• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے !

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اپنے پاس سے اندازے نہ لگاؤ میری بات کا جواب دو

کون سی زندگی تھی دنیاوی یا برزخی
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس دنیا کی مسجد میں اور اس دنیا میں اپنی قبر میں مصروف صلاۃ تھے اگر ان سے آسمانوں میں ملاقات سے آپ یہ اندازہ لگا رہے ہیں یہ حیات برزخی حیات ہے تو پھر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات تو دنیاوی ہے اور وہ آسمانوں میں جلوہ افروز ہیں یعنی آپ کی تھیوری کے مطابق برزخی حیات سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ اور وہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو کیا اس بات کو لےکرآپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیاوی حیات کا انکار کردو گے ؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس دنیا کی مسجد میں اور اس دنیا میں اپنی قبر میں مصروف صلاۃ تھے اگر ان سے آسمانوں میں ملاقات سے آپ یہ اندازہ لگا رہے ہیں یہ حیات برزخی حیات ہے تو پھر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات تو دنیاوی ہے اور وہ آسمانوں میں جلوہ افروز ہیں یعنی آپ کی تھیوری کے مطابق برزخی حیات سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ اور وہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو کیا اس بات کو لےکرآپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیاوی حیات کا انکار کردو گے ؟

آپ اپنا جواب دو کہ آسمانوں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کون سی تھی - یہاں حضرت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات ھو رہی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ اپنا جواب دو کہ آسمانوں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کون سی تھی - یہاں حضرت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات ھو رہی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نہیں
بے کار کی باتیں!!!!!!!!

اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہیں تو پیش کریں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس دنیا کی مسجد میں اور اس دنیا میں اپنی قبر میں مصروف صلاۃ تھے اگر ان سے آسمانوں میں ملاقات سے آپ یہ اندازہ لگا رہے ہیں یہ حیات برزخی حیات ہے تو پھر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات تو دنیاوی ہے اور وہ آسمانوں میں جلوہ افروز ہیں یعنی آپ کی تھیوری کے مطابق برزخی حیات سے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ اور وہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو کیا اس بات کو لےکرآپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیاوی حیات کا انکار کردو گے ؟



 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
لا تَسألوا أهلَ الكِتابِ عن شيءٍ ، فإنَّهم لنْ يَهدوكم وقد ضلُّوا ، فإنَّكم إمَّا أنْ تُصَدِّقوا بباطِلٍ ، أو تُكذِّبوا بحقٍّ، وإنَّه لو كان موسَى حيًّا بين أظهُرِكم ما حَلَّ له إلا أنْ يتَّبعَني
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث:البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 1/248
خلاصة حكم المحدث: [فيه] مجالد ضعيف


أنَّ عُمَرَ أتى بكتابٍ أصابه من بعضِ كتُبِ أهلِ الكتابِ فقرَأه على النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فغضِب والذي نفسي بيدِه لو أنَّ موسى حَيًّا ما وسِعه إلا أن يتَّبِعَني
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث:ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/535
خلاصة حكم المحدث: في إسناده مجالد بن سعيد وهو لين


حديث أنَّ النبيَّ غضب حين رأى مع عمرَ صحيفةً فيها شيءٌ من التَّوراةِ وقال : أوَفي شكٌّ أنتَ يا ابنَ الخطابِ ؟ ألم آتِ بها بيضاءَ نقِيَّةً ؟ لو كان أخي موسى حيًّا ما وسِعَه إلا اتِّباعي
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث:الألباني - المصدر: إرواء الغليل - الصفحة أو الرقم: 1589
خلاصة حكم المحدث: حسن


آپ اپنا جواب دو کہ آسمانوں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کون سی تھی - یہاں حضرت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات ھو رہی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نہیں
جب آپ خود ہی موسیٰ علیہ السلام کے لئے زندگی مان رہے ہو تو پھر یہ بحث کیسی ؟؟؟؟؟؟
اس لئے اب اپنے اصل موضوع کی طرف آجاتے ہیں کہ حضرت عمر سماع موتہ کے منکر تھے تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی سماع موتہ کے منکر ہیں ؟؟؟
اس پر اگر کوئی دلیل ہوتو پیش کریں
 

shizz

رکن
شمولیت
مارچ 10، 2012
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
166
پوائنٹ
31
assalamualakum!
is thread me brelvi kutub k jo hawale die gae hain. me ne brelvi book me bht dhonda mgr muje wo ibarat nhi mili k jis se ye pata chale k wo muajza tha
meri bhs chal rhi hai aik forum pr or me ne ahadees se qail krne ki koshish ki un logon ko pr wo nhi manty, to me ne unki kitab ka btaya k apki apni kitabon me likha hai murdon se khitab krna nabi s.a.w ka muajza tha
to un logon ne kaha hai k ap iska scane page hme dikhaen
ap plz muje is ka scan page deden ta k me un k samne pesh kr sakon.
بدر کے کنویں میں پڑے ھوئے کفار مردوں سے کلام کرنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔

شرح ھدایہ جلد ۲ صفحہ ۴۸۴

فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۴۷

روح المعانی صفحہ ۵۰

مشکوٰۃ ، باب المعجزات صفحہ ۵۴۳
mishkat me muje ye hadees mil gai hai mgr
shrah hidaya
fath ul qadeer or
rooh al maani
muje nhi mil rhi.
agr koi bhai is baray me kuch bta skta hai to zroor batae.
apke jawab ka intezar rahega.
jazak Allah

badr k murdon se khitab2.JPG

mashkat kitab ul fazail, bab nabi s.a.w k muajzat
hadees:5938
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
بدر کے کنویں میں پڑے ھوئے کفار مردوں سے کلام کرنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔۔۔ شرح ھدایہ جلد ۲ صفحہ ۴۸۴۔۔
البنایۃ شرح الہدایۃ جزء6، صفحہ 244 (مکتبہ شاملہ)۔۔۔ کچھ یوں عبارت ہے۔
قال الكاكي: فإن قيل: قد روي «أن قتلى بدر لما ألقوا في القليب قام رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - على رأس القليب، وقال هل وجدتم ما وعد ربكم حقًا، فقال عمرو - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أتكلم الميت يا رسول الله؟! فقال - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ما أنتم بأسمع من هؤلاء» .
قلنا: هو غير ثابت، فإنه لما بلغ هذا الحديث عائشة، قالت: كذبتم على رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فإنه تعالى قال: {إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى} [النمل: 80] (الروم: الآية 52) ، {وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ} [فاطر: 22] (فاطر: الآية 22) ، على أنه - عَلَيْهِ السَّلَامُ - كان مخصوصًا به معجزة له.


فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۴۷
فتح القدیرللکمال ابن ہمام، باب الجنائز، الجزء2، ص 104۔(مکتبہ شاملہ) میں عبارت کچھ یوں ہے۔
وَأَوْرَدَ قَوْلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي أَهْلِ الْقَلِيبِ أَقُولُ مِنْهُمْ وَأَجَابُوا تَارَةً بِأَنَّهُ مَرْدُودٌ مِنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: كَيْفَ يَقُولُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ذَلِكَ وَاَللَّهُ تَعَالَى يَقُولُ {وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ} [فاطر: 22] {إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى} [النمل: 80] وَتَارَةً بِأَنَّ تِلْكَ خُصُوصِيَّةٌ لَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مُعْجِزَةٌ وَزِيَادَةُ حَسْرَةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ، وَتَارَةً بِأَنَّهُ مِنْ ضَرْبِ الْمِثْلِ كَمَا قَالَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -.
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
البنایۃ شرح الہدایۃ جزء6، صفحہ 244 (مکتبہ شاملہ)۔۔۔ کچھ یوں عبارت ہے۔
قال الكاكي: فإن قيل: قد روي «أن قتلى بدر لما ألقوا في القليب قام رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - على رأس القليب، وقال هل وجدتم ما وعد ربكم حقًا، فقال عمرو - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أتكلم الميت يا رسول الله؟! فقال - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ما أنتم بأسمع من هؤلاء» .
قلنا: هو غير ثابت، فإنه لما بلغ هذا الحديث عائشة، قالت: كذبتم على رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فإنه تعالى قال: {إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى} [النمل: 80] (الروم: الآية 52) ، {وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ} [فاطر: 22] (فاطر: الآية 22) ، على أنه - عَلَيْهِ السَّلَامُ - كان مخصوصًا به معجزة له.



فتح القدیرللکمال ابن ہمام، باب الجنائز، الجزء2، ص 104۔(مکتبہ شاملہ) میں عبارت کچھ یوں ہے۔
وَأَوْرَدَ قَوْلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي أَهْلِ الْقَلِيبِ أَقُولُ مِنْهُمْ وَأَجَابُوا تَارَةً بِأَنَّهُ مَرْدُودٌ مِنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: كَيْفَ يَقُولُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ذَلِكَ وَاَللَّهُ تَعَالَى يَقُولُ {وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ} [فاطر: 22] {إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى} [النمل: 80] وَتَارَةً بِأَنَّ تِلْكَ خُصُوصِيَّةٌ لَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مُعْجِزَةٌ وَزِيَادَةُ حَسْرَةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ، وَتَارَةً بِأَنَّهُ مِنْ ضَرْبِ الْمِثْلِ كَمَا قَالَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -.


بھائی اگر یہ حوالہ بھی ڈھونڈ دیں تو

روح المعانی صفحہ ۵۰
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ ایک حدیث کیا اس کے علاوہ بھی کئی احادیث ہیں جن میں جنت اور دوزخ کے احوال بیان ہوئے ہیں جبکہ جنت کا اجر اور جہنم کا عذاب یوم حساب کے بعد کی بات ہے اور معراج کی رات یہ سب مناظر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مشاہدہ کروائے جب کہ ابھی قیامت قائم نہیں ہوئی ۔



سورہ فاطر کی مذکورہ آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عمر نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مردوں سے کلام کرنے سے روکنا چاہا تھا تو کیا رسول اللہ اس آیت سے استدلال کی بناء پر روک گئے تھے نہیں روکے بلکہ مردوں کی سماعت کے اس آیت سے استدلال کو یکسر مسترد فرمادیا اور فرمایا
فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم )
ترجمہ از داؤد راز
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ' جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا کر سماع موتہ کے منکروں کا رد کیا

اور اگر الله نا سنوانا چاہے تو کسی کی کیا مجال کہ وہ خود سے کسی قبر میں پڑے مردے اور اس دنیا میں موجود کسی زندہ شخص کو سنوا دے
پھر صرف سماع موتہ کا ہی انکار کیوں سماع حیا کا انکار کیوں نہیں ؟؟؟؟




ایگنور
جنّت و دوزخ کے احوال اور مرودوں کو سنوانا یہ سب معجزات ہیں-ان کا مشاہدہ اسی لئے کروایا گیا تا کہ نبی کے صحابہ کا ایمان الله کی قدرت پر اور زیادہ مضبوط ہو جائے -

آپ کا یہ استدلال کہ "حضرت عمر نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مردوں سے کلام کرنے سے روکنا چاہا تھا" ایک لغو بیان ہے- حضرت عمر رضی الله عنہ نے صرف نبی کریم صل الله علیہ وسلم سے استسفار کیا تھا - کہ کیا بے جان جسم آپ کی بات سن سکتے ہیں ؟؟؟ کیوں کہ فطری طور پر یہ ناممکن بات تھی کہ ایک مردہ جسم کو ایک زندہ انسان اپنی آواز سنا دے. اسی لئے نبی کرم صل اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی الله کے استسفار پر بتایا کہ یہ میری بات اتنی ہی سن رہے ہیں جتنی تم لوگ سن رہے ہو - یعنی الله کے لئے کوئی مشکل نہیں کے وہ ایک بے جان جسم کو سنوا دے - ویسے بھی استسفار کرنا کوئی گناہ نہیں ورنہ حضرت علی رضی الله عنہ بھی نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے
حدیث منزلت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے نکلے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ میں یہ نہ کہتے کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں کیوں چھوڑے جا رہے ہیں؟؟ کہ قریش کے لوگ میرا مذاق اڑائیں گے کہ علی کو عورتوں اور بچوں کی حفاظت پر چھوڑ دیا گیا- (حضرت علی رضی الله عنہ کو تو چاہیے تھا کہ بغیر پس و پیش کے نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی بات مانتے) لیکن اہل سنّت میں سے کوئی بھی حضرت علی رضی الله عنہ کو گستاخ رسول نہیں مانتا کیوں کہ صحابہ کرام کا استسفار کرنا بری بات نہیں-

آپ کے یہ استدلال بھی غلط ہے کہ "پھر صرف سماع موتہ کا ہی انکار کیوں سماع حیا کا انکار کیوں نہیں ؟؟؟ " سماع حیا میں خود الله نے انسان کو قدرت عطاء کی ہے کہ وہ سن سکے -جب کہ سماع موتہ میں انسان کو یہ قدرت نہیں- اسی لئے سوره فاطر میں مردوں کو سنوانے کی قدرت کا اثبات الله نے اپنی طرف کیا ہے نہ کہ کسی نبی یا ولی یا کسی عام زندہ انسان کی طرف - مردہ از خود نہ سن سکتا ہے اور نا کوئی زندہ اسے از خود سنا سکتا ہے -

اگر اس بنیاد پر کوئی یہ استدلال کرتا ہے کہ جب الله کو ہر چیز پر قدرت ہے -تو وہ کسی مردے کے ذریے کسی زندہ کی استعانت بھی کر سکتا ہے-

حقیقت میں یہ ایک گمراہ کن عقیدہ ہے - اس طرح تو یہ بھی ممکن ہے کہ الله اپنی قدرت کے ذریے کسی بت جس کی پوجا کی جا رہی ہے کسی انسان کی مدد کر دے - تو پھر سوال ہے کہ بتوں کو پوجنے والے ہندو کس طرح کافر قرار پائیں گے ؟؟؟ جب کہ وہ خدا یعنی بھگوان کو بھی مانتے ہیں-
 
Top