• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خراسان کی طرف سے کالے جھنڈوں کا نکلنا

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہندوستان کے معروف عالم دین دکتور عبد العلیم عبد العظیم بستوی صاحب حفظہ اللہ کی درج ذیل کتاب بھی اس سلسلے میں کافی اہمیت رکھتی ہے ۔
انہوں نے موضوع سے متعلقہ تمام صحیح و ضعیف احادیث کو الگ الگ جمع کردیا ہے ۔ ان کے مطابق 8 احادیث مرفوعہ اور 11 آثار ایسے ہیں جن میں مہدی کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے ۔
اس کتاب کے بارے میں مختصر معلومات اور اس کا خلاصہ درج ذیل دھاگہ پر موجود ہے :
http://www.dorar.net/book/89
اصل کتاب تو شاید کسی جگہ نیٹ پر موجود نہیں لیکن یہاں اس کا اختصار موجود ہے :
http://www.dd-sunnah.net/forum/showthread.php?t=108494
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر اخوان

عثمان بھای "تنقید سدید بخدمت محبان یزید" یے کتاب کہاں سے مل سکنی ہے ؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اردو میں اس موضوع پر ایک کتاب ہے:ظہور مہدی؛ایک اٹل حقیقت مصنف:شیخ محمد منیر صاحب قمر بہت اچھی کتاب ہے۔ محمود عباسی ناصبی تھے اس لیے ان کی کتابوں پر اعتماد مناسب نہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ہندوستان کے معروف عالم دین دکتور عبد العلیم عبد العظیم بستوی صاحب حفظہ اللہ کی درج ذیل کتاب بھی اس سلسلے میں کافی اہمیت رکھتی ہے ۔
انہوں نے موضوع سے متعلقہ تمام صحیح و ضعیف احادیث کو الگ الگ جمع کردیا ہے ۔ ان کے مطابق 8 احادیث مرفوعہ اور 11 آثار ایسے ہیں جن میں مہدی کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے ۔
اس کتاب کے بارے میں مختصر معلومات اور اس کا خلاصہ درج ذیل دھاگہ پر موجود ہے :
http://www.dorar.net/book/89
اصل کتاب تو شاید کسی جگہ نیٹ پر موجود نہیں لیکن یہاں اس کا اختصار موجود ہے :
http://www.dd-sunnah.net/forum/showthread.php?t=108494
منیر قمر صاحب کی کتاب اسی کا اختصار ہے اگرچہ انھوں نے اس کی صراحت نہیں کی؛مزید برآں یہ کتاب (بستوی صاحب کی)نیٹ پر موجود ہے،میں نے بہت عرصہ پہلے ڈاون لوڈ کی تھی۔
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
میر ا سوال خراساں سے جنھڈوں کے نکلنے کی احادیث جن میں امام مھدی کا خراساں میں ہونا پتا چلتا ہے سے متعلق تھا اور ادھر سب دلایل دے رہے ہیں امام مھدی کے ظہور کے ابتسامہ۔۔

میرا سوال تھا "اگر یے صحابی کے قول سے ثابت ہے تو اس سے یے مطلب نکلتا ہے کے امام مہدی خراساں میں ہوں گے جبکے احادیث کے مطابق تو وہ مدینہ میں ہوں گے وضاحت فرمایں؟
جزاک اللہ خیر"

اب امید ہے سب اخوان اسی کے متعلق بات کریں گے۔

ویسے سب اخوان کی معلومات کے لیے عرض ہے کے شیخ رفیق طاہر صاحب کا کہنا ہے خراساں سے مطعلق احادیث کے متعلق

"یہ روایت صرف ضیعف نہیں بلکہ شدید ضعیف ہے
اور نہ تو یہ مرفوعا ثابت ہے اور نہ ہی موقوفا ۔ "

اور جب میں نے وضآحت مانگی کے "جزاک اللہ خیر شیخ کیا موقوفن خراساں سے متعلق راوایات ثابت ہین؟"

تو ان کا کہنا تھا

"یعنی موقوف روایت بھی ثابت نہیں ۔ "

جب میں نے پوچھا کے

"اس موقوف روایت میں کیا نقص ہے مہربانی کر کے بتا دیں کیون کے شیخ زبیر علی زئ حفظہ اللہ نے موقوف روایت کو ثابت کہا ہے؟
"

تو جواب ملا

"یا سلام...!
یہ موقوف روایت معلول ہے اور اسکی علت یحیى بن أبی طالب اور ابونصر الخفاف عبد الوہاب بن عطاء کے گرد گھومتی ہے ۔
تفصیلات بعد میں ان شاء اللہ۔"

اور ابھی تک میں تفصیلات کا انتظار کر رہا ہوں۔

اس لیے میری باقی علماء جیسے شیخ کفایت اللہ وغیرہ سے درخواست ہے کے اس پر روشنی ڈالیں۔

جزاک اللہ خیر
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام و علیکم -

مہدی سے متعلق روایات میں میں ابھی تک اضطرابی کفیت میں ہوں - اگچہ اکثریت کے نزدیک مہدی سے متعلق روایات متواتر اور صحیح ہیں- لیکن جہنوں نے اس کو رد کیا ہیں انھوں نے بھی یہی دعوا کیا ہے کہ ہم نے روایات مہدی کو اصول حدیث یعنی "اسماء رجال " کی روشنی میں ہی اس کو رد کیا ہے - بلکہ کاندھلوی صاحب نے تو ان تمام راویوں پر تحقیق کی ہے جو مہدی کی روایات میں موجود رہے ہیں - اس سلسلے میں کاندھلوی نے امام ذھبی رحمللہ کی کتاب "میزان الاعتدال" کا بھی ریفرنس دیا ہے جس میں راویوں کے حالات سے متعلق مکمل معلومات موجود ہیں - اس کے علاوہ ابن خلدون کا حوالہ بھی پیش کیا ہیں جنھوں نے اپنے مقدمہ خلدون جلد ٢ میں امام مہدی کی آمد سے متعلق روایات کو مضو ع قرار دیا ہے -

تاریخی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو مہدی کی روایات کافی مشکوک نظر آ تی ہیں -ان روایات کو بلخصوص رافضیوں نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بڑی چالاکی سے استمال کیا -

میرا سوال ہے کہ اگر کچھ محدثین کے نزدیک ایک روایت اسماء رجال کے اصول کے تحت صحیح ہو اور کچھ کے نزدیک اسماء رجال کے تحت موضو ع ہو (چاہے روایت متواتر ہو یا خبر واحد ) تو اس صورت میں اس روایت کی قبولیت کا کیا معیار ہونا چاہیے ؟؟؟

بھائیوں سے رہنمائی کی درخواست ہے -
وسلام -
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
اسلام و علیکم -

مہدی سے متعلق روایات میں میں ابھی تک اضطرابی کفیت میں ہوں - اگچہ اکثریت کے نزدیک مہدی سے متعلق روایات متواتر اور صحیح ہیں- لیکن جہنوں نے اس کو رد کیا ہیں انھوں نے بھی یہی دعوا کیا ہے کہ ہم نے روایات مہدی کو اصول حدیث یعنی "اسماء رجال " کی روشنی میں ہی اس کو رد کیا ہے - بلکہ کاندھلوی صاحب نے تو ان تمام راویوں پر تحقیق کی ہے جو مہدی کی روایات میں موجود رہے ہیں - اس سلسلے میں کاندھلوی نے امام ذھبی رحمللہ کی کتاب "میزان الاعتدال" کا بھی ریفرنس دیا ہے جس میں راویوں کے حالات سے متعلق مکمل معلومات موجود ہیں - اس کے علاوہ ابن خلدون کا حوالہ بھی پیش کیا ہیں جنھوں نے اپنے مقدمہ خلدون جلد ٢ میں امام مہدی کی آمد سے متعلق روایات کو مضو ع قرار دیا ہے -

تاریخی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو مہدی کی روایات کافی مشکوک نظر آ تی ہیں -ان روایات کو بلخصوص رافضیوں نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بڑی چالاکی سے استمال کیا -

میرا سوال ہے کہ اگر کچھ محدثین کے نزدیک ایک روایت اسماء رجال کے اصول کے تحت صحیح ہو اور کچھ کے نزدیک اسماء رجال کے تحت موضو ع ہو (چاہے روایت متواتر ہو یا خبر واحد ) تو اس صورت میں اس روایت کی قبولیت کا کیا معیار ہونا چاہیے ؟؟؟

بھائیوں سے رہنمائی کی درخواست ہے -
وسلام -
میر ا سوال خراساں سے جنھڈوں کے نکلنے کی احادیث جن میں امام مھدی کا خراساں میں ہونا پتا چلتا ہے سے متعلق تھا اور ادھر سب دلایل دے رہے ہیں امام مھدی کے ظہور کے ابتسامہ۔۔

میرا سوال تھا "اگر یے صحابی کے قول سے ثابت ہے تو اس سے یے مطلب نکلتا ہے کے امام مہدی خراساں میں ہوں گے جبکے احادیث کے مطابق تو وہ مدینہ میں ہوں گے وضاحت فرمایں؟
جزاک اللہ خیر"

اب امید ہے سب اخوان اسی کے متعلق بات کریں گے۔

ویسے سب اخوان کی معلومات کے لیے عرض ہے کے شیخ رفیق طاہر صاحب کا کہنا ہے خراساں سے مطعلق احادیث کے متعلق

"یہ روایت صرف ضیعف نہیں بلکہ شدید ضعیف ہے
اور نہ تو یہ مرفوعا ثابت ہے اور نہ ہی موقوفا ۔ "

اور جب میں نے وضآحت مانگی کے "جزاک اللہ خیر شیخ کیا موقوفن خراساں سے متعلق راوایات ثابت ہین؟"

تو ان کا کہنا تھا

"یعنی موقوف روایت بھی ثابت نہیں ۔ "

جب میں نے پوچھا کے

"اس موقوف روایت میں کیا نقص ہے مہربانی کر کے بتا دیں کیون کے شیخ زبیر علی زئ حفظہ اللہ نے موقوف روایت کو ثابت کہا ہے؟
"

تو جواب ملا

"یا سلام...!
یہ موقوف روایت معلول ہے اور اسکی علت یحیى بن أبی طالب اور ابونصر الخفاف عبد الوہاب بن عطاء کے گرد گھومتی ہے ۔
تفصیلات بعد میں ان شاء اللہ۔"

اور ابھی تک میں تفصیلات کا انتظار کر رہا ہوں۔

اس لیے میری باقی علماء جیسے شیخ کفایت اللہ وغیرہ سے درخواست ہے کے اس پر روشنی ڈالیں۔

جزاک اللہ خیر
يحيى بن أبي طالب

جعفر بن عبد الله بن الزبرقان , الإمام المحدث العالم، أبو بكر , البغدادي , أخو العباس والفضل .

مولده سنة اثنتين وثمانين ومائة.

سمع علي بن عاصم , وأبا بدر شجاع بن الوليد , ويزيد بن هارون , ومعروفا الزاهد , وعبد الوهاب بن عطاء , وأبا داود الطيالسي وزيد بن الحباب , وطبقتهم .

حدث عنه: أبو بكر بن أبي الدنيا , وابن صاعد , وأبو جعفر بن البختري , وعثمان بن السماك , وأبو سهل القطان , وأبو بكر النجاد , وعبد الله بن إسحاق الخراساني , وخلق سواهم .

قال أبو حاتم : محلُّه الصدق .

وقال البرقاني : أمرني الدارقطني أن أخرج ليحيى بن أبي طالب في الصحيح .

وأما أبو أحمد الحاكم , فقال : ليس بالمتين .

وقال موسى بن هارون : أشهد عليه أنه يكذب -يريد في كلامه لا في الرواية- نسأل الله لسانا صادقا . وهو موالي بني هاشم .

يقع عواليه لي ولأولادي.

توفي في شَوَّال سنة خمس وسبعين ومائتين .

عبد الوهاب بن عطاء الخفاف ابو نصر العجلي مولاهم البصري سكن بغداد


(عخ م د ت س ق ) : عبد الوهاب بن عطاء الخفاف ، أبو نصر العجلى ، مولاهم ،
البصرى ، سكن بغداد . اهـ .
و قال المزى :
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سمعت أبى يقول : كان الخفاف يقرأ عند سعيد
التفسير . قال : فكان عبد الله بن سلمة ـ يعنى الأفطس ـ يقول : يا عبد الوهاب
طرب طرب ! ! قال أبى : كان يحيى بن سعيد حسن الرأى فيه ، و كان يعرفه معرفة قديمة .
و قال أبو بكر المروذى : قلت لأبى عبد الله : عبد الوهاب ثقة ؟ قال : تدرى ما تقول ، إنما الثقة يحيى القطان .
و قال أبو بكر الأثرم ، عن أحمد بن حنبل : كان عالما بسعيد .
و قال أبو عبيد الآجرى : سئل أبو داود عن السهمى و الخفاف فى حديث ابن
أبى عروبة ، فقال : عبد الوهاب أقدم . فقيل له : عبد الوهاب سمع فى الاختلاط ؟
فقال : من قال هذا ؟ سمعت أحمد بن حنبل سئل عن عبد الوهاب فى سعيد بن أبى عروبة فقال : عبد الوهاب أقدم .
قال يحيى بن أبى طالب : قال أحمد بن حنبل : كان عبد الوهاب بن عطاء من أعلم
الناس بحديث سعيد بن أبى عروبة .
قال يحيى بن أبى طالب : و بلغنا أن عبد الوهاب كان مستملى سعيد ، و كان
عبد الوهاب أكثر الناس بكاء ، و ما كان يقوم من مجلسه حتى يبكى .
و قال عثمان بن سعيد الدارمى و أبو بكر بن أبى خيثمة ، عن يحيى بن معين : ليس به بأس .
و قال ابن الغلابى ، عن يحيى بن معين : يكتب حديثه .
و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : ثقة .
و قال محمد بن سعد : لزم سعيد بن أبى عروبة ، و عرف بصحبته ، و كتب كتبه ،
و كان كثير الحديث معروفا ، ثم قدم بغداد فنزلها و أوطنها ، و لزم السوق بالكرخ
و لم يزل بها حتى مات .
و قال زكريا بن يحيى الساجى : صدوق ليس بالقوى عندهم ، خرج إلى بغداد من البصرة
فكتبوا عنه فكتب إلى أخيه : إنى قد حدثت ببغداد فصدقونى ، و أنا أحمد الله على
ذلك .
و قال البخارى : ليس بالقوى عندهم ، و هو يحتمل .
و قال النسائى : ليس بالقوى .
و قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سألت أبى عنه ؟ فقال : يكتب حديثه ، محله الصدق
. قلت : هو أحب إليك ، أو أبو زيد النحوى فى ابن أبى عروبة ؟ فقال : عبد الوهاب ، و ليس عندهم بقوى الحديث .
و قال سعيد بن عمرو البرذعى : قيل لأبى زرعة و أنا شاهد : فالخفاف ؟ قال : هو
أصلح منه قليلا ـ يعنى : من على بن عاصم ـ .
و قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سئل أبو زرعة عنه فقال : روى عن ثور بن يزيد حديثين ليسا من حديث ثور ، و ذكر عن يحيى بن معين هذين الحديثين ، فقال : لم
يذكر فيهما الخبر .
و قال صالح بن محمد الأسدى : أنكروا على الخفاف حديثا رواه لثور بن يزيد ، عن
مكحول ، عن كريب ، عن ابن عباس ، حديثا فى فضل العباس ، و ما أنكروا عليه غيره
، فكان يحيى بن معين يقول : هذا موضوع و عبد الوهاب لم يقل فيه " حدثنا ثور "
و لعله دلس فيه ، و هو ثقة .
و قد وقع لنا هذا الحديث بعلو .
أخبرنا أبو العز الشيبانى ، قال : أخبرنا أبو اليمن الكندى ، قال : أخبرنا
أبو منصور القزاز ، قال : أخبرنا أبو بكر الحافظ ، قال : أخبرنا أبو سعيد محمد
ابن موسى الصيرفى ، قال : حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم ، قال : حدثنا
يحيى بن جعفر بن أبى طالب ، قال : حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، عن ثور بن يزيد
عن مكحول ، عن كريب مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : قال رسول الله
W : إذا كانت غداة الاثنين فائتنى أنت و ولدك . قال : فغدا
و غدونا معه فألبسنا كساءه ، ثم قال : اللهم اغفر للعباس و لولده مغفرة ظاهرة
باطنة لا تغادر ذنبا ، اللهم اخلفه فى ولده .
رواه الترمذى عن إبراهيم بن سعيد الجوهرى ، عن عبد الوهاب ، فوقع لنا بدلا عاليا ، و قال : حسن غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه .
قال خليفة بن خياط : مات بعد المئتين .
و قال يحيى بن أبى طالب : سمعنا منه سنة ثمان و تسعين و مئة إلى سنة أربع
و مئتين ، ثم مات فى سنة أربع و مئتين فى آخرها .
و قال عبد الباقى بن قانع : مات سنة أربع و مئتين ، و قيل : سنة ست و مئتين .
روى له البخارى فى كتاب " أفعال العباد " ، و الباقون .
و روى البخارى فى كتاب اللباس من " صحيحه " عن محمد بن بشار ، عن عبد الوهاب ،
عن عبيد الله بن عمر ، عن حبيب ، عن حفص بن عاصم ، عن أبى هريرة فى النهى عن
اشتمال الصماء ، و الملامسة ، و المنابذة . هكذا وقع فى عامة الأصول
" عبد الوهاب " غير منسوب ، و وقع فى نسخة مكتوبة ، عن أبى أحمد محمد بن يوسف ابن مكى الجرجانى ، عن الفربرى ، عن البخارى : " عبد الوهاب بن عطاء " و فى ذلك نظر فإن عبد الوهاب بن عطاء لا تعرف له رواية عن عبيد الله بن عمر ، و إنما
المعروف روايته عن أخيه عبد الله بن عمر ، و لم نجد أحدا ذكره فى أسماء الرجال
الذين روى لهم البخارى فى " صحيحه " ، فالله أعلم . اهـ .
===============
E6 / 452 :
قال ابن سعد : كان صدوقا إن شاء الله تعالى .
و قال ابن شاهين فى " الثقات " : قال عثمان بن أبى شيبة : عبد الوهاب بن عطاء
ليس بكذاب ، و لكن ليس هو ممن يتكل عليه .
و ذكره ابن حبان فى " الثقات " ، و قال : مات ببغداد سنة أربع و مئتين فى
المحرم .
و قال الدارقطنى : ثقة .
و قال الميمونى ، عن أحمد بن حنبل : ضعيف الحديث .
و قال البخارى : يكتب حديثه . قيل له : يحتج به ؟ قال : أرجو ، إلا أنه كان
يدلس عن ثور و أقوام أحاديث مناكير .
و قال النسائى : ليس به بأس .
و كذا قال ابن عدى .
و قال الحسن بن سفيان : ثقة .
و قال البزار : ليس بقوى ، و قد احتمل أهل العلم حديثه . اهـ .
===============
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اردو میں اس موضوع پر ایک کتاب ہے:ظہور مہدی؛ایک اٹل حقیقت مصنف:شیخ محمد منیر صاحب قمر بہت اچھی کتاب ہے۔ محمود عباسی ناصبی تھے اس لیے ان کی کتابوں پر اعتماد مناسب نہیں۔
غالبا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے "یہ مت دیکھو کہ کون که رہا ہے- بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا که رہا ہے "

محمود احمد عباسی ناصبی تھے یا نہیں یہ تو الله بہتر جانتا ہے لیکن انہوں نے مہدی کی باطل روایات کو مضبوط تاریخی دلائل سے غلط ثابت کیا ہے - جن میں اسما ء رجال کا علم بھی شامل ہے-پہلے دور کے تمام محدثین بھی اس علم کی بنیاد پرمختلف روایات کو پرکھتے تھے -

ابن خلدون نے اپنے مقدمہ خلدون جلد دوم میں مہدی سے متعلق تمام روایات پر بحث کی ہے اور ان کو ضعیف قرار دیا ہے - اب ہم کیا یہ کہیں گے کہ ابن خلدون ناصبی تھے؟؟؟ مشہور مورخ ابن جریر طبری شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن اکثر محدثین و مجتہدین ان کی اکثر روایات پر اعتماد کرتے ہیں-
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
غالبا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے "یہ مت دیکھو کہ کون که رہا ہے- بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا که رہا ہے "

محمود احمد عباسی ناصبی تھے یا نہیں یہ تو الله بہتر جانتا ہے لیکن انہوں نے مہدی کی باطل روایات کو مضبوط تاریخی دلائل سے غلط ثابت کیا ہے - جن میں اسما ء رجال کا علم بھی شامل ہے-پہلے دور کے تمام محدثین بھی اس علم کی بنیاد پرمختلف روایات کو پرکھتے تھے -

ابن خلدون نے اپنے مقدمہ خلدون جلد دوم میں مہدی سے متعلق تمام روایات پر بحث کی ہے اور ان کو ضعیف قرار دیا ہے - اب ہم کیا یہ کہیں گے کہ ابن خلدون ناصبی تھے؟؟؟ مشہور مورخ ابن جریر طبری شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن اکثر محدثین و مجتہدین ان کی اکثر روایات پر اعتماد کرتے ہیں-
یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور حضرت علی ہی کا ایک قول ہے کہ حق بات سے باطل استدلال کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ علماے حق کے مقابلے میں ایک بدعتی کا قول جو ہو بھی بدعت پر مبنی ،اسے اپنا لینا کہاں کی دانش مندی ہے؟؟بدعتی کی روایت کی روایت کے مقبول ہونے کی لازمی شرط یہ ہے کہ اس سے بدعت کی تائید نہ ہوتی ہو۔
رہا ابن خلدون کا قول تو وہ اصلا ایک مورخ اور ماہر سماجیات تھا، علم حدیث میں اس کا قول حجت نہیں؛اس نکتے کی وضاحت اسی کتاب میں ملے گی جس کا میں نے حوالہ دیا ہے؛کاش آپ اس کے مطالعے کی زحمت گوارا فرما لیں!
 
Top