• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے !

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132


انہیں عجائب قدرت اور آیات کبری میں سے ایک آیت وہ بھی ہے جس کا ذکر زیر بحث حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر جانے سے قبل مسجد حرام سے مسجد اقصی کے درمیان میں کسی سرخ ریتیلے ٹیلے کے پاس حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھتے دکھایا گیا ، یہ سرخ ٹیلا کہاں ہے اس کی کوئی وضاحت حدیث و تاریخ کی کتابوں میں وارد نہیں ہے ، یہ نماز پڑھنے کی کیفیت کیا تھی ، اس سلسلے میں کوئی بات کہنا حدود الہی سے تجاوز کرنا ہے ، کیونکہ یہ عالم برزخ کا معاملہ ہے ، اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو عالم برزخ میں جو زندگی حاصل ہے وہ عام لوگوں سے بہتر اور قوی ہے اور انہیں عالم برزخ میں بھی عبادت کی توفیق حاصل ہے ، واللہ أعلم ۔

معراج میں نبیﷺ کا حضرت موسیٰ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھنا ان کے معجزات میں شامل ہے۔ او رمعجزہ خرق عادت سے امور کے صادر ہونے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طو رپر معراج میں وہ تمام امو رجو عقلاً محال تھے مثلاً براق کا وجود، آسمانوں کا سفر، جنت و دوزخ کے مناظر خود دیکھنا وغیرہ سب امور معجزہ سےمتعلقہ ہیں۔ اور یہ طے شدہ بات ہے کہ معجزہ سے کوئی مسئلہ یا قاعدہ و قانون اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اس واقعہ سے حیات انبیاء کی دلیل اخذ کرنا درست نہیں۔



اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

﴿إنک میت وانھم میتون﴾

(زمر:30)

''بے شک اےنبیﷺ! آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور وہ بھی فوت ہوں گے۔''
قرآن کا معجزہ ہونا قرآن اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے
کتاب اللہ سے ثبوت
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ کیا گیا تو یہ ارشاد باری تعالیٰ نازل ہوا

اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔
العنکبوت : 51
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
قرآن کے بعد اصح ترین کتاب سے ثبوت

قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما من الأنبياء نبي إلا أعطي ما مثله آمن عليه البشر،‏‏‏‏ وإنما كان الذي أوتيت وحيا أوحاه الله إلى
ترجمہ از داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر) ان پر ایمان لائے (بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔
صحیح بخاری :کتاب فضائل القرآن :باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟ حدیث نمبر : 4981


قرآن و حدیث کے ان دلائل سے ثابت ہوا کہ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے اور آپ کے بے دلیل عقیدہ کے مطابق معجزہ سے کوئی مسئلہ یا قاعدہ و قانون اخذ نہیں کیا جاسکتا اور یہ بات بیان کرنے کے بعد آپ نے جو دلیل دی وہ بھی ایسی معجزہ یعنی قرآن کریم سے دی اس طرح
''بے شک اےنبیﷺ! آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور وہ بھی فوت ہوں گے۔''

اور یہ دلیل دے کر خود ہی اپنے اس عقیدہ کی نفی کردی کہ معجزہ سے کوئی مسئلہ یا قاعدہ و قانون اخذ نہیں کیا جاسکتا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
أتيت - وفي روايةِ هدَّابٍ : مررتُ - على موسى ليلةَ أسريَ بي عند الكثيبِ الأحمرِ . وهو قائمٌ يصلي في قبرِه
الراوي: أنس بن مالك المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2375
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔''
اگر آپ کا کیا ہوا ترجمہ صحیح مان لیا جائے تو اس صحیح حدیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ مردہ کبھی مصروفِ صلاۃ نہیں ہو سکتا ۔


مسٹر بہرام پہلے اس حدیث پر تو بحث کر لیں - جو آپ نے پیش کی ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت عمر سماع موتہٰ کے منکر تھے کیا محمد رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم بھی سماع موتہ کے منکر ہیں ؟؟

آئیں آپ جیسے کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب مانتے ہیں اس کا مطالعہ کرتے ہیں
أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم بدر بأربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من أطواء بدر خبيث مخبث،‏‏‏‏ وكان إذا ظهر على قوم أقام بالعرصة ثلاث ليال،‏‏‏‏ فلما كان ببدر اليوم الثالث،‏‏‏‏ أمر براحلته فشد عليها رحلها،‏‏‏‏ ثم مشى واتبعه أصحابه وقالوا ما نرى ينطلق إلا لبعض حاجته،‏‏‏‏ حتى قام على شفة الركي،‏‏‏‏ فجعل يناديهم بأسمائهم وأسماء آبائهم ‏"‏ يا فلان بن فلان،‏‏‏‏ ويا فلان بن فلان،‏‏‏‏ أيسركم أنكم أطعتم الله ورسوله فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا،‏‏‏‏ فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا
ترجمہ از داؤد راز
بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سرداربدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سواری پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے آپ کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے کہا ' غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کرکھڑے ہو گئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر آپ انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہو گیا تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب کا) تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟
اس بات پر حضرت عمر نے کہا
قال عمر : يا رسولَ اللهِ، ما تكلم من أجساد لا أرواح لها ؟
ترجمہ از داؤٖد راز
عمر رضی اللہ عنہ بول پڑے یا رسول اللہ! آپ ان لا شوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے
یعنی حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات پر ٹوکا کہ آپ مردوں سے کلام کررہے ہیں اور دیگر روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نےاس قرآنی آیت "آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے "سے باطل استدالال کیا اور ان کے باطل استدلال کو یکسر مسترد کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا
فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم )
ترجمہ از داؤد راز
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ' جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق زندہ لوگوں کی سماعت مردہ لوگوں سے زیادہ نہیں ہوتی

حوالہ حدیث
الراوي: أبو طلحة زيد بن سهل الأنصاري المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3976
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]


اس سے یہ نتیجہ ظاہر ہوا کہ جو لوگ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں وہ سماع موتہ کے قائل ہیں اور جو صحابہ پرست ہیں وہ حضرت عمر کی طرح سماع موتہ کے منکر ہیں سماع موتہ کےمطلق قائل تو ابن تیمیہ اور ان کے کے شاگرد ابن قیم بھی ہیں جن کی کتابوں کا حوالہ اور رائے صحابہ پرست ہر مسئلہ میں بیان کرتے ہیں لیکن اس طرح کے کسی مسئلہ میں ان کی رائے پیش نہیں کی جاتی جب حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی امتی سماع موتہ کی بحث میں ان کی رائے پیش کرتا ہے تو یہ کہہ کر اس رائے کو مسترد کردیا جاتا ہے کہ ہم ابن تیمیہ کے مقلد نہیں لیکن دوسرے تمام مسئل میں ابن تیمیہ کی ہی تقلید کی جاتی ہے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
حضرت عمر سماع موتہٰ کے منکر تھے کیا محمد رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم بھی سماع موتہ کے منکر ہیں ؟؟

آئیں آپ جیسے کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب مانتے ہیں اس کا مطالعہ کرتے ہیں
أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم بدر بأربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من أطواء بدر خبيث مخبث،‏‏‏‏ وكان إذا ظهر على قوم أقام بالعرصة ثلاث ليال،‏‏‏‏ فلما كان ببدر اليوم الثالث،‏‏‏‏ أمر براحلته فشد عليها رحلها،‏‏‏‏ ثم مشى واتبعه أصحابه وقالوا ما نرى ينطلق إلا لبعض حاجته،‏‏‏‏ حتى قام على شفة الركي،‏‏‏‏ فجعل يناديهم بأسمائهم وأسماء آبائهم ‏"‏ يا فلان بن فلان،‏‏‏‏ ويا فلان بن فلان،‏‏‏‏ أيسركم أنكم أطعتم الله ورسوله فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا،‏‏‏‏ فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا
ترجمہ از داؤد راز
بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سرداربدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سواری پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے آپ کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے کہا ' غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کرکھڑے ہو گئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر آپ انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہو گیا تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب کا) تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟
اس بات پر حضرت عمر نے کہا
قال عمر : يا رسولَ اللهِ، ما تكلم من أجساد لا أرواح لها ؟
ترجمہ از داؤٖد راز
عمر رضی اللہ عنہ بول پڑے یا رسول اللہ! آپ ان لا شوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے
یعنی حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات پر ٹوکا کہ آپ مردوں سے کلام کررہے ہیں اور دیگر روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نےاس قرآنی آیت "آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے "سے باطل استدالال کیا اور ان کے باطل استدلال کو یکسر مسترد کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا
فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم )
ترجمہ از داؤد راز
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ' جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق زندہ لوگوں کی سماعت مردہ لوگوں سے زیادہ نہیں ہوتی

حوالہ حدیث
الراوي: أبو طلحة زيد بن سهل الأنصاري المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3976
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]


اس سے یہ نتیجہ ظاہر ہوا کہ جو لوگ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں وہ سماع موتہ کے قائل ہیں اور جو صحابہ پرست ہیں وہ حضرت عمر کی طرح سماع موتہ کے منکر ہیں سماع موتہ کےمطلق قائل تو ابن تیمیہ اور ان کے کے شاگرد ابن قیم بھی ہیں جن کی کتابوں کا حوالہ اور رائے صحابہ پرست ہر مسئلہ میں بیان کرتے ہیں لیکن اس طرح کے کسی مسئلہ میں ان کی رائے پیش نہیں کی جاتی جب حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی امتی سماع موتہ کی بحث میں ان کی رائے پیش کرتا ہے تو یہ کہہ کر اس رائے کو مسترد کردیا جاتا ہے کہ ہم ابن تیمیہ کے مقلد نہیں لیکن دوسرے تمام مسئل میں ابن تیمیہ کی ہی تقلید کی جاتی ہے ۔




مسٹر بہرام اپنا مونہہ بند رکھا کرو صحابہ کرام راضی اللہ کے بارے میں - الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ھو-



 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى

میں اگر اس طرح ترجمہ کردوں تو کیا یہ صحیح ہوگا
موسیٰ (علیہ السلام ( تم میں موجود ہوتے
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاری کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر بالفرض موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا"۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ "اس زات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہوتا
(رواہ امام احمد ۳/۳۸۷ \و امام بہیقی فی شعب الایمان کما فی المشکوة ۱/۳۰ \و فی الدارمی۱/۱۱۶)​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
قرآن کا معجزہ ہونا قرآن اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے
کتاب اللہ سے ثبوت
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ کیا گیا تو یہ ارشاد باری تعالیٰ نازل ہوا

اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔
العنکبوت : 51

 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
أتيت - وفي روايةِ هدَّابٍ : مررتُ - على موسى ليلةَ أسريَ بي عند الكثيبِ الأحمرِ . وهو قائمٌ يصلي في قبرِه
الراوي: أنس بن مالك المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2375
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔''

اگر آپ کا کیا ہوا ترجمہ صحیح مان لیا جائے تو اس صحیح حدیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ مردہ کبھی مصروفِ صلاۃ نہیں ہو سکتا ۔
یہ برزخی زندگی کا معاملہ ہے۔ برزخی زندگی میں نماز تو کیا نعمتیں اور عذاب دونوں کا سامنا ہوتا ہے جیسا کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا قبر کی نعمتوں اور عذاب قبر کا عقیدہ ہے۔

شہداء تو برزخی زندگی میں جنّت کے مزے لوٹتے ہیں۔ لیکن اسے کسی طور دنیاوی زندگی کے مثل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی لئے اللہ رب العٰلمین کا فرمان ہے:
﴿ وَلا تَقولوا لِمَن يُقتَلُ فى سَبيلِ اللَّـهِ أَموٰتٌ ۚ بَل أَحياءٌ وَلـٰكِن لا تَشعُر‌ونَ ١٥٤ ﴾ ... سورة البقرة
دوسری آیت کریمہ میں ہے: بل أحياء عند ربهم يرزقون ...

اگر یہ دنیاوی زندگی کی طرح ہوتی تو پھر ہمیں بھی اس کا شعور ہوتا۔

جب انسان دنیا میں اللہ کی طرف سے طے کردہ مقررہ عمر پوری کرکے فوت ہو جاتا ہے تو دنیاوی اعتبار سے اب وہ مردہ ہے زندہ نہیں۔ إنك ميت وإنهم ميتون

اس کے بعد اس کی قبر کی زندگی یا دوسرے الفاظ میں برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ برزخی زندگی (جو دنیاوی اعتبار سے موت ہے) یومِ بعثت (یومِ آخرت) تک جاری رہے گی۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿ حَتّىٰ إِذا جاءَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَ‌بِّ ار‌جِعونِ ٩٩ لَعَلّى أَعمَلُ صـٰلِحًا فيما تَرَ‌كتُ ۚ كَلّا ۚ إِنَّها كَلِمَةٌ هُوَ قائِلُها ۖ وَمِن وَر‌ائِهِم بَر‌زَخٌ إِلىٰ يَومِ يُبعَثونَ ١٠٠ ﴾ ... سورة المؤمنون
یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے (99) کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جو اس نے کہا، ان کے پس پشت تو ایک آڑ (برزخ) ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک (100)

درج بالا آیت کریمہ میں دنیا سے فوت ہونے سے لے قبر سے اٹھنے تک کے عرصہ کو برزخ قرار دیا گیا ہے۔

اور اسی بات کو قرآنِ کریم کی دیگر آیات کریمہ میں موت سے تعبیر کیا گیا ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ كَيفَ تَكفُر‌ونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُم أَموٰتًا فَأَحيـٰكُم ۖ ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ثُمَّ إِلَيهِ تُر‌جَعونَ ٢٨ ﴾ ... سورة البقرة
﴿ اللَّـهُ الَّذى خَلَقَكُم ثُمَّ رَ‌زَقَكُم ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ۖ هَل مِن شُرَ‌كائِكُم مَن يَفعَلُ مِن ذٰلِكُم مِن شَىءٍ ۚ سُبحـٰنَهُ وَتَعـٰلىٰ عَمّا يُشرِ‌كونَ ٤٠ ﴾ ... سورة الروم


درج بالا دونوں آیات کریمہ میں ہائی لائٹ کردہ موت سے مراد قبر کی برزخی زندگی نہیں تو کیا ہے؟ ليكن یہ دنیاوی اعتبار سے موت ہی ہے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ برزخی زندگی کا معاملہ ہے۔ برزخی زندگی میں نماز تو کیا نعمتیں اور عذاب دونوں کا سامنا ہوتا ہے جیسا کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا قبر کی نعمتوں اور عذاب قبر کا عقیدہ ہے۔

شہداء تو برزخی زندگی میں جنّت کے مزے لوٹتے ہیں۔ لیکن اسے کسی طور دنیاوی زندگی کے مثل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی لئے اللہ رب العٰلمین کا فرمان ہے:
﴿ وَلا تَقولوا لِمَن يُقتَلُ فى سَبيلِ اللَّـهِ أَموٰتٌ ۚ بَل أَحياءٌ وَلـٰكِن لا تَشعُر‌ونَ ١٥٤ ﴾ ... سورة البقرة
دوسری آیت کریمہ میں ہے: بل أحياء عند ربهم يرزقون ...

اگر یہ دنیاوی زندگی کی طرح ہوتی تو پھر ہمیں بھی اس کا شعور ہوتا۔

جب انسان دنیا میں اللہ کی طرف سے طے کردہ مقررہ عمر پوری کرکے فوت ہو جاتا ہے تو دنیاوی اعتبار سے اب وہ مردہ ہے زندہ نہیں۔ إنك ميت وإنهم ميتون

اس کے بعد اس کی قبر کی زندگی یا دوسرے الفاظ میں برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ برزخی زندگی (جو دنیاوی اعتبار سے موت ہے) یومِ بعثت (یومِ آخرت) تک جاری رہے گی۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿ حَتّىٰ إِذا جاءَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَ‌بِّ ار‌جِعونِ ٩٩ لَعَلّى أَعمَلُ صـٰلِحًا فيما تَرَ‌كتُ ۚ كَلّا ۚ إِنَّها كَلِمَةٌ هُوَ قائِلُها ۖ وَمِن وَر‌ائِهِم بَر‌زَخٌ إِلىٰ يَومِ يُبعَثونَ ١٠٠ ﴾ ... سورة المؤمنون
یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے (99) کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جو اس نے کہا، ان کے پس پشت تو ایک آڑ (برزخ) ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک (100)

درج بالا آیت کریمہ میں دنیا سے فوت ہونے سے لے قبر سے اٹھنے تک کے عرصہ کو برزخ قرار دیا گیا ہے۔

اور اسی بات کو قرآنِ کریم کی دیگر آیات کریمہ میں موت سے تعبیر کیا گیا ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ كَيفَ تَكفُر‌ونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُم أَموٰتًا فَأَحيـٰكُم ۖ ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ثُمَّ إِلَيهِ تُر‌جَعونَ ٢٨ ﴾ ... سورة البقرة
﴿ اللَّـهُ الَّذى خَلَقَكُم ثُمَّ رَ‌زَقَكُم ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ۖ هَل مِن شُرَ‌كائِكُم مَن يَفعَلُ مِن ذٰلِكُم مِن شَىءٍ ۚ سُبحـٰنَهُ وَتَعـٰلىٰ عَمّا يُشرِ‌كونَ ٤٠ ﴾ ... سورة الروم


درج بالا دونوں آیات کریمہ میں ہائی لائٹ کردہ موت سے مراد قبر کی برزخی زندگی نہیں تو کیا ہے؟ ليكن یہ دنیاوی اعتبار سے موت ہی ہے۔
ایسی لئے میں نے اس دنیا کی مسجد یعنی مسجد اقصیٰ میں ان انبیاء کے فردا فردا مصروف صلاۃ ہونے اور مقتدی کے طور پر نماز پڑھنے کی صحیح حدیث بھی آپ کی خدمت میں پیش کردی ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

مسٹر بہرام اپنا مونہہ بند رکھا کرو صحابہ کرام راضی اللہ کے بارے میں - الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ھو-



یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد ہے کہ

فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم )
ترجمہ از داؤد راز
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ' جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔

اس ارشاد پاک میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ معجزہ کی وجہ سے یہ مردے سن رہے ہیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ زندہ لوگ ان مردوں سے زیادہ نہیں سن رہے
یہ تو آپ کی چوائس ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مانو یا کسی اور کی۔
 
Top