• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خراسان کی طرف سے کالے جھنڈوں کا نکلنا

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس طرح کی جتنی بھی مرفوع (رسولﷺ کے قول کے طور پر) روایات ہیں وہ سب کی سب ضعیف اور موضوع ہیں۔ لیکن سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے موقوفاً (یعنی صحابی کے قول کے طور پر) ثابت ہے۔
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت میں آیا ہے کہ: "جب تم دیکھو کہ خراسان کی طرف سے کالے جھنڈےنکلیں تو ادھر جاؤ، کیونکہ وہاں اللہ کے خلیفہ مہدی ہوں گے۔" (المستدرک للحاکم 502/4 ح 8531 و صححہ علیٰ شرط الشیخین،) (دلائل النبوۃ 516/6)؟

اور اگر یے صحابی کے قول سے ثابت ہے تو اس سے یے مطلب نکلتا ہے کے امام مہدی خراساں میں ہوں گے جبکے احادیث کے مطابق تو وہ مدینہ میں ہوں گے وضاحت فرمایں؟
جزاک اللہ خیر
جی! جن روایات میں امام مہدی اور خراسان سے کالے جھنڈے آنے کا ذکر ہے وہ سب ضعیف ہیں، علامہ البانی نے ان سب کو ضعیف قرار دیا ہے۔دیکھئے:
http://dorar.net/enc/hadith?skeys=الرايات+السود&phrase=on&xclude=&t=*&m[]=1420

اور آپ نے ایسا ہی لکھا ہے تو پھر اب اعتراض تو باقی نہ رہا، اعتراض تو تب ہو یہ روایات صحیح ہوں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
اس حوالے سے’’شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ‘‘کے مضمون سے استفادہ کیجیے
’’امام مہدی اور خراسان کی طرف سے کالے جھنڈے‘‘ شمارہ الحدیث:80
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر عکرمہ اور انس اخوان

میں ’’شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ‘‘ کا مضمون پڑھ چکا ہوں ہے ان کی ہی تحقیق ہے جو میں نے لکھی ہے اوپر کے صرف موقوف روایت ثابت ہے اس لیے ہے سوال پوچھا تھا میں نے۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
تحقیق سیّد و سادات : مصنف محمود احمد عباسی۔۔۔
GuJrAnWaLiAn بھائی یہ موصوف بھی ایک مشکوک شخصیت ہیں۔ منکرین حدیث کہ گروہ سے ہیں۔ اپنی جھالت کی وجہ سے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کو کٹر رافضی ثابت کرتے ہیں۔ حضرت عائیشہ رضی اللہ عنھا کی عمر بوقت نکاح پر صحیحین کی احادیث پر نتقید کرتے ھوئے بالکل واضع منکرین حدیث کا منھج اپناتے ہیں۔ تاریخ پر بھی لکھ چکے ہیں، جس میں افراط و تفریط کا شکار ھو کر یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کو آسمان تک لے جاتے ہیں، اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کا موقف حد سے گرا دیتے ھیں۔ مولانا رئیس ندوی رحمہ اللہ نے ان کے رد میں تنقید سدید بخدمت محبان یزید لکھی ھے۔ موصوف ایک مستشرقین زدہ ناکام محقق ھیں جن کی کتب میں گمراھی بھت زیادہ اور فائدہ بھت کم ھے۔ موصوف شیعہ فوبیا کا بھی شکار ھیں جیسا کہ تمنا عمادی اور کاندھلوی صاحب تھے، اسی وجہ سے ناصبیت کی طرف میلان ھے۔

ان کتب کا مطالعہ کریں:
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/4-radd-fitna-inkar-e-hadees/3343-munkrene-hadith-aur-bibi-aisha-r-a-k-nikah-ki-umaar.html
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بھائی! جن کتابوں کا آپ نے حوالہ دیا ہے پہلے علماء کرام سے ان کتابوں کی اصل وقعت ہی معلوم کر لیں!
پہلی کتاب کے متعلق تو میں زیادہ نہیں جانتا، البتہ دوسری کتاب میں صحیحین کی احادیث پر کثرت سے تنقید کی گئی ہے، جس کا بہترین جواب فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری﷾ نے درج ذیل کتاب میں دیا ہے، جزاہ عنا وعن الاسلام والمسلمین خیرًا:
http://kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/181-total-books/3060-ahades-e-sahi-bukhari-o-muslim-ko-mazhabi-dastanain-banane-ki-nakam-koshash.html

امام مہدی� سے متعلق اتنا بڑا دعویٰ آپ نے کیسے کر دیا؟

صحاح ستہ ودیگر کتب حدیث میں امام مہدی سے متعلق صحیح روایات موجود ہیں، مثلاً

المَهْديُّ منِّي، أجلى الجبهةِ، أقنى الأنفِ، يملأُ الأرضَ قسطًا وعدلًا، كما مُلِئت جَورًا وظلمًا، يملِكُ سبعَ سنينَ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث:الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 4285
خلاصة حكم المحدث: حسن

المَهْديُّ من عِترتي من ولدِ فاطمةَ
الراوي: أم سلمة هند بنت أبي أمية المحدث:الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 4284
خلاصة حكم المحدث: صحيح

إنَّ في أمَّتي المَهديَّ يخرجُ يعيشُ خمسًا أو سبعًا أو تسعًا زيدٌ الشَّاكُّ قالَ قلنا وما ذاكَ قالَ سنينَ قالَ فيجيءُ إليهِ الرجلُ فيقولُ يا مَهديُّ أعطني أعطني قالَ فيحثي لَه في ثوبِه ما استطاعَ أن يحملَه
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2232
خلاصة حكم المحدث: حسن

كنَّا عندَ أمِّ سلَمةَ فتذاكَرنا المَهديَّ، فقالَت سمعتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّم، يقولُ: المَهديُّ من ولَدِ فاطمةَ
الراوي: سعيد بن المسيب المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 3317
خلاصة حكم المحدث: صحيح

يَكونُ في أمَّتي المَهْديُّ إن قَصَّرَ فسبعٌ وإلَّا فتِسعٌ فتنعَمُ فيهِ أمَّتي نِعمةً لم ينعَموا مثلَها قطُّ تُؤتَى أُكُلَها ولا تَدَّخرُ منهم شيئًا والمالُ يومئذٍ كُدوسٌ فيقومُ الرَّجلُ فيقولُ يا مَهْديُّ أعطِني فيقولُ خُذْ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 3315
خلاصة حكم المحدث: حسن

المَهديُّ منَّا أَهلَ البيتِ، يصلحُهُ اللَّهُ في ليلةٍ
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 3316
خلاصة حكم المحدث: حسن


باقی صحیح روایات آپ اس لنک سے دیکھ سکتے ہیں:
http://dorar.net/enc/hadith?skeys=المهدي&phrase=on&xclude=&t=*&d[1]=1&m[]=0
اسلام و علیکم
بھائی -ارشاد الحق اثری صاحب کا ننقیدی جائزہ پڑھ چکا ہوں - کافی مدلل تنقید ہے کاندھلوی صاحب پر - لیکن یہ صرف صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت سے متعلق ہے جن پر کاندھلوی نے تحقیق کی ہے - جب کہ مہدی سے متعلق جن روایات کو کہندھلوی صاحب نے رد کیا ہے اس میں ایک وجہ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں - کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مہدی متعلق ایک بھی روایت موجود نہیں - جب کہ امام بخاری رہمللہ اور امام مسلم رحمللہ دونوں نے اپنی تصانیف میں 'قیامت کی علامات' سے متعلق پورا ایک باب بندھا ہے - سوال ہے کہ کیا ان دونوں محدثین کو آخر مہدی کی روایات کیوں نہیں مل سکیں -اور اگر ملیں تو کیا وہ اتنی معتبر نہیں تھیں کہ ان دونوں محدثین نے ان کو اپنی صحیین میں جگہ نہیں دی؟؟
اگر چہ میں بھی پوری طر ح سے ان مصنفین سے متفق نہیں ہوں -کیوں کہ بہت سی صحیح روایت بھی اس زمن میں موجود ہیں -لیکن ان کی حثیت تاریخی ہے - ممکن ہے کہ جن کو مہدی قرار دیا گیا ہے وہ آ چکے ہوں ؟؟ (واللہ عالم )
واسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
تحقیق سیّد و سادات : مصنف محمود احمد عباسی۔۔۔
GuJrAnWaLiAn بھائی یہ موصوف بھی ایک مشکوک شخصیت ہیں۔ منکرین حدیث کہ گروہ سے ہیں۔ اپنی جھالت کی وجہ سے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کو کٹر رافضی ثابت کرتے ہیں۔ حضرت عائیشہ رضی اللہ عنھا کی عمر بوقت نکاح پر صحیحین کی احادیث پر نتقید کرتے ھوئے بالکل واضع منکرین حدیث کا منھج اپناتے ہیں۔ تاریخ پر بھی لکھ چکے ہیں، جس میں افراط و تفریط کا شکار ھو کر یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کو آسمان تک لے جاتے ہیں، اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کا موقف حد سے گرا دیتے ھیں۔ مولانا رئیس ندوی رحمہ اللہ نے ان کے رد میں تنقید سدید بخدمت محبان یزید لکھی ھے۔ موصوف ایک مستشرقین زدہ ناکام محقق ھیں جن کی کتب میں گمراھی بھت زیادہ اور فائدہ بھت کم ھے۔ موصوف شیعہ فوبیا کا بھی شکار ھیں جیسا کہ تمنا عمادی اور کاندھلوی صاحب تھے، اسی وجہ سے ناصبیت کی طرف میلان ھے۔

ان کتب کا مطالعہ کریں:
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/4-radd-fitna-inkar-e-hadees/3343-munkrene-hadith-aur-bibi-aisha-r-a-k-nikah-ki-umaar.html



آپ کی بات کسی حد تک تو صحیح ہے -

لیکن موصوف کی ایک اور کتاب "حقیقت خلافت و ملوکیت" جو مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کے جواب میں لکھی گئی ایک زبردست کا وش ہے - ورنہ مودودی نے تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے ایک طبقے کو عوام الناس میں بدنام کرنے کے لئے اپنی اس کتاب کے ذریے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی -
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
سوال ہے کہ کیا ان دونوں محدثین کو آخر مہدی کی روایات کیوں نہیں مل سکیں -اور اگر ملیں تو کیا وہ اتنی معتبر نہیں تھیں کہ ان دونوں محدثین نے ان کو اپنی صحیین میں جگہ نہیں دی
السلام علیکم محمد علی جواد بھائی،

یقیناََ یہ بات ایک عام آدمی کو بھت شک میں مبتلا کرتی ھے کہ آخر مھدی کی روایات صحیحین میں کیوں نھی، اور اگر امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ کو یہ روایات ملی تو انھوں نے انکو اپنی کتب میں درج کیوں نہیں کیا۔ مگر اگر تھوڑی سی بھی مثبت تحقیق کی جائے تو بات سمجھنا بھت آسان ھو جائیگا۔ در اصل امام بخاری و مسلم نے اپنی کتب میں کھیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ھم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام کی تمام احادیث کو جمع کر لیا ھے، بلکہ انکا دعوی ھے کہ جن احادیث کو انھوں نے اپنی کتب میں درج کیا ھے وہ صرف اور صرف وہ صحیح احادیث ہیں جو ان کے زمانے میں ان تک پہنچ پایئں، اور جو محدثین کہ کڑے اصولوں پر پوری اترتی ہیں۔ ورنہ صرف ایک نماز کو ہی لے لیں، نماز کے کئی مسائل ایسے ہیں جو کہ صحیحین میں موجود نہی۔ اور یہ بات بھی درست نہی کہ باقی جو بھی احادیث انھوں نے اپنی کتب میں درج نہیں کیں وہ ضعیف ہیں یا ان تک پہنچی نہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ھے کہ ان تک بھت سی احادیث ایسی پھنچیں، جن کا متن تو مجروح شائد نا ہو، مگر سند قابل قبول نھیں تھی۔ یا ان کی سند شیخین کی شروط پر پورا نھیں اترتی تھیں، کیونکہ جو شروط امام بخاری نے سند کی جانچ میں عائد کی ہیں، جیسا کہ "راوی کا، جس سے روایت بیان کر رھا ھو،اسکا ہم عصر ھونے کہ ساتھ ساتھ اس سے ملاقات کا بھی ثبوت ھونا چاہئے"۔۔ یہ وہ کڑی شرط ھے جو کہ امام مسلم بھی اپنی صحیح کی روایات پر نا لگا سکے۔ اس لئے بالفرض اگر امام بخاری نے اس شرط پر کچھ احادیث اپنی صحیح میں درج نہیں کی تو اسکا مطلب یہ نھیں کہ وہ ان احادیث کے منکر تھے، یہ وہ انکو ضعیف مانتے تھے، بلکہ جس کتاب کو وہ لکھنا چاہ رھے تھے اس میں موتیوں میں سے چن چن کر وہ ہیرے اکٹھا کرنا چاھتے تھے جو سب سے زیادہ نایاب ھوں۔ یہی وجہ ھے کہ صحیح بخاری کو محدثین نے قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح تر کتاب کا درجہ دیا ھے۔ حدیث اپنی کتاب میں درج کرنا ایک محدث کا ذوق ھوتا ھے۔ جیسا آپ کسی کی بایوگرافی لکھ رھے ھوں تو اس شخص کی زندگی کہ ان اقوال و احوال کو ذکر کرتے ہیں جو آپ تک صحیح ذرائع سے پھنچ پائیں۔ اس کا یہ مطلب ھر گز نہیں کہ جو اقوال آپ نے اپنی کتاب میں درج کئے ہیں، اس کہ علاوہ اس آدمی نے کبھی کچھ بولا ہی نہیں۔ میں نے جو لکھا، بالکل سادہ الفاظ میں بیان کیا اور یقیناََ اپکو با آسانی سمجھ آ جایئگا۔ اور ہو سکتا ھے آپکو کسی بات کی وضاحت کی ضرورت پڑے، آپ کی ہر مطلوب وضاحت کا کھلے دل سے انتظار رھیگا۔

جزاک اللہ۔ والسلام۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
آپ کی بات کسی حد تک تو صحیح ہے -

لیکن موصوف کی ایک اور کتاب "حقیقت خلافت و ملوکیت" جو مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کے جواب میں لکھی گئی ایک زبردست کا وش ہے - ورنہ مودودی نے تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے ایک طبقے کو عوام الناس میں بدنام کرنے کے لئے اپنی اس کتاب کے ذریے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی -

یقیناََ مولانا مودوی رحمہ اللہ کی یہ بھت بڑی غلطی ھے، جس کی وجہ میرے نزدیک یہ گندی سیاست ھے، جھاں شیعہ و سنی و عیسائی سب کے ووٹ برابر ہیں۔ بقول علامہ اقبال "جمھوریت میں انسانوں کو گنا جاتا ھے، تولا نھیں جاتا" ۔۔۔ ان کی اس کتاب کے جواب میں " خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت از حافظ صلاح الدین یوسف" بھی پڑھنے کے لائق ھے، جس میں تاریخی روایات کے مطالعے کا طریقہ عام فہم انداز میں احسن طریقے سے سمجھایا گیا ھے جس پر اس کتاب کو پاکستان کے تقریباَ تمام اہل سنت مکاتب فکر میں بھت پزیرائی حاصل ھوئی ھے۔۔۔ مطالعے کہ لئے لنک مندرجہ ذیل:

http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/552-khilafat-o-malokiyat.html
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم محمد علی جواد بھائی،

یقیناََ یہ بات ایک عام آدمی کو بھت شک میں مبتلا کرتی ھے کہ آخر مھدی کی روایات صحیحین میں کیوں نھی، اور اگر امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ کو یہ روایات ملی تو انھوں نے انکو اپنی کتب میں درج کیوں نہیں کیا۔ مگر اگر تھوڑی سی بھی مثبت تحقیق کی جائے تو بات سمجھنا بھت آسان ھو جائیگا۔ در اصل امام بخاری و مسلم نے اپنی کتب میں کھیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ھم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام کی تمام احادیث کو جمع کر لیا ھے، بلکہ انکا دعوی ھے کہ جن احادیث کو انھوں نے اپنی کتب میں درج کیا ھے وہ صرف اور صرف وہ صحیح احادیث ہیں جو ان کے زمانے میں ان تک پہنچ پایئں، اور جو محدثین کہ کڑے اصولوں پر پوری اترتی ہیں۔ ورنہ صرف ایک نماز کو ہی لے لیں، نماز کے کئی مسائل ایسے ہیں جو کہ صحیحین میں موجود نہی۔ اور یہ بات بھی درست نہی کہ باقی جو بھی احادیث انھوں نے اپنی کتب میں درج نہیں کیں وہ ضعیف ہیں یا ان تک پہنچی نہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ھے کہ ان تک بھت سی احادیث ایسی پھنچیں، جن کا متن تو مجروح شائد نا ہو، مگر سند قابل قبول نھیں تھی۔ یا ان کی سند شیخین کی شروط پر پورا نھیں اترتی تھیں، کیونکہ جو شروط امام بخاری نے سند کی جانچ میں عائد کی ہیں، جیسا کہ "راوی کا، جس سے روایت بیان کر رھا ھو،اسکا ہم عصر ھونے کہ ساتھ ساتھ اس سے ملاقات کا بھی ثبوت ھونا چاہئے"۔۔ یہ وہ کڑی شرط ھے جو کہ امام مسلم بھی اپنی صحیح کی روایات پر نا لگا سکے۔ اس لئے بالفرض اگر امام بخاری نے اس شرط پر کچھ احادیث اپنی صحیح میں درج نہیں کی تو اسکا مطلب یہ نھیں کہ وہ ان احادیث کے منکر تھے، یہ وہ انکو ضعیف مانتے تھے، بلکہ جس کتاب کو وہ لکھنا چاہ رھے تھے اس میں موتیوں میں سے چن چن کر وہ ہیرے اکٹھا کرنا چاھتے تھے جو سب سے زیادہ نایاب ھوں۔ یہی وجہ ھے کہ صحیح بخاری کو محدثین نے قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح تر کتاب کا درجہ دیا ھے۔ حدیث اپنی کتاب میں درج کرنا ایک محدث کا ذوق ھوتا ھے۔ جیسا آپ کسی کی بایوگرافی لکھ رھے ھوں تو اس شخص کی زندگی کہ ان اقوال و احوال کو ذکر کرتے ہیں جو آپ تک صحیح ذرائع سے پھنچ پائیں۔ اس کا یہ مطلب ھر گز نہیں کہ جو اقوال آپ نے اپنی کتاب میں درج کئے ہیں، اس کہ علاوہ اس آدمی نے کبھی کچھ بولا ہی نہیں۔ میں نے جو لکھا، بالکل سادہ الفاظ میں بیان کیا اور یقیناََ اپکو با آسانی سمجھ آ جایئگا۔ اور ہو سکتا ھے آپکو کسی بات کی وضاحت کی ضرورت پڑے، آپ کی ہر مطلوب وضاحت کا کھلے دل سے انتظار رھیگا۔

جزاک اللہ۔ والسلام۔

وعلیکم سلام عثمان بھائی -

آپ کی باتوں میں وزن ہے -یہ ضروری نہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے باہر جتنی بھی روایات ہیں ان کو ہم رد کر دیں - ظاہر ہے کہ اگر مہدی سے متعلق روایات اصول حدیث کے معیار پر پوری اترتی ہیں تو چاہے وہ ا حدیث کے کسی بھی نسخے میں پائی جائیں -ان کو بہرحال قبول کرنا ضروری ہے -

لیکن اس معاملے میں میں بہتر ہو گا کہ آپ ایک مرتبہ "تحقیق سید و سادات " مصنف محمود احمد عباسی بھی ضرور پڑھ لیں -کسی کے بارے میں اگر آپ شک میں مبتلاہ ہو جاتے ہیں تو بہتر کے اس کے بارے میں پہلے خود تحقیق کرلیں- میں یہ نہیں کہتا کہ مصنف محمود احمد عباسی بہت اعلی پاے کہ عالم فاضل انسان تھے - یہ ضرور ہے کہ اہل عجم کے معاملے میں وہ کچھ تعصّب کا شکار تھے -لیکن پھر بھی تاریخ سے گہری دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ان کے اکثر نظریات حقیقت سے بہت قریب ترین نظر آ تے ہیں -

موصوف کے نزدیک مہدی کی روایت اگر چہ کثرت سے احدیث کی کتب میں پائی جاتی ہیں - لیکن ان روایات میں آپس میں بہت تضاد ہے -

ان روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ امام مہدی ایک ظالم مسلمان جو سفیانی ہو گا (حضرت یزید رحمللہ کی نسل سے ہو گا) جنگ کریں گے اور اس کو قتل کریں گے- یعنی بنو امیہ اور بنو ہاشم کی عداوت پھر سے ایک بار ابھر کر سامنے آ ے گی - اور امام مہدی اپنے جد امجد حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت کا بدلہ اس سفیانی سے لیں گے -

پھر ایک روایت میں ہے کہ حضرت مہدی زمین پر الله کے خلیفہ ہونگے- جب کہ خلافت کا آج کے دور میں دور دور تک پتا نہیں-

پھر ایک روایت میں وہ بنو عبّاس کی نسل میں سے ہونگے -جب کے ایک روایت میں وہ حضرت فاطمہ رضی الله کی اولاد سے ہونگے -

پھر ایک روایت میں ہے کہ الله ان کو صرف ایک دن میں علم و حکمت سے سرفرز کرے گا (الله اپنے ایک بندے کو علم و حکمت سے سرفراز کرے گا چاہے قیامت کے قائم ہونے میں ایک دن رہ گیا ہو ) کیا قرآن کی آیات اوردوسری دیگر احادیث کے مطابق یہ ممکن ہے کہ الله نبی صل الله علیہ وسلم کے ایک امتی کو صرف ایک دن میں علم و حکمت سے نواز دے -جب کہ علم و حکمت کے حصول کے لئے تو سالہا سال محنت کرنی پڑتی ہے -

پھر یہ بھی ایک ،مسلمہ امر ہے کہ ان روایت کی بنیاد پر سبایوں (عبدللہ بن سبا کے پیروکار وں ) نے اور دوسرے بہت سے فاسقین نے پہلی صدی ہجری سے لے کر بیسویں صدی کے آخر تک بڑے بڑے فتنے برپا کیے اور اپنے مفادات کو اس نظریے کی بھینٹ چڑھایا -قریبا ١٥ سے ٢٠ ایسے فاسق پیدا ہوے جنھوں نے اس عقیدے کی بنیاد پر یا تو اپنے آپ کو مہدی ظاہر کیا یا ان کے پروکاروں نے خود ان کو مہدی بنا کر ان کے ہاتھ پر بیت کرلی -

غرض یہ کہ مہدی کی آمد سے متعلق نظریہ ہر دور میں متنزع رہا ہے - ان روایت سے تو یے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سبائی گروہ کی پیدا کردہ روایت ہیں جن کو شہرت حاصل ہونے پر اہل سنّت نے بھی من و عن قبول کر لیا -(واللہ عالم )

بہرحال اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی تو ضرور پڑہیں اور پھر اپنے نظریات سے آ گاہ کریں -
نوٹ : ویسے میں مصنف کے تمام نظریات سے متفق نہیں ہوں -
واسلام
 
Top