• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے !

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاری کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر بالفرض موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا"۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ "اس زات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہوتا
(رواہ امام احمد ۳/۳۸۷ \و امام بہیقی فی شعب الایمان کما فی المشکوة ۱/۳۰ \و فی الدارمی۱/۱۱۶)​
تفسیر ابن کثیر سورہ آل عمران کی آیت 81۔82 کی تفسیر میں بھی یہ حدیث بیان ہوئی ہے اور ہائی لائٹ کردہ حصہ کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے

اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی تم میں آجائیں


یہاں بھی زندہ ہوکر آجائیں کا کوئی نام و نشان نہیں !!!!!!!


اور دوسری بات یہ کہ اس حدیث کو البانی صاحب نے شواھد کی بناء پر حسن کہا ہے
؎
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
تفسیر ابن کثیر سورہ آل عمران کی آیت 81۔82 کی تفسیر میں بھی یہ حدیث بیان ہوئی ہے اور ہائی لائٹ کردہ حصہ کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے

اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی تم میں آجائیں


یہاں بھی زندہ ہوکر آجائیں کا کوئی نام و نشان نہیں !!!!!!!


اور دوسری بات یہ کہ اس حدیث کو البانی صاحب نے شواھد کی بناء پر حسن کہا ہے
؎



وَعَنْ جَابِرِ عَنْ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم حَیْنَ اَتَاہُ عُمَرُ فَقَالَ: اِنَّا نَسْمَعُ اَحَادِیْثَ مِنْ یَھُوْدَ تُعْجِبُنَا اَفَتَرَی اَنْ نَّکْتُبَ بِعْضَھَا ؟فَقَالَ: اَمُتَھَوْ کُوْنَ اَنْتُمْ کَمَا تَھَوَّکَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارِی ؟لَقَدْ جَئْتُکُمْ بِھَا بَیْضَاءَ نَقَیَّۃً وَلَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیَّا وَمَاسِعَہ، اِلَّا اتِّبَاعِی۔


رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِیُّ فِی کِتَاب شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔


" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم یہود کی حدیثیں سنتے ہیں اور وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتی ہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو لکھ لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم بھی اسی طرح حیران ہو جس طرح یہود اور نصاریٰ حیران ہیں۔ )جان لو کہ( بلاشبہ میں تمہارے پاس صاف و روشن شریعت لایا ہوں، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ بھی میری پیروی پر مجبور ہوتے۔"

)مسند احمد بن حنبل ، بیہقی(

وَعَنْ جَابِرِاَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا اٰتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِنُسْخَۃِ مِنَ التَّوْرَاۃِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ!ھٰذِہٖ نُسْخَۃٌ مِّنَ التَّوْرَاۃِ فَسَکَتَ فَجَعَلَ یَقْرَأُوَوَجْہُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَغَیَّرُ فَقَالَ اَبُوْبَکْرِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہ، ثَکِلَتْکَ الثَّوَاکِلُ مَاتَرٰی مَابِوَجْہٖ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَنَظَرَ عُمَرُ اِلٰی وَجْہٖ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ اﷲِ وَغَضَبِ رَّسُوْلِہٖ رَضِیْنَا بِاﷲِ رَبًا وَبِالْاِ سْلَامِ دِیْنَا وَبِمُحَمَّدِ نَبِیًّا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدِ بِیَدِہٖ لَوْبَدَاْلَکُمْ مُوْسٰی فَاتَّبَعْتُمُوْہ، وَتَرَکْتُمُوْنِیْ الَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ لسَّبِیْلِ وَلَوْ کَانَ حَیًّا وَاَدْرَکَ نَبُوَّتِیْ لاَ تَّبَعَنِی
رواہ الدامی


" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ )ایک مرتبہ( حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لائے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ تورات کا نسخہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تورات کو پڑھنا شروع کر دیا۔ ادھر غصہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہونے لگا یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عمر! گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں۔ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کے تغیر کو نہیں دیکھتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ منوّر کی طرف نظر ڈالی اور غصہ کے آثار دیکھ کر کہا میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غصہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر موسیٰ )علیہ السلام تمہارے درمیان ظاہر ہوتے تو تم ان کی پیروی کرتے اور مجھے چھوڑ دیتے -جس کے نتیجہ میں تم سیدھے راستہ سے بھٹک کر گمراہ ہو جاتے اور حالانکہ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میرا زمانہ نبوت پاتے تو وہ بھی میری ہی پیروی کرتے۔"

)درامی(
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ایسی لئے میں نے اس دنیا کی مسجد یعنی مسجد اقصیٰ میں ان انبیاء کے فردا فردا مصروف صلاۃ ہونے اور مقتدی کے طور پر نماز پڑھنے کی صحیح حدیث بھی آپ کی خدمت میں پیش کردی ہے


اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ انبیا دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں قبر میں تو
جب حضور صلی اللہ وسلم معراج کے سفر پر آسمانوں پر چڑھے
تو سارے انبیا وہاں بھی ملے
وہاں کون سی زندگی تھی انبیا کی
دنیا کی یا برزخ کی
وہاں حضور صلی اللہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے کیوں پوچھا کہ
یہ کون ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں۔۔
اس حدیث پر ذرا کچھ روشنی ڈال دیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔۔حضرت جبرئیل علیہ السلام اترے انہوں نے پہلے میرے سینے کا چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا بعد میں سینہ بند کر دیا بعد میں انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف لے چڑھے جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیل علیہ السلام نے داروغہ آسمان سے کہا دروازہ کھول' اس نے کہا کون ہے ؟
بولے میں جبرئیل علیہ السلام ہوں پھر اس نے پوچھا یہ تمہارے ہمراہ کون ہے ؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا میرے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں' اس نے پھر دریافت کیا کہ انہیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہاں! اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب جم غفیر اور بائیں جانب بھی انبوئہ کثیر تھا جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتا تو رو دیتااس نے(مجھے دیکھ کر) فرمایا کہ نیک پیغمبر اچھے بیٹے خوش آمدید ! میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں انبوہ کثیر ان کی اولاد کی ارواح ہیں دائیں جانب والے جنتی اور بائیں جانب والے دوزخی ہیں اس لیے دائیں طرف نظر کر کے ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتے ہیں پھر حضرت جبرئیل مجھے لے کر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھول دو ' اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی چناچہ اس نے دروازہ کھول دیا۔۔حضرت انس رضی اللہ نے فرمایا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں حضرت آدم' ادریس 'موسی'عیسی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی لیکن ان کے مقامات کو بیان نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پایا۔۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے فرمایاکہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید ! میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیایہ حضرت ادریس علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں۔۔پھر میں حضرت عیٰسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ توانہوں نے جواب دیا یہ حضرت عیٰسی علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا کہ صالح نبی اور اچھے بیٹے خوش آمدید ! میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھاکہ یہ کون ہیں؟تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرت ابراہیم السلام ہیں۔۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ اور حضرت ابو حبہ انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ نے میری امت امت پر پچاس نمازیں فرض کیں میں یہ حکم لے کر واپس آیاجب موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا (شب و روز میں) پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔۔اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت ان کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔۔چنانچہ میں واپس گیا تو اللہ تعالٰی نے کچھ نمازیں معاف کر دیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا اللہ تعالٰی نے کچھ نمازیں معاف کر دیں ہیں۔۔انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس واپس جاؤ آپ کی امت ان کی بھی متحمل نہیں ہے میں لوٹا تو اللہ نے کچھ اور نمازیں معاف کر دیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت ان (نمازوں) کی بھی متحمل نہیں ہو سکے گی۔۔میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) بالآخر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ نمازیں پانچ ہیں اور درحقیقت (ثواب کے لحاظ سے) پچاس ہیں میرے ہاں فیصلہ بدلنے کا دستور نہیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس(مزید تخفیف کے لئے) لوٹ جاؤ میں نے کہا اب مجھے اپنے مالک سے شرم آتی ہے پھر مجھے جبرئیل لے کر روانہ ہوگئے یہاں تک کہ سدرۃالمنتہی تک پہنچا دیا جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔۔جن کی حقیقت کا مجھے علم نہیں پھر میں جنت میں داخل کیا گیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کی (جگمگاتی) لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔۔
(رواہ البخاری)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد ہے کہ

فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم )
ترجمہ از داؤد راز
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ' جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔

اس ارشاد پاک میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ معجزہ کی وجہ سے یہ مردے سن رہے ہیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ زندہ لوگ ان مردوں سے زیادہ نہیں سن رہے
یہ تو آپ کی چوائس ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مانو یا کسی اور کی۔
صحیح بخاری
کتاب التہجد
حدیث نمبر: 1149
حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا أبو أسامة، عن أبي حيان، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال عند صلاة الفجر " يا بلال حدثني بأرجى عمل عملته في الإسلام، فإني سمعت دف نعليك بين يدى في الجنة ". قال ما عملت عملا أرجى عندي أني لم أتطهر طهورا في ساعة ليل أو نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب لي أن أصلي. قال أبو عبد الله دف نعليك يعني تحريك.
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ حماد بن اسابہ نے بیان کیا، ان سے ابو حیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابو زرعہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنّت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کرتا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضوکرتا ہوں تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا لیتا ہوں جتنی میری تقدیر لکھی گئی-

نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی الله عنہ کے جوتوں کی چاپ جنّت میں اس وقت سنی جب وہ ابھی زندہ زمین پر موجود تھے -
اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟؟ اس حدیث میں بھی معجزہ کا لفظ نہیں ہے -

دوسری بات یہ کہ الله قران میں فرماتا ہے :
وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ (فاطر:22)
اور نہ زندے اور نہ مردے برابر ہو سکتے ہیں ،بے شک اللہ جسے چاہے سنوا دیتا ہے ،اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔

اس آیت سے تو یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ الله تعالیٰ تو اس بات پر قادر ہے کہ جسے چاہے سنوا دے- چاہے وہ کافر ہو فاسق ہو منافق ہو مسلمان ہو نبی ہو یا غیر نبی یا اولیاء الله یا ایک عام انسان - چاہے کسی مرض سے مرا ہو یا سمندر میں ڈوب کر مرا ہو یا بم دھماکے میں اس کے ا عضاء بکھر گئے ہوں یا چاہے اسے کسی جانور نے اسے چیر پھاڑ کر کھا لیا ہو - اگر الله چاہے تو اس کو سنوا دے -

اور اگر الله نا سنوانا چاہے تو کسی کی کیا مجال کہ وہ خود سے کسی قبر میں پڑے مردے کو سنوا دے -

تو پھر اس سماع موتی کی بنیاد پر استعانت کے لئےقبر میں صرف نیک لوگوں کو کیوں پکارا جاتا ہے ؟؟ اگر کسی پیر صاحب کو درندہ چیر پھاڑ کر کھا جائے تو پھر ان سے استعانت کس طرح طلب کی جائے ؟؟؟ اور کیسے ان سے مخاطب ہوا جائے؟؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

وَعَنْ جَابِرِ عَنْ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم حَیْنَ اَتَاہُ عُمَرُ فَقَالَ: اِنَّا نَسْمَعُ اَحَادِیْثَ مِنْ یَھُوْدَ تُعْجِبُنَا اَفَتَرَی اَنْ نَّکْتُبَ بِعْضَھَا ؟فَقَالَ: اَمُتَھَوْ کُوْنَ اَنْتُمْ کَمَا تَھَوَّکَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارِی ؟لَقَدْ جَئْتُکُمْ بِھَا بَیْضَاءَ نَقَیَّۃً وَلَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیَّا وَمَاسِعَہ، اِلَّا اتِّبَاعِی۔


رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِیُّ فِی کِتَاب شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔


" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم یہود کی حدیثیں سنتے ہیں اور وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتی ہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو لکھ لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم بھی اسی طرح حیران ہو جس طرح یہود اور نصاریٰ حیران ہیں۔ )جان لو کہ( بلاشبہ میں تمہارے پاس صاف و روشن شریعت لایا ہوں، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ بھی میری پیروی پر مجبور ہوتے۔"

)مسند احمد بن حنبل ، بیہقی(

وَعَنْ جَابِرِاَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا اٰتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِنُسْخَۃِ مِنَ التَّوْرَاۃِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ!ھٰذِہٖ نُسْخَۃٌ مِّنَ التَّوْرَاۃِ فَسَکَتَ فَجَعَلَ یَقْرَأُوَوَجْہُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَغَیَّرُ فَقَالَ اَبُوْبَکْرِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہ، ثَکِلَتْکَ الثَّوَاکِلُ مَاتَرٰی مَابِوَجْہٖ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَنَظَرَ عُمَرُ اِلٰی وَجْہٖ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ اﷲِ وَغَضَبِ رَّسُوْلِہٖ رَضِیْنَا بِاﷲِ رَبًا وَبِالْاِ سْلَامِ دِیْنَا وَبِمُحَمَّدِ نَبِیًّا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدِ بِیَدِہٖ لَوْبَدَاْلَکُمْ مُوْسٰی فَاتَّبَعْتُمُوْہ، وَتَرَکْتُمُوْنِیْ الَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ لسَّبِیْلِ وَلَوْ کَانَ حَیًّا وَاَدْرَکَ نَبُوَّتِیْ لاَ تَّبَعَنِی
رواہ الدامی


" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ )ایک مرتبہ( حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لائے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ تورات کا نسخہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تورات کو پڑھنا شروع کر دیا۔ ادھر غصہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہونے لگا یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عمر! گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں۔ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کے تغیر کو نہیں دیکھتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ منوّر کی طرف نظر ڈالی اور غصہ کے آثار دیکھ کر کہا میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غصہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر موسیٰ )علیہ السلام تمہارے درمیان ظاہر ہوتے تو تم ان کی پیروی کرتے اور مجھے چھوڑ دیتے -جس کے نتیجہ میں تم سیدھے راستہ سے بھٹک کر گمراہ ہو جاتے اور حالانکہ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میرا زمانہ نبوت پاتے تو وہ بھی میری ہی پیروی کرتے۔"

)درامی(
میں نہیں جانتا کہ آپ نے جو احادیث پیش کی ان کی اسناد کیا ہیں لیکن میں یہ جانتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک آیت نازل کی ہے جیسے علماء میثاق النبین کے نام سے بیان کرتے ہیں جو کہ اس طرح ہے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمّہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں

آل عمران : 81
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

اس آیت پر غور کریں کیا اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں زندہ ہونگے یا نہیں ؟
اگر معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہونگے تو ان سے یہ عہد لینا کہ " جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا " ٹھیک ہے


اگر اس کے برعکس صورت ہو تو پھر یہ عہد لینا آپ کی رائے کے مطابق کیسا ہوگا ؟؟؟؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری
کتاب التہجد
حدیث نمبر: 1149
حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا أبو أسامة، عن أبي حيان، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال عند صلاة الفجر " يا بلال حدثني بأرجى عمل عملته في الإسلام، فإني سمعت دف نعليك بين يدى في الجنة ". قال ما عملت عملا أرجى عندي أني لم أتطهر طهورا في ساعة ليل أو نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب لي أن أصلي. قال أبو عبد الله دف نعليك يعني تحريك.
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ حماد بن اسابہ نے بیان کیا، ان سے ابو حیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابو زرعہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنّت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کرتا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضوکرتا ہوں تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا لیتا ہوں جتنی میری تقدیر لکھی گئی-

نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی الله عنہ کے جوتوں کی چاپ جنّت میں اس وقت سنی جب وہ ابھی زندہ زمین پر موجود تھے -
اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟؟ اس حدیث میں بھی معجزہ کا لفظ نہیں ہے -
یہ ایک حدیث کیا اس کے علاوہ بھی کئی احادیث ہیں جن میں جنت اور دوزخ کے احوال بیان ہوئے ہیں جبکہ جنت کا اجر اور جہنم کا عذاب یوم حساب کے بعد کی بات ہے اور معراج کی رات یہ سب مناظر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مشاہدہ کروائے جب کہ ابھی قیامت قائم نہیں ہوئی ۔
دوسری بات یہ کہ الله قران میں فرماتا ہے :
وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ (فاطر:22)
اور نہ زندے اور نہ مردے برابر ہو سکتے ہیں ،بے شک اللہ جسے چاہے سنوا دیتا ہے ،اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔

اس آیت سے تو یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ الله تعالیٰ تو اس بات پر قادر ہے کہ جسے چاہے سنوا دے- چاہے وہ کافر ہو فاسق ہو منافق ہو مسلمان ہو نبی ہو یا غیر نبی یا اولیاء الله یا ایک عام انسان - چاہے کسی مرض سے مرا ہو یا سمندر میں ڈوب کر مرا ہو یا بم دھماکے میں اس کے ا عضاء بکھر گئے ہوں یا چاہے اسے کسی جانور نے اسے چیر پھاڑ کر کھا لیا ہو - اگر الله چاہے تو اس کو سنوا دے -

اور اگر الله نا سنوانا چاہے تو کسی کی کیا مجال کہ وہ خود سے کسی قبر میں پڑے مردے کو سنوا دے -

سورہ فاطر کی مذکورہ آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عمر نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مردوں سے کلام کرنے سے روکنا چاہا تھا تو کیا رسول اللہ اس آیت سے استدلال کی بناء پر روک گئے تھے نہیں روکے بلکہ مردوں کی سماعت کے اس آیت سے استدلال کو یکسر مسترد فرمادیا اور فرمایا
فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم )
ترجمہ از داؤد راز
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ' جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا کر سماع موتہ کے منکروں کا رد کیا

اور اگر الله نا سنوانا چاہے تو کسی کی کیا مجال کہ وہ خود سے کسی قبر میں پڑے مردے اور اس دنیا میں موجود کسی زندہ شخص کو سنوا دے
پھر صرف سماع موتہ کا ہی انکار کیوں سماع حیا کا انکار کیوں نہیں ؟؟؟؟

تو پھر اس سماع موتی کی بنیاد پر استعانت کے لئےقبر میں صرف نیک لوگوں کو کیوں پکارا جاتا ہے ؟؟ اگر کسی پیر صاحب کو درندہ چیر پھاڑ کر کھا جائے تو پھر ان سے استعانت کس طرح طلب کی جائے ؟؟؟ اور کیسے ان سے مخاطب ہوا جائے؟؟؟

ایگنور
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ انبیا دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں قبر میں تو
جب حضور صلی اللہ وسلم معراج کے سفر پر آسمانوں پر چڑھے
تو سارے انبیا وہاں بھی ملے
وہاں کون سی زندگی تھی انبیا کی
دنیا کی یا برزخ کی
وہاں حضور صلی اللہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے کیوں پوچھا کہ
یہ کون ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں۔۔
اس حدیث پر ذرا کچھ روشنی ڈال دیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔۔حضرت جبرئیل علیہ السلام اترے انہوں نے پہلے میرے سینے کا چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا بعد میں سینہ بند کر دیا بعد میں انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف لے چڑھے جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیل علیہ السلام نے داروغہ آسمان سے کہا دروازہ کھول' اس نے کہا کون ہے ؟
بولے میں جبرئیل علیہ السلام ہوں پھر اس نے پوچھا یہ تمہارے ہمراہ کون ہے ؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا میرے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں' اس نے پھر دریافت کیا کہ انہیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہاں! اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب جم غفیر اور بائیں جانب بھی انبوئہ کثیر تھا جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتا تو رو دیتااس نے(مجھے دیکھ کر) فرمایا کہ نیک پیغمبر اچھے بیٹے خوش آمدید ! میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں انبوہ کثیر ان کی اولاد کی ارواح ہیں دائیں جانب والے جنتی اور بائیں جانب والے دوزخی ہیں اس لیے دائیں طرف نظر کر کے ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتے ہیں پھر حضرت جبرئیل مجھے لے کر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھول دو ' اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی چناچہ اس نے دروازہ کھول دیا۔۔حضرت انس رضی اللہ نے فرمایا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں حضرت آدم' ادریس 'موسی'عیسی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی لیکن ان کے مقامات کو بیان نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پایا۔۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے فرمایاکہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید ! میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیایہ حضرت ادریس علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں۔۔پھر میں حضرت عیٰسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ توانہوں نے جواب دیا یہ حضرت عیٰسی علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا کہ صالح نبی اور اچھے بیٹے خوش آمدید ! میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھاکہ یہ کون ہیں؟تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرت ابراہیم السلام ہیں۔۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ اور حضرت ابو حبہ انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ نے میری امت امت پر پچاس نمازیں فرض کیں میں یہ حکم لے کر واپس آیاجب موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا (شب و روز میں) پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔۔اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت ان کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔۔چنانچہ میں واپس گیا تو اللہ تعالٰی نے کچھ نمازیں معاف کر دیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا اللہ تعالٰی نے کچھ نمازیں معاف کر دیں ہیں۔۔انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس واپس جاؤ آپ کی امت ان کی بھی متحمل نہیں ہے میں لوٹا تو اللہ نے کچھ اور نمازیں معاف کر دیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت ان (نمازوں) کی بھی متحمل نہیں ہو سکے گی۔۔میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) بالآخر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ نمازیں پانچ ہیں اور درحقیقت (ثواب کے لحاظ سے) پچاس ہیں میرے ہاں فیصلہ بدلنے کا دستور نہیں میں پھر موسی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس(مزید تخفیف کے لئے) لوٹ جاؤ میں نے کہا اب مجھے اپنے مالک سے شرم آتی ہے پھر مجھے جبرئیل لے کر روانہ ہوگئے یہاں تک کہ سدرۃالمنتہی تک پہنچا دیا جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔۔جن کی حقیقت کا مجھے علم نہیں پھر میں جنت میں داخل کیا گیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کی (جگمگاتی) لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔۔
(رواہ البخاری)
اس کا جواب ایسی حدیث میں ہے کہ
"جب حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے فرمایاکہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید ! میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیایہ حضرت ادریس علیہ السلام ہیں"

"پھر میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ حضرت موسی علیہ السلام ہیں"

"پھر میں حضرت عیٰسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ نیک پیغمبر اور اچھے بھائی خوش آمدید !میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ توانہوں نے جواب دیا یہ حضرت عیٰسی علیہ السلام ہیں"
"پھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی کہا کہ صالح نبی اور اچھے بیٹے خوش آمدید ! میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھاکہ یہ کون ہیں؟تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرت ابراہیم السلام ہیں۔"

یاد رکھیں سوال کرنے کا مطلب ہمیشہ لا علمی نہیں ہوتا !

کیونکہ کوہ طور پر رب تبارک تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے

سلفی عقائد مطابق مردے مدد نہیں کرسکتے اور سلفی عقیدے کے ہی مطابق تمام انبیاء مردے ہیں جو کسی کی مدد نہیں کرسکتے لیکن یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نماز کی تخفیف میں رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری امت کی مدد کی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436



سلفی عقائد مطابق مردے مدد نہیں کرسکتے اور سلفی عقیدے کے ہی مطابق تمام انبیاء مردے ہیں جو کسی کی مدد نہیں کرسکتے لیکن یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نماز کی تخفیف میں رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری امت کی مدد کی

میرے بھائی یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نماز کی جو تخفیف میں مدد کی تو ان کی زندگی کون سی تھی - دنیاوی یا برزخی
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میرے بھائی یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نماز کی جو تخفیف میں مدد کی تو ان کی زندگی کون سی تھی - دنیاوی یا برزخی
یعنی یہ بات کہہ کر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زندہ مان لیا

کیونکہ زندگی تو زندگی ہی ہوتی اور موت موت
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یعنی یہ بات کہہ کر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زندہ مان لیا

کیونکہ زندگی تو زندگی ہی ہوتی اور موت موت
اپنے پاس سے اندازے نہ لگاؤ میری بات کا جواب دو

کون سی زندگی تھی دنیاوی یا برزخی
 
Top