• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے !

شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه
الراوي: مالك بن أنس المحدث:ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

اردو ترجمہ پڑھنے کے لئے اس لنک پر جائیں صفحہ نمبر 126۔ 127
کتاب کا نام : تاریخ ابن کثیرترجمہ البدایہ والنہایہ ۔جلد7
مصنف : حافظ ابوالفداء عمادالدین ابن کثیر
مترجم : پروفیسرکوکب شادانی
ناشر : نفیس اکیڈمی کراچی


أصاب الناس قحط في زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ! استق لأمتك فإنهم قد هلكوا ، فأتى رجل في المنام فقيل له : ائت عمر
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث:ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 575/2
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


أصاب الناس قحط في زمان عمر رضي الله عنه فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله استسق الله لأمتك فإنهم قد هلكوا ، فأتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم في المنام فقال : ائت عمر فأقرئه مني السلام وأخبره أنكم مسقون ، وقل له : عليك بالكيس الكيس ، فأتى الرجل فأخبر عمر وقال : يا رب لا آلو ما عجزت عنه
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث:ابن كثير - المصدر: مسند الفاروق - الصفحة أو الرقم: 1/223
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد قوي
جناب اسکی سند میں االاعمش ایک راوی ہیں جو کہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں اور سماع کی تصریح کی جائے ؟
مدلس کی تدلیس والی روایت حجت نہیں ہوتی الکامل لابن عدی ٣٤ جلد ١ ، الرسالہ امام شافعی ٣٨٠ فتح المغیث ١٨٢ جلد ١
حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں اھل علمم کہتے ہیں کہ اعمش کی تد لیس قبول نہیں ہوتی التمہید ٣٠ جلد ١
مالک الدار مجہول الحال ہے سوائے ابن حبان کے کسی اور نے اس کی توثیق نہیں کی اس کے بارے میں حافظ منذری کہتے ہیں میں اسے نہیں پہچان سکا الترغیب والترھیب ٢٩ جلد ٢
امام ہیثمی کہتے ہیں میں اسے نہیں پہچان سکا مجمع الزوائد ١٢٣ جلد ٣ع
حافظ ابن حجر اور اعمش کی تدلیس
حافظ ابن حجر کہتے میرے خیال کے مطابق جس حدیث کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے وہ معلول ہے کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا اس میں اعمش مدلس ہیں التلخیص الحبیر ١٩ جلد ٣
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى

میں اگر اس طرح ترجمہ کردوں تو کیا یہ صحیح ہوگا
موسیٰ (علیہ السلام ( تم میں موجود ہوتے
برائے مہربانی جو عربی حدیث میں لکھی ہے وہ لکھ کر ۔۔ ذرا ترجمہ کردیں ۔۔ شکریہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جناب اسکی سند میں االاعمش ایک راوی ہیں جو کہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں اور سماع کی تصریح کی جائے ؟
مدلس کی تدلیس والی روایت حجت نہیں ہوتی الکامل لابن عدی ٣٤ جلد ١ ، الرسالہ امام شافعی ٣٨٠ فتح المغیث ١٨٢ جلد ١
حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں اھل علمم کہتے ہیں کہ اعمش کی تد لیس قبول نہیں ہوتی التمہید ٣٠ جلد ١
مالک الدار مجہول الحال ہے سوائے ابن حبان کے کسی اور نے اس کی توثیق نہیں کی اس کے بارے میں حافظ منذری کہتے ہیں میں اسے نہیں پہچان سکا الترغیب والترھیب ٢٩ جلد ٢
امام ہیثمی کہتے ہیں میں اسے نہیں پہچان سکا مجمع الزوائد ١٢٣ جلد ٣ع
حافظ ابن حجر اور اعمش کی تدلیس
حافظ ابن حجر کہتے میرے خیال کے مطابق جس حدیث کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے وہ معلول ہے کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا اس میں اعمش مدلس ہیں التلخیص الحبیر ١٩ جلد ٣
حافظ ابن کثیرنےالبداية والنهاية میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور خود امام ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو فتح الباري میں بیان کیا ہے اور انھوں نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
برائے مہربانی جو عربی حدیث میں لکھی ہے وہ لکھ کر ۔۔ ذرا ترجمہ کردیں ۔۔ شکریہ
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا "اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے
اگرموسیٰ (علیہ السلام ( بھی تم میں موجود ہوتے
"
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ رہی اصل حدیث :

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنْ التَّوْرَاةِ أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ

مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے
اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے
اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہاراحصہ ہوں ۔


جزاک اللہ خیرا ۔۔۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
حافظ ابن کثیرنےالبداية والنهاية میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور خود امام ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو فتح الباري میں بیان کیا ہے اور انھوں نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے
جناب جو کچھ میں نے لکھا ہے اس میں ابن حجر رحمہ اللہ کی تصحیح کا جواب میں نے ان کے قول سے ہی دیا ہے ۔اور آپ کے سامنے اس دلیل کی حقیقت رکھ دی ہے آگے آپ کی مرضی ۔
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
سنن دارمی کی حدیث کی

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي


سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور
اگر آج موسی زندہ ہوتے
اور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اگر آج موسی زندہ ہوتے
أتيت - وفي روايةِ هدَّابٍ : مررتُ - على موسى ليلةَ أسريَ بي عند الكثيبِ الأحمرِ . وهو قائمٌ يصلي في قبرِه
الراوي: أنس بن مالك المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2375
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔''

اگر آپ کا کیا ہوا ترجمہ صحیح مان لیا جائے تو اس صحیح حدیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ مردہ کبھی مصروفِ صلاۃ نہیں ہو سکتا ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
لقد رأيتني في الحجْرِ . وقريشٌ تسألُنِي عن مسرايَ . فسألتني عن أشياءَ من بيتِ المقدسِ لم أثبتها . فكُرِبتُ كربةً ما كُربتُ مثلهً قط . قال فرفعهُ اللهُ لي أنظرُ إليهِ . ما يسألوني عن شيءٍ إلا أنبأْتهُم بهِ . وقد رأيتنِي في جماعةٍ من الأنبياءِ . فإذا موسى قائمٌ يصلي . فإذا رجلٌ ضربٌ جعْدٌ كأنه من رجالِ شنوءةٍ . وإذا عيسى بن مريم عليهِ السلامُ قائمٌ يصلي . أقربُ الناسِ بهِ شبها عروةُ بن مسعودٍ الثقفيّ . وإذا إبراهيمُ عليهِ السلامُ قائمٌ يصلي . أشبهُ الناسِ بهِ صاحبكُم ( يعني نفْسهُ ) فحانتِ الصلاةُ فأممتهُم . فلما فرغتُ من الصلاةِ قال قائل : يا محمدُ ! هذا مالكُ صاحبُ النارِ فسلّمَ عليهِ . فالتفتُّ إليهِ فبدأَنِي بالسلامِ

الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 172
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ترجمہ از ڈاکٹر طاہر القادری
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا اور قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا، تب اﷲ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (اسے دیکھ دیکھ کر) انہیں بتا دیتا اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے، اور وہ قبیلہ شنوءہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر (دیکھا کہ) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں، اور پھر دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا : یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا۔''
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
أتيت - وفي روايةِ هدَّابٍ : مررتُ - على موسى ليلةَ أسريَ بي عند الكثيبِ الأحمرِ . وهو قائمٌ يصلي في قبرِه
الراوي: أنس بن مالك المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2375
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔''

اگر آپ کا کیا ہوا ترجمہ صحیح مان لیا جائے تو اس صحیح حدیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ مردہ کبھی مصروفِ صلاۃ نہیں ہو سکتا ۔



أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مررت ليلة أسري بي على موسى فرأيته قائما يصلي في قبره .

( صحيح مسلم :2375، الفضائل / سنن النسائي :1621 ، قيام الليل / مسند أحمد:3/ 120)

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس رات مجھے اسراء کرائی گئی میرا گزر حضرت موسی علیہ السلام پر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔

{ صحیح مسلم / سنن نسائی و مسند احمد }

تشریح : اسراء اور معراج کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے عظیم معجزوں میں ہے کہ رات کے ایک حصے ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے لے کر بیت المقدس تک اور پھر بیت المقدس سے لے کر ساتویں آسمان بلکہ اس سے بھی آگے ملأ اعلی تک کی سیر کرائی گئی ، مسجد حرام سے بیت المقدس تک کے اس سفر کو \" اسراء \" اور بیت المقدس سے ملأ اعلی تک کی سیر کو معراج کہا جاتا ہے ، اسراء کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل اور معراج کا ذکر سورۂ النجم میں آیا ہے اور حدیثوں میں ان کی بڑی تفصیلات مروی ہیں ، اسراء و معراج کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عجائبات قدرت اور رب ذو الجلال کی آیات کبری کا مشاہدہ کرایا جائے ، جن میں سے ایک تو یہی معجزہ اور نشانی تھی کہ اتنا لمبا سفر جس کے لئے مہینہ درکار تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ایک قلیل حصےمیں طے کیا اور اسی رات آسمان کا سفر جو انسان کے وہم و خیال میں بھی نہ تھا آپ کو کرایا گیا ، جہاں آپ نے جنت و جہنم کا نظارہ کیا ، وہیں آپ کو اولو ا العزم پیغمبروں کی زیارت نصیب ہوئی اور سدرۃ المنتہی پھر اس سے بھی آگے جاکر شرف باریابی رب ذو الجلال سے مشرف ہوئے ، تاکہ حق الیقین سے آگے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عین الیقین کی نعمت حاصل ہو ، آپ
پورے وثوق و اعتماد سے لوگوں کو جنت پر رغبت اور جہنم سے تحذیر کی دعوت دیں ۔



انہیں عجائب قدرت اور آیات کبری میں سے ایک آیت وہ بھی ہے جس کا ذکر زیر بحث حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر جانے سے قبل مسجد حرام سے مسجد اقصی کے درمیان میں کسی سرخ ریتیلے ٹیلے کے پاس حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھتے دکھایا گیا ، یہ سرخ ٹیلا کہاں ہے اس کی کوئی وضاحت حدیث و تاریخ کی کتابوں میں وارد نہیں ہے ، یہ نماز پڑھنے کی کیفیت کیا تھی ، اس سلسلے میں کوئی بات کہنا حدود الہی سے تجاوز کرنا ہے ، کیونکہ یہ عالم برزخ کا معاملہ ہے ، اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو عالم برزخ میں جو زندگی حاصل ہے وہ عام لوگوں سے بہتر اور قوی ہے اور انہیں عالم برزخ میں بھی عبادت کی توفیق حاصل ہے ، واللہ أعلم ۔



اس کے علاوہ اس مبارک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سےایسے عجائب خلقت کا مشاہدہ کرایا گیا جن میں امت کے لئے بشارت و نذارات کا سامان ہے ، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹوں کو لوہے کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا ، حضرت جبریل سے سوال پر معلوم ہوا کہ یہ امت محمدیہ کے خطباء حضرات ہیں جو لوگوں کو تو نصیحت کرتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کرایا گیا جن کے سروں کو بھاری چٹانوں سے کچلا جارہا تھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ جونماز کے وقت سوئے رہتے ہیں ، کچھ ایسے لوگوں کا بھی مشاہدہ کرایا گیا جو خون پیپ ، زقوم اور جہنم کے انگاروں کو کھا رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارےمیں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ، کچھ ایسے لوگوں کو بھی آپ نے دیکھا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو زخمی کررہے تھے ، جب ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرتے اور ان کی عزتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ، اس قسم کے بہت سے ایسے مناظر کا مشاہدہ کرایا گیا جن میں امت کے لئے عبرت کا سامان موجود ہے ، لیکن بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج اسراء و معراج کی مناسبت سے مجلسیں تو منعقد ہوتی ہیں ، جشن تو منایا جاتا ہے اور بڑی خوشیوں کا اظہار کرکے حب نبوی کا راگ الاپا جاتا ہے ، لیکن اسراء ومعراج سے کیا درس وعبرت لینا چاہئے وہ چیز مفقود نظر آتی ہے ، چاہئے تو یہ تھا کہ لوگوں کو اخلاص وعمل کی دعوت دی جاتی ، گھر گھر جا کر لوگوں کو نماز و جماعت سے کوتاہی پر متنبہ کیا جاتا ، لوگوں کو اپنے زبان اور مسلمان کی عزت و ناموس کی حفاظت کی دعوت دی جاتی ، کرنے کا کام تو یہ تھا کہ اہل مال وثروت حضرات کو زکاۃ کی اہمیت سمجھائی جاتی اور اس کے ترک کی وعیدیں سنائی جاتی ، اگر ایسا ہوتا تو اسراء ومعراج کےجشن کا حق قدرے ادا ہوتا ، لیکن افسوس کہ یہ ساری چیزیں پرجوش تقریروں کی آواز کے نیچے دب گئیں ، من گھڑت اور جھوٹی روایات نے ان پر پردہ ڈال دیا اور بجلی کی چکا چوند قمقموں کی چمک نے انہیں اندھا کردیا ۔
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی ۔

معراج میں نبیﷺ کا حضرت موسیٰ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھنا ان کے معجزات میں شامل ہے۔ او رمعجزہ خرق عادت سے امور کے صادر ہونے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طو رپر معراج میں وہ تمام امو رجو عقلاً محال تھے مثلاً براق کا وجود، آسمانوں کا سفر، جنت و دوزخ کے مناظر خود دیکھنا وغیرہ سب امور معجزہ سےمتعلقہ ہیں۔ اور یہ طے شدہ بات ہے کہ معجزہ سے کوئی مسئلہ یا قاعدہ و قانون اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اس واقعہ سے حیات انبیاء کی دلیل اخذ کرنا درست نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

﴿إنک میت وانھم میتون﴾

(زمر:30)

''بے شک اےنبیﷺ! آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور وہ بھی فوت ہوں گے۔''

آپﷺ کی وفات پر اور دنیامیں واپس نہ آنے پر صحابہؓ کا اجماع ہے ۔

(دیکھئے: صحیح بخاری کتاب المناقب باب قول النبی لو کنت متخذا خلیلاً:3394)

حیات انبیاء پر کوئی صحیح سند سے ایسی دلیل موجود نہیں جس سے انبیأ کا اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح حیات ہونا اور حاضر و ناظر ہونا ثابت ہو۔
 
Top