اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ انبیا دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں قبر میں تو
جب حضور صلی اللہ وسلم معراج کے سفر پر آسمانوں پر چڑھے
تو سارے انبیا وہاں بھی ملے
وہاں کون سی زندگی تھی انبیا کی
دنیا کی یا برزخ کی
وہاں حضور صلی اللہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے کیوں پوچھا کہ
یہ کون ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں۔۔
اس حدیث پر ذرا کچھ روشنی ڈال دیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔۔حضرت جبرئیل علیہ السلام اترے انہوں نے پہلے میرے سینے کا چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا بعد میں سینہ بند کر دیا بعد میں انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف لے چڑھے جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیل علیہ السلام نے داروغہ آسمان سے کہا دروازہ کھول' اس نے کہا کون ہے ؟
بولے میں جبرئیل علیہ السلام ہوں پھر اس نے پوچھا یہ تمہارے ہمراہ کون ہے ؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا میرے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں' اس نے پھر دریافت کیا کہ انہیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہاں! اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب جم غفیر اور بائیں جانب بھی انبوئہ کثیر تھا جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتا تو رو دیتااس نے(مجھے دیکھ کر) فرمایا کہ نیک پیغمبر اچھے بیٹے خوش آمدید ! میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں انبوہ کثیر ان کی اولاد کی ارواح ہیں دائیں جانب والے جنتی اور بائیں جانب والے دوزخی ہیں اس لیے دائیں طرف نظر کر کے ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتے ہیں پھر حضرت جبرئیل مجھے لے کر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھول دو ' اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی چناچہ اس نے دروازہ کھول دیا۔۔حضرت انس رضی اللہ نے فرمایا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں حضرت آدم' ادریس 'موسی'عیسی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی لیکن ان کے مقامات کو بیان نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پایا۔۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے فرمایاکہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید ! میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیایہ حضرت ادریس علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں۔۔پھر میں حضرت عیٰسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ توانہوں نے جواب دیا یہ حضرت عیٰسی علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا کہ صالح نبی اور اچھے بیٹے خوش آمدید ! میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھاکہ یہ کون ہیں؟تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرت ابراہیم السلام ہیں۔۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ اور حضرت ابو حبہ انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ نے میری امت امت پر پچاس نمازیں فرض کیں میں یہ حکم لے کر واپس آیاجب موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا (شب و روز میں) پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔۔اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت ان کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔۔چنانچہ میں واپس گیا تو اللہ تعالٰی نے کچھ نمازیں معاف کر دیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا اللہ تعالٰی نے کچھ نمازیں معاف کر دیں ہیں۔۔انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس واپس جاؤ آپ کی امت ان کی بھی متحمل نہیں ہے میں لوٹا تو اللہ نے کچھ اور نمازیں معاف کر دیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت ان (نمازوں) کی بھی متحمل نہیں ہو سکے گی۔۔میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) بالآخر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ نمازیں پانچ ہیں اور درحقیقت (ثواب کے لحاظ سے) پچاس ہیں میرے ہاں فیصلہ بدلنے کا دستور نہیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس(مزید تخفیف کے لئے) لوٹ جاؤ میں نے کہا اب مجھے اپنے مالک سے شرم آتی ہے پھر مجھے جبرئیل لے کر روانہ ہوگئے یہاں تک کہ سدرۃالمنتہی تک پہنچا دیا جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔۔جن کی حقیقت کا مجھے علم نہیں پھر میں جنت میں داخل کیا گیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کی (جگمگاتی) لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔۔
(رواہ البخاری)