ہوں:
'' صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ عنہم کے زمانے میں چونکہ خوفِ خدا اور فکر آخرت کا غلبہ تھا اس لئے اُس دور میں ''تقلید مطلق'' سے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ لوگ اپنی خواہشات کے تابع کبھی کسی مجتہد کا اور کبھی کسی مجتہد کا قول اختیار کریں گے، اس لئے اُس دور میں ''تقلید مطلق'' پر بے روک ٹوک عمل ہوتا رہا، اور اُس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی گئی،
لیکن بعد کے فقہاء نے جب دیکھا کہ دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے اور لوگوں پر نفسانیت غالب آتی جارہی ہے تو اس وقت انہوں نے مذکورہ بالا انتظامی مصلحت سے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں کو صرف تقلید شخصی پر عمل کرنا چاہئے، اور ''تقلید مطلق'' کا طریقہ ترک کردینا چاہئے، یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا، بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا، ''
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 65 تقلید کی شرعی حیثیت۔ مفتی تقی احمد عثمانی ۔ مکتبہ دار العلوم کراچی
کتاب کا نام ہے ''تقلید کی شرعی حیثیت'' اور صاحب فرماتے ہیں ''تقلید مطلق'' کو تو ترک دینا چاہئے، اور یہ ''تقلید شخصی'' کوئی شرعی حکم نہیں تھا!! تو پھر کس تقلید کے اثبات میں شرعی حیثیت ثابت ہوئی؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟!!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے محترم میں نے اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کیا تھا:
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟
استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
ور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
آپ نے نہ تو اوپر موجود دونوں سوالوں کے جوابات دیے نہ وضاحت کی۔ اور نہ تیسرا مطالبہ پورا کیا۔
میں نے آپ کو عرض کیا تھا کہ:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
آپ کو اس پر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں!
اب اگر آپ یہ کہیں کہ بس میں نے دلیل دے دی تم مان لو تو بھلا ایسے کون ذی عقل مان سکتا ہے؟؟ ثابت کیجیے تو ہم مانیں۔
بھائی جان، ہم نے آپ کو حدیث پیش کی ہے اور اس حدیث سے استدلال، آپ کی نظر میں اس استدلال کا کوئی نقص ہے تو وہ پیش کریں!! ہم نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ ہم نے کہا ہے تو مان لو!!
عموما میں صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کا حوالہ یا استدلال کسی سے دکھائیے لیکن آپ کو اہل علم میں سے جان کر پچھلے دو سوالات کیے ہیں۔ براہ کرم ان کی وضاحت کیجیے۔ صرف عبارت لکھ کر یہ سمجھنا کہ ہمارا مدعی ثابت ہو گیا تو ناکافی ہوتا ہے۔
بھائی جان! آپ اعتراض پیش کریں ہم آپ کے اعتراض کا ان شاء اللہ، اللہ کی توفیق سے ضرور جواب دیں گے! لیکن ٹرک کی بتی کے پیچھے میں بھاگنے والا نہیں!!
درحقیقت آپ کی بات میں اور اس حدیث میں بہت فرق ہے۔
اب آپ نے اعتراض پیش کیا نا، اس کا جواب ہم ان شاء اللہ آپ کو دیں گے!!
اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ کی سنت کے طور پر قاضی کا یہ عمل ثابت ہو رہا ہے تب بھی دعوی یہ ہے کہ "گواہ کی کتاب سے گواہی درست یا قبول ہو جاتی ہے۔" یہ دعوی نہیں کہ "کتاب کی گواہی قبول ہے۔" دوم یہ کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں دعوی یہ تھا کہ "تورات میں رجم کا حکم موجود ہے"۔ یہودی نے انکار کیا اور عبد اللہ بن سلام رض نے اسے جھٹلایا یعنی اس بات کی تصدیق کی کہ موجود ہے۔ تو تورات منگوائی گئی اور حکم دیکھا گیا۔ یہ "حکم تورات میں موجود ہونا" تو عین دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ شہادت دعوی سے خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے خضر حیات بھائی نے اپنی کتاب میں ابجد لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں لکھی۔ اب شہادت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر شاہد نذیر اور محمد ارسلان بھائی کو بلائیں اور وہ یہ کہیں کہ ہاں یہ لکھی ہے۔ اور میں فلاں اور فلاں کو بلاؤں کہ نہیں یہ نہیں لکھی۔
لیکن اگر کتاب موجود ہے اور وہ منگوا کر دیکھی گئی تو یہ تو عین دعوی ہے۔ یہی تو آپ کا دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ اگر یہ شہادت ہے تو پھر دعوی کہاں ہے۔
پھر یہاں بڑے فرق ہیں:
نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
دوم کتاب آسمانی کتاب ہے اگرچہ تحریف شدہ۔ اس میں اور کسی بھی انسان کی کتاب میں واضح فرق ہے۔
سوم جس حکم کی یہاں بات ہوئی وہ بھی منصوص من اللہ ہے قطعی طور پر کیوں کہ نبی ﷺ کی تائید بلکہ اخبار غیبی اسے حاصل ہے کہ یہ حکم تمہاری کتاب میں ہے۔ نیز اس حکم کو قرآن کی تائید بھی حاصل ہے۔
ان میں سے کوئی بھی بات ہمارے استدلال کی بنیاد نہیں!!
اب بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
  1. دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  2. آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  3. آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  4. کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  5. آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
آپ نے بات دہرائی ہے، ہم جواب دہرا دیتے ہیں:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
اشماریہ بھائی! میری بات تو شاید آپ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن جائیں، لیکن اب میں جو بات پیش کرنے لگا ہوں ، اس کے بارے میں مجھے حد درجہ یقین ہے کہ آپ کو فوراً سمجھ آجائے گی، کیونکہ قرآن حدیث سے مستنبط بات کا سمجھنا مقلد کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن اپنے علماء کی باتیں نہ صرف سمجھ آجاتیں ہیں، بلکہ وہ اسے دوسروں کو سمجھانے کی بھی کاوش کرتا ہے۔ تو لیجئے جناب! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دیوبند کتابوں کے گواہ ہونے سے متعلق:
(۱) اہل سنت والجماعت کے طریق سے منحرف ہیں جیسا کہ خود مودودی صاحب اور جماعت کے اونچے ذمہ داران کی کتب اس پر شاہد ہیں
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: 156/ ھ= 109/ ھ مورخہMar 01,2008، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
(۱)پاکستان میں جوغیرمقلدین آپ کو پریشان کرتے ہیں، ان کا حال سعودی عرب کے حضرات کے بالکل خلاف ہے، سعودی عرب میں چوٹی کے علمائے کرام تقلید کو نہ حرام قرار دیتے ہیں نہ شرک کہتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ان علمائے کرام کی تقلید کو اختیارکیے ہوئے ہے، امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے عامةً وہاں کے اہل علم مقلد ہیں جیسا کہ خود ان کی کتب اس پر شاہدِ عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 1644/ ھ= 302/ تھ مورخہNov 10,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
اکرام سے مراد خاطر مدارات نیز مہمان کی دلجوئی اور اس کے ظاہری مناسب حال رواداری اور رکھ رکھاوٴ ہے اور یہ ناجائز نہیں۔ حضرت نبی اکرم صل یاللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں بعض مرتبہ کفار کے وفود آتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو مسجد نبوی میں خیمہ لگاکر ٹھیراتے اور ان کی مہمان داری کا پورا خیال رکھتے تھے، نیز یہودی پڑوسیوں وغیرہ سے خاطر مدارات کے معاملات اور مخالفین اسلام کی دلجوئی اوران کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی بکثرت منقول ہے، جیسا کہ کتب سیر وتواریخ اس پر شاہد عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 650=460/ھ مورخہMar 29,2009، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
مفتی شفیع احمدعثمانی (المتوفی ۱۹۸۶/)علماء دیوبند کے ممتاز علماء اور مقتدا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی عربی ادبیت بھی کسی دوسرے ہمعصر سے کم نظر نہیں آتی ۔آپ نثر ونظم دونوں میدانوں کے ماہر فن معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کی تالیف ''نفحات''اس کی شاہد عدل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عربی زبان وادب میں علمائے دیوبند کی خدمات کاتنقیدی جائزہ - ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 99 ‏، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء
اشماریہ بھائی! اب آپ کتاب کو گواہ ماننے کو تیار ہو!! کہیں اب آپ یہ تو نہیں کہو گے کہ یہاں شاہد کہا گیا ہے، اور ہماری بحث گواہی کی ہو رہی ہے؟ اور پھر یہ مطالبہ کرنے کا ارادہ تو نہیں کہ اصول و قاعدہ دکھلاؤ کہ شاہد اور گواہ مترادف الفاظ ہیں؟
یہی نہیں آپ نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب سے ابن تیمیہ کا موقف پیش کیا، وہ کیا آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے خود ہی بتلایا تھا؟ آپ نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب سے پیش کیا، اور اسے آپ نے بھی تقلید نہ ہونے کی صراحت کردی، جیسا کہ آپ نے فرمایا:
مجھے حیرت ہے کہ میں تو ابن تیمیہؒ کا مقلد ہوں نہیں۔ اور جناب والا خود کو ویسے ہی تقلید سے دور بتاتے ہیں۔ تو پھر ابن تیمیہؒ کا یہ فتوی کہ یہ اقوال و افعال کی بدعت ہے کس کے لیے ذکر کیا ہے؟؟؟
ان باتوں کو آپ حل کریں گے تو آپ کا استدلال تام اور قابل قبول ہوگا۔ میرے بھائی مجتہدین کے مسائل میں اور ہمارے مسائل میں یہی فرق ہوتا ہے۔ آپ چاروں فقہ میں سے کسی ایک کے مجتہد کے کسی مسئلہ اور دلیل کو تحریر فرمائیں میں آپ کو یہ چیزیں حل کر کے دکھا دوں گا ان شاء اللہ اور اگر کوئی کمزوری یا خامی معلوم ہوئی تو وہ بھی بتا دوں گا۔
ماشاء اللہ! اب مقلدین بتلائیں گے کہ مجتہدین کے استدلال کی کمزوری کیا کیاہیں !! ایک مسئلہ آپ کو پیش کیا ہے، دیکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ کا جواب تو مکمل ہو گیا، اور آپ نے جواب نہ دینا ہی مناسب سمجھا ، کوئی بات نہیں، کوئی زور جبر نہیں، مگر بس ایک التماس ہے کہ ایسی ''بھڑک'' مارنے سے بھی گریز کریں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
انتہائی معذرت چاہتا ہوں۔ میں نے امام محمدؒ کے موقف کا ذکر کیا ہے اور یہ مسئلہ میری معلومات کی حد تک المبسوط میں موجود نہیں ہے جس کی میں نے بات کی ہے۔
رہ گئی بات یہ کہ ہدایہ کی بنیاد قدوری اور المبسوط ہی ہیں تو یہ میں نے یقینا کہا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ہدایہ مکمل انہی پر مشتمل ہے۔ وہاں مثال ہدایہ کی اس لیے دی تھی کہ اگر آپ نے المبسوط نہیں دیکھی تو ہدایہ کا مطالعہ کیا ہوگا وہاں کیا تمام مسائل تحری والے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
اس لیے چوں کہ پیش کردہ مسئلہ میری بات یعنی امام محمدؒ کے موقف کو قبول کرنے سے متعلق ہی نہیں ہے اس لیے میں اس پر بحث بھی نہیں کرتا۔
اشماریہ بھائی! موضوع امام محمدؒ نہیں، امام محمدؒ تو ایک مثال ہیں، ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیں یہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے۔ بہر حال یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے اور احناف میں ہے بھی متفقہ! یعنی قبول تو سب نے ہی کیا ہے!!
آپ مسئلہ پر گفتگو کرنے سے گریز فرمارہیں ہیں ، جبکہ آپ نے ابھی ابھی فرمایا تھا کہ:
آپ چاروں فقہ میں سے کسی ایک کے مجتہد کے کسی مسئلہ اور دلیل کو تحریر فرمائیں میں آپ کو یہ چیزیں حل کر کے دکھا دوں گا ان شاء اللہ اور اگر کوئی کمزوری یا خامی معلوم ہوئی تو وہ بھی بتا دوں گا۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!!
ویسے عرض یہ ہے کہ آپ یا تو اس مسئلہ کو غلط سمجھ رہے ہیں یا پھر غلط بیان کر رہے ہیں۔ تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔ بہرحال میں کہہ چکا ہوں کہ یہ اس بحث کا مقام نہیں ہے اس لیے ہم آگے چلتے ہیں۔
میں بھی در گزر کر ہی دیتا لیکن آپ نے پھر اپنی فقہ حنفیہ کی خامی تسلیم کرنے کی بجائے، ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا دیا!
ایسے کیسے آگے چلے جائیں، اب تو رکنا پڑے گا!
بھائی جان، میں نے اس مسئلہ کا جو معنی بیان کیا ہے بلکل درست بیان کیا ہے!
اشماریہ بھائی! اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے اس دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں!!
میں نے ہدایہ کے حوالہ سے جو نماز میں جان بوجھ کر ''حدث''، یعنی ''پد'' یا ''پاد'' مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے، وہ بلکل درست بیان کیا ہے، نہ میں غلط سمجھ رہا ہوں ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں، مگر آپ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ''تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔'' یہ آپ نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو بلکہ خود کو بھی! یا پھر آپ کے جملہ میں ''ہمارے یہاں'' سے مراد احناف کے علاوہ کوئی اور ہیں۔
اشماریہ بھائی! یہ فنکاری کم از کم میرے سامنے نہ کیجئے!!
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی

اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ
اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛
اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛
احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛
اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛
سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اشماریہ بھائی! اب بتلائیں، ہم نے جو سمجھا ہے، اور بتلایا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں؟ دوم کہ آپ نے یہ جو فرمایا کہ
تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔
حنفیوں کی مراد تو میں نے آپ کو بتلا دی، اب اس کے برخلاف مراد لینے والے یہ '' ہمارے یہاں'' کن کے یہاں؟ ان کا کچھ تعارف کروا دیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
عرض کیا ہے
تقلید کو ہم نے پڑھا۔
دیکھا
جانچا
سوچا
غور کیا
سوچ و بچار سے کام لیا
جانبین کے دلائل کو پرکھا
تولا
ناپا
محسوس کیا
لیکن پھر ایک لمحے کو۔۔۔
میں رک سا گیا
اپنے گریبان میں جھانکا
کہیں میں جانب داری کا شکار تو نہیں
عجلت میں تونہیں
اس لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوبارہ اس سارے جھمیلے کو شروع تا آخر جھیلا
تب ۔۔ ہاں تب کہیں جاکر
میں اس نتیجے تک پہنچا
کہ--
غیر عالم کیلئے تقلید کا انکار وہی کرے گا جو خودجہل میں غرقاب ہو ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
میرے محترم بھائی ذرا سا غور فرمایا کریں۔
آپ نے سیاق و سباق تو بہت اچھا پیش کیا ہے لیکن مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ مقام آپ کا کچھ اور ہے۔ میں نے حوالہ فتاوی کبری کا دیا تھا مجموع الفتاوی کا نہیں۔ مجموع میرے پاس ہے ہی نہیں۔
اشماریہ بھائی! آپ ہمیں کیا مریخ کے باسی سمجھتے ہو؟ بھائی جان ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں!! آپ نے یہ عجیب کہی کہ مجموع الفتاوی اپ کے پاس نہیں!! میرے بھائی ممکن ہے آپ کے پاس مجموع الفتاوی کی ہارڈ کاپی نہ ہو، لیکن جس سافٹ وئیر سے اپ یہ اقتباس کاپی کر رہے ہیں ، وہ غالباً المکتبة الشاملة ہے، اور اس المکتبة الشاملة میں مجموع الفتاوی بھی ہوگا، ذرا تلاش کر لیں۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہ اقتباس اور حوالہ آپ کتاب سے دیکھ کر بمع اعراب اپنے کی بورڈ سے تحریر فرماتے ہیں!! المكتبة الشاملة سے فائدہ اٹھانے میں کوئی قباحت نہیں، یہ بہت مفید ہے، اور اس مفید سافٹ وئیر سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ میں خود بھی اسے استعمال کرتا ہوں، اور اسی سے اقتباس کو کاپی کرتا ہوں، الا یہ کہ کوئی کتاب المكتبة الشاملة میں نہ ہو، تو پھر اسے خود دم تحریر ميں لانا مجبوری ہو جاتی ہے!!
فتاوی کبری کی مکمل عبارت یہ ہے:
الْوَجْهُ الثَّامِنُ: أَنَّ هَذَا خِلَافُ إجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا، فَإِنَّهُمْ أَجْمَعُوا فِي هَذَا الْبَابِ وَفِي غَيْرِهِ عَلَى وُجُوبِ إتْبَاعِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَذَمِّ مَا أَحْدَثَهُ أَهْلُ الْكَلَامِ مِنْ الْجَهْمِيَّةِ وَنَحْوِهِمْ. مِثْلُ مَا رَوَاهُ أَبُو الْقَاسِمِ اللَّالْكَائِيُّ فِي أُصُولِ السُّنَّةِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ: اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنْ الْمَشْرِقِ إلَى الْمَغْرِبِ عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَتْ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ، فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا، وَلَكِنْ أَفْتُوا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، ثُمَّ سَكَتُوا فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةٍ لَا شَيْءٍ.
الْوَجْهُ التَّاسِعُ: فَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْإِجْمَاعَ عَلَى وُجُوبِ الْإِفْتَاءِ فِي بَابِ الصِّفَاتِ بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، دُونَ قَوْلِ جَهْمٍ الْمُتَضَمِّنِ لِلنَّفْيِ، فَمَنْ قَالَ لَا يُتَعَرَّضُ لِأَحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَآيَاتِهَا عِنْدَ الْعَوَامّ، وَلَا يُكْتَبُ بِهَا إلَى الْبِلَادِ، وَلَا فِي الْفَتَاوَى الْمُتَعَلِّقَةِ بِهَا، بَلْ يَعْتَقِدُ مَا ذَكَرَهُ مِنْ النَّفْيِ، فَقَدْ خَالَفَ هَذَا الْإِجْمَاعَ، وَمِنْ أَقَلِّ مَا قِيلَ فِيهِمْ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - حُكْمِي فِي أَهْلِ الْكَلَامِ أَنْ يُضْرَبُوا بِالْجَرِيدِ وَالنِّعَالِ، وَيُطَافُ بِهِمْ فِي الْقَبَائِلِ وَالْعَشَائِرِ، وَيُقَالُ هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَأَقْبَلَ عَلَى الْكَلَامِ.

یہاں ابن تیمیہ نے امام محمدؒ کے قول کو اپنے دعوی اجماع پر بطور دلیل و شاہد کے بیان کیا ہے۔ اعتماد گر نہیں تھا تو پھر یہ دلیل کیسے ہوا؟
اور اگلی وجہ وجہ تاسع میں جزم کے ساتھ کہا ہے: فَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْإِجْمَاعَ عَلَى وُجُوبِ الْإِفْتَاءِ فِي بَابِ الصِّفَاتِ بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، دُونَ قَوْلِ جَهْمٍ الْمُتَضَمِّنِ لِلنَّفْيِ
اب یہ دونوں چیزیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ قول امام محمدؒ سے ثابت تھا جبھی بطور دلیل ذکر کیا اور جبھی جزم فرمایا۔
اب آپ اپنے اصول پر آئیے کہ محدث کا یہ فیصلہ یا گواہی ہے۔ قبول کیجیے تو امام محمد پر سے یہ جرح ختم ہو جاتی ہے کہ جب قائل ہی وضاحت سے کہہ رہا ہے تو پھر کسی اور کی کیا حیثیت رہتی ہے۔
میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس قول کے متعلق صراحت تلاش کررہا تھا، مجھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مندرجہ ذیل قول مجموع الفتاوی میں ملا ہے، جس سے یہ ثابت ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے صراحت کے ساتھ مذکورہ قول کو امام محمد سے ثابت قرار دیا ہے۔
وَثَبَتَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ - صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ - أَنَّهُ قَالَ: " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنْ الشَّرْقِ وَالْغَرْبِ: عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ فَمَنْ فَسَّرَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ. فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا وَلَكِنْ آمَنُوا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا. فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ " انْتَهَى
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 04 – 05 جلد 04 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 09 جلد 04 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

لیکن ، اشماریہ بھائی! آپ نے غالباً میرے مراسلہ کا بغور مطالعہ نہیں کیا، آپ کے اس اشکال کا جواب میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں، اقتباس پیش خدمت ہے ، اور ان الفاظ کو ملون کر دیا ہے جو آپ کی نظر کرم کی سے شاید محروم رہ گئے ہیں:
اور اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بالفرض اس کی قول کی سند کو صحیح قرار دے بھی دیتے تو، اس کا ثابت ہونا لازم نہیں آتا ، بلکہ شیخ الاسلام کا یہ فیصلہ غلط قرار پاتا۔ کیونکہ اس کی سند مجہول رایوں پر مبنی ہے؛ ہم آپ کو وہ قول ابو القاسم اللالکائی کی کتاب شرح اصول السنٕة سے پیش کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَكِيمٍ السُّلَمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ الْمَهْدِيِّ بْنِ يُونُسَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سُلَيْمَانَ دَاوُدَ بْنَ طَلْحَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي حَنِيفَةَ الدَّوْسِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ غَيْرِ تَغْيِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ , فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ , فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ , فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا , وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا , فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 432 - 433 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 254 - 355 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - مكتب دار البصيرة بالإسكندرية
اگر کوئی مقلد دم خم رکھتا ہے، تو وہ اس سند میں تمام رایوں کا ثقہ ہونا تو بعد میں پوچھیں گے، اسماء الرجال کی کتب سے ان کا تعارف ہی کروادے!! لیکن ان تمام راویوں کا!!
لہٰذا اول تو امام محمد سے ان کا نہ قول ثابت ہوتا ہے، اور نہ ہی امام محمد کے جہمی عقیدہ کی کے خلاف ہونے تصریح!! ایک بات اور عرض کردوں، اگر کہیں امام محمد کا قول صحیح سند سے لے بھی آؤ گے تب بھی اس کے قابل قبول ہونے میں ایک بہت بڑی علت حائل ہوتی ہے، وہ آپ کو اس وقت بیان کریں گے، جب آپ کسی صحیح سند سے امام محمد کا ایسا قول لاؤ گے!!
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا شرح اصول السنة کی جس روایت کو اپنے فیصلہ کی دلیل بنایا ہے وہ روایت انتہائی مردود ہے، کیونکہ وہ مجہول رواة پر مشتمل ہے۔ لہٰذا شیخ الاسلام کا فیصلہ غلط قرار پاتا ہے۔ اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں، امام حاکم کی مستدرك الحاكم ہی دیکھ لیں! امام ذہبی نے ان کئی احادیث کو نا قابل قبول ٹھہرایا ہے جسے امام حاکم نے درست قرار دیا۔
اور یہ بات ہم آپ کو پہلے بھی بتلا چکے ہیں، غالباً آپ بھول گئے۔ ایک بار پھر پیش خدمت ہے!!
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
اس کے بعد بھی اگر آپ کو کوئی اشکال ہے تو پیش کریں!!
(میں کافی حیران ہوا تھا ابتداء آپ کا یہ سیاق و سباق پڑھ کر۔ کیوں کہ میں پوسٹنگ سے پہلے سیاق و سباق اور بعض اوقات پوری بحث پڑھتا ہوں پھر پوسٹ کرتا ہوں۔)
مزید یہ اسی پر بس نہیں ہے کہ ابن تیمیہؒ نے اس بات پر جزم کیا ہے بلکہ امام طحاویؒ بھی اپنی العقیدۃ الطحاویۃ کے شروع میں فرماتے ہیں:
هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة : أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري وأبي عبدالله محمد بن الحسن الشيباني رضوان الله عليهم أجمعين وما يعتقدون من أصول الدين ويدينون به رب العالمين
اور آگے جو عقیدہ بیان فرماتے ہیں وہ بھی جہمیہ کا نہیں بلکہ اہلسنت و الجماعت کا ہے۔
بلکل امام طحاوی نے یہ فرمایا ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ یہ امام طحاوی کا ایک ظن ہے، جبکہ دلائل امام طحاوی ہے ظن کے خلاف ہیں!! فتدبر!
اب یہ دونوں چیزیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ قول امام محمدؒ سے ثابت تھا جبھی بطور دلیل ذکر کیا اور جبھی جزم فرمایا۔
جو روایت جزم کے ساتھ کی جائے، اس کا صحیح ہونا کب سے لازم آگیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کی مانوں یا ان تین کی؟
امام احمد بن حنبل ، امام يحیی بن معین، امام ابی حاتم، امام ابی زرعہ رحمہ اللہ عنہم کی مان لیں!!
اس سند کے رواۃ کی تحقیق و بحث کی تو اب غالبا ضرورت نہیں رہی کیوں کہ ابن تیمیہ کی گواہی موجود ہے اس کے امام محمد کے قول ہونے پر۔
اشماریہ بھائی! آپ کو پچھلے مراسلہ میں بھی اس سے قبل کے کی تحریر کے اقتباس پیش کر کرے یاد دلایا تھا کہ آپ سند سے مستغنی نہیں ہو سکتے!!
یہ بھی عجیب کہی!! جناب من! آپ کو یہ کس نے کہا کہ گواہی کو ماننا سند سے مستغنی کر دیتا ہے؟ بھائی جان یہی سند تو گواہی ہوتی ہے!! اور اس سند پر حکم فیصلہ!! کیا کریں کہ
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجا ست
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
میرے بھائی جان! آپ کویہ کس نے کہہ دیا کہ اب سند کے رواة کی تحقیق کی ضرورت نہیں رہی، آپ کو ابھی اوپر بیان کیا گیا، کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ فیصلہ کیونکر غلط ہے۔
البتہ یہ جو آپ نے آخری جملہ فرمایا ہے تو مہربانی فرما کر وہ علت بھی میدان میں لے ہی آئیے۔ میں کون سا یہاں چھولے بیچ رہا ہوں۔ آپ کے اشکالات حل کرنے کے لیے ہی تو حاضر ہوں۔
اشماریہ بھائی آپ سے عرض کیا تو ہے کہ آپ ان راواة کا پہلے تعارف تو کروادیں، جو شرح اصول السنة کی سند میں ہیں! ان رواة کی ثقہ ہونے نہ ہونے کا تو بعد میں معلوم ہو گا!!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجھے حیرت ہے کہ میں تو ابن تیمیہؒ کا مقلد ہوں نہیں۔ اور جناب والا خود کو ویسے ہی تقلید سے دور بتاتے ہیں۔ تو پھر ابن تیمیہؒ کا یہ فتوی کہ یہ اقوال و افعال کی بدعت ہے کس کے لیے ذکر کیا ہے؟؟؟
ماشاءاللہ! کیا بات ہے بھائی کی! کیا کسی کا مؤقف اور فتویٰ بتلانے کی سوائے تقلید کے کوئی وجہ ہوتی ہی نہیں!! تو میاں جی، آپ تو خیر حنفی مقلد ہو، میں تو کسی کا مقلد نہیں، پھر آپ مجھے کیوں علماء کے حوالے پیش کرتے ہو!! بھائی جان! آپ کو ہر بات میں تقلید کیوں نظر آتی ہے؟ خیر اس موقع پر ایک شعر یاد آیا:
جو بھی ملتا ہے تم سا ہی نظر آتا ہے
پاس
آتے ہی مگر خواب بکھرجاتا ہے
بہر صورت مرجئہ کی دو قسمیں ہیں: ایک مرجئۃ البدعۃ اور دوسری مرجئۃ السنۃ۔
نہیں دو نہیں دو سے زیادہ ہیں، وہ ان کے مؤقف میں اختلاف کی بناء پر ہے، ہے بہر حال بدعت، کسی کی بدعت کم کسی کی بدعت زیادہ!
اس دوسری قسم کو مرجئۃ الفقہاء بھی کہا جاتا ہے۔ اور انہیں مرجئہ کہنے کی وجہ یہ بنی کہ یہ ایمان کے بسیط ہونے کے قائل تھے ۔
یہ مرجٔة الفقهاء ایمان کو بسیط قرار دیں یا کچھ ، وہ بہر حال ارجاء کی بنیاد کہ عمل کو ایمان مین شامل نہیں سمجھتے، اور اس میں مرجئة کے تمام فرقے متفق ہیں!! خواہ وہ مرجئة الكرامية ہوں یا مرجئة الفقهاء!!
ان کے پاس اس سلسلے میں اپنے مضبوط دلائل ہیں۔
اشماریہ بھائی! ان مضبوط دلائل پر ایک واقعہ یاد آیا:
ذكر أَبُو بكر بن مُحَمَّد بن اللَّبَّادُ قَالَ نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي دَاوُدَ البرلسى عَن مُحَمَّد بن عبد الله بن عبد الحكم قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ قَالَ أَبُو يُوسُفَ لأَرُوحَنَّ اللَّيْلَةَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي الرَّشِيدَ بِقَاصِمَةِ الظَّهْرِ عَلَى الْمَدَنِيِّينَ فِي الْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ فَتَقُولُ مَاذَا قَالَ إِنَّهُ لَا يُقْضَى إِلا بِشَاهِدَيْنِ لأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَبَى إِلا الشَّاهِدَيْنِ وَتَلا الآيَةَ فِي الدَّيْنِ قَالَ فَإِنْ قَالُوا لَكَ فَمَنِ الشَّاهِدَانِ اللَّذَان يقبلان وَلَا يُحْكَمُ إِلا بِهِمَا قَالَ أَقُولُ حُرَّانِ مُسْلِمَانِ عَدْلانِ قَالَ فَقُلْتُ يُقَالُ لَكَ فَلِمَ أَجَزْتَ شَهَادَةَ النَّصَارَى فِي الْحُقُوقِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تبَارك وَتَعَالَى {من رجالكم} وَقَالَ {مِمَّن ترْضونَ من الشُّهَدَاء} قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
''امام شافعیؒ نے کہا کہ قاضی ابو یوسف نے کہا: آج رات میں امیر المومنین ہارون الرشید کے پاس ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنے کے مسئلہ میں اہل مدینہ کی کمر توڑ دلیل لے کر جاؤں گا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے؟ قاضی ابو یوسفؒ نے کہا: میں یہ کہوں گا کہ قرآن مجید نے دو عادل مسلمانوں کی گواہی لے کر مدعی کے حق میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جس کے خلاف اہل مدینہ مدعی کے پاس ایک ہی گواہ کی موجودگی میں مدعی سے قسم لے کر فیصلہ کرنے کے قائل ہیں، اس شخص نے کہا کہ وہ دونوں گواہ کیسے ہونے چاہئے؟ امام یوسفؒ نے کہا کہ دو آزاد عادل مسلمان ہونے چاہئے، اس شخص نے کہا کہ تم سے اہل مدینہ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تم حقوق میں دو عادل مسلمانوں کے بجائے عیسائیوں کی گواہی پر بھی فیصلہ کرنے کے قائل ہو، پھر تمہاری یہ قرآنی دلیل تمہارے مؤقف کو باطل کردے گی، ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟ اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 139 – 140 جلد 01 الكتاب: الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - مكتب المطبوعات الإسلامية بحلب
اسی طرح مرجئة کے پاس اپنے ارجاء کو حق ثابت کرنے کے دلائل کا بھی یہی حال ہے، کہ وہ صرف کمزور عقل کے حامل لوگوں کو ہی مظبوط معلوم ہو سکتے ہیں!!
اور ان دلائل کی روشنی میں ظاہر ہے انہیں بدعتی نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا ابن تیمیہؒ کا یہ فتوی درست نہیں ہے۔
ان دلائل کی کیا نوعیت ہے، وہ ابھی ابھی بیان کیا، اور عمل کو ایمان میں شامل نہ سمجھنا ارجاء اور بدعت ہے اس پر بالکل دلائل و برہان موجود ہیں، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ فتوی ان دلائل و برہان کی روشنی میں بلکل درست ہے!! اور یہ صرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ نہیں۔
ومن العجيب أن غسان كان يحكي عن أبي حنيفة رحمه الله مثل مذهبه، ويعده من المرجئة، ولعله كذب كذلك عليه، لعمري! كان يقال لأبي حنيفة وأصحابه مرجئة السنة. وعده كثير من أصحاب المقالات من جملة المرجئة، ولعل السبب فيه أنه لما كان يقول: الإيمان هو التصديق بالقلب، وهو لا يزيد ولا ينقص، ظنوا أنه يؤخر العمل عن الإيمان. والرجل مع تخريجه في العمل كيف يفتي بترك العمل؟ وله سبب آخر، وهو أنه كان يخالف القدرية، والمعتزلة الذين ظهروا في الصدر الأول. والمعتزلة كانوا يلقبون كل من خالفهم في القدر مرجئا، وكذلك الوعيدية من الخوارج. فلا يبعد أن اللقب إنما لزمه من فريقي المعتزلة والخوارج، والله أعلم.
(انڈر لائن لفظ کو علامہ لکھنویؒ نے "تبحرہ فی العلم" نقل کیا ہے اور عبد الفتاح ابو غدہؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔)
میں آپ کو علامہ شہرستانی ؒ کی مکمل عبارت نقل کرتا ہوں:
3- الغسانية:
أصحاب غسان الكوفي. زعم أن الإيمان هو المعرفة بالله تعالى وبرسوله، والإقرار بما أنزل الله، وبما جاء به الرسول في الجملة دون التفصيل، والإيمان لا يزيد ولا ينقص، وزعم أن قائلا لو قال: أعلم أن الله تعالى قد حرم أكل الخنزير، ولا أدري هل الخنزير الذي حرمه: هذه الشاة أم غيرها؟ كان مؤمنا، ولو قال: أعلم أن الله تعالى فرض الحج إلى الكعبة، غير أني لا أدري أين الكعبة؟ ولعلها بالهند؛ كان مؤمنا ومقصوده أن أمثال هذه الاعتقادات أمور وراء الإيمان، لا أنه كان شاكا في هذه الأمور، فإن عاقلا لا يستجيز من عقله أن يشك في أن الكعبة: إلى أي جهة هي؟ وأن الفرق بن الخنزير والشاة ظاهر.
ومن العجيب أن غسان كان يحكي عن أبي حنيفة رحمه الله مثل مذهبه، ويعده من المرجئة، ولعله كذب كذلك عليه، لعمري! كان يقال لأبي حنيفة وأصحابه مرجئة السنة. وعده كثير من أصحاب المقالات من جملة المرجئة، ولعل السبب فيه أنه لما كان يقول: الإيمان هو التصديق بالقلب، وهو لا يزيد ولا ينقص، ظنوا أنه يؤخر العمل عن الإيمان. والرجل مع تخريجه في العمل كيف يفتي بترك العمل؟ وله سبب آخر، وهو أنه كان يخالف القدرية، والمعتزلة الذين ظهروا في الصدر الأول. والمعتزلة كانوا يلقبون كل من خالفهم في القدر مرجئا، وكذلك الوعيدية من الخوارج. فلا يبعد أن اللقب إنما لزمه من فريقي المعتزلة والخوارج، والله أعلم.

الغسانیہ: یہ غسان کوفی (کے ہم خیال) کا گروہ ہے۔ اس کا قول ہے کہ ''ایمان (نام) ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی تفصیل کے بجائے اجمالی معرفت کا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (شریعت و احکام ) لائے ان کے علی التفصیل نہیں بلکہ الاجمال اقرار کا'' نیز یہ کہ ایمان (عمل نیک سے) نہ تو بڑھتا ہے اور نہ (عمل بد) سے گھٹتا ہے۔ اس کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ: ''میں تو یہ جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے سور کھانا حرام کردیا ہے مگر مجھے یہ نہیں معلوم کہ اس نے جس سور کو حرام قرار دیا ہے، کیا وہ یہی بکری ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟'' (تو یہ بات کہنے والا شخص) مومن ہے۔ اور اگر اس شخص نے یہ کہا کہ: ''میں جانتا ہوں کہ اللہ نے کعبہ کا حج فرض کیا ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ کعبہ کہاں ہے؟ شاید وہ ہندوستان میں ہے۔'' (تو یہ) شخص بھی صاحب ایمان ہے۔ اس سے (غسان کا) مقصد یہ بتانا ہے کہ اس قسم کے اعتقادات (مثلاً حرمت خنزیر اور فرضیت حج کعبہ) ایسے امور ہیں کو ایمان سے الگ ہیں ایسا نہیں کہ وہ ان امور کے متعلق شک کرتا تھا کیونکہ کسی صاحب عقل کو اس بارے میں شک نہیں ہو سکتا کہ کعبہ کس سمت وجہت میں ہے؟ (اسی طرح) سور اور بکری میں فرق ظاہر ہے (اور کسی شبہ وشک کی گنجائش نہیں ہے)۔
یہ بات تعجب خیز ہے کہ غسان (امام) ابو حنیفہ رحمۃ اللہ عنہ سے اپنے مذہب جیسی روایات نقل کرتا اور انہیں المرجئة میں شمار کرتا تھا۔ (امام ابو حنیفہؒ پر) جھوٹا الزام لگایا ہے۔ میری حیات کی قسم! (امام) ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کو مرجئة السنة کہا جاتا تھا اور انہیں بہت سے اصحاب المقالات (عقائد پر رلکھنے والوں نے مرجئة میں محسوب کیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا قول ہے کہ: ''ایمان تصدیق بالقلب کا (نام) ہے اور وہ نہ تو بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔'' اس سے ان لوگوں نے یہ گمان کیا کہ وہ ایمان سے عمل کو موخر کرتے تھے۔ مگر وہ عمل میں شدید انہماک کے باوجود ترک عمل کا فتویٰ کیسے دے سکتے تھے؟ (امام ابو حنیفہؒ کو مرجئة کہنے کا) ایک دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ القدریہ والمعتزلہ کی جو صدر اول (اسلام کے ابتدائی زمانے) میں ظاہر ہوئے، مخالفت کرتے تھے۔ اور معتزلہ ان تمام لوگوں کو جو قدر (تقدید کے مسئلہ) میں ان کے مخالف تھے المرجئة کہتے تھے۔ یہی حال خوارج میں سے الوعیدیہ کا تھا (کہ وہ بھی اپنے مخالفین کو المرجئة کہتے تھے) اس لئے یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ (المرجئة کا) لقب (امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) کو المعتزلہ اور خوارج کے فرقون کی طرف سے ملا ہو۔ اللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 141 جلد 01 - الملل والنحل - أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - مؤسسة الحلبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 141 جلد 01 - الملل والنحل - أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 139 جلد 01 - الملل والنحل - أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار الكتب العلمية
اشماریہ بھائی! وہ کہتے ہیں کہ:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو!
اشماریہ بھائی! ایمان کے متعلق آپ کو اپنا موقف معلوم بھی ہے؟ آپ کا اور غیسانیہ کے موقف میں فرق کیا ہے؟ یاد رہے کہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اسی فرقہ کو حنفیہ کا قرار دیا ہے!! اور یہ اس طرح ہے کہ جیسے آپ کو دیوبندی کہا جائے تو یہ حنفی ہونے کے مخالف نہیں!!
پہلے میں آپ کو عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی عبارت پیش کرتا ہوں۔
(فصل) وأما المرجئة ففرقها اثنتا عشرة فرقة: الجهمية والصالحية والشمرية واليونسية وليونانية ولنجارية والغيلانية والشبيبية والحنفية والمعاذية والمريسية والكرامية. وإنما سموا المرجئة لأنها زعمت أن الواحد من المكلفين إذا قال لا إله إلا الله محمد رسول الله وفعل بعد ذلك سائر المعاصي لم يدخل النار أصلاً، سأن الإيمان قول بلا عمل، والأعمال الشرائع، والإيمان قول مجرّد، والناس لا يتفاضلون في الإيمان، وأن إيمانهم والإيمان الملائكة والأنبياء واحد لا يزيد ولا ينقص ولا يستثنی فيه، فمن أقرّ بلسانه ولم يعمل فهو مؤمن.
مرجئہ کے بارہ فرقے ہیں؛ جہمیہ، صالحیہ، شمریہ، یونسیہ، یونانیہ، غیلانیہ، شبیبیہ، حنفیہ، معاذیہ، مریسیہ، کرامیہ۔ اس فرقہ کو مرجئہ اس لئے کہتے ہیں کہ ان کے گمان میں جب کوئی مکّلف لا إله إلا الله محمد رسول الله پڑھ لیتا ہے اور اس کے بعد ہر قسم کے گناہ کرتا رہے پھر بھی وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ نیز ایمان محض قول کا نام ہے، اس میں عمل داخل نہیں اور اعمال شرائع یعنی مقرر کئے گئے احکام ہیں، اور ایمان صرف قول یعنی کلمہ توحید کا کہنا ہے۔ اور لوگوں کی ایمان میں ایک دوسرے سے کوئی فضیلت نہیں، اور تحقیق کہ انسانوں کا ایمان ، ملائکہ کا ایمان اور انبیاء کا ایمان برابر ہے، اور ایمان زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتاہے، اور ایمان میں استثناء نہیں ہے (یعنی یہ نہ کہا جائے کہ انشاء اللہ مومن ہوں)، پس جو شخص زبان سے اقرار کر لے اور عمل نہ بھی کرے وہ مومن ہے۔
------
------
وأما الحنفية، فهم بعض أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت، زعموا أن الإيمان هو المعرفة، والإقرار بالله ورسوله، وبما جاء من عنده جملة علی ما ذكره البرهوتي في كتاب الشجرة.
حنفیہ: یہ ابوحنیفہؒ کے بعض اصحاب ہیں، ان کے گمان ہے کہ ایمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور جو کچھ آپ صلی اللہ لیکر آئے اس کی معرفت اور اقرار کا نام ہے۔ جیسا کہ البرہوتی نے کتاب الشجرۃ میں بیان کیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 127- 128 جلد 01 الغنية لِطٰالبي طَريق الحَق عَزوَجَل – عبد القادر بن أبي صالح الجيلاني - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 227 - 230 جلد 01 غنية الطالبين مع ترجمه فارسي – عبد القادر بن أبي صالح الجيلاني - مطبع امند، مطبع حسامي، لاهور سنه 1312
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 156 - 158 جلد 01 غنية الطالبين مع ترجمه اردو – عبد القادر بن أبي صالح الجيلاني - مطبع صديقي، لاهور
اب بتلائیے! کہ غسان کے اور آپ کے مؤقف میں فرق کیا ہے؟ کوئی فر ق نہیں، آپ کے ہاں بھی ایمان زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے، اور عمل اس میں داخل نہیں۔ نہ آپ کے ہاں ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے، نہ آپ کے ہاں ایمان میں استثناء ہے، بلکہ آپ کے ہاں تو کچھ علماء نے جو ایمان میں استثناء کا قائل ہو اسے کافر قرار دیا ہے، اور باقی نے یہ کہہ کر کافی قرار دیا ہے کہ اگر ایمان میں شک ہوتو کافر ہے، اور آپ کے ہاں بھی تمام لوگوں کا ایمان ، ملائکہ کا ایمان اور انبیاء کا ایمان برابر ہے۔تمام کہ تمام باتوں کے آپ قائل ہو!یہ غسانیہ حنفیہ ہی ہیں جیسے دیوبندی حنفیہ ہیں!!
ہاں اس بات کے آپ قائل نہیں کہ معاصی دخول النار کا سبب نہیں ہو سکتی ہے، مگر ارجاء صرف اسی کا نام نہیں یہ ارجاء کی گمراہی کا بلند درجہ ہے، اور مرجئہ کے تمام فرقوں کا ایک ہی مؤقف نہیں ہے، پھر بھی وہ مرجئہ ہی ہیں!! فتدبر!!

اب میں ان تمام کے ثبوت نقل کرتا ہوں:
ویسے تو آپ نے خود علامہ شہرستانیؒ کے حوالہ سے ایمان کے متعلق حنفیہ کا قول بیان کر دیا ہے لیکن ایک آسان حوالہ آپ کی کتاب آسان نماز سے پیش کرتا ہوں:
ایمان مجمل یہ ہے: اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌم بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ
ایمان لایا میں اللہ پر جیسا وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کئے، زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کے ساتھ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 07 آسان نماز ۔ عاشق الہٰی بلند شہری
یہ وہ ایمان مجمل ہے جسے بچّوں کو بچپن میں ہی ناظرہ قرآن کے مدرسہ میں ہی یاد کروا کر انہیں ارجاء کی بدعت کے راستے پر ڈالا جاتا ہے۔

آپ کے امام اعظم سے منسوب الفقه الأكبر ، لیکن آپ کے ہاں معتبر ہے ملا علی قاری اور دیگر نے اس کی شروحات بھی لکھی ہیں، اس کتاب میں ایمان کسے قرار دیا گیا ہے، یہاں صریح الفاظ میں ، عمل کے ایمان میں شامل نہ ہونے اور ایمان کے کم اور زیادہ ہونے کی نفی اور مزید کہ آسمان والوں کا یعنی ملائکہ کا اور اہل زمین یعنی انسانوں کا ایمان برار قرار دیا گیا ہے، اور تمام مومنین کا ایمان برابر، یعنی ملائکہ، انبیاء اور امتی کا ایمان ایک برابر!
وَالْإِيمَان هُوَ الْإِقْرَار والتصديق وإيمان أهل السَّمَاء وَالْأَرْض لَا يزِيد وَلَا ينقص، والمؤمنون مستوون فِي الْإِيمَان والتوحيد متفاضلون فِي الْأَعْمَال والاسلام هُوَ التَّسْلِيم والإنقياد لأوامر الله تَعَالَى فَمن طَرِيق اللُّغَة فرق بَين الْإِسْلَام وَالْإِيمَان وَلَكِن لَا يكون إِيمَان بِلَا اسلام وَلَا يُوجد إِسْلَام بِلَا إِيمَان وهما كالظهر مَعَ الْبَطن وَالدّين اسْم وَاقع على الْإِيمَان وَالْإِسْلَام والشرائع كلهَا
اور ایمان یہ اقرار زبانی اور تصدیق دلِّی ہے، اور ایمان اہل آسمان وزمین کا نہ بڑھتا ہے یہ گھٹتا ہے، اور تمام مومنین ایمان و توحید میں برابر ہیں، اور اعمال میں باہم بعض کو بعض پر فضیلت ہے، اور اسلام کے معنی ہیں گردن جھکانا اور احکام الہٰی کت واسطے فرمانبرداری کرنا، اس طرح لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام میں فرق ہے، لیکن ایمان اسلام کے بغیر اسی طرح اسلام ایمان کے بغیر نہ ہوگا، ان دونوں کا تعلق آپس میں ایسا ہے جیسا آدمی کے لئے پیٹھ کا پیٹ کے ساتھ تعلق ہے، اور دین ایک نام ہے جو ایمان، اسلام اور(شرائع) تمام احکام کے مجموعہ پر واقع ہوتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 60 – 62 الفقه الأكبر في المقدمة عين الهداية (جديد) مع ترجمه اردو - ينسب لأبي حنيفة النعمان بن ثابت بن زوطي – دار الاشاعت، کراتشي

یہ البحر الرائق شرح كنز الدقائق بھی ملاحظہ فرمائیں، یہ ابن نجیم المصری، جنہیں محرّر مذہب نعمانی و ابو حنیفہ ثانی کہا جاتا ہے، وہ کیا بیان کرتے ہیں
الْخَامِسُ مَسْأَلَةُ الِاسْتِثْنَاءِ فِي الْإِيمَانِ فَاعْلَمْ أَنَّ عِبَارَتَهُمْ قَدْ اخْتَلَفَتْ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ فَذَهَبَ طَائِفَةٌ مِنْ الْحَنَفِيَّةِ إلَى تَكْفِيرِ مَنْ قَالَ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ وَلَمْ يُقَيِّدُوهُ بِأَنْ يَكُونَ شَاكًّا فِي إيمَانِهِ وَمِنْهُمْ الْأَتْقَانِيُّ فِي غَايَةِ الْبَيَانِ وَصَرَّحَ فِي رَوْضَةِ الْعُلَمَاءِ بِأَنَّ قَوْلَهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ يَرْفَعُ إيمَانَهُ فَيَبْقَى بِلَا إيمَانٍ فَلَا يَجُوزُ الِاقْتِدَاءُ بِهِ وَذَكَرَ فِي الْفَتَاوَى الظَّهِيرِيَّةِ مِنْ الْمَوَاعِظِ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ سُئِلَ عَمَّنْ يُسْتَثْنَى فِي الْإِيمَانِ فَقَالَ إنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ذَكَرَ فِي كِتَابِهِ ثَلَاثَةَ أَصْنَافٍ قَالَ تَعَالَى فِي مَوْضِعٍ {أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا} [الأنفال: 4] وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ {أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا} [النساء: 151] وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ {مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لا إِلَى هَؤُلاءِ وَلا إِلَى هَؤُلاءِ} [النساء: 143] فَمَنْ قَالَ بِالِاسْتِثْنَاءِ فِي الْإِيمَانِ فَهُوَ مِنْ جُمْلَةِ الْمُذَبْذَبِينَ اهـ.
وَفِي الْخُلَاصَةِ وَالْبَزَّازِيَّةِ مِنْ كِتَابِ النِّكَاحِ عَنْ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ مَنْ قَالَ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ فَهُوَ كَافِرٌ لَا تَجُوزُ الْمُنَاكَحَةُ مَعَهُ قَالَ الشَّيْخُ أَبُو حَفْصٍ فِي فَوَائِدِهِ لَا يَنْبَغِي لِلْحَنَفِيِّ أَنْ يُزَوِّجَ بِنْتَهُ مِنْ رَجُلٍ شَفْعَوِيِّ الْمَذْهَبِ وَهَكَذَا قَالَ بَعْضُ مَشَايِخِنَا وَلَكِنْ يَتَزَوَّجُ بِنْتَهمْ زَادَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ تَنْزِيلًا لَهُمْ مَنْزِلَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ اهـ.
وَذَهَبَ طَائِفَةٌ إلَى تَكْفِيرِ مَنْ شَكَّ مِنْهُمْ فِي إيمَانِهِ بِقَوْلِهِ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ عَلَى وَجْهِ الشَّكِّ لَا مُطْلَقًا وَهُوَ الْحَقُّ لِأَنَّهُ لَا مُسْلِمَ يَشُكُّ فِي إيمَانِهِ وَقَوْلُ الطَّائِفَةِ الْأُولَى أَنَّهُ يَكْفُرُ غَلَطٌ لِأَنَّهُ لَا خِلَافَ بَيْنِ الْعُلَمَاءِ فِي أَنَّهُ لَا يُقَالُ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ لِلشَّكِّ فِي ثُبُوتِهِ لِلْحَالِ بَلْ ثُبُوتُهُ فِي الْحَالِ مَجْزُومٌ بِهِ كَمَا نَقَلَهُ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْهُمَامِ فِي الْمُسَايَرَةِ وَإِنَّمَا مَحَلُّ الِاخْتِلَافِ فِي جَوَازِهِ لِقَصْدِ إيمَانِ الْمُوَافَاةِ فَذَهَبَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ إلَى مَنْعِهِ وَعَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 80- 81 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 49 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري – طبع قدیم ، دار الكتب علميه - بيروت
انہوں نے بیان کیا ہے کہ فقہاء احناف کا ایک گروہ ، ایمان مین استثناء کا قول یعنی کہ یہ کہے کہ ان شاء اللہ مومن ہوں، کہنے پر کافر قرار دیتا ہے، اور باقی اس پر کہ جو شک کرتے ہوئے استثناء کا قول کہے، لیکن اس کے جواز کا قائل کوئی بھی نہیں! بلکہ اس کو جائز کہنے والوں کو کوئی حنفی کافر قرار دے رہا ہے، کوئی حنفی کہتا ہے کہ یہ اہل الکتاب کی مانند ہیں، اور ان کی عورت سے نکاح کر سکتے ہیں ، مگر اپنی عورت ان کے ہاں نہیں بیاہ سکتے!
لیکن اب دیکھئے گا، ہمارے یہ علم الکلام میں جھک مارنے والے حنفی فقہاء و علماء آکر ہمیں سمجھائیں گے کہ نہیں!نہیں! یہ ارجاء کے مسئلہ میں حنفیوں کا دیگر سے صرف لفظی اختلاف ہے!!
مسلمان ایک لفظ ہے، کافر بھی لفظ ہے، مسلمان کو کافر کہنے میں ایک لفظ کا ہی تو اختلاف ہے، دیکھ لیں ہم نے اختلاف لفظی ہونا ثابت کردیا!!

امام ابو حنیفہؒ بہر حال اس مسئلہ میں شامل نہیں، یہ بعد کے حنفیوں کا ارجاء میں ترقی کرنا اور گمراہی میں آگے بڑھنا ہے!
اب آتے ہیں علامہ شہرستانیؒ کی عبارت پر۔
یہ تو ثابت ہوا کہ احناف کا آج بھی ایمان کے متعلق مؤقف وہی ہے جو غسان کا تھا، علامہ شہرستانی، نے ان حکایات کا ذکر نہیں نہیں کیا ، وہ جو امام ابو حنیفہؒ سے منسوب کیا کرتا تھا، اور بلکل درست بات ہے کہ کسی بدعتی کی روایت پر اعتبار نہیں کیا جانا چاہئے، نہ جانے وہ کیا امام ابو حنیفہؒ سے کیا کیا منسوب کیا کرتا تھا، جس پر علامہ شہرستانیؒ کو تعجب تھا، مگر کو بات علامہ شہرستانیؒ نے غسانیہ کے ایمان کے مؤقف کے متعلق لکھی ہے، کہ کعبہ کا حج تو فرض ہے لیکن کعبہ کہاں ہے نہیں معلوم،۔ یہاں ایک بات اور ذہن میں رہے کہ غسان بھی اعمال کی فرضیت کا انکار نہیں کرتا، اور اسے ترک کرنے کا حکم نہیں دیتا! لیکن ایمان میں شامل نہیں کرتا، بعین یہی معاملہ الا ماشاء اللہ، حنفیہ بشمول امام ابو حنیفہؒ کا ہے۔ اس طرح کی بات تو خیر امام ابو حنیفہؒ خود بھی کیا کرتے تھے
ایک حوالہ پیش خدمت ہے:
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ الْحُمَيْدِيُّ، نا حَمْزَةُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عُمَيْرٍ، مِنْ آلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا، يَسْأَلُ أَبَا حَنِيفَةَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ الْكَعْبَةَ، حَقٌّ وَلَكِنْ لَا أَدْرِي هَلْ هِيَ هَذِهِ أَمْ لَا؟ فَقَالُ: مُؤْمِنٌ حَقًّا، وَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ نَبِيُّ وَلَكِنْ لَا أَدْرِي هُوَ الَّذِي قَبْرُهُ بِالْمَدِينَةِ أَمْ لَا، فَقَالُ: مُؤْمِنٌ حَقًّا، قَالَ الْحُمَيْدِيُّ «مَنْ قَالَ هَذَا فَقَدْ كَفَرَ»، قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُحَدِّثُ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْحَارِثِ،
حَدَّثَنِي هَارُونُ، ثنا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، رَحِمَهُ اللَّهُ بِنَحْوِ حَدِيثِ حَمْزَةَ

مجھ سے ھارون بن عبد اللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن زبیر الحمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے حمزۃ بن الحارث بن عمیر نے بیان کیا، جو عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تھے، انہوں نے اپنے والد (الحارث بن عمیر ) سے بیان کیا، انہوں نے کہا:میں نے سنا جب مسجد حرام میں شخص نے ابو حنیفہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو یہ کہتا ہے کہ گواہی دیتا ہوں کہ کعبہ حق ہے، لیکن نہیں جانتا کہ کعبہ یہ ہے ہے (جو مسجد حرام میں ہے) یا نہیں؟ تو ابو حنیفہ نے کہا: ہو پکا مومن ہے۔ اور ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو کہتا ہے کہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن عبداللہ نبی ہیں، لیکن نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں، جس کی قبر مدینہ میں ہے وہ ہیں، یا نہیں، تو ابو حنیفہ نے کہا : وہ پکا مومن ہے۔
الحمیدی نے کہا : جس نے یہ بات کہی اس نے کفر کیا، الحمیدی نے کہا کہ سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو حمزۃ بن حارث سے روایت کیا ہے۔
مجھ سے ھارون نے بیان کیا، کہا ہم سے الحمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے مومل بن اسماعیل نے الثوری رحمہ اللہ سے حدیث حمزۃ کی مثل روایت کیا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 194 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
دوسرا حواکہ بھی لے لیں:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ ثنا حَمْزَةُ بْنُ الْحَارِثِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْأَلُ أَبَا حَنِيفَةَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ الْكَعْبَةَ حَقٌّ وَلَكِنْ لَا أَدْرِي هِيَ هَذِهِ أَمْ لَا، فَقَالَ: مُؤْمِنٌ حَقًّا. وَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا بْنَ عَبْدِ اللَّهِ نَبِيٌّ وَلَكِنْ لَا أَدْرِي هُوَ الَّذِي قَبْرُهُ بِالْمَدِينَةِ أَمْ لَا. قَالَ: مُؤْمِنٌ حَقًّا- قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ:
وَمَنْ قَالَ هَذَا فَقَدْ كَفَرَ-.
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَكَانَ سُفْيَانُ يُحَدِّثُ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْحَارِثِ حدثنا مؤمل ابن إِسْمَاعِيلَ عَنِ الثَّوْرِيِّ بِمِثْلِ مَعْنَى حَدِيثِ حَمْزَةَ.

ہم سے ابو بکر الحمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے حمزۃ بن الحارث مولی عمر بن خطاب نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد (الحارث بن عمیر ) سے بیان کیا، انہوں نے کہا:میں نے سنا جب مسجد حرام میں شخص نے ابو حنیفہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو یہ کہتا ہے کہ گواہی دیتا ہوں کہ کعبہ حق ہے، لیکن نہیں جانتا کہ کعبہ یہ ہی ہے (جو مسجد حرام میں ہے) یا نہیں؟ تو ابو حنیفہ نے کہا: وہ پکا مومن ہے۔ اور ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو کہتا ہے کہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن عبداللہ نبی ہیں، لیکن نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں، جس کی قبر مدینہ میں ہے وہ ہیں، یا نہیں، تو ابو حنیفہ نے کہا : وہ پکا مومن ہے۔
الحمیدی نے کہا: جس نے یہ بات کہی اس نے کفر کیا ۔
الحمیدی نے کہا کہ سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو حمزۃ بن حارث سےانہوں نے مؤمل بن اسماعیل سے ، انہوں نے امام سفیان الثوری سے اسی مثل روایت کیاہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 787 – 788 جلد 02 المعرفة والتاريخ - يعقوب بن سفيان الفسوي - مكتبة الدار بالمدينة المنورة

علامہ شہرستانیؒ نے یہ بات بالکل صحيح بیان کی ہے کہ علماء نے امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کو مرجئة السنة قرار دیا ہے، اور اس کی وجہ بھی انہوں نے بلکل درست بیان کی کہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کا قول ہے کہ: ''ایمان تصدیق بالقلب کا (نام) ہے اور وہ نہ تو بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔ ، لیکن یہ تعجب بلا وجہ ہے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب ترک عمل کا فتوی کیسے دے سکتے ہیں، بلکل یہ وہ ترک عمل کا فتویٰ نہیں دیتے، اور نہ ہی کسی نے یہ ان سے منسوب کیا ہے۔
علامہ شہرستانیؒ نے اپنا ایک قیاس بیان ہے کہ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خوارج اور معتزلہ اپنے مخالف کو مرجئة کہتے تھے، تو ان کے کہنے نا کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، ہمارے لئے اہل سنت والجماعت کے اقوال ہی معتبر ہیں۔ فتدبر!!
امام محمدؒ اس تصریح کے مطابق مرجئۃ السنۃ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے اقوال و افعال کو اگر کوئی بدعت ثابت کرنا چاہے تو اسے ایک باقاعدہ خطرناک بحث سے گزرنا پڑے گا کیوں کہ اعمال کے جزو ایمان ہونے نہ ہونے کی بحث ہر زمانے میں رہی ہے۔
اشماریہ بھائی! جتنا بیان کیا گیا ہے، اس سے ان شاء اللہ! آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ارجاء کی بدعت کو حق ثابت کرنے کی سعی کرنا کس کے لئے خطرناک ثابت ہو گا!!
نہیں میرے بھائی! اعمال کے جزو ایمان نہ ہونے کی بحث ، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی، نہ صحابہ میں تھی۔ یہ بعد کے لوگوں کی ایجاد کردہ اختراع و بدعت ہے۔ اور اس زمانے کے بعد سے تو شیعہ روافض بھی ہر زمانے میں رہے ہیں، تو کیا ان کا مؤقف بھی درست مان لیا جائے؟ فتدبر!!
تو مجھے تو اس قاعدہ کا بخوبی علم ہے لیکن اگر بالفرض و المحال ہم مرجئہ السنہ ہونے کو بدعت سمجھ بھی لیں تب بھی میں نے کب ان روایات کے قبول کرنے کا ذکر کیا ہے؟ میں نے مسائل کے قبول کرنے کا ذکر کیا ہے اور مسائل (یعنی عملی مسائل) میں غالبا کوئی ایسی روایت نہیں جو ان کے اس ارجاء کی تصدیق کرتی ہو۔ آپ یہ جرح باقی رکھیں تب بھی آپ کو موجودہ بحث میں کیا نفع ہے؟؟؟
ماشاء اللہ! یہ بہت زبردست بات کہی! ایک بار پھر عرض ہے کہ:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو!!
اشماریہ بھائی! یہی وجہ ہے کہ سارے عالم کے ٹھکرائے ہوئے بدعتی فقہ حنفیہ میں اپنے جوہر دکھلاتے ہیں، جیسے ابو زید الدبوسي الحنفي المعتزلي، محمد بن علي البصري أبو الحسين الحنفي المعتزلي جیسے فقہ حنفیہ کے اصول مرتب کرتے ہیں!! پھر آپ کا بشر المریسی مرجئی جہمی بھی خیر سے حنفی المذہب تھا۔
بھائی جان! راویت درایت کی اساس ہوتی ہے! اور جس کی روایت قبول نہیں اسی کی روایت کی بناء پر اس کی درایت قبول ہونا محال ہو جاتا ہے، الا یہ کہ روایت کے قبول نہ ہونی کی وجہ عدالت کا مجروح ہونا نہ ہو۔ فتدبر!!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
احول ولا قوۃ الا باللہ۔ میرے بھائی میرا آپ کو کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے نہ ہی امام محمد نے آپ کی مرغیاں چرائی تھیں۔
اب میں اگر کہوں کہ "ذرا دکھائیے تو کہ کسی اور نے بھی دارقطنی کی اس عبارت کا یہ مطلب لیا ہے؟ ابن تیمیہ نے؟ ذہبی نے؟ ابن حجر نے؟ کسی نے بھی؟" تو براہ کرم ناراض مت ہوئیے گا۔
اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے:
میں نے ان (دارقطنی) سے محمد بن الحسن ابو حنیفہ کے صاحب کے بارے میں پوچھا تو کہا: یحیی بن معین نے کذاب کہا ہے اور احمد یعنی ابن حنبل نے بھی ان کے بارے میں ایسا ہی کہا ہے۔ ابو الحسن (دارقطنی) نے کہا: میرے نزدیک وہ ترک (چھوڑے جانے کے) مستحق نہیں ہیں۔
اب یہاں کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد یہ ہے کہ بالکل ہی ترک کے مستحق نہیں ہیں؟ یہ تو واضح ہے کہ دارقطنی نے ابن معین اور احمد کی جرح بیان کی جس کا لازمی سبب ترک تھا تو اپنا فیصلہ بیان کر دیا کہ میرے نزدیک ترک کے مستحق نہیں ہیں۔
سخن شناس نئی دلبرا خطا ینجاست!
بھائی جان معاملہ یہ ہے کہ امام دارقطنیؒ خود امام محمد کے ضعف کو بھی بیان کیا ہے!
امام دارقطنی رحمہ اللہ کی ہی بات ذہن نشین کر لیں:
سألته عن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة فقال: هو أقوى من محمد بن الحسن.
امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ سے متعلق سوال کے پر فرمایا: وہ (قاضی ابو یوسف)، محمد بن الحسن سے قوی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 146 – جلد 01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر

اب یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ، دیکھو ، دیکھو، امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ کو ثقہ سے بھی ثقہ بیان کیا، یعنی کہ امام محمد کو ثقہ قرار دیا ہے!!
نہیں بھائی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن حسنؒ، قاضی ابو یوسفؒ سے بھی زیادہ ضعیف ہیں!! اور اسے دوسرے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسے اردو میں ہم محاورہ بھی استعمال کرتے ہیں کہ اندھوں میں کانا راجا!! اس میں کانے کی تعریف مقصود نہیں ہوتی، بلکہ یہ بتلانا ہوتا ہے کہ ہے تو یہ بھی کانا ہی مگر اندھو ں سے بہر حال بہتر ہے!!
اس عبارت کے یہی معنی درست ہیں، کیونکہ امام دارقطنی، دوسری جگہ فرماتے ہیں:
أبو يوسفَ ومحمدُ بنُ الحسنِ، في حديثِهما ضَعفٌ.
قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن ، ان دونوں کی احادیث میں ضعف ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 281 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - المكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 110 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر

اور ان دونوں کی احادیث میں ضعف کی وجہ یہ خود ہی ہیں۔ فتدبر!!
مجھے خدشہ ہے کہ اشماریہ بھائی، پھر اٹکل کو گھوڑے دوڑاتے ہوئے یہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ امام الداقطنی ؒ نے قاضی ابو يوسفؒ کو قوی سے بھی قوی ، یعنی ثقہ سے بھی ثقہ قرار دیاہے، اور مجھ سے پھر اصول و قاعدہ کا مطالبہ کریں گے کہ میں نے اسے'' اندھوں میں کانا راجا'' کس اصول وقاعدہ سے قرار دیا ہے؟ اور ممکن ہے کہ وہ انظامیہ کو پکاریں کہ ابن داود نے امام محمد ؒ اور قاضی ابو یوسف ؒ کی شان میں گستاخی کردی ! حالانکہ یہ بات کلام کو سمجھنے والے سے مخفی نہیں ہے، لیکن جن کی مت علم الکلام نے ماردی ہو، اور وہ کلام کو سمجھنے سے قاصر ہوں، ان کی اٹکل کے گھوڑوں کو میں اصطبل میں باندھ ہی دوں تو بہتر ہے؛
تو لیجئے جناب! امام الدارقطنی ؒ خود فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا البرقاني، قَالَ: سألتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ، عَن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة، فقال: هُوَ أقوى من مُحَمَّد بْن الْحَسَن.
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطبري، قَالَ: سمعتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ سُئل عَن أبي يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ: أعور بين عُميان. وكان القاضي أَبُو عَبْد الله الصيمري حاضرًا فقام فانصرفَ ولم يعد إلى مجلس الدَّارَقُطْنِيّ بعد ذَلِكَ.

ہمیں البرقانی نے خبر دی، کہا کہ مین نے امام الدارقطنی ؒ سے صاحب ابو حنیفہ ؒ قاضی ابو یوسف ؒ کے متعلق سوال کیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا کہ وہ (قاضی ابو یوسف ؒ) محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے قوی ہیں،
ہم سے القاضی ابو الطیب طاہر بن عبد اللہ الطبری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام الدارقطنی ؒ کو کہتے سنا، جب ان سے قاضی ابو یوسف ؒ سے متعلق سوال کیا گیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا: اندھوں کے درمیان کانا۔
وہاں قاضی ابو عبد اللہ الصمیری الحنفی موجود تھے وہ اٹھے اور چلے گئے، اور اس کے بعد امام الدارقطنی کی مجلس میں نہیں آئے!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 381 جلد 16 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 260 جلد 14 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت

یہ بات الْحُسَيْن بن عَلِيّ بن مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَر أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْقَاضِي الصيمري الحنفی (الطبقات السنية في تراجم الحنفية میں انہیں حنفی شمار کیا گیا ہے) نے خود بھی بیان کی ہے:
وسمعته يَقُولُ: حضرت عند أَبِي الْحَسَن الدارقطني، وسمعت منه أجزاء من كتاب «السنن» الذي صنفه. قَالَ: فقرئ عليه حديث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد، الحديث المسند فِي زكاة الخيل، وفي الكتاب غورك ضعيف، فَقَالَ أَبُو الْحَسَن: ومن دون غورك ضعفاء. فقيل الذي رواه عَنْ غورك هو أَبُو يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ: أعور بين عُميان! وكان أَبُو حامد الإسفراييني حاضرا، فَقَالَ: ألحقوا هذا الكلام فِي الكتاب! قَالَ الصيمري: فكان ذلك سبب انصرافي عَنِ المجلس ولم أعد إِلَى أَبِي الْحَسَن بعدها، ثم قَالَ: ليتني لم أفعل، وأيش ضر أبا الْحَسَن انصرافي؟! أو كما قَالَ.
خطیب بغدادی کہتے ہیں میں نے ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی کو کہتے سنا کہ وہ امام الداقطنی کے پاس تھے، اور ان سے ان کی تالیف کردہ کتاب ''السنن'' کے اجزاء سنے، ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا، جب میں نے حدیث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد،زکاۃ الخیل سےمتعلق پڑھی، اور کتاب میں تھا کہ غورک ضعیف ہے ، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا: اور غورک کے علاوہ باقی بھی تمام ضعفاء ہیں۔ امام الدارقطنی سے کہا گیا کہ غورک سے روایت کرنے والے قاضی ابو یوسف ؒ ہیں، تو امام الدارقطنی ؒ نے کہا: اندھوں کے درمیان کانا!
ابو حامد الاسفرایینی میں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ اس کلام کو کتاب شامل کر لیں! ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا کہ اس سبب کے وجہ سے میں نے امام الداقطنی ؒ کی مجلس چھوڑ دی اور اس کے بعد امام الدارقطنی ؒ کے پاس نہیں گیا۔ کاش میں نے یہ نہ کیا ہوتا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 634 - 635 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 79 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت

بھائی جان! ہم آپ کو یہی سمجھا رہے ہیں کہ امام دارقطنیؒ نے امام يحیی بن معینؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی جراح کہ انہوں نے امام محمد کو کذاب قرار دیا ہے، بیان کر کے اس کی نکیر نہیں کی، بلکہ اس کی توثیق کر دی ہے۔
اب آپ نے یہ جو ایک نکتہ اٹھایا ہے کہ:
یہ تو واضح ہے کہ دارقطنی نے ابن معین اور احمد کی جرح بیان کی جس کا لازمی سبب ترک تھا تو اپنا فیصلہ بیان کر دیا کہ میرے نزدیک ترک کے مستحق نہیں ہیں۔
اشماریہ بھائی! اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے۔
بھائی جان! امام دارقطنیؒ کا سائل کو امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ کے متعلق یہ بتلانا کہ انہیں امام یحیی بن معینؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے کذاب قرار دیا ہے، یہ تھا محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو ضعیف قرار دینا، اور پھر جو فرمایا کہ وہ میرے نزدیک ترک کے مستحق نہیں، یہ اسی معنی میں درست ہیں، کہ ان کی جو احادیث امام مالکؒ سے ہیں، وہ انہوں نے درست روایت کی ہیں، ان کی ان راوایا ت کو ترک نہیں کیا جائے۔ وگرنہ امام داقطنیؒ خود محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے ضعف کے قائل ہیں، جیسا کہ ہم نے سؤالات السلمي للدارقطني اور سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه کے حوالے سے پیش کیا۔
یا آپ کوئی ایسا راوی دکھا سکتے ہیں کہ جسے کذاب کہا گیا ہو اس کی بعض روایات دوسرے طرق سے صحیح ہونے کی وجہ سے اسے ترک نہ کیا جائے؟ یا ایسا کوئی قاعدہ آپ کے علم میں ہے علم جرح و تعدیل میں؟؟
یہ تو ہوتا ہے کہ روایت دوسرے طریق سے آنے کی وجہ سے روایت قبول کر لی جاتی ہے لیکن یہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ راوی کو ہی ترک کا مستحق نہ سمجھا جائے۔
کوئی قاعدہ یا کم از کم نظیر دکھائیے۔ لیکن کسی محدث کی وضاحت کے ساتھ۔ نظیر پر آپ کا استدلال قبول نہیں ہوگا۔
آپ کے الفاظ آپ کو لوٹاتا ہوں! لاؤ دلیل غافل اگر دفتر میں ہے!!
ہم نے بیان کیا تھا کہ:
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں، لیکن اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا! اس کا ثبوت آپ نے خود نقل کیا ہے، ابھی آگے آرہا ہے!! وگرنہ تو امام محمد نہ صرف ترک کئے جانے کے مستحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کے!!
اشماریہ بھائی! جس راوی کی روایت بغیر مطابقت کے قبول نہیں ہوتی، کیا وہ فی نفسہ ثقہ ہوتا ہے؟ کیا اس کی منفرد روایت ترک نہیں کی جاتی!! اشماریہ بھائی! ذرا کچھ تو سوچ لیا کریں کہ آپ کیا لکھ رہے ہو؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو علم الحدیث کا ابھی ابجد بھی نہیں معلوم!
اشماریہ بھائی! یہ اہل الحدیث کا دفتر ہے، اس دفتر سے آپ کو دلائل ہی ملیں گے۔
امام دارقطنیؒ کی محمد بن حسن الشیبانیؒ کی تضعیف اوپر گذری، آگے امام الذہنیؒ کی طرف سے بھی محمد بن الحسن شیبانیؒ کی تضیف کی دلیل آرہی ہے۔
ایک، دو، دس، بیس روایات کرتے۔ پوری جامع صغیر ایک کذاب سے اتنی بڑی لکھ ڈالی۔ کیا بہت فارغ وقت تھا؟
اب آپ دیکھیں، امام يحیي بن معینؒ آپ کے امام محمد بن الحسن شیبانیؒ کو ''جہمی'' اور کذاب قرار دیں، اور اس جراح کو رفع کرنے کے لئے آپ کا جواب کہ امام یحیی بن معین نے اپنا وقت ضائع کرتے ہوئے جامع صغیر کیوں لکھی؟
اشماریہ بھائی کیا اس اٹکل سے یہ ثابت ہو جا سکتا ہے کہ یحیی بن معینؒ نے محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ''جہمی '' اور ''کذاب نہیں کہا!
جبکہ آپ نے خود یہ بات امام دارقطنیؒ سے بھی نقل کرکے ، اس بات کا اثبات کیا ہے کہ یحیی بن معینؒ نے امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ''کذاب '' کہا ہے۔ معاملہ جرح کے ثبوت کا تو رہا نہیں، یہ ثابت تو بہر حال ہے، اب اگر سوال باقی رہتا ہے، تو وہ اس جرح کے قبول ہونے یا نہ ہونے کا رہتا ہے۔ اور آپ کی اس محض اٹکل سے امام یحیی بن معین کی جرح رفع نہیں ہو سکتی۔ فتدبر!
اور یہی بات آپ نے اپنے ہی اگلے جملہ میں کہی ہے اور جرح کا ثابت ہونا آپ نے خود قبول کیا ہے، آپ کا کلام ہے:
یحیی بن معین کی جرح امام محمد پر ہے لیکن حدیث میں اور اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں جن کی بنا پر دارقطنی اور ذہبی وغیرہ نے اس جرح کو قبول نہیں کیا۔
جب آپ کو بھی تسلیم ہے کہ محمد بن حسن الشیبانیؒ پر یحیی بن معینؒ نے ''جہمی'' اور ''کذاب'' ہونے کی جرح کی ہے، تو پھر اس کے ثبوت پر یہ اٹکل لڑانا چہ معنی دارد؟
میرے محترم میں جانتا ہوں کہ امام اعظمؒ نے جابر جعفی سے اور اسی طرح سفیان ثوریؒ وغیرہ نے بہت سے اپنے مجروحین رواۃ سے روایات کی ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں نہیں۔ اور ان روایات کی وجہ علماء حدیث یہ بتاتے ہیں کہ یہ غلط روایات بھی محفوظ ہو جائیں تا کہ لوگ دھوکہ نہ کھائیں۔ لیکن بھلا فقہ کی کتاب جامع صغیر نقل کرنے میں ایسا کون سا فائدہ تھا؟ وہ تو دوسروں نے پہلے سے نقل کی ہوئی تھی۔
ویسے یہ بھی خوب کہی! کہ ایک ، دو دس بیس روایات کرنے سے تو کچھ نہیں کتاب لکھنے پر آپ کو اعتراض ہے!
چلیں آپ کا یہ نکتہ بھی ضمناًسلجھا دیتے ہیں؛
پہلی بات کہ مذکورہ روایت میں یہ ذکر ہے کہ یحیی بن معینؒ نے محمد بن حسن الشیبانیؒ کی جامع الصغیر کو نقل کیا یعنی لکھی، یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اسے آگے روایت بھی کیا!!
محمد بن الحسن الشیبانیؒ کی کتاب کو لکھنے کے بعد امام یحیی بن معینؒ کس نتیجہ پر پہنچے؟ یہی کہ انہوں نے محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ''جہمی'' اور کذاب قرار دیا! خیر ویسے یہ بھی لازم نہیں کہ صرف یہی کتاب اس کی بنیاد ہو!!
آپ کو اسلاف کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَبِي، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقْولُ: أَنْفَقْتُ عَلَى كُتُبِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ سِتِّينَ دِينَارًا، ثُمَّ تَدَبَّرْتُهَا، فَوَضَعْتُ إِلَى جَنْبِ كُلِّ مَسْأَلَةٍ حَدِيثًا، يَعْنِي: رَدًّا عَلَيْهِ
امام شافعیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانیؒ کی کتب ساٹھ دینار میں حاصل کیں، اس پر تدبر کیا، یعنی جائزہ لیا، پھر تمام مسائل کے رد میں احادیث درج کیں۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 27 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي - دار الكتب العلمية، بيروت

ممکن ہے اب اشماریہ صاحب ، یہ اعتراض کر دیں کہ امام شافعیؒ کے پاس کیا فالتو پیسے تھے کہ ساٹھ دینار محمد بن الحسن الشیبانیؒ کی کتب پر خرچ کردیئے!
تو جناب ! بات یہی ہے کہ باطل کے رد کے لئے بھی ان کی کتب حاصل کی جاتی ہیں، ان کو نقل کیا جاتا ہے، اور یہ کام کوئی فضول کام نہیں، اسلاف نے باطل کے رد پر ہمیشہ کتابیں لکھیں ہیں، دروس دیئے ہیں۔ اور یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں، علمائے دیوبند نے بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا مطالعہ کرکے ، اس سے کے باطل کو رد کرنے کے لئے کتابیں بھی لکھیں ہیں، اسے مناظرہ کے چیلنج بھی دیئے ہیں۔ خیر یہ تو اب بات کہیں اور نکل جائے گی۔ میں تو اسے وقت کا ضیاع قرار نہیں دوں گا، اس مسئلہ میں علمائے دیوبند کے اس کام کو خدمت دین ہی قرار دوں گا!!
یحیی بن معین کی جرح امام محمد پر ہے لیکن حدیث میں اور اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں جن کی بنا پر دارقطنی اور ذہبی وغیرہ نے اس جرح کو قبول نہیں کیا۔ فقہ میں ابن معین نے ان پر جرح نہیں کی اور ہم نے بات کی ہے فقہ کی۔ تو دو باتیں ہو گئیں: ایک تو جرح فقہ میں نہیں اور موضوع فقہ ہے۔ اور وہ جرح بھی ائمہ کو قبول نہیں۔
آپ کو اتنا تو تسلیم ہے کہ امام یحیی بن معینؒ نے محمد بن حسن الشیبانیؒ پر ''جہمی'' اور ''کذاب'' کی جرح کی ہے!!
آپ کا یہ کہنا کہ امام دارقطنیؒ نے اور امام ذہبیؒ وغیرہ نے اس جرح کو قبول نہیں کیا، یہ بات آپ کی درست نہیں، امام دارقطنیؒ کے حوالہ سے پہلے تفصیل بیان کی گئی، اب امام الذہبیؒ کا موقف بیان کرتے ہیں۔
امام الذہبی رحمہ اللہ اپنی ميزان الاعتدال میں فرماتے ہیں:
محمد بن الحسن الشيباني، أبو عبد الله.
أحد الفقهاء.
لينه النسائي، وغيره من قبل حفظه.
يروي عن مالك بن أنس وغيره.
وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 513 جلد 03 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 107 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت

امام الذہبی ؒ نے، یہاں امام النسائیؒ کی محمد بن الحسن الشیبانیؒ پر حفظ کی جرح کا ذکر کیا، اور انہیں امام مالکؒ کی روایت میں قوی قرار دیا، یعنی کہ امام مالکؒ سے ان کی روایات قوی ہیں، وہ روایات مقبول ہیں، کیونکہ محمد بن حسن الشیبانیؒ کی امام مالکؒ سے روایات دوسرے طرق اور راویوں سے بھی ثابت ہے۔ وگرنہ محمد بن حسن الشیبانی ؒ ضعیف ہیں۔ اب آپ کو یہ معنی سمجھنا مشکل ہو رہا ہے، جبکہ یہ معنی اسی کلام میں موجود ہے۔ اگر امام الذہبیؒ کے نزدیک محمد بن حسن الشیبانیؒ ثقہ ہوتے ، تو امام الذہبیؒ کا محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو صرف امام مالکؒ سے کی گئی روایات میں قوی قرار دینے کا کیا معنی ہوا؟ یہ بات آپ کو اس سے قبل بھی بیان کی تھی۔ امام الذہبیؒ کے اس کلام کا معنی یہی ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانیؒ کی امام مالکؒ سے روایات دوسرے طرق سے ثابت ہونے کی وجہ سے یہ قوی ہیں، وگرنہ محمد بن الحسن الشیبانیؒ فی نفسہ ضعیف ہیں۔
علم الحدیث جاننے والے کو یہ بات اسی کلام میں سمجھ آجائے گی۔ لیکن دیگر کے لئے ہم مزید ثبوت بیان کر دیتے ہیں، کہ امام الذہبی ؒ نے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانیؒ ضعیف قرار دیا ہے۔
امام الذہبیؒ اپنی کتاب المغنی فی ضعفاء ، جس میں امام الذہبیؒ نے ضعیف روایوں کو ذکر کیا ہے، میں فرماتے ہیں:
مُحَمَّد بن الْحسن الشَّيْبَانِيّ عَن مَالك وَغَيره ضعفه النَّسَائِيّ من قبل حفظه
محمد بن الحسن الشیبانیؒ نے مالکؒ وغیرہ سے روایت کی ہے، امام نسائیؒ نے انہیں حافظہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 الكتاب: المغني في الضعفاء – امام الذهبي - إدارة إحياء التراث، قطر
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 282 جلد 02 الكتاب: المغني في الضعفاء – امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت

امام الذہبیؒ نے یہاں محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ضعیف قرار دیا ہے، لہٰذا ۔لسان الميزان کی عبارت، جو میزان الاعتدال کی نقل ہے، اور جس سے امام ابن حجر العسقلانی نے بھی علق کیا ہے، اس کا وہی معنی ہے، جو ہم بیان کر رہے ہیں کہ ، امام الذہبیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ضعیف قرار دیا ہے، اور امام مالکؒ سے روایت کرنے میں دوسرے طرق سے ثابت ہونے کی وجہ سے قوی! وگرنہ فی نفسہ ضعیف!!
رہی بات کہ محمد بن الحسن الشیبانیؒ پر امام یحیی بن معینؒ کی جرح کو قبول نہیں کیا، تو یہ سوائے ایک تخیل کے کچھ نہیں، کیونکہ امام الذہبیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانیؒ پر یحیی بن معینؒ کی جرح کو رد نہیں کیا، بلکہ اس کا ذکر نہیں کیا اور عدم ذکر رد نہیں ہوا کرتا۔
امام الذہبیؒ نے ديوان الضعفاء والمتروكين میں بھی محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ضعیف ومتروک قرار دیا ہے:
محمد بن حسن الشيباني الفقيه: ضعفه النسائی وغيره.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 346 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

البتہ جو باقی ثبوت آپ رکھتے ہیں وہ پیش فرما دیجیے۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔
جو بات آتی جائے گی اس پر ہم ثبوت پیش کرتے رہیں گے، ابھی تک بھی یہی تو ہو رہا ہے!!
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر امام احمدؒ کے ان اقوال کو نقل کرنے سے پہلے آپ امام احمد کا یہ قول بھی دیکھ لیتے تو شاید آپ کو اتنی غلط فہمی نہ ہوتی:
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا
ترتیب المدارک (1، 22)
"احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: ہم مستقل اہل رائے کو لعن کرتے تھے اور وہ ہمیں یہاں تک کہ شافعی آئے تو انہوں نے ہمیں جمع کر دیا"
امام احمدؒ کا یہ قول بتاتا ہے کہ اہل رائے کے بارے میں موجود ان کے عجیب و غریب اقوال جن میں سے بعض جناب والا نے ذکر کیے ہیں اس زمانے کے تھے جب امام شافعیؒ نے ان کی غلطی کی اصلاح نہیں کی تھی۔ اور بعد میں ان کے یہ اقوال تبدیل ہو گئے۔
لہذا اوپر جو آپ نے اصحاب الرائے اور اصحاب ابو حنیفہ کے بغض وغیرہ کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ اس قول کے بعد قطعا بے فائدہ ہے۔ ویسے تو اس میں اور بھی علل ہیں لیکن جب اس سے قائل نے رجوع کر لیا تو پھر ان کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں۔
رہ گئی بات جہمی ہونے کی تو جب قائل خود اس کے خلاف کہہ رہا ہے تو کسی اور کی بات کی کیا حیثیت ہے؟
اور رہا آپ کا عجیب و غریب فیصلہ کہ امام احمد کی مراد نقد ہے تو میرے بھائی! امام احمد کے الفاظ میں تو یہ موجود نہیں ہے۔ لہذا یا تو اسے ثابت کریں کسی محدث سے اور یا پھر امام احمد کی کتب سے یہ ثابت کریں کہ انہوں نے فقہ حنفی کے تمام دقیق مسائل میں نقد و رد کیا ہو۔ فقط آپ کے قول کا کیا فائدہ؟؟؟
اشماریہ بھائی ! آپ نے امام احمد بن حنبلؒ کی محمد بن الحسن الشيبانی ؒ پر جرح کو تسلیم تو کر لیا، اور اہل الرائی پر نقد کے اقوال کو بھی تسلیم کرلیا، مگر آپ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ نے بعد میں اس سے رجوع کر لیا۔ اس رجوع کے ثبوت میں آپ نے قاضی عیاض کی کتاب سے جو حوالہ پیش کیا ہے، اس کا سیاق پیش کرتے ہیں، کہ قاضی عیاضؒ نے دراصل وہاں بیان کیا کیا ہے۔
قاضی عیاض ؒ کی مکمل عبارت یہ ہے:
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.
وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين.
ولهذا ما خالفه صاحباه محمد وأبو يوسف في نحو ثلث مذهبه إذ وجدوا السنن تخالفهم تركها لما ذكرناه عن قصد لتغليبه القياس وتقديمه أو لم تبلغه ولم يعرفها إذ لم يكن من مثقف علومه وبها شنع المشنعون عليه وتهافت الجراء على دم البراء بالطعن إليه.
ثم ما تمسك به من السنن فغير مجمع عليه، وأحاديث ضعيفة ومتروكة وبسبب هذا تحزبت طائفة أهل الحديث على أهل الرأي وأساءوا فيهم القول والرأي.
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا يريد أنه تمسك بصحيح الآثار واستعملها، ثم أراهم أن من الرأي ما يحتاج إليه وتنبني أحكام الشرع عليه، وأنه قياس على أصولها ومنتزع منها.
وأراهم كيفية انتزاعها، والتعلق بعللها وتنبيهاتها.
فعلم أصحاب الحديث أن صحيح الرأي فرع الأصل، وعلم أصحاب الرأي أنه لا فرع إلا بعد الأصل، وأنه لا غنى عن تقديم السنن وصحيح الآثار أولاً.

اور ابوحنیفہؒ اس بات کے قائل ہیں کہ قیاس و اعتبار مقدم ہے سنن و آثار پر، اسی بنا پر انہوں نے (کئی جگہ )اصول کے نصوص کو ترک کرکے معقول سے تمسک کیا ہے، اور رائے ، قیاس اور استحسان کو (نصوص پر ) ترجیح دی ہے ؛ اور (اسی نصوص گریزی میں اتنا مبالغہ کیا کہ ) پھر (کئی ایک مقام پر ) استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیا ؛
اور بعض علماء نے استحسان کی تعریف یہ بیان کی ہے۔کہ استحسان (حکم کی علت سے صرف نظر کرکے )بے دلیل قول کی طرف جانے کا نام ہے ۔ اور یہ انتہائی قابل مذمت من پسندی ،اور خواہش پرستی ہے؛اور ایسا کرنا دین سازی اور بدعت ہے؛ حتی کہ امام شافعی فرماتے ہیں :جس نے استحسان کیا ،اس نے اپنی طرف سے دین گھڑا۔
اسی لئے ان کے دو اصحاب، محمدؒ ،اور ابو یوسفؒ نے ابو حنیفہؒ کے ایک تہائی مذہب کی مخالفت کی ہے ،جہاں انہوں نے سنت کو ان کے مذہب کے خلاف پایا اس کو چھوڑ دیا ۔جیسا کہ ہم نے ابوحنیفہؒ کا عمداً قیاس کا غلبہ اور قیاس کو نصوص پر مقدم کرنا بیان کیا ، یا اس لئے بھی انہوں سنن کے مخالف رائے کو اپنایا کہ انہیں ان سنن کا علم ہی نہیں تھا ۔کیونکہ وہ احادیث کے علوم و فنون کی مہارت و فطانت سے دور تھے، اور اسی سبب لوگوں نے ان کی عیب جوئی کی اور ان پر طعن کے نشتر چلے، اور جن مسائل میں انہوں نے سنت کا دامن تھاما بھی ،تو اختلافی اسانید والی احادیث کو ماخذ بنالیا، یا ضعیف و متروک روایات کو بنیاد بنایا اور اسی سبب اہل الحدیث نے اہل رائے سے علیحدگی کی راہ لی اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر ان کے بارے سخت لہجہ استعمال کیا
امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ :ہم ہمیشہ (اہل الحدیث ) اہل الرائے پر ،اور وہ ہم پر لعنت ہی کرتے رہے ،حتی کہ امام شافعیؒ آئے،انہوں نے ہمیں باہم ملایا، ان کا مطلب ہے کہ انہوں ایک طرف صحیح احادیث کو فقہی امور میں قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کیا ۔
پھر دکھایا کہ بعض جگہ رائے (یعنی قیاس و استنباط ) کی بھی حاجت ہوتی ہے اور احکام شرع اس پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ رائے دراصل، احکام کا اپنے اصولوں پر قیاس ہے ،انہوں اس کی کیفیت سمجھائی اور بتایا کہ کیسے علت حکم کو دریافت کیا جاتا ہے۔
امام شافعی ؒ (کے تدوین اصول فقہ )کے بعد اصحاب الحدیث نے سمجھا کہ صحیح رائے اصل کی فرع ہوتی ہے، اور اہل رائے نے یہ بات جان لی ۔۔کوئی فرع اصل کے بغیر نہیں ہوسکتی،اور (مصادر حکم کیلئے ) سب سے پہلےسنن اور صحیح آثار کو سب پر تقدیم دینا لازم ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - المملكة المغربية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 39 – 40 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية، بيروت

اشماریہ بھائی! اب اس عبارت سے آپ نے جو استدلال کیا تھا، وہ از خود واپس لیں لیں، کیونکہ اس عبارت نے محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، مگر ''امام صاحبؒ'' کے لئے بہت مضر ثابت ہوئی ہے! اب آپ فیصلہ کر لیں کہ کیا کرنا ہے! لہٰذا، اس پر مفصل بیان اگلی تحریر تک مؤخر کرتا ہوں!
اشماریہ بھائی! آپ کے الفاظ یاد دلاؤں؟
میرے محترم بهائی جان! یہ سیاق و سباق کو دیکھے بغیر اقتباس دینے کی عادت جناب میں کہاں سے آگئی؟؟؟
اشماریہ بھائی نے فرمایا کہ:
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا
ترتیب المدارک (1، 22)
"احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: ہم مستقل اہل رائے کو لعن کرتے تھے اور وہ ہمیں یہاں تک کہ شافعی آئے تو انہوں نے ہمیں جمع کر دیا"
اشماریہ بھائی! آپ کا یہاں سے امام احمد بن حنبلؒ کا اہل الرائے اور محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے متعلق مؤقف سے رجوع اخذ کرنا سوائے اٹکل کے گھوڑوں کو بے لگام دوڑانے کے کچھ نہیں۔
حتی جاء الشافعي، تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امام الشافعیؒ 184 ھجری میں عراق آگئے تھے، 189 ھجری کو عراق سے واپس گئے، یعنی امام احمد بن حنبلؒ کے محمد بن حسن الشیبانی ؒ پر جرح اور اہل الرائے پر نقد کے اقوال 189 ہجری سے قبل کے ہونے لازم ہیں۔ اس قول کو اگر امام احمد بن حنبلؒ کی اپنے اقوال سے رجوع کی دلیل بنانے کے لئے تو یہ لازم ہے، مگر پھر بھی کوئی منچلہ کہہ سکتا ہے کہ امام الشافعیؒ دوبارہ بھی تو عراق آئے تھے!! تو اول تو بات یہ ہے کہ اس قول کے الفاظ ہیں، ''حتی جاء الشافعي'' یہ الفاظ امام الشافعیؒ کی پہلی آمد پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی، امام الشافعیؒ دوسری بار 195 ہجری میں تشریف لائے ، تقریباً دو سال قیام کیا اور 197 ہجری میں واپس لوٹ گئے۔ ان تاریخوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں!
اب ہم اپنی پیش کی گئی دلیل دوبارہ پیش کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کے یہ اقوال صرف 189 ہجری سے پہلے کے ہیں یا بعد کے بھی ہیں؟
امام احمد بن حنبلؒ خود اسی محمد بن حسن الشیبانی ؒ کو مذہب جہم پر قرار دے رہے ہیں!
أَخْبَرَنَا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، قَالَ: أخبرنا أحمد بن عثمان بن يحيى الأدمي، قَالَ: حدثنا محمد بن إسماعيل أبو إسماعيل، قَالَ: سمعت أحمد بن حنبل، وذكر ابتداء محمد بن الحسن، فقال: كان يذهب مذهب جهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 569 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت

امام احمد بن حنبل رحمہ سے محمد بن الحسن الشیبانی پر ''جہمی مذہب'' اختیار کرنے کی یہ جرح روایت کرنے والے محمد بن إسماعيل السلمي ہیں ، اور ان کی پیدائش 190 ہجری کے بعد کی ہے۔ اب اس بات کو دہرانے کی ضرورت تو نہیں، کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس قول کو محمد بن إسماعيل السلمي نے یقیناً پیدا ہوتے ہی یہ قول نہیں سنا، بلکہ اس کے سالوں بعد امام احمد سے سنا ہے۔ اس قول سے جو 189 ہجری کے سالوں بعد امام احمد بن حنبل نے محمد بن حسن الشیبانی کو ''جہمی مذہب'' پر قرار دیا، اس سے رجوع کیسے ثابت قرار دیا جاسکتا ہے۔

امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 180 - 181 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام

یہاں عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ اپنے والد احمد بن حنبلؒ سے روایت کر رہے ہیں۔ اب عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ کی پیدائش 213 ہجری کی ہے۔
عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل
المولد : 213 هـ- الوفاة : 290 هـ

اب کیا جو قول امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے 213 ہجری میں پیدا ہونے والے بیٹے کو اس کی پیدائش سے کئی سال بعد بیان کیا، اس سے رجوع اپنے بیٹے کی پیدائش سے 23 سال قبل کر لیا تھا؟ اشماریہ بھائی! میں اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ فقہ حنفیہ کے اٹکل کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے، یہاں آپ کے اٹکل کے بے لگام گھوڑے نہیں دوڑاے جا سکتے!! فتدبر
رہ گئی بات جہمی ہونے کی تو جب قائل خود اس کے خلاف کہہ رہا ہے تو کسی اور کی بات کی کیا حیثیت ہے؟
اشماریہ بھائی! محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے اس قول کی سند آپ کے سامنے ہے۔ اس کے رواة کا تعارف بیان کر دیں، جب یہ قول محمد بن الحسن الشیبانی ؒسے ثابت ہی نہیں، تو اس پر کیا بناء بنائی جائے! ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ آپ شرح اصول السنة کی سند کے راویوں کا تعارف تو پہلے کروایں!!
اور رہا آپ کا عجیب و غریب فیصلہ کہ امام احمد کی مراد نقد ہے تو میرے بھائی! امام احمد کے الفاظ میں تو یہ موجود نہیں ہے۔ لہذا یا تو اسے ثابت کریں کسی محدث سے اور یا پھر امام احمد کی کتب سے یہ ثابت کریں کہ انہوں نے فقہ حنفی کے تمام دقیق مسائل میں نقد و رد کیا ہو۔ فقط آپ کے قول کا کیا فائدہ؟؟؟
اشماریہ بھائی! یہ تو میں نہ مانوں والی بات ہے، ہم نے آپ کو امام شافعیؒ کے حوالے سے بھی حوالہ پیش کر کے بتلایا ہے کہ مسائل کو معلوم کرنا کہ اہل الرئے کا کیا مؤقف ہے، اس مسئلہ کی توثیق کو لازم نہیں، بلکہ اس کی وجہ ان مسائل کا رد کرنا بھی ہوتا ہے، اور علمائے دیوبند کے بھی اسی طرز رہا ہے، مثلاً مرزا قادیانی کے مسئلہ میں!!
آپ کو امام احمد بن حنبلؒ کے اقوال اہل الرائے کی نقد میں پیش کر دیئے گئے ہیں!
بھائی جان! آپ یہ بتلائیں کہ یہ جو ''آپ کے قول'' میں نے بیان کیا ہے، یہ طرز عمل اسلاف سے بھی، اور علمائے دیوبند سے بھی آپ کو بیان کیا گیا یا نہیں؟ اب پھر بھی اسے تسلیم نہ کرنا، تو حکمت چین و حجت بنگال والی بات ہے!
امام احمد بن حنبلؒ کا اپناقول پیش کیا، وہ آپ کیوں بھول جاتے ہو! ایک بار پھر پیش خدمت ہے:امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہؒ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 180 - 181 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام

اور یہاں کیا امام احمد حنبلؒ نے فقہ اہل لرائے، اور خاص نام لے کر امام ابو حنیفہؒ کی رائے کی کیاتعریف کی ہے؟ یہاں بالکل واضح و صریح انداز میں فقہ اہل الرائے کو متروک و مردود قرار دیا ہے۔
اشماریہ بھائی! ہم امام احمد بن حنبلؒ کا اپنا قول پیش کر رہے ہیں، اور آپ فرماتے ہو ''آپ کے قول''!! چہ معنی دارد؟
میرے محترم بھائی! ایک تو فقہ حنفیہ میں اٹکل پچو نہیں ہیں۔
اشماریہ بھائی! فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کی ایک مثال آپ کو پیش کی ہے، اس کا جواب ہنوز مطلوب ہے! دوم کہ جو فقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح ثابت حدیث کو ''عقل'' کے خلاف ہونے پر رد کرنے پر مبنی ہو اسے اٹکل پچّو قرار دینا بلکل درست ہے!
بلکہ میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ اصول فقہ (چاہے کسی بھی فقہ کے ہوں) کی بنیاد اصول حدیث کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔
اب اسے دیوانے کی بڑ نہ کہا جائے تو بھلا کیا کہا جانا چاہئے، فقہ کہ جس کی بنیاد حدیث پر ہے، اور صاحب فرماتے ہیں کہ اصول حدیث سے مظبوط اصول فقہ ہیں! یعنی آپ کے بقول بنیاد کمزور ہے اور عمارت مظبوط!! اب اس گپ پر بندہ کیا تبصرہ کرے!
خیر یہ بحث دوسر ی جانب نکل جائے گی۔ اشماریہ بھائی، کسی دن کبھی اصول فقہ حنفیہ پر بھی گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ!
نیز میں علم الحدیث سے ناواقف بھی نہیں ہوں۔ اس لیے میں جو کہہ رہا ہوں یا حوالہ دے رہا ہوں تو سوچ سمجھ کر دے رہا ہوں۔
اگر سوچ سمجھ کر یہ عالم ہے تو۔۔۔۔!
بھائی جان! ذرا یہ تو بتائیے گا کہ آپ نے علم الحدیث میں اب تک کون سی ایسی بات ہے جو بحوالہ درست فرمائی ہے؟
آپ تو امام احمد بن حنبل کے بعد کے قول کا 23 سال قبل کے قول سے رجوع ثابت کرنے لگے تھے،
آپ کو اب تک یہ نہیں معلوم کہ حافظ ، امام، بحور العلم وغیرہ سے توثیق لازم نہیں آتی! اس پر آپ نے محض اٹکل کے اور بیان کیا کیا ہے؟ ابھی آگے آپ کی وہ اٹکل دوبارہ آرہی ہے، اسی مقام پر اس کا جواب بھی آئے گا، ان شاء اللہ! اللہ کی توفیق سے۔
نہ آپ کو اس بات کا معلوم ہے کہ جس کی روایت، مطابقت کی محتاج ہو وہ راوی ضعیف ہوتا ہے!
آپ کے کلام سے تو یہی معلوم ہوتا کہ علم الحدیث کے تو قریب سے بھی گزر نہیں ہوا!
میں نے اس عبارت سے امام محمدؒ کی فصاحت پر استدلال نہیں کیا ان کی ذکاوت پر استدلال کیا ہے۔ کیوں کہ بات ہماری چلی ہے فقہ کے بارے میں اور فقہ کا ڈائریکٹ تعلق ذکاوت سے ہوتا ہے۔ میرا استدلال وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ سے تھا۔
امام شافعی کا ہی ایک اور قول ان کے بارے میں یہ ہے:
ما رأیت أعلم بكتاب الله من محمد، كأنه علیه نزل
مناقب ابی حنیفہ و صاحبیہ للذہبی (1، 81 ط احیاء المعارف)
یہ قول امام محمدؒ کے فقہ و علم کے بارے میں انتہائی واضح ہے۔
آپ کو امام شافعیؒ کا ہی محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی فقہ کا نقد بتلایا تھا۔ اور وہ بھی اصول فقہ میں، آپ کو بتلایا تھا کہ امام شافعیؒ نے ''الرسالہ'' اہل الرائے بالخصوص محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے رد میں ہی لکھی تھی! مگر آپ یہ سب باتیں بھول جاتے ہو۔ اس سے پہلے ک آپ ک اپیش کیا ہوا قول اور اس یہ قول بھی آپ نے امام الذہبیؒ کی کتاب سے نقل کیاہے، ہم بھی آپ کو امام الذہبیؒ سے ہی اس ''ذکاوت ''کا حال بتلا دیتے ہیں۔ اما الذہبیؒ نے محمد بن الحسنؒ پر امام احمد بن حنبلؒ کی جرح کے معنی بیان کئے ہیں، اسے ملاحظہ فرمائیں، کہ محمد بن الحسن الشیبانیؒ کی قرآن میں'' ذکاوت'' اس قدر تھی کہ وہ قرآن کے عموم سے استدلال کرتے، اور احادیث سے کو رد کر دیا کرتے تھے:
وقال حنبل: سمعتُ أحمد بن حنبل يقول: كان أبو يوسف منصفًا في الحديث، وأما محمد فكان مخالفًا للأثر، يعني يخالف الأحاديث ويأخذ بعموم القرآن.
وكان رحمه الله تعالى آية في الذكاء، ذا عقلٍ تامّ، وسؤدد، وكثرة تلاوة للقرآن.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 361 جلد 12 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام – امام الذهبي دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 956 جلد 04 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - امام الذهبي - دار الغرب الإسلامي
اب کیا خیال ہے؟
یہی بات امام الشافعیؒ کی ہے، امام الشافعیؒ نے بھی الرسالہ لکھ کر یہ بتلایا کہ اہل الرائے صحیح احادیث کو رد کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ امام الشافعی نے محمد بن حسن الشیبانی ؒ کی فقہ کو احادیث لکھ کر رد کیا، حوالہ اوپر گذرا!!آیئے آپ کو امام الشافعیؒ کا محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر ایک اور رد بتلاتا ہوں اور وہ بھی خاص فقہ میں:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فِيمَا كَتَبَ إِلَيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ، وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، صَاحِبُ الرَّأْيِ، فَقَالَ: قَالَ: وَضَعْتُ كِتَابًا عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ تَنْظُرُ فِيهِ؟ فَنَظَرْتُ فِي أَوَّلِهِ ثُمَّ وَضَعْتُهُ، أَوْ رَمَيْتُ بِهِ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ ، قُلْتُ: أَوَّلُهُ خَطَأٌ، عَلَى مَنْ وَضَعْتَ هَذَا الْكِتَابَ؟ ، قَالَ: عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ.
قُلْتُ: مَنْ أَهْلُ الْمَدِينَةِ؟ ، قَالَ: مَالِكٌ.
قُلْتُ: فَمَالِكٌ رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَقَدْ كَانَ بِالْمَدِينَةِ فُقَهَاءُ غَيْرُ مَالِكٍ: ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَالْمَاجِشُونُ، وَفُلانٌ وَفُلانٌ قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَدِينَةُ لا يَدْخُلُهَا الدَّجَّالُ، وَالْمَدِينَةُ لا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، وَالْمَدِينَةُ عَلَى كُلِّ بَيْتٍ مِنْهَا مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ»

امام الشافعیؒ نے کہا کہ اہل الرائے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ میں نے اہل مدینہ کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے، کیا آپ یعنی امام الشافعیؒ اسے دیکھیں گے؟ امام الشافعیؒ نے کہا کہ میں نے اس کے اول صفحہ ہی کو دیکھ کر اسے زمین پر پھینک دیا، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ آپ نے اسے پھینک کیون دیا؟ امام الشافعیؒ نے فرمایاکہ اس کا سرورق ہی غلط ہے، آپ نے یہ کتاب کس کے خلاف لکھی ہے؟ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ اہل مدینہ کے خلاف، امام الشافعیؒ نے کہا کہ اہل مدینہ کون لوگ ہیں؟ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے جواب دیا کہ امام مالک بن انسؒ۔ امام الشافعیؒ نے کہا کہ امام مالکؒ تو صرف فرد واحد اور تن تنہا ایک شخص ہیں، ان پر تمام اہل مدینہ کا اطلاق کیونکر ہو سکتا ہے؟( آپ کی اس کتاب کا نام ہی غلط اور خلاف واقع ہے) مدینہ منورہ میں تو امام مالک کے علاوہ بہت سارے فقہاء امام ابن ابی ذئبؒ و ماجشونؒ وغیرہ ہیں(پھر تو آپ کی اس کتاب کا نام ہی باطل ہے کیونکہ یہ کتاب اہل مدینہ کا رد نہیں بلکہ صرف مدینہ کے فرد واحد کا رد ہے،) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی فضیلت میں فرمایا ہے کہ وہاں دجال وطاعون داخل نہیں ہو سکتے اور مدینہ منورہ کے ہر گھر پر دجال و طاعون سے حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیخ برہنہ لئے ایک ایک فرشتہ متعین ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 81 - 82 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي - دار الكتب العلمية، بيروت

اس وقعہ کو امام بیہقی ؒنے بھی اپنی سندوں سے بیان کیا ہے، اور وہاں موجود ہے کہ بسم الله الرحمٰن الرحيم کے بعد سب کے سب خطا ء!
وأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: أخبرني أبو أحمد بن أبي الحسن الدارمي، قال: حدثنا عبد الرحمن بن محمد الحنظلي قال: أخبرني عبد الله بن أحمد في كتابه، قال: سمعت أبي يقول: قال محمد بن إدريس الشافعي: وذكر محمد بن الحسن صاحب الرأي - فقال. قد وضعت كتاباً على أهل المدينة تنظر فيه. فنظرت في أوله ثم وضعته، أو رميت به.
فقال: مالك؟ فقلت: أوله خطأ. على من وضعت هذا الكتاب؟ قال: على أهل المدينة. قلت: مَنْ أهلُ المدينة؟ قال: مالك. قلت: مالك رجل واحد، قد كان بالمدينة فقهاء غير مالك: ابن أبي ذئب والمَاجشُون وفلان وفلان، وقال النبي، صلى الله عليه وسلم: «المدينة لا يدخلها الدجال والطاعون، والمدينة على كُلِّ نَقَبٍ من أنْقَابها ملك شاهر سيفه».

أخبرنا محد بن عبد الله الحافظ، قال: أخبرني أبو الوليد: حسان بن محمد الفقيه، قال: حدثنا إبراهيم بن محمود، قال: وحدثني أبو سليمان، قال: حدثني أبو ثَوْر، قال: سمعت الشافعي يقول: حضرت مجلساً، ومحمد بن الحسن بالرّقّة، وفيه جماعة من بني هاشم وقريش وغيرهم ممن ينظر في العلم؛ فقال محمد بن الحسن: قد وضعتُ كتاباً لو علمت أن أحداً يردُّ عليَّ منه شيئاً تبلغنيه الإبل لأتيته. قال: فقلت له: قد نظرت في كتابك هذا، فإذا بعد بسم الله الرحمن الرحيم خطأ كله. قال: وما ذاك؟
قلت له: قلت: قال أهل المدينة، وليس تخلو في قولك: قال أهلُ المدينة: مِنْ أن تكونَ أردتَ جميعَ أهل المدينة، أو تكونَ أردتَ بقولك: قال أهل المدينة: مالك بن أنس على انفراده.
فإن كنت أردت بقولك: قال أهل المدينة جميع أهل المدينة فقد أخطأت؛ لأن علماء أهل المدينة لم يتفقوا على ما حكيت عنهم.
وإن كنت أردت بقولك مالك بن أنس على انفراده، وجعلته أهلَ المدينة فقد أخطأت؛ لأن بالمدينة [من علمائها] مَنْ يرى استتابة مالك فيما خالفه فيه، فأي الأمرين قد قصدت له فقد أخطأت.
قال: فتبين لأهل المجلس ذلك وسُرّ به أكثر من حضر من أهل الحجاز.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 120 – 122 جلد 01 مناقب الشافعي - أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي - مكتبة دار التراث، القاهرة

یہ بھی غور سے مطالعہ فرمائیں کہ امام الشافعی نے فقہ اہل الرائے کو، احادیث کے خلاف قرار دیا، اور اہل رائے، بالخصوص محمد بن الحسن الشیبانی کو احادیث کا رد کرنے والا:
أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَوْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّبَيْرَ بْنَ سُلَيْمَانَ الْقُرَشِيَّ، يَذْكُرُ عَنِ الشَّافِعِيِّ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْفَقِيهِ، فَأَصْبَحَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَجَعَلَ يَذْكُرُ الْمَدِينَةَ وَيَذُمُّ أَهْلَهَا، وَيَذْكُرُ أَصْحَابَهُ وَيَرْفَعُ مِنْ أَقْدَارِهِمْ، وَيَذْكُرُ أَنَّهُ وَضَعَ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ كِتَابًا، لَوْ عَلِمَ أَحَدًا يَنْقُضُ أَوْ يَنْقُصُ مِنْهُ حَرْفًا، تَبْلُغُهُ أَكْبَادُ الإِبِلِ، لَصَارَ إِلَيْهِ» .
فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، أَرَاكَ قَدْ أَصْبَحْتَ تَهْجُو الْمَدِينَةَ، وَتَذُمُّ أَهْلَهَا، فَلَئِنْ كُنْتَ أَرَدْتَهَا، فَإِنَّهَا لَحَرَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْنُهُ، سَمَّاهَا اللَّهُ طَابَةَ، وَمِنْهَا خُلِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِهَا قَبْرُهُ، وَلَئِنْ أَرَدْتَ أَهْلَهَا، فَهُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْهَارُهُ وَأَنْصَارُهُ، الَّذِينَ مَهَّدُوا الإِيمَانَ، وَحَفِظُوا الْوَحْيَ، وَجَمَعُوا السُّنَنَ، وَلَئِنْ أَرَدْتَ مَنْ بَعْدَهُمْ أَبْنَاءَهُمْ وَتَابِعِيهِمْ بِإِحْسَانٍ، فَأَخْيَارُ هَذِهِ الأُمَّةِ، وَلَئِنْ أَرَدْتَ رَجُلا وَاحِدًا وَهُوَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، فَمَا عَلَيْكَ لَوْ ذَكَرْتَهُ، وَتَرَكْتَ الْمَدِينَةَ.
فَقَالَ: مَا أَرَدْتُ إِلا مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ.
فَقُلْتُ: لَقَدْ نَظَرْتُ فِي كِتَابِكَ الَّذِي وَضَعْتَهُ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ، فَوَجَدْتُ فِيهِ خَطَأً.
فَقُلْتَ فِي رَجُلَيْنِ تَدَاعَيَا جِدَارًا، وَلا بَيِّنَةَ بَيْنَهُمَا، إِنَّ الْجِدَارَ لِمَنْ يَلِيهِ الْقُمُطُ، وَمَعَاقِدُ اللِّبِنِ.
وَقُلْتَ فِي الرِّفَافِ يَدَّعِيهَا السَّاكِنُ وَرَبُّ الْحَانُوتِ: إِنْ كَانَتْ مُلْزَقةً فَهِيَ لِلسَّاكِنِ، وَإِنْ كَانَتْ مَبْنِيَّةً فَهِيَ لِرَبِّ الْحَانُوتِ.
وَقُلْتَ فِي امْرَأَةٍ جَادَتْ بِوَلَدٍ، فَأَنْكَرَ الزَّوْجُ وَقَالَ: اسْتَعَرْتِهِ، وَلَمْ تَلِدِنِيهِ: إِنَّكَ تَقْبَلُ فِيهَا شَهَادَةَ الْقَابِلَةِ وَحْدَهَا.
وَرَدَدْتَ عَلَيْنَا الشَّاهِدَ وَالْيَمِينَ، وَهِيَ سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْخُلَفَاءِ، وَقَوْلِ الْحُكَّامِ عِنْدَنَا بِالْمَدِينَةِ، وَأَنْتَ تَقُولُ هَذَا بِرَأْيِكَ، وَتَرُدُّ عَلَيْنَا السُّنَنَ، وَعَدَدْتَ عَلَيْهِ الأَحْكَامَ الَّتِي خَالَفَهَا ".
وَكَانَ عَلَى الدَّارِ هَرْثَمَةُ، فَكَتَبَ الْخَبَرَ، وَدَخَلَ عَلَى الْخَلِيفَةِ، فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْخَبَرَ، فَقَالَ الْخَلِيفَةُ: أَكَانَ يَأْمَنُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَنْ يَقْطَعَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ؟ ! فَاخْرُجْ إِلَى الشَّافِعِيِّ، وَأَقْرِئْهُ سَلامِي، وَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ أَمَرَ لَكَ بِخَمْسَةِ آلافِ دِينَارٍ، وَعَجَّلَهَا لَكَ مِنْ بَيْتِ مَالِ الْحَضَرَةِ.
قَالَ: فَخَرَجَ هَرْثَمَةُ، وَأَقْرَأَنِي سَلامَهُ، وَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ أَمَرَ لَكَ بِخَمْسَةِ آلافِ دِينَارٍ، وَقَالَ هَرْثَمَةُ: لَوْلا أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لا يُسَاوَى لأَمَرْتُ لَكَ بِمِثْلِهَا، وَلَكِنِ الْقَ غُلامِي، فَاقْبِضْ مِنْهُ أَرْبَعَةَ آلافِ دِينَارٍ.
فَقَالَ يَعْنِي الشَّافِعِيَّ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، لَوْلا أَنِّي لا أَقْبَلُ جَائِزَةً إِلا مِمَّنْ هُوَ فَوْقِي لَقَبِلْتُ جَائِزَتَكَ، وَلَكِنْ عَجِّلْ لِي مَا أَمَرَ بِهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، فَحُمِلَ إِلَيْهِ الْمَالُ.
قَالَ: ثُمَّ جَاءَنِي هَرْثَمَةُ، فَقَالَ: تَأَهَّبْ لِلدُّخُولِ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، مَعَ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، وَأَخَذْنَا مَجَالِسَنَا، فَقُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ: مَا تَقُولُ فِي الْقَسَامةِ؟ قَالَ: اسْتِفْهَامٌ، قُلْتُ: تَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَاجُ أَنْ يَسْتَفْهِمَ يَهُودَ؟ وَجَرَى بَيْنَنَا كَلامٌ، وَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ

امام الشافعیؒ نے فرمایا کہ میں فقیہ اہل الرائے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے پاس بیٹھا کرتا تھا، ایک دن وہ مدینہ و اہل مدینہ کا ذکر بطور مذمت کر رہے تھے اور اپنے اہل الرائے ہم مذہب لوگوں کا ذکر بلند دعاوئ مدح کے ساتھ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں نے اہل مدینہ کے خلاف ایسی کتاب لکھی ہے جس کا ایک حرف بھی رد کرنے والے کسی عالم کا اگر مجھے پتہ لگے جس کے پاس جانے کے لئے بڑی مشقت اٹھانی پڑے تو میں جاؤں گا، میں نے کہا کہ جناب میں دیکھتا ہوں کہ آپ مدینہ منورہ اور اس کے باشندوں کی ہجو سرائی و مذمت کر رہے ہیں، حالانکہ یہ حرم نبوی و مامن نبوی ہے، اس کا نام اللہ تعالیٰ نے طابہ رکھا ہے، اس کی مٹی میں قبر نبوی ہے اور یہاں کے باشندے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خسر و داماد و انصار ہیں، جنہوں نے ایمان کو اپنی گود میں لے کر بلند مرتبہ حاصل کیا، انہوں نے وحی الہٰی کی حفاظت کی، سنن نبویہ کو جمع کیا، ان صحابہ کے بیٹے اور تابعین کرام اس امت کے بہترین افراد ہیں، اگر مدینہ و اہل مدینہ کے خلاف آپ کی ہجو سرائی و محاذ آرائی سے مراد امام مالکؒ کی ہجو و مذمت وتردید ہے تو پھر صرف امام مالکؒ ہی پر یہ ساری کاروائیاں کرتے اور اہل مدینہ کو اپنی نیش زنی و ہجو سرائی سے معاف رکھتے، امام الشافعیؒ کی اس بات کے جواب میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ میرا مقصد صرف امام مالکؒ کی ہجو و مذمت وتردید و نیش زنی ہے، امام الشافعیؒ نے فرمایا ، میں نے آپ کی کتاب دیکھی ہے ، وہ تو تمام اہل مدینہ کے خلاف لکھی ہے، اس کتاب میں میں نے خطائیں دیکھی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

امام الشافعیؒ کی امام محمد پر اس رد بلیغ کی روئیداد خلیفہ ہاورن الرشید کا وزیر ہرثمہ لکھ کر خلیفہ کے پاس لے گیا، خلیفہ نے امام الشافعی کے ہاتھوں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی اس روئیداد (روئیداد درگت ) کی خبر پڑھ کر کہا کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ اپنے آپ کو اس بات سے محفوظ سمجھتے تھے کہ انہیں بنو عبد مناف کا ایک آدمی امام الشافعیؒ لا جواب و ساکت کردے گا۔ اے میرے وزیر ہرثمہ! امام الشافعیؒ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور میری طرف سے انہیں پانچ ہزار اشرفیاں فی الفور بطور انعام پیش کرو، ہرثمہ نے حکم خلیفہ کی تعمیل کی اور اس نے امام الشافعیؒ سے کہا کہ اگر خلیفہ کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں بھی آپ کو پانچ ہزار اشرفیاں انعام دیتا مگر میں اپنی طرف سے آپ کو چار ہزار اشرفیاں دے رہا ہوں، امام شافعیؒ نے ہرثمہ سے کہا کہ اللہ تمہیں جزائے خیر دے میں آپ کی رقم قبول کرنے سے قاصر ہوں، البتہ خلیفہ والی رقم جلد ہی دے دو، امام الشافعیؒ نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ ہرثمہ نے مجھے آکر کہا کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے ساتھ امیر المومنین خلیفہ کے پاس تیار ہو کر چلیں، ہم خلیفہ کے پاس آئت، میں نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے قسامہ کا مسئلہ پوچھا، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ اس سلسلے میں استفہام کیا جائے گا، میں نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے لہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود سے استفہام کے محتاج تھے؟ بہر حال ہمارے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، پھر ہم خلیفہ کے یہاں سے باہر آئے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 124 - 126 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي - دار الكتب العلمية، بيروت

جناب من! اب کیا فرمایئے گا! امام الشافعیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی ''ذکاوت'' کا حال خود اور بہت خوب بیان کر دیا۔فتدبر!
یہاں تو صریح الفاظ ہیں کہ امام الشافعیؒ خود محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہيں:
وَأَنْتَ تَقُولُ هَذَا بِرَأْيِكَ، وَتَرُدُّ عَلَيْنَا السُّنَنَ، وَعَدَدْتَ عَلَيْهِ الأَحْكَامَ الَّتِي خَالَفَهَا "
اور تم اپنی رائے سے کہتے ہو اور ہمارے پاس جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن یعنی احادیث ہیں انہیں رد کرتے ہو، ایسے متعدد احکام و مسائل ہیں کہاں تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی مخالفت کرتے ہو!
یہ حال بیان کیا ہے ، امام الشافعیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی ''فقہ'' کا۔ فتدبر!!

(جاری ہے)
 
Last edited:
Top